Saturday 20 October 2012

dictator democracy

جمہوری تاناشاہی

کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کیلئے خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
قطب الدین شاہد

    آگے بڑھنے سے قبل آئیے چند رپورٹس اور بیانات ملاحظہ کریں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ ہمارا ملک کس طرح جمہوریت سے تانا شاہی کی طرف رواں  دواںہے اور وطن عزیز میں عوام کی کتنی فکر کی جاتی ہے؟
     ہندوستان میں وہ لوگ غریب کہلانے کا حق نہیں رکھتے ، جن کی آمدنی شہری علاقوں میں ۲۸؍ روپے اور دیہی علاقوں میں ۲۲؍ روپے یومیہ سے زائد ہو۔
منصوبہ بندی کمیشن کی  ایک رپورٹ
    ملک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے زائد یعنی تقریباً ۵۰؍ کروڑ ہے۔
ایک سروے رپورٹ
    ۷۱؍ لاکھ روپے کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ ایک مرکزی وزیر کیلئے یہ بہت معمولی رقم ہے۔ بلا وجہ ہنگامہ مچا رکھا ہے۔
بینی پرساد ورما(مرکزی وزیر)
    ملک کے اخراجات کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سبسیڈی ختم کرنا ضروری ہے۔پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ (وزیراعظم)
    کیجریوال فرخ آباد آتو جائیںگے مگر کیا وہ یہاںسے جا بھی سکیں گے؟  میں قلم کے کام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں لیکن ضرورت پڑی تو خون سے بھی گریز نہیں کروں گا۔
سلمان خورشید (وزیرقانون)
    کیجریوال کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دو، ایک دن چلاچلا کرخاموش ہوجائے گا۔
ملائم سنگھ یادو (کانگریس کے اتحادی)
    یہاں چند ایسے بیانات نقل کئے گئے ہیں جو گزشتہ ایک ہفتے میں حکومت یا حکومت سے وابستہ شخصیتوں کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ان بیانات سےحکومت کی رعونت پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس نے جموریت کو تاناشاہی کی شکل عطا کردی ہے جہاں اختلاف کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے انتخابی وعدے میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  حکومت تشکیل پانے کے بعد  وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے تمام وزراء کو یہ ’حکم‘ دیا تھا کہ وہ تین مہینوں میں رپورٹ جاری کریں اور بتائیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں؟ اور ان کے کام کرنے کاطریقہ کیا ہوگا؟ اس حکم کے بدولت کانگریس کو مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میںبھی دوبارہ حکمرانی کا موقع مل گیا..... مگر افسوس کہ گزشتہ تین برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی اور نہ وزراء کے  احوال جاری ہوئے۔ا س کے برعکس اس دوران مہنگائی اوریوپی اے کے وزرا ء دونوں بے لگام ہوگئے۔
    یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۲؍ روپے یومیہ کمانے والے کو غریب نہیںسمجھاجاتا یعنی اسے سبسیڈی  کے فائدے سے محروم کردیا جاتاہے، اسی ملک کا ایک وزیریہ کہتا ہے کہ ۷۲۔۷۱؍ لاکھ روپے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک مرکزی وزیرکے شایان شان نہیں ہے۔  بینی پرساد ورما کے اس بیان میں کہیں نہ کہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ مرکزی وزراء چھوٹی موٹی رقمیں نہیں ہڑپتے  بلکہ وہ کروڑوں اور اربوں کے گھوٹالے کرتے ہیں۔   وزیراعظم بلا شبہ ایک نرم دل اور سلجھے ہوئے مزاج کے حامل شخص ہیں لیکن گزشتہ دنوں سبسیڈی ختم کرنے کااعلان کرتے ہوئے انہوں نے جو بیان دیا، اس سے ان کا ایک نیارخ سامنے آیا۔ ایسا محسوس ہواکہ ’ضرورت ‘ پڑی تو وہ سفاک بھی ہوسکتے ہیں۔ قیمتیں بڑھانے اور سبسیڈی ختم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا کہ پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا، کچھ اچھا نہیں لگا۔وہ اسی بات کو کسی اور انداز سے بھی کہہ سکتے تھے لیکن ...... جمہوریت جب تانا شاہی کی جانب گامزن ہو تو اس کے اثرات سے وہ بھلا کب تک محفوظ رہ سکتے تھے؟
    یوپی اے حکومت کی تاناشاہی کا سب سے کریہہ چہرہ اس وقت سامنے آیا جب کیجریوال نے سلمان خورشید کی جانب انگشت نمائی کی۔کیجریوال کتنے سچے ہیںاور کتنے جھوٹے؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں، ہم یہ بھی جانتے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، اس میں ان کی اپنی مرضی شامل ہے یا ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی نیت کیا ہے؟ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں ایک عام آدمی کو سوال کرنے کا حق ہے، جس کا جواب دینا عوامی نمائندوں پر لازم  ہے۔ سلمان خورشید سے اگر کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو انہیں اپنا آپااس طرح  بالکل نہیں کھونا چاہئے تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ میں سڑک پر پڑے ہوئے لوگوں کا جواب نہیں دینا چاہتا، ہندوستانی عوام کی توہین ہے۔  وزیرموصوف کو بہرحال یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہندوستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہی رہتی ہے اور انہیں  عام لوگوں کے ووٹوں کی بدولت کانگریس کو حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ملائم سنگھ جن کے تعلق سے یہ خوش گمانی تھی کہ وہ ’عوام‘ کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ کہنا کہ’ ’وہ چلّا چلّا کر ایک دن خاموش ہوجائے گا‘‘ .... جمہوری قدروں کے منافی اور مطلق العنانیت کی دلیل ہے۔
    دراصل ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ عوام نے واقعی اپنےنمائندوں کااحتساب کرنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح انہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔  ایسے میں اگر کوئی احتساب  کی بات کرتا ہے تو اسے اسی طرح کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں کانگریس کے یہ تیور نہیں تھے۔
    کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کی خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
    تو کیا ہمیں یہ فرمان قبول ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے ووٹوں کی اہمیت کو محسوس کریں۔ ہمیں اور کچھ اختیارات تو حاصل نہیں ہیں لیکن ....... جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں، ان ہاتھوں کو ہم نے ہی مضبوط کیا ہے اور  انہیں صرف ہم ہی کمزور کرسکتے ہیں۔

Saturday 6 October 2012

secular parties and gujrat

گجرات الیکشن سے سیکولر جماعتیں خوفزدہ کیوں ہیں؟

کیا گجرات ہندوستان سے باہر کی کوئی ریاست ہے؟ کیا گجرات کے عوام کی سوچ کچھ مختلف ہے؟ کیاگجرات کےعوامی مسائل ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے الگ ہیں؟  آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر جماعتیں انتخابات سےقبل ہی گجرات میں شکست تسلیم کرلیتی ہیں؟ وہ ڈٹ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا گاندھی نگرسے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے؟....... نہیں ایساقطعی نہیں ہے..... اوراس کے باوجود اگر ایسا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کیلئے سیکولر جماعتیں بالخصوص کانگریس سنجیدہ نہیں ہے..... وہ چاہتی ہی نہیں کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہو....

قطب الدین شاہد

ایک بہت مشہور فلمی ڈائیلاگ ہے ’’جو ڈر گیا، وہ مرگیا‘‘....گجرات انتخابات کے  پس منظر میں اگر سیکولر جماعتوں کی تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔  ظاہر ہے کہ جب ڈری سہمی یہ جماعتیں مقابلے میں جائیں گی، تو شکست سے انہیں کون بچا سکے گا۔ حالانکہ دفاعی پوزیشن میں مودی حکومت کو ہونا چاہئے مگرصاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر بداعمالیوں کے باوجود مرکز کی یوپی اے حکومت پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے سامنے سونیا گاندھی کی قیادت والا مرکزی لاؤ لشکر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ کانگریس کی یہ حالت دیکھ کر ہی شاید بال ٹھاکرے نے یہ بیان دیا ہے کہ ’ گجرات الیکشن میںمودی کے وجے رتھ کو روکنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا‘....
    تو کیا گجرات میں بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے کہ کانگریس یا دیگر سیکولر جماعتیں اس پر قابو نہیں پاسکتیں؟ اسے زیر نہیں کیا جاسکتا؟ اس قلع پر فتح پانا ممکن نہیں ہے؟....... ایسا بالکل نہیں ہے..... اوراگر اس کے باوجود ایسا ہے ... یعنی مودی کو ہٹانا مشکل لگ رہا ہے تو صرف اس لئے کہ کانگریس کی یہی منشاء ہے۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ مودی کی حکومت قائم ود ائم رہے۔اس کیلئے کسی اور سیکولر جماعت پر الزام اس لئے عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گجرات کی حد تک کسی اور جماعت میں وہ دم خم نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو اکھا ڑ پھینکے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کسی جماعت میں مودی سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے تو وہ وہاں انتخابی میدان میں کود کر کانگریس بمعنی سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب کیوں بنتی ہیں؟ ایک دو فیصد ووٹ لے کر یہ جماعتیں مودی کی جیت کا راستہ کیوں ہموار کرتی ہیں؟ ...... تو اس کا بھی جواب یہی ہوگا کہ کانگریس یہی چاہتی ہے۔ 
    دراصل کانگریس یہ سمجھتی ہے کہ مرکز میں اسے باقی رہنے کیلئے گجرات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کا قائم رہنا ضروری ہے۔مودی سے ڈرادھمکا کر کانگریس سیکولر ووٹوں کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ کانگریس یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ جب چوری نہیںہوگی تو چوکیدا ر کی ملازمت کیوںکر بحال رہ سکتی ہے؟ دہشت گردانہ واقعات نہیں ہوںگے تو  بڑی بڑی تفتیشی ایجنسیوں کی ضرورت کیوں کر محسوس کی جائے گی؟
    کانگریس پر یہ الزام بے بنیاد نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو بچائے رکھنا چاہتی ہے، لیکن ..... اس پر ہم گفتگو تھوڑی دیر بعد کریں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گجرات کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اور وہاں کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ کیا وہاں  بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے؟  یا پھر کانگریس اتنی ہی کمزور ہے، جتنی وہ ظاہر کرتی ہے؟
    ۲۰۰۲ء میں گجرات فساد کے بعد مودی حکومت اکثریت میں  آئی تھی۔  اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ مظلومین حالات سے خوف زدہ تھے لہٰذا وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لےسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں رہائش پذیرتھی، یعنی وہ  ووٹ دینے کے قابل نہیں تھے.... اور جو ووٹ دے سکتے تھے، ان کے سامنے مرحوم احسان جعفری کاانجام تھا، جنہیں بچانے کی کانگریس نے کوئی کوشش نہیں کی، اسلئےانہوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کے بجائے گھروں میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ دوم یہ کہ..... مجرمین اور ان کے حامی اپنے تحفظ کی خاطر مودی حکومت کی واپسی چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر پولنگ میں حصہ لیا۔ اس طرح مودی اکثریت سے منتخب ہوکر گجرات کے اقتدار پردوبارہ قابض ہوئے۔ اس الیکشن میں ۶۱ء۵۴؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی جس میں یقیناً مودی کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس الیکشن میں بی جے پی کو ۴۹ء۸۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۱۸۲؍ میں ۱۲۷؍ نشستیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو ۳۹ء۲۸؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵۱؍ نشستوں پراکتفا کرنا پڑاتھا۔
    ۲۰۰۴ء تک آتے آتے حالات تبدیل ہوئے۔ گجرات کا زخم  رِستا ہی رہا، جس کا کرب پورے ملک نے محسوس کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے خلاف پورے ملک میں ایک لہر چل پڑی۔ انڈیا شائننگ پر گجرات فساد کا دھبہ حاوی رہا۔ اورا س طرح بی جے پی کو اس کے گناہوں کی سزا ملی اور وہ مرکز سے بے دخل ہوگئی۔گجرات میں بھی بی جے پی مسترد کی گئی۔ ۲۶؍ پارلیمانی نشستوں میں بی جے پی کو ۱۴؍ اور کانگریس کو ۱۲؍ نشستیں ملیں۔ یعنی دونوں کی کارکردگی تقریباً برابر رہی۔ تقریباً ۹۲؍ اسمبلی نشستوں پر کانگریس بی جے پی سے آگے تھی۔ مطلب صاف تھا کہ تھوڑی سی کوشش میں کانگریس گجرات کا قلعہ فتح کرسکتی تھی۔ یہاں یہ بات واضح تھی کہ وہ تمام لوگ جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ  تھے، مودی کو  واپس لانے  کیلئے جان کی بازی لگانا چاہتے تھے ، مگر کانگریس کے حامیوں  بالخصوص سیکولر رائے دہندگان میں وہ جوش و خروش نہیں تھا کیونکہ یہ بات سب جانتے تھے کہ کانگریس کو ان مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیکولر رائے دہندگان کی یہ بے حسی ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں نظر آئی۔کہاں تو ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں کانگریس ۹۲؍  اسمبلی نشستوں پر بی جے پی سے آگے تھی، کہاں ۲۰۰۷ء میں اسے صرف ۵۹؍سیٹیں ہی مل سکیں۔  بی جے پی کو اس مرتبہ ۱۱۷؍ سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی الیکشن ہوا تو  بی جے پی کو ۱۵؍ اور کانگریس کو ۱۱؍ نشستیں ملیں۔ یہاں بھی زیادہ فرق نہیں تھا.... کانگریس اگرچاہتی توگزشتہ۳؍ برسوں میں سیکولر رائے دہندگان کا اعتماد بحال کرسکتی تھی، مگر افسوس کہ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
    یہ ہیں وہ زمینی حقائق، جو بہت واضح ہیں کہ بی جے پی گجرات میں بہت مضبوط نہیں  تھی اور نہ ہے....  یعنی اسے ناقابل تسخیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اگر اس کے باوجود بی جے پی کی حکومت وہاں قائم و دائم ہے، تو اس کی وجہ سمجھنی ہوگی۔ دراصل کانگریس اسی میں اپنی بھلائی سمجھتی ہے کہ ملک میں موت کا ایک سوداگر ہو، جس کا خوف دلا کر وہ باقی ماندہ ہندوستان کے سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان کو اپنے پالے میں رکھ سکے۔ کانگریس ، بی جے پی کے مقابلے سیکولر طاقتوں کو توڑنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتی ہے۔  ہم سب دیکھتے ہیں کہ مقابلہ اگر بائیں محاذ سے ہو، لالو کی آر جے ڈی سے ہو یاملائم کی سماجوادی سے ہو تو کانگریس کے تیور کیسے ہوتے ہیں اور جب بی جے پی سے ہو تو اس کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ شکست کے بعد کانگریس یہ الزام عائد کرتی ہے کہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے سیکولرووٹوں کو تقسیم کردیا، جس کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں، اس کیلئے کانگریس نے کیا کیا؟ کیا  ان چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی اس کی جانب سے کوئی پہل ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا تھا، تواس کیلئے ایک بڑی کوشش ہونی چاہئے تھی۔ یہ ذمہ داری صرف چھوٹی جماعتوں پر توعائد نہیں ہوتی کہ سیکولر ووٹوں کے اتحاد کا سبب وہی بنیں۔ کانگریس اُن ریاستوں میں اُن جماعتوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی، جہاں وہ بی جے پی سے مقابلہ کرتی ہیں اور کانگریس کی حیثیت ووٹ تقسیم کرنے کی ہوتی ہے۔
    کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بی جے پی اپنے عروج میں سب سے زیادہ  اترپردیش میں مضبوط تھی۔  ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب بی جے پی  ۸۰؍ پارلیمانی نشستوں میں سے تقریباً ۶۰؍ پر قابض ہوگئی تھی۔  اس نے کانگریس کو شکست دے کر وہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہاں بھی کانگریس نے گجرات جیسی ہی پالیسی اپنا رکھی تھی، جس کے نتیجے میں عوام نے ان دونوں کو اکھاڑ پھینکا اور پھر  سماجوادی اور بی ایس پی کی شکل میں تیسری اور چوتھی قوت کو اقتدار تک پہنچایا۔ گجرات میںاگر کانگریس کا یہی رویہ رہا، تو ایک دو انتخابات کے بعد وہاں بھی تیسری اورچوتھی قوت کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ پرست نہیں ہے۔