Saturday 10 December 2011

compelete justice

مکہ مسجد کے بے قصور مسلم ملزمین کی رِہائی کے بعد انہیں معاوضہ بھی ملا.....
مگر انصاف ہنوز کوسوں دور ہے۔ حصول انصاف کیلئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

گزشتہ دنوں مکہ مسجد دھماکے کے ملزمین کی رہائی کے بعد حکومت نے ہرجانے  کی ادائیگی کااعلان کیا۔ اسے ایک مستحسن قدم تصور کرتے ہوئے اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔مکمل انصاف تو اس وقت ہوگا جب ان تمام پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملے گی جو اِن کی زندگیوں سے کھلواڑ کے مرتکب ہیں ، دوم ان کی بہتر باز آبادکاری ہو جومحض الزام کی وجہ سے اپنا بہت کچھ گنوانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
قطب الدین شاہد
اپنے زمانے کے مشہور انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ ’’رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘..... ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بہت سے لوگوں کی رائے کچھ اسی قسم کی ہے۔ ایسے لوگوں  کا خیال ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت  آزادی کے بعد سے ہی  مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیا جانے لگا ہے،انہیں  ایک ایسی تاریکی میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، ان کی ترقی کے راستے مسددو کردیئے گئے ہیں اور اگر اس کے باوجود بھی وہ کہیں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو فساداور دھماکوں کے ذریعہ ان کے حوصلے توڑے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے........ یقیناً اس میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے تو حوصلہ ملتا ہے۔داناکہتے بھی ہیں کہ صبح کا جنم رات ہی کے بطن سے ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے خوف زدہ ہوئے بغیر صبح کی امید اور اس کی تلاش میں جدوجہد جاری رکھی جائے۔ خود مخدوم نے بھی  اس کا اعتراف کیا ہے:
 رات کے ماتھے پر آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
     بلا شبہ ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بم دھماکوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس میں  زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔فسادات میں لُٹتے پِٹتے بھی مسلمان ہی   ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی انہیں کو جھیلنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح بم دھماکوں میں جانی و مالی تباہی کے بعد الزام بھی انہیں کے سر آتا ہے۔ میرٹھ ، ملیانہ، بھاگلپور، ممبئی، بھیونڈی اور گجرات کے فسادات کے بعد مالیگاؤں، مکہ مسجد،اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس   اور جامع  مسجد دہلی کے  دھماکےاس کی واضح مثالیں ہیں۔دراصل ان حربوں کے ذریعہ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کے پاس اندھیروں کے سواکچھ بھی نہیں ہے...... لیکن  وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ مسلمان  ہی ہیں جوکشتیاں جلا کر آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں۔
    گزشتہ دنوں اس کا ایک اچھا نمونہ دیکھنے میں آیا جب آندھرا پردیش حکومت مکہ مسجد دھماکے کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کو نہ صرف رِہا کرانے پر مجبور ہوئی بلکہ اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے اس نے گرفتار شدگان کو ہرجانہ بھی ادا کرنے کااعلان کیا۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ مکمل انصاف تو نہیں ہے لیکن یہ ایک اچھی کوشش  ضرورہے جس کاخیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اسی کے ساتھ ہمیں مکمل انصاف کے سمت جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہئے۔قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی طاقت آزمائی کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف معاملات کے تحت مسلم نوجوان سنگین جرائم کے نام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ دراصل ان پر قانونی شکنجہ اتنا مضبوط ہوتا ہے اور الزامات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ جلد ان کی رہائی کے اسباب پیدا نہیں ہوپاتےکیونکہ معاملے کوعدالت تک جلد پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ، اس کے باوجود اگرکسی طرح معاملہ عدالت تک پہنچا  اور ان کے حق میں معاملہ فیصل ہوا تو حکومت فوراً ہی اعلیٰ عدالت کا رخ اختیارکرلیتی ہے۔مختلف معاملات میں مسلم نوجوانوں کو کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حیدرآباد حکومت کے فیصلے کی ستائش کی جانی چاہئے، جس نے نہ صرف یہ کہ ذیلی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا بلکہ اقلیتی کمیشن کی ایک سفارش کو قبول کرتے ہوئے ان تمام نوجوانوں کو معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔اس لحاظ سے اسے ایک مستحسن قدم کہا جاسکتا ہے کہ جہاں کچھ نہیں ہورہا ہے، وہاں یہ  ایک اچھی روایت  ہے..... لیکن جیسا کہ بالائی سطو ر میں کہا گیا ہے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے والوں کو مناسب سزا دی جائے اور ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کیلئے باعزت زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
    حکومت کے سامنے بڑی شدت سے ہمیں یہ بات گوش گزار کرنی ہو گی کہ چند ہزار یا چند لاکھ روپوں کی ادائیگی ہی ان کا ہرجانہ نہیں ہے بلکہ ان کی بازآبادکاری ہونی چاہئے۔اس طرح کے معاملات میں جب کوئی نوجوان ماخوذ ہوتا ہے تو صرف وہ تنہا اس کی سزا نہیں بھگتتا بلکہ اس کی سزا میں اس کے اہل خانہ، اس کا پورا خاندان، اس کے عزیز و اقارب، اس کے گاؤںاور محلے والے بلکہ پورا شہر  ، حتیٰ کہ پوری قوم   شریک ہوتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد پڑگھا، مالیگاؤں اور اعظم گڑھ کو  میڈیا نےکس طرح ’ٹیررسٹ علاقے‘ کے طور پر پروجیکٹ کیا تھا۔ جب کسی نوجوان پر اس طرح کا کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو  نہ صرف اس کی ملازمت جاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کی شادی خطرے میں پڑجاتی ہے،  اس کے بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہوپاتا، والدین کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات دانے دانے کو محتاجی کی نوبت آجاتی ہے۔ حالانکہ آئین کہتا ہے کہ ملزم کے ساتھ مجرم جیسا رویہ نہ رکھا جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ صرف پولیس اہلکار بلکہ ہمارا سماج بھی ملزم کو مجرم سمجھ بیٹھتا ہے اور اسے سخت سزائیں دینے لگتا ہے۔ خود ہم بھی  ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیںجن پر الزامات تو سنگین ہیں لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔اندر سے کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ ہمدردی  کے اظہار کی خواہش  ہوتی ہے لیکن حکومت اور پولیس کے خوف سے ایسا نہیں کرپاتے اور اس طرح ان نوجوانوں کو ناکردہ گناہوںسے سزا ہم بھی دیتے ہیں۔
    انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور یہ ہرجانہ حکومت ادا کرے، وہ پولیس اہلکار ادا کریں جنہوں نے بلا وجہ انہیں مجرم بنا کر پیش کیا، وہ میڈیا ادا کرے جس نے رائی کو پربت بنا کران کی شبیہ خراب کی، سماج ادا کرے جس نے اسے یکہ و تنہا کر چھوڑا اور ہم سب ادا کریں جنہوں نے اپنے سماجی فریضے میں کوتاہی برتی۔   اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے ۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے۔ اول تو یہ کہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دلائے ..... ایسی سزا کہ دوبارہ وہ کسی کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہوئے ۱۰۰؍ بار سوچنے پر مجبور ہوں۔دوم یہ کہ ان ملزمین کی مکمل بازآبادکاری کا انتظام کرے، انہیں ملازمت دلائے، ان کے لُٹے پٹے کاروبار کو استحکام بخشنے میں مدد کرے اور سماج میں انہیں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے راستے میں حائل  دشواریوں  کے خاتمے میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔
    یہ تو رہی حکومت کی ذمہ داری۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ حکومت اس تعلق سے کیا کررہی ہے؟ اس کا تعاقب جاری رکھیں اوراسے مجبور کریںکہ وہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور  مظلوموں کو معقول ہرجانہ ادا کرے۔ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہ خاموش بیٹھنے کا حکومت کے نزدیک مطلب ہوگا کہ ’اتنے سے بھی کام ہوسکتا ہے‘۔ اور ہمارے سامنے صرف حیدرآباد کا معاملہ پیش نظر نہ ہو بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی   اس طرح کے معاملات پیش آئے ہیں،ان کا بھی احاطہ کیا جانا ضروری ہے۔ فیض احمد فیض  کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے مکمل انصاف کے حصول کیلئے ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
 ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
   چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی






Saturday 26 November 2011

Fake encounter or Political terrorism

جعلی انکاؤنٹر یا  سیاسی دہشت گردی
عشرت جہاں کا قتل کیا گیا،جس کی تصدیق اب عدالت عالیہ نے بھی کردی ہے، مگرافسوس کہ ملک میں قاتلوں کے خلاف وہ ماحول نہیں بن پایا، جیسا کہ بننا چاہئے تھا۔ جعلی انکاؤنٹر جسے سیاسی دہشت گردی کہنا چاہئے، کو اتنا
سنگین نہیں سمجھا جارہا ہے۔ایسا کیوں؟ ذیل کے مضمون میں انہی نکات پرگفتگو کی گئی ہے۔

قطب الدین شاہد
عشر ت جہاں اور اس کے ساتھ دیگر ۳؍ افراد کا انکاؤنٹرنہیں ہوا تھا بلکہ وہ قتل کیے گئے تھے........اب یہ الزام نہیں رہا بلکہ اس کی صداقت پر جہاں خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے وہیں ا س کی توثیق گجرات ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔یہ قتل گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران نے کیا تھاجس میں کئی سرکاری اداروں حتیٰ کہ ریاستی حکومت کی مدد کا بھی پور اپورا مکان ہے۔ان قاتلوںکو اگر ان کا تعاون حاصل نہ ہوتاتو اس کیس کے حقائق کی یوں پردہ پوشی نہ کی جاتی اور ذیلی عدالت کے ذریعہ اسے جعلی انکاؤنٹر قرار دیئے جانے کے بعد خاطیوں کو بچانے کیلئے مودی حکومت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرتی۔
    اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ قتل تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاان قاتلو ں اوراس مجرمانہ عمل میں معاونت کرنے والوں کو سزا ملے گی؟اور اگر ملے گی بھی تو کتنوں کو ملے گی اور کب تک ملے گی؟افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میںعدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے کی بازگشت اس طرح نہیں سنائی دی، جس طرح کہ سنائی دینی چاہئے تھی۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے جہاںگزشتہ ۵؍ دنوںتک مختلف موضوعات پر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اس دوران کئی بار واک آؤٹ ہوئے اور کئی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی مگر مودی حکومت  اوراس کے قاتل ٹولوں پر گرفت کی بات کسی نے نہیں کی۔اس تعلق سے کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔سی پی آئی نے فیصلے کے روز مودی حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ ضرور کیا تھامگر اس کی حیثیت محض ایک خانہ پری کی سی تھی۔اس مطالبے میں وہ شدت نہیں تھی جو عام طور پر بایاں محاذ کی کسی اور مانگ میں ہو ا کرتی ہے۔مہنگائی یقینا ایک بڑا موضوع ہے، بدعنوانی بھی وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے، دہشت گردی بھی ملک کیلئے ایک عذاب بنی ہوئی ہے...... یہ سب واقعی سنگین مسائل ہیں لیکن.... ان سب کے باوجود حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کی سنگینی کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ غور کیا جائے تو یہ ان تمام میں سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو سرکاری سرپرستی میں انجام پاتی ہے،بدعنوانی کی وہ قسم ہے جس میں مال ہی نہیں بلکہ جان بھی جاتی ہے،مگر افسوس کی اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا گیا۔اس پر نہ تو میڈیا نے اتنا زور دیا اور نہ ہی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے۔بی جے پی سے تو خیر کسی خیر کی امید ہی نہیں، کانگریس کے منہ سے بھی ظالموں کے خلاف ایک لفظ نہیں نکل سکا۔وہ کانگریس جو خود کو گاندھی، نہرو، آزادا ور امبیڈکرکا جانشین کہلوانا پسند کرتی ہے، انصاف، غیر جانب داری اور شہریوں کی سیکوریٹی کا نہ صرف دعویٰ کرتی ہے بلکہ خود کو اس کا ٹھیکیدار بھی سمجھتی ہے، اس نے بھی پورے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔راہل گاندھی جنہیں کانگریس نوجوان دلوں کی دھڑکن کے طور پر پروجیکٹ کررہی ہے، کو مایاوتی حکومت میں ہزار کیڑے نظر آرہے ہیں، وہ اسے اکھاڑ پھینکنے کا عہد بھی کرتے ہیں لیکن مودی حکومت سے اٹھنے والا تعفن انہیں بے چین نہیںکرتا، لہٰذا وہ اس کے خلاف لب کشائی تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو حالانکہ اس پر گجرات حکوت سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا کہ اس کے ایک شہری کو بلا وجہ کیوں قتل کیا گیا  ؟ مگر چوہان حکومت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔مسلم ووٹوں کی سیاست کرنے والے لالو، ملائم اور مایاوتی جیسے چمپئن بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مودی حکومت اوراس بہانے بی جے پی کی پریشانی کا سبب نہ بنا جائے۔خود کو متوازی حکومت سمجھنے والی ٹیم انّاکی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ضروری اور غیر ضروری ہر مسئلے پر بیان بازی کو ضروری سمجھنے والے انا ہزارے، کیجری و ال اورکرن بیدی کو جعلی انکاؤنٹر کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔جسیکا لال، نتیش کٹارا اوراروشی مرڈر کیس میں دلچسپی لینے اور ان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے تحریک چلانے والے طلبہ اور غیرسرکاری اداروںکو بھی عشرت جہاں کے قاتلوں پر غصہ نہیں آیا۔ ایساکیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مظلوم کا تعلق عوام سے  ہے جبکہ قاتلوں کا خواص سے..... اور ان میںسے بیشتر خواص کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس قتل کے خلاف عوام کی جانب سے غم و غصہ کااظہار نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ عوام کےرجحان ساز دراصل یہی خواص ہیں اور یہ معاملہ چونکہ خواص کے خلاف ہے، لہٰذااس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔یہاں یہ کہنا غلط ہوگا کہ عشرت جہاں ایک مسلمان ہے، اسلئے اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ دراصل ہمارے سماج میں ابھی وہ بیداری آئی ہی نہیں کہ ہم حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کے خلاف برسرِا قتدار طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
    ایسے میں سابق داخلہ سکریٹری کا بیان مزید افسوسناک رہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے عشرت کی بے گناہی نہیں ثابت ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہہ کر آخر جی کے پلئی صاحب کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ ایک طرف محض الزام ہے جبکہ دوسری طرف جرم ثابت ہورہا ہے۔عشرت جہاں کا تعلق دہشت گردوںسے تھا، یہ صرف ایک الزام ہے جبکہ عشرت جہاں کو منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا گیا اور اس قتل کے شواہد مٹائے گئے، یہ ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے اس اعلیٰ ترین سابق عہدیدار کی جانب سے مجرم پر گرفت کی بجائے مظلوم کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کیوں جارہی ہے؟کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ مودی کا شمار خواص میں ہوتا ہے، لہٰذا عوام سے ان کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ مرکزی وزیر شرد پوار کو ایک جنونی نے ایک طمانچہ کیا رسید کردیا،  ملک گیر ہنگامہ برپا ہوگیااور پورا پارلیمنٹ متحدہوگیا....دوسری جانب سرکاری دہشت گردی کا شکار ایک عام شخص ہوا تو خواص کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مظلوم سے ہمدردی دکھانے میں اگر کوئی ’مسئلہ‘ درپیش ہے توظالم سے نمٹنے میں انہیں کوئی دِقت نہیں ہونی چاہئے... ہم عوام کو اسی پرتسلی ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آج خواص کے تئیں عوام میں زبردست نفرت پائی جارہی ہے، اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو برتر اورعوام کو کمترسمجھتے ہیں۔ عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے ہوں یا عوام کی خدمت پر مامور سرکاری کارندے، وہ عوام کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کے مسائل کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دراصل امریکہ کی طرح یہاں بھی ایک فیصد خواص کی جانب سے باقی ۹۹؍ فیصد کے تئیں بہت زیادہ تعصب پایا جارہا ہے۔ 
    جی کے پلئی جی کی اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے عشرت کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کردیا جائے؟ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سرکاری عہدیداران اورافسران  پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، ۱۰؍ سے ۱۵؍ فیصد پرفوجداری معاملات بھی درج ہیں۔کرپشن اور کریمنل الزامات کے دائرے میں عوامی نمائندوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کئی وزیر، عوامی نمائندے اوراعلیٰ سرکاری افسران تہاڑ جیل کی ’زینت‘ بنے ہوئے ہیں۔ پلئی صاحب بتائیں کہ ان کے اصول کے مطابق ان سب کی سزا ئیںکیا ہونی چاہئیں؟
    وہ تو بہت اچھا ہوا کہ عدالت عالیہ نے بروقت پلئی صاحب کی گوشمالی کردی، ورنہ خاطیوں  کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کیلئے پردے کے پیچھے سے اور بھی کئی چہرےنمودار ہوجاتے، اس صورت میں جہاں ایک فیصد کی سرکشی میں اضافہ ہوتاوہیں ۹۹؍ فیصد کے حوصلے  مزید پست ہوجاتے۔
    حالات یقیناً خراب ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ مایوس ہوا جائے۔  ایک جانب جہاں ایسے عناصر ہیں جو عوام کو کوڑے دان کا حصہ سمجھتے ہیں، وہیں ایسے لوگ اورایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انہیں انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ کم از کم ہندوستان کے عدالتی نظام سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں۔ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم عدالت پر پورا بھروسہ رکھیں اوراس سلسلے میں فالو اَپ جاری رکھیں۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئےعوام کو بیدار رہنا ضروری ہے۔ آج نہیں تو کل یہ تمام فرعون ضرور بہ ضرور اپنے انجام کو پہنچیںگے۔ n

Monday 14 November 2011

sardar pura qatl e aam ka faisla......

سردارپورہ قتل عام کا فیصلہ ،خوشگوار ہوا کاایک جھونکا ہے
۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ  سامنے آیا ہے، اسے  گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔
قطب الدین شاہد
سرِ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی کسی سے ٹکرا جائے اور اُس کو بنیاد کر اُسے ایک طمانچہ رسید کردے،تو یقینا اُس شخص کو بہت برا لگے گا اور اُسے شدید تکلیف پہنچے گی۔ ممکن ہے جوابی حملہ کرتے ہوئے وہ بھی اسے ایک تھپڑ جڑ دے اوراس طرح اپنے قلب کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔لیکن اسے اس وقت زیادہ اچھا لگے گا اور دل کو زیادہ قرار آئے گا جب وہ خود کچھ نہ کہے بلکہ اس کی حمایت میں کچھ دوسرے افراد سامنے آئیں اور ظالم کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے مظلوم کی دلجوئی کریں۔ آخرالذکر صورتحال کسی بھی صحت مند سماج کیلئے بہت ضروری ہے۔
    گودھراسانحہ کو بنیاد بنا کر پورے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ یقینا بہت برا تھا، ہولناک تھا، سفاکی تھی،سماج کی صحت کو خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش تھی، لہٰذا اس کی مذمت کی جانی چاہئے ، لیکن اسی کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی۔ اس کے بعد جس پیمانے پربرادران وطن کی جانب سے مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا رویہ اختیار کیا گیا، ان کی دلجوئی کی گئی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جس طرح کی ہمہ جہت کوششیں ہوئیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ گرچہ پوری طرح سے صحت مند نہیں لیکن بہت زیادہ بیمار بھی نہیں ہے کہ اس کا علاج نہ ہوسکے۔
    گودھر ا سانحہ کے تین دن بعد یکم مارچ۲۰۰۲ء کو سردار پورہ میں شیطانوں کا ایک رقص برہنہ ہوا تھا، جس میں ۲۰؍ خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت کل ۳۳؍مسلمانوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔یہ تمام لوگ اس علاقے کے واحد پکے مکان میں محصور تھے، جسے سفاکوں نے آگ کے حوالے کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ جنون اور دہشت گردی کی بدترین نشانی ہے ،جس کاواحد علاج اُن تمام لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے جن لوگوں کا اس قابل نفریں معاملے میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار رہا ہے۔
    گزشتہ دنوں اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ایک خصوصی عدالت نے سردار پورہ قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوں کوعمر قید کی سزا سنائی ہے۔  حالانکہ یہ سزاان کے جرم کی مناسبت سے بہت کم ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے سے مظلومین کی ہمت بندھی ہے، ان کی اشک سوئی ہوئی ہے، انہیں قلبی سکون پہنچا ہے اور ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔اس فیصلے کے بعد برادران وطن کی جانب سے جس طرح کے رد عمل کا اظہار ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کاخون ابھی سفید نہیں ہوا ہے یعنی یہ پوری طرح سے لا علاج نہیں ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کہ کسی بھیڑ کے ذریعہ انجام دیئے گئے قتل عام کی کسی واردات میں اتنے سارے لوگوں کو بیک وقت مجرم ٹھہرایا گیا ہو۔ اس سے قبل بھاگلپورہ فساد کیلئے ایک ساتھ ۱۴؍ لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا تھا۔
    مہسانہ کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج ایس سی سریواستو کے اس بے نظیر فیصلے کے بعد جس طرح کے ردعمل سامنے آئے، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ عوام و خواص نے اس پر کس طرح کے رد عمل کااظہار کیا؟ اور مظلومین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ظالموںکیلئے سنائی گئی اس سزا پر کس طرح کی خوشیوں کااظہار ہوا؟ اس کی ایک چھوٹی سی مثال فیصلے کے دوسرے دن ملک کے مؤقر اور سب سے زیادہ قابل اعتماد انگریزی روزنامے ’دی ہندو ‘ کے اداریے پر ہونے والے تبصرے ہیں، جسے اس کی آن لائن اشاعت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے چنندہ اقتباسات کچھ اس طرح ہیں۔

nکبھی کچھ نہ ہونے سے تھوڑی تاخیر بہتر ہے۔مبارکباد کے مستحق ہیں ایس آئی ٹی کے اراکین جنہوں نے گنہ گاروں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کاانتظام کیا۔ 
   منجو پولیوادھی
n وہ دن گئے جب عدالتیں طاقتور اور امرا ء کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہوا کرتی تھیں۔یہ فیصلہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔   
                                                            سمیت کمار رائے
n    اکثریت کی جانب سے اقلیت کیلئے اٹھائے گئے اس گھناونی واردات کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔مستقبل کیلئے یہ ایک مثال بننی چاہئے اور یہ یقینی بنائی جانی چاہئے کہ جو بھی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اسے اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ 
                                           راجیش ایچ
nاب ہرکسی کو یہ امید ہوچلی ہے کہ بہت جلدامیکس کیوری کی رپورٹ کے ساتھ ایس آئی ٹی اپنی فائنل رپورٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کردے گی جس کی بنیاد پر نریندر مودی سمیت ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کا راستہ ہموار ہوگا جو کسی نہ کسی طرح اس سفاکی میں ساتھ رہے ہیں۔ 
                این تھروناوکاراسو
nاس فیصلے نے متاثرین کوکافی حوصلہ فراہم کیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے سیاست دانوں کے سطحی مفادات کی تکمیل میںدونوںفرقوں کے عام لوگ استعمال ہوتے رہے ہیں۔

                                                                            آر رویندر ناتھ
nتاریخی اور لائق خیرمقدم فیصلہ۔ 
                                               گگن گرگ
nیہ امید بندھی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ۔ 
                       ومل
nہندوستانی عدلیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ 
           ٹی پی نٹراجن
nحالانکہ فیصلہ تاخیر سے آیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارا قانونی نظام مؤثر ہے اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 
                                                                                           امول سکپال
nاس فیصلے نے ’قانون کی حکمرانی‘ والے خیا ل کو استحکام بخشا ہے اور اسے تقویت پہنچائی ہے۔ 
                     ونیت کے سریواستو
nیہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے بہت اچھ ہے جو ملک کے عدالتی نظام میں یقین رکھتے ہیں۔ 
                                                                   رام چندرن پی
      یہ چند اقتباسات ایک مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کے خیالات ہیں جنہیں اس ملک میں ’عام‘ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے یعنی یہ خیالات ان کے دل کی آواز ہیں جن کا اظہار کسی لالچ، مفاد اور دباؤ کے بغیر سامنے آیا ہے ۔ یہ خیالات ثابت کرتے ہیں کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اس کا درد صرف ’ہمارا‘ درد نہیں ہے کہ بلکہ یہ ’ہم سب کا‘ درد ہے۔یہ یقینا ایک بہت اچھی بات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ حلقہ مزید وسیع ہو۔اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس واردات کے متاثرین کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور قانونی جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔شیخ دلاور میاں جنہوںنے اس واردت میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہن کو کھویا ہے اور شیخ غلام علی جن کے خاندان کے ۱۳؍ افراد اس قتل عام کے شکار ہوئے تھے، نے قبول کیا ہے کہ ان تمام گواہوں پر شدید دباؤ ہے، جو انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان کی ہر طرح سے پشت پناہی ہو۔
    ۳۳؍ افراد کے قتل عام کیلئے ۳۱؍لوگوں کیلئے عمر قید کی سزا کافی نہیں ہے۔یقینا یہ تمام زیادہ سخت سزاؤں کے مستحق ہیں لیکن ان حالات میں جبکہ عدالت کو حکومت کی جانب سے تعاون کے بجائے رکاوٹوں کا سامنارہا ہے، یہ فیصلہ قابل ستائش ہے اوراس کیلئے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر کے راگھون اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
    ۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اسے گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔

Monday 26 September 2011

Shaadiyon men khurafat




شادی میں رسم و رواج کے نام پر خرافات و بدعات کا خاتمہ ، وقت کی اہم ضرورت
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود ا پنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
قطب الدین شاہد
شادی ایک ایساسماجی فریضہ ہے جسے مذہبی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے اس کے طریقے متعین کردیئے ہیں،جس کی مناسبت سے اس کے ماننے والے شادی اور اس کے رسوم انجام دیتے ہیں۔ بعض ممالک نے بھی اس کیلئے رہنمایانہ خطوط اور قوانین  وضع کیے ہیں ۔شادی کے رہنمایانہ خطوط اور اس کے طریقے متعین کرنے کے پس پشت  جوواحد وجہ ہے، وہ یہ  کہ اس سماجی فریضہ کی ادائیگی کیلئے کسی کو کوئی دشواری درپیش نہ ہو۔ یوں بھی شادی کے لغوی معنیٰ خوشی کے ہوتے ہیں لہٰذا طریقے وضع کرتے ہوئے  مذاہب و ممالک کے پیش نظر یہی بات رہی  ہےکہ ان کے پیروکاروں اورشہریوں کو اس رسم سے حقیقی خوشی میسر ہو....لیکن  اب یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا موجودہ سماج میں جس طرح کی شادیاں انجام پاتی ہیں، اس سے فریقین کو واقعی خوشی ہوتی ہے؟
    عصر حاضر میں شادی ایک بوجھ بن کر رہ گئی  ہے  وہ خواہ مسلم ہوں، ہندو ہوں، سکھ ، عیسائی یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوں۔ سماج کے خرافاتی رسم و رواج  کے مضبوط شکنجے سے سبھی کراہ رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک اور دیگر مذاہب میں شادی کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ اس پرگفتگو نہ کرتے ہوئے فی الحال ہم صرف برصغیر  بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی بات کریںگے جہاں کے رسم و رواج تقریباً یکساں ہیں۔یہاںرسم و رواج کا شکنجہ اس قدر مضبوط ہے کہ  مذہب کی رٹ لگانے والے حتیٰ کہ مذہب کی روزی روٹی کھانے والے بھی اس سے آزاد نہیں ہوپاتے اور اگر زیادہ سچائی سے کام لیاجائے تو یہ کہ آزاد ہی نہیں ہونا چاہتے۔ ان موقعوں پر جب وہ ان رسوم کا ایک حصہ ہوتے ہیں، اُن سے شادی سے متعلق مذہبی مسئلے پرگفتگو کی جا ئے تو نظریں چرانے یا پھر بات کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ دال میں نمک یا پھر اس سے بھی کم تعداد میں ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ  ہاں یہ غلط ہورہا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم ہیں اور یہ کہ  اسے روکنے کیلئے ہم  نے  اپنے یہاں ہونے والی شادی کے موقع پر ’یہ ‘ کیا تھا۔
    رسم و رواج کے نام پر جاری ان خرافات و بدعات کے خاتمے کیلئےگزشتہ دنوں بھیونڈی میں سرکردہ شخصیتوں کی ایک مشورتی میٹنگ طلب کی گئی تھی،جس میں سابق ریاستی وزیر، رکن اسمبلی،  ائمہ مساجد،قاضی صاحبان، تمام مسالک کے اہم ذمہ داران،ملی، تعلیمی اور سماجی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ دانشوران قوم  اور ڈاکٹروں، انجینئروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔نصیر احمدمومن کے دولت کدے پر منعقد ہ اس میٹنگ میں جس طرح ایک مختصر سی نوٹس پر احباب جمع ہوئے ،اس سےحبس زدہ کمرے میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے جیسی فرحت اور تازگی کا احساس پیدا ہوا۔بہت ساری تجاویز کے ساتھ جب دوسری میٹنگ تک کیلئے اس روز کی مجلس کےملتوی ہونے کااعلان ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ انشاء اللہ آئندہ چند برسوں میں بھیونڈی ملک کے دوسرے علاقوں اور خطوں کیلئے قابل تقلید نمونہ بن کر سامنے آئے گا۔ 
    آئیےدیکھتے ہیں کہ یہ رسم و رواج جو خرافات کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں،کس حد تک ہیں ، کیوں ہیں اور اس کے تدارک کی کوششوں میں ہم ناکام کیوں ہیں؟آج ہمارے سماج میں شادیوں کو اتنامشکل اور مہنگابنا دیا گیا ہے کہ یہ ایک سماجی اورقومی مسئلہ بن گیا ہے اوران تمام مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ جہیز ہے۔ جہیز کی وجہ سے  وطن عزیز کی بہت ساری لڑکیاں  اپنا گھر بنانے  اور بسانے میں ناکام ہیں۔اسے شادی کا ایک لازمی جز بنادیا گیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کا متوسط اور اس سے کمزور طبقہ شادی کے نام سے ہی خوف زدہ  ہوجاتا ہے، اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی کے گھر میں لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو جشن کے بجائے لوگ اسے پُرسے اور تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ جس گھر میں دو چار لڑکیاں ہوتی ہیں، جوں جوں اُن کی عمروں میں اضافہ ہوتا ہے، والدین کے ساتھ دیگر اہل خانہ کی راتوں کی نیند  اوردن کا چین غائب ہوتا جاتا ہے۔
     زمانہ جاہلیت میں عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیے جانے کا رواج تھا  لیکن اس کی وجہ جہیز نہیں تھی بلکہ کسی کو داماد بنانا ذلت تصور کیا جاتاتھا لیکن آج جہیز کی وجہ سے ایک بار پھر اس رسم کا اعادہ کیاجانے لگا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زندہ درگور کیے جانے کی بجائے اب قبل از پیدائش ہی اس بچی کا قتل کردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جہیز کے تدارک کے لیے حکومت ہند نے بھی سخت قوانین مرتب کیے ہیں اور یہاں آباد تمام مذاہب کے لوگ بھی یک زبان ہوکر اسے غلط قرار دیتے ہیں مگر افسوس کہ یہ رسمیں روز بروز ہمارا گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں۔
    برصغیر میں ہونے والی شادیوں پر ہندورسم و رواج کا غلبہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب  ہرگز نہیں کہ ان شادیوں میں انجام دیئے جانے والے رسوم ان کے مذہبی عقیدے ہیں۔ نہیں بلکہ اس کا راست تعلق سماجی حالات سے رہا ہے جسے بعد کی نسلوں نے اچھا برا سمجھے بغیر بعض نے من و عن تو بعض نے معمولی ترمیم کے ساتھ قبول کرلیا ہے۔  اس میں منگنی، بارات، ہلدی مہندی، منہ دکھائی،الوداعی اور نہ جانے کیا کیا رواج ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ ہماری شادیوں میں جہیز کے بعد دوسری سب سے بڑی لعنت بارات اور انہیں کھلائے جانےوالے کھانوں اور پکوانوں کی ہے۔وطن کے بعض گوشوں میں اگر جہیز کے نام پر مطالبہ کا تصور نہیں ہے  یا کم ہے ، تو وہاں بارات ایک بڑا مسئلہ ہے اوراس کی وجہ سے لڑکیوں کے والدین اور سرپرستوںکی حالت خراب رہتی ہے۔شادی میں صورت اور سیرت کو آج ثانوی   بلکہ اس کے بعد کی حیثیت دی جاتی ہے۔ پہلے جہیز پر بات ہوتی ہے اوراس کے بعد بارات کی تعداد اوراس کی خاطر مدارات پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ میزبان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو کس طرح کا کھانا کھلائے اوران کی کس طرح خاطر تواضع کرے؟ اس کیلئے ہم سب اور   وہ تمام لوگ ذمہ دار ہیں جو اس کے خلاف آواز بلند نہیں کررہے ہیں۔
    کہاجاتا ہے کہ بارات کا طریقہ ہم نے ہندوؤں سے اخذ کیا ہے لیکن  یہ بھی ان کا مذہبی طریقہ نہیں ہے بلکہ اس رسم کو انہوں نے راجپوتوں سے مستعار لیا ہے۔ راجپوتوں میں شادی کا تصور یہ تھا کہ جس کو جہاں کوئی لڑکی پسند آجائے، وہ وہاں پر حملہ آور ہوتا تھا اور طاقت کے بل پر اسے اُٹھا لاتا تھا۔یہاں اسی رسم کا احیاکیا گیا ہے۔ اسی لیے دولہے کو گھوڑے پر بٹھایا جاتا ہے اوراس کے ساتھ بارات کی شکل  میں پوری ایک فوج ہوتی ہے ۔شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ ہندوؤں کے بعض طبقوں میں آج بھی جب بارات ان کے دروازے پرپہنچتی ہے تو علامتی طور پر کچھ لوگ  لاٹھی لے کر بارات کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔  ہوتا یہ تھا کہ فاتح فوج اپنے مفتوح کو غلام بنا لیتی تھی ، پھر نہ صرف وہ لوگ اس لڑکی کو اٹھا لاتے تھے بلکہ وہاںدوران قیام ان سے خاطر مدارات کرواتے تھے اور ان سے خدمت بھی لیتے تھے۔تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ ہم نے بھی بارات کو وہیں سے مستعار لیا ہے۔
    بارات میں جانے والے اپنے آپ کو فاتح فوج کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اورمیزبان کی ذرا سی کوتاہی پر نہ صرف اسے برابھلا کہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔
    شادی کے نام پر سماج میں در آئے اس رسم و رواج سے آج سبھی یکساں طورپر پریشان ہیں۔اس اعلیٰ طبقے کو جانے دیجئے جس کے پاس پیسے کی فراوانی ہے اور جن کی تعداد وطن عزیز میں۲؍ فیصد سے زائد نہیں ہے، بقیہ ۹۸؍ فیصد شادی کے نام سے ہی لرز اٹھتے ہیں۔یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ ان رسوم سے صرف لڑکی اوراس کے اہل خانہ پریشان ہوتے ہیں، نہیں بلکہ لڑکے والوں کی پریشانی بھی کم نہیں ہوتی  حتیٰ کہ دعوت کھانے والوں پر بھی شادی میں شرکت ایک بار ہوتا جارہا ہے۔لڑکی کے والدین پر جو بوجھ پڑتا ہے وہ تو ہے ہی، رسوم کے نام پر ہونے والے اخراجات سے لڑکے والوں کی بھی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور اسی طرح دعوت کھانے والوں کو بھی ’لفافے‘ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
     مگر افسوس کی  بات ہے کہ اسے ہرکوئی مسئلہ تسلیم کرتا ہے، اسے لعنت سمجھتا ہے اوراس کا خاتمہ چاہتا ہے مگر جب بات اس کی آتی ہے تو وہ ’خوشی خوشی‘ اس پریشانی کو اپنے سر اوڑھ لینا چاہتا ہے۔ زمین جائداد بیچ کر، یہاں وہاں سے قرض حاصل کرکے دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوتا ہے لیکن رسوم سے علاحدگی اختیار نہیں کرتا۔ انہیں یہ جملہ مارے ڈالتا ہے کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘؟..... کچھ نہیں کرنا چاہتے تو لڑکے والوں کی ’دباؤ‘ سے خود کو گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو  پھر اس  کےخاتمہ کی کس طرح  امید کی جائے؟ یہ تو سگریٹ کا اشتہار ہوگیا کہ ’اسے پینا صحت کے لیے مضر ہے‘  دیکھتے ہوئے بھی لوگ اسے پیتے ہیں اورسماج میں ایک ’ رتبہ‘ حاصل کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد کینسر  کے شکار ہوکر دنیا کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔
    شادی یعنی خوشی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ بالکل۔ لیکن اس کے لیے ہمیں   اس خوشی کے راستے میں حائل رسوم و رواج کا قلع قمع کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سے مراد ہرکسی کی انفرادی کوشش ہونی چاہئے جو بعد میں خود بخود اجتماعی ہوجائے گی۔ کہاجاتا ہے کہ ایمان کے تین درجے ہیں۔ اول یہ ہے کہ براہوتے ہوئے دیکھو تو اسے بزور طاقت روکو، اگریہ ممکن نہ ہوتو زبانی روکو اوراگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل میں برا سمجھو۔ اب ہمیں  خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ہم ایمان کے کس درجے میں ہیں؟ کیا ہم ایمان کے تیسرے درجے میں بھی نہیں ہیں کہ ان خرافات کو دل سے براسمجھ کر خود اس سے دور ہوسکیں؟
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود  اپنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
    اور ایک اہم بات۔ ہم جب بھی کوئی اچھا عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو شیطان ہمیں بہکاتاہے، مختلف تاویلات اوردلیلیں دیتا ہے اور ہمارے برے کاموںکو درست ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم  اپنے عزم کے تئیں کتنے مستقل مزاج ہیں ۔  اس کیلئے اپنا احتساب آج سے ہی کرنا ہوگا،کسی خصوصی موقع کے انتظار کے بغیر،  اور پھر ہم دیکھیں کہ ہم ایمان کے کس درجے  میں ہیں؟

Saturday 20 August 2011

Anna Hazare ko awami himayat kyun mil rahi hai?

انا ہزارے کو عوامی حمایت کیوں مل رہی ہے؟
 انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور خود وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں  کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
قطب الدین شاہد
دیکھتے ہی دیکھتے انا ہزارے ملک کے نئے گاندھی بن گئے ہیں۔ انہیں جو عوامی حمایت مل رہی ہے، وہ غیر معمولی اورغیر متوقع ہے۔اس کا اندازہ نہ تو ان کے حامیوں کو تھا اور نہ ہی مخالفین کو۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا راتوں رات انا ہزارے میں سرخاب کے پر لگ گئے کہ رالے گن سدھی نامی ایک غیر معروف گاؤں میں محدود پیمانے پر فلاحی کام کرنے والے ایک نیم خواندہ شخص کی شہرت و مقبولیت مہاراشٹر کی سرحد پارکرتے ہوئے نہ صرف ملک گیر ہوگئی بلکہ ان کاچرچا بر صغیر ہندوپاک سے ہوتے ہوئے سات سمندر پار برطانیہ اور امریکہ میں بھی ہونے لگا؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں ایک دوسرے سوال پر غور کرنا ہوگا....... وہ یہ کہ انا ہزارے کو جو یہ عوامی حمایت مل رہی ہے ، کیا وہ واقعی انا کی شخصیت کو مل رہی ہے یا ان کی تحریک کو؟ہمیں یقین ہے کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس میں انا ہزارے کی شخصیت کا کچھ خاص دخل نہیں ہے بلکہ اصل کمال ، اس موضوع کا ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے۔ حالانکہ انا ہزارے کو کرشماتی ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے ان کے معتقد رام دیو کا حوالہ دیتے ہوئے  کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف تحریک تو انہوں بھی چھیڑی تھی ، پھر کیا وجہ ہے کہ مقبولیت صرف انا کے حصے میں آئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رام دیو کی تحریک بدعنوانی کے خلاف تھی ہی نہیںبلکہ وہ ایک سیاسی ڈرامہ تھا۔ بہت جلد یہ باتیں عوام کے سامنے آگئی تھیں کہ وہ محض ایک سیاسی مہرے تھے ۔دراصل بدعنوانی کےخلاف انا ہزارے کی تحریک کو کچلنے کیلئے حکومت نے ہی انہیں اس ڈرامے کے لئے آمادہ کیا تھا لیکن رام دیو ایک ساتھ دو کشتیوں کے سفر کا مزہ لینے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس بھی خوش رہے اور آر ایس ایس کا مفاد بھی پورا ہوجائے  یعنی باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ مگر بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آگئی اوراس طرح رام دیو کے ساتھ ساتھ حکومت کی سازش بری طرح ناکام ہوگئی۔اس میں سب سے زیادہ نقصان رام دیو کا ہوا کہ ان کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہوگیا اور وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
    خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں۔ آئیے پھر آتے ہیںا صل موضوع کی طرف۔انڈیا اگینسٹ کرپشن نامی تنظیم بنا کر انا ہزارے جب بدعنوانی کے دیوقامت  بت سے ٹکرائے تھے تو ۹۹؍ فیصد ہندوستانیوں کو محسوس ہوا تھا کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی اور سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہیں اوراس پر فوری روک چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تین ماہ قبل جب اناہزارے نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جنتر منتر پر بھوک ہڑتال شروع کی تھی تو ان کی تعداد بہت قلیل تھی لیکن چونکہ موضوع میں اپیل تھی لہٰذا  ’لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا‘ کے مصداق  دیکھتے ہی دیکھتے وہ تحریک ملک گیر ہوگئی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور مغربی بنگال سے کیرالا تک ان کی حمایت یعنی بدعنوانی کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔اس وقت حکومت نے ’مصلحت‘ کا مظاہرہ کیا اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انا ہزارے ٹیم کی شرائط کو جزوی طورپرتسلیم کرلیا تھامگر اس کے تیور بتارہے تھے کہ اس نے نوشتۂ دیوار ابھی تک نہیں پڑھا ہے بلکہ اس کی کوششیں صرف اور صرف اس تحریک کی دھار کو کند کرنے کی ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ باتیں سامنے بھی آگئیں کہ مختلف حیلوں اور بہانوںسے حکومت سول سوسائٹی کے اراکین کو پریشان کرکے  اور دھمکیوں کے ذریعہ انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتی رہی ہے۔
    بلا شبہ ۹۹؍ فیصد عوام بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیںلیکن ایک فیصد ایسے بھی ہیں جو ایسا نہیں چاہتے۔یہ وہ لوگ ہیں جو راتوں رات لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھر ب پتی بنتے جارہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ذہین اور چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ عیار بھی  ہیں اور لوگوں کے ذہنوں پرا ثر انداز ہونے کا ہنربھی جانتے ہیں۔  اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی ان کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ ملک کے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان لوگوں نے اعتراضات کی شکل میں طرح طرح کے شوشے چھوڑرکھے ہیں۔کچھ نے انا ہزارے کو لعن و طعن کا نشانہ بنایا ہے تو کچھ جن لوک پال میں خامیاں نکال رہے ہیں تو چند اس تحریک کو ہی بے معنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ بیچارے یہ معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ یہ انا ہزارے، کیجری وال، شانتی بھوشن اور کرن بیدی کا معاملہ نہیں ہے، یہ جن لوک پال کی منظوری اور نا منظوری کا بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے جس کی نمائندگی ہندوستان کے ۱۲۵؍ کروڑ افراد کررہے ہیں۔آئیے ایک نظر ان اعتراضات پر بھی ڈالتے چلیں جو اس تحریک کو بے جان کرنے  کے مقصد سے اچھالے جارہے ہیں۔
     پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ قانو ن سازی کا کام پارلیمنٹ کا ہوتا ہے، انا ہزارے کون ہوتے ہیں؟....... بات بالکل صحیح ہے۔ یہ ذمہ داری پارلیمنٹ ہی کی ہے مگر ہم آپ اور سب دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ۳۰؍ برسوںسے اس بل کا کیا حشر ہورہا ہے؟ اگر حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہوتا تو اس کی نوبت ہی کیوں کر آتی؟ رہی بات انا ہزارے کی تو یہاں ایک بار پھر وہی بات دوہرانی ہوگی کہ یہ معاملہ انا ہزارے کا نہیں بلکہ عام ہندوستانیوںکا ہے۔بلاشبہ اراکین پارلیمان بھی عوام کے ہی منتخب کردہ ہیں مگر دیکھااور محسوس کیا جارہا ہے کہ ایوان میں پہنچتے ہی ان میں سے  بیشتر عوام کے بجائے خواص کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں یہ اعتراض بالکل بیجا ہے کہ جن لوگوں کو قانون سازی میں دلچسپی ہے، وہ پہلے ایوان میں پہنچنے کاانتظام کریں۔ اول تو یہ کہ عوام کو قانون سازی سے نہیں بلکہ فی الحال بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے اور دوم یہ کہ عوام جب حکومتوں کے سامنے خود کوبے بس پاتے ہیںتوایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ تیونس اور مصر اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ ہمارے حکمرانوںکی طرح حسنی مبارک بھی اقوام عالم  کے سامنے یہی کہہ کر بغاوتوں کو دبانے کی کوشش کیاکرتے تھے کہ ہم تو جمہوریت کے علمبردار ہیں، جو بھی چاہے اس راستے سے آکر اقتدار کی باگ ڈورسنبھال سکتا ہے.....مگردنیا نے دیکھا کہ عوام جب سیل رواں کی طرح آگے آئے تو حسنی مبارک خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔
    سرکاری لوک پال بل اور جن لوک پال بل .....ان دو مسودوں میں کون سا بہتر ہے ؟اس کا اندازہ فی الحال ہمیں نہیں ہے۔اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا بل زیادہ کارگر ہے تو اسے عوام کوسمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔بصورت دیگر اگر عوام کی جانب سے کوئی اچھی بات آرہی ہے تو اسے تسلیم کرلینے میں حکومت کو کسی قسم کی قباحت کامظاہرہ نہیں کرناچاہئے۔اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔  ویسے بھی جمہوری حکومتیں عوام کے ذریعہ اورعوام کیلئے ہوتی ہیں۔اسے اقتدار کو چیلنج کرنے والی بات نہیں سمجھنی چاہئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اگر ایک مطالبہ تسلیم کر لیں تو پھر کل چند سرپھرے دوسرے مطالبات کے ساتھ حکومت کو گھیرنے کی کوشش کریںگے۔اول تو یہ کہ ایسا ہوگا نہیں، دوم اگر ہوا تو اسے اس قدر عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی اورسوم اگر ایسا ہوا بھی اوراسے عوامی حمایت بھی حاصل رہی تو ......تو پھراسے تسلیم کرلینے میں حرج ہی کیا ہے؟حکومت کا کام ہی عوام کے مفاد کاخیال رکھنا ہوتا ہے۔
    ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انا ہزارے اُس وقت کہا ں تھے ؟ جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی،ممبئی میں فسادی خون کی ہولی کھیل رہے تھے اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوستان کے بد ترین واقعات ہیںاور ان پر وہ تمام ہندوستانی خون کے آنسو روئے ہوں گے جن کے دلوں پر مہر نہیں لگی ہے...... لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ تمام معاملات میں تما م لوگ سامنے آئیں۔جو لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کررہے ہیں، انہوں نے اس وقت اپنا رول بخوبی انجا م دیا۔یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے، اسے انہیں کرنے دیجئے۔کسی ایک فرد یا ایک گروہ سے ہرطرح کی توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیںا ور ممکن بھی نہیں ہے۔ ٹیلی فون محکمے میں ہم پانی  کےکنکشن سے متعلق شکایت لے کر جائیںگے تو لوگ محکمے پر نہیں بلکہ خود ہم پر ہنسیںگے۔
    ہم میں سے ایک طبقہ انا ہزارے کی تحریک کو اس لئے بے معنیٰ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف آر ایس ایس کی حمایت سے ہی کوئی اچھی چیز بری ہوجاتی ہے؟میرے خیال سے ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر اور حق و ناحق دیکھتے ہوئے ہمیںکسی کی حمایت یا مخالفت کرنی چاہئے۔کچھ دنوں قبل لال کرشن اڈوانی نے زانیوں کو سنگسار کرنے کا مطالبہ کیا تھا، خیر وہ خود ہی اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے لیکن کیا ہم اس مطالبے کی محض اس لئے مخالفت کریںگےکہ یہ آواز آرایس ایس کے گھرانے سے بلند ہوئی ہے؟
    خلاصہ ٔ  تحریر یہ کہ موجودہ حالات میں انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
     ابھی بھی بہت زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ حکومت چاہے توابھی بھی سنبھل سکتی ہے۔

Saturday 23 July 2011

عوام کی خاموشی

عوام کی خاموشی ہی بدعنوانوں کو
بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے
ان دنوں صورتحال یہ ہے کوئی دن کوئی اخبار خالی نہیں جاتا کہ اس میں بدعنوانی کی کوئی خبر شامل نہ ہو۔ ٹوجی اسپیکٹرم  کی تقسیم میں بے ضابطگی کا معاملہ ہو، یا دولت مشترکہ کھیلوں کے انتظامات میں ہونے والی خرد برد کا، نوٹ کے بدلے ووٹ کا معاملہ ہو یا پھر کان کنی مافیا کا۔آئی پی ایل  گھوٹالے کی بات ہو یا پھر اسی طرح کا کوئی اور معاملہ..... افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گھوٹالوں کو پڑھ کر عوام چیں بہ جبیں ہونے کے بجائے محظوظ ہوتے ہیں.....  اور  اگر محظوظ نہیں ہوتے ، تب بھی کچھ ’ایکشن‘ نہیں لیتے، کسی رد عمل کااظہار نہیں کرتے۔ عوام کی یہی خاموشی دراصل  ان بدعنوانوں کو بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے۔
قطب الدین شاہد


بدعنوانی ہمارے سماج میں اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ وہ اس کاایک اٹوٹ حصہ معلوم ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں عیب اور گناہ تصور کی جانے والی بدعنوانی آج کے سماج میں فن اور ہنر کادرجہ حاصل کرگئی ہے۔موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کسی بڑے بدعنوان کا تذکرہ آتا ہے تو نفرت اور غم و غصہ کے اظہار کے بجائے  لوگ باگ اس پر عش عش کرتے ہیں اوراسے اس شخص کی قابلیت اور کارنامہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تاریخ اور جغرافیہ سے پوری واقفیت ہونے کے باوجود کسی تقریب کی افتتاح اور صدارت کے لئے ہم انہیں ہی بلاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ایسا کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو، خواہ یہ ہماری بے حسی ہو یا بے بسی لیکن ہمارے اس عمل سے سماج کے ان غیر سماجی عناصر کو تقویت ملتی ہے اور پھر وہ مزید جوش وخروش سے بدعنوانی کے نئے محل کی تعمیر میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔وہ براہ راست نہ سہی مگر بالراست ہمارا ہی خون چوستےہیں مگر افسوس کہ ہم اپنی تکلیف کاا ظہار بھی کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔اب توان میںشرم بھی باقی نہیں رہی کہ راز فاش ہوا تو عوام کو منہ کس طرح دکھائیںگے؟ بلکہ اس بات کا بھی خوف نہیں رہا کہ پکڑے گئے تو کیا ہوگا؟غالباً اکبر الہٰ آبادی نے ایسے لوگوں کے لئے ہی لکھاتھا  کہ ’دے کے رشوت پھنس گیا ، لے کے رشوت چھوٹ جا‘۔
    گزشتہ دنوں ٹرین میں تین افراد کے ایک گروپ کے درمیان  ہونے والی ایک بحث نے ہمیں اس طویل تمہید کی ضرورت پر اُکسایا، ورنہ اپنی بات سیدھے سیدھے بھی کہی جاسکتی تھی۔وہ بحث بہت دلچسپ تھی، جس میں ایک طرف دو لوگ  تھے جنہیں بطور علامت ہم اکثریت لکھیںگے جب کہ دوسری طرف ایک ہی شخص تھا جنہیں ہم اقلیت سے مخاطب کریںگے۔ اے راجا، سریش کلماڈی، کنی موزی، شرد کمار، دیاندھی مارن، شاہد بلوا، نیرا راڈیہ، برکھادت، اشوک چوان، سنجیو سکسینہ، سہیل ہندوستانی، امرسنگھ اوریدی یورپا جیسی ’بڑی‘ شخصیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان میں سے ایک ان سب کی تعریفیں کررہا تھا جب کہ اس کا دوسرا ساتھی اس کی تائید کررہا تھا۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ ان لوگوں  کے اندر اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ایک ’تڑپ‘ پائی جاتی ہے، لہٰذاوہ ان کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کوتیار رہتے ہیں۔  اقلیت نے اس کی سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ان کا انجام بھی تو دیکھو۔ عشرت کدوں  میں رہنے والے ان دنوں جیل میں کمبل کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘  اکثریت میں سے ایک نے پہلو بدلتے ہوئے  نئی تاویل پیش کی ، ’’اس طرح کی  خبریں آپ جیسوں کو ’مطمئن‘ کرنے کےلئے تخلیق کی جاتی ہیں ورنہ چند دن قبل کلماڈی کی جیلر کے ساتھ خوش گپی اور چائے نوشی کی خبر بھی آئی تھی۔‘‘
    بالکل نیکی اوربدی جیسا معرکہ تھا۔ اقلیت نے پھر ہمت مجتمع کی اور کہا کہ ’’ان کے لئے یہی سزا کیا کم ہے کہ محل سے انہیں جیل جانا پڑا۔ذرا سوچئے پُر تعیش اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے والوں پر اس وقت کیاقیامت گزرتی ہوگی جب ان کی عیاشی اور آزادی پر پہرہ بٹھایا گیا ہوگا۔اس موقع پر ہمیں اپنے بزرگ استاد اور معروف افسانہ نگار مشتاق بولنجکرکے ایک افسانے ’زنگ لگی تلوار‘ کاایک اقتباس یاد آیا، جس میں انہوں نے تکلیف سے آرام اور خوشحالی سے تنگدستی کی جانب سفر کرنے والوں کی بہت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ وہ اقتباس کچھ یوں ہے....... ’’ زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے بھی چھاؤں میسر ہو تو نعمت معلوم ہوتی ہے مگر زیادہ دیر تک چھاؤں میں رہنے والوںکو لمحہ بھر کی دھوپ بھی بے چین کردیتی ہے۔‘‘
    بحث بہت دلچسپ مرحلے میںداخل ہوچکی تھی۔ اکثریتی گروپنئے جواز کے ساتھ تیار بیٹھا تھا۔ ’’سیاست دانوں کا کچھ نہیں ہوتا۔ چند دنوں تک پریشانی ضرور ہوتی ہوگی مگر پھر ان کے لئے راوی چین ہی لکھتا ہے۔قانون کے جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں ہی پھنستی ہیں۔ بوفورس اور تابوت کے دلالوں کا کیا ہوا؟ حوالہ اسکینڈل، جین  ڈائری اور چارہ گھوٹالوں کے ملزمین میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ سکھ رام اور نرسمہاراؤ کے وارثین کو کس نے در در بھٹکتے دیکھا ہے؟ہرشد مہتا، کیتن پاریکھ اور تیلگی معاملے میں کتنے سیاست دانوں کی جائیدادیں قرق ہوئی ہیں؟جب ان لوگوں کا کچھ نہیں بگڑا تو کون سا نیا انقلاب آگیا ہے کہ موجودہ گھوٹالے بازوں کا کچھ بگڑے گا؟ یہ زمانہ پیسوں کا ہے، پیسہ پھینکو، تماشہ دیکھو، پیسہ نہیں ہے تو زندگی عذاب کی طرح جھیلو۔ جن کے پاس پیسہ ہے، انہی کی حکومت ہے، انہی کی دنیا ہے اور انہی کی زندگی ہے۔‘‘
    یہ بحث جاری تھی، مگر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے، سو ہمارے لئے ادھوری ہی رہی۔ پتہ نہیں کس کی جیت ہوئی اور کون شکست سے دوچار ہوا۔  خیر جب ہمیں دوبارہ تنہائی میسرہوئی تو ایک بار پھر خیالات کا سلسلہ وہیں پہنچ گیا جہاں سےمنقطع ہوا تھا۔ ہم نے سوچا کہ وہ دونوں جو غلط تھے، کیا غلط کہہ رہے تھے؟ سچ ہی تو بول رہے تھے۔  سیاستدانوں سے کیا امید کی جائے؟ وہ تو بس ہر معاملے کو سیاسی عینک سے ہی دیکھتے ہیں۔ کانگریس کو یدی یورپا کی بدعنوانی نظرآتی ہے لیکن اشوک چوان اور ولاس راؤ دیشمکھ میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، اسی طرح بی جے پی دیاندھی مارن  کے کابینہ سے اخراج کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے لیکن کرناٹک کے وزیراعلیٰ کابھرپور دفاع کرتی ہے۔
    ایسے میںہم یعنی عوام جب تک بیدار نہیں ہوںگے،  بدعنوانوں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے سیاست دانوں کےلئے راوی چین ہی لکھے گا۔اب یہ سوچنا ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے گھر میں ہونے والی چوریوں سے نجات پانے کاانتظام کب کرتے ہیں؟ اور یہ معلوم پڑ جانے کے بعد کہ چور فلاں فلاں ہیں،ان کے خلاف ’ایکشن‘ کب لیتے ہیں؟n

Saturday 25 June 2011

تعلیمی پسماندگی اور ہم

اکیسویں صدی اور ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی
اکثریتی فرقے سے سوا کام کرکے ہی کوئی اقلیت سرخرو ہوسکتی ہے
 اپنی پسماندگی کا رونا ہم بھی روتے ہیں اور کبھی کبھی حکومت بھی مگر مچھ کے آنسو بہاتی نظر آتی ہے لیکن..... سچ پوچھیںتو اس پسماندگی سے باہر نکلنے کی سنجیدہ کوشش
 نہ ہماری جانب سے ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے۔ ہمیں ہرگز ہرگز یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا تعلق ایک  اقلیتی فرقےسے ہے اور
 کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی فرقے سے سوا کام نہ کرے۔

قطب الدین شاہد
بلاشبہ ہم  نے تعلیمی ترقی کی ہے۔حالیہ چند برسوں میں ہماری تعلیمی شرح اور ہمارے تعلیمی معیار میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ تنویر منیار، بلال مستری، زرین انصاری ، رضوانہ انصاری، الماس سید، مولانا وسیم الرحمن  اور ڈاکٹر فیصل جیسے کئی ستارے آسمان تعلیم پر جگمگائےہیں ......لیکن ان سب کے باوجود اس کارکردگی کو اطمینان بخش ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ہمارا تعلق ایک اقلیتی فرقے سے ہے اور کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی  فرقے سے سوا کام نہ کرے۔ لہٰذا ان چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہماری حالت تبدیل ہونے والی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔
    سچر کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام   پر آنے سے قبل ہی ہمارے دانشوروں  اور مدبروں نے اس مرض کی تشخیص کرلی تھی اورصاف صاف کہہ دیا تھاکہ ہماری (مجموعی) پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیمی پسماندگی  ہے۔  پوری طرح سے ہم اسے اپنی غفلت اور تساہلی کا نام بھلے ہی نہ دیں لیکن اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ اس کیلئے حکومت ہی مکمل ذمہ دار نہیں ہے۔سچر کمیٹی کے قیام کے اعلان کے بعد ایک ٹیلی فونک گفتگو میںکمیٹی کے ایک  اہم رکن اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد نے کہا تھا کہ ’’رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے مسلمانوں کو یقینا فائدہ ہوگا..... اس لئے نہیں کہ حکومت کچھ کرے گی.... بلکہ اس لئے کہ ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری کمزوری کیا ہے اور ہمیں کہاں زیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘
    یقینا یہ بات ہمارے لئے بہت اہم تھی۔ ہم چاہتے تو سچر کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اپنی پسماندگی دور کرسکتے تھے۔مذکورہ کمیٹی نے اپنے مشاہدے میں یہ بات کہی ہے کہ تعلیم کے تئیں عام مسلمانوں میں جوش و خروش خوب ہے مگر معاشی پسماندگی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے لئے کمیٹی نے حکومت سے چند سفارشات بھی کی ہیں..... لیکن جیسا کہ سید حامد صاحب نے کہا تھا کہ ہمیں حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اس جانب خود قدم بڑھانے کی ضرورت تھی.....بلکہ ضرورت ہے۔تسلیم کہ ہمارے یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے یہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جنہیں صاحبِ دولت، صاحب ِ ثروت  اور صاحبِ حیثیت کہاجاتا ہے۔ ہاں!کمی ہے تو اُن کے اخلاص میں ، ان کے احساس میں اور ان کی سنجیدگی میں۔ مستثنیات  سے قطع نظر ان کی اکثریت  قوم کے تئیں بے حس نظر آتی ہے۔  ان حالات میں اگر کہیں سے یہ خبر آئے کہ فلاں جگہ چند  افراد نے قوم کی تعلیمی کفالت کا بیڑا اٹھانے کا عزم کیا ہے تو یقینا ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کی خبریں حبس زدہ کمرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کا مزہ  دے جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے برسات کی اندھیری رات میں کوئی جگنو روشنی بکھیر تے ہوئے یہ پیغام دے رہا ہو کہ اندھیرے کاقلع قمع کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی اور ا نفرادی کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔
     اگر ہم اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں کہ قوم کو صد فیصد تعلیم یافتہ بنانا اور انہیں کسی قابل بنانے میں حائل تمام دشواریوں کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اپنی بساط بھر کوشش کرنی ہوگی ، خواہ یہ بساط چھوٹی ہی کیوں نہ  ہو..... البتہ اپنے عزم سے ہمیں ثابت کر نا ہوگا کہ ہمارا تعلق کشتیاں جلا دینے والی قوم سے ہے۔
      یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ اسے ہم  قول و فعل کا تضاد کہیں  یامنافقانہ رویہ..... کہ مجلسوں میں ہم قوم کی تعلیم پر ٹسوے بہانے سے بالکل دریغ نہیں کرتے بلکہ ضرورت پڑتی ہے توآٹھ آٹھ آنسو بھی رولیتے ہیں مگر جب بات عملی مظاہرے کی ہوتی ہے تو  اپنے اپنے بلوں میں جا گھستے ہیں یا دوسروں کامنہ دیکھنے لگتے ہیں...... آج ہمارے سماج کا یہی  حال ہے۔ اس طرح کی خبریں اکثر سماعت سے ٹکراتی ہیں کہ دسویں  یا بارہویںمیں ۹۰؍ فیصد سے زائد مارکس حاصل کرنے والا طالب علم محض اس لئے گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے والد کی تہی دامنی کااحساس ہوتا ہے، وہ نہیں چاہتا یا چاہتی کہ اس کے والد اس کیلئے دردر بھٹکیں اور ذلیل و خوار ہوں..... اور بعض تو رسوا ئی  کے بعد  ہمت ہارتے ہیں۔
    یہ کوئی کہانی نہیںہے بلکہ حقیقتاً اس طرح کے بہت سارے واقعات ہر جگہ اور ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ جن بچوں کو اچھے کفیل مل جاتے ہیں، وہ کسی طرح داخلہ پاجاتے ہیں اور بعدمیں سرخرو بھی  ہوتے ہیں مگربہت  سے طلبہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ اپنے ارمانوںکو  بھی پی جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے چادر کی تنگی سے واقف ہوتے ہیں  اور قوم کے رویے سے بھی آشنا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر طرح سے اہل ہونے کے باوجود وہ ذہین بچے داخلہ نہیں لے پاتے..... اور اس طرح  قوم کے ایک ذہن کو کھلنے سے قبل ہی بندکردیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ اس سے قوم کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔
    ممبئی ہو، دہلی ہو، کولکاتہ ہو لکھنؤ ہو یا دیگر چھوٹے  بڑے شہر اور قصبے ۔ تقریباً ہر جگہ یہی صورتحال ہے۔ دیہاتوں کی حالت تو مزید ابتر ہے۔ ہماری قوم میں یقیناً بعض ایسے ٹرسٹ  ہیں اور بعض مخیر حضرات بھی جو تعلیمی کفالت کی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھارہے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے..... بلکہ سچ کہا جائے تو یہ کہ جب کبھی انہیں شمار کرنے بیٹھیں توایک دو سے بات آگے بڑھانی مشکل ہوجاتی ہے۔  
    ایسا بھی نہیں ہے کہ ہماری قوم کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہزاروں روپئے پھونک دیئے جانے کی بدعت اب متوسط طبقے میں بھی وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔ شادیوں میں فضول خرچی اور جھوٹی شان کے دکھاوے میں اسراف اب عام سی بات ہے۔ انتخابی دنوں میں پیسے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کارپوریشن کے ٹکٹ اور چھوٹے موٹے سیاسی عہدوں کے حصول کے نام پر لاکھوں روپے لٹانے کی خبریں بھی آتی ہیں مگر ..... افسوس کہ جب ان کے در پر کوئی شخص کوئی مقصد لے کر پہنچتا ہے.....کسی بچے کے مستقبل کی بات کرتا ہے.... تو یہ حضرات پہلے اسے بھرپور نصیحت کرتے ہیں کہ..... یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے برعکس یہ کرتے ...... وہ کرتے.....  اور پھر نصیحت ختم ہونے پر آئی تو بڑی مشکل سے چہرے کے زاویے بگاڑ کر دیئے بھی تو ہزار دو ہزار......  جب کہ اسے ضرورت ہے ۶۰؍ سے ۷۰؍ ہزار روپوں کی۔  ایسے میں دو تین جگہ جانے کے بعد ہی اکثر والدین ہمت ہار جاتے ہیں اور گھر آکر اپنے بچوں سے عاجزی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مناسب ہو تو اپنے ارمانوں کانہیں تو ہمارا  گلا گھونٹ دو کیونکہ کسی کے آگے دست سوا ل دراز کرکے ذلیل و رسوا ہونے کی اب  ہم  میں مزید سکت نہیں رہ گئی ۔
    اس میں قطعی مبالغہ آرائی کا مظاہرہ نہیں ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے،سامنے کی باتیں ہیں ۔ ہمارے سماج میں آج یہی ہورہا ہے۔ حالانکہ وہی لوگ جب کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ڈینگ مارنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ قوم کی حالت پر افسوس کریں گے،  حکومت کو کوسنے کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں کے طلبہ سے اپنے بچوں کا موازنہ کرتے ہوئے ’زمین بنجر‘  ہونے کا ماتم بھی کریںگے۔ اگر ان کا تعلق سیاست سے ہے تو پھر کیا پوچھنا، اسٹیج سے دھواں دھار تقریریں ہوں گی۔ پانی پی پی کر پسینے بہائیںگے اور حاضرین کو یہ احساس دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ قوم کے غم میں ان سے زیادہ دبلا ہونے والابھلا کوئی اورکہاں ہے؟
    کسی قوم کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہوگی جب تک کہ اسے بدلنے کے کیلئے اس قوم کے افراد آگے نہیں آئیںگے۔اس تصویر کو بدلنے کیلئے حالانکہ طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن فوری طور پریہ توکیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے زکوٰۃ اور بینکوں میں اپنے رقوم پر ملنے والے سود کو ہی اس مصرف میں لے آئیں۔ چھوٹی سطح پر دیکھا جائے تو ہر محلے کے دو چار اشخاص مل کرکسی ایک دو طالب علم کے کفیل بن سکتے ہیں۔ کتابیں اور بیاضیں تقسیم کرنے والی جماعتیں بھی  اپنے سابقہ ڈھرے سے ہٹ کر اس رقم سے طلبہ کی کفالت کرکے ہر سال ایک دو طالب علم کو پروفیشنل بنا سکتی ہیں۔ اسی طرح جلسے جلوس پر خرچ کرکے سیاسی شہرت بٹورنے والی جماعتیں بھی دوچار بچوں کی سالانہ کفالت کرسکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو انشاء اللہ  ہمارے سماج میںایک انقلابی تبدیلی رونما  ہوگی۔ رہی بات تشہیر کی تو ہم بھی اس قول پر اعتبار کرتے ہیں کہ ’’جس دن نام ونمود کی خواہش ختم ہوجائے گی، فلاحی کام کم ہوجائیںگے۔‘‘ ہم نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں بہت زیادہ رازداری برتنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ لوگ سامنے آتے ہیں اور سماج کے سامنے اس بات کاکریڈٹ لیتے ہیں کہ ’’ہم اتنے طلبہ کی تعلیمی کفالت کرتے ہیں‘‘  تو کوئی حرج نہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے انہیں یہ کریڈٹ دینی  ہی چاہئے اوراس بات کیلئے ان کی پذیرائی بھی کرنی چاہئے.....کیونکہ اگر ہمیں تعلیمی ترقی کرنی ہے تو ہمیں تعلیمی کفیل بھی پیدا کرنے ہوںگے۔

Saturday 11 June 2011

رام دیو کی رام لیلا

 
رام دیو کو رام لیلا سے ہردوار پہنچانا اچھا فیصلہ تھا.....
 
جو ہوا، اچھا ہوا، مگر جس طرح ہوا، و ہ اچھا نہیں ہوا!!
 
رام دیو کی حرکتوں کودیکھتے ہوئے انہیںرام لیلا میدان سے ہٹانا ضروری تھا لیکن جس طرح راتوں رات انہیں ہٹایا گیا، وہ کسی بھی طرح درست نہیں تھا۔ ایک جمہوری ملک میں قطعاً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یقیناً اس میں قصور رام دیو کا بھی ہے لیکن اس سے کہیںزیادہ قصور حکومت کا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یوگا گرو کو شروع سے وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو انہیں حکومت کی جانب سے دی گئی...... وہ کسی بھی طرح اس تکریم کے حقدار نہیں تھے....اس کے باوجودانہیں ہردوار پہنچانے کیلئے جو طریقے استعمال کیے گئے، وہ بھی کسی طرح مناسب نہیں کہے جاسکتے۔
 قطب الدین شاہد
منزل کا تعین نہ ہو تو سفر میں کتنی بھی بھاگ دوڑ کی جائے وہ بے سود اور سعی لاحاصل ہوتی ہے۔ کچھ اسی طرح ان دنوںمرکزی حکومت بھی اندھیرے میںٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آرہی ہے۔ رام دیو معاملے میں اس کے اقدامات میں کسی طرح کی منصوبہ بندی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی.... ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے سمت کااندازہ کئے بغیر دوڑ لگانی شروع کردی ہے، یا پھر ممکن ہے کہ وہ کر کچھ اور رہی ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہے۔
    ۴؍جون کی نصف رات کو نہایت عجیب و غریب طریقے سے حکومت نے بابا رام دیو کو دہلی کے رام لیلا میدان سے اٹھا کر ہردوار پہنچادیا۔ایسا کیو ں ہوا؟ اس سے تقریباً وہ تمام لوگ واقف ہیں،جو رام دیو کے پس منظر اور کانگریس کی نفسیات سے واقف ہیں۔رام دیو کچھ بھی کریں یا کہیں..... ان کی تان بالآخرآر ایس ایس کی حمایت پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ اسی طرح کانگریس کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جس سے اسے کام نکالنا ہوتا ہے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور جیسے ہی اس کا مفاد پورا ہوتا ہے، اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتی ہے....... یہی وجہ ہے کہ حکومت کیلئے اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں رہا کہ ایسا کیا ہوگیاکہ ایک روز قبل سرخ قالین بچھا کر استقبال کی جانے والی اور چارچار اہم وزراء کے ذریعہ خیر مقدم کرائی جانے والی شخصیت اچانک معتوب قرار دے دی گئی....اور معتوب بھی کچھ اس طرح کہ جس شخص کی کل تک وزیراعظم منت سماجت کرتا نظر آتا تھا،اسے معمولی پولیس اہلکاروں کے خوف سے زنانہ لباس اختیار کرکے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔رام دیو کی جو خامیاں حکومت آج بیان کررہی ہے، وہ اس شخص کے اندر راتوں رات نہیں پیدا ہوئیں بلکہ وہ پہلے سے تھیں اور ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کررہا تھا لیکن حکومت کے کانوں پر جوں اس لیے نہیں رینگ رہی تھی کہ اس شخص سے حکومت کے مفاد پر کوئی ضرب نہیں پڑتی تھی بلکہ کہیں نہ کہیںوہ اس کے مفاد میں معاون ہی ثابت ہوتا تھا۔
    سچی بات تو یہ ہے کہ اول تا آخر رام دیو اسی سلوک کے حقدار تھے......مگر یہاں ایک رام دیو ہی کیا......اس طرح کے عناصر کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر جاکر غیر سماجی ہوجاتی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ، وہ آزادانہ طور پر یہاں سے وہاں دندناتے پھرتے ہیں۔حکومتیں عموماًان کی سرپرستی کرتی ہیں اوران پر ہاتھ تبھی ڈالتی ہیں جب وہ ان کی اطاعت سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میںکچھ اسی طرح کی بات نظر آتی ہے۔ ۴؍ جون کی نصف شب میں رام دیو کے خلاف ہونے والی کارروائی اوراس کے بعد حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے بیانات سے بظاہر یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یوگا گرو کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے..... اگر ایسا ہے تو اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے...... لیکن اسی کے ساتھ حکومت کے اس رویے کی مذمت بھی ہونی چاہئے کہ ..... کسی کے خلاف کارروائی اس وقت کیوں، جب وہ حکومت یا کسی خاص جماعت کا مہرہ بننے سے انکار کردے؟ یہ کارروائی اسی وقت کیوں نہیں ہوتی جب وہ جرائم کا ارتکاب کرتا ہے یا اس کے جرائم آشکار ہوتے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پر کئی سنگین الزامات لگائےہیں۔ آئیے ان الزامات کاا یک سرسری جائزہ لیتے ہیںا ور اس کی روشنی میں حکومت کی ’سنجیدگی‘کااندازہ لگاتے ہیں۔ حکومت نے رام دیو پر آر ایس ایس کے اشارے پر ناچنے کاالزام عائد کیا ہے۔  یہ ایک ایسی بات ہے جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ رام دیو نے بھی کبھی اسے مخفی رکھنے کی کوشش کی ہو۔ اب اگر کل کانگریس یہ ’سنسنی خیز انکشاف‘ کرے کہ مودی آر ایس ایس کے مہرے ہیں توکیا ہمیں اس پر بغلیں بجانی چاہئیں؟ ویسے تعزیرات ہند کے لحاظ سے کسی کے اشارے پر ناچناکوئی جرم نہیں ہے، لہٰذا یوگا گرو کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اگر ان کی سرگرمیاں مجرمانہ ہیں تو پھر ضرور ان کے خلاف کارروائی ہو نی چاہئے مگر اس صورت میں رام دیو کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کانگریس کی قیادت والی حکومت ایسا کرے گی؟
    رام دیو پر دوسرا الزام فرقہ پرستی کا ہے۔حالانکہ حکومت اسے الزام کہتی ہے مگر سچائی تو یہ ہے کہ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ محض آٹھویں جماعت تک عصری تعلیم حاصل کرنے والے یوگا گرو سنِ بلوغیت تک پہنچنے سے لے کر اب تک  فرقہ پرستانہ خیالات رکھنے والوں کے ساتھ ہی اُٹھتے بیٹھتے رہے ہیں اور ان کے ’کاز‘ کی کھلی حمایت کرتے رہے ہیں۔سنگھ پریوار کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے رام دیو نے بھی بابری مسجد کی جگہ پر غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے رام مندر بنائے جانے کی وکالت کی  ہے اوران عناصر کی حمایت و سرپرستی کی ہے جو فرقہ پرستانہ مہم چلا کر ملک کی فضا مکدر کرتے رہے ہیں۔اگر اسے بنیاد بنا کر رام دیو کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انہی بنیادوں پر یہ حکومت ان کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جو رام دیو کے نظریہ ساز رہے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پربدعنوانی کاا لزام بھی لگایا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بہت معمولی عرصے میں ایک ایسے شخص نے جس کے لئے دونوں وقت کے کھانے کاانتظام کرنا بھی مشکل تھا، ۱۱؍سو کروڑ روپوں کی ’امپائر‘ کیسے کھڑی کرلی ؟سوال بالکل درست ہے اوراس کی تہہ تک پہنچانا لازمی ہے..... مگر یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ رام دیو پر بدعنوانی کا یہ الزام ۴؍ جون کے بعد ہی نہیں لگا ہے بلکہ عوامی سطح پر اس طرح کی چہ مگوئیاں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ حکومت بھی اس سے واقف رہی ہوگی۔ ایسے میں اس بدعنوان شخص کے خیر مقدم کے لئے ۳؍ جون کوحکومت نے ۴؍ ۴؍ اہم وزراء کو کیوں کر تعینات کررکھا تھا جو بڑی بے صبری سے ایئر پورٹ پر ’بابا‘ کے دیدار کیلئے پلکیں بچھائے کھڑے تھے۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں معمولی عرصے میں اس طرح کروڑوں کی ملکیت جمع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ وہ حکومت کی نظرعنایت سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تعلق سے بھی یہ بات عام ہے کہ ان کے یہاں مالی شفافیت کا فقدان پایا  جاتا ہے۔ بالخصوص رام مندر تحریک کے ذریعہ جمع ہونے والی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ کیا حکومت ان معاملات کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گی؟
    دگ وجے سنگھ نے رام دیو پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ دگ وجے سنگھ حکومت کے نہیں مگر برسراقتدار جماعت کے ایک اہم رکن ہیں، لہٰذا ان کے بیان کو حکومت کا بیان سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دگ وجے سنگھ کے الزام بہت سنگین ہیں....لہٰذا اس پر فوری کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہےکہ کیا حکومت نے واقعی اس معاملے میں کچھ ثبوت جُٹا لیے ہیں، یا یہ صرف ایک زبانی جمع خرچ ہے۔یہ شک اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دگ وجے سنگھ ’شوشے‘ چھوڑنے میں ماہر ہیں۔ بسا اوقات ان کے ’شوشوں‘ میں صداقت بھی ہوتی ہےلیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔اس کی واضح مثال سخت گیر ہندتوا کی دہشت گردی کا معاملہ ہے۔ دگ وجے سنگھ بہت پہلے سے اس کا ’انکشاف‘ کرتے رہے ہیں مگر وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے انہیں صرف اسی طرح کے بیانات دینے پر مامور کررکھا ہے تاکہ اس سےعوامی رد عمل کا اندازہ لگاتی رہے اور جہاں اسے مناسب لگے کارروائی بھی کرے۔
    یعنی مطلب صاف ہے ۔ رام دیو کے خلاف حکومت کی کارروائیاں اس لئے ہورہی ہیں کہ اس شخص نے کانگریس کا مہرہ بننے کے بجائے آر ایس ایس کا مہرہ بننے کو ترجیح دی۔بڑے تام جھام سے کانگریس نے یوگا گرو کو انا ہزارے کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس ’شخص‘ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔یہاں ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اب حکومت رام دیو کے تمام کچے چٹھوں کا حساب لے گی۔ قطعی نہیں.....یہ کارروائیاں بلکہ یہ دھمکیاں اسی وقت تک ہیں، جب  تک یہ ہنگامے تھوڑے سرد نہیں پڑ جاتے۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رام دیو کے ذریعہ مسلح فوج بنانے کی بات ہی اسے تاعمر قید خانے میں زندگی گزارنے پر مجبور کرسکتی تھی لیکن حکومت نے اس کا نوٹس اس طرح لیا ہی نہیں جس طرح لیا جانا چاہئے تھا.... ذرا غور کیجئے کہ رام دیو کی جگہ پر کوئی شیخ یا خان نے اس طرح کی بات کی ہوتی تو کیا ہمارے وزیرداخلہ اسی طرح کی تنبیہ کرتے کہ ’پہلے فوج بناؤ، ہم بعد میں نمٹیںگے‘۔ مطلب یہ کہ ہائی پروفائل ڈرامہ ابھی جاری ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عوامی ردعمل کس طرح کے ہوتے ہیں؟ رام دیو کی عوامی حیثیت نہ تو پہلے ہی تھی اور نہ ہی اب ہے، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت سے عوام کس طرح نمٹتے ہیں؟

Saturday 4 June 2011

ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 یوگا گرو کا بھوک ہڑتال پر بیٹھنا اور حکومت کا انہیں منانے کی کوشش کرنا
 ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 مگر ’ اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں ‘کے مصداق کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس نے جو ایجنڈہ تیار کیا تھا، اسے بی جے پی نے اُچک لیا۔ان حالات میں حکومت چاہے تو بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ ہوکر  اپنی اس ناکامی کاازالہ کرسکتی ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ  بابا رام دیو کو منانے کے بجائے بدعنوانوں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ بدعنوانی کا قلع قمع ہوسکے۔

قطب الدین شاہد
زمانہ طالب علمی میں ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی ہماری رہنمائی کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ یہ شخص جو پِٹ رہا ہے، یہی اس ڈرامے کا خالق و ہدایت کار ہے۔ یہ جو کہتا ہے، وہی دوسرے فنکارکرتے ہیں۔‘‘ اُس وقت  ہماری سمجھ میں یہ بات آئی نہیں کہ یہ شخص جو اس ڈرامے کے زیر و زبر کا مالک ہے اور تمام کردار جس کے اشارے کے محتاج ہیں،بھلا خود کیوں پِٹ رہا ہے؟ استفسار پرہمارے دوست نے بتایا کہ یہ اسکرپٹ کا ڈیمانڈ ہے اور یہ کہ ایسا کرکے ہی وہ سامعین سے داد تحسین حاصل کرسکتا ہے......اُس وقت شعور پختہ نہیں تھا، لہٰذابات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی......مگر گزرتے وقت کے ساتھ ڈرامہ اور اسکرپٹ کی اہمیت کاادراک ہوا اور یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ ڈرامہ تو ہماری زندگی کا ایک لازمی جز بن کر رہ گیا ہے۔
     ان دنوں ہم سب کو ایسے ہی ایک  ڈرامے سے سابقہ پڑ رہا ہے، جس کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک حکومت اور دوسرے بابا رام دیو۔ اس کے جزئیات کا بغو ر مشاہدہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ہائی پروفائل ڈرامہ ہےجو اسکرپٹ کے ڈیمانڈاور سامعین (رائے دہندگان) سے داد تحسین پانے کی غرض سے اسٹیج کیا گیا ہے۔ فی الحال اس ڈرامے کی کچھ ہی  باتیں سمجھ میں آرہی ہیں کیونکہ ابھی بہت کچھ صیغۂ راز میں ہے، تاہم  امیدکی جانی چاہئے کہ وقت کے ساتھ پورا منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔
    دراصل کچھ دنوں قبل انا ہزارے اور  ان کی ٹیم نے بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک چھیڑی تھی۔اس تحریک کو زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے برسرِاقتدارطبقے کے خیمے میں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ حکومت کو اپنی میعاد مختصر لگنے لگی تھی۔ بروقت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت دو قدم پیچھے ہٹی تھی اور ان کے مطالبات تسلیم کرلیا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی اس نے یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ اس کاانتقام ضرور لے گی۔بابارام دیو کاظہور اسی انتقام کاایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی کارروائی  ہے جس کے ذریعہ حکومت نے ان تمام لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش کی ہے جوکسی بھی طرح بدعنوانی کے موضوع پر حکومت کو گھیرنےکی سعی کرچکے ہیں۔ ورنہ اُن کی آمد پر سرخ قالین بچھانا، چارچار نہایت اہم وزرا کے ذریعہ ان کا خیر مقدم کرنا اور وزیراعظم کا انہیں منانے کی کوشش کرنا..... یہ سب کیا تھا آخر؟ کیا حکومت بابارام دیو کے پس منظر سے واقف نہیں ہے؟ آخرانہیں اتنی اہمیت کیوں دی جارہی تھی؟ ذرا چلمن کے پار جھانکنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان ہنگامہ آرائیوں کے پس پشت بابا کو ان کے قد سے بڑا کرنے  اور انہیں انا ہزارے کے برابر کھڑا کر نے کے علاوہ اور کوئی خاص بات نہیں تھی۔
    یوگا گرو کو منانے کی حکومت کی کوششوں پر ڈرامے کا گمان اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اسی حکومت نے بابا سے قدرے بہتر شبیہ رکھنے والے انا ہزارے اور ان کی ٹیم کو نہ صرف یہ کہ اہمیت نہیں دی تھی بلکہ بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش بھی کی تھی اور ابھی بھی کررہی ہے۔ یکے بعد دیگرے اس ٹیم کے  تمام اراکین پر کیچڑ اچھا لے گئے۔ یہاں تک کہ ان الزام تراشیوںسے تنگ آکر کرناٹک کے لوک آیکت سنتوش ہیگڑے نے اس تحریک سے کنارہ کشی کا فیصلہ تک کرلیا تھا۔ ہیگڑے کے خلاف کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کا الزام.... الزام برائے الزام تھا ورنہ یہ کہنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ کرناٹک کے لوک آیکت کرناٹک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں کرسکے تو انہیں لوک پال کی تحریک نہیں چلانی چاہئے۔ اس موضوع پر دگ وجے سنگھ کو کچھ کہنے سےقبل اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے کانگریس کو مشورہ دینا چاہئے تھا کہ آزادہندوستان میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی  یہ جماعت جب ملک سے غربت، فرقہ واریت اورعدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرسکی تو اسے نہ صرف یہ کہ اقتدار سے  دستبردار ہوجاناچاہئےبلکہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہئے۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضۂ کے طور پر آگئیں ورنہ اپنا موضوع بابار ام دیو اور حکومت بالخصوص کانگریس کا ڈرامہ تھا۔
    ہم سے زیادہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ رام دیو کی عوامی شبیہ صاف ستھری نہیں ہے۔شدت پسند ہندوتوا تحریک کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان پر اور بھی کئی سنگین الزامات ہیں۔قارئین جانتے ہیں کہ ان کی لیباریٹری میں بننے والی دواؤں میں جانوروں حتیٰ کہ انسانی جسم کی ہڈیوں کے ملنے کے الزامات لگ  چکے ہیں۔ اسی طرح جب انہوں نے جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے کہاتھا کہ یوگا کے ذریعہ ایڈس کی روک تھام کی جاسکتی ہے، تب بھی وہ عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ اس سے قبل ان پر اپنے ملازمین کے استحصال کا الزام بھی لگ چکا تھا جب مارچ ۲۰۰۵ء میں دِوّیہ یوگا مندر ٹرسٹ کے۱۱۳؍ ملازمین نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھوک ہڑتال کی تھی۔یہی وجوہات ہیں، جن سے اندازہ تھا کہ رام دیو کو بدعنوانی کے خلاف تحریک کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی، جو انا ہزارے اور ان کی ٹیم کوملی تھی۔ وجہ صاف ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ رام دیو کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی حمایت میں اگرکہیں کچھ لوگ سڑک پر آتے بھی ہیں تووہ یقیناً آر ایس ایس کے گرگے ہوںگے جو رام دیو کے کندھے پر بندوق رکھ کر یوپی اے حکومت پر نشانہ سادھنے کی کوشش کریںگے۔
    کہاجاتا ہے کہ بابار ام دیو کو کانگریس نے ہی بھوک ہڑتال کیلئے اکسایا تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ وہ پہلے ایک ’سنسنی‘ پیدا کرے گی اورموقع معقول پاکر اسے بھنانے یعنی بابا کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کرے گی اورانہیں بتائے گی کہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے اور اس طرح وہ بابا کو ’رام‘ کرلے گی۔حکومت کے منصوبے کے مطابق اس سے عوام و خواص میں یہ پیغام جائے گا کہ بدعنوانی کے خلاف حکومت   بہت سنجیدہ ہے۔ دراصل حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اول یہ کہ بابا کو ’خوش‘ کرکے وہ ان کےہمنواؤں کو بھی اپنے پالے میں کرلے گی، جو کسی نہ کسی طرح بی جے پی کے ووٹ بینک ہیں۔ دوم یہ کہ جن لوک پال بل اوراس بہانے اناہزارے اور ان کی ٹیم کی حمایت کرنے والے   انا ہزارے اوران کی ٹیم سے متنفر ہوجائیں گے کہ یہ لوگ بلا وجہ حکومت کو بدنام کررہے ہیں۔ مگر کانگریس کے پانسے اُلٹے پڑے اوراس کی سبھی تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ بابا کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے کانگریس کے ایجنڈے کو آریس ایس ایس اور بی جے پی نے اچک لیا۔ اور  ایساکیوں نہ ہوتا؟ رام دیو کی وہاںسے پرانی وفاداری جو ہے۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے جتنی توانائی بابا کو منانے پر صرف کی، بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اگر اس کا عشر عشیر بھی محنت کرتی تو اس جِن کو بوتل میں قید کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہوتا جو آج ہمارے سماج میں دندناتا پھررہا ہے۔
    حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈرامہ بازی پر نہیں بلکہ حقائق اور عمل پر یقین کرے........ اوراگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو... یہ ذمہ داری عوام پرعائد ہوتی ہے کہ  وہ حکومت کو یہ باورکرائیں کہ ان کا شعور پختہ ہوچکا ہے، اور یہ کہ وہ حقائق اور ڈرامے میں تمیز کر نا اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔

Saturday 28 May 2011

کانگریس اور کرپشن

کانگریس اور کرپشن
کیا دونوں لازم و ملزوم ہیں؟
کانگریس کے سابقہ ادوار میں بھی کرپشن کے بڑے بڑے معاملات سامنے آئے ہیں، لیکن اس مرتبہ محض دو سال کے قلیل عرصے میں جتنے گھوٹالے منظر عام پر آئے ہیں،آزاد ہندوستان بلکہ غلام ہندوستان کی تاریخ میں بھی شاید کبھی نہیں ہوئے ہوںگے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوپی اے حکومت میں شامل وزرا کو بہت جلدی ہے، لہٰذا   لوٹ کھسوٹ میں جلد بازی کےمظاہرے کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے لئے تنہا حکومت ہی ذمہ دار ہے یا اس گناہ میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں؟اس سے قبل کہ ہماری رگوں سے تمام خون نچوڑ لیا جائے یا ہم پر بے حسی طاری ہوجائے، اس موضوع پر ہمیں سنجیدگی سے کچھ سوچنا پڑے گا۔
قطب الدین شاہد
    ے 2009کےعام انتخابات میں کانگریس کا نعرہ تھا’’کانگریس کا ہاتھ،عوام کے ساتھ‘‘.........مگر اقتدارملتے ہی انتخابی منشور کے ساتھ اس نعرے کو ایک مضبوط پوٹلی میں باندھ کر ایسی جگہ رکھ دیا گیا ، جہاں کسی کا ہاتھ تو کیا، نظر کی رسائی بھی آسان نہ ہو۔پھر کرپشن کا وہ دور دورہ شروع ہوا ، وہ لوٹ کھسوٹ مچی کہ اللہ کی پناہ۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کوئی سخت مقابلہ ہے، جہاں ہر کوئی دوسرے پر سبقت  لے جانے کی جدوجہد کررہا ہے۔نقصان تو خیر پورے ملک کا ہورہا ہے، لیکن عام آدمی کی حالت زیادہ دگرگوں ہے کہ اس کے منہ سے نوالے تک چھن گئے ہیں۔اس نعرے کا احساس وقت کے ساتھ ہورہا ہے کہ اس ’ہاتھ‘ سے کیا مراد تھا؟  دراصل وہ ہاتھ نہیں ، طمانچہ ہے جو عام آدمی کی گالوں پر تواتر کے ساتھ پڑرہا ہے۔
    یوپی اے حکومت کی دوسری اننگز کی دوسری سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے ساتھیوںسے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’بدعنوانیوں کاارتکاب کرنیوالوں کو بخشا نہیں جائے گا،قانون کے مطابق انہیں سز ا دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں‘‘۔
    اس موقع پر یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بھی  بدعنوانی سے جنگ  لڑنے کی بات دوہرائی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم کرپشن کے  خاتمے کی کوششوں کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیںگے اور ان تمام پر سخت کارروائی کریںگے جنہوں نے ملک کے خزانے کو لوٹا ہے........اور یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں، اس پر کام ہوگا۔‘‘
     کہاتو یہی گیا کہ اس میں لفاظی نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو اس میں علاوہ لفاظی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔یوپی اے حکومت کے دونوں ذمہ داروں نے باتیں تو بہت اچھی اچھی کیں، لیکن اگران کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔  اول  یہ کہ ان کے ساتھی ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے،  دوم یہ کہ ان کے دو ایجنڈے ہوں۔ یعنی ایک کااظہار کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ دوسرے کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس پرعمل کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ دو سال کے معمولی عرصے میںعوام کی کتنی دولت لوٹی گئی ؟ اور ا س پر حکومت نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ؟بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوا کہ اگرعدالت عظمیٰ انہیں بار بارڈانٹ پھٹکار نہیںلگاتی تو شاید اتنی بھی کارروائی نہیں ہوئی ہوتی جتنی کی ہوئی ہے۔ یعنی جو ہوئی ہے، وہ ملک و عوام کی محبت اور بدعنوانی و بدعنوانوںسے نفرت کے سبب نہیں بلکہ بادل نخواستہ اور مجبوری میں ہوئی ہے۔
    دوسری میقات میں کمان سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے وزرا سے کہا تھا کہ وہ ۱۰۰؍ دنوں میں اپنے اپنے محکموں کا رپورٹ کارڈ پیش کریں اور بتائیں کہ وہ ملک و عوام کی ترقی کے لئے کیا کررہے ہیں؟ عوام نے وزیراعظم کی اس تڑپ کا بہت پُرجوش خیرمقدم کیا تھا، جس کا ثبوت اس کے بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں نظر آیا۔عام انتخابات کے بعد مہاراشٹر، آندھرا پردیش، ہریانہ، اروناچل پردیش اور اڑیسہ میں الیکشن ہوئے تھے اور تمام مقامات پر کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
    شاید یہی وہ وقت تھا، جب کانگریس تکبر کے احساس میں مبتلا ہوگئی۔ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوںسے قبل حکومت کو بار بار متنبہ کیا گیا کہ لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، عوام و خواص کے ساتھ ساتھ میڈیا یہاں تک کہ بعض کانگریسی اراکین نے بھی اس جانب حکومت کی توجہ دلائی مگر، حکومت کے کانوں پر جوںتک نہ رینگی۔اس کے بعد ٹوجی اسپیکٹرم ، اسرو، راشن تقسیم (پی ڈی ایس)، تھومس کی تقرری اورکالے دھن کے معاملات میں بھی حکومت کی بے حسی اور بے توجہی نمایاں رہی۔ایسا لگا جیسے لٹیروںکو اس بات کا اشارہ ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
    مزے کی بات یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے بدعنوانیوں کے کئی معاملات کے انکشاف کے باوجود یوپی اے کے بیشتر کرداروں کو ’پاک صاف اور ا یماندار‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یوپی اے دوم کی کارکردگی کا  سرسری جائزہ لیاجائے تو اس کا پلاٹ تجسس سے پُر بالی ووڈ کے کسی فلم جیسا نظر آتا ہے۔اس طرح کی فلموں میں جن پر شک ہوتا ہے،  آخر میںوہ بے گناہ ٹھہرتے ہیں اور جن پر نظر نہیں جاتی، وہی مجرم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے مرکزی کردار ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں، جنہیں ’مسٹرکلین‘ کا خطاب  حاصل ہے۔ ان کے صاف شفاف دامن پر کرپشن کا ایک ہلکا سا داغ بھی نہیں ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر سے پلاننگ کمیشن کے چیئر مین تک اوروزارت مالیات سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ان کا کریئر بے داغ رہا ہے........ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ گھوٹالے انہی کی سرپرستی میں انجام پائے ہیں۔ عوام کی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے سسپنس فلموں کی طرح چند چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ضرور پکڑی جاتی ہیں لیکن اصل مجرم گرفت سے دور ہی رہتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند دنوں بعد ایک نیا گھوٹالہ منظر عام پر آجاتا ہے۔
    یوپی اے حکومت کی چیئر پرسن نہروگاندھی خاندان کی وارث سونیا گاندھی ہیں۔ان کی ’قربانیوں‘ کی تاریخ پرانی اور فہرست بہت طویل ہے۔کرپشن سے دور دور ان کا بھی کوئی واسطہ نظر نہیں آتا......مگر ان کی سربراہی میں کرپشن کا سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں۔ یوپی اے حکومت میں اختیارات کے اعتبار سے تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل ہیں۔ کرپشن سے ان کا بھی چھتیس کا آنکڑہ بتایا جاتا ہے۔ان تینوںکو وطن عزیز کے کئی اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے مگر کرپشن کے جِن کو بوتل میں  اتارنے  کے معاملے میں یہ سب لاچار نظر آتے ہیں۔
    یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ چلئے تسلیم کہ یہ تمام صاف شفاف ہیں اور کرپشن سے ان کا واقعی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یعنی کرپشن کا دیو ہی اتنا طاقتور ہے کہ اسے یہ سب مل کر بھی قابو میں نہیں کرپارہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے، تب بھی  ان کے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔یہ بہر طور مجرم ہیں کہ انہیں جو ذمہ داری  عوام نے سپرد کی ہے، اسے ادا نہیں کرپارہے ہیں، یعنی اس کے اہل نہیں ہیں۔
     اس سکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی سرپرستی میں یہ گھوٹالے انجام پارہے  ہیں۔منموہن سنگھ، سونیا گاندھی، پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل جیسے رہنماؤں پر لب کشائی کرتے ہوئے حالانکہ زبان لڑکھڑاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی سسپنس فلم میں قبل از وقت کسی سفید پوش پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر ایساہوا تو...... ٹوجی گھوٹالے میں سبرامنیم سوامی  کے ذریعہ پی  چدمبرم پر اور اسرو معاملے میں وزیراعظم پر انگشت نمائی تو ہوہی چکی ہے۔
    افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمیں کرپشن کی باتیں سن کر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ سماج نے کرپشن کو پوری طرح سے قبول کرلیا ہے۔اسے معیوب سمجھنا ترک کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف باتیں کرنےوالوں کو احمق تصور کیا جانے لگا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ہم صرف اور صرف حکومت کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرائیں؟جن کی جیب کاٹی جاتی ہے، جب وہی چیں بہ جبیں نہیں ہوتے تو جیب کتروں کو کیوں کر لعن طعن کی جائے؟بدعنوانی پر روک لگانی ہے تو حکومتوں کے احتساب سے قبل عوام کو خودا پنا احتساب کرنا ہوگا۔

Saturday 14 May 2011

اسمبلی انتخابات کے نتائج


اسمبلی انتخابات کے نتائج
نوشتۂ دیوار ہیں سیاسی جماعتوں کے لئے
عوام نے  ابھی صرف ’تبدیلی‘ کا حربہ آزمایا ہے اورسیاست دانوںکو موقع فراہم کیا ہے کہ وقت رہتے سنبھل جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں..... بصورت دیگر وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ’تبدیلی‘ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
قطب الدین شاہد
  ہندوستانی سیاست دانوں کے لئے یہ بات باعث تشویش ہونی چاہئےکہ وطن عزیز میں اب ووٹنگ محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ نفرت کی بنیاد پرہونے لگی ہے۔ ان حالات میں جیتنے والی جماعتیں اگر یہ سوچتی ہیں کہ  ان کی عوامی مقبولیت  نے انہیں مسنداقتدا ر تک پہنچایا ہے اور یہ کہ عوام میں ان کی پسندیدگی کا گراف بلند ہوا ہے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا.... بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ان کے حریف کے تئیں عوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام نے انہیں اقتدارسے بے دخل کیا ہے۔عوام کے پاس چونکہ زیادہ متبادلات نہیں ہیں لہٰذا وہ ایک دائرے میں ہی گھومتے رہتے ہیں اوراس طرح باری باری تمام جماعتوں کو اقتدار کے تالاب میں غوطہ لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یاد رکھیں کہ جس دن عوام نے دائرے سے باہر نکلنے کا ذہن بنالیا، سیاست دانوں کا قافیہ تنگ ہوجائے گا۔ اس کاایک ہلکاسا اشارہ انا ہزارے کی تحریک کی صورت میں دیا جاچکا ہے۔
    مگر افسوس کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔انتخابی نتائج جہاں ہارنے والی جماعتوں کے لئے عبرت کا سامان ہیں، وہیں جیتنے والی جماعتوں کے لئے باعث امتحان بھی ہیں..... مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ عبرت سمجھ کر نہ کو ئی اپنا محاسبہ کررہا ہے اور نہ ہی کوئی امتحان سمجھ کر سنجیدہ ہونا چاہتا ہے۔انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد جہاں جیتنے والی جماعتوں کے اراکین بردباری کے مظاہرے کے بجائے زمین چھوڑ کر ہوا میں اُڑنے لگے ہیں، وہیں ہارنے والوں نے اپنے احتساب کے بجائے تاویلات اور بہانوں کی تلاش شروع کردی ہے۔  ممتا بنرجی اور جے للیتا کو اگر تھوڑے وقت کیلئے نظر انداز بھی کردیں کہ ان دونوں نے  بالترتیب  بایاں محاذ اور ڈی ایم کے کو شکست دینا ہی  اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا رکھا ہے، سی پی ایم، کانگریس اور بی جے پی جیسی قومی جماعتیں بھی اپنے محاسبے کے بجائے ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کررہی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ تینوں بڑی جماعتیں اپنے گریبان میں جھانکتیں اوراس بات کا جائزہ لیتیں کہ عوام کی جانب سے انہیں دُھتکار کیوں ملی؟مگر اس کے برعکس یہ اپنی محدود کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے حریفوں کی ناکامیوں پر ان کا مضحکہ اُڑا رہی ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ جماعتیں اپنی کامیابیوں پر شاداں و فرحاں ہونے کے بجائے دوسروں کی ناکامیوں میں اپنے لئے راحت کا سامان ڈھونڈ رہی ہیں۔
    اس سے قبل کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات پر تبصرہ  ہو، آئیے ایک کہانی سن لیتے ہیں۔ ایک شخص کی تپسیا سے ایک سادھو بہت خوش ہوئے توانہوں نے اس سے کہا کہ ’’بیٹا! ہم تم سے بہت خوش ہوئے، آج تم جو مانگوگے، تمہیں ملے گا.... لیکن ایک شرط ہے... اور وہ یہ ہے کہ تمہیں جو ملے گا، تمہارے پڑوسی کو اس سے دوگنا ملے گا....  بول، کیا مانگتا ہے؟‘‘ کہانی کے مطابق بہت غور و خوض کے بعد وہ شخص اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی ایک آنکھ ضائع کرنے کا ’وَردان‘ مانگ لے۔ اس کی وجہ سے اس کے پڑوسی کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجائیںگی جو اس کے لئے باعث مسرت ہوگی۔کہاجاتا ہے کہ وہ یقینا ہندوستانی سیاست داں رہا ہوگا کیونکہ یہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔
     خیر آئیے اب آتے ہیں، اپنے اصل موضوع پر۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے متعلق رجحانات پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس نے اپنی آنکھوں میں موجود شہتیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ان اہم انتخابات میں بی جے پی کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔کانگریس کے ترجمان منیش یتواری نے کہا کہ انتخابی نتائج سے اگر کوئی اشارہ ملتا ہے ....تو وہ یہ کہ بی جے پی کی بحیثیت پارٹی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ آسام کےعلاوہ کانگریس کو کہیں بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی۔اسی طرح بی جے پی نے بھی بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کو ’بے اوقات‘ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان انتخابات میں بی جے پی حالانکہ خود تو کچھ نہیں کرپائی مگر دشمن کے دشمن کی تعریف کرکے اپنے لئے راحت کا سامان تلاش کرنے کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے سے باز بھی نہیں آئی۔ تمل ناڈو میںجے للتا کی کامیابی پر بغلیں بجاتے ہوئے بی جے پی نے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کی جیت کا بھی  خیر مقدم کیا۔ اور اسی کے ساتھ  بی جے پی یہ کہنے سے نہیں چوکی کہ اتحاد کے رہنما کی حیثیت سے کانگریس بری طرح ناکام  ثابت ہوئی ہے۔
    بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے کہا کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس امیدواروں کی جیت کی شرح بہت کم ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اسے جو جیت ملی ہے، وہ ممتا کی مرہون منت ہے۔  بقول روی شنکر پرساد آسام میں کانگریس  اس لئے جیتی کہ بی جے پی اور آسام گن پریشد میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔
    ۵؍ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حالانکہ این سی پی اور شیوسینا کا کوئی رول نہیں تھا، یعنی یہاں ہونے والی ہار جیت سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن  بال ٹھاکرے اور شرد پوار دونوں نے بایاں محاذ کی شکست کا ’خیر مقدم‘ کیا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی فکر نہیں ہے  بلکہ دوسروں کی دونوں آنکھوں کے ضیاع کی خوشی ہے۔ ان  کے ان بیانات اوران کے خوش ہونے کے اندازسے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بایاں محاذ کو شکست دینے کیلئے کس ’ وسیع پیمانے پر اتحاد‘ کا مظاہرہ ہوا ہے۔
    بہرحال اب جبکہ نتائج سامنے آچکے ہیں ،تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑکر بیٹھنا  اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ان  انتخابات کے نتائج یقیناً تمام بالخصوص  قومی جماعتوں کے لئے نوشتۂ دیوار ہیں۔
    مغربی بنگال میں۳۴؍ سال بعد بایاں محاذ کے قلعے میں سیندھ لگی ہے  اورکچھ اس طرح لگی کہ ’لال دُرگ‘ پوری طرح سے زمین بوس ہو گیا ہے۔ کیا یہ سب اچانک ہوا ہے؟ بایاں محاذ کواس پر غور کرنا چاہئے  اور اس سوال کا جواب تلاش کرناچاہئے کہ ایسا کیوں کر ہوا؟آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ گزشتہ ۷؍ مرتبہ سے بایاں محاذ کے حق میں ووٹنگ کرنے والے آج ان کے خلاف ہوگئے؟ اپنے دفاع میںاور اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں بعض کمیونسٹوں کا کہنا ہے کہ نیوکلیائی معاہدے کے وقت امریکہ کی مخالفت انہیں مہنگی پڑی۔ ان کے مطابق اس مرتبہ الیکشن میں امریکی پٹھوؤں نے بایاں محاذ کوشکست دینے کے لئے  نوٹوں کے دریا بہادیئے تھے۔ ممکن ہے ، اس میں کچھ حد تک سچائی بھی ہو لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا ریت میں سرچھپانے کے مصداق ہوگا۔لوک سبھا کے سابق اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے  اس کا بہتر تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ محاذ کو اسمبلی انتخابات میں اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ عوام سے دور ہوگیا تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ عوام سے دوری ہوگئی تھی اور پارٹی کے عہدیداران عوام کے مزاج کو سمجھ نہیں پائے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ چند غلطیاں کی گئیں اور اس کا مناسب جائزہ نہیں لیا گیا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس رجحان کا پتہ لوک سبھا کے انتخاب میں ہی چل گیا تھا لیکن محاذ نے پردہ پوشی کی کوشش کی تھی۔  سومنا تھ چٹر جی کا جائزہ بالکل درست ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ہی اس کااندازہ ہوگیا تھا۔ دراصل سچر کمیٹی کی رپورٹ آجانے کے بعد مسلمانوں کو زبردست صدمہ پہنچا کہ جس جماعت پر وہ اب تک اندھا اعتماد کرتے آئے تھے، ان کا استحصال کرنے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اسی طرح سنگور اور نندی گرام کے معاملوںمیں بھی لیفٹ کے رویے کو مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا۔اب جبکہ بایاں محاذ کے ہاتھ سے اقتدار چلا گیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ  اپنے (بد)اعمال کا جائزہ لیں اوراس کی اصلاح کریں۔
    اس الیکشن میں کانگریس کو زبردست شکست سے سابقہ پڑا ہے۔ آسام میں وہ ضرور کامیاب ہوئی مگر وہ صرف اسلئے کہ وہاں کوئی قابل ذکر  حزب اختلاف نہیں تھا۔کیرالہ میں ہارتے ہارتے بچی، حالانکہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے خلاف جس طرح کی رائے عامہ تھی، اس کی وجہ سے اس کے مکمل اکثریت میں آنے کاامکان تھا۔ تمل ناڈو میں کانگریس محاذ کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پانڈیچری میںبھی شکست فاش ہوئی۔ بنگال میں کانگریس کےہاتھ جو کچھ لگا،اس میں اس کی کوششیں کم، ممتا کی کاوشیں زیادہ ہیں۔کل ملا کر کانگریس کو زبردستی مسکرانے کے بجائے نہایت سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔  اس کے لئے کانگریس کو جہاں ایک جانب بدعنوانوں اور بدعنوانیوںسے فاصلہ بنانا ہوگا ،وہیں اپنے سیاسی اور سرکاری فیصلوں کے وقت عوامی مفاد کا مناسب خیال رکھنا ہوگا کیونکہ اس کی امیج  ’عوام مخالف‘ کی بن گئی ہے۔ ایسا کرکے ہی آئندہ سال اترپردیش، پنجاب ، گجرات، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش،گوا اور منی پور کے  اسمبلی انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
    حالیہ ۵؍ ریاستوں میں بی جے پی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا.... اوراگر اس نے اپنی روش تبدیل نہیں کی، تو آئندہ بھی اس کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے۔اسے ایک ہندوسیاسی جماعت کے بجائے ایک ہندوستانی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنا ہوگا ... بصورت دیگر اسے آئندہ مزید جھٹکوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
    مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نے صرف اور صرف تبدیلی کا ذائقہ چکھنے کے لئے اس طرح کے اُلٹ پھیر کی مشق کی ہے......  لیکن اقتدار پر قابض جماعتیں اس اصول کو فراموش نہ کریں کہ تبدیلی کو ہی انقلاب کا پیش خیمہ کہا جاتا ہے۔

Monday 25 April 2011

حکومت ، عوام اور انا ہزارے

 کیا انا ہزارے نے حکومت کی دُ کھتی ر گ  پر ہاتھ رکھ دیا ہے؟
قطب الدین شاہد
لوک پال بل کے مطالبے سے یوپی اے حکومت بری طرح بلبلا اُٹھی ہے۔ حکومت بالخصوص کانگریس کی بوکھلاہٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں نے اس کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ یہ  بات درست ہے کہ محض لوک پال کی منظوری بدعنوانی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن..... اس سے ا س مریض کو کچھ تو افاقہ ہوسکتا  ہے.... مگر حکومت کو شاید یہ بھی گوارہ نہیں کہ اس کی روک تھام سے متعلق کوئی قدم اٹھایا جائے۔
    کسی بھی ملک میں انقلاب آنے کی موٹی موٹی دو تین وجہیں ہوتی ہیں۔
n جب حکومت آمریت میں تبدیل ہونے لگے
 nجب حکومت لوٹ کھسوٹ  پر اُتر آئے
nجب حکومت طبقاتی نظام کی سرپرستی کرنے لگے اور
nجب اپنے حقوق کے تئیں عوام میں بیداری آجائے۔
    یوپی اے حکومت کو اگر ان کسوٹیوں پر پرکھنے کی کوشش کی جائے تو ایسالگے گا کہ وطن عزیز میں انقلاب آنے کےلئے تمام ترجواز موجود ہیں۔ منموہن حکومت میںشروع کی تینوں علامتیں پائی جاتی ہیں.... بس چوتھی علامت کا انتظار ہے، یعنی جس دن عوام میں بیداری آگئی، حکومت کو اکھا ڑ پھینکنے میں تاخیر نہیں لگے گی۔
     آئیےچاروںنکات کااجمالی طورپرایک جائزہ لینے کی کوشش کریں۔
    افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پہلی میقات میں قدرے مناسب حکمرانی کے بعد عوام نے جس یوپی اے حکومت کے تئیں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا  اور اسے دوبارہ اقتدار سونپ دیا، وہ اب صریح آمریت پر اتر آئی ہے۔اس نے اس اصول کواٹھاکر طاق ِ نسیاں پررکھ دیا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت ہوتی ہے، جو عوام کے لئے کام کرتی ہے۔ دوسال سے بھی کم عرصے میں ایسے کئی مواقع آئے  جب جمہوری حکومت نے آمریت کا مظاہرہ کیا ہے اور  اپنی بے حسی (بلکہ اپنے  فیصلوں)سےاپنے عوام کو خون کے آنسو رلایا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کوشش میں جب جب اس کے قدم اکھڑے ہیں،اس نے مصالحت کا ڈرامہ بھی رچا ہے۔یہ مصالحت اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر نہیں بلکہ اقتدار بچانے کے لئے کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اے راجہ کو بچانے اور ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کو معمولی ثابت کرنے کی ضد میں اس نے پورے سرمائی اجلاس کو قربان کردیا تھا۔  اس ضد نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک مثال قائم کردی..... اور یقینا یہ کوئی اچھی مثال نہیں تھی۔ بی جے پی کی قیادت میں اپوزیشن کے ذریعہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنالینے کی حرکت کسی کو پسند نہیں آئی لیکن.....حکومت کے لاکھ پروپگنڈے کے باوجود یہ بات عوام پرمنکشف ہونے سے نہیں رہی کہ اس کے لئے اپوزیشن سے کہیں زیادہ ذمہ دار حکومت ہی رہی ہے۔بعد ازاں جب  بادل نخواستہ حکومت نے بدعنوانی کی تحقیقات کیلئے جے پی سی کے مطالبے کوتسلیم کرلیا.... تب بھی اس نے بدعنوانی کو کوئی عیب تصور نہیں کیا  بلکہ یہ کہتے ہوئے جے پی سی کے تشکیل کی بات کی کہ اسے ایوان کے ’تقدس‘ کا بڑا خیا ل ہے۔ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب حکومت نے بدعنوانوں کو بچانے کیلئے عوام  کے ساتھ اپوزیشن کے مطالبات کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھا ۔  دولت مشترکہ کھیل میں دولت کی ریل پیل  اور لوٹ کھسوٹ پر اول دن سے ہنگامہ رہا.... بار بار نشاندہی کے باوجود حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بلکہ وقفے وقفے سے لٹیروں کی پیٹھ بھی تھپتھپاتی رہی۔ عوام چیختے اور چلاتے رہے اور حکومت چین کی بانسری بجاتی رہی۔آدرش سوسائٹی گھوٹالہ بھی اس لحاظ سے ’مثالی‘ ثابت ہوا کہ حکومت نے محض وزیراعلیٰ کا چہرہ تبدیل کر مسئلہ  چٹکیوں میں’حل‘ کردیا۔
    آمریت کے ساتھ ساتھ حکومت اور اس کے کارندوں کی لوٹ کھسوٹ بھی جاری ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ملک جو اپنی نصف سے زائد آبادی کا پیٹ نہ بھرسکے، غریب اور پسماندہ ہی کہلانے کی مستحق ہے.... لیکن کیا واقعی ہم غریب ہیں؟ گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست پرنسپل ضیاء الرحمن انصاری نے ایک میل ارسال کیا تھا، جس میں ریاضی کے ذریعہ اس کی وضاحت کی تھی کہ ہم تمام ہندوستانی صرف کروڑ پتی ہی نہیں بلکہ ارب پتی بھی ہیں.... اوراگر فی الحقیقت نہیں ہیں تو اس کے لئے پوری طرح سے ہماری حکومت ذمہ دار ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ ٹو جی اسپیکٹرم  کے ذریعہ منموہن حکومت نے ہم ہندوستانیوں کے ایک لاکھ ۷۶؍ ہزار کروڑ روپوں کا چونا لگایا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی کل آبادی ۱۲۱؍ کروڑ ہے، اس طرح فی ہندوستانی کا ۱۴۵۵؍ کروڑ روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ذرا سوچئے کہ اگر اتنی موٹی رقم تمام ہندوستانیوں کو مل جائے تو کیا وہ غریب کہلائیں گے؟ کیا ان کے بچے بھوکے پیٹ سوئیںگے؟ کیا ان کے جسم پر چیتھڑے جھولیں گے؟ کیاان کی بیٹیاں شادی کو ترسیں گی ؟ کیا قرض کی ادائیگی سے پریشان کسان خود کشیاں کریںگے؟کیا وہ بچے جنہیں اسکول  جانا چاہئے،  وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہوںگے؟
    نہیں ! قطعی نہیں!! ۱۴۵۵؍ کروڑ روپے بہت ہوتے ہیں۔ اور یہ تو صرف ایک گھوٹالے کی بات ہے۔دولت مشترکہ، آدرش سوسائٹی، غیرملکوں میں جمع کالا دھن اور اسرو اسپیس گھوٹالوں کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے گھپلے ہوںگے، جو ہنوز پردے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی سمت سے بدعنوانی کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے، حکومت ناک منہ ٹیڑھے کرنے لگتی ہے۔لوک پال بل کے خلاف کانگریس اگر اتنی ناراض ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔
    حکومت طبقاتی نظام کی سرپرستی بھی کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے باقاعدہ حکومت کو لتاڑ لگائی کہ ’’یہاں دو ہندوستان ہیں‘‘.... ایک جانب جہاں ہر سال ارب پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہیں، وہیں اس کی مناسبت سے غریبوں کے نوالے بھی چھن رہے ہیں۔ ایک طرف امبانی  اور ٹاٹا کروڑوں کے سامان کوڑیوں کے بھاؤ خرید رہے ہیں، دوسری طرف عام ہندوستانی راشن کے اشیاء کو بھی ترستا ہے۔ ایک طرف کروڑوں کے گھوٹالے کرنے والوں پر سرکار کی مہربانی ہوتی ہےتو دوسری طرف جیتا پور میں اپنے حقوق اور اپنی بقاکی لڑائی لڑنے والوں پر حکومت ڈنڈے برساتی ہےاور ان کی حرکتوں کو ملک کی ترقی کے خلاف سمجھتی ہے۔ حالانکہ اس معاملے پر بار بار سپریم کورٹ اس کی سرزنش کرتا رہا ہے لیکن حکومت نے جیسے ہوش کے ناخن نہیں لینے کی قسم کھا رکھی ہو۔ ہندوستان بلکہ شاید بین الاقوامی تاریخ میں کسی ملک کی سپریم کورٹ نے کسی حکومت کو اتنی پھٹکار نہیں لگائی ہو گی جتنی ہندوستان میں مودی کی ریاستی اور منموہن سنگھ کی مرکزی حکومت کو  لگ چکی ہے۔ مودی کو فرقہ پرستی کے لئے اور منموہن سنگھ کو بدعنوانی اور غریبوں کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے لئے۔
    ان حالات میں عوام کے پاس یہی ایک چارہ بچتا ہے کہ وہ حکومت سے اس کی باز پرس کریں۔ انقلاب تو خیر بہت دور کی بات ہے لیکن احتساب ضروری ہے اور جب تک ہم احتساب کرنا شروع نہیں کریں گے،  اسے بدعنوانی سے روکا نہیں جاسکتا۔
    گزشتہ دنوں جس طرح بدعنوانی کے معاملے پر تمام ہندوستانی متحد ہوئے تھے، ایک بار پھر ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت سمجھتی  ہے کہ کچھ دنوں تک ہزارے اوران کی ٹیم کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش جاری رکھی جائے تو عوام کی توجہ لوک پال بل سے ہٹ جائے گی......  اور پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ، عوام سب کچھ بھول جائیں گے۔ لیکن عوام کو یہ بات واضح کردینی ہوگی کہ ہمیں ہزارے اورا ن کی ٹیم سے کوئی ہمدردی ہو ..... یا نہ ہو لیکن ہمیں بہرحال بدعنوانی روکنے اور اس بہانے لوک پال بل سے ہمدردی ہے۔ اگر اس سلسلے میں حکومت نے کوئی تساہلی  برتی، عوام اور ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو عوام اس کا سخت نوٹس لیںگے۔  کیا ہم اب بھی بیدار نہیں ہوںگے؟ آخر وہ وقت کب آئے گا؟

Monday 18 April 2011

حکومت اورہزارےکے درمیان لفظی تکرار میں
 کہیں  پوری تحریک پر پانی نہ پڑ جائے!
گزشتہ دنوںبدعنوانی کے خاتمے کیلئے پورے ملک میں ایک زبردست تحریک چلی جس کے آگے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔لیکن اب معاملہ دوسرا رخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں ہزارے اور ان کے ساتھی اس کا پورا کریڈٹ  اپنے سر لیناچاہتے ہیں..... وہیں حکومت نے بھی اپنے رنگ دکھانے شروع کردیئے ہیں۔ اس موقع پر عوام کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے.... کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پوری تحریک پر ہی پانی پڑ جائے!
قطب الدین شاہد
انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ۴؍ روزہ بھوک ہڑتال کے دوران اندرون و بیرون ملک جو صورت حال دیکھنے کو ملی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔ ایک جانب جہاں یو پی اے حکومت کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی، وہیں دوسری جانب انا ہزارے اوران کے ساتھی خود کو ’’لارجر دَین لائف‘‘ تصور کرنے لگے۔سیاست دانوںسے عوامی برہمی اتنی زیادہ تھی  اور ہرگزرتے لمحے کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا تھا..... کہ اگر وہ سلسلہ دو چاردن اور جاری رہا ہوتا تو .....سیاست دانوں کو اقتدار کے گلیاروںسے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہونا پڑتا۔ خیرحکومت چانکیائی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی.... اور ہزارے کے مطالبات جو پورے ملک کےعوام کے مطالبات کی شکل اختیار کرچکے تھے.... ’تسلیم‘ کرلیا۔ اس طرح دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اپنے قدموں کو سنبھالا دیا اور اپنی بقا کا انتظام کرلیا... مگر ہزارے اوران کے ساتھی اس غیر متوقع کامیابی کو جو پورے ملک کو ملی تھی، اپنی کامیابی سمجھنے کی غلطی کی....اور پھر اس کامیابی کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔نتیجے میں ایسی ایسی غلطیاں ہوئیں،کہ پوری تحریک خاک میں ملتی ہوئی نظر آنے لگی۔بدنام زمانہ وزیراعلیٰ مودی کی تعریف و توصیف اسی نشہ کانتیجہ تھا۔
    ہزارے اور ان کے ساتھیوں میں یوپی اے حکومت جیسی سیاسی بصیرت ہوتی تو حکومت کے ذریعہ مطالبات تسلیم کیے جانے کو وہ اپنی کامیابی تصور نہیں کرتے  اورنہ ہی اس خمار کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے بلکہ اس مقصد کو انجام تک پہنچانے کے لئے آگے کا لائحہ عمل طے کرتےاورعوام کو اپنے ساتھ رکھتے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے تھی کہ حکومت نے شکست تسلیم نہیں کی تھی بلکہ ایک طوفان کو روکا تھا..... وہ ایک ایسا طوفان تھا جہاں اکڑ نے میں نہیں.. جھک جانے میں دانشمندی تھی۔اس طوفان میں اگر وہ انا کا مظاہرہ کرتی تو خش و خاشاک کی طرح  بہہ جاتی اور حسنی مبارک اور زین العابدین کے انجام کو پہنچتی۔ایک طرح  سے وہ اس کا دفاعی ہتھیار تھا جس کا اس نے بخوبی استعمال کیا.... اور اب جبکہ اس کے قدم سنبھل چکے ہیں،اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔ جس طرح کے خدشات کااظہار کیا جارہا تھا، اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ مختلف بہانوںسے  اس تحریک کو کچلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان اراکین کو کبھی غیر سنجیدہ کہا جارہا ہے تو کبھی فرقہ پرست اور کبھی بدعنوان ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    یہ تمام باتیں اگر درست ہوں تب بھی.....حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ تحریک بھلے ہی ہزارے اور ان کے ساتھیوں نے شروع کی ہو.... لیکن یہ تحریک  ہزارے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے اور عوام و خواص کے ایک بڑے طبقے کی اسے حمایت حاصل ہے۔ دراصل لوگوں کو  ہزارے سے نہیں بلکہ بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے۔ اس لئے حکومت یہ سمجھنے اور سمجھانے کی غلطی نہ کرے کہ ہزارے اوران کے ساتھیوں میں خامیاں ہیں... بلکہ یہ بتائے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے وہ کیا کررہی ہے؟حکومت اگر خود بدعنوانی کے خاتمے کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو جو کچھ ہوا، اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک لوگوںنے انا ہزارے کا ساتھ صرف اور صرف اسلئے دیا کہ وہ بدعنوانی سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ہزارے پر آر ایس ایس کے اثرات نمایاں ہیں، عوام و خواص نے صرف اس لئے حمایت کی، کہ کسی بھی طرح  بدعنوانی کے دیو پر قابو پایا جائے جو روز بروز توانا ہوتا جارہا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بھی جب کسی خطرناک مرض کی زد میں آتے ہیں .. اور علاج معالجے کی کافی کوششوں کے بعد بھی صحت یاب نہیں ہوتے .....تو اپنی جان بچانے کی خاطر یہ لوگ زندگی بھر اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنانے والے جھاڑ پھونک والے باباؤں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ ہزارے اور ان کی تحریک میں کتنے کیڑے ہیں، بلکہ یہ بتانے کی کوشش کرے کہ وہ خود بدعنوانی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہوئی یا نہیں؟ اور  اس سلسلے میں اس کے آئندہ کے لائحہ عمل کیا ہیں؟
     آئیے اب بات کرتے ہیں، حکومت اور اس کی کوششوں پر۔ حکومت نے اُس وقت مطالبات تسلیم توکرلیا تھا لیکن اس کی نیت میں کھوٹ شروع ہی سے تھی..... دراصل مطالبات تسلیم کرنا اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس اورکوئی چارہ نہیں تھا..... لیکن اب جبکہ حالات نارمل ہوگئے ہیں،وہ اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔حکومت کو لگتا ہے کہ جس طرح ماضی میں بہت ساری کمیٹیاں اور کمیشنیںوجود میں آئیں، ان کی رپورٹیں اور سفارشات  پیش ہوئیں، کچھ تو یوں ہی سرد خانے میں چلی گئیں اور کچھ پر بحث مباحثے بھی ہوئے .... مگر سبھی کے نتائج ڈھاک کے تین پات ہی نکلے.... بالکل اسی طرح لوک پال بل کے لئے تشکیل دی گئی ڈرافٹ کمیٹی بھی اپنے انجام کو پہنچے گی۔اسی لئے حکومت نوٹی فیکیشن جاری کئے بغیر یعنی غیر رسمی کمیٹی ہی بنانی چاہی تھی لیکن عوامی دباؤ کے آگے اسے جھکنا پڑا تھا۔ کمیٹی میں شامل ۲؍  وزرا کپل سبل اور سلمان خورشید پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیںکہ لوک پال بل سے کچھ نہیں ہوگا۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اس کے تئیں کتنی سنجیدہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اس نے پہلے ہی سے ذہن بنا لیا ہے کہ اس بل سے کچھ ’فائدہ‘ نہیں ہوگا، تو بیل کیوںکر منڈھے چڑھے گی؟ٹوجی اسپیکٹرم معاملے میں اپنے بیانات کے ذریعہ پر لیپا پوتی کرکے اپنی شبیہ خراب کرلینے والے کپل سبل نےسوال کیا کہ ’’کیا لوک پال قانون سے سبھی کو تعلیم یا پینے کا پانی  میسر ہو گا؟‘‘ حالانکہ ایسا کہہ  کروہ کسی اور کی نہیںبلکہ خود اپنی ہی نااہلی کا اظہار کررہے ہیں ....اس سوال کا جواب تو خود انہیں دینا چاہئے کہ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل انہوں نے کیا کیا؟ یہ ان کی ذمہ داری ہے ، کسی اور کی نہیں۔ دگ وجے کانگریس کے ایک بڑے رہنما  اور آل انڈیا جنرل سکریٹری ہیں۔   ہزارےکے بل میں انہیں بھی  ہزار خامیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوک پال کے دائرے میں صنعت کاروں اور غیر سرکاری اداروں کو بھی لایا جانا چاہئے۔ان سے کہاجاسکتا ہے کہ حضور حکومت آپ کی ہی ہے، آپ کو مشورہ دینے کی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔کس نے منع کیا ہے آپ کو؟کچھ بھی کیجئے لیکن بدعنوانی کو روکئے... جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے۔
    کچھ لوگوں کو انا ہزارے کا طریقہ پسند نہیں آیا۔ وہ لوگ اسے بلیک میلنگ کا نام دیتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اور کون سا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اور  اگر یہ بلیک میلنگ ہے تووہ بتائیں کہ تحریک آزادی کے رہنماؤں کے بارے میں وہ کیارائے رکھتے ہیں؟ انگریز حکومت  سے اپنی بات منوانے کیلئے کم و بیش اُن کے طریق کار بھی کچھ اسی طرح کے تھے۔ بعض لوگوں کو لوک پال میں آمریت کی بو آتی ہے۔اگر ایسی بات ہے تو اس پر ڈرافٹ کمیٹی میں ضرور تبادلہ خیال ہوگا۔ظاہر سی بات ہے کہ انا ہزارے اوران کی ٹیم آمریت کے حق میں نہیں ہے۔جن لوک پال بل کے متعلق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قانون سازی، قانون سازوں کا کام ہے،عوام کا نہیں... وہ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ انقلاب تبھی آتا ہے جب قانون ساز اپنی ذمہ داریوںسے پہلو تہی کرنے لگتے ہیں.. اور جب انقلاب آتا ہے تو قانون سازی ہی نہیں پوری عنان حکومت عوام کے ہاتھوں میں آتی ہے۔گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، اسے چھوٹا موٹا انقلاب ہی تو کہہ سکتے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی بھی موجودہ صورت حال سے خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کے تئیں نفرت کااحساس پیدا کرنا جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ حیرت ہے!بابری مسجد کی مسماری کی تحریک چلانے ،گجرات میں ہندتوا کی لیباریٹری تیار کرنےاور مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری سمجھنے والے لال کرشن اڈوانی کو بھی سیاست دانوں کے تئیں نفرت  میں اضافے سے تشویش ہے۔
    سیاست داں عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں،  بشرطیہ کہ وہ اپنے اندر اپنی ذمہ داریوں کا ۱۰؍ فیصد بھی احساس پیدا کرلیں۔اگر انہیں عوامی نفرت اور ان کے غیض و غضب سے بچنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ان کے منہ سے نوالے چھیننے کی روش ترک کردیں۔حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں...وہ تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں... کہ عوام بیدار ہوچکے ہیں..... فی الحال و ہ بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں، جیسے بھی اور جس طرح بھی ہو۔ حکومت  کے ذریعہ ہو،  اپوزیشن کے ذریعہ ہو، انا ہزارے کے ذریعہ ہو، یا اور کسی کے ذریعہ۔  اگر اس مرتبہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا.... تو شاید دوسری مرتبہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے۔n