Wednesday 18 December 2013

Assembly election aur Congress ki mayus kun karkardagi

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی مایوس کن کارکردگی کی بنیادی وجہ

مہنگائی اور بدعنوانی نہیں،  انانیت رہی ہے

یہ بات بالکل درست ہے کہ کانگریس سے عوام کی شدیدبرہمی نے اسے شکست سے دو چار کیا ہے لیکن اس ناراضگی کی وجہ صرف مہنگائی اوربدعنوانی نہیں ہے بلکہ حکومت کی انانیت رہی ہے۔ عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کسی اور کی ہوتی تو بھی مہنگائی اور بدعنوانی کم و بیش اسی طرح رہتی.... لیکن ۲۰۰۹ء میں دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کانگریس نے جس رعونت و انانیت کا مظاہرہ کیا، وہ عوام کو بالکل پسند نہیں آیا
 
قطب الدین شاہد
 
پانچ ریاستوں  میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات کو  فائنل سے پہلے کا سیمی فائنل کہاجارہا تھا جس میں کانگریس کو اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔چھتیس گڑھ اور میزورم جیسی چھوٹی ریاستوں میں نتائج تقریباً  جوں کے توں رہے لیکن بقیہ۳؍ اہم ریاستوں میں (جن میں ۲؍ پر کانگریس اورایک پر بی جے پی قابض تھی) کانگریس کہیں بھی مقابلہ کرتی  نظر نہیں آئی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سے عوام کی اس ناراضگی کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو پہنچا کیونکہ  وہاں عوام کیلئے کوئی مضبوط متبادل نہیں تھا۔راجستھان کی شکست کانگریس کیلئے بدترین رہی  ہے لیکن اس کے قدموں تلے زمین دہلی میں کھسکی جہاں ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت  نے اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔
     دلچسپ بات یہ ہے کہ نتائج ظاہر ہونے سے قبل تک کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی نہ صرف یہ کہ خاطر میں نہیں  لارہی تھیں بلکہ انتخابی میدان میں ان کے اترنے کے فیصلے کا مذاق بھی اڑا رہی تھیں۔اب جبکہ نتائج ظاہر ہوچکے ہیں،انتخابی تجزیہ نگار کانگریس کی  ذلت آمیز شکست اور بی جے پی کی فتح کے اسباب جاننے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ ایک طبقہ اسے مودی کی لہر مانتا ہے تو کچھ لوگ بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلیٰ (شیوراج سنگھ چوہان اور رمن سنگھ)کی بہترین کارکردگی کو اس فتح کی وجہ بتا تے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ ہے جو کانگریس سے عوامی ناراضگی کو اس نتیجے کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔  یہ بات بالکل درست ہے لیکن  اس سے عوامی ناراضگی کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مہنگائی اور بدعنوانی ایک وجہ ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہوسکتی۔ خاص و عام یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی اور بدعنوانی کیلئے صرف کانگریس ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ بے قابو مہنگائی کیلئے جہاں بین الاقوامی عوامل کارفرما ہیں، وہیں بدعنوانی کیلئے ہمارا پورا سسٹم ذمہ دار ہے جس کے ایک حصہ ہم یعنی عوام بھی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس کو پھر سزا کیوں دی گئی؟  اس کا جواب یہ ہے کہ کانگریس میں بہت زیادہ رعونت آگئی تھی اوراس کے لیڈر انانیت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ایک زمانہ  تھا  جب کانگریس کے اراکین چوپال پر بیٹھ کر عوام کی باتیں سنتے تھے اوران پر عمل کرتےتھے اورآج یہ عالم ہے کہ وہ عوام سے بہت دور ہوگئے ہیں اور ان کے پاس جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کانگریس میں لیڈروں کی بہتات ہے لیکن عوامی نمائندوں کی شدید قلت  ہے۔عام آدمی کی بات جانے دیں،  ۲۰۰۹ء کے بعد کانگریس کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو خاطر میں لانا اپنی شان کے خلاف سمجھنے لگی ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی ۔
    دراصل کانگریس بھی اسی برہمنی نظام کی حامی ہے جو ملک میں دو جماعتی نظام کی وکالت کرتا ہے۔ کانگریس بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ اور بی جے پی باری باری حکومت کرتے رہیں۔ کانگریس کوبی جے پی سے کوئی خار نہیں ہے، کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس اپنی باڈی لینگویج  سے کچھ یہی تاثر دینا چاہ رہی ہے کہ اس مرتبہ وہ بی جے پی کیلئے میدان صاف رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں زیادہ محنت نہیں کرتی جہاں بی جے پی کی حکومت ہوتی ہے، اس کے برعکس ان ریاستوں میں اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہے جہاں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکمرانی ہوتی ہے۔  وہ خواہ یوپی ہو، بہار ہو یا مغربی بنگال  اور جموں کشمیر۔اس مرتبہ بھی یہی دیکھا جارہا ہے کہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے زیادہ وہ دہلی کیلئے پریشان ہے جہاں اسمبلی کی ۷۰؍ اور پارلیمنٹ کی صرف ۷؍ نشستیں ہیں۔   
     یہ بہت مشہور مقولہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو بہت دنوں تک بہت سارے معاملات میں بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا.... اس کے باوجود کانگریس یہی کام کررہی ہے۔ اسے نہیں پتہ اب ہندوستانی عوام کافی سمجھدار ہوگئے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے لگے ہیں۔ اسے اگر اپنی ساکھ بحال رکھنی ہے تو ہندوستانی عوام کےمزاج کو سمجھنا ہوگا۔  بلاشبہ مہنگائی اور بدعنوانی کے اس دیو کو حکومت پوری طرح نہیں روک سکتی لیکن وہ اس معاملے پر اپنی سنجیدگی کااظہار تو کر ہی سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے لیڈروں نے ۵؍ روپے میں بھر پیٹ کھانا ملنے کی بات کہہ کر غریبوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔  ان حالات میں کانگریس کو اس سے بہتر نتیجے کی امید کرنی بھی نہیں چاہئے تھی۔

Saturday 14 December 2013

Roznaamcha> Farooq abdullah

فاروق عبداللہ نے غلط کیا کہا تھا؟
 
 سچ کہنا اور اس پر قائم رہنا بڑی جرأت کا کام ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں یہ وصف بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ ان کی زبان سے اگر کبھی کوئی سچی بات نکل بھی گئی توتنقیدوں سے بچنے کیلئے دوسرے ہی پل اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے جو بات کہی تھی، وہ قطعی غلط نہیں تھی .... لیکن وہ اپنی اُس بات پر ۲۴؍ گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکے اور اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا تھا موجودہ  حالات  میں  انہيں لگتا ہے کہ کسى خاتون کو پرسنل سیکريٹرى نہيں رکھنا چاہئے کيونکہ اس کى کسى بھى شکايت پر جيل  ہوسکتی ہے۔  ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بيان پر سياسى جماعتوں اور خواتين کى تنظيموں نے سخت ردعمل ظاہر کيا جس کے بعد  ان کو معافى مانگنى پڑى۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے غلط کیا کہا تھا؟ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان ہونےوالے واقعات سے فاروق عبداللہ کیا،ہر خاص و عام سہما ہوا ہے۔ تہلکہ کے چیف ایڈیٹرترون تیج پال ، مغربی بنگال حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین جسٹس گنگولی اور  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسرمحمد شبیر جیسی اہم شخصیات  جب اس قانون کی زد میں آسکتی ہیں اور اپنا کریئر تباہ و برباد کرسکتی ہیں تو بھلا عام آدمی کس قطار شمار میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بے قصور ہیں یا  ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئے لیکن   ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ محض الزام عائد کردیئے جانے سے یہ مجرم ہوگئے۔ اگر یہ مجرم ہیں تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہو لیکن جب تک الزام ثابت نہیں ہوجاتا، انہیں مجرم نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
    قانونی کی سختی اور اس کے اطلاق میں جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ کسی خاتون نے کسی مرد پر جنسی زیادتی کاالزام عائد کردیا تو پھر یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ چندماہ قبل احمد آباد کی ایک طوائف  نے۴؍ افراد پر ’آبروریزی ‘ کاالزام عائد کیا تھا۔ اس نے  اپنی شکایت میں یہ بات کہی تھی کہ۲؍ لوگوں کے ساتھ وہ   ۲؍ گھنٹے کیلئے’کہیں‘گئی تھی جہاںان دونوں کے مزید ۲؍ ساتھی آگئے اور اس کی آبروریزی کی اور ’قیمت‘ بھی ادا نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ان چاروں پر اجتماعی آبرو ریزی  کے معاملات درج ہوئے۔
      عزت و عصمت کسی بھی خاتون یا لڑکی کا سب سے قیمتی زیور ہوتا ہےجس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف اس خاتون پر  بلکہ پورے سماج پر عائد ہوتی ہے۔اس کیلئے نہ صرف سخت قانون کے نفاذ کی ضرورت ہے بلکہ کسی قانون سے زیادہ ضروری احتیاطی تدابیر کی ہے..... افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے قانون تو سخت بنا دیا گیا لیکن احتیاط کے نام پر کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ فلموں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر آج بھی کچے ذہنوں کو اس جرم کی جانب دھڑلے سے ’راغب‘ کیا  جارہا ہے۔  ٹیلی ویژن شو ’بگ باس‘ میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ کیا وہاں تہذیب و تمدن کی تربیت دی جارہی ہے؟
     اس کے باوجود حال ہی میں شو سے باہر ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی اداکارہ صوفیہ حیات نےارمان کوہلی کے خلاف پولیس میںبدسلوکی کی شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔  اس بات کا اعتراف عدالت تک نے کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال بہت تیزی سے ہورہا ہے مگر افسوس کہ اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بس، ٹرین اور راستوں پر چلتے ہوئے ایک عجیب سا  خوف محسوس ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے؟  اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو قانون کی اس سختی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ جرائم میں کمی آئے نہ آئے لیکن خوف کی شدت بڑھی تو لوگ خواتین کی عزت کرنے کے بجائے ان سے نفرت کرنے لگیںگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا سماجی نقصان ہوگا۔

Tuesday 29 October 2013

Roznaamcha_Shaam ke baad Sannata


 شام کے بعد کا سناٹا

قطب الدین شاہد

دن بھر کی ہماہمی کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب مصروفیتوں پر تھوڑا ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ یہ وقفہ آرام اور احتساب کا ہوتا ہے،دوڑ دھوپ میں کیا کھویا ، کیا پایا کے حساب کتاب اور جائزے کا ہوتا ہے۔ اس وقت بعض چہروں پر اطمینان کی جھلک پائی جاتی ہے تو بعض کے چہروں سے جھلاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔شام کے بعد کے اس سناٹے میں وہ لوگ گہری نیند کا مزہ لیتے ہیں جو اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں یا جن کی کارکردگی کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن یہی سناٹا ان لوگوں کیلئے روح فرسا ثابت ہوتا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے جن کی دوڑ بھاگ کے نتائج غلط یا ان کی توقع کے برعکس ہوتے ہیں۔
    کتنی عجیب با ت ہے کہ اپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے  بوڑھے والدین کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے.... اور پھر کچھ عرصے کے بعد  وہی بچے بڑے ہوکراپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے انہیں بھی اسی انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف حال میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی’خوشی‘ کا اتنا خیال رہتا ہے کہ ماضی یعنی والدین کی محبت کو فراموش کردیتے ہیں اور مستقبل یعنی اپنا انجام بھی بھول جاتے ہیں۔
     اس تمہید کا پس منظر ایک ڈراما ہے جس کا نام ’شام کے بعد کا سناٹا‘ ہے۔ مصنف نے زندگی کے تین ادوار بچپن، جوانی اوربڑھاپے کو صبح ، دوپہر اورشام سے تشبیہ دیتے ہوئے شام کے بعد کے سناٹے کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ’اولڈ ایج ہوم‘ جس میں اپنی اولادوں کے ستائے ہوئے مختلف مذاہب  کے معمر افراد ہیں۔ یہ سب متوسط  اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دن رات محنت کرکے دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ لوگ کبھی موٹر، گاڑی ، بنگلہ کے مالک تھے اور بینک بیلنس رکھتے تھے مگر آج کسی اورکے رحم و کرم پر زندگی کے بقیہ ایام گزاررہے ہیں۔یہاں پہنچ کر جہاں یہ ماضی کی باتیں یاد کرکے اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتےہیں، وہیں موجودہ سماجی روش کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی صورت حال سوچ سوچ کر پریشان بھی ہیں۔اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے یا بیٹیوں اور بہوؤں کے ظلم و ستم سے پریشان ہوکر خود ہی گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان بوڑھوں کو اس بات کا شدید ملال تھا کہ جن کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا، غلط و صحیح کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی ہر خوشی کا خیال رکھا، انہیں یہ جاننے کی بھی فکر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ ایک دن ایک بوڑھا مرگیا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’وٹھل کہتا تھا کہ جب اس کو بیٹا پیدا ہوا تو اس نے کندھے پر ٹوکری رکھ کر محلے میں لڈو بانٹا تھا،آج وہی بیٹا اس کی ارتھی کو کاندھا دینے بھی نہیں آیا۔‘‘
    ان کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ایک دن قدرے تاخیر ہوجانے پر وہاں کے ملازم کے گھر سے فون آگیا کہ کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔ وہاں کے بوڑھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’اپنے بچوں کو کیا کھلایا ہے اور کیسی تربیت کی ہے کہ وہ اس دنیا کے نہیں معلوم ہوتے؟‘‘ نوکر کہتا ہے کہ’’ ہم نے بچوں کو حلال کمائی کے نوالے کھلائے ہیں اور بزرگوں کی عزت کی صرف تلقین نہیں کی بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے۔‘‘اس میں یوں تو بہت ساری سبق آموز باتیں ہیں لیکن نوکر کےاس جملے کو اس  ڈرامےکا حاصل کہاجاسکتا ہے۔ صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں کیلئے بھی یہ باتیں عبرت انگیز ہیں ، ہم تو بحمدللہ مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں  اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہر غلط عمل کی سزا خود ہمیں ہی بھگتنی ہوگی۔

Saturday 19 October 2013

Roznaamcha_The Genration Gap

  بزرگوں اور بچوں کے درمیان فاصلہ

قطب الدین شاہد

 عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوں میں  بڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ      تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے   مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن خطبہ ختم ہونے کے بعد جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر کافی پیچھے کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو باہر بھی نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئےجانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوں اور بزرگوں کا احترام کرنا چھوڑ دیں، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔
     آج ہمارا موضوع یہی ہے کہ بزرگوں اوربچوں کے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس خلیج کو بھرا کیسے جاسکتا ہے؟
      یہ شکایت عام ہے کہ بچے بزرگوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہے۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ شرارت تو کسی حد تک گوارا ہے مگر طلبہ کی ایک بڑی تعداد تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے بدتمیزی پر آمادہ نظر آتی ہے۔  اپنی اصلاح پر توجہ دینے کے بجائے  یہ بچے اساتذہ کی شکایت  پرنسپل، والدین اور بعض تو پولیس اسٹیشن میں بھی کربیٹھتے ہیں۔
    حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں اور  ماضی کی باتوں کو یاد کرکے اسے اچھا  اور اس بہانے خود کو  اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں۔ آج کے طلبہ اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اساتذہ اور بزرگوں کوخاطر میں نہیں لاتی لیکن....
     یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟دو نسلوں کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس صورتحال کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اس لئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کرنے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتےہوئے انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوںگے۔ کچھ یہی  حال آج کے اساتذہ کا بھی ہے۔  بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں اور طلبہ کو اپنے بڑوں، بزرگوں اور اساتذہ سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ سلام  و احترام کرنے اور ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں  آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔
    

Saturday 14 September 2013

sentence for rape

آبروریزی کے مجرموں کو پھانسی کی سزا
خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دیاجانا ضروری تو ہے مگر
جرم  کےتدارک کیلئے بھی کچھ  کوششیں کی جائیں تو اچھا ہے
 
مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟  کیاسماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو عصمت دری سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟  اس طرح کی وارداتوں سے بچنے کی جانب توجہ کیوں نہیں دیتے؟
  
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ سال۱۶؍ دسمبرکو دہلی میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری کے وحشی مجرمین کو عدالت نے قرار واقعی سزا سنا دی ہے۔انہیں پھانسی کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ بلاشبہ یہ اسی کے حقدار تھے بلکہ اس سے بھی کوئی سخت سزا انہیں دی جاتی تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا۔اس معاملے کی ایک اچھی بات یہ رہی ہے کہ سست رفتاری کیلئے مشہور ہمارے عدالتی نظام نے نہایت تیز رفتاری سے معاملے کی سماعت کی اور محض ۹؍ مہینوں میں فیصلے کا اعلان کردیا ۔ اس پر اپنے رد عمل کااظہار کرتے ہوئے جہاں دفاعی وکلاء نے سیاسی دباؤ میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا وہیں متاثرہ کے والدین نے خوشی کاظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بالآخر ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا۔‘‘ اس پر بحث بعد میں کی جائے گی کہ یہ فیصلہ سیاسی دباؤ میں کیا گیا ہے یا نہیں ۔۔۔۔ یاپھر یہ کہ ان کی بیٹی کو انصاف مل گیا ہے یا نہیں..... آئیے گفتگو کرتے ہیں کہ کیا اس طرح کے جرائم کوہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کی تدابیر یا طریقے اختیار نہیںکئے جاسکتے؟
    ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جرم ہونے سے قبل انہیں روکنے کی بات کرنے پر ہمیں قدامت پرست اور دقیانوسی خیالات کا حامل قرار دیا جائے گا۔اس سے قبل ہم کئی اہم شخصیتوں کا حشر دیکھ چکے ہیں کہ جیسے ہی کسی نے اس موضوع پر لب کشائی کی اور احتیاطی تدابیر کی بات کی، میڈیا اور سیاست دانوں کے ساتھ خود کو آزاد خیال کہنے والوں نے اس پر یلغار کردی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاست داں بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں تاکہ اس بہانے ایک کو ٹی آر پی بڑھانے اور دوسرے کو سیاسی روٹیاں سینکنے کے مواقع مل سکیں۔ ایک سادہ سا اصول ہے کہ کسی بینک میں ڈکیتی ہوجائے تو وہاں صرف بینک کے باہر سیکوریٹی میں اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے قبل تجوری کی مضبوطی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ لٹیروں کی نظر اور دسترس سے اسے دور رکھا جائے۔ کیا ہمارے لئے ہماری عصمت اور ہماری عزت بینک میں پڑے کاغذ کے ان نوٹوں سے بھی گئی گزری ہے کہ ہم اس کے تئیں اتنی لاپروائی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔عصمت دری اور آبروریزی کے ان بڑھتے واقعات کے سد باب کیلئے ہم صرف اور صرف سزاؤں کا ہی مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا مجرم کو سزا مل جانے سے آبروریزی کی شکار لڑکی کی آبرو واپس مل سکتی ہے؟ سماج میں اسے وہ مرتبہ مل سکتا ہے جو آبروریزی سے قبل اسے حاصل تھا؟ پھر ہم اس سے بچنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ اور کرتے بھی توہماری تان صرف سیکوریٹی میںاضافے ہی پر کیوں آکر ٹوٹتی ہے؟ ہم اپنی تجوری کی حفاظت کی جانب کیوں نہیں توجہ دیتے؟ ہم اپنی عزت کو عصمت کے لٹیروں کی نظروں اور ان کی دسترس سے دور رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟کیا صرف سز ا کے خوف سے اس قبیل کے لوگ اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں؟عام طور پر یہ عادی قسم کے مجرم ہوتے ہیں، انہیں آسانی سے جرم کے مواقع ملیںگے تو یہ کبھی باز نہیں آئیںگے؟
    ہم دیکھ چکے ہیں کہ نئی دہلی میں ہونے والے اس واقعے کے بعد سماج میں کس طرح کے رد عمل کااظہار ہوا ؟ جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکالے گئے اور مجرمین کے خلاف مظاہرے ہوئے، ان کیلئے سخت سے سخت سزاؤں کی سفارش کی گئی..... اس کے باوجودملک کے مختلف حصوں سے بہن بیٹیوں کی عصمتیں لٹنے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔میڈیا نے ان میں سے صرف انہی خبروں کااحاطہ کیا جہاں اس کی دلچسپی تھی یعنی جہاں سے اس کی ٹی آر پی بڑھ سکتی تھی۔ اسی طرح ہمارے سیاست داں بھی صرف اسی معاملے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیئے جس میں ان کے بیانات کو ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے کی انہیں امید تھی۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یوپی، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی دلت آبادی اور قبائلی علاقوں میںاس طرح کی وارداتیں آئے دن انجام دی جاتی رہی ہیں  مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات تو معاملہ بھی درج نہیں کیا جاتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مجرم بارسوخ ہوتے ہیںاور انہیں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ 
    اس طرح کے گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرمین کی عام طور پر تین قسمیں ہوتی ہیں۔
   ایک وہ جو دماغی مریض ہوتے ہیں۔ یہ ۵۔۴؍سال کی   معصوم کلیوں کو مسلنے یا ۷۰۔۶۰؍ سال کی عمر دراز خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے۔ یہ جب وحشی پن پر آتے ہیں تو اپنی بیٹی، بہن اورماں کی بھی تمیز نہیں کرتے۔
     دوسری قسم میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو انتقامی طورپر اس طرح کے جرم انجام دیتے ہیں۔ دلتوں اور قبائیلیوں کو سزا دینے کے نام پر اکثر اس طرح کی خبریں منظرعام پر آتی ہیں۔ فسادات میں ان عناصر کی بن آتی ہے۔
     تیسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوکراس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس کیلئے وہ لالچ بھی دیتے ہیں، روپے بھی خرچ کرتے ہیں اور جب اس سے بات نہیں بنتی تو زبردستی بھی کرتے ہیں۔
    ان تینوں قسم کے مجرموں سے نمٹنے کیلئے کسی ایک قانون کا اطلاق مناسب نہیں ہے۔  پہلی اوردوسری قسم کے مجرموں کے جرم زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں اور یہ سراسر زیادتی پر محمول ہوتے ہیں جبکہ تیسری قسم کی وارداتوں میں سے بیشتر میں کہیں نہ کہیں دونوں فریق ذمہ دار  ہوتے ہیں.... مگر افسوس کہ ہمارا میڈیا ، ہمارے سیاست داں اور آزاد خیالی کی مبلغ تنظیمیں پہلی اوردوسری قسم کی وارداتوں پر آنکھیں بند رکھتی ہیں اور تیسری قسم کے جرائم میں  ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔
     یہ بات کچھ لوگوں کو ہضم ہو یا نہ ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ملک کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج عصمت دری کے معاملات میں ایک بڑی تعداد  ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی برابر کی قصور وار ہیں۔  اکثر اس طرح کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں کہ شادی کا وعدہ کرکے یا ملازمت دلانے یا پھر پروموشن کا لالچ دے کر ایک سال سے اس کی عصمت دری کی جاتی رہی...... بہت ممکن ہے کہ بیشتر معاملات ایسے بھی ہوں جن میں ’بات‘ نہیں مانے جانے پر اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے ہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سماج میں بلیک میلنگ کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اس  جانب بھی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
    لالچ دے کر کی جانے والی عصمت دری بھی بہرحال جرم ہی ہے لیکن ایک سال سے انجام دیئے جانے والے اس جرم کیلئے کیا ایک ہی فریق ذمہ  دار ہے؟  کیا یہ رشوت کے زمرے میں نہیں آتا؟ اگر ملازمت مل جاتی یا پروموشن ہوجاتا  تو کیا کسی باصلاحیت حق دار کی حق تلفی نہیں ہوتی؟  شادی کا وعدہ کرکے کی جانے والی عصمت دری اگرچہ جرم ہے مگر یہ بات بگڑجانے ہی پر کیوں جرم قرار پاتی ہے؟  پہلے ہی سے اس طرح کے حالات کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟ کیوں اس طرح کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں اور کیوں اس کے مواقع دیئے جاتے ہیں؟ قانون اور معاشرے کی نظر اس پر کیوں نہیں پڑتی؟
    چھیچھڑے دکھا کر کتوں سے شرافت کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ کتوں پر پابندی کے ساتھ ہی چھیچھڑے دکھانے والوں پر بھی روک لگنی چاہئے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کی جائے، فحاشیت پر قابو پایا جائے اور اقدار کی تعلیم  عام کرتے ہوئے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ مجرم کو سزا دینا جرم کی شرح کم کرنے کی ایک کوشش تو ہے لیکن یہ کوشش مکمل نہیں ہے۔

Wednesday 11 September 2013

Roznaamcha_Travel by ST buses

ایس ٹی بس کا سفر اورپریشانیاں

قطب الدین شاہد
 
سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
    ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس کی جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ اور سیمی لکژری بسوں کے معاملات قدرے غنیمت ہیں۔  
     ایسا کیوں ہے؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے   صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔سب سے بڑا مسئلہ ان بسوں کے ٹائم ٹیبل کا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بس ڈپو اور بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافر وہاں بھٹکتے رہتےہیں لیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے  وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔چونکہ مسافروں کی شکایتیں سننے کا کوئی باقاعدہ نظم نہیں ہے لہٰذا  ان سرکاری ملازموں کوجوابدہی کا خوف بھی نہیں ستاتا۔ یہی وجہ ہے کہ    ریاست کے کئی بس ڈپو تو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ان چوروں اور لفنگوں  سے ان کی ملی بھگت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوں کی وجہ سے خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکول جانے والی طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین جو روزانہ سفر کرنے پر مجبور ہیں، ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے کھڑے جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو .....   عام طورپر ہر ڈپو میں پولیس اسٹیشن ہوتا ہے اوران کی موجودگی میں روزانہ پرس اور موبائل چوری کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔کبھی کبھار سفر کرنےوا لوں کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص اُس وقت جب وہ گھر کی خواتین اور بچوں کے ساتھ ہوں۔ 
      ایسا دراصل اس لئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو چونکہ یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے  لہٰذا حکومت ان سے زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں جبکہ ہماری جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔
    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بی ای ایس ٹی اس کی واضح مثال ہے۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

Tuesday 27 August 2013

Roznaamcha

طلبہ اور چندہ وصولی

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک دوست نے سوال کیا کہ ’’آنکھوں سے معذور  اور کینسر زدہ بچوں کی مدد کے نام پر ان دنوں طلبہ کو چندہ کرنے کیلئے جو رسیدیں تھمائی گئی ہیں ، وہ کیا ہے؟‘‘ مزید استفسار پر معلوم ہوا کہ بعض اسکولوں کی انتظامیہ نے اپنے طلبہ کو کچھ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی رسیدیں حوالے کی ہیں اور انہیں اپنے پاس پڑوس اور محلے سے چندہ (جمع) کرنے کیلئے کہا  ہے۔ یہ این جی اوز کینسر جیسی مہلک  بیماری  کے شکار اور آنکھوںکی نعمت سے محروم بچوں کی مدد کرتی ہیں۔  طلبہ کے ذریعہ جمع کی جانے والی یہ رقم اسکولوں کے انتظامیہ اُن این جی اوز کے حوالے کردیتے ہیں۔  قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اس طرح بڑی آسانی کےساتھ مختلف اسکولوں سے   ایک خطیر رقم جمع ہوجاتی ہے۔ یقیناً یہ ایک نیک کام ہے جس کی پذیرائی ہونی چاہئے..... لیکن اس نیک کام کا طریقہ غلط ہے۔ اس کی وجہ سے چند وصول کرنے والے طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔
    ’حلوائی کی دکان پر دادا کا فاتحہ‘ کے مصداق طلبہ کے ذریعہ جمع کی جانے والی  اس رقم کو اسکول انتظامیہ اپنے نام سے این جی اوز کو دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں حکومت سے  دوسرے معاملات میںبہت سی  مراعات حاصل کرتے ہیں اور طلبہ کا نہ تو کہیں نام اُجاگر ہوتا ہے نہ ہی کوئی اِضافی سہولت اُنہیں ملتی ہے۔
     صدقہ و خیرات کی ادائیگی ایک خالص انسانی جذبہ ہے۔ بچوں میں اس جذبہ کو پروان چڑھانےکیلئے ضروری ہے کہ انہیں بچپن ہی سے اس کی ترغیب دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نیک والدین چند ہ کی رقم جسے بھی دینی ہو وہ اپنے بچوں کےہاتھوں سے دلواتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس طرح ان کے بچوں کے دلوں سے دولت کی محبت جاتی رہے گی اور کل جب وہ خود کمانے لگیںگے تو اس عمل میں پیچھے نہیں رہیںگے  اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے دیکھیںتو طلبہ کو چندہ وصولی  کے کام میں لگا نے کا یہ ایک جواز بنتا ہے کہ اس طرح طلبہ میں انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جب  بیمار بچوں کے علاج اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئےچندہ کرکے یعنی اپنی محنت سے جمع کرکے ایک چھوٹی موٹی رقم  اسکول کو دیںگے تو انہیں طمانیت کااحساس ہوگا اور دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ انہوں نے ’مجبوروں‘ کی اپنی بساط بھر مدد کی ہے....
     لیکن یہ ایک پہلو  ہے جو مثبت ہے ، اس کے برعکس اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں۔  اول تو یہ ہے کہ طلبہ کی توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طریقے سے یعنی چندہ جمع کرکے جب طلبہ کے ہاتھ میں ایک رقم آتی ہے، تو ان کے بہکنے کا بھی خدشہ  پیداہوتا ہے۔ کہیں ان معصوم ذہنوں میں یہ بات آگئی کہ ’’یہ تو اچھا کاروبار ہے جس میں نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے‘‘ تو  انہیں سنبھالنا مشکل ہوگا.....  اس چندہ وصولی کا سب سے تاریک پہلو  طالبات  ہیں۔ آٹھویں، نویں اور دسویں میں زیر تعلیم  طالبات کی عمر ہرچند کہ کم نہیں ہوتی.... لیکن ان میں اتنی پختگی بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ اچھا برا سمجھ سکیں۔  اخلاقی سطح پراس زوال  پذیر معاشرے میں ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں کہ انہیں چندہ دینے والے کن نظروں سے دیکھتے ہوںگے؟  خدانہ کرے، اگر ان طالبات کو ’اتنی آسانی‘ سے ملنے والی یہ رقم انہیں کسی غلط راستے پرڈال دے تو .... اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ 
     اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین  اساتذہ کے ساتھ ہونے والی (پی ٹی اے) میٹنگ میں اس موضوع کو زیر بحث لائیں۔ چندہ والدین سے ضرور طلب کیا جا سکتا ہے  لیکن بچوںکو اس کام پر ہرگز نہیں لگایا جانا چاہئے۔

Saturday 24 August 2013

دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کوسرکاری قانونی امداد
امکانات اور خدشات
کفر ٹوٹا خداخدا کرکے۔ بالآخر حکومت نے یہ بات تسلیم کرہی لی کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں  میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں۔ یہ بات بہت دنوں سے کہی جارہی تھی مگر حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انتخابات کے پیش نظر ہی سہی حکومت نے اگر سرکاری سطح پر یہ بات تسلیم کی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے..... اس سے قطع نظر کہ ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ حکومت اس سلسلے میں کیا کرے گی؟ اور یہ کہ کچھ کرے گی بھی یا نہیں؟اس معاملے میں خوش آئند بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت نے مسلم نوجوانوں کی مظلومیت کا اعتراف کرلیا ہے۔ حکومت سے امید کچھ اسلئے بھی نہیں ہے کہ درد اُسی نے دیا ہے، وہ دوا کیا دے گی؟

قطب الدین شاہد

جمہوری نظام حکومت کی تعریف یوں تو’’عوام کی حکومت، عوام کیلئے  اور عوام کے ذریعہ‘‘ ہے مگر عوام کو اپنی اہمیت کا اندازہ صرف انتخابات  کے موسم میں ہی ہوتا ہے۔  انتخابی دنوں میں انہیںقابل اعتنا سمجھا جانے لگتا ہے، ان کے مسائل پر توجہ دی جانے لگتی ہے اور انہیں حل کرنے کی باتیں بھی ہونے لگتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ وعدے پورے بھی کردیئے جائیں لیکن عوام تھوڑی دیر کیلئے بہرحال ان وعدوں  سے بہل توجاتے ہیں کہ چلو کم از کم ان کے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھا تو گیا جسے مسئلہ بتانے کیلئے ا نہیں لاکھوں جتن کرنے پڑے۔  حالانکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس کی حیثیت محبوب کے وعدے سے زیادہ کی نہیں ہے جو کبھی وفا نہیں ہوتا۔
    گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ کچھ اسی طرح کا ایک دلفریب وعدہ کیا ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتا ر مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد فراہم کرنےکی یقین دہانی کرائی ہے۔اسے دلفریب وعدہ اس لئے کہاجارہا ہے کہ اس سے  خاطر خواہ نتائج کی کوئی امید نہیں کیونکہ یہ درد اُسی حکومت کا دیا ہوا ہے لہٰذا اس سے  اس سلسلے میں دوا کی امیدکیونکر کی جاسکتی ہے، تاہم یہی کیا کم ہے کہ پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دہشت گردی کے الزام میںگرفتارمسلم نوجوانوں میں’کچھ‘ بےقصور بھی ہیں۔یہ بتانے کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا نہیں کیا؟ ضلعی سطح پر حکام کو میمورنڈم دینے کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ وزیرداخلہ، وزیراعظم اور صدر جمہوریہ سے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہیں سے بھی قابل اطمینان جواب نہیں ملا۔ تسلیاں تو ہر ملاقات  پر دی گئیں مگر کبھی اس سلسلے میںکوئی ٹھوس قدم اُٹھتا ہوا نظر نہیں آیا۔یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے یہ اعتراف کیا کہ ’’اس بات کا حقیقی امکان ہے کہ جیلوں میں بند کچھ مسلم نوجوان بالکل بے قصور ہوں۔ اس لئے ہم انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے امکان پر غور کررہے ہیں تاکہ مقدموں کی منصفانہ سماعت ہو اور انہیں اپنے دفاع کا پورا موقع ملے‘‘....... تو مسلمانوں نے تھوڑی راحت محسوس کی۔
     یہ تھوڑی سی راحت مکمل اطمینان میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے  اور یہ خواب حقیقت کا روپ بھی دھار سکتا ہے لیکن اس کیلئے مسلمانوں کو جمہوری انداز میں سیاست دانوںسے اپنی باتیں منوانے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔مذہبی معاملات کی  طرح سیاسی سطح پر بھی ہم  مختلف خانوں میں منقسم ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں پر دباؤ نہیں ڈال پاتے، اس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں  اور اکثر ہمارے جذبات سے کھیلتی رہتی  ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد کی فراہمی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو قانونی مدد کی فراہمی کی ضرورت ہی کیوں پیش آرہی ہے؟ وہ ایسا کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتی کہ کوئی بے قصورنوجوان گرفتار ہی نہ ہو؟ گزشتہ ۲؍ دہائیوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں جن  میں ماخوذ مسلم نوجوان برسوں جیل کی صعوبتیں جھیل کر باہر آئے ہیں ۔ عدالتوں  نے انہیں  بے قصور تسلیم کیاہے۔ مسلمانوں کے تئیں حکومت کا اخلاص اُس وقت نظر آتا جب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے اورانہیں اذیتیں پہنچانےوالے افسران سے باز پرس کی جاتی، ان کی سرزنش کی جاتی، انہیں ملزم ٹھہرایا جاتا  اور اس کیلئے انہیں قرار وا قعی سزا دی جاتی.... مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خاطی پولیس افسران کو سزا دینا تو دور، اکثر دیکھا گیا ہے کہ انہیں ترقیاں دی گئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب سیکولر ریاستوں میں ہوا۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کو جانے دیں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مہاراشٹر، دہلی، بہار، یوپی، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش جیسی ریاستیں بھی ان معاملات میں کسی بھی طرح فرقہ پرست  جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ہم چونکہ ان حکومتوں اور اقتدار پر قابض سیاسی جماعتوں کا احتساب نہیں کرتے لہٰذا وہ ہمیں بیوقوف سمجھتی ہیں اور ہر انتخابی موسم میں نئے نئے وعدوں کے ساتھ وارد ہوتی ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مرکز اور مختلف ریاستوں کی اقلیتی امور کی وزارتیں سرگرم کردی جاتی ہیں۔ وہ مسلم ایشوز پر کچھ اس طرح کی بیان بازیاں کرتی ہیں اور ہدایتیں جاری کرتی ہیں گویا  حکومت کی جانب سے تمام تر اختیارات انہیں ہی سونپ دیئے گئے ہیں اور اب یہ پلک جھپکتے ہی مسلمانوں کے تمام مسائل حل کردیںگی۔
    اب جبکہ حکومت نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ گرفتار شدگان میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں تو  اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم حکومت پر دباؤ بنائیں کہ ان بے قصوروں کی جلد رہائی کا انتظام کیا جائے ..... اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا جائے کہ ان بے قصور نوجوانوں کو اس انجام تک پہنچانے والوںا ورا ن کی زندگیوں کے قیمتی سال برباد کرنےوالوں کو سخت سے سخت سزا دی جائےاورناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانہ دیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حکومت پر یہ بات واضح کردیں کہ قانونی امداد کی فراہمی میں  ہم مسلمانوںکو دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ان کے دام میں آنے والے نہیں ہیں بلکہ ہمیں انصاف اور مکمل انصاف چاہئے۔.... یقین جانئے اگر ہم نے اس پر اکتفاکرلیا اور حکومت کے دام میں آگئے تو اس کیلئے موجودہ کیا آئندہ انتخابات میں بھی کامیابی کا اسےایک آسان نسخہ مل جائے گا کہ پہلے انہیں گرفتار کرکے ان کے حوصلوں کو پست کرو اور پھر بعد میں قانونی مدد فراہم کرکے ان کے ووٹوں پر بھی  قبضہ کرلو  ۔

Wednesday 14 August 2013

Roznaamcha_15 August

ایک رسم ، ایک روایت

قطب الدین شاہد

یومِ آزادی کسی بھی ملک کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی ہر سال ۱۵؍ اگست کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ملک کی آزادی کیلئے ہمارے بزرگوں کو بڑی قربانیاں دینی پڑی ہیں، تب کہیں جاکر یہ دن ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اسلئے ۱۵؍ اگست کی تاریخ ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے، یہ ہم ہندوستانیوں کیلئے بہت یادگار دن ہے۔
    اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جشن تو خیر ہم ہر سال مناتے ہیں لیکن  ہر گزرتے سال کے ساتھ اس جشن کا رنگ پھیکا پڑتا جارہا ہے، ہماری گرمجوشی میں کمی آتی جارہی ہے اور ہماری نظر میں اس دن کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ جشن ایک رسم، ایک روایت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ کسی یادگار دن  یا جشن کا رسم و روایت میں تبدیل ہوجانا معیوب نہیں بلکہ بعض صورتوں میں بہتر ہی ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ قدرے مختلف ہے۔ کسی بھی رسم و روایت میں اگر جشن حقیقی کاعنصر شامل نہ ہو اور اس یادگار دن کی اہمیت اور پس منظر کو فراموش کردیا جائے تو  اس کی افادیت بہت محدود ہوجاتی ہے۔ کچھ یہی صورتحال ۱۵؍ اگست کے سالانہ جشن کی بھی ہے۔ حکومت سے لے کر عوام تک، سیاستدانوں سے لے کر ان کے کارندوں تک، افسران سے لے کر ملازمین تک اور اساتذہ سے لے کرطلبہ تک،سبھی بس ایک رسم ادا کررہے ہیں، جس میں کوئی جوش نظر آتا ہے نہ جذبہ۔  بس جیسے تیسے  ہر سال ۱۵؍ اگست کو اسکولوں، اداروں اور سرکاری دفتروں پر پرچم کشائی کی ایک تقریب منعقد کردی جاتی ہے، ترنگے کو سلامی دی جاتی ہے،کچھ لوگ گاندھی، نہرو اور اپنی پسند کے حساب سے آزاد اور پٹیل کو یاد کرلیتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد ترنگے کولپیٹ کر یوم جمہوریہ کیلئے کسی محفوظ مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔  اس دن کا سب سے اہم پروگرام لال قلعہ سے وزیراعظم کا عوام کےنام خطاب ہوتا ہے ..... مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ خطاب بھی رسمی ہوکررہ گیا ہے جہاں عمل سے عاری باتیں ہوتی ہیں۔ اکثر،  لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم اپنی حکومت اور اپنی جماعت کا قصیدہ ہی پڑھتے ہیں۔
    اس دن کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کے رویوں نے عام ہندوستانیوں کوبھی بدظن کردیا ہے۔سرکاری اداروں میںنیچے سے اوپرتک لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے،جسے دیکھ کر عام آدمی صرف افسوس کرتا ہے۔  یوم آزادی کے تعلق سے یہ بدظنی ہی کی ایک مثال ہے کہ دو سال قبل یہ ایس ایم ایس خوب چلا تھا جس میں لکھا تھا کہ:
 ’’مہنگائی، غریبی، تشدد، لوڈ شیڈنگ،  دہشت گردانہ حملے اور  پولیس کی اذیت سے .....بچ  جانے والے تمام ڈھیٹ ہندوستانیوں کو یوم آزادی مبارک ہو۔‘‘
    مذاق کے موڈ میں لکھے جانے والے اس ایس ایم ایس پیغام میں یوم آزادی کی تحقیر نہیں بلکہ سیاستدانوں بالخصوص حکمراں طبقے  کے تئیں عوام کی ناراضگی کااظہار ہے۔ بلاشبہ یوم آزادی ایک جشن ہے لیکن جشن کے ساتھ ہی یہ دن ہمیں احتساب کی دعوت بھی دیتا ہے کہ آزادی سے قبل آزادی  کے متوالوں نےجس آزادی کی تمنا کی تھی، آزادی کے ۶۶؍ سال گزر جانے کے باوجود  وہ آزادی ہمیں کہیں نظر آتی بھی ہے کہ نہیں۔ حقیقت کیا ہے، اس کا اظہار فیض نے آزادی کے فوراً بعد کردیا تھا کہ:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
     آج ۶۷؍واں یوم آزادی ہے۔ آئیے اس موقع پر  عہد کریں کہ ہم اس سحر کی تلاش کریں گے اور تب تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک اسے حاصل نہیں کرلیتے۔ کیا یہ کام اس سے زیادہ مشکل ہے جو ہمارے بزرگوں نے ہماری آزادی کیلئے انجام دیا تھا؟

Saturday 10 August 2013

firing on border.....

سرحد پر فائرنگ:  محض اشتعال انگیزی یا
 ہند پاک تعلقات کو خراب کرنے کی سازش؟
 
قطب الدین شاہد
 
گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جموںکشمیر میں ہند پاک سرحد پر بلا وجہ کی فائرنگ میں ۵؍ ہندوستانی فوجی شہید ہوگئے۔  اس واقعے نے ایک بار پھر امن پسندوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا یہ صرف اشتعال انگیزی ہے یا اس کے پس پشت کچھ اور معاملہ ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیں، جو ہند پاک تعلقات کو معمول پر نہیں آنے دینا چاہتیں۔جیسے ہی حالات کچھ سازگار ہونے لگتے  ہیں، دونوں جانب کی ان طاقتوں میں بے چینی پائی جانےلگتی ہےاور پھر کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ تعلقات کی یہ گاڑی پٹری سے  اترجاتی ہے..... کئی بار تو بھیانک حادثے بھی رونما ہوچکے ہیں جس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے۔
       پاکستان میں نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کا عمل ایک بار پھر شروع ہوجائے گا۔  ہوا بھی ایسا۔ نواز شریف نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، جسے منموہن سنگھ نے خوش دلی سے قبول بھی کرلیا۔ سیکریٹریز اوروزارتی سطح پر گفتگو کی تاریخیں بھی متعین ہوگئیں اور ستمبر میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات بھی طے ہوگئی۔ حالات کو معمول  پر آتا دیکھ کر ان طاقتوں کا بے چین ہونا فطری ہی تھا ، ایسے میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف  کے اس مشورے نے اس بے چینی میں مزید اضافہ کردیا کہ دونوں ملک اپنے دفاعی اخراجات میں تخفیف کرکے اس رقم کو ملک کی ترقی میں صرف کریں۔   اس بیان کا جہاں دونوں ملکوں کے امن پسندوں نے خیر مقدم کیا وہیں  اس کی وجہ سے تخریب پسند قوتوں   کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔
    یاد کیجئے ..... ۱۹؍ فروری ۱۹۹۹ء کو جب اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر  ہندوستانی وزیراعظم   اٹل بہاری واجپئی نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ   بس کے ذریعے لاہور کا سفر کیا تھا۔دونوں ملکوں میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوگیا تھا....  پوری فضامعطر ہوگئی تھی ۔ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں نے ۲۰؍ فروری کو لاہور اعلامیہ بھی جاری کردیا جس میں دونوں نے جنگ نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔  یہ اُس وقت کی بات ہے جب دونوں ملکوں نے کچھ ہی دنوں قبل نیوکلیائی تجربہ کیا تھا جس کی وجہ سے دونوں  ملکوں  کے درمیان باہمی اعتماد میں ایک بڑی سی خلیج پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی ۳؍ مئی کو جموں کشمیر میں کارگل کے مقام پر پاکستانی فوجیوں کی دراندازی کی خبر آئی  اور ۵؍ مئی کو پیٹرولنگ کرتے ہوئے ۵؍ ہندوستانی فوجیوں کا اغوا، ان پر تشدد کرنے اور بعد میں ہلاک کرنے کی خبریں موصول ہوئیں۔ شرپسندوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی امن کی فضا مسموم ہوکر رہ گئی۔ اس کے بعد تعلقات کو معمول پر آنے میں برسوں لگے۔۲؍ ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں نے جانی و مالی نقصانات کےعلاوہ بھی بہت کچھ گنوایا۔
    ۱۴؍ جولائی ۲۰۰۱ء کو اُس وقت  ایک مرتبہ ماحول پھر سازگار ہوتا نظر آیا  جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا  اور آگرہ اعلامیہ جاری ہوا تھا۔  اس اعلامیے کے اعلان کے وقت تھوڑی سی تلخی ضرور  پیدا ہوئی تھی لیکن بات بگڑی نہیں تھی۔  تعلقات کی یہ گاڑی پٹری پر رواں دواں تھی لیکن اسی سال ۱۳؍ دسمبر کو ہندوستانی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ ہوجاتا ہے  اور اس طرح یہ تیز رفتار گاڑی اچانک پٹری سے اُتر جاتی ہے۔  حالانکہ ہند پاک تعلقات میں بہتری کیلئے سب سے بہتر موقع یہی تھا کیونکہ دونوں جانب ایسی حکومتیں تھیں جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ یہ طاقتیں اتحاد واتفاق کی سب سے بڑی مخالف ہیں۔ ہندوستان میں آر ایس ایس کی زیرسرپرستی بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت تھی جبکہ پاکستان میں فوج کی سرپرستی میں جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھے لیکن یہ تعلقات معمول پر نہیں آسکے۔ ۲۰۰۴ء تک بی جے پی  کااقتدار برقرار رہا تھا جبکہ ۲۰۰۸ء تک پاکستان میں مشرف  برسرِ اقتدار تھے۔  حالات میں بہتری کی امید تب تک نہ نہیں جاسکی جب تک مشرف اقتدار سے بے دخل نہیں ہوئے۔
      ۹؍ ستمبر ۲۰۰۸ء کو پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی عمل میں آئی، وہاں مشرف کی جگہ آصف علی زرداری نے سنبھالی۔  زرداری نے بھی آتے ہی ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی باتیں کیں اوراس پر کچھ حد تک عملی اقدامات بھی ہوئے مگر..... وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ یہاں ہندوستان میں فرقہ پرست جماعتوںنے اور پاکستان میں شدت پسند عناصر نے جن کے تعلق سے کہاجاتا ہے کہ انہیں فوج کی سرپرستی حاصل ہے،   اس پر تنقیدیں شروع کردیں اور ان تعلقات کے خلاف بیانات دینے لگے۔ کچھ ہی دنوں  بعد یعنی ۲۶؍ نومبر کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہوگیا۔ اس حملے میں کئی سینئر پولیس افسروں سمیت ۱۶۶؍ لوگ ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس حملے کی وجہ سےدونوں ملکوں میں  ایک بار پھر جنگ کی سی کیفیت پیدا  ہوگئی تھی۔
    ممبئی پر ہونے والے اُس حملے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں جو تعلقات خراب ہوئے تھے، تو آج تک اس میں بہتری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکی تھی۔ ۵؍ جون ۲۰۱۳ء کو جب نواز شریف نے  پاکستان میںاقتدار کی   باگ ڈور سنبھالی تو امن پسندوں نے راحت کا سانس لیا اور امید ہوچلی کہ برف ضرور پگھلے گی۔ ہوا بھی ایسا ہی۔ نواز شریف نے جہاں ہندوستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، وہیں منموہن سنگھ نے بھی اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ یہ بات اُن لوگوں کو بھلا کہاں پسند آسکتی تھی جن کی بقا کا راز ہی ہند پاک دشمنی میں مضمر ہے۔  یقیناً کوئی سازش ہوئی ہوگئی اور اس میں انہیں اس وقت کامیابی بھی مل گئی جب گزشتہ دنوں پونچھ میں  ۵؍ ہندوستانی فوجیوں کو شہید کردیا گیا۔  یہ حرکت یقیناً دہشت پسندانہ ہے، جس کاسخت جواب دیا جاناچاہئے لیکن..... اُس طرح سے نہیں جس طرح سے ہندوستان کےبعض عناصر چاہتے ہیں۔یہ بات بہت پہلے سے کہی جارہی ہے کہ پاکستانی فوج کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کی فضا پسند نہیں ہے لہٰذا وہ دفاعی اخراجات میں بھی کمی نہیں چاہتی۔ ایسے میں نواز شریف کے دفاعی اخراجات میں کمی کے مشورے سے یقیناً وہ تلملا گئی ہوگی ، جس کے بعد اس نے یہ انتہاپسندانہ حرکت کی۔ ہمارے یہاں بھی بعض ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو پاکستان کی دشمنی  ہی میں آکسیجن پاتی ہیں اور اس کے سہارے آگے بڑھتی ہیں۔ پاکستانی فوج کی اس حرکت کے بعد ان لوگوں نے ایک بار پھر حکومت پر اسلام آباد سے گفتگو کا دور ختم کرنے کیلئے دباؤ بنانا شروع کردیا ہے۔
    لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو ہوتی رہنی چاہئے تاکہ سیاسی اور کاروباری سطح پر تعلقات بہتر سے مزیدبہتر کی جانب گامزن ہوں۔ اس سلسلے میں نواز شریف کا مشورہ بھی قابل قدر ہے کہ دونوں ملکوں کو دفاعی بجٹ میں کمی لاتے ہوئے ملک کی ہمہ جہت ترقی کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف دفاع پر ۱۷ء۶؍ فیصد یعنی ۲؍ لاکھ ۳؍ ہزار ۶۷۲؍ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے جبکہ تعلیم کیلئے اس کاایک چوتھائی یعنی صرف ۶۵؍ ہزار ۸۶۹؍ کروڑ مختص کیا گیا ہے۔
     مبارکباد کی مستحق ہے ہندوستانی حکومت کہ اس نے سرحد کی دونوں جانب آباد ان عناصر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئےگفتگو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جو امن کے دشمن ہیں۔ایسے میں نواز شریف کو بھی چاہئے کہ اس کا مثبت جواب دیتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ امن کی راہ ہموار ہو اور یہ تاثر بھی ختم ہوجائے کہ فوج پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔

Saturday 3 August 2013

دُرگا ناگپال کی معطلی پراتنا واویلہ کیوں؟
اگر انہیں ریت مافیا کے خلاف کارروائی کی سزا دی گئی ہے تو مسجد کے انہدام کا معاملہ کیا ہے؟

قطب الدین شاہد

اُتّرپردیش  میں معطل کی گئی آئی اے ایس افسر کی حمایت میں آل انڈیا آئی اے ایس اسوسی ایشن کا یوں پُرجوش انداز میں سامنے آنا ، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نوکر شاہی میں فرقہ پرستی بہت اندر تک سرایت کرگئی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ۲؍ سال قبل جب گجرات میں سینئر آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو مودی حکومت نے معطل کیا تھا، تب بھی ان کی بحالی کیلئے اسی کی طرح کی کوششیں کی گئی ہوتیں..... لیکن تب ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت سنجیو بھٹ کو اپنا دفاع اور اپنی بحالی کیلئے کوششیں  اپنے طور پر تنہا کرنی پڑی تھیں۔ میڈیا نے بھی اُن کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ ان کے مخالفین کے بیانات کو نمایاں کرکے پیش کیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سنجیو بھٹ اس سزا کے مستحق تھے، اس کے برعکس درگا شکتی کے معاملے میں ریاستی حکومت کے خلاف میڈیا ایک فریق کے طور پر کام کررہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ’ایماندار‘ درگا کو محض اس لئے معطل کیا گیا کیونکہ وہ ریت مافیا کے خلاف کام کررہی تھیں۔
    درگا شکتی کو ریاست میں امن و امان کو خطرے میں ڈالنے کی پاداش میں ان کے عہدے سے معطل کیا گیا ہے لیکن  دور کی کوڑی لاتے ہوئے میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے ریت مافیا کے خلاف ان کی کارروائیوں سے جوڑ دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح درگا کو ایماندار افسر کےطورپر آئی اے ایس اسوسی ایشن ، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا کے ذریعہ پروجیکٹ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سبھی واقعی کرپشن کے بالکل خلاف ہیں اور انہیں بدعنوان حکمراں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کیا یہ سچ ہے؟ اور اگر  یہ سچ ہے تومجموعی طورپرکرپشن کے معاملے میںہمارے ملک کا شمار دنیا کے سرفہرست ملکوں میں کیوں ہوتا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب یعنی نوکر شاہ، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا اگر واقعی بدعنوانی  کے خلاف متحد ہوجائیں تو کیا مجال کہ کہیں کرپشن کا کوئی واقعہ رونما ہو۔   یہ تینوں  بیدار ہو جائیں توحکومت کی سرپرستی میں بھی   بدعنوانوں کی دال نہیں گل سکتی۔
    مطلب صاف ہے کہ ’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘ والا معاملہ ہے۔  اگر یہ الزام درست ہے کہ انہیں ان کی ایما نداری کی سزا دی گئی ہے  یعنی ریت مافیا کے خلاف کارروائی کی بنا پر انہیں معطل کیا گیا ہے تو مسجد  کے انہدام کا معاملہ کیا ہے؟کیا قادل پور گاؤں کی مسجد کے احاطے کی دیوار کے انہدام میں ان کا کوئی رول نہیں ہے؟ ریاستی حکومت پر دُرگا کے حامیوں کاایک الزام یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف سازش رچی گئی تھی، جس میں وہ پھنس گئیں۔ اس الزام کے مطابق سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی نریندر بھاٹی کا کوئی رشتہ دار غیر قانونی طور پر ریت کی کھدائی کے معاملے میں پکڑاگیا تھا جس کے خلاف درگا شکتی  نے کارروائی کرتے ہوئے معاملہ درج کروایا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ بھاٹی نے درگا سے معاملہ واپس لینے کی بات کی تھی لیکن ’ایماندار‘ ایس ڈ ی ایم نے ان کی ایک نہیں سنی، جس کی وجہ سے ناراض ایم ایل اے نے ان کے خلاف ایک سازش رچی ۔ درگاحامیوں کے مطابق نریندر بھاٹی نے قادل پور کے گاؤںوالوں کو ۵۱؍ ہزار روپے بطور چندہ دے کر غیرقانونی مسجد کی تعمیر کیلئے ’اکسایا‘ اور پھرخود ہی ایس ڈی ایم کو خبر بھی دی کہ یہاں ایک غیرقانونی مسجد کی تعمیر کی جارہی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سازش پوری طرح سے بھاٹی نے رچی تھی جس میں آئی اے ایس افسر بری طرح پھنس گئیں۔
    یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا  ہے کہ جب اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک آئی اےایس  اور آئی پی ایس افسر اس طرح کی معمولی سازشوں کا شکار ہوا کریںگے تو ملک کا کیا ہوگا؟ وہ کس طرح ملک کو سنبھالیںگے؟  ایک سوال اور کہ ایسے افسروں کو اپنے عہدے پر رہنے کا حق کیوں کر باقی رہے جنہیں یہ اندازہ  ہی نہ ہو کہ وہ جو قدم اٹھانے جارہے ہیں، اس کے کیا اثرات مرتب ہوںگے؟
    ہندوستان ایک کثیرمذہبی، کثیر جماعتی اور کثیر تہذیبوں والا رنگا رنگ ملک ہے۔یہاں بہت کچھ دیکھ بھال کر اور بہت کچھ نظر انداز کرکے چلنا پڑتا ہے۔سخت قانون کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس ملک میں تعلیم کی شرح آج بھی تین چوتھائی سے کم ہو اور رائے دہندگان کو اپنے امیدواروں کا نام پڑھ کر نہیں بلکہ ان کی نشانیاں دیکھ کر ووٹ دینا پڑتا ہو، وہاں قانون کی سختی سے بات بننے کا نہیں بلکہ بگڑنے ہی کا اندیشہ رہے گا۔    
    گاؤں کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاںرہنے والوں کی مالی حیثیت کیا ہے؟ او ر اُن کی تعلیمی شرح کیا ہوگی؟ایسے میں جب گاؤں والوں نے درگا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ اپیل کی کہ انہیں رمضان تک مہلت دے دی جائے، وہ حکومت اور انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کریںگے تو ایماندار افسر نے انہیں اس کا موقع کیوں نہیں دیا؟کیا وہ نہیں جانتی تھیںکہ مسجدکی دیوار گرانے کا کیا مطلب ہوتا ہے اوراس کے کیا نتائج برآمد ہوںگے؟ اور یہ کہ انہیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے؟
    حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے ایک عرصے بعد کوئی اچھا کام کیا ہے اور پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ صورتحال خراب ہونے سے بچانے کیلئے  بروقت کارروائی کی ہے۔ حکومت اس کیلئے مبارکباد کی مستحق ہے لیکن حکومت کو بس اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس ڈی ایم کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے جس نے قادل پور کا دورہ کئے بغیر اپنی برادری یعنی آئی اے ایس افسر کا دفاع کیااوراس کیلئے دروغ گوئی کا سہارالیتے ہوئے جھوٹی رپورٹ تیار کی۔ ہوسکے تو آئی اے ایس اسوسی ایشن کی بھی خبر لی جانی چاہئے جس نے آنکھ بند کرکے دُرگا کی حمایت کی اور حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔

Monday 29 July 2013

Roznaamcha_Facebook and Maslaki tension

فیس بُک اور مسلکی اختلافات

قطب الدین شاہد

ہم مسلمانوں پر یہ الزام ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر کسی سے لڑتے رہتے ہیں اور لڑائی اگر کچھ دنوں کیلئے موقوف رہے تو لڑائی کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔  الزام کے مطابق  برادران وطن سے ہماری ایک نہیں بنتی،  دونوں میںہمیشہ چھتیس کا آنکڑہ رہتا ہے، کسی وجہ سے اگر کچھ دنوں تک دونوں بڑی قوموں میں امن و چین کا معاملہ رہا تو علاقائی تعصب سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے، موقع ملے تو ایک ریاست کےمسلمان دوسری ریاست کے مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں،اگر اس کی نوبت نہیں آئی تو شیعہ اور سنّی برسرِ پیکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی الزام تراشی کرنے والوں کے مطابق شیعہ شیعہ اور سنّی سنّی بھی ایک ساتھ امن و سکون سے نہیں رہتے بلکہ یہاں بھی بہت سارے اختلافات آڑے آتے ہیں جس کی وجہ سے پیہم تکرار ہوتی رہتی ہے، یہ زبانی تکرار بڑھتی ہے تو تصادم کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
    یہ اور ایسی ساری باتیں مسلمانوں پر الزام ہے..... یقینا ً یہ الزام ہی ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  یہ الزام تراشی اس لئے کہ مسلمانوں کو جھگڑالو ثابت کیا جاسکے اور یہ بتایا جاسکے کہ وطن عزیز میں جو سالانہ ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے ہیں، اس کیلئے فرقہ پرست عناصر نہیں بلکہ مسلمان ہی ذمہ دار  ہیں..... لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ان الزامات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ نادان ہیں۔اس نادانی کے سبب وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ملت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ قوم کو اُن کی اِن حرکتوں کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد صرف مٹھی بھر ہے لیکن ان مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے یہ الزام پوری کمیونٹی کے سر تھوپا جارہا ہے اورحالات ایسے ہیں کہ ہم اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ  اب تحریری صورت اختیار کرگیا ہے۔
    ان دنوں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر غلط تربیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے یہ عناصر سرگرم ہیں اور اپنے فاسد خیالات سے معاشرے کی فضا کو مسموم کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔مسلکی اختلافات کو یہ اس قدر بڑھا چڑھا کر اور اتنے تضحیک آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے اور ان کے مخالفین دونوں طیش میں آجائیں۔ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کا تعلق کسی ایک خاص جماعت یامسلک سے نہیں ہے بلکہ اس حمام میں  بیشتر ننگے نظر آتے ہیں۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ان اختلافات کو ابھارے اور دوسرے مسالک پر تنقید کئے بغیر ہم اپنے مسلک پر قائم نہیں رہ سکتے؟ اپنے راستے پر نہیں چل سکتے؟ اپنی بات نہیں کہہ سکتے؟ آخروہ کون سا جنون ہے جو انہیں اس پر آمادہ کرتا ہے ؟ کیا وہ اسے کارِ ثواب سمجھتے ہیں؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کیلئے ذمہ دار کون ہے؟
    فیس بک اگر کوئی بہت اچھی چیز نہیں تو بری بھی نہیں ہے، اس کے بہتر استعمال سے بہتر نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ آپسی میل جول اور پیغام رسانی کیلئے یہ کافی مؤثر ذریعہ ہے۔مسلکی اختلافات پر اپنی توانائی صرف کرنے والے چاہیں تو اسے مذہبی و مسلکی تبلیغ کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال کرسکتےہیں۔ ایک بڑا طبقہ ہے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کا قائل ہے اوراس کی مدد   سے قوم اور سماج کو فیض پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
     مسلکی اختلافات کو کرید کرسماج میں انتشار پیدا کرکے ذہنی تسکین حاصل کرنیوالے یہ نوجوان کافی باصلاحیت  ہوتے ہیں ۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کامنفی استعمال ہورہا ہے حالانکہ اس کامثبت استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ کاش ایسا ہو! کیا یہ ممکن نہیں ہے؟

Roznaamcha_Innocent Muslims

مسلم نوجوانوں کی رہائی

قطب الدین شاہد

    دہشت گردی کے الزامات میںمسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے سبھی ’پریشان‘ ہیں اور ان کی رہائی کیلئے ’کوشاں‘ بھی ہیں۔ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اس پر اظہار افسوس کرچکے ہیں بلکہ اُس وقت جب آسٹریلیا میں ڈاکٹر محمد حنیف کو گرفتار کیا گیا تھا تو بقول وزیراعظم ’’انہیں رات بھر نیند نہیں آئی تھی‘‘۔موجودہ وزیر داخلہ شندے صاحب اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم صاحب کو بھی مسلمانوں سے ’ہمدردی‘ ہے۔ پرکاش کرات، سیتا رام یچوری، اے بی بردھن اوررام ولاس پاسوان اس سلسلے میں وزیراعظم ، صدر جمہوریہ اور وزیرداخلہ سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ لالو پرساد اور ملائم سنگھ یادو نے انتخابی جلسوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی اس موضوع پر آواز بلند کی ہے ۔ مایاوتی اورممتا بنرجی بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر اپنی ’ناراضگی‘ کا اظہار کرچکی ہیں۔ بہار کے ایک نوجوان کی گرفتاری پر نتیش کمار تومرکز سے باقاعدہ لڑجھگڑ بھی چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے بعض لیڈربالخصوص اقلیتی سیل سے تعلق رکھنے والے لیڈروں نے بھی اس پر وقتاً فوقتاً تشویش کااظہار کیا ہے۔مگر افسوس ! صد افسوس.....اس سلسلے میں نتائج صفر ہیں۔
    کانگریس کی اقتدار والی ریاستیں مہاراشٹر، آندھرا پردیش یا راجستھان ہوں ، سماجوادی کی اترپردیش ہو یا پھر حال ہی میں سیکولر ہونے والی جنتادل متحدہ کی بہار... تمام ریاستوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں آج بھی ہو رہی ہیں ۔ ایک سازش کے تحت پوری قوم کو ہراساں کئے جانے، اس بہانے ان کے حوصلوں کو پست کرنے اور انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔
    مسلم نوجوانوں کی رہائی کے سلسلے میں سیاسی سطح پر اس وقت ملک میں۴؍ بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن محمد ادیب کی سربراہی میں ’پی سی پی ٹی ‘ (پیپلز کمپین اگینسٹ پولیٹکس آف ٹیرر) کے پرچم تلے دہلی میں ایک تحریک چل رہی ہے۔ ایڈوکیٹ محمد شعیب کی قیادت میں ’رہائی منچ‘ کے بینر تلے اترپردیش میں گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے دھرناجاری ہے۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی اوران کی تنظیم ’انہد‘ بھی کافی دنوں سے سرگرم عمل ہے۔اسی طرح ممبئی میں مجلس شوریٰ کے بینر تلے ابو عاصم اعظمی نے بھی مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے ریاست گیر مہم چلانے پر زور دیا ہے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی ساری کوششیں ہورہی ہیںاورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوںپر سبھوں کو تشویش ہے تو پھر یہ گرفتاریاں جاری کیوں ہیں؟ اور جو گرفتار ہیں ان کی رہائی میں اتنی دشواریاں کیوں ہیں؟ خواجہ یونس، قتیل صدیقی اور خالد مجاہد جیسے واقعات آخر کیوں رونما ہوتے ہیں؟
     کہاجاتا ہے کہ کوشش.....یعنی ایماندارانہ کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی.... تو کیا یہاں کوششیں نہیں ہو رہی ہیں؟.... ہمارا خیال ہے کہ اس پر کچھ کہنے کے بجائے ان ’کوششوں‘کے نتائج دیکھنے چاہئیں۔
     دراصل یہ باتیں ذہن میں اس لئے آئیں کہ مجلس شوریٰ کی میٹنگ کی رپورٹ پڑھنے کے بعد ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ اگرسماجوادی پارٹی کے ریاستی سربراہ (خیال رہے کہ مجلس شوریٰ کو سماجوادی پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم ہی سمجھا جاتا ہے) یہی کوشش یوپی میں کرتی جہاں وہ اقتدار میں بلا شرکت غیرے مالک ہے،تو یقیناً اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے لیکن اس طرح کی کوشش وہ وہاں کررہی ہے جہاں اس کے صرف ۳؍ اراکین ہیں اور وہ کچھ نہیں کرسکتی۔
    کاش ! یہ باتیں وہ لوگ سمجھ سکتے ..... جنہیں عوام اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔

Modi and American Visa

کیا امریکہ کا ویزا ملنے سے مودی کو کلین چِٹ مِل جائے گی؟

  قطب الدین شاہد

مودی کو امریکہ اپنے یہاں آنے دے گا کہ نہیں؟ کچھ دنوں سے اس سوال کو قومی موضوع کے طو ر پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی ۱۲۵؍ کروڑ کی آبادی کیلئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل یہ ایک سازش ہے، ایک گیم پلان ہے اور اس کا مقصد مودی کی تشہیر ہے۔ مودی کے امریکہ جانے اور نہ جانے کو ان کے ’قبول عام‘ ہونے اور نہ ہونے کا  پیمانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی سازش کرنے والوں کو میڈیا کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش میں امریکہ بھی پوری طرح سے شریک ہے۔
     خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس ’مسئلے‘ کو مزید ابھارا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے ’محافظ‘ امریکہ کو مودی قابل قبول نہیں ہے.... بحث مباحثہ جاری رہے گا اور پھرلوک سبھا انتخابات سے قبل اچانک مودی کا ویزا جاری کردیا جائے گا اور پھرعوام پر یہ جتانے کی کوشش کی جائے گی کہ مودی کے سارے گناہ دُھل گئے۔
    مودی حامیوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے اگر گجرات کے وزیراعلیٰ کو شرف مہمانی بخش دیا تو  ان  کے دامن پر لگے داغ صاف ہوجائیںگے، وہ سبھی کیلئے قابل قبول ہوجائیںگے اور اس طرح ان کا وزیراعظم بننے کا راستہ مزید آسان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نادان دوست بھی اس سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ مودی کو ویزا دینے کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔  انہیں لگتا ہے کہ مودی کا امریکہ جانا ہندوستان کے سیکولرازم کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہاں ذہن میں چند سوالات ابھر رہے ہیں؟
n کیا امریکہ جانے سے مودی کے دامن پر لگے تمام دھبے صاف ہوجائیں گے؟
nکیا ۲۰۰۲ء کے فساد ات کے دوران ان کے کردار کو لوگ بھول جائیں گے؟ 
nکیا ان کے  تعصب اور ان کی تنگ نظری پر پردہ پڑ جائے گا؟
nکیا امریکہ کو انصاف کا علمبردار اور حقوق انسانی کا محافظ سمجھا جا سکتا  ہے کہ محض اس کی میزبانی سے کسی کی شبیہ تبدیل ہوجائے؟
nکیا امریکہ جانے سے مودی سیکولر ہوجائیںگے  اورانہیں کلین چٹ مل جائے گی؟
    ہمیں نہیں لگتا کہ کہیں سے بھی اس کا جواب ’ہاں‘ میں آئے گا؟ ان حالات میں سیکولر طاقتوں کو فکر مند یا خوفزدہ ہونے اور اس  معاملے کو مسئلہ سمجھنے کی  بھلا کیا ضرورت  ہے؟
    مودی کے حامی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر رائے دہندگان کی حمایت کے بغیر مودی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکولر عوام ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔  گجرات فساد میں مودی کا کردار سب پر عیاں ہے۔ کسی عدالت سے ثابت ہونے کے بعد ہی انہیں مجرم سمجھاجائے گا، ایسا نہیں ہے؟   یہی وجہ ہے کہ اب وہ چور دروازہ استعمال کررہے ہیں۔ ہندوستانی عوام  یا ہندوستانی عدالت سے کلین چٹ ملنا آسان نہیں ہے، لہٰذا امریکہ کی مدد لی جارہی ہے۔  امریکہ اور یورپی یونین کو بھی  ہندوستان میںایسا ہی وزیراعظم چاہئے جو کارپوریٹ دنیا کا محافظ بن کر رہے۔ بلا شبہ منموہن سنگھ ان کے اعتماد پر پورے اُتر رہے ہیں لیکن  ان طاقتوں کو اس بات  پر شبہ ہے کہ اس مرتبہ یوپی اے کی کمان  منموہن سنگھ کے ہاتھوں میں رہے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں کام کرتے ہوئے مودی کو دنیا نے دیکھا ہے، اسلئے ان  کیلئے  پورے زور وشور کے ساتھ لابنگ چل رہی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سازش میں بھی  سیکولر  عوام   اورمسلمانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    مودی امریکہ جائیں یا نہ جائیں یا وہ کہیں بھی جائیں، اس سے   سیکولر عوام مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ..... لیکن تاثر یہی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی کے امریکہ نہ جاپانے سے مسلمان بہت خوش ہیں۔ رکن پارلیمان محمد ادیب اوران کے ۶۵؍ ساتھیوں کا اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کرنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جانے انجانے میں وہ بھی اس سازش کا شکار ہو گئے ہیں اور اس تشہیری مہم  میں وہ مودی کا ساتھ دے رہے ہیں ورنہ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ مودی کہاں جاتے ہیں اور کہاں نہیں؟ امریکہ اوراسرائیل کے تعلق سے مسلمان یوں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہر اس عمل کی حمایت کرتے ہیں ، جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے  اور تکلیف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب گجرات فساد کے الزام کے تحت مودی کو ویزا نہ دینے کی بات منظر عام پر آئی تو فوری طور پر یقین نہیں آیا لیکن جب اس پر غور کیا گیا توشبہ ہواکہ یہ ایک گیم پلان کا حصہ ہو سکتا ہے۔  مطلب یہ کہ الیکشن سے قبل کسی بہانے مودی کو امریکہ بلایا جائے گا اور پھر ہندوستانی میڈیا کو یہ شور برپا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ اب امریکہ یعنی پوری دنیا کیلئے مودی قابل قبول ہوگئے ہیں، پھر ہندوستانی عوام کب تک انہیں مجرم سمجھتے رہیںگے؟
     اس سازش میں شریک لوگوں کاخیال ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ مودی کو معاف کردے گا  .....لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا؟ ہمیں نہیں لگتا۔ ہندوستان کی اکثریت آج بھی سیکولر ہے جو کسی بھی صورت میں مودی کو اقتدار تک پہنچنے نہیں دے گی۔ بی جے پی اور اس کی آئیڈیالوجی کو پسند کرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اسے مرکزی اقتدار سونپ سکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کے بعدبھی بی جے پی اپنے بل بوتے پر اقتدار تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ فرقہ پرستی کے چولے کو اتارنے کے بعد ہی اسے مرکز میں اقتدار کا موقع مل سکا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے فساد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو بے دخل کردیا گیا  ۔ وہ دن اور آج کا دن ، بی جے پی ، وہاں پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے لیکن بات کچھ بن نہیں پارہی ہے۔ اس کیلئے اب اس نےنئی  سازش کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔
    بہرحال سیکولر رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا  بھی یہی خیال ہے کہ امریکہ کا ویزا مل جانے سے مودی کو کلین چٹ نہیں مل جائے گی لہٰذا اس موضوع پر مسلمانوں کے حوالے سے کسی کو   دُبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

Saturday 13 July 2013

Muslim numaindon ki be hisi par musalmano ko sharmindagi

مسلم نمائندوں کی بے حسی پر
عام مسلمانوں کو افسردگی و شرمندگی کا سامنا

قطب الدین شاہد

گزشتہ ۲؍ہفتوں میں ۲؍ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو افسردگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں واقعات تو محض ایک علامت ہیں، ورنہ اس طرح کے واقعات سے عام مسلمانوں کا سابقہ روز پڑتا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر وہ اپنا خون جلاتے رہتے ہیں۔
     پہلا واقعہ انٹیلی جنس بیورو کے چیف آصف ابراہیم صاحب کی اس جدوجہد کا ہے، جس میں وہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں ماخوذ اپنے ایک افسر راجندر کمار کو بچانے کیلئے سی بی آئی کے اعلیٰ افسروں سے لڑرہے تھے۔ اگر ان کا افسرِ مذکور بے قصور ہوتا اوراس کے متعلق ان کے پاس کچھ دلائل ہوتے تو ان کے اس قدم پرکسی کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ ان کے جرأت کی داد دی جاتی کہ وہ ایک مظلوم کا دفاع کر رہے ہیں مگر وہ صرف اور صرف اس لئے انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اس کی وجہ سے آئی بی کی حوصلہ شکنی ہو رہی تھی۔
    کہاجاتا ہے کہ راجندر کمار بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے میں بھی رازدار ہیں۔ آصف ابراہیم صاحب کے اس رویے سے ہندوستانی مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔ کہاں تو ان سے اُمید کی جارہی تھی کہ وہ حصولِ انصاف کی راہیں ہموار کریںگے اور کہاں مسلمانوںکو یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ انصاف کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پیشتر جب انہیں اس عہدے کے لائق سمجھا گیا تھا اور اس کااعلان ہوا تھا تو مسلمانوں نےخوشی کا اظہار کیاتھا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے.... اس حساس عہدے کی باگ ڈور پہلی مرتبہ کسی مسلم افسر کو سونپی گئی تھی۔ دراصل آئی بی  اور اے ٹی ایس جیسی تنظیموں سےمتعلق مسلمانوں میںکافی بدگمانیاں پائی جاتی رہی ہیں۔ ان کی تقرری کے بعد عام مسلمانوں نے  یہ سمجھا تھا  اب ایسا کچھ نہیں ہوگا، جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا تھا...... یعنی دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاریاں رُک جائیںگی اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہو نے لگے گا۔ آصف ابراہیم صاحب  انٹیلی جنس بیورو کے چیف ہیں لیکن انہیں شاید یہ خبر نہ ہو کہ ان کی تقرری پر سادہ لوح مسلمانوں نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی تھیں۔
    وہ بہت خوش تھے، انہیں اپنا سمجھتے تھے لیکن ایسا سمجھتے ہوئے مسلمان ان سے کسی جانب داری کی توقع نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف انصاف چاہتے تھے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، جس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کی عدالتوں نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے۔
     ان حالات میں مسلمانوں نے ان سے اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیںگے اور یہ سلسلہ اب رُک جائے گا۔ ایسے میں انصاف دلانے کے بجائے جب انہیں مبینہ طور پر انصاف کی راہ میں حائل  ہوتے دیکھا گیا تو مسلمانوں کا افسردہ ہونا فطری تھا۔
    دوسرا واقعہ نور محمد دوست محمد پٹھان(این ڈی پٹھان) کا ہے  جو اس وقت جیل  کی ہوا کھا رہے ہیں۔ یہ صاحب مہاراشٹر حکومت میں وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر تھے۔ ان پر اوقاف کی ملکیت میں لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے  جبکہ ان پر ان زمینات کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کوشرمندہ کر دیا۔ اس معاملے میں کوئی غیر مسلم افسر ماخوذ ہوتا اور اس کیلئے جیل جاتا تو  اتنی تکلیف نہ ہوتی، جتنی این ڈی پٹھان کی وجہ سے ہوئی ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلم نمائندوںسے عام مسلمان بہت ساری اُمیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام و خواص کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ اپنے اخلاص اور سادہ لوحی کی وجہ سے عام مسلمان یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ اس جگہ پہنچنے والے افسر ہوں یا وزیر  یا پھر کوئی عہدیدار.... ان میں سے بیشتر کو قوم و ملت کی نہیں، صرف اپنی پروا ہوتی ہے۔ وہ اپنا ’اسٹیٹس‘ بڑھانے اور دولت و شہرت جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں لہٰذااس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی آقاؤں کو خوش کریں۔ اُن کا انجام اِن لوگوں کے سامنے ہوتا ہے جو قوم و ملت کی بات کرنے پر ’ٹھکانے‘ لگادیئے جاتے ہیں۔
    ضروری نہیں کہ سبھی اس معیار پر پورے اُتریں، کچھ مسلم افسر، عہدیدار اور وزیر وں کو اس بات کااحساس رہتا ہے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے ان پر کچھ علیٰحدہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے لہٰذا وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاتے۔
    انتخابات ہوں یا امتحانات... جب ان کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں تو عام مسلمان سب سے پہلے اس میں اپنے نمائندوں کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ تعداد اگر خاطر خواہ ہے تو اس پر جشن مناتا ہے، بصورت دیگر افسوس کرتا ہے۔ تعداد کی کمی کی وجوہات اگر سیاسی ہوئیں تو اس کیلئے احتجاج بھی کرتا ہے..... ’یوپی ایس سی‘ کے امتحان میں ہر سال ۳؍ساڑھے ۳؍فیصد مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
     اکثر دیکھاگیا ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونےوالوں کے اعزاز میں جلسےہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں اور ان پر فخر کااظہار کیا جاتا ہے۔ کسی اعلیٰ عہدے پرکسی مسلم افسر کی تقرری ہوتی ہے تو پورا ملک جشن مناتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے گویا وہ شخص اسی گھر کا ایک فرد ہے۔ محمد اظہرالدین، ثانیہ مرزا، محمد کیف، ظہیر خان اور عرفان پٹھان....  ٹیم میں ان کی شمولیت ہوتی ہے اور کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمان  مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
    اسی طرح لوک سبھااور اسمبلیوں کے انتخابات میں عام مسلمان جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا، وہ  صرف اور صرف مسلم ہونے کی وجہ سے کسی اُمیدوار کو ووٹ دیتا ہے اور اس کے جیتنے پر خوشی کااظہار کرتا ہے۔ مرکزاور اسمبلیوں میں جیتنے والے مسلم نمائندے بھلے ہی اس بات کو فراموش کردیں کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی کامیابی میں عام مسلمانوں کا حصہ ہے لیکن یہ بات   جگ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں ٹکٹ بھی اسی لئے ملتا ہے کہ وہ مسلمان  ہیں اور انہیں ووٹ ملنے کی بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔
    مسلمانوں کونمائندگی دینے کے نام پر عام مسلمان سیاسی جماعتوں سے جھگڑا مول لیتا ہے، مورچہ نکالتا ہے، احتجاج کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر لاٹھیاں اور بندوق کی گولیاں بھی کھاتا ہے لیکن اس کے بدلے اسے کیا ملتا ہے؟ ان کے مطالبے اور احتجاج پر جن صاحب کو مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملتا ہے، تھوڑے ہی دنوں میں وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس مقام تک پہنچنے میں عام مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے؟  وہ اسے اپنی ذاتی محنتوں کا ثمرہ سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ وہ اپنی محنت و صلاحیت سے  اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن ..... کیا ان کی اس کامیابی میں عام مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی عزت افزائی سے اگرعام مسلمان خوش ہوتے ہیں تو ان کی رسوائی سے عام مسلمان شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کسی مسلم طالب علم کے امتحانات میں نمایاں کامیابی پر، کسی مسلم افسر کی ترقی پر یا کسی سیاست داں کو کوئی اعلیٰ عہدہ ملنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اپنا سمجھنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ افسردگی اور شرمندگی کا سامنا اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ  انہیں  اپنا سمجھتے ہیں؟  دوسرا اور دِقت طلب حل یہ ہے کہ مسلمان کردار سازی پرتوجہ دیں۔ طلبہ پر محنت کریں اور  انہیں بچپن ہی سے اس بات کااحساس دلائیں کہ وہ مسلمان ہیں، وہ مسلمان جنہیں انسانیت کی فلاح کیلئے دُنیا میں امام بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر اس محاذ پر محنت کی گئی تو ان شاء اللہ اس کے بہتر نتائج ضرور برآمد ہوںگے۔n

Saturday 15 June 2013

Advani hamdardi ke mustahiq nahi

اڈوانی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں
ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا
قطب الدین شاہد

نفرت کی سیاست کرنےوالے اور اس کے سہارے ’ترقی‘کی منزلیں طے کرنےوالے لال کرشن اڈوانی کیلئے یہ ہفتہ بہت ہی کربناک رہا ہوگا۔ بہت جلد وہ اپنے سیاسی انجام کو پہنچ گئے ..... ان کا جو انجام ہوا، یہ تو خیر ہونا ہی تھا  ، انصاف پسند عوام کواس کا انتظار بھی تھا لیکن یہ اتنی جلدی ہوگا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ملک اورعوام کوجو کچھ دیا ہے،  وہ  ایک ایک کرکےانہیںلوٹایا جا رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی  نے اس شعر میں اپنے بارے میں کہا تھا کہ:

 دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
 جو کچھ مجھے دیا ہے، لوٹا رہا ہوں میں

    اس کے مفہوم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اڈوانی اپنے بارے میں یہ کہہ کر تسلی کر سکتے ہیں کہ

دنیا کو فسادات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے میں نے، لوٹا رہی ہے وہ


    ملک کی تقسیم  کے وقت  ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات   سے لے کر بابری مسجد کی شہادت ،پھرگجرات میں مہینوں تک جاری رہنے والےفسادات میں لال کرشن اڈوانی  کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، کمیشن اورعدالتیں بھلے ہی انہیں مجرم ثابت نہ کریں یا نہ کرسکیں لیکن ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت   کے سامنے اڈوانی کا کردار پوری طرح واضح رہا ہے۔اڈوانی کے ساتھ ان کی پارٹی نے جو سلو ک کیا، وہ حق بجانب ہو یا نہ ہو...... لیکن  یہ بات اپنی جگہ پوری طرح درست ہے کہ وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔
     ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے وجود میں آنے والی آر ایس ایس سےایل کے اڈوانی کا تعلق زمانہ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی عمر سے۲؍ سال چھوٹے اڈوانی بہت جلد اپنی’ فعالیت اور سرگرمی‘ کے سبب اس تنظیم کے اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور  ۲۰؍ سال کی عمر میں انہیں کلیدی عہدہ  بھی تفویض کردیا گیا تھا۔  ۱۹۴۷ء کے اوائل میںیہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ، کراچی کے سیکریٹری منتخب ہوئے.... لیکن تنظیم کے منظور نظر اُس وقت ہوئے جب تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نےانہیں   الور،  راجستھان بھیجا۔ اُس وقت  دہلی اور پنجاب کی طرح الور میں بھی بھیانک قسم کا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
    لال کرشن اڈوانی صرف مسلمانوں کے خلاف پیش پیش نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔۲۲؍ جنوری ۱۹۹۹ء کو آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینس اپنے ۶؍ اور ۱۰؍ سالہ دو بچوں کے ساتھ جب اڑیسہ میں زندہ جلاد یئے گئے تھے، تو اس وقت  مرکز میں اڈوانی ہی وزیر داخلہ تھے۔ ۱۹۸۹ء میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تو یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت میں ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور رام مندر کے  نام پرپسماندہ طبقات کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی تھی ۔
    لال کرشن اڈوانی کا کارنامہ صرف  ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژکرنا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جب اور جہاں موقع ملا ہے، انہوں نے ’اپنوں‘ کے ساتھ بھی دغا بازی کی ہے اور ان کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔  شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو اڈوانی کو اپنے ساتھ رکھا۔  بی جے پی، جن سنگھ  اور جن سنگھ، آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ان کے نظریات اور پالیسی میں کسی قسم کا فرق تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن بظاہر اوراعلانیہ پالیسیوں کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سنگھ ، بی جے پی سے کہیں زیادہ سخت گیر تھی۔ اس کے مختلف عہدوں کو’ رونق‘ بخشتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں  اڈوانی اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے جو پہلا کام کیا، وہ جن سنگھ کے بانی رکن بلراج مدھوک کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اڈوانی اپنے علاوہ کسی اور لیڈرکو آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے تھے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے کئی چھوٹے موٹے مہروں کو آگے بڑھایا لیکن جب وہ آگے بڑھنے لگے تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا۔ کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا کسی زمانے میں ان کے معتمد خاص تھے اور انہی کی وجہ سے پارٹی سے نکالے بھی گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طبقے میں کلیان سنگھ ’مقبول ‘ہونے لگے تو اڈوانی کو خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ کلیان کے تعلق سے بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کی سوداگری کی تھی تو ذلیل و خوار ہونا اُن کا بھی مقدر ٹھہرا۔ آج وہ بی جے پی میں ضرور ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا اڈوانی کے دورِ صدارت  ہی میں پارٹی سے باہر کئے گئے تھے۔ اڈوانی  پرتنقید کی پاداش میں ۲۰۰۴ء میں اوما بھارتی کو بی جے پی سے دھتکارا گیاتھا جبکہ گجرات میں خودکو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش میں ۱۹۹۶ء میں واگھیلا اڈوانی کی سازشوں کے شکار ہوئے تھے۔ یہاں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام دودھ کے دھلے تھے اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی بلکہ ان کو بھی وہی ملا جس کے وہ حقدار تھے  اور ان کےساتھ بھی وہی ہوگا جو آج خود کو بہت بااختیار اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔   
     اڈوانی ذلیل ہوئے بھی تو کس کے ہاتھوں؟  وہی جسے دودھ پلا پلا کر انہوں نے توانا کیا تھا۔ گجرات فساد  میں مودی کے کردار پر کسی طرح کی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس فساد کو اتنا طول دینے میں اور اس قدر تباہ کن بنانے میںکس کا رول رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس وقت مودی کی پشت پرکس کا ہاتھ تھا اورانہیں کون شہ دے رہا تھا؟ اُس وقت لال کرشن اڈوانی مرکز میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم تھے۔
      اڈوانی کی اس حالت زار پر بعض حلقوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افسوس کااظہار کرنا غلط نہیں تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں  معصوم بنا کر پیش کرنا بالکل غلط بات ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا، جس کے وہ مستحق تھے۔

Monday 20 May 2013

Nawaz shareef: Nayee subah, nayee ummeeden

نواز شریف کی کامیابی:اک نئی صبح کی دستک
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان  ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں پاکستانی قومی اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے،وہ غیر متوقع نہیں ہیں۔امید یہی تھی کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی البتہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ زرداری اینڈ کمپنی کا انجام اتنا براہوگا۔ ۲۷۲؍رکنی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ۱۲۴؍ نشستیں تنہا حاصل کرلیں جبکہ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اورعمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بالترتیب ۳۱؍ اور ۲۷؍ سیٹیں ہی ملیں۔۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی نے ۷۱؍ اور پاکستان  پیپلز پارٹی نے ۹۴؍سیٹیں حاصل کی تھیں۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس سے یہ اندازہ تو تھا ہی کہ زرداری حکومت کو  بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنا  پڑے گا۔
    اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ پڑوسیوں بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی سمت مثبت قدم بھی اٹھائیںگے۔ نتائج ظاہر ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
    پاکستا ن میں اقتدار کے تین مراکز ہیں، فوج، عدلیہ اورسیاست۔  اقتدار کی تبدیلی میں خفیہ ایجنسیاں بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہیں لیکن عام طو ر پر انہیںفوج کا  وفادارہی سمجھا جاتا ہے۔   نواز شریف کے مراسم ان تینوں مراکز سے کافی اچھے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب وہ فوج کے منظور نظر ہوا کرتے تھے، اسی وقت وہ خفیہ ایجنسیوں  سے بھی رابطے میں آئے۔ اِکا دُکا معاملات کوچھوڑ دیا جائے جن میں ان کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہوا، ورنہ عدلیہ سے بھی ان کے رشتے اچھے ہی رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھے وکیل ہیں، قانون جانتے ہیں لہٰذ عدالتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے ۳۷؍ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے بے پناہ  عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔  وزیراعظم بننے سے قبل وہ پنجاب کے۲؍ بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر انہیں ’شیرِ پنجاب‘ کہاجاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے  ۔ یہ مدت تین سال تک رہی ۔ ۱۹۹۶ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور دوتہائی اکثریت سے  نوازا ۔  اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں حلف برادری کے موقع  پر ۱۳؍ گھنٹے قبل ہی وہ میدان  بھر چکا تھا جہاں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ عزم کے پکے  اور مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔جو سوچتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران کے وقت ایسے ہی کسی  قائد کی ضرورت تھی۔
    پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب اقتدار کی منتقلی کو نئی صبح کیوں کہا جائے؟  اس سوال کا جواب جاننے سے قبل نواز شریف کی زندگی بالخصوص ان کے سیاسی کریئر کا سرسری مطالعہ کرناہوگا۔  یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بطور شوق یا کریئر بنانے کیلئے انہوں نے سیاست کا رخ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت آئے تھے اور اسے انہوں نے حاصل بھی کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ قومیائی گئی اپنی کمپنیوں کو سرکاری تسلط سے آزاد کرانا ۔
    نواز شریف کا تعلق ایک دولت مند گھرانے سے ہے، جس کا شمار موجودہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ملک تقسیم ہوا تو ان کے والد
 محمدشریف امرتسر سے لاہور ہجرت کرگئے جہاں ۱۹۴۹ء میں نواز شریف کی پیدائش ہوئی۔ان کا خاندان ’اتفاق گروپ‘ کا مالک ہے جس کے پاس بے شمار کمپنیاں ہیں، جن میں سے بیشتر اسٹیل کی ہیں۔  ۷۶۔۱۹۷۵ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب کمپنیوں کوقومیانے کا عمل شروع کیا تو ان کی کئی کمپنیاںبھی سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے نواز شریف  سیاست کا رخ کیا۔ اس وقت ان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہی تھا کہ حکومت  کی دستر س سے کس طرح اپنی کمپنیوں کو  آزاد کرایا جائے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل  غلام جیلانی خان گورنر منتخب ہوکر آئے تھے۔  جیلانی خان کوایک نوجوان تیز طرار شہری لیڈر چاہئے تھا جو انہیں نواز شریف کی صورت میں نظر آیا۔ جیلانی خان نے  فوری طور پر انہیں پنجاب کا وزیرمالیات مقرر کردیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ اس کے ایک سال بعد نواز شریف پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بنادیئے گئے، جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ اس طرح انہیں جنرل ضیاء کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اس قربت نے اتنا رنگ دکھایا کہ نہ صرف انہوں نے اپنی کمپنیاں آزاد کروالیں بلکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست بھی بن گئے۔ ضیاء الحق کے ساتھ ہی نواز شریف  اُس وقت کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی  کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے بھی بہت قریب رہے۔ 
    جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہوںنے قومی اسمبلی سمیت تمام ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب صرف اور صرف پنجاب میں نواز کی حکومت باقی رکھی تھی اور اسے مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ بیرون ملک سے بھی نواز شریف کے مراسم کافی اچھے ہیں ۔ ان کی اسٹیل کمپنیوں کا کاروبار سعودی عرب کے ساتھ  دیگر خلیجی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف سے جب ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے تو سعودی عرب کی مداخلت ہی سے نواز شریف کی جاں بخشی  ہوئی تھی ۔
    نواز شریف سے پاکستان کے ساتھ  ہی ساتھ پوری دنیا بالخصوص ہندوستان کو بہت توقعات ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے بلکہ معاشی سطح پر بھی پاکستان کوخوشحال بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اسی طرح  خارجہ پالیسی میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل وہ نواز شریف کا ہی دورِ حکومت تھا جب ۱۹۹۹ ء میں ہندوستان سے وہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا  جسے ’’لاہور اعلانیہ ‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دوران نئی دہلی سے لاہور کی بس سروس بھی شروع ہوئی تھی جس کے افتتاحی سفر میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہوتی اگر کارگل کا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا اور فوج کے ذریعہ نواز شریف کا تختہ نہ پلٹ دیاگیا ہوتا۔ بہرحال اب جب کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ  اس مرتبہ  نہ  صرف یہ کہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گےبلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیارکریں گے۔

Saturday 4 May 2013

UPA hukumat na ahal ya khud sar?

یوپی اے حکومت نااہل یاخود سر؟

ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے نام ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ مثبت نہ سہی منفی ہی سہی، لیکن اس کے ذریعہ تاریخ میں بہرحال منموہن سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کام کاج کے اعتبار سے یہ سب سے نااہل حکومت ثابت ہوئی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ۹؍ برسوں میں موجودہ حکومت نے اوسطاً سالانہ  صرف ۳۲۱؍ گھنٹے کام کئے جبکہ پہلی لوک سبھا میں کام کرنے کا اوسط سالانہ  ۷۵۷؍ گھنٹے تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومت  واقعی نااہل ہے یا خود سری نے اس کا دماغ خراب رکھا ہے؟

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ موجودہ یوپی اے سرکار نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں سب سے کم کام کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔کم از کم تاریخ میں خود کے یاد رکھے جانے کا منموہن سنگھ حکومت نے ایک معقول انتظام توکر ہی لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی کبھی سب سے زیادہ گھوٹالے اور سب سے کم کام کرنے والی حکومت کی بات آئے گی، تو یوپی اے کا نام آسانی سے لیا جاسکے گا۔یوپی اے حکومت کا پہلا دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن دوسرا دور تو نہایت ہی افسوس ناک رہا جس میں کئی اجلاس ایسے گزرے جب کچھ بھی کام نہیں ہوا۔بلاشبہ اس کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن حزب اختلاف کے اس رویے کیلئے بھی بہرحال حزب اقتدار ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔
    اجلاس کا نہ چلنا،ایوان میں ہنگامہ آرائیوں کا بازار گرم ہونا، کارروائیوں میں بار بار خلل پڑنا،  پارلیمنٹ کا مچھلی بازار میں تبدیل ہونا اور پھر کاروبار سمیٹ کر دوسرے دن تک کیلئے  اجلاس کا معطل کیا جانا.... اور سب سے اہم یہ کہ اجلاس کا طلب ہی نہ کیا جانا......  یہ موجودہ حکومت کی  روایت اورایک شناخت رہی ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی نااہلی  ہے یا اس کی خود سری کی علامت؟ سرسری مطالعے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی خودسری ہے، وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو ضروری ہی نہیں سمجھتی۔  دراصل کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت مشورے میں یقین نہیں رکھتی، کسی مسئلے پر وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی.... حریف جماعتوں کی بات جانے دیں، وہ حلیف جماعتوںکو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح عوام کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہوتی ہے...... حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور یہ حقیقت سے زیادہ قریب لگتا ہے ۔دراصل حکومت کی خود سری نے   اسے ناہل بنا رکھا ہے اور اس کی اہم وجہ عوام کی خاموشی ہے۔اسے یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ عوام کی خاموشی نے حکومت کو خود سر بنا دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئی ہے۔
    دو ہفتے بعد یعنی۲۲؍مئی کویوپی اے دوم اپنی مدت کے۴؍ سال پورے کرلے گی۔اس پوری مدت میں حکومت نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔جمہوریت کے لبادے میں وہ ہر کام غیر جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا رویہ اچھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر حزب اقتدار نااہل، نکما اور خود سر ہے تو حزب اختلاف بھی کمزور، غیرذمہ دار اور موقع پرست ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ملک کے خزانے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی  بیشتر جماعتوں کو ملک  سے زیادہ  اپنی پارٹی کے مفاد کی فکر لاحق رہتی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیںاوراس کیلئے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھتی ہیں۔ مختلف گھوٹالوں کے موضوع پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایوان کی کارروائیوں کوروک کر سرکار کو’ پریشان‘ کرنے کا ڈھونگ کرتی ہیں اوراس طرح عوام کے روبرو خود کو ’ذمہ دار‘ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ باور کراکر کہ اپوزیشن کی ذمہ داری صرف ہنگامہ آرائی ہے، وہ خود کو بیوقوف ثابت کرتی ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوںسے عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور طشت میں سجا کر اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیںگے؟  اہم  اپوزیشن بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں  شاید اسی خوش فہمی  میں مبتلا ہیں لیکن سماجوادی اور آر جے ڈی جیسی جماعتیں بھی،جو اُٹھتے بیٹھتے کانگریس کے قصیدے پڑھتی ہیں، اسی خوش فہمی کی شکار ہیں۔ وہ بھی ’عوام کی حمایت‘ میں ایوان اور ایوان کے باہر کانگریس کی  پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب بات اُن پالیسیوں کے نفاذ کی آتی ہےتو یہ جماعتیں ڈرامائی انداز میں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔
    مطلب واضح ہے کہ اگرحکومت نااہل اور خود سر ہے تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے ۴؍ برسوں کے دوران ایوان کے۱۲؍ سیشن میں صرف  ۱۱۵۷؍ گھنٹے میں کام ہوا۔  اسی طرح گزشتہ لوک سبھا کے ۵؍ برسوں کے دوران بھی ایوان میں صرف۱۷۳۷؍ گھنٹے ہی کام ہوسکا تھا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ یو پی اے حکومت کے گزشتہ ۹؍برسوں کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں سب سے کم کام ہوا یعنی سالانہ صرف ۳۲۱؍ گھنٹے ۔ اس سےبہترتو واجپئی کا دور حکومت تھا جب ۵؍ سال میں ایوان نے۱۹۴۶؍ گھنٹے یعنی۳۸۹؍گھنٹے فی سال کام کیاتھا۔ یہ ۲۲؍ جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت تھی۔ پہلی لوک سبھا نے ۵؍ سال میں۳۷۸۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً ۷۵۷؍ گھنٹے سالانہ کام کیا تھا۔۹؍ویں، ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا جو  ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مستحکم سرکاریں تھیں، کام   کے  لحاظ سے منموہن حکومت سے زیادہ  ذمہ دار ثابت ہوئیں۔ ۹؍ ویں لوک سبھا میں جس میںوی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومتیں تھیں، ۱۶؍ مہینے میں ۷۵۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً سالانہ ۵۶۶؍ گھنٹے کام ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا  جو بالترتیب ۱۹؍ اور ۱۳؍ ماہ چلی تھی،اندر کمار گجرال، دیوے گوڑا اور واجپئی نے اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ ان دونوں لوک سبھا کی مدت میں باالترتیب ۸۱۴؍ اور ۵۷۵؍ گھنٹے یعنی اوسطاً   ۵۱۴؍ اور۵۳۰؍ گھنٹے سالانہ کام کاج ہوا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ مستحکم حکومت سے زیادہ بہتر وہ غیرمستحکم حکومتیں ہی تھیں جن کے دور میں پارلیمنٹ میں نسبتاًسنجیدگی زیادہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار پارلیمنٹ میں اجلاس کے انعقاد کے ہیں، کام کرنے کی نہیں۔ موجودہ حکومت کے ۹؍ برسوں میں  ۲۸۹۴؍ گھنٹوں تک اجلاس  چلا، لیکن ان میں سے کتنے گھنٹے ہنگاموں کے نذر ہوئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ رواں بجٹ اجلاس گزشتہ ۹؍ دنوںسے جاری ہے جس میں ابھی تک ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ٹھیک طرح سے چل نہیں سکی ہے ۔درمیان میں ایک دن اپوزیشن کی ’رضامندی‘ سے ان کے واک آؤٹ کے درمیان بحث کے بغیر حکومت نے چند مالیاتی بل ضرور منظور کرالئے تھے۔
    افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمان اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک آزاد ہونے کے ۶۵؍ سال بعد بھی بالغ نظری کا ثبوت پیش نہیں کرپارہی ہیں۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق پارلیمانی  امور کی کارروائی پر فی گھنٹے تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ معمول کے اخراجات ہیں، ان میں کرسیاں اور مائک توڑنے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
      اس کی وجوہات کیا ہیں؟آخر حکومت اجلاس کا انعقاد کیوں نہیں کرتی؟کیا  وہ اپوزیشن کےہنگاموں سے خوفزدہ ہے یا وہ ان اجلاس کو اہمیت ہی نہیںدینا چاہتی؟   اس کا جواب ہمیں حکومت سے نہیں بلکہ خود سے پوچھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری نمائندہ جماعتیں ہیں۔   اگر ہم اسے غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
n

Saturday 20 April 2013

Nitish and Modi ka Drama

جنتادل متحدہ اور بی جے پی کی لفظی جنگ
حقیقت کم شعبدہ بازی زیادہ

ان دنوں جنتادل متحدہ اور بی جے پی میں ہائی پروفائل ڈراما جاری ہے۔ مکالمہ بازی زوروں پر ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کرانے پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے خیالات و نظریات سے سمجھوتہ کرنے والی نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کااتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے۔ یہ ڈراماہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
 
قطب الدین شاہد

آئندہ لوک سبھا انتخابات کی آمد میں ابھی ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اس کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے اپنے طورپر تمام قومی و علاقائی جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ کانگریس، بی جے پی، سماجوادی، بی ایس پی، ترنمول، سی پی ایم، سی پی آئی، ڈی ایم کے، اے آئی اے ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس اور جے ڈی یو..... سبھی انتخابی دُھنوں پر رقص میں مصروف ہیں۔ کہیں شدت تھوڑی کم ہے تو کہیں تھوڑی زیادہ۔ ان تمام کےدرمیان عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں جنتادل متحدہ دیگر جماعتوں کےمقابلے زیادہ کامیاب ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر اس نے ایک ہائی پروفائل ڈراما اسٹیج کیا ہے۔ اس میں عوام کی دلچسپی کے بہت سارے لوازمات ہیں۔ مضبوط پلاٹ، دلچسپ کردار اور برجستہ مکالموں کے ساتھ اس ڈرامے میںتجسس بھی ہے کہ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کایہ اتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے، لیکن جو لوگ ان کے ڈراموں کو دیکھتے رہے ہیں اور ان کی سوچ سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا یہ ڈراما ہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔  ان حقائق کے باوجود اگر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا سبب خیالات و نظریات کا تضاد نہیں ہوگا بلکہ اقتدار تک پہنچنے کی کوئی دوسری حکمت عملی ہوگی۔
    دراصل ۲۰۱۰ء میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں یہ فارمولہ بہت کامیاب رہا تھا۔ اس ڈرامے نے عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ جے ڈی یو کے ساتھ بی جے پی کی نشستوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ نتیش کمار اور نریندر مودی ایک بار پھر اسی کامیابی کو دُہرانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ابھی تک عوام کے حافظے میں ہے کہ بہار میں اسمبلی الیکشن کے دوران  انتخابی مہم میں مودی کی شرکت کو بنیاد بناکر ان دونوں(اتحادی) جماعتوں نے کتنی بیان بازیاں کی تھیں اور پھر انتخاب جیتنے  کے بعد کیا ہوا، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
    اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا؟اس پر گفتگو سے قبل آئیے صورتحال دیکھنےکوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی دراصل اس مرتبہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کیلئے وہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میںیہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جنتادل متحدہ کا ساتھ چھوڑنے کی حماقت نہیں کرے گی، کیونکہ اس صورت میں وہ نہ صرف ایک مضبوط اتحادی گنوادے گی، بلکہ بہار میں اس کیلئے موجودہ نشستوں پر دوبارہ فتح  حاصل کرنا بھی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں نے بہار کی ۴۰؍ سیٹوں پر مل کر انتخاب لڑا تھا، جس میں جے ڈی یو نے ۲۰؍ اور بی جے پی نے ۱۲؍ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں ۲۴۳؍  رکنی ایوان میں جے ڈی یو نے ۱۱۵؍ اور بی جے پی نے ۹۱؍ سیٹیں حاصل کی تھیں۔    جے ڈی یو نے ۱۴۱؍ اور بی جے پی نے ۱۰۲؍ نشستوں پرقسمت آزمائی کی تھی جس میںدونوں نے مجموعی طور پر ۳۹؍فیصد ووٹ حاصل کئےتھے۔ ظاہر ہے کہ اگر بی جے پی تنہا  انتخاب میں اُترنے کی کوشش کرے گی تو اس کیلئے ووٹوں کے اس تناسب تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے بمشکل ۱۵؍ سے ۲۰؍فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں اسے کتنی نشستیں ملیںگی،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے ۲۷ء۳۱؍ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، اس کے باوجود اسے صرف۲۲؍ نشستوں پر سمٹ جاناپڑا تھا  جبکہ لوک سبھا میں اسے ۴؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔
     ان حقائق کے باوجود اگر بی جے پی کے تیور قدرے جارحانہ  ہیں تو اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ وہ دراصل اس مرتبہ سخت ہندوتوا  کے تیور کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے بجائے  بی جے پی کو توانا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مودی کو اگر آگے بڑھایا گیا تو اس کے بنیادی رائے دہندگان اس کے ساتھ آئیںگے اور اس  طرح اس کی مجموعی نشستوںمیں اضافہ ہوگا، لیکن وہ مودی کے نام کااعلان اس لئے نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی ذاتی نشستوں کی تعداد اتنی کبھی نہیں ہوگی کہ وہ تنہاحکومت ساز ی کرسکے،  اں لئے  انتخابات کے بعد اسے این ڈی اے کو ’متحد‘ کرنے کی جوڑ توڑ بہرحال شروع کرنی ہوگی۔  بی جے پی کی کوشش ہے کہ مودی کو آگے بڑھاکر سخت ہندوتوا میں یقین رکھنےوالوں کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں اور پھر الیکشن بعد سشما سوراج، اڈوانی، راج ناتھ سنگھ،  یشونت سنہا یا پھر اور کسی نام کو آگے بڑھا کر ناراض این ڈی اے کے اراکین کو ’متحد‘کرلیا جائےگا۔ ہندوستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
    حالات بتارہے ہیں کہ بی جے پی  اپنے طور پر جے ڈی یو سے تعلق ختم نہیں کرے گی لیکن..... اگر جے ڈی یو نے بی جے پی  سے مودی  سے متعلق زیادہ وضاحت پر اصرار کیاتو بی جے پی اس تعلق کو ختم بھی کرسکتی ہے۔   بی جے پی کو اگر محسوس ہوا کہ مودی کو آگے بڑھاکر الیکشن لڑنے میں اسے پورے ملک میں ۲۵؍ سے ۳۰؍ سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ بہارمیں ۴؍ سے ۶؍ سیٹوں کانقصان گوارا کرلے گی،کیونکہ اسے پتہ ہے کہ الیکشن بعد ضرورت محسوس ہوئی تو    جنتادل یو کو این ڈی اے کے بینر تلے لانا کچھ مشکل کام نہیں ہوگا۔
    رہی بات جے ڈی یو کی، تو اس کیلئے بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ تنہاالیکشن لڑنے میںاس کابھی نقصان ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ  جے ڈی یو کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کرکے لوک سبھا الیکشن میں اُترے۔ دراصل یہاں کانگریس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے۔ یعنی  وہ بھی کچھ بھی کرکے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہونا چاہتی ہے۔ اس کی ۲؍وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اقتدار کااپنا مزہ ہے، دوسرے یہ کہ  اگراس مرتبہ شکست کا سامنا ہوا تو راہل گاندھی کا کریئر تباہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں کانگریس بہت کم سیٹیں پاکر بھی  بہار میں جے ڈی یو سے انتخابی مفاہمت کرسکتی ہے۔ اس کی وہاں پارلیمنٹ کی ۲؍ سیٹیں ہیں۔ جے ڈی یو سے انتخابی تال میل کی صورت میں اتنا تو طے ہے کہ اسے نقصان نہیں ہوگا۔ ایسے میں اسے آر جے ڈی سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور کانگریس کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنا فائدہ ہو تو، کسی کی اعتماد شکنی اس کیلئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔
     آثار بتار ہے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے امیدوار کے طورپربی جے پی کسی  کے نام کا باضابطہ اعلان نہیں کرے گی لیکن اپنے رائے دہندگان کو یہ پیغام ضرور دے گی کہ الیکشن بعدمودی ہی اس کے میرکارواں ہوںگے۔ ایسے میں گیند جے ڈی یو کے پالے میں آجاتی ہے کہ وہ کیاقدم اُٹھاتی ہے۔ اس کے سامنے  ۲؍ صورتیں ہوں گی۔ اول یہ کہ کانگریس سے اگر انتخابی مفاہمت ہوجاتی ہے تو وہ بی جے پی سے مودی کے نام پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ناطہ توڑ لینے کااعلان کرے گی۔ دوم یہ کہ اگر کانگریس سے اپنی شرطوں پر سمجھوتہ نہیں ہوا تو بی جے پی کے ساتھ مکالمہ بازی جاری رہے گی اور دونوں ایک دوسرے کے اتحادی بنے رہیں گے۔  تو کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے تھوڑا اور توقف کیجئے اور تب تک اس دلچسپ ڈرامے سے لطف  اندوز ہوئیے۔