Tuesday 29 October 2013

Roznaamcha_Shaam ke baad Sannata


 شام کے بعد کا سناٹا

قطب الدین شاہد

دن بھر کی ہماہمی کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب مصروفیتوں پر تھوڑا ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ یہ وقفہ آرام اور احتساب کا ہوتا ہے،دوڑ دھوپ میں کیا کھویا ، کیا پایا کے حساب کتاب اور جائزے کا ہوتا ہے۔ اس وقت بعض چہروں پر اطمینان کی جھلک پائی جاتی ہے تو بعض کے چہروں سے جھلاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔شام کے بعد کے اس سناٹے میں وہ لوگ گہری نیند کا مزہ لیتے ہیں جو اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں یا جن کی کارکردگی کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن یہی سناٹا ان لوگوں کیلئے روح فرسا ثابت ہوتا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے جن کی دوڑ بھاگ کے نتائج غلط یا ان کی توقع کے برعکس ہوتے ہیں۔
    کتنی عجیب با ت ہے کہ اپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے  بوڑھے والدین کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے.... اور پھر کچھ عرصے کے بعد  وہی بچے بڑے ہوکراپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے انہیں بھی اسی انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف حال میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی’خوشی‘ کا اتنا خیال رہتا ہے کہ ماضی یعنی والدین کی محبت کو فراموش کردیتے ہیں اور مستقبل یعنی اپنا انجام بھی بھول جاتے ہیں۔
     اس تمہید کا پس منظر ایک ڈراما ہے جس کا نام ’شام کے بعد کا سناٹا‘ ہے۔ مصنف نے زندگی کے تین ادوار بچپن، جوانی اوربڑھاپے کو صبح ، دوپہر اورشام سے تشبیہ دیتے ہوئے شام کے بعد کے سناٹے کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ’اولڈ ایج ہوم‘ جس میں اپنی اولادوں کے ستائے ہوئے مختلف مذاہب  کے معمر افراد ہیں۔ یہ سب متوسط  اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دن رات محنت کرکے دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ لوگ کبھی موٹر، گاڑی ، بنگلہ کے مالک تھے اور بینک بیلنس رکھتے تھے مگر آج کسی اورکے رحم و کرم پر زندگی کے بقیہ ایام گزاررہے ہیں۔یہاں پہنچ کر جہاں یہ ماضی کی باتیں یاد کرکے اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتےہیں، وہیں موجودہ سماجی روش کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی صورت حال سوچ سوچ کر پریشان بھی ہیں۔اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے یا بیٹیوں اور بہوؤں کے ظلم و ستم سے پریشان ہوکر خود ہی گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان بوڑھوں کو اس بات کا شدید ملال تھا کہ جن کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا، غلط و صحیح کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی ہر خوشی کا خیال رکھا، انہیں یہ جاننے کی بھی فکر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ ایک دن ایک بوڑھا مرگیا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’وٹھل کہتا تھا کہ جب اس کو بیٹا پیدا ہوا تو اس نے کندھے پر ٹوکری رکھ کر محلے میں لڈو بانٹا تھا،آج وہی بیٹا اس کی ارتھی کو کاندھا دینے بھی نہیں آیا۔‘‘
    ان کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ایک دن قدرے تاخیر ہوجانے پر وہاں کے ملازم کے گھر سے فون آگیا کہ کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔ وہاں کے بوڑھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’اپنے بچوں کو کیا کھلایا ہے اور کیسی تربیت کی ہے کہ وہ اس دنیا کے نہیں معلوم ہوتے؟‘‘ نوکر کہتا ہے کہ’’ ہم نے بچوں کو حلال کمائی کے نوالے کھلائے ہیں اور بزرگوں کی عزت کی صرف تلقین نہیں کی بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے۔‘‘اس میں یوں تو بہت ساری سبق آموز باتیں ہیں لیکن نوکر کےاس جملے کو اس  ڈرامےکا حاصل کہاجاسکتا ہے۔ صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں کیلئے بھی یہ باتیں عبرت انگیز ہیں ، ہم تو بحمدللہ مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں  اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہر غلط عمل کی سزا خود ہمیں ہی بھگتنی ہوگی۔

Saturday 19 October 2013

Roznaamcha_The Genration Gap

  بزرگوں اور بچوں کے درمیان فاصلہ

قطب الدین شاہد

 عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوں میں  بڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ      تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے   مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن خطبہ ختم ہونے کے بعد جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر کافی پیچھے کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تو باہر بھی نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئےجانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوں اور بزرگوں کا احترام کرنا چھوڑ دیں، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔
     آج ہمارا موضوع یہی ہے کہ بزرگوں اوربچوں کے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس خلیج کو بھرا کیسے جاسکتا ہے؟
      یہ شکایت عام ہے کہ بچے بزرگوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہے۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ شرارت تو کسی حد تک گوارا ہے مگر طلبہ کی ایک بڑی تعداد تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے بدتمیزی پر آمادہ نظر آتی ہے۔  اپنی اصلاح پر توجہ دینے کے بجائے  یہ بچے اساتذہ کی شکایت  پرنسپل، والدین اور بعض تو پولیس اسٹیشن میں بھی کربیٹھتے ہیں۔
    حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں اور  ماضی کی باتوں کو یاد کرکے اسے اچھا  اور اس بہانے خود کو  اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں۔ آج کے طلبہ اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اساتذہ اور بزرگوں کوخاطر میں نہیں لاتی لیکن....
     یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟دو نسلوں کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس صورتحال کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اس لئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کرنے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتےہوئے انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوںگے۔ کچھ یہی  حال آج کے اساتذہ کا بھی ہے۔  بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں اور طلبہ کو اپنے بڑوں، بزرگوں اور اساتذہ سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ سلام  و احترام کرنے اور ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں  آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔