Monday 21 May 2012

The three years of UPA IInd Govt.

 یوپی اے  حکومت کی دوسری میقات کے تین سال
عروج سے زوال کی داستان

یکے بعد دیگرے کئی گھوٹالوں نے گزشتہ تین برسوں میں یوپی اے حکومت کی شبیہ بری طرح خراب کی ہے۔  بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے...... مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔

قطب الدین شاہد

یوپی اے حکومت آئندہ دو دنوں میں اپنی  دوسری میقات کے تین سال مکمل کرلے گی۔ ۲۲؍مئی ۲۰۰۹ء کو وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ حلف لیا تھا۔ اس حلف برداری کے ساتھ ہی انہوں نے ایک تاریخ مرتب کی تھی۔ وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ایسے دوسرے وزیراعظم بن چکے تھے ، جو ۵؍ سال کی میعاد مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدے پر پہنچے ہوں۔اسی کے ساتھ اور بھی کئی ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن.....اس کے بعد اس پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا......  دراصل یہیں سے ان کااوران کی حکومت کا زوال  شروع ہوتا ہے۔
    وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اپنی شبیہ اس دوران کتنی خراب ہوچکی ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء کی انتخابی مہم میں جب بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے انہیں کمزور وزیراعظم کہہ دیا تھا تو خواص کے ساتھ عوام نے بھی ناراضگی کااظہار کیا تھا۔لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری تھی کہ شریف النفس قسم کے وزیراعظم کو کمزور کہا جائے...لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی سوچ میںخاصی تبدیلی آئی ہے۔ شرافت کا بھرم تو ہنوز قائم ہے لیکن اس دوران مضبوط وزیراعظم کا تصور پاش پاش ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی اس کمزوری کی تشہیر اپوزیشن سے تعلق رکھنےوالی جماعتیں اور اراکین ہی نہیں بلکہ خودکانگریسی بھی کرتے پھر رہے ہیں۔
    اس تعلق سے ایک لطیفہ سن لیجئے۔کہاجاتا ہے کہ ایک شاہراہ پر ایک شخص زور زور سے چلارہا تھا کہ’ ’وزیراعظم نکمّا ہے..... وزیراعظم نکما ہے....‘‘ اُدھر سے ایک وزیر کا گزر ہوا، اس نے اس شخص کو گرفتار کروادیا، کہا: تم وزیراعظم کو نکماکہتے ہو۔ اس نے کہا : حضور ہم اپنے نہیں برطانوی وزیراعظم کو نکما کہہ رہے ہیں۔ وزیرنے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، کیا میں نہیں جانتا ہوں کہ کون وزیراعظم نکما ہے۔‘‘ یہ بہرحال ایک تخلیقی لطیفہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے اپنے کابینی رفقا ہی ان کی ناکامی کی تشہیر بنے ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں اس کی ایک  مثال  اُس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب دگ وجے سنگھ اور پی چدمبرم بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے پر لن ترانی کررہے تھے ۔اس معاملے پر وزیراعظم کی خاموشی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ ان کا بس اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں ہے۔ 
    یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں بھی سرخاب کے پر نہیں لگے تھے، لیکن حال  اتنا برا بھی نہیں تھا جتنا اَب ہے۔کچھ کوششیں بہرحال اچھی تھیں،جس کی وجہ سے ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں کانگریس کو ۲۰۰۴ء کے مقابلے ۶۱؍ نشستیں زائد مل گئی تھیں۔   کانگریس نے اسے اپنی کارکردگی کاانعام سمجھا اور پھر یہیں سے کانگریس میں خود سری  بھی آنی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے نہ صرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں شروع کردیں بلکہ اس کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب حکومت نے عوام اوران کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔
    بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔
    بڑے بزرگوں نے بالکل درست ہی کہا ہے کہ کسی غافل کو بیدار کرنا آسان ہے لیکن اس شخص کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے جو بیدار ہے مگر غفلت کا مظاہر ہ کررہا ہے۔  یہ بات موجودہ یو پی اے حکومت پرصادق آتی ہے۔ اسے ملک کی بدقسمی سے ہی تعبیر کریںگے کہ اس وقت وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی، وزیرداخلہ پی چدمبرم، وزیر شہری ترقیات جے رام رمیش، منصوبہ بندی کمیشن کے چیئر مین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ اور وزیراعظم کے معاشی مشاورتی کونسل کے چیئر مین سی رنگ راجن   جیسے ماہر ین معاشیات ملک کو کنٹرول کررہے ہیں اور ملک کی حالت یہ ہے کہ ایک تہائی سے زائد آبادی بھوکی اور ننگی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک بیماری کا احساس نہیں ہوگا، اس کے علاج کی کوششیں نہیں ہوںگی اور جب علاج نہیں ہوگا تو شفا کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
    یہ تو ہے یوپی اے کی کارکردگی کا مجموعی تاثر۔ اگر ایک مسلم کی حیثیت سے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مزیدمایوسی کااحساس ہوتا ہے۔یوپی اے نے سچر کمیٹی کی رپورٹ تو طشت از بام کردی .. اور پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کی اوقات بتادی کہ ان کی حالت دلتوںسے بھی بدتر ہے لیکن ..... اس کیلئے بہتری کی کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وقت بہت جلد آئے گا، جب ہندوستانی شہریوں کو  یو پی اے حکومت کا گریبان پکڑ کر یہ پوچھنے کا موقع ملے گا کہ اقتدار پانے کے بعد تم نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اوراب ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں؟

Saturday 12 May 2012

President election 2

صدر جمہوریہ کے انتخاب  میں
اتنی خاموشی کیوں، اتنی رازداری کیوں؟

  ۱۲۱؍کروڑ کی آبادی والے ہندوستان کیلئے آئندہ ماہ ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جانا ہے مگر ہم  ہندوستانیوں کو  ہنوزیہ بھی پتہ نہیں کہ اس باوقار عہدے کیلئے  امیدوارکون کون ہیں؟  سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں غیرمعمولی رازداری برتی جارہی ہے۔بلاشبہ اس عہدے کیلئے عوام کو براہ راست ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہے لیکن ان خواص کو جنہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ وہ کتنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔  ان حالات میں اس عمل سے عوام کو بالکل بے خبر رکھنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ او ر اگر پھر بھی بے خبررکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ موقع ملنے پر وہ اپنے نمائندوں سے جواب طلب کریں۔ 

قطب الدین شاہد

    ۲۴؍ جولائی کو ملک کی ۱۲؍ ویں صدرجمہوریہ پرتیبھا تائی پاٹل کے عہدے کی میعاد ختم ہورہی ہے۔اس سے قبل نئے صدر کا انتخاب ہوجانا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ جون کے آخری یا جولائی کے پہلے ہفتے تک اس باوقار اور آئینی عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت کاانتخاب کرلیا جائے گا....
    یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔ یعنی وقت رہتے صدرکاانتخاب کرلیا جائے گا، کسی قسم کا کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوگا لیکن.... اس معاملے میںجس طرح کی پیش رفت ہے، کیا مناسب ہے؟  ایک ماہ کا قلیل عرصہ باقی بچا ہے لیکن ابھی تک ہم ہندوستانیوں کے سامنے مطلع صاف نہیں ہے کہ اس عہدہ ٔجلیلہ پر کون فائز ہوگا؟ ہندوستان کی دو بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی  اس موضوع پر کچھ بھی کہنے سے گریز کررہی ہیں۔ چھوٹی جماعتیں بھی کانا پھوسی سے کام چلارہی ہیں۔ کوئی کھل کر نہیں کہہ رہا ہے کہ ان کی جانب سے اس عہدے کیلئے کون امیدوار ہے اور وہ کیوں ہے؟ اس پر بحث کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا گیا ہے۔کھلے عام اس موضوع پر گفتگو کو گناہ تصور کرلیا گیا ہے۔ تحریک تو چل رہی ہے اور بہت زور شور سے چل رہی ہے لیکن نہایت خاموشی سے.... رازداری کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ شطرنج کی بساط بچھادی گئی ہے، چالیں چلی جارہی ہیں،سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہورہی ہیں،شہ اور مات کا کھیل  جاری ہے مگر عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگ پارہی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اُتنی ہی باتیں ’لیک‘ ہوتی ہیں، جتنی کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔اس پورے عمل میں عوام کو کہیں سے شریک کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ کیا یہ عوام کے ساتھ فریب نہیں ہے؟
     بلاشبہ ملک کے پہلے شہری کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اس عہدے کاانتخاب بالراست عوام ہی کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ووٹ دینے والے عوامی نمائندگان کے ووٹوں کی قیمت اسی بنیاد پرطے ہوتی ہے کہ وہ کتنے شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ ضروری نہیں کہ اس پورے عمل میں عوام کو شریک کیا جائے، ان سے مشورے طلب کیے جائیں، ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائےاور اس کی بنیاد پر ملک کے پہلے شہری کاانتخاب کیا جائے؟ مگر افسوس کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب سے عوام کو کوسوں دور رکھاجاتا ہے، ان سے رائے مشورہ طلب کرنا تو بہت دور کی بات ہے ، ان کی پسند نا پسند کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ وقت رہتے کسی امیدوار  کے نام کااعلان اسی لئے نہیں کیا جاتا کہ کہیںانہیںعوام کی ناراضگی کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔اندر ہی اندر کھچڑی پکائی جاتی ہے اور پھر ایک دن  ۱۲۱؍ کروڑ ہندوستانیوںکو بتادیا جاتا ہے کہ یہ ہیں تمہارے نئے صدر، ان کااحترام کرو، ان کی تکریم کرو۔ کیا سیاسی جماعتوں کا یہ عمل جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟کیا یہ ہم عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟ کیا اس پر ہمیں سیاسی جماعتوںسے جواب طلب کرنے کا حق نہیں ہے؟
      دراصل  وطن عزیز میں اس عہدۂ صدارت کو نمائشی عہدہ بناکررکھ دیا گیا ہے۔سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس اہم اور آئینی عہدے پر کوئی ایسا شخص آ جائے جو انہیں اس بات کا احساس دلانے لگے کہ وہ ۱۲۱؍کروڑ ہندوستانیوں کا نمائندہ ہے، ملک کی افواج کا کمانڈر ہے ، مخصوص حالات میں کسی بھی حکومت کو برخاست کرنےاور کسی نئی حکومت کو حلف دلانے کااختیار رکھتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اس عہدے پر کوئی ایسا شخص ہی بیٹھے جو اُن کے حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کرے، اپوزیشن کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے، جہاں تک ممکن ہو آنکھیں بند رکھے اور ضرورت پڑے تو ان کا دفاع بھی کرے۔
     ہونا تو یہ چاہئے کہ وقت رہتے سیاسی جماعتیں اس عہدے کیلئے  اپنے  اپنےامیدواروں کا اعلان کردیں اور یہ بتائیں بھی ....کہ انہوں نے کن بنیادوںپر یہ فیصلہ کیا ہے، تاکہ عوام میں اس پر بحث ہوسکے اور ملک کو ایک بہتر صدر مل سکے، لیکن .... کیا ہماری سیاسی جماعتیں ایسا کریںگی؟

Saturday 5 May 2012

President election

صدر جمہوریہ کے انتخاب کا معاملہ
اتفاق رائےکے شوشے کے ساتھ ہی سیاسی
جوڑ توڑ بھی جاری

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے اس مرتبہ عجیب و غریب کوششیں ہورہی ہیں۔ان کوششوں کو سیاسی جماعتوں نے  ’اتفاق رائے‘ کا نام دے رکھا ہے۔بلا شبہ اتفاق رائے کی اپنی اہمیت ہے اور اس میں  برکت بھی ہے ، مگرا س کے لئے اخلاص شرط ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے ہونے والی کوششوں میں اخلاص کم، سیاسی سودے بازی زیادہ نظر آرہی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار کی اہلیت و قابلیت  پر کسی جماعت کا اصرار نہیں ہے بلکہ سبھی کی کوشش یہی ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے پر بیٹھنے والی شخصیت ان کی پسندیدہ ہو، باالفاظ دیگر اُن کی سننے والی ہو...... کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟

قطب الدین شاہد

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کی آوازیں آرہی ہیں۔ عام حالات میں کانگریس جو اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتی، اتفاق رائے کا راگ الاپ رہی ہے، اوراس کیلئے اس نےاپوزیشن کی جماعتوںسے بھی گفتگو کرنے کاعندیہ ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی جسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، صدر کے امیدوار کے طور پر ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی حمایت کااعلان کیا ہے۔ بایاں محاذ جس نے اس سے قبل بطور صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے اس عہدے کیلئے کسی سیاسی شخصیت کی وکالت کی تھی، اس مرتبہ کسی غیر سیاسی شخص کو صدر بنانے کی تحریک چلا رہا ہے۔ ممتا بنرجی،کروناندھی، مایاوتی اور ملائم سنگھ بھی ’اتفاق رائے‘کی بات کررہے ہیں لیکن سیاسی حلقوں سے جس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں، اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ جماعتیں اتفاق رائے کے نام پر سیاسی سودے بازی کررہی ہیں۔ کانگریس کے امیدوار کی حمایت کی قیمت  پر ممتا بنرجی بنگال کےلئے اقتصادی پیکیج لینا چاہتی ہیں تو کرونا ندھی مختلف الزامات میں گھرے اپنے اعزہ کیلئے سیاسی پشت پناہی اور مایاوتی تاج کاریڈور معاملے میںاپنے لئے  راحت کی متمنی ہیں جبکہ ملائم سنگھ کے تعلق سے کہاجارہا ہے کہ وہ نائب صدر کا عہدہ اپنے بھائی کو دینا چاہتےہیں۔مطلب صاف ہے کہ یہ تمام جماعتیں کسی اصول اور کسی پیمانے کی بنیاد پر صدر کا انتخاب نہیں کررہی ہیں بلکہ ان تمام کا واحد اصول یہی ہے کہ اس عہدے پر  براجمان کوئی بھی ہو، فائدہ ان کا  ہونا چاہئے۔
      اب تک اس عہدے کیلئے کئی نام سامنے آچکے ہیں، جس میں حامد انصاری اور پرنب مکھرجی کا نام سرفہرست ہے۔   دراصل کانگریس کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آئندہ  ہونے والے عام انتخابات میں اُسے اتنی نشستیں نہیں مل سکیںگی کہ وہ آسانی سے حکومت سازی کا دعویٰ کرسکے۔ اس صورت  میں صدر کا رول کافی اہم ہوگا۔ وہ قطعی نہیں چاہے گی کہ اس عہدے پرکسی ایسی شخصیت کاانتخاب ہو، جو کانگریس کو ’اہمیت‘ نہ دے... .... یا یہ کہ کانگریس کو ’فوقیت‘ نہ دے۔ یہی خدشہ بی جے پی کو بھی ستارہا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں بلکہ دونوں اتحادوں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا صدر منتخب کرسکیں۔ ان حالات میںبی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ امیدوار  اگر اس کا پسندیدہ نہیں تو کم از کم   اس کا ناپسندیدہ بھی نہ ہو۔ اس کیلئے وہ بادل نخواستہ ہی سہی تیسرے محاذ کے کسی امیدوار کی حمایت پر راضی ہوجائے گی۔   ان حالات میں کانگریس کی کوشش یہی ہے کہ ’کچھ بھی کرکے‘ وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔  اطلاعات کے مطابق پرنب مکھر جی  کے نام پر  بایاں محاذ کے ساتھ ممتا، کرونا ندھی اورمایا وتی بھی تیار ہوسکتی ہیں اور کچھ ’جواز‘ پیدا کرکے ملائم سنگھ بھی حامی بھر سکتے ہیں۔ ملائم سنگھ کے سامنے مسئلہ صرف ایک ہے کہ ان کی جانب سے براہ راست نہ سہی مگر بالراست یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہ اس عہدے پرکسی مسلم کو بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایسی کوئی بات نہیں کہ اس کیلئے وہ کوئی ’جواز‘ نہ پید ا کرسکیں۔ یہ تصویر حالانکہ کچھ دنوں میں واضح ہوجائے گی لیکن سیاسی جماعتوں کی اب تک جو ’کسرت‘ چل رہی ہے، اس سے بہرحال یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے کیلئے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ رہی ہے۔ویسے موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوںسے اس طرح کی کوئی امیدکی بھی نہیں جانی چاہئے۔ یہاں جب ایک سرپنچ کے عہدے کیلئے  سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرگزرنے کی کوشش کرڈالتی ہیں، تو پھر یہ تو وطن عزیز کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔
    دیکھاجائے تو اس عہدے کیلئے کوئی ایسی ہی شخصیت ہونی چاہئے جو سیاسی جماعتوں کے دھونس میں نہ آئے، سب کے ساتھ انصاف کرے اور  ضرورت آن پڑے تو آئین کی حفاظت کرتے ہوئے حکومت کو من مانی کرنے سے روک  سکے۔  یہ عہدہ ابھی تک کسی بھی ایسی شخصیت کا انتظار کررہا ہے۔ بلاشبہ راجندر پرساد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، کے آر نارائنن اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے صدور گزرے ہیں جنہوں نے وقتِ ضرورت اپنی اہلیت ثابت کی ہے لیکن...... یہاں ٹی این سیشن اور جسٹس احمدی جیسا کوئی کردار چاہئے جو عوام و خواص کی اس غلط فہمی کود ور کرسکے کہ یہ عہدہ نمائشی نہیں بلکہ آئینی اور بااختیار ہے۔ ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی این سیشن سے قبل الیکشن کمیشن کے عہدے کو اور جسٹس احمد ی سے قبل چیف جسٹس کی اہمیت کو بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ 
    یہ بات درست ہے کہ بیشتر معاملات میں صدر کابینی فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب صدر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کئی معاملات میں وہ خصوصی اختیار رکھتا ہے اور اس کے اطلاق کیلئے وہ وزیراعظم یا اس کی کابینہ کے مشورے کا محتاج نہیںہوتا۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس عہدے کو کوئی ایسا شخص رونق بخشے جو اِن اختیارات  کے مناسب استعمال  سے واقف ہو۔
     اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر عبدالکلام ایک موزوں امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت پوری دنیا کے سامنے ہے، ان کی سوچ ، فکر اور ان کی سادگی کی دنیا قائل ہے۔ وہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار دیئے جاسکتے ہیں  اور اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ گزشتہ میقات میں انہوں نے اسے ثابت بھی کیا تھا۔  ہم سب کو یاد ہے کہ ملائم سنگھ کی سفارش پر بی جے پی نے انہیں نامزد کیا تھا اور اس کے بدلے بھیروں سنگھ شیخاوت کو نائب صدر کی کرسی دلائی تھی، لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے بی جے پی کو خاطر میں نہیں لایا۔ ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۲ء کوجب ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا، گجرات میں خونیں فساد جاری تھا ، جو۵؍ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔  ڈاکٹر عبدالکلام نے اس موضوع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ یہ وزیراعظم کااختیار ہے کہ وہ جوائنٹ  سیشن بلائے یا نہ بلائے، لہٰذا واجپئی نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد صدر نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے گجرات دورے کا اعلان کردیا۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ۱۲؍ اگست ۲۰۰۲ء کے اس دورے کے بعد ہی گجرات میں فساد پر ’قابو‘ پایا گیا تھا۔ اس دورےسے بی جے پی  نے کافی پیچ و تاب کھایا تھا لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتی تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی وہ کلام کو صدر بنانا چاہتی ہے تو صرف اسلئے کہ اس عہدے پر کوئی کانگریس حامی شخص نہ متمکن ہو جائے ۔
    ضروری نہیں کہ اس عہدے پر کوئی مسلم ہی فائز ہو جیسا کہ سماجوادی پارٹی نے اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے جاتی ہیں لیکن کم از کم ملائم سنگھ کو تو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ کھلونوںسے مسلمانوں کو بہلایا نہیں جاسکتا ۔ مسلم رائے دہندگان اب کافی باشعور ہوگئے ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر ، نائب صدر اور اسپیکر جیسے عہدوں سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے بلکہ انہیں عزت کی دو روٹی کیلئے مناسب ملازمتیں چاہئیں۔ ان حالات پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے کہ وطن عزیز میں کسی مسلم کو صدر بنانا آسان ہے لیکن کسی مسلم کو چپراسی کی ملازمت دلانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں کم از کم اس طرح مسلمانوں کااستحصال نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ سماجوادی پارٹی اگر واقعی مسلمانوں کا بھلاچاہتی ہے تواسے چاہئے کہ صدر کے عہدے پرکسی بھی  مناسب مسلم یا غیرمسلم  امیدوار کی حمایت کردے اور اس کے بدلے میں یوپی اے حکومت سے مسلمانوں کیلئے کوئی پیکیج طلب کرلے ، جس طرح ممتا بنرجی بنگال کیلئے کوشاں ہیں۔
    یہ بات اس لئے بھی کہی جارہی ہے کہ موجودہ الیکٹورل کالج کے لحاظ سے سماجوادی پارٹی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ صدر کے انتخاب میں جسے چاہے کامیاب کروادے۔ کانگریس اور بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ اسی کے پاس ہیں۔فی الحال اس کے پاس دونوں ایوانوں میں ۳۰؍اراکین پارلیمان اور ۲۲۴؍ اراکین اسمبلی ہیں۔  اس طرح اس کے پاس۲۳؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار ۲۳۵؍ ووٹوں میں ایک لاکھ ۵۷؍ ہزار ۱۷۰؍ یعنی ۶ء۵۶؍فیصد ووٹ ہیں۔اب دیکھنا  ہے کہ ملائم سنگھ کس طرح اس موقع  سےمسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟

الیکٹورل کالج کیا ہے؟
    صدر کے انتخاب کیلئے دونوں ایوانوں کے اراکین پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے منتخب نمائندے ووٹ دیتے ہیں۔ ان کےووٹوں کی قیمت مختلف ہے، جیسے اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت جہاں ۴۹۵؍ ہے وہیںسکم اور اروناچل پردیش کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت بالترتیب ۱۹؍ اور ۲۳؍ ہے۔ ان کے ووٹوں کی قیمت کا تعین ریاست کی آبادی سے کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی ریاست کی مجموعی آبادی  کو اراکین اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیاجاتا ہے اور پھر اسے ایک ہزا ر سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح تمام ریاستوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد کو اراکین پارلیمان کی تعداد سے تقسیم کرکے ان کے ووٹوں کا تعین کیا جاتا ہے۔  اس وقت ایک ایم پی کے ووٹ کی قیمت ۱۵۴۳؍ ہے۔  دیگرریاستوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت کچھ اس طرح ہے۔ بہار (۴۲۷)،مہاراشٹر (۳۹۰)، راجستھان (۳۴۳)، گجرات (۳۳۲)، مدھیہ پردیش (۳۱۶)، مغربی بنگال (۳۱۱)، تمل ناڈو (۳۰۸)، آندھرا پردیش (۲۸۸)، اڑیسہ (۲۸۵)، چھتیس گڑھ (۲۸۴)، ہریانہ (۲۸۲) اور کرناٹک (۲۷۳)... وغیرہ     (بشکریہ : وکی پیڈیا
)