Saturday 10 December 2011

compelete justice

مکہ مسجد کے بے قصور مسلم ملزمین کی رِہائی کے بعد انہیں معاوضہ بھی ملا.....
مگر انصاف ہنوز کوسوں دور ہے۔ حصول انصاف کیلئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

گزشتہ دنوں مکہ مسجد دھماکے کے ملزمین کی رہائی کے بعد حکومت نے ہرجانے  کی ادائیگی کااعلان کیا۔ اسے ایک مستحسن قدم تصور کرتے ہوئے اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔مکمل انصاف تو اس وقت ہوگا جب ان تمام پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملے گی جو اِن کی زندگیوں سے کھلواڑ کے مرتکب ہیں ، دوم ان کی بہتر باز آبادکاری ہو جومحض الزام کی وجہ سے اپنا بہت کچھ گنوانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
قطب الدین شاہد
اپنے زمانے کے مشہور انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ ’’رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘..... ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بہت سے لوگوں کی رائے کچھ اسی قسم کی ہے۔ ایسے لوگوں  کا خیال ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت  آزادی کے بعد سے ہی  مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیا جانے لگا ہے،انہیں  ایک ایسی تاریکی میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، ان کی ترقی کے راستے مسددو کردیئے گئے ہیں اور اگر اس کے باوجود بھی وہ کہیں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو فساداور دھماکوں کے ذریعہ ان کے حوصلے توڑے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے........ یقیناً اس میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے تو حوصلہ ملتا ہے۔داناکہتے بھی ہیں کہ صبح کا جنم رات ہی کے بطن سے ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے خوف زدہ ہوئے بغیر صبح کی امید اور اس کی تلاش میں جدوجہد جاری رکھی جائے۔ خود مخدوم نے بھی  اس کا اعتراف کیا ہے:
 رات کے ماتھے پر آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
     بلا شبہ ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بم دھماکوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس میں  زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔فسادات میں لُٹتے پِٹتے بھی مسلمان ہی   ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی انہیں کو جھیلنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح بم دھماکوں میں جانی و مالی تباہی کے بعد الزام بھی انہیں کے سر آتا ہے۔ میرٹھ ، ملیانہ، بھاگلپور، ممبئی، بھیونڈی اور گجرات کے فسادات کے بعد مالیگاؤں، مکہ مسجد،اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس   اور جامع  مسجد دہلی کے  دھماکےاس کی واضح مثالیں ہیں۔دراصل ان حربوں کے ذریعہ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کے پاس اندھیروں کے سواکچھ بھی نہیں ہے...... لیکن  وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ مسلمان  ہی ہیں جوکشتیاں جلا کر آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں۔
    گزشتہ دنوں اس کا ایک اچھا نمونہ دیکھنے میں آیا جب آندھرا پردیش حکومت مکہ مسجد دھماکے کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کو نہ صرف رِہا کرانے پر مجبور ہوئی بلکہ اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے اس نے گرفتار شدگان کو ہرجانہ بھی ادا کرنے کااعلان کیا۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ مکمل انصاف تو نہیں ہے لیکن یہ ایک اچھی کوشش  ضرورہے جس کاخیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اسی کے ساتھ ہمیں مکمل انصاف کے سمت جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہئے۔قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی طاقت آزمائی کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف معاملات کے تحت مسلم نوجوان سنگین جرائم کے نام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ دراصل ان پر قانونی شکنجہ اتنا مضبوط ہوتا ہے اور الزامات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ جلد ان کی رہائی کے اسباب پیدا نہیں ہوپاتےکیونکہ معاملے کوعدالت تک جلد پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ، اس کے باوجود اگرکسی طرح معاملہ عدالت تک پہنچا  اور ان کے حق میں معاملہ فیصل ہوا تو حکومت فوراً ہی اعلیٰ عدالت کا رخ اختیارکرلیتی ہے۔مختلف معاملات میں مسلم نوجوانوں کو کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حیدرآباد حکومت کے فیصلے کی ستائش کی جانی چاہئے، جس نے نہ صرف یہ کہ ذیلی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا بلکہ اقلیتی کمیشن کی ایک سفارش کو قبول کرتے ہوئے ان تمام نوجوانوں کو معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔اس لحاظ سے اسے ایک مستحسن قدم کہا جاسکتا ہے کہ جہاں کچھ نہیں ہورہا ہے، وہاں یہ  ایک اچھی روایت  ہے..... لیکن جیسا کہ بالائی سطو ر میں کہا گیا ہے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے والوں کو مناسب سزا دی جائے اور ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کیلئے باعزت زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
    حکومت کے سامنے بڑی شدت سے ہمیں یہ بات گوش گزار کرنی ہو گی کہ چند ہزار یا چند لاکھ روپوں کی ادائیگی ہی ان کا ہرجانہ نہیں ہے بلکہ ان کی بازآبادکاری ہونی چاہئے۔اس طرح کے معاملات میں جب کوئی نوجوان ماخوذ ہوتا ہے تو صرف وہ تنہا اس کی سزا نہیں بھگتتا بلکہ اس کی سزا میں اس کے اہل خانہ، اس کا پورا خاندان، اس کے عزیز و اقارب، اس کے گاؤںاور محلے والے بلکہ پورا شہر  ، حتیٰ کہ پوری قوم   شریک ہوتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد پڑگھا، مالیگاؤں اور اعظم گڑھ کو  میڈیا نےکس طرح ’ٹیررسٹ علاقے‘ کے طور پر پروجیکٹ کیا تھا۔ جب کسی نوجوان پر اس طرح کا کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو  نہ صرف اس کی ملازمت جاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کی شادی خطرے میں پڑجاتی ہے،  اس کے بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہوپاتا، والدین کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات دانے دانے کو محتاجی کی نوبت آجاتی ہے۔ حالانکہ آئین کہتا ہے کہ ملزم کے ساتھ مجرم جیسا رویہ نہ رکھا جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ صرف پولیس اہلکار بلکہ ہمارا سماج بھی ملزم کو مجرم سمجھ بیٹھتا ہے اور اسے سخت سزائیں دینے لگتا ہے۔ خود ہم بھی  ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیںجن پر الزامات تو سنگین ہیں لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔اندر سے کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ ہمدردی  کے اظہار کی خواہش  ہوتی ہے لیکن حکومت اور پولیس کے خوف سے ایسا نہیں کرپاتے اور اس طرح ان نوجوانوں کو ناکردہ گناہوںسے سزا ہم بھی دیتے ہیں۔
    انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور یہ ہرجانہ حکومت ادا کرے، وہ پولیس اہلکار ادا کریں جنہوں نے بلا وجہ انہیں مجرم بنا کر پیش کیا، وہ میڈیا ادا کرے جس نے رائی کو پربت بنا کران کی شبیہ خراب کی، سماج ادا کرے جس نے اسے یکہ و تنہا کر چھوڑا اور ہم سب ادا کریں جنہوں نے اپنے سماجی فریضے میں کوتاہی برتی۔   اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے ۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے۔ اول تو یہ کہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دلائے ..... ایسی سزا کہ دوبارہ وہ کسی کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہوئے ۱۰۰؍ بار سوچنے پر مجبور ہوں۔دوم یہ کہ ان ملزمین کی مکمل بازآبادکاری کا انتظام کرے، انہیں ملازمت دلائے، ان کے لُٹے پٹے کاروبار کو استحکام بخشنے میں مدد کرے اور سماج میں انہیں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے راستے میں حائل  دشواریوں  کے خاتمے میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔
    یہ تو رہی حکومت کی ذمہ داری۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ حکومت اس تعلق سے کیا کررہی ہے؟ اس کا تعاقب جاری رکھیں اوراسے مجبور کریںکہ وہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور  مظلوموں کو معقول ہرجانہ ادا کرے۔ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہ خاموش بیٹھنے کا حکومت کے نزدیک مطلب ہوگا کہ ’اتنے سے بھی کام ہوسکتا ہے‘۔ اور ہمارے سامنے صرف حیدرآباد کا معاملہ پیش نظر نہ ہو بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی   اس طرح کے معاملات پیش آئے ہیں،ان کا بھی احاطہ کیا جانا ضروری ہے۔ فیض احمد فیض  کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے مکمل انصاف کے حصول کیلئے ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
 ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
   چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی