Saturday 25 June 2011

تعلیمی پسماندگی اور ہم

اکیسویں صدی اور ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی
اکثریتی فرقے سے سوا کام کرکے ہی کوئی اقلیت سرخرو ہوسکتی ہے
 اپنی پسماندگی کا رونا ہم بھی روتے ہیں اور کبھی کبھی حکومت بھی مگر مچھ کے آنسو بہاتی نظر آتی ہے لیکن..... سچ پوچھیںتو اس پسماندگی سے باہر نکلنے کی سنجیدہ کوشش
 نہ ہماری جانب سے ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے۔ ہمیں ہرگز ہرگز یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا تعلق ایک  اقلیتی فرقےسے ہے اور
 کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی فرقے سے سوا کام نہ کرے۔

قطب الدین شاہد
بلاشبہ ہم  نے تعلیمی ترقی کی ہے۔حالیہ چند برسوں میں ہماری تعلیمی شرح اور ہمارے تعلیمی معیار میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ تنویر منیار، بلال مستری، زرین انصاری ، رضوانہ انصاری، الماس سید، مولانا وسیم الرحمن  اور ڈاکٹر فیصل جیسے کئی ستارے آسمان تعلیم پر جگمگائےہیں ......لیکن ان سب کے باوجود اس کارکردگی کو اطمینان بخش ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ہمارا تعلق ایک اقلیتی فرقے سے ہے اور کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی  فرقے سے سوا کام نہ کرے۔ لہٰذا ان چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہماری حالت تبدیل ہونے والی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔
    سچر کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام   پر آنے سے قبل ہی ہمارے دانشوروں  اور مدبروں نے اس مرض کی تشخیص کرلی تھی اورصاف صاف کہہ دیا تھاکہ ہماری (مجموعی) پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیمی پسماندگی  ہے۔  پوری طرح سے ہم اسے اپنی غفلت اور تساہلی کا نام بھلے ہی نہ دیں لیکن اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ اس کیلئے حکومت ہی مکمل ذمہ دار نہیں ہے۔سچر کمیٹی کے قیام کے اعلان کے بعد ایک ٹیلی فونک گفتگو میںکمیٹی کے ایک  اہم رکن اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد نے کہا تھا کہ ’’رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے مسلمانوں کو یقینا فائدہ ہوگا..... اس لئے نہیں کہ حکومت کچھ کرے گی.... بلکہ اس لئے کہ ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری کمزوری کیا ہے اور ہمیں کہاں زیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘
    یقینا یہ بات ہمارے لئے بہت اہم تھی۔ ہم چاہتے تو سچر کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اپنی پسماندگی دور کرسکتے تھے۔مذکورہ کمیٹی نے اپنے مشاہدے میں یہ بات کہی ہے کہ تعلیم کے تئیں عام مسلمانوں میں جوش و خروش خوب ہے مگر معاشی پسماندگی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے لئے کمیٹی نے حکومت سے چند سفارشات بھی کی ہیں..... لیکن جیسا کہ سید حامد صاحب نے کہا تھا کہ ہمیں حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اس جانب خود قدم بڑھانے کی ضرورت تھی.....بلکہ ضرورت ہے۔تسلیم کہ ہمارے یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے یہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جنہیں صاحبِ دولت، صاحب ِ ثروت  اور صاحبِ حیثیت کہاجاتا ہے۔ ہاں!کمی ہے تو اُن کے اخلاص میں ، ان کے احساس میں اور ان کی سنجیدگی میں۔ مستثنیات  سے قطع نظر ان کی اکثریت  قوم کے تئیں بے حس نظر آتی ہے۔  ان حالات میں اگر کہیں سے یہ خبر آئے کہ فلاں جگہ چند  افراد نے قوم کی تعلیمی کفالت کا بیڑا اٹھانے کا عزم کیا ہے تو یقینا ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کی خبریں حبس زدہ کمرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کا مزہ  دے جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے برسات کی اندھیری رات میں کوئی جگنو روشنی بکھیر تے ہوئے یہ پیغام دے رہا ہو کہ اندھیرے کاقلع قمع کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی اور ا نفرادی کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔
     اگر ہم اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں کہ قوم کو صد فیصد تعلیم یافتہ بنانا اور انہیں کسی قابل بنانے میں حائل تمام دشواریوں کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اپنی بساط بھر کوشش کرنی ہوگی ، خواہ یہ بساط چھوٹی ہی کیوں نہ  ہو..... البتہ اپنے عزم سے ہمیں ثابت کر نا ہوگا کہ ہمارا تعلق کشتیاں جلا دینے والی قوم سے ہے۔
      یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ اسے ہم  قول و فعل کا تضاد کہیں  یامنافقانہ رویہ..... کہ مجلسوں میں ہم قوم کی تعلیم پر ٹسوے بہانے سے بالکل دریغ نہیں کرتے بلکہ ضرورت پڑتی ہے توآٹھ آٹھ آنسو بھی رولیتے ہیں مگر جب بات عملی مظاہرے کی ہوتی ہے تو  اپنے اپنے بلوں میں جا گھستے ہیں یا دوسروں کامنہ دیکھنے لگتے ہیں...... آج ہمارے سماج کا یہی  حال ہے۔ اس طرح کی خبریں اکثر سماعت سے ٹکراتی ہیں کہ دسویں  یا بارہویںمیں ۹۰؍ فیصد سے زائد مارکس حاصل کرنے والا طالب علم محض اس لئے گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے والد کی تہی دامنی کااحساس ہوتا ہے، وہ نہیں چاہتا یا چاہتی کہ اس کے والد اس کیلئے دردر بھٹکیں اور ذلیل و خوار ہوں..... اور بعض تو رسوا ئی  کے بعد  ہمت ہارتے ہیں۔
    یہ کوئی کہانی نہیںہے بلکہ حقیقتاً اس طرح کے بہت سارے واقعات ہر جگہ اور ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ جن بچوں کو اچھے کفیل مل جاتے ہیں، وہ کسی طرح داخلہ پاجاتے ہیں اور بعدمیں سرخرو بھی  ہوتے ہیں مگربہت  سے طلبہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ اپنے ارمانوںکو  بھی پی جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے چادر کی تنگی سے واقف ہوتے ہیں  اور قوم کے رویے سے بھی آشنا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر طرح سے اہل ہونے کے باوجود وہ ذہین بچے داخلہ نہیں لے پاتے..... اور اس طرح  قوم کے ایک ذہن کو کھلنے سے قبل ہی بندکردیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ اس سے قوم کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔
    ممبئی ہو، دہلی ہو، کولکاتہ ہو لکھنؤ ہو یا دیگر چھوٹے  بڑے شہر اور قصبے ۔ تقریباً ہر جگہ یہی صورتحال ہے۔ دیہاتوں کی حالت تو مزید ابتر ہے۔ ہماری قوم میں یقیناً بعض ایسے ٹرسٹ  ہیں اور بعض مخیر حضرات بھی جو تعلیمی کفالت کی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھارہے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے..... بلکہ سچ کہا جائے تو یہ کہ جب کبھی انہیں شمار کرنے بیٹھیں توایک دو سے بات آگے بڑھانی مشکل ہوجاتی ہے۔  
    ایسا بھی نہیں ہے کہ ہماری قوم کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہزاروں روپئے پھونک دیئے جانے کی بدعت اب متوسط طبقے میں بھی وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔ شادیوں میں فضول خرچی اور جھوٹی شان کے دکھاوے میں اسراف اب عام سی بات ہے۔ انتخابی دنوں میں پیسے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کارپوریشن کے ٹکٹ اور چھوٹے موٹے سیاسی عہدوں کے حصول کے نام پر لاکھوں روپے لٹانے کی خبریں بھی آتی ہیں مگر ..... افسوس کہ جب ان کے در پر کوئی شخص کوئی مقصد لے کر پہنچتا ہے.....کسی بچے کے مستقبل کی بات کرتا ہے.... تو یہ حضرات پہلے اسے بھرپور نصیحت کرتے ہیں کہ..... یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے برعکس یہ کرتے ...... وہ کرتے.....  اور پھر نصیحت ختم ہونے پر آئی تو بڑی مشکل سے چہرے کے زاویے بگاڑ کر دیئے بھی تو ہزار دو ہزار......  جب کہ اسے ضرورت ہے ۶۰؍ سے ۷۰؍ ہزار روپوں کی۔  ایسے میں دو تین جگہ جانے کے بعد ہی اکثر والدین ہمت ہار جاتے ہیں اور گھر آکر اپنے بچوں سے عاجزی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مناسب ہو تو اپنے ارمانوں کانہیں تو ہمارا  گلا گھونٹ دو کیونکہ کسی کے آگے دست سوا ل دراز کرکے ذلیل و رسوا ہونے کی اب  ہم  میں مزید سکت نہیں رہ گئی ۔
    اس میں قطعی مبالغہ آرائی کا مظاہرہ نہیں ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے،سامنے کی باتیں ہیں ۔ ہمارے سماج میں آج یہی ہورہا ہے۔ حالانکہ وہی لوگ جب کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ڈینگ مارنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ قوم کی حالت پر افسوس کریں گے،  حکومت کو کوسنے کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں کے طلبہ سے اپنے بچوں کا موازنہ کرتے ہوئے ’زمین بنجر‘  ہونے کا ماتم بھی کریںگے۔ اگر ان کا تعلق سیاست سے ہے تو پھر کیا پوچھنا، اسٹیج سے دھواں دھار تقریریں ہوں گی۔ پانی پی پی کر پسینے بہائیںگے اور حاضرین کو یہ احساس دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ قوم کے غم میں ان سے زیادہ دبلا ہونے والابھلا کوئی اورکہاں ہے؟
    کسی قوم کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہوگی جب تک کہ اسے بدلنے کے کیلئے اس قوم کے افراد آگے نہیں آئیںگے۔اس تصویر کو بدلنے کیلئے حالانکہ طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن فوری طور پریہ توکیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے زکوٰۃ اور بینکوں میں اپنے رقوم پر ملنے والے سود کو ہی اس مصرف میں لے آئیں۔ چھوٹی سطح پر دیکھا جائے تو ہر محلے کے دو چار اشخاص مل کرکسی ایک دو طالب علم کے کفیل بن سکتے ہیں۔ کتابیں اور بیاضیں تقسیم کرنے والی جماعتیں بھی  اپنے سابقہ ڈھرے سے ہٹ کر اس رقم سے طلبہ کی کفالت کرکے ہر سال ایک دو طالب علم کو پروفیشنل بنا سکتی ہیں۔ اسی طرح جلسے جلوس پر خرچ کرکے سیاسی شہرت بٹورنے والی جماعتیں بھی دوچار بچوں کی سالانہ کفالت کرسکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو انشاء اللہ  ہمارے سماج میںایک انقلابی تبدیلی رونما  ہوگی۔ رہی بات تشہیر کی تو ہم بھی اس قول پر اعتبار کرتے ہیں کہ ’’جس دن نام ونمود کی خواہش ختم ہوجائے گی، فلاحی کام کم ہوجائیںگے۔‘‘ ہم نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں بہت زیادہ رازداری برتنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ لوگ سامنے آتے ہیں اور سماج کے سامنے اس بات کاکریڈٹ لیتے ہیں کہ ’’ہم اتنے طلبہ کی تعلیمی کفالت کرتے ہیں‘‘  تو کوئی حرج نہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے انہیں یہ کریڈٹ دینی  ہی چاہئے اوراس بات کیلئے ان کی پذیرائی بھی کرنی چاہئے.....کیونکہ اگر ہمیں تعلیمی ترقی کرنی ہے تو ہمیں تعلیمی کفیل بھی پیدا کرنے ہوںگے۔

Saturday 11 June 2011

رام دیو کی رام لیلا

 
رام دیو کو رام لیلا سے ہردوار پہنچانا اچھا فیصلہ تھا.....
 
جو ہوا، اچھا ہوا، مگر جس طرح ہوا، و ہ اچھا نہیں ہوا!!
 
رام دیو کی حرکتوں کودیکھتے ہوئے انہیںرام لیلا میدان سے ہٹانا ضروری تھا لیکن جس طرح راتوں رات انہیں ہٹایا گیا، وہ کسی بھی طرح درست نہیں تھا۔ ایک جمہوری ملک میں قطعاً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یقیناً اس میں قصور رام دیو کا بھی ہے لیکن اس سے کہیںزیادہ قصور حکومت کا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یوگا گرو کو شروع سے وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو انہیں حکومت کی جانب سے دی گئی...... وہ کسی بھی طرح اس تکریم کے حقدار نہیں تھے....اس کے باوجودانہیں ہردوار پہنچانے کیلئے جو طریقے استعمال کیے گئے، وہ بھی کسی طرح مناسب نہیں کہے جاسکتے۔
 قطب الدین شاہد
منزل کا تعین نہ ہو تو سفر میں کتنی بھی بھاگ دوڑ کی جائے وہ بے سود اور سعی لاحاصل ہوتی ہے۔ کچھ اسی طرح ان دنوںمرکزی حکومت بھی اندھیرے میںٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آرہی ہے۔ رام دیو معاملے میں اس کے اقدامات میں کسی طرح کی منصوبہ بندی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی.... ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے سمت کااندازہ کئے بغیر دوڑ لگانی شروع کردی ہے، یا پھر ممکن ہے کہ وہ کر کچھ اور رہی ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہے۔
    ۴؍جون کی نصف رات کو نہایت عجیب و غریب طریقے سے حکومت نے بابا رام دیو کو دہلی کے رام لیلا میدان سے اٹھا کر ہردوار پہنچادیا۔ایسا کیو ں ہوا؟ اس سے تقریباً وہ تمام لوگ واقف ہیں،جو رام دیو کے پس منظر اور کانگریس کی نفسیات سے واقف ہیں۔رام دیو کچھ بھی کریں یا کہیں..... ان کی تان بالآخرآر ایس ایس کی حمایت پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ اسی طرح کانگریس کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جس سے اسے کام نکالنا ہوتا ہے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور جیسے ہی اس کا مفاد پورا ہوتا ہے، اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتی ہے....... یہی وجہ ہے کہ حکومت کیلئے اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں رہا کہ ایسا کیا ہوگیاکہ ایک روز قبل سرخ قالین بچھا کر استقبال کی جانے والی اور چارچار اہم وزراء کے ذریعہ خیر مقدم کرائی جانے والی شخصیت اچانک معتوب قرار دے دی گئی....اور معتوب بھی کچھ اس طرح کہ جس شخص کی کل تک وزیراعظم منت سماجت کرتا نظر آتا تھا،اسے معمولی پولیس اہلکاروں کے خوف سے زنانہ لباس اختیار کرکے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔رام دیو کی جو خامیاں حکومت آج بیان کررہی ہے، وہ اس شخص کے اندر راتوں رات نہیں پیدا ہوئیں بلکہ وہ پہلے سے تھیں اور ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کررہا تھا لیکن حکومت کے کانوں پر جوں اس لیے نہیں رینگ رہی تھی کہ اس شخص سے حکومت کے مفاد پر کوئی ضرب نہیں پڑتی تھی بلکہ کہیں نہ کہیںوہ اس کے مفاد میں معاون ہی ثابت ہوتا تھا۔
    سچی بات تو یہ ہے کہ اول تا آخر رام دیو اسی سلوک کے حقدار تھے......مگر یہاں ایک رام دیو ہی کیا......اس طرح کے عناصر کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر جاکر غیر سماجی ہوجاتی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ، وہ آزادانہ طور پر یہاں سے وہاں دندناتے پھرتے ہیں۔حکومتیں عموماًان کی سرپرستی کرتی ہیں اوران پر ہاتھ تبھی ڈالتی ہیں جب وہ ان کی اطاعت سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میںکچھ اسی طرح کی بات نظر آتی ہے۔ ۴؍ جون کی نصف شب میں رام دیو کے خلاف ہونے والی کارروائی اوراس کے بعد حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے بیانات سے بظاہر یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یوگا گرو کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے..... اگر ایسا ہے تو اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے...... لیکن اسی کے ساتھ حکومت کے اس رویے کی مذمت بھی ہونی چاہئے کہ ..... کسی کے خلاف کارروائی اس وقت کیوں، جب وہ حکومت یا کسی خاص جماعت کا مہرہ بننے سے انکار کردے؟ یہ کارروائی اسی وقت کیوں نہیں ہوتی جب وہ جرائم کا ارتکاب کرتا ہے یا اس کے جرائم آشکار ہوتے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پر کئی سنگین الزامات لگائےہیں۔ آئیے ان الزامات کاا یک سرسری جائزہ لیتے ہیںا ور اس کی روشنی میں حکومت کی ’سنجیدگی‘کااندازہ لگاتے ہیں۔ حکومت نے رام دیو پر آر ایس ایس کے اشارے پر ناچنے کاالزام عائد کیا ہے۔  یہ ایک ایسی بات ہے جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ رام دیو نے بھی کبھی اسے مخفی رکھنے کی کوشش کی ہو۔ اب اگر کل کانگریس یہ ’سنسنی خیز انکشاف‘ کرے کہ مودی آر ایس ایس کے مہرے ہیں توکیا ہمیں اس پر بغلیں بجانی چاہئیں؟ ویسے تعزیرات ہند کے لحاظ سے کسی کے اشارے پر ناچناکوئی جرم نہیں ہے، لہٰذا یوگا گرو کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اگر ان کی سرگرمیاں مجرمانہ ہیں تو پھر ضرور ان کے خلاف کارروائی ہو نی چاہئے مگر اس صورت میں رام دیو کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کانگریس کی قیادت والی حکومت ایسا کرے گی؟
    رام دیو پر دوسرا الزام فرقہ پرستی کا ہے۔حالانکہ حکومت اسے الزام کہتی ہے مگر سچائی تو یہ ہے کہ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ محض آٹھویں جماعت تک عصری تعلیم حاصل کرنے والے یوگا گرو سنِ بلوغیت تک پہنچنے سے لے کر اب تک  فرقہ پرستانہ خیالات رکھنے والوں کے ساتھ ہی اُٹھتے بیٹھتے رہے ہیں اور ان کے ’کاز‘ کی کھلی حمایت کرتے رہے ہیں۔سنگھ پریوار کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے رام دیو نے بھی بابری مسجد کی جگہ پر غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے رام مندر بنائے جانے کی وکالت کی  ہے اوران عناصر کی حمایت و سرپرستی کی ہے جو فرقہ پرستانہ مہم چلا کر ملک کی فضا مکدر کرتے رہے ہیں۔اگر اسے بنیاد بنا کر رام دیو کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انہی بنیادوں پر یہ حکومت ان کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جو رام دیو کے نظریہ ساز رہے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پربدعنوانی کاا لزام بھی لگایا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بہت معمولی عرصے میں ایک ایسے شخص نے جس کے لئے دونوں وقت کے کھانے کاانتظام کرنا بھی مشکل تھا، ۱۱؍سو کروڑ روپوں کی ’امپائر‘ کیسے کھڑی کرلی ؟سوال بالکل درست ہے اوراس کی تہہ تک پہنچانا لازمی ہے..... مگر یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ رام دیو پر بدعنوانی کا یہ الزام ۴؍ جون کے بعد ہی نہیں لگا ہے بلکہ عوامی سطح پر اس طرح کی چہ مگوئیاں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ حکومت بھی اس سے واقف رہی ہوگی۔ ایسے میں اس بدعنوان شخص کے خیر مقدم کے لئے ۳؍ جون کوحکومت نے ۴؍ ۴؍ اہم وزراء کو کیوں کر تعینات کررکھا تھا جو بڑی بے صبری سے ایئر پورٹ پر ’بابا‘ کے دیدار کیلئے پلکیں بچھائے کھڑے تھے۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں معمولی عرصے میں اس طرح کروڑوں کی ملکیت جمع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ وہ حکومت کی نظرعنایت سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تعلق سے بھی یہ بات عام ہے کہ ان کے یہاں مالی شفافیت کا فقدان پایا  جاتا ہے۔ بالخصوص رام مندر تحریک کے ذریعہ جمع ہونے والی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ کیا حکومت ان معاملات کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گی؟
    دگ وجے سنگھ نے رام دیو پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ دگ وجے سنگھ حکومت کے نہیں مگر برسراقتدار جماعت کے ایک اہم رکن ہیں، لہٰذا ان کے بیان کو حکومت کا بیان سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دگ وجے سنگھ کے الزام بہت سنگین ہیں....لہٰذا اس پر فوری کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہےکہ کیا حکومت نے واقعی اس معاملے میں کچھ ثبوت جُٹا لیے ہیں، یا یہ صرف ایک زبانی جمع خرچ ہے۔یہ شک اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دگ وجے سنگھ ’شوشے‘ چھوڑنے میں ماہر ہیں۔ بسا اوقات ان کے ’شوشوں‘ میں صداقت بھی ہوتی ہےلیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔اس کی واضح مثال سخت گیر ہندتوا کی دہشت گردی کا معاملہ ہے۔ دگ وجے سنگھ بہت پہلے سے اس کا ’انکشاف‘ کرتے رہے ہیں مگر وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے انہیں صرف اسی طرح کے بیانات دینے پر مامور کررکھا ہے تاکہ اس سےعوامی رد عمل کا اندازہ لگاتی رہے اور جہاں اسے مناسب لگے کارروائی بھی کرے۔
    یعنی مطلب صاف ہے ۔ رام دیو کے خلاف حکومت کی کارروائیاں اس لئے ہورہی ہیں کہ اس شخص نے کانگریس کا مہرہ بننے کے بجائے آر ایس ایس کا مہرہ بننے کو ترجیح دی۔بڑے تام جھام سے کانگریس نے یوگا گرو کو انا ہزارے کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس ’شخص‘ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔یہاں ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اب حکومت رام دیو کے تمام کچے چٹھوں کا حساب لے گی۔ قطعی نہیں.....یہ کارروائیاں بلکہ یہ دھمکیاں اسی وقت تک ہیں، جب  تک یہ ہنگامے تھوڑے سرد نہیں پڑ جاتے۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رام دیو کے ذریعہ مسلح فوج بنانے کی بات ہی اسے تاعمر قید خانے میں زندگی گزارنے پر مجبور کرسکتی تھی لیکن حکومت نے اس کا نوٹس اس طرح لیا ہی نہیں جس طرح لیا جانا چاہئے تھا.... ذرا غور کیجئے کہ رام دیو کی جگہ پر کوئی شیخ یا خان نے اس طرح کی بات کی ہوتی تو کیا ہمارے وزیرداخلہ اسی طرح کی تنبیہ کرتے کہ ’پہلے فوج بناؤ، ہم بعد میں نمٹیںگے‘۔ مطلب یہ کہ ہائی پروفائل ڈرامہ ابھی جاری ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عوامی ردعمل کس طرح کے ہوتے ہیں؟ رام دیو کی عوامی حیثیت نہ تو پہلے ہی تھی اور نہ ہی اب ہے، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت سے عوام کس طرح نمٹتے ہیں؟

Saturday 4 June 2011

ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 یوگا گرو کا بھوک ہڑتال پر بیٹھنا اور حکومت کا انہیں منانے کی کوشش کرنا
 ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 مگر ’ اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں ‘کے مصداق کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس نے جو ایجنڈہ تیار کیا تھا، اسے بی جے پی نے اُچک لیا۔ان حالات میں حکومت چاہے تو بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ ہوکر  اپنی اس ناکامی کاازالہ کرسکتی ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ  بابا رام دیو کو منانے کے بجائے بدعنوانوں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ بدعنوانی کا قلع قمع ہوسکے۔

قطب الدین شاہد
زمانہ طالب علمی میں ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی ہماری رہنمائی کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ یہ شخص جو پِٹ رہا ہے، یہی اس ڈرامے کا خالق و ہدایت کار ہے۔ یہ جو کہتا ہے، وہی دوسرے فنکارکرتے ہیں۔‘‘ اُس وقت  ہماری سمجھ میں یہ بات آئی نہیں کہ یہ شخص جو اس ڈرامے کے زیر و زبر کا مالک ہے اور تمام کردار جس کے اشارے کے محتاج ہیں،بھلا خود کیوں پِٹ رہا ہے؟ استفسار پرہمارے دوست نے بتایا کہ یہ اسکرپٹ کا ڈیمانڈ ہے اور یہ کہ ایسا کرکے ہی وہ سامعین سے داد تحسین حاصل کرسکتا ہے......اُس وقت شعور پختہ نہیں تھا، لہٰذابات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی......مگر گزرتے وقت کے ساتھ ڈرامہ اور اسکرپٹ کی اہمیت کاادراک ہوا اور یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ ڈرامہ تو ہماری زندگی کا ایک لازمی جز بن کر رہ گیا ہے۔
     ان دنوں ہم سب کو ایسے ہی ایک  ڈرامے سے سابقہ پڑ رہا ہے، جس کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک حکومت اور دوسرے بابا رام دیو۔ اس کے جزئیات کا بغو ر مشاہدہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ہائی پروفائل ڈرامہ ہےجو اسکرپٹ کے ڈیمانڈاور سامعین (رائے دہندگان) سے داد تحسین پانے کی غرض سے اسٹیج کیا گیا ہے۔ فی الحال اس ڈرامے کی کچھ ہی  باتیں سمجھ میں آرہی ہیں کیونکہ ابھی بہت کچھ صیغۂ راز میں ہے، تاہم  امیدکی جانی چاہئے کہ وقت کے ساتھ پورا منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔
    دراصل کچھ دنوں قبل انا ہزارے اور  ان کی ٹیم نے بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک چھیڑی تھی۔اس تحریک کو زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے برسرِاقتدارطبقے کے خیمے میں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ حکومت کو اپنی میعاد مختصر لگنے لگی تھی۔ بروقت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت دو قدم پیچھے ہٹی تھی اور ان کے مطالبات تسلیم کرلیا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی اس نے یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ اس کاانتقام ضرور لے گی۔بابارام دیو کاظہور اسی انتقام کاایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی کارروائی  ہے جس کے ذریعہ حکومت نے ان تمام لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش کی ہے جوکسی بھی طرح بدعنوانی کے موضوع پر حکومت کو گھیرنےکی سعی کرچکے ہیں۔ ورنہ اُن کی آمد پر سرخ قالین بچھانا، چارچار نہایت اہم وزرا کے ذریعہ ان کا خیر مقدم کرنا اور وزیراعظم کا انہیں منانے کی کوشش کرنا..... یہ سب کیا تھا آخر؟ کیا حکومت بابارام دیو کے پس منظر سے واقف نہیں ہے؟ آخرانہیں اتنی اہمیت کیوں دی جارہی تھی؟ ذرا چلمن کے پار جھانکنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان ہنگامہ آرائیوں کے پس پشت بابا کو ان کے قد سے بڑا کرنے  اور انہیں انا ہزارے کے برابر کھڑا کر نے کے علاوہ اور کوئی خاص بات نہیں تھی۔
    یوگا گرو کو منانے کی حکومت کی کوششوں پر ڈرامے کا گمان اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اسی حکومت نے بابا سے قدرے بہتر شبیہ رکھنے والے انا ہزارے اور ان کی ٹیم کو نہ صرف یہ کہ اہمیت نہیں دی تھی بلکہ بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش بھی کی تھی اور ابھی بھی کررہی ہے۔ یکے بعد دیگرے اس ٹیم کے  تمام اراکین پر کیچڑ اچھا لے گئے۔ یہاں تک کہ ان الزام تراشیوںسے تنگ آکر کرناٹک کے لوک آیکت سنتوش ہیگڑے نے اس تحریک سے کنارہ کشی کا فیصلہ تک کرلیا تھا۔ ہیگڑے کے خلاف کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کا الزام.... الزام برائے الزام تھا ورنہ یہ کہنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ کرناٹک کے لوک آیکت کرناٹک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں کرسکے تو انہیں لوک پال کی تحریک نہیں چلانی چاہئے۔ اس موضوع پر دگ وجے سنگھ کو کچھ کہنے سےقبل اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے کانگریس کو مشورہ دینا چاہئے تھا کہ آزادہندوستان میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی  یہ جماعت جب ملک سے غربت، فرقہ واریت اورعدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرسکی تو اسے نہ صرف یہ کہ اقتدار سے  دستبردار ہوجاناچاہئےبلکہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہئے۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضۂ کے طور پر آگئیں ورنہ اپنا موضوع بابار ام دیو اور حکومت بالخصوص کانگریس کا ڈرامہ تھا۔
    ہم سے زیادہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ رام دیو کی عوامی شبیہ صاف ستھری نہیں ہے۔شدت پسند ہندوتوا تحریک کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان پر اور بھی کئی سنگین الزامات ہیں۔قارئین جانتے ہیں کہ ان کی لیباریٹری میں بننے والی دواؤں میں جانوروں حتیٰ کہ انسانی جسم کی ہڈیوں کے ملنے کے الزامات لگ  چکے ہیں۔ اسی طرح جب انہوں نے جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے کہاتھا کہ یوگا کے ذریعہ ایڈس کی روک تھام کی جاسکتی ہے، تب بھی وہ عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ اس سے قبل ان پر اپنے ملازمین کے استحصال کا الزام بھی لگ چکا تھا جب مارچ ۲۰۰۵ء میں دِوّیہ یوگا مندر ٹرسٹ کے۱۱۳؍ ملازمین نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھوک ہڑتال کی تھی۔یہی وجوہات ہیں، جن سے اندازہ تھا کہ رام دیو کو بدعنوانی کے خلاف تحریک کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی، جو انا ہزارے اور ان کی ٹیم کوملی تھی۔ وجہ صاف ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ رام دیو کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی حمایت میں اگرکہیں کچھ لوگ سڑک پر آتے بھی ہیں تووہ یقیناً آر ایس ایس کے گرگے ہوںگے جو رام دیو کے کندھے پر بندوق رکھ کر یوپی اے حکومت پر نشانہ سادھنے کی کوشش کریںگے۔
    کہاجاتا ہے کہ بابار ام دیو کو کانگریس نے ہی بھوک ہڑتال کیلئے اکسایا تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ وہ پہلے ایک ’سنسنی‘ پیدا کرے گی اورموقع معقول پاکر اسے بھنانے یعنی بابا کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کرے گی اورانہیں بتائے گی کہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے اور اس طرح وہ بابا کو ’رام‘ کرلے گی۔حکومت کے منصوبے کے مطابق اس سے عوام و خواص میں یہ پیغام جائے گا کہ بدعنوانی کے خلاف حکومت   بہت سنجیدہ ہے۔ دراصل حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اول یہ کہ بابا کو ’خوش‘ کرکے وہ ان کےہمنواؤں کو بھی اپنے پالے میں کرلے گی، جو کسی نہ کسی طرح بی جے پی کے ووٹ بینک ہیں۔ دوم یہ کہ جن لوک پال بل اوراس بہانے اناہزارے اور ان کی ٹیم کی حمایت کرنے والے   انا ہزارے اوران کی ٹیم سے متنفر ہوجائیں گے کہ یہ لوگ بلا وجہ حکومت کو بدنام کررہے ہیں۔ مگر کانگریس کے پانسے اُلٹے پڑے اوراس کی سبھی تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ بابا کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے کانگریس کے ایجنڈے کو آریس ایس ایس اور بی جے پی نے اچک لیا۔ اور  ایساکیوں نہ ہوتا؟ رام دیو کی وہاںسے پرانی وفاداری جو ہے۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے جتنی توانائی بابا کو منانے پر صرف کی، بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اگر اس کا عشر عشیر بھی محنت کرتی تو اس جِن کو بوتل میں قید کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہوتا جو آج ہمارے سماج میں دندناتا پھررہا ہے۔
    حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈرامہ بازی پر نہیں بلکہ حقائق اور عمل پر یقین کرے........ اوراگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو... یہ ذمہ داری عوام پرعائد ہوتی ہے کہ  وہ حکومت کو یہ باورکرائیں کہ ان کا شعور پختہ ہوچکا ہے، اور یہ کہ وہ حقائق اور ڈرامے میں تمیز کر نا اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔