Saturday 26 November 2011

Fake encounter or Political terrorism

جعلی انکاؤنٹر یا  سیاسی دہشت گردی
عشرت جہاں کا قتل کیا گیا،جس کی تصدیق اب عدالت عالیہ نے بھی کردی ہے، مگرافسوس کہ ملک میں قاتلوں کے خلاف وہ ماحول نہیں بن پایا، جیسا کہ بننا چاہئے تھا۔ جعلی انکاؤنٹر جسے سیاسی دہشت گردی کہنا چاہئے، کو اتنا
سنگین نہیں سمجھا جارہا ہے۔ایسا کیوں؟ ذیل کے مضمون میں انہی نکات پرگفتگو کی گئی ہے۔

قطب الدین شاہد
عشر ت جہاں اور اس کے ساتھ دیگر ۳؍ افراد کا انکاؤنٹرنہیں ہوا تھا بلکہ وہ قتل کیے گئے تھے........اب یہ الزام نہیں رہا بلکہ اس کی صداقت پر جہاں خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے وہیں ا س کی توثیق گجرات ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔یہ قتل گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران نے کیا تھاجس میں کئی سرکاری اداروں حتیٰ کہ ریاستی حکومت کی مدد کا بھی پور اپورا مکان ہے۔ان قاتلوںکو اگر ان کا تعاون حاصل نہ ہوتاتو اس کیس کے حقائق کی یوں پردہ پوشی نہ کی جاتی اور ذیلی عدالت کے ذریعہ اسے جعلی انکاؤنٹر قرار دیئے جانے کے بعد خاطیوں کو بچانے کیلئے مودی حکومت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرتی۔
    اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ قتل تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاان قاتلو ں اوراس مجرمانہ عمل میں معاونت کرنے والوں کو سزا ملے گی؟اور اگر ملے گی بھی تو کتنوں کو ملے گی اور کب تک ملے گی؟افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میںعدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے کی بازگشت اس طرح نہیں سنائی دی، جس طرح کہ سنائی دینی چاہئے تھی۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے جہاںگزشتہ ۵؍ دنوںتک مختلف موضوعات پر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اس دوران کئی بار واک آؤٹ ہوئے اور کئی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی مگر مودی حکومت  اوراس کے قاتل ٹولوں پر گرفت کی بات کسی نے نہیں کی۔اس تعلق سے کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔سی پی آئی نے فیصلے کے روز مودی حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ ضرور کیا تھامگر اس کی حیثیت محض ایک خانہ پری کی سی تھی۔اس مطالبے میں وہ شدت نہیں تھی جو عام طور پر بایاں محاذ کی کسی اور مانگ میں ہو ا کرتی ہے۔مہنگائی یقینا ایک بڑا موضوع ہے، بدعنوانی بھی وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے، دہشت گردی بھی ملک کیلئے ایک عذاب بنی ہوئی ہے...... یہ سب واقعی سنگین مسائل ہیں لیکن.... ان سب کے باوجود حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کی سنگینی کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ غور کیا جائے تو یہ ان تمام میں سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو سرکاری سرپرستی میں انجام پاتی ہے،بدعنوانی کی وہ قسم ہے جس میں مال ہی نہیں بلکہ جان بھی جاتی ہے،مگر افسوس کی اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا گیا۔اس پر نہ تو میڈیا نے اتنا زور دیا اور نہ ہی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے۔بی جے پی سے تو خیر کسی خیر کی امید ہی نہیں، کانگریس کے منہ سے بھی ظالموں کے خلاف ایک لفظ نہیں نکل سکا۔وہ کانگریس جو خود کو گاندھی، نہرو، آزادا ور امبیڈکرکا جانشین کہلوانا پسند کرتی ہے، انصاف، غیر جانب داری اور شہریوں کی سیکوریٹی کا نہ صرف دعویٰ کرتی ہے بلکہ خود کو اس کا ٹھیکیدار بھی سمجھتی ہے، اس نے بھی پورے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔راہل گاندھی جنہیں کانگریس نوجوان دلوں کی دھڑکن کے طور پر پروجیکٹ کررہی ہے، کو مایاوتی حکومت میں ہزار کیڑے نظر آرہے ہیں، وہ اسے اکھاڑ پھینکنے کا عہد بھی کرتے ہیں لیکن مودی حکومت سے اٹھنے والا تعفن انہیں بے چین نہیںکرتا، لہٰذا وہ اس کے خلاف لب کشائی تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو حالانکہ اس پر گجرات حکوت سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا کہ اس کے ایک شہری کو بلا وجہ کیوں قتل کیا گیا  ؟ مگر چوہان حکومت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔مسلم ووٹوں کی سیاست کرنے والے لالو، ملائم اور مایاوتی جیسے چمپئن بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مودی حکومت اوراس بہانے بی جے پی کی پریشانی کا سبب نہ بنا جائے۔خود کو متوازی حکومت سمجھنے والی ٹیم انّاکی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ضروری اور غیر ضروری ہر مسئلے پر بیان بازی کو ضروری سمجھنے والے انا ہزارے، کیجری و ال اورکرن بیدی کو جعلی انکاؤنٹر کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔جسیکا لال، نتیش کٹارا اوراروشی مرڈر کیس میں دلچسپی لینے اور ان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے تحریک چلانے والے طلبہ اور غیرسرکاری اداروںکو بھی عشرت جہاں کے قاتلوں پر غصہ نہیں آیا۔ ایساکیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مظلوم کا تعلق عوام سے  ہے جبکہ قاتلوں کا خواص سے..... اور ان میںسے بیشتر خواص کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس قتل کے خلاف عوام کی جانب سے غم و غصہ کااظہار نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ عوام کےرجحان ساز دراصل یہی خواص ہیں اور یہ معاملہ چونکہ خواص کے خلاف ہے، لہٰذااس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔یہاں یہ کہنا غلط ہوگا کہ عشرت جہاں ایک مسلمان ہے، اسلئے اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ دراصل ہمارے سماج میں ابھی وہ بیداری آئی ہی نہیں کہ ہم حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کے خلاف برسرِا قتدار طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
    ایسے میں سابق داخلہ سکریٹری کا بیان مزید افسوسناک رہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے عشرت کی بے گناہی نہیں ثابت ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہہ کر آخر جی کے پلئی صاحب کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ ایک طرف محض الزام ہے جبکہ دوسری طرف جرم ثابت ہورہا ہے۔عشرت جہاں کا تعلق دہشت گردوںسے تھا، یہ صرف ایک الزام ہے جبکہ عشرت جہاں کو منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا گیا اور اس قتل کے شواہد مٹائے گئے، یہ ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے اس اعلیٰ ترین سابق عہدیدار کی جانب سے مجرم پر گرفت کی بجائے مظلوم کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کیوں جارہی ہے؟کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ مودی کا شمار خواص میں ہوتا ہے، لہٰذا عوام سے ان کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ مرکزی وزیر شرد پوار کو ایک جنونی نے ایک طمانچہ کیا رسید کردیا،  ملک گیر ہنگامہ برپا ہوگیااور پورا پارلیمنٹ متحدہوگیا....دوسری جانب سرکاری دہشت گردی کا شکار ایک عام شخص ہوا تو خواص کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مظلوم سے ہمدردی دکھانے میں اگر کوئی ’مسئلہ‘ درپیش ہے توظالم سے نمٹنے میں انہیں کوئی دِقت نہیں ہونی چاہئے... ہم عوام کو اسی پرتسلی ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آج خواص کے تئیں عوام میں زبردست نفرت پائی جارہی ہے، اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو برتر اورعوام کو کمترسمجھتے ہیں۔ عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے ہوں یا عوام کی خدمت پر مامور سرکاری کارندے، وہ عوام کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کے مسائل کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دراصل امریکہ کی طرح یہاں بھی ایک فیصد خواص کی جانب سے باقی ۹۹؍ فیصد کے تئیں بہت زیادہ تعصب پایا جارہا ہے۔ 
    جی کے پلئی جی کی اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے عشرت کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کردیا جائے؟ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سرکاری عہدیداران اورافسران  پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، ۱۰؍ سے ۱۵؍ فیصد پرفوجداری معاملات بھی درج ہیں۔کرپشن اور کریمنل الزامات کے دائرے میں عوامی نمائندوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کئی وزیر، عوامی نمائندے اوراعلیٰ سرکاری افسران تہاڑ جیل کی ’زینت‘ بنے ہوئے ہیں۔ پلئی صاحب بتائیں کہ ان کے اصول کے مطابق ان سب کی سزا ئیںکیا ہونی چاہئیں؟
    وہ تو بہت اچھا ہوا کہ عدالت عالیہ نے بروقت پلئی صاحب کی گوشمالی کردی، ورنہ خاطیوں  کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کیلئے پردے کے پیچھے سے اور بھی کئی چہرےنمودار ہوجاتے، اس صورت میں جہاں ایک فیصد کی سرکشی میں اضافہ ہوتاوہیں ۹۹؍ فیصد کے حوصلے  مزید پست ہوجاتے۔
    حالات یقیناً خراب ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ مایوس ہوا جائے۔  ایک جانب جہاں ایسے عناصر ہیں جو عوام کو کوڑے دان کا حصہ سمجھتے ہیں، وہیں ایسے لوگ اورایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انہیں انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ کم از کم ہندوستان کے عدالتی نظام سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں۔ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم عدالت پر پورا بھروسہ رکھیں اوراس سلسلے میں فالو اَپ جاری رکھیں۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئےعوام کو بیدار رہنا ضروری ہے۔ آج نہیں تو کل یہ تمام فرعون ضرور بہ ضرور اپنے انجام کو پہنچیںگے۔ n

Monday 14 November 2011

sardar pura qatl e aam ka faisla......

سردارپورہ قتل عام کا فیصلہ ،خوشگوار ہوا کاایک جھونکا ہے
۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ  سامنے آیا ہے، اسے  گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔
قطب الدین شاہد
سرِ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی کسی سے ٹکرا جائے اور اُس کو بنیاد کر اُسے ایک طمانچہ رسید کردے،تو یقینا اُس شخص کو بہت برا لگے گا اور اُسے شدید تکلیف پہنچے گی۔ ممکن ہے جوابی حملہ کرتے ہوئے وہ بھی اسے ایک تھپڑ جڑ دے اوراس طرح اپنے قلب کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔لیکن اسے اس وقت زیادہ اچھا لگے گا اور دل کو زیادہ قرار آئے گا جب وہ خود کچھ نہ کہے بلکہ اس کی حمایت میں کچھ دوسرے افراد سامنے آئیں اور ظالم کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے مظلوم کی دلجوئی کریں۔ آخرالذکر صورتحال کسی بھی صحت مند سماج کیلئے بہت ضروری ہے۔
    گودھراسانحہ کو بنیاد بنا کر پورے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ یقینا بہت برا تھا، ہولناک تھا، سفاکی تھی،سماج کی صحت کو خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش تھی، لہٰذا اس کی مذمت کی جانی چاہئے ، لیکن اسی کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی۔ اس کے بعد جس پیمانے پربرادران وطن کی جانب سے مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا رویہ اختیار کیا گیا، ان کی دلجوئی کی گئی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جس طرح کی ہمہ جہت کوششیں ہوئیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ گرچہ پوری طرح سے صحت مند نہیں لیکن بہت زیادہ بیمار بھی نہیں ہے کہ اس کا علاج نہ ہوسکے۔
    گودھر ا سانحہ کے تین دن بعد یکم مارچ۲۰۰۲ء کو سردار پورہ میں شیطانوں کا ایک رقص برہنہ ہوا تھا، جس میں ۲۰؍ خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت کل ۳۳؍مسلمانوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔یہ تمام لوگ اس علاقے کے واحد پکے مکان میں محصور تھے، جسے سفاکوں نے آگ کے حوالے کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ جنون اور دہشت گردی کی بدترین نشانی ہے ،جس کاواحد علاج اُن تمام لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے جن لوگوں کا اس قابل نفریں معاملے میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار رہا ہے۔
    گزشتہ دنوں اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ایک خصوصی عدالت نے سردار پورہ قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوں کوعمر قید کی سزا سنائی ہے۔  حالانکہ یہ سزاان کے جرم کی مناسبت سے بہت کم ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے سے مظلومین کی ہمت بندھی ہے، ان کی اشک سوئی ہوئی ہے، انہیں قلبی سکون پہنچا ہے اور ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔اس فیصلے کے بعد برادران وطن کی جانب سے جس طرح کے رد عمل کا اظہار ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کاخون ابھی سفید نہیں ہوا ہے یعنی یہ پوری طرح سے لا علاج نہیں ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کہ کسی بھیڑ کے ذریعہ انجام دیئے گئے قتل عام کی کسی واردات میں اتنے سارے لوگوں کو بیک وقت مجرم ٹھہرایا گیا ہو۔ اس سے قبل بھاگلپورہ فساد کیلئے ایک ساتھ ۱۴؍ لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا تھا۔
    مہسانہ کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج ایس سی سریواستو کے اس بے نظیر فیصلے کے بعد جس طرح کے ردعمل سامنے آئے، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ عوام و خواص نے اس پر کس طرح کے رد عمل کااظہار کیا؟ اور مظلومین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ظالموںکیلئے سنائی گئی اس سزا پر کس طرح کی خوشیوں کااظہار ہوا؟ اس کی ایک چھوٹی سی مثال فیصلے کے دوسرے دن ملک کے مؤقر اور سب سے زیادہ قابل اعتماد انگریزی روزنامے ’دی ہندو ‘ کے اداریے پر ہونے والے تبصرے ہیں، جسے اس کی آن لائن اشاعت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے چنندہ اقتباسات کچھ اس طرح ہیں۔

nکبھی کچھ نہ ہونے سے تھوڑی تاخیر بہتر ہے۔مبارکباد کے مستحق ہیں ایس آئی ٹی کے اراکین جنہوں نے گنہ گاروں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کاانتظام کیا۔ 
   منجو پولیوادھی
n وہ دن گئے جب عدالتیں طاقتور اور امرا ء کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہوا کرتی تھیں۔یہ فیصلہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔   
                                                            سمیت کمار رائے
n    اکثریت کی جانب سے اقلیت کیلئے اٹھائے گئے اس گھناونی واردات کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔مستقبل کیلئے یہ ایک مثال بننی چاہئے اور یہ یقینی بنائی جانی چاہئے کہ جو بھی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اسے اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ 
                                           راجیش ایچ
nاب ہرکسی کو یہ امید ہوچلی ہے کہ بہت جلدامیکس کیوری کی رپورٹ کے ساتھ ایس آئی ٹی اپنی فائنل رپورٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کردے گی جس کی بنیاد پر نریندر مودی سمیت ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کا راستہ ہموار ہوگا جو کسی نہ کسی طرح اس سفاکی میں ساتھ رہے ہیں۔ 
                این تھروناوکاراسو
nاس فیصلے نے متاثرین کوکافی حوصلہ فراہم کیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے سیاست دانوں کے سطحی مفادات کی تکمیل میںدونوںفرقوں کے عام لوگ استعمال ہوتے رہے ہیں۔

                                                                            آر رویندر ناتھ
nتاریخی اور لائق خیرمقدم فیصلہ۔ 
                                               گگن گرگ
nیہ امید بندھی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ۔ 
                       ومل
nہندوستانی عدلیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ 
           ٹی پی نٹراجن
nحالانکہ فیصلہ تاخیر سے آیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارا قانونی نظام مؤثر ہے اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 
                                                                                           امول سکپال
nاس فیصلے نے ’قانون کی حکمرانی‘ والے خیا ل کو استحکام بخشا ہے اور اسے تقویت پہنچائی ہے۔ 
                     ونیت کے سریواستو
nیہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے بہت اچھ ہے جو ملک کے عدالتی نظام میں یقین رکھتے ہیں۔ 
                                                                   رام چندرن پی
      یہ چند اقتباسات ایک مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کے خیالات ہیں جنہیں اس ملک میں ’عام‘ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے یعنی یہ خیالات ان کے دل کی آواز ہیں جن کا اظہار کسی لالچ، مفاد اور دباؤ کے بغیر سامنے آیا ہے ۔ یہ خیالات ثابت کرتے ہیں کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اس کا درد صرف ’ہمارا‘ درد نہیں ہے کہ بلکہ یہ ’ہم سب کا‘ درد ہے۔یہ یقینا ایک بہت اچھی بات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ حلقہ مزید وسیع ہو۔اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس واردات کے متاثرین کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور قانونی جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔شیخ دلاور میاں جنہوںنے اس واردت میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہن کو کھویا ہے اور شیخ غلام علی جن کے خاندان کے ۱۳؍ افراد اس قتل عام کے شکار ہوئے تھے، نے قبول کیا ہے کہ ان تمام گواہوں پر شدید دباؤ ہے، جو انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان کی ہر طرح سے پشت پناہی ہو۔
    ۳۳؍ افراد کے قتل عام کیلئے ۳۱؍لوگوں کیلئے عمر قید کی سزا کافی نہیں ہے۔یقینا یہ تمام زیادہ سخت سزاؤں کے مستحق ہیں لیکن ان حالات میں جبکہ عدالت کو حکومت کی جانب سے تعاون کے بجائے رکاوٹوں کا سامنارہا ہے، یہ فیصلہ قابل ستائش ہے اوراس کیلئے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر کے راگھون اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
    ۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اسے گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔