Saturday 20 August 2011

Anna Hazare ko awami himayat kyun mil rahi hai?

انا ہزارے کو عوامی حمایت کیوں مل رہی ہے؟
 انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور خود وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں  کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
قطب الدین شاہد
دیکھتے ہی دیکھتے انا ہزارے ملک کے نئے گاندھی بن گئے ہیں۔ انہیں جو عوامی حمایت مل رہی ہے، وہ غیر معمولی اورغیر متوقع ہے۔اس کا اندازہ نہ تو ان کے حامیوں کو تھا اور نہ ہی مخالفین کو۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا راتوں رات انا ہزارے میں سرخاب کے پر لگ گئے کہ رالے گن سدھی نامی ایک غیر معروف گاؤں میں محدود پیمانے پر فلاحی کام کرنے والے ایک نیم خواندہ شخص کی شہرت و مقبولیت مہاراشٹر کی سرحد پارکرتے ہوئے نہ صرف ملک گیر ہوگئی بلکہ ان کاچرچا بر صغیر ہندوپاک سے ہوتے ہوئے سات سمندر پار برطانیہ اور امریکہ میں بھی ہونے لگا؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں ایک دوسرے سوال پر غور کرنا ہوگا....... وہ یہ کہ انا ہزارے کو جو یہ عوامی حمایت مل رہی ہے ، کیا وہ واقعی انا کی شخصیت کو مل رہی ہے یا ان کی تحریک کو؟ہمیں یقین ہے کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس میں انا ہزارے کی شخصیت کا کچھ خاص دخل نہیں ہے بلکہ اصل کمال ، اس موضوع کا ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے۔ حالانکہ انا ہزارے کو کرشماتی ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے ان کے معتقد رام دیو کا حوالہ دیتے ہوئے  کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف تحریک تو انہوں بھی چھیڑی تھی ، پھر کیا وجہ ہے کہ مقبولیت صرف انا کے حصے میں آئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رام دیو کی تحریک بدعنوانی کے خلاف تھی ہی نہیںبلکہ وہ ایک سیاسی ڈرامہ تھا۔ بہت جلد یہ باتیں عوام کے سامنے آگئی تھیں کہ وہ محض ایک سیاسی مہرے تھے ۔دراصل بدعنوانی کےخلاف انا ہزارے کی تحریک کو کچلنے کیلئے حکومت نے ہی انہیں اس ڈرامے کے لئے آمادہ کیا تھا لیکن رام دیو ایک ساتھ دو کشتیوں کے سفر کا مزہ لینے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس بھی خوش رہے اور آر ایس ایس کا مفاد بھی پورا ہوجائے  یعنی باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ مگر بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آگئی اوراس طرح رام دیو کے ساتھ ساتھ حکومت کی سازش بری طرح ناکام ہوگئی۔اس میں سب سے زیادہ نقصان رام دیو کا ہوا کہ ان کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہوگیا اور وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
    خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں۔ آئیے پھر آتے ہیںا صل موضوع کی طرف۔انڈیا اگینسٹ کرپشن نامی تنظیم بنا کر انا ہزارے جب بدعنوانی کے دیوقامت  بت سے ٹکرائے تھے تو ۹۹؍ فیصد ہندوستانیوں کو محسوس ہوا تھا کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی اور سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہیں اوراس پر فوری روک چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تین ماہ قبل جب اناہزارے نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جنتر منتر پر بھوک ہڑتال شروع کی تھی تو ان کی تعداد بہت قلیل تھی لیکن چونکہ موضوع میں اپیل تھی لہٰذا  ’لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا‘ کے مصداق  دیکھتے ہی دیکھتے وہ تحریک ملک گیر ہوگئی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور مغربی بنگال سے کیرالا تک ان کی حمایت یعنی بدعنوانی کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔اس وقت حکومت نے ’مصلحت‘ کا مظاہرہ کیا اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انا ہزارے ٹیم کی شرائط کو جزوی طورپرتسلیم کرلیا تھامگر اس کے تیور بتارہے تھے کہ اس نے نوشتۂ دیوار ابھی تک نہیں پڑھا ہے بلکہ اس کی کوششیں صرف اور صرف اس تحریک کی دھار کو کند کرنے کی ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ باتیں سامنے بھی آگئیں کہ مختلف حیلوں اور بہانوںسے حکومت سول سوسائٹی کے اراکین کو پریشان کرکے  اور دھمکیوں کے ذریعہ انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتی رہی ہے۔
    بلا شبہ ۹۹؍ فیصد عوام بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیںلیکن ایک فیصد ایسے بھی ہیں جو ایسا نہیں چاہتے۔یہ وہ لوگ ہیں جو راتوں رات لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھر ب پتی بنتے جارہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ذہین اور چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ عیار بھی  ہیں اور لوگوں کے ذہنوں پرا ثر انداز ہونے کا ہنربھی جانتے ہیں۔  اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی ان کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ ملک کے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان لوگوں نے اعتراضات کی شکل میں طرح طرح کے شوشے چھوڑرکھے ہیں۔کچھ نے انا ہزارے کو لعن و طعن کا نشانہ بنایا ہے تو کچھ جن لوک پال میں خامیاں نکال رہے ہیں تو چند اس تحریک کو ہی بے معنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ بیچارے یہ معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ یہ انا ہزارے، کیجری وال، شانتی بھوشن اور کرن بیدی کا معاملہ نہیں ہے، یہ جن لوک پال کی منظوری اور نا منظوری کا بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے جس کی نمائندگی ہندوستان کے ۱۲۵؍ کروڑ افراد کررہے ہیں۔آئیے ایک نظر ان اعتراضات پر بھی ڈالتے چلیں جو اس تحریک کو بے جان کرنے  کے مقصد سے اچھالے جارہے ہیں۔
     پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ قانو ن سازی کا کام پارلیمنٹ کا ہوتا ہے، انا ہزارے کون ہوتے ہیں؟....... بات بالکل صحیح ہے۔ یہ ذمہ داری پارلیمنٹ ہی کی ہے مگر ہم آپ اور سب دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ۳۰؍ برسوںسے اس بل کا کیا حشر ہورہا ہے؟ اگر حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہوتا تو اس کی نوبت ہی کیوں کر آتی؟ رہی بات انا ہزارے کی تو یہاں ایک بار پھر وہی بات دوہرانی ہوگی کہ یہ معاملہ انا ہزارے کا نہیں بلکہ عام ہندوستانیوںکا ہے۔بلاشبہ اراکین پارلیمان بھی عوام کے ہی منتخب کردہ ہیں مگر دیکھااور محسوس کیا جارہا ہے کہ ایوان میں پہنچتے ہی ان میں سے  بیشتر عوام کے بجائے خواص کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں یہ اعتراض بالکل بیجا ہے کہ جن لوگوں کو قانون سازی میں دلچسپی ہے، وہ پہلے ایوان میں پہنچنے کاانتظام کریں۔ اول تو یہ کہ عوام کو قانون سازی سے نہیں بلکہ فی الحال بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے اور دوم یہ کہ عوام جب حکومتوں کے سامنے خود کوبے بس پاتے ہیںتوایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ تیونس اور مصر اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ ہمارے حکمرانوںکی طرح حسنی مبارک بھی اقوام عالم  کے سامنے یہی کہہ کر بغاوتوں کو دبانے کی کوشش کیاکرتے تھے کہ ہم تو جمہوریت کے علمبردار ہیں، جو بھی چاہے اس راستے سے آکر اقتدار کی باگ ڈورسنبھال سکتا ہے.....مگردنیا نے دیکھا کہ عوام جب سیل رواں کی طرح آگے آئے تو حسنی مبارک خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔
    سرکاری لوک پال بل اور جن لوک پال بل .....ان دو مسودوں میں کون سا بہتر ہے ؟اس کا اندازہ فی الحال ہمیں نہیں ہے۔اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا بل زیادہ کارگر ہے تو اسے عوام کوسمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔بصورت دیگر اگر عوام کی جانب سے کوئی اچھی بات آرہی ہے تو اسے تسلیم کرلینے میں حکومت کو کسی قسم کی قباحت کامظاہرہ نہیں کرناچاہئے۔اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔  ویسے بھی جمہوری حکومتیں عوام کے ذریعہ اورعوام کیلئے ہوتی ہیں۔اسے اقتدار کو چیلنج کرنے والی بات نہیں سمجھنی چاہئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اگر ایک مطالبہ تسلیم کر لیں تو پھر کل چند سرپھرے دوسرے مطالبات کے ساتھ حکومت کو گھیرنے کی کوشش کریںگے۔اول تو یہ کہ ایسا ہوگا نہیں، دوم اگر ہوا تو اسے اس قدر عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی اورسوم اگر ایسا ہوا بھی اوراسے عوامی حمایت بھی حاصل رہی تو ......تو پھراسے تسلیم کرلینے میں حرج ہی کیا ہے؟حکومت کا کام ہی عوام کے مفاد کاخیال رکھنا ہوتا ہے۔
    ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انا ہزارے اُس وقت کہا ں تھے ؟ جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی،ممبئی میں فسادی خون کی ہولی کھیل رہے تھے اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوستان کے بد ترین واقعات ہیںاور ان پر وہ تمام ہندوستانی خون کے آنسو روئے ہوں گے جن کے دلوں پر مہر نہیں لگی ہے...... لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ تمام معاملات میں تما م لوگ سامنے آئیں۔جو لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کررہے ہیں، انہوں نے اس وقت اپنا رول بخوبی انجا م دیا۔یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے، اسے انہیں کرنے دیجئے۔کسی ایک فرد یا ایک گروہ سے ہرطرح کی توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیںا ور ممکن بھی نہیں ہے۔ ٹیلی فون محکمے میں ہم پانی  کےکنکشن سے متعلق شکایت لے کر جائیںگے تو لوگ محکمے پر نہیں بلکہ خود ہم پر ہنسیںگے۔
    ہم میں سے ایک طبقہ انا ہزارے کی تحریک کو اس لئے بے معنیٰ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف آر ایس ایس کی حمایت سے ہی کوئی اچھی چیز بری ہوجاتی ہے؟میرے خیال سے ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر اور حق و ناحق دیکھتے ہوئے ہمیںکسی کی حمایت یا مخالفت کرنی چاہئے۔کچھ دنوں قبل لال کرشن اڈوانی نے زانیوں کو سنگسار کرنے کا مطالبہ کیا تھا، خیر وہ خود ہی اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے لیکن کیا ہم اس مطالبے کی محض اس لئے مخالفت کریںگےکہ یہ آواز آرایس ایس کے گھرانے سے بلند ہوئی ہے؟
    خلاصہ ٔ  تحریر یہ کہ موجودہ حالات میں انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
     ابھی بھی بہت زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ حکومت چاہے توابھی بھی سنبھل سکتی ہے۔