Saturday 14 April 2012

shikast ke baad siyasi jamaton ki khud ehtesabi

انتخابات میں شکست کے بعد سیاسی جماعتوں کی خود احتسابی

دل بہلانے کا سامان یا عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک اور کوشش

انتخابات بلدیاتی نوعیت کے ہوں یا ریاستی،یا پھر قومی، اکثر دیکھاگیا ہے کہ نتائج ظاہر ہونے کے بعد جہاں فتح یاب ہونے والی جماعت عوام کا شکریہ ادا کرتی ہے اور ان کی امیدوں پر کھرا اُترنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کرتی ہے، وہیں شکست خوردہ ٹیم اپنا احتساب کرنےاور شکست کی وجوہات تلاش کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ رویہ اچھا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں خلوص ہو۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاںاس کے ذریعہ محض ایک رسم ادا کرتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہو.......یعنی ان کے رویے میں اخلاص شامل ہوجائے تو جہاںجیتنے والی جماعت کو دوبارہ شکست دینا مشکل ہوجائے گا، وہیں شکست خوردہ جماعت کی اقتدار میں واپسی کا راستہ بالکل آسان ہوجائے گا۔  بہار میں نتیش کمار کی اقتدار بحالی اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ کی اقتدار میں واپسی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

قطب الدین شاہد

اترپردیش اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد گزشتہ دنوں کانگریس نے ایک جائزہ میٹنگ طلب کی تھی۔ اصولاً یہ احتسابی میٹنگ لکھنؤ میں منعقد کی جانی تھی لیکن راہل گاندھی کی ایماء پر اس کاانعقاد دہلی میں ہوا۔ اسی طرح بی جے پی نے بھی اپنی شکست کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے ایک میٹنگ طلب کی تھی۔دونوں جماعتوں کی احتسابی اور جائزہ میٹنگوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں وقت نہیں لگے گا کہ اس کی حیثیت محض ایک رسمی میٹنگ کی تھی، ورنہ کانگریس ہو یا بی جے پی، دونوں نے بھی شکست کے حقیقی اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی ۔باتیں خوب لمبی چوڑی ہوئیں اور بہت ساری وجوہات بھی تلاش کی گئیں لیکن جو مسائل اصل تھے، ان ہی سے چشم پوشی کی گئی۔ ’گرد چہرے پر جمی تھی، آئینہ دھوتے رہے ‘ کے مصداق ان کی پوری مشق اپنے چہرے کو چھپائے رکھنے اور آئینے پر الزام تراشی میں لگی تھی۔ سرسری طور پر دیکھیں توبات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخرکیا سبب ہے کہ شکست کی جن وجوہات سے ہر خاص و عام واقف ہوتا ہے،  سیاسی جماعتوں کے یہ جغادری، ان سے ناواقف ہوتے ہیں، اور پھرد ور کی کوڑی لاتے ہوئے چند غیر اہم اسباب تلاش کرلئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس پر غور کیا جائےتو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اصل وجوہات کوسمجھنے اور سمجھانے کے بجائے فروعات میں الجھنے اور  الجھانے میں ہی یقین رکھتی ہیں۔  یہ عوام کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے ، اپنی پسند اُن پر تھوپنا چاہتی ہیں، اس لئے سامنے کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نئے مسائل کی شناخت کرتی ہیں اور اس طرح شکست کے بعد بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
      تنگی ٔ داماں کے پیش نظرہم  یہاںصرف کانگریس کی احتسابی میٹنگ پرگفتگو کریں گے۔ مذکورہ اجلاس میںکانگریس نے ’آتم چنتن‘ کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کو بنیادی وجہ قرار دیا نیز اسے مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یعنی اگر اترپردیش میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہوتا تو وہ شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میںکانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط تھا جو  اُس وقت اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا؟ اور اگرمضبوط تھا تو اب کمزور کیوں ہوگیا؟  اصل بات تو یہ ہے کہ شکست کی یہ بنیادی  وجہ ہے ہی نہیں ۔ اگر تنظیمی ڈھانچے میں مضبوطی ہی  اقتدار میں آنے کا پیمانہ ہوتی تو کوئی بھی سیاسی جماعت شکست سے دوچار نہیں ہوتی۔بلاشبہ کسی بھی سیاسی جماعت کی بہتر کارکردگی کیلئےاس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہونا ضروری ہے، لیکن یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ راہل گاندھی گزشتہ ۵؍ برسوں سے آخر اسی مشن پر تو لگے تھے، پھر انہوں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟   ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں راہل گاندھی نے جواب دَہی طے کرنے کی بات بھی کہی لیکن اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی کہ یہ جواب دہی کس طرح کی ہوگی؟
     جواب دہی طے کرنے کا مطلب ہوگا کہ شکست کی ذمہ داری کسی کے سر ڈالی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری کس کے سر ڈالی جائے ؟ ریتا بہوگنا جوشی پر جو یوپی کانگریس کی صدر ہیں، دِگ وجے سنگھ پر جو یوپی انتخابات کے انچارج تھے یا پھرخود راہل گاندھی پر جنہوں نے پوری انتخابی مہم اپنے کندھوں پر سنبھال رکھی تھی اور بلاشبہ جیت کی صورت میں اس کی مکمل کریڈٹ لینے کے حقدار ہوتے، سلمان خورشید، سری پرکاش جیسوال اور بینی پرساد ورما پر، جو مرکزی وزیرہیں اور جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اہم کردار نبھایا تھا، پی چدمبرم پر جنہوں نے بٹلہ ہاؤس معاملے میں دگ وجے سنگھ کو جھٹلانے میں نہایت سرعت کا مظاہر ہ کیا  تھا، کانگریس صدر سونیا گاندھی پر یا پھر وزیراعظم منموہن سنگھ پر ، جن کی عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے  رائے دہندگان اُن سے دور رہے؟
    ہمیں اندازہ ہے کہ جواب دہی کی بات میٹنگ میں ضرور آئی ہوگی مگر سرسری طور پر، یعنی ان تمام ناموں کا تذکرہ وہاں قطعی نہیں ہوا ہوگا..... کیونکہ اگر ان ناموں پرتذکرہ ہوتا تو حقیقی مسائل خود بخود  سامنے آجاتے۔  یہ بات ہم ، آپ اور سب جانتے ہیںکہ کانگریس کی شکست میں ان تمام ناموں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ریتا بہوگنا جوشی، مایاوتی بننے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول بیٹھی تھیں۔ان میں عوام کو متاثر کرنے جیسی کوئی بات نظر ہی نہیں آئی۔ دگ وجے سنگھ صرف بیان بازی میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ میڈیا میں سنگھ پریوار پر خوب نشانہ لگاتے ہیں لیکن پارٹی کے اندر خاموش رہتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس معاملے میں یہ بھرم پوری طرح کھل گیا۔ راہل گاندھی نے انتخابی دنوں میں اینگری ینگ مین کا کردار نبھایا، جسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ عوامی نمائندگی کم ،فلموں کی ریہرسل  زیادہ کررہے ہیں۔ دریںاثنا بینی پرساد ورما، سلمان خورشید اورسری پرکاش جیسوال جیسے سنجیدہ قرار دیئے جارہے لیڈروں کی غیر سنجیدگی بھی کھل کرسامنے آئی، وہ خواہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات ہو یا صدر راج کی دھمکی کا معاملہ رہا ہو۔ اسی طرح مہنگائی اور مرکزی حکومت کی دیگر عوام مخالف پالیسیوں نے بھی اقتدار تک پہنچنے سے کانگریس کا راستہ روکا........ لیکن ہمیں اندازہ ہی نہیں بلکہ پورایقین ہے کہ مذکورہ احتسابی میٹنگ میں ان سب  باتوںکا  تذکرہ بالکل بھی نہیں ہوا ہوگا۔ 
     دراصل شکست کے بعد آئینہ دیکھنے کی طاقت صرف کانگریس ہی کیا، کسی بھی برسرِ اقتدار جماعت میں نہیں ہواکرتی۔ آئینہ دیکھنے کا مطلب ہوگا، اپنی غلطیوں کااعتراف، اور اپنی غلطیوں کے اعتراف کا مطلب ہوگا ، آئندہ اس کی تصحیح...... کیا ہم کانگریس جیسی ڈھیٹ جماعت سے اس کی توقع کرسکتے ہیں، جو مودی اور شیوراج سنگھ چوہان جیسوں کو گوارا کرسکتی ہے لیکن  ملائم سنگھ، مایا وتی، نتیش کمار، لالو پرساد،   پرکاش سنگھ بادل، بدھادیب بھٹاچاریہ اور محبوبہ مفتی جیسوں کو نہیں کیوں کہ یہ سب علاقائی جماعتوں کے لیڈر ہیں اور بی جے پی کی طرح کانگریس بھی چاہتی ہے کہ ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام قائم ہو۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی تھیں، ورنہ فی الحال ہمارا موضوع اترپردیش کی شکست کے پس منظر میں کانگریس کا محاسبہ ہے۔
     اترپردیش میں کانگریس کی شکست کی بنیادی وجہ  یوپی کے تئیں  کانگریس کارویہ اور مرکزی حکومت کی مجموعی ناقص کارکردگی رہی ہے۔ کانگریس اگر حقیقی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتی تو اسے اندازہ ہوتا کہ یوپی کے عوام، روزگار،  خود داری اور سیکوریٹی چاہتے ہیں۔ روز گار کی تلاش میں ممبئی آنے والوں کے ساتھ ایم این ایس کی ہنگامہ آرائی اور اس پر مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومت کی مجرمانہ خاموش رہی،  اسی طرح بٹلہ ہاؤس معاملے پر کانگریس کی مرکزی و ریاستی حکومتوں  کے اعتماد شکن رویے سے یوپی کے مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں کافی غم و غصہ پایا جارہاتھا۔ انتخابی مہم کے دوران حالانکہ کانگریس نےاس کا وعدہ کیا تھا، لیکن چونکہ اسی طرح کاوعدہ سماجوادی پارٹی نے بھی کیا تھا، لہٰذا رائے دہندگان نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا۔ کانگریس اگر تجزیہ کرنے بیٹھی تھی، تو ا سے اس پر غور کرناچاہئے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام نے کانگریس کے بجائے سماجوادی پراعتبار کیا؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ اس کا تجزیہ کرتی تو  ضرورکسی نتیجے پرپہنچ پاتی۔

Saturday 7 April 2012

mustahkam nahi jawab dah sarkar ki zaroorat

حکمراں جماعتوں کی نکیل چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں رہنا ملک کیلئے زیادہ سود مند ہے، کیونکہ.......

  ملک کومستحکم نہیں، جواب دَہ سرکار کی ضرورت ہے

دولت مشترکہ کھیل ، ٹوجی، تھری جی، اسرو، آدرش سوسائٹی اور کوئلہ گھوٹالے کے بعد وزیراعظم کا اتحادی جماعتوں کو کوسنا اور یہ کہنا کہ بعض فیصلے مجبوری کے تحت لئے جاتے ہیں،بالکل مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ ان گھوٹالوں  سے مجبوری نہیں، حکومت کی نااہلی نمایاں ہوتی ہے۔۱۱؍ لاکھ کروڑ روپوں کے گھوٹالے کے انکشاف پر جس حکومت کی پیشانی پر شکن تک نہ آئے، وہی حکومت ریلوے کرائے میں ہوئے اضافے کے واپسی کے فیصلے کو مجبوری کو سودا قرار دیتے ہوئے خود کو مظلو م کے طورپر پیش کرے تو افسوس ہوتا ہے.......بلاشبہ  ان تمام گھوٹالوں  ( جو مطلق العنانیت کی علامت ہیں)کے درمیان ممتا بنرجی کی اس ’بلیک میلنگ‘ کو جمہوریت کی برکت ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے ۹۰؍ فیصد عوام حکومت کو درپیش اس طرح کی ’مجبوریوں‘ کا خیر مقدم کریں تو اس پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے .......کیونکہ ملک کو مستحکم سے زیادہ .....جواب دہ حکومت کی ضرورت ہے۔

قطب الدین شاہد
 گزشتہ دنوں ہندوستانی سیاست میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے چانکیائی سیاست کے علمبرداروں کو پریشان کردیا۔  ایک چھوٹی سی جماعت کاایک بڑی جماعت کو یوں آنکھیں دکھانا اور فیصلہ بدلنے پر اسے مجبورکردینے کا یہ ضرب کاری ثابت ہوا، جس سے یہ طبقہ بلبلا کررہ گیا۔ دراصل مرکزی حکومت میں شامل ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کی دھمکیوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے یوپی اے حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جو اسے قطعی پسند نہیں تھا۔ حکومت بالکل نہیں چاہتی تھی کہ ریلوے کرائے میں کئے گئے اضافے کو واپس لیا جائے... ....لیکن ایسا کرنے پر اسے مجبور ہونا پڑا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنی بے چارگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اتحادی حکومت کی مجبوری قرار دیا۔ اسی کے ساتھ ملک میں ایک بار پھر یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس طرح کی اتحادی حکومتیں ملک کیلئے مفید ہیں یا مضر؟
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئے مستحکم حکومتوں کی وکالت کرتار ہا ہے۔اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
     معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اسے اختلاج صرف اُس وقت ہوتا ہے جب بی جے پی اور کانگریس کو مکمل اکثریت نہیں مل پاتی لہٰذا  حکومت پردباؤ دبنائے رکھنے کیلئے کچھ چھوٹی پارٹیاںاُن کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ان چھوٹی جماعتوں کے ہر جائز و ناجائز مطالبات کو یہ طبقہ ’بلیک میلنگ‘ قرار دیتا ہے اوراس طرح ان کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مہم میں میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔
      ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑدیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے........ مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
    یہی وجہ ہے کہ جب بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آتا ہے ، یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کویہ طبقہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے اور یہ کہ ہندوستان جیسے کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام  یا مستحکم حکومتوں کا فلسفہ کتنا فائدے مند ہے اور کتنا نقصاندہ؟
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیںہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں۔
    لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں  ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے ! اسے مکمل اکثریت بھی حاصل نہیں ہے ، اس کے باوجود اہم فیصلوں میں اپوزیشن تو دور کی بات، اپنے اہم اتحادیوں تک کو شامل نہیں کرتی۔ لوک پال بل  او رریلوے کرائے میں اضافے کے موقع پر یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے۔ واضح اکثریت کا مطلب اپوزیشن کا کمزور ہونا ہے، ایسے میں  حکومت پر کوئی محتسب نہیں ہوتا، لہٰذا بدعنوانیاں بے روک ٹوک ہوتی ہیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے، پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے غیر اطمینانی محسوس  ہوگی تو جھک مار کر پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہیں دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی بھی ایک جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ ۸۴ء کے بعد   سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی بھی ایک جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔   یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی۔ بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں موقع دے رہے ہیں۔  دراصل ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویوںسے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اگر ان پر کسی کا دباؤ نہیں رہا تو یہ خواص کے مفاد پر عوام کو قربان کرنے میںکسی تکلف کا مظاہرہ نہیں کریںگی۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ صنعتی گھرانوں  پر خزانہ لٹا دیا جاتا ہے مگر  یہ اُف  تک نہیں کرتیں لیکن مسافر کرائے میں اضافے کوواپس لیے جانے پر ان کی بھنویں تن جاتی ہیں۔