Saturday 9 March 2013

One year of Akhilesh Government

اکھلیش حکومت کیلئے یہ جشن کا نہیں احتساب کا موقع ہے

 اترپردیش کے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکے راجہ بھیا کو جیل سے نکال کر جیل منتری بنانا اکھلیش حکومت کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا خمیازہ تو ریاستی حکومت کو بھگتنا  ہی تھا اور وہ بھگت بھی رہی ہے، تاہم اب بھی وقت ہے۔ حکومت چاہے تو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرکے اپنی غلطیوں کاازالہ کرسکتی ہے اور اس طرح عوام کا اعتماد بحال کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کی صرف اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہے۔ ۵؍ دن بعد حکومت کا ایک سال پورا ہوگا حکومت چاہے تو اس  نکتے پر غور کرسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ اکھلیش  حکومت کیلئے   یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے۔

قطب الدین شاہد

اُتَّرپردیش کی سماجوادی حکومت نےاپنے اقتدار کے۳۶۰؍ دن پورے کرلئے۔ گزشتہ سال ۱۵؍ مارچ کواکھلیش یادو نے اپنے چند کابینی رفقاء کے ساتھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اُس وقت جب اکھلیش کے نام کااعلان ہوا تھا،اترپردیش کے عوام بالخصوص مسلمانوں میں ایک عجیب سا جوش و خروش تھا۔ ایسی امید تھی کہ چھوٹے یادو  ایک انقلاب لائیںگےاور ان تمام غلطیوں سےسماجوادی  حکومت کو پاک کرنے کی کوشش کریںگے، جو اخیر اخیر میںاُن کے والد سے منسوب ہوگئی تھیں.... لیکن افسوس کہ ایک سال پورا ہونے کے بعد جب اس کا جائزہ لیا جاتا ہے تو کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔کم از کم غنڈہ راج  والی صورتحال آج بھی وہی ہے۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ۳۰؍ سے زائد چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات اور ڈی ایس پی ضیاء الحق کا بہیمانہ قتل اس بات کے ثبوت ہیں کہ غیر سماجی عناصر پر ان کا کنٹرول نہیں ہوپایا ہے۔
      ان حالات میں سماجوادی حکومت کیلئے یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے بالخصوص  ایسے میں جبکہ آئندہ سال پارلیمانی الیکشن ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادوبھلے ہی اپنے صاحبزادے اور اپنی پارٹی کی حکومت کو ۱۰۰؍ میں سے ۱۰۰؍ نمبر دینے کی بات کریں،اکھلیش یادو اور اعظم خان بھی میڈیا کے روبرو اپنی کارکردگی کے اطمینان بخش ہونے کا دعویٰ کریں لیکن یہ بات کسی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ کسی اور سے کیا،خود وہ بھی تو مطمئن نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جہاں ملائم سنگھ ریاستی حکومت کے وزراء کو متنبہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے، وہیں اکھلیش اور اعظم خان بھی وقتاً فوقتاً مایوسی کااظہار کرتے رہے ہیں۔
    ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کے بعد اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے اعظم خان نے جس کرب کا اظہار کیا تھا، وہ ظاہر کررہا تھا کہ کچھ تو ہے جہاں وہ مجبور و بے بس نظر آتے ہیں۔ آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسروں پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ’’ پولیس کا اقبال کیسے بلند ہو، اس کے بارے میں اعلیٰ پولیس افسروں کو سوچنا ہوگا۔ ایک عجیب غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ منتری تو آتے جاتے رہتے ہیں، ہمیں رہنا ہے۔ ۲۱ ؍برس بعد کوئی پہلا مسلم پی سی ایس ہوا تھا، اسے بھی ختم کردیا گیا۔‘‘یہ صرف اعظم خان کے دل کی آواز نہیں ہے، بلکہ اترپردیش کے ۲؍ کروڑ مسلمان بھی کچھ اسی طرح سوچتے ہیں۔
    اس سے قبل کہ اکھلیش حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، آئیے دیکھتے ہیں کہ سابقہ سماجوادی حکومت کی طاقت کیا رہی ہے اور اس کی غلطیاں اور کمزوریاں کیا رہی ہیں؟ اکھلیش نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ اُس کی طاقت میں اضافہ ہوا کہ نہیں اور اُن غلطیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے میں وہ کس حد تک کامیاب یا ناکام ہیں؟
    ملائم سنگھ ۳؍مرتبہ یوپی کے اقتدار پر قبضہ جما چکے ہیں۔ انہیں مرکز میں بھی آنے کا موقع ملااور دفاع جیسی باوقار وزارت ان کی ماتحتی میں رہی لیکن ان کو جو مقبولیت اور عزت و شہرت ملی، وہ یوپی اوران کی وزارت اعلیٰ کی وجہ سے ملی۔ ملائم سنگھ کو یہ مرتبہ ان کے سوشلسٹ نظریات، لوہیا وادی افکارو خیالات،ان کی جدوجہد، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی کامیاب نمائندگی اور صاف گوئی کی وجہ سے ملا، لیکن یہ بات شاید انہیں راس نہیں آئی۔ لالچ بری بلا ہوتی ہے، پوری کی چکر میں آدھی بھی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ پوپی کو چھوڑ کر پورے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے کا خواب دیکھنے لگے، جس کے نتیجے میں انہیں اپنے سیاسی نظریات اور افکار وخیالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ مشیروں کے غلط مشوروں سے  فائدہ پہنچنا تو دور کی بات، وہ اپنی سابقہ طاقت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک جانب جہاں ان کے قریبی ساتھی راج ببر، بینی پرساد ورما اور اعظم خان سمیت کئی مسلم لیڈر اُن کا ساتھ چھوڑ گئے، وہیں مسلم رائے دہندگان بھی ان سے دور ہوگئے۔ کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج انہیں فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا گئے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایسا محسوس ہونے لگا کہ سماجوادی پارٹی کا سیاسی کریئر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔سماجوادی کیلئے یہ بہت نازک دور تھا۔ یہی وہ وقت تھاجب سخت ڈسپلن والے  راجستھا ن کے ملٹری اسکول راجستھان کے تربیت یافتہ اور آسٹریلیا  سے جدید علوم میں ڈگری لے کر واپس آنے والے انجینئر اکھلیش یادونے پارٹی کو سنبھالا دینے کی کوشش کی اور رفتہ رفتہ اس کا وقار بحال کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ بلاشبہ مسلمانوں نے ایک بار پھر سماجوادی پارٹی پر اعتماد کیا، جس کا نتیجہ اس کی اسمبلی نشستوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ۲۰۰۷ء میں ۹۷؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۱۲ء میں اسے۲۲۴؍ نشستیں ملیں۔ دراصل سماجوادی پارٹی کی ۲؍ بڑی کمزوریاں تھیں۔ اول یہ کہ پارٹی کو غنڈوں کی سرپرستی حاصل تھی، مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے بھلے ہی پارٹی کے کلیدی عہدوں پر نہ رہے ہوں لیکن پارٹی کے فیصلوں میں ان کا عمل دخل بہت زیادہ تھا اور یہ بات پوری طرح سے اظہرمن الشمس تھی۔ دوئم یہ کہ مسلمانوںکااستحصال خوب ہوتا تھا۔ کانگریس پارٹی ہی کی طرح یہاں بھی ان کے مفاد کی باتیں تو کی جاتی تھیں، بیان بازیاں بھی خوب ہوتی تھیں لیکن ان کی فلاح کے کچھ کام نہیں ہوتے تھے۔ شروع شروع میں ایسا محسوس ہوا کہ  اکھلیش  ان دونوں کمزوریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں۔ ڈی پی یادو کی پارٹی میں واپسی کی جب بات چلی تھی تو اس موقع پر ان کا مؤقف کچھ اسی بات کا غماز تھاکہ اب سماجوادی پارٹی میں غنڈوں کا گزر نہیں ہوگا۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے  اکھلیش نے کہا بھی تھا کہ ’’پہلے پارٹی کی شناخت مسل پاور اور لاٹھی سے ہوتی تھی لیکن اب جدید خیالات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہوگی۔‘‘ اسی طرح کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج کے ساتھ جب پارٹی نے امر سنگھ سے بھی چھٹکارا پالیا اور پھر اعظم خان کی پارٹی میں واپسی ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ سماجوادی پارٹی کو اپنی غلطیوں کااحساس ہوچکا ہےاوراب وہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ 
      اکھلیش حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اسے  پوری طرح ناکام نہیں قرار دے سکتے لیکن راجہ بھیا کے معاملے پر حکومت کا رویہ تشویشناک ضرور ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہےکہ بہت ساری اچھائیوں پر ایک برائی حاوی ہو جاتی ہے۔ اس وقت اکھلیش حکومت  کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بلاشبہ ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کی ایماندارانہ جانچ  بہت ضروری ہے لیکن عوام کااعتماد بحال کرنے کیلئے راجہ بھیا کی فوری گرفتاری  اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اترپردیش کے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکے راجہ بھیا کو جیل سے نکال کر جیل منتری بنانا اکھلیش حکومت کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا خمیازہ تو ریاستی حکومت کو بھگتنا  ہی تھا اور وہ بھگت  بھی رہی ہے، تاہم اب بھی وقت ہے۔
     حکومت چاہے تو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرکے اپنی غلطیوں کاازالہ کرسکتی ہے اور اس طرح عوام کا اعتماد بحال کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کی صرف اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہے۔ ۵؍ دن بعد حکومت کا ایک سال پورا ہوگا حکومت چاہے تو اس  نکتے پر غور کرسکتی ہے ۔ مطلب یہ کہ اکھلیش  حکومت کیلئے   یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے