Monday 20 May 2013

Nawaz shareef: Nayee subah, nayee ummeeden

نواز شریف کی کامیابی:اک نئی صبح کی دستک
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان  ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں پاکستانی قومی اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے،وہ غیر متوقع نہیں ہیں۔امید یہی تھی کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی البتہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ زرداری اینڈ کمپنی کا انجام اتنا براہوگا۔ ۲۷۲؍رکنی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ۱۲۴؍ نشستیں تنہا حاصل کرلیں جبکہ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اورعمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بالترتیب ۳۱؍ اور ۲۷؍ سیٹیں ہی ملیں۔۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی نے ۷۱؍ اور پاکستان  پیپلز پارٹی نے ۹۴؍سیٹیں حاصل کی تھیں۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس سے یہ اندازہ تو تھا ہی کہ زرداری حکومت کو  بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنا  پڑے گا۔
    اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات  صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ پڑوسیوں بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی سمت مثبت قدم بھی اٹھائیںگے۔ نتائج ظاہر ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
    پاکستا ن میں اقتدار کے تین مراکز ہیں، فوج، عدلیہ اورسیاست۔  اقتدار کی تبدیلی میں خفیہ ایجنسیاں بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہیں لیکن عام طو ر پر انہیںفوج کا  وفادارہی سمجھا جاتا ہے۔   نواز شریف کے مراسم ان تینوں مراکز سے کافی اچھے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب وہ فوج کے منظور نظر ہوا کرتے تھے، اسی وقت وہ خفیہ ایجنسیوں  سے بھی رابطے میں آئے۔ اِکا دُکا معاملات کوچھوڑ دیا جائے جن میں ان کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہوا، ورنہ عدلیہ سے بھی ان کے رشتے اچھے ہی رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھے وکیل ہیں، قانون جانتے ہیں لہٰذ عدالتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے ۳۷؍ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے بے پناہ  عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔  وزیراعظم بننے سے قبل وہ پنجاب کے۲؍ بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر انہیں ’شیرِ پنجاب‘ کہاجاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے  ۔ یہ مدت تین سال تک رہی ۔ ۱۹۹۶ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور دوتہائی اکثریت سے  نوازا ۔  اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں حلف برادری کے موقع  پر ۱۳؍ گھنٹے قبل ہی وہ میدان  بھر چکا تھا جہاں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ عزم کے پکے  اور مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔جو سوچتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران کے وقت ایسے ہی کسی  قائد کی ضرورت تھی۔
    پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب اقتدار کی منتقلی کو نئی صبح کیوں کہا جائے؟  اس سوال کا جواب جاننے سے قبل نواز شریف کی زندگی بالخصوص ان کے سیاسی کریئر کا سرسری مطالعہ کرناہوگا۔  یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بطور شوق یا کریئر بنانے کیلئے انہوں نے سیاست کا رخ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت آئے تھے اور اسے انہوں نے حاصل بھی کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ قومیائی گئی اپنی کمپنیوں کو سرکاری تسلط سے آزاد کرانا ۔
    نواز شریف کا تعلق ایک دولت مند گھرانے سے ہے، جس کا شمار موجودہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ملک تقسیم ہوا تو ان کے والد
 محمدشریف امرتسر سے لاہور ہجرت کرگئے جہاں ۱۹۴۹ء میں نواز شریف کی پیدائش ہوئی۔ان کا خاندان ’اتفاق گروپ‘ کا مالک ہے جس کے پاس بے شمار کمپنیاں ہیں، جن میں سے بیشتر اسٹیل کی ہیں۔  ۷۶۔۱۹۷۵ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب کمپنیوں کوقومیانے کا عمل شروع کیا تو ان کی کئی کمپنیاںبھی سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے نواز شریف  سیاست کا رخ کیا۔ اس وقت ان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہی تھا کہ حکومت  کی دستر س سے کس طرح اپنی کمپنیوں کو  آزاد کرایا جائے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل  غلام جیلانی خان گورنر منتخب ہوکر آئے تھے۔  جیلانی خان کوایک نوجوان تیز طرار شہری لیڈر چاہئے تھا جو انہیں نواز شریف کی صورت میں نظر آیا۔ جیلانی خان نے  فوری طور پر انہیں پنجاب کا وزیرمالیات مقرر کردیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ اس کے ایک سال بعد نواز شریف پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بنادیئے گئے، جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ اس طرح انہیں جنرل ضیاء کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اس قربت نے اتنا رنگ دکھایا کہ نہ صرف انہوں نے اپنی کمپنیاں آزاد کروالیں بلکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست بھی بن گئے۔ ضیاء الحق کے ساتھ ہی نواز شریف  اُس وقت کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی  کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے بھی بہت قریب رہے۔ 
    جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہوںنے قومی اسمبلی سمیت تمام ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب صرف اور صرف پنجاب میں نواز کی حکومت باقی رکھی تھی اور اسے مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ بیرون ملک سے بھی نواز شریف کے مراسم کافی اچھے ہیں ۔ ان کی اسٹیل کمپنیوں کا کاروبار سعودی عرب کے ساتھ  دیگر خلیجی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف سے جب ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے تو سعودی عرب کی مداخلت ہی سے نواز شریف کی جاں بخشی  ہوئی تھی ۔
    نواز شریف سے پاکستان کے ساتھ  ہی ساتھ پوری دنیا بالخصوص ہندوستان کو بہت توقعات ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے بلکہ معاشی سطح پر بھی پاکستان کوخوشحال بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اسی طرح  خارجہ پالیسی میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل وہ نواز شریف کا ہی دورِ حکومت تھا جب ۱۹۹۹ ء میں ہندوستان سے وہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا  جسے ’’لاہور اعلانیہ ‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دوران نئی دہلی سے لاہور کی بس سروس بھی شروع ہوئی تھی جس کے افتتاحی سفر میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہوتی اگر کارگل کا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا اور فوج کے ذریعہ نواز شریف کا تختہ نہ پلٹ دیاگیا ہوتا۔ بہرحال اب جب کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ  اس مرتبہ  نہ  صرف یہ کہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گےبلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیارکریں گے۔

Saturday 4 May 2013

UPA hukumat na ahal ya khud sar?

یوپی اے حکومت نااہل یاخود سر؟

ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے نام ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ مثبت نہ سہی منفی ہی سہی، لیکن اس کے ذریعہ تاریخ میں بہرحال منموہن سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کام کاج کے اعتبار سے یہ سب سے نااہل حکومت ثابت ہوئی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ۹؍ برسوں میں موجودہ حکومت نے اوسطاً سالانہ  صرف ۳۲۱؍ گھنٹے کام کئے جبکہ پہلی لوک سبھا میں کام کرنے کا اوسط سالانہ  ۷۵۷؍ گھنٹے تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومت  واقعی نااہل ہے یا خود سری نے اس کا دماغ خراب رکھا ہے؟

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ موجودہ یوپی اے سرکار نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں سب سے کم کام کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔کم از کم تاریخ میں خود کے یاد رکھے جانے کا منموہن سنگھ حکومت نے ایک معقول انتظام توکر ہی لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی کبھی سب سے زیادہ گھوٹالے اور سب سے کم کام کرنے والی حکومت کی بات آئے گی، تو یوپی اے کا نام آسانی سے لیا جاسکے گا۔یوپی اے حکومت کا پہلا دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن دوسرا دور تو نہایت ہی افسوس ناک رہا جس میں کئی اجلاس ایسے گزرے جب کچھ بھی کام نہیں ہوا۔بلاشبہ اس کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن حزب اختلاف کے اس رویے کیلئے بھی بہرحال حزب اقتدار ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔
    اجلاس کا نہ چلنا،ایوان میں ہنگامہ آرائیوں کا بازار گرم ہونا، کارروائیوں میں بار بار خلل پڑنا،  پارلیمنٹ کا مچھلی بازار میں تبدیل ہونا اور پھر کاروبار سمیٹ کر دوسرے دن تک کیلئے  اجلاس کا معطل کیا جانا.... اور سب سے اہم یہ کہ اجلاس کا طلب ہی نہ کیا جانا......  یہ موجودہ حکومت کی  روایت اورایک شناخت رہی ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی نااہلی  ہے یا اس کی خود سری کی علامت؟ سرسری مطالعے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی خودسری ہے، وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو ضروری ہی نہیں سمجھتی۔  دراصل کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت مشورے میں یقین نہیں رکھتی، کسی مسئلے پر وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی.... حریف جماعتوں کی بات جانے دیں، وہ حلیف جماعتوںکو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح عوام کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہوتی ہے...... حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور یہ حقیقت سے زیادہ قریب لگتا ہے ۔دراصل حکومت کی خود سری نے   اسے ناہل بنا رکھا ہے اور اس کی اہم وجہ عوام کی خاموشی ہے۔اسے یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ عوام کی خاموشی نے حکومت کو خود سر بنا دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئی ہے۔
    دو ہفتے بعد یعنی۲۲؍مئی کویوپی اے دوم اپنی مدت کے۴؍ سال پورے کرلے گی۔اس پوری مدت میں حکومت نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔جمہوریت کے لبادے میں وہ ہر کام غیر جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا رویہ اچھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر حزب اقتدار نااہل، نکما اور خود سر ہے تو حزب اختلاف بھی کمزور، غیرذمہ دار اور موقع پرست ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ملک کے خزانے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی  بیشتر جماعتوں کو ملک  سے زیادہ  اپنی پارٹی کے مفاد کی فکر لاحق رہتی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیںاوراس کیلئے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھتی ہیں۔ مختلف گھوٹالوں کے موضوع پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایوان کی کارروائیوں کوروک کر سرکار کو’ پریشان‘ کرنے کا ڈھونگ کرتی ہیں اوراس طرح عوام کے روبرو خود کو ’ذمہ دار‘ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ باور کراکر کہ اپوزیشن کی ذمہ داری صرف ہنگامہ آرائی ہے، وہ خود کو بیوقوف ثابت کرتی ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوںسے عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور طشت میں سجا کر اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیںگے؟  اہم  اپوزیشن بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں  شاید اسی خوش فہمی  میں مبتلا ہیں لیکن سماجوادی اور آر جے ڈی جیسی جماعتیں بھی،جو اُٹھتے بیٹھتے کانگریس کے قصیدے پڑھتی ہیں، اسی خوش فہمی کی شکار ہیں۔ وہ بھی ’عوام کی حمایت‘ میں ایوان اور ایوان کے باہر کانگریس کی  پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب بات اُن پالیسیوں کے نفاذ کی آتی ہےتو یہ جماعتیں ڈرامائی انداز میں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔
    مطلب واضح ہے کہ اگرحکومت نااہل اور خود سر ہے تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے ۴؍ برسوں کے دوران ایوان کے۱۲؍ سیشن میں صرف  ۱۱۵۷؍ گھنٹے میں کام ہوا۔  اسی طرح گزشتہ لوک سبھا کے ۵؍ برسوں کے دوران بھی ایوان میں صرف۱۷۳۷؍ گھنٹے ہی کام ہوسکا تھا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ یو پی اے حکومت کے گزشتہ ۹؍برسوں کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں سب سے کم کام ہوا یعنی سالانہ صرف ۳۲۱؍ گھنٹے ۔ اس سےبہترتو واجپئی کا دور حکومت تھا جب ۵؍ سال میں ایوان نے۱۹۴۶؍ گھنٹے یعنی۳۸۹؍گھنٹے فی سال کام کیاتھا۔ یہ ۲۲؍ جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت تھی۔ پہلی لوک سبھا نے ۵؍ سال میں۳۷۸۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً ۷۵۷؍ گھنٹے سالانہ کام کیا تھا۔۹؍ویں، ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا جو  ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مستحکم سرکاریں تھیں، کام   کے  لحاظ سے منموہن حکومت سے زیادہ  ذمہ دار ثابت ہوئیں۔ ۹؍ ویں لوک سبھا میں جس میںوی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومتیں تھیں، ۱۶؍ مہینے میں ۷۵۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً سالانہ ۵۶۶؍ گھنٹے کام ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا  جو بالترتیب ۱۹؍ اور ۱۳؍ ماہ چلی تھی،اندر کمار گجرال، دیوے گوڑا اور واجپئی نے اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ ان دونوں لوک سبھا کی مدت میں باالترتیب ۸۱۴؍ اور ۵۷۵؍ گھنٹے یعنی اوسطاً   ۵۱۴؍ اور۵۳۰؍ گھنٹے سالانہ کام کاج ہوا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ مستحکم حکومت سے زیادہ بہتر وہ غیرمستحکم حکومتیں ہی تھیں جن کے دور میں پارلیمنٹ میں نسبتاًسنجیدگی زیادہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار پارلیمنٹ میں اجلاس کے انعقاد کے ہیں، کام کرنے کی نہیں۔ موجودہ حکومت کے ۹؍ برسوں میں  ۲۸۹۴؍ گھنٹوں تک اجلاس  چلا، لیکن ان میں سے کتنے گھنٹے ہنگاموں کے نذر ہوئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ رواں بجٹ اجلاس گزشتہ ۹؍ دنوںسے جاری ہے جس میں ابھی تک ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ٹھیک طرح سے چل نہیں سکی ہے ۔درمیان میں ایک دن اپوزیشن کی ’رضامندی‘ سے ان کے واک آؤٹ کے درمیان بحث کے بغیر حکومت نے چند مالیاتی بل ضرور منظور کرالئے تھے۔
    افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمان اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک آزاد ہونے کے ۶۵؍ سال بعد بھی بالغ نظری کا ثبوت پیش نہیں کرپارہی ہیں۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق پارلیمانی  امور کی کارروائی پر فی گھنٹے تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ معمول کے اخراجات ہیں، ان میں کرسیاں اور مائک توڑنے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
      اس کی وجوہات کیا ہیں؟آخر حکومت اجلاس کا انعقاد کیوں نہیں کرتی؟کیا  وہ اپوزیشن کےہنگاموں سے خوفزدہ ہے یا وہ ان اجلاس کو اہمیت ہی نہیںدینا چاہتی؟   اس کا جواب ہمیں حکومت سے نہیں بلکہ خود سے پوچھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری نمائندہ جماعتیں ہیں۔   اگر ہم اسے غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
n