Wednesday 18 December 2013

Assembly election aur Congress ki mayus kun karkardagi

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی مایوس کن کارکردگی کی بنیادی وجہ

مہنگائی اور بدعنوانی نہیں،  انانیت رہی ہے

یہ بات بالکل درست ہے کہ کانگریس سے عوام کی شدیدبرہمی نے اسے شکست سے دو چار کیا ہے لیکن اس ناراضگی کی وجہ صرف مہنگائی اوربدعنوانی نہیں ہے بلکہ حکومت کی انانیت رہی ہے۔ عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کسی اور کی ہوتی تو بھی مہنگائی اور بدعنوانی کم و بیش اسی طرح رہتی.... لیکن ۲۰۰۹ء میں دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کانگریس نے جس رعونت و انانیت کا مظاہرہ کیا، وہ عوام کو بالکل پسند نہیں آیا
 
قطب الدین شاہد
 
پانچ ریاستوں  میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات کو  فائنل سے پہلے کا سیمی فائنل کہاجارہا تھا جس میں کانگریس کو اننگز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔چھتیس گڑھ اور میزورم جیسی چھوٹی ریاستوں میں نتائج تقریباً  جوں کے توں رہے لیکن بقیہ۳؍ اہم ریاستوں میں (جن میں ۲؍ پر کانگریس اورایک پر بی جے پی قابض تھی) کانگریس کہیں بھی مقابلہ کرتی  نظر نہیں آئی۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سے عوام کی اس ناراضگی کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو پہنچا کیونکہ  وہاں عوام کیلئے کوئی مضبوط متبادل نہیں تھا۔راجستھان کی شکست کانگریس کیلئے بدترین رہی  ہے لیکن اس کے قدموں تلے زمین دہلی میں کھسکی جہاں ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت  نے اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔
     دلچسپ بات یہ ہے کہ نتائج ظاہر ہونے سے قبل تک کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی نہ صرف یہ کہ خاطر میں نہیں  لارہی تھیں بلکہ انتخابی میدان میں ان کے اترنے کے فیصلے کا مذاق بھی اڑا رہی تھیں۔اب جبکہ نتائج ظاہر ہوچکے ہیں،انتخابی تجزیہ نگار کانگریس کی  ذلت آمیز شکست اور بی جے پی کی فتح کے اسباب جاننے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ ایک طبقہ اسے مودی کی لہر مانتا ہے تو کچھ لوگ بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلیٰ (شیوراج سنگھ چوہان اور رمن سنگھ)کی بہترین کارکردگی کو اس فتح کی وجہ بتا تے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ ہے جو کانگریس سے عوامی ناراضگی کو اس نتیجے کا بنیادی سبب قرار دیتا ہے۔  یہ بات بالکل درست ہے لیکن  اس سے عوامی ناراضگی کی جو وجہ بتائی جارہی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مہنگائی اور بدعنوانی ایک وجہ ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہوسکتی۔ خاص و عام یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مہنگائی اور بدعنوانی کیلئے صرف کانگریس ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ بے قابو مہنگائی کیلئے جہاں بین الاقوامی عوامل کارفرما ہیں، وہیں بدعنوانی کیلئے ہمارا پورا سسٹم ذمہ دار ہے جس کے ایک حصہ ہم یعنی عوام بھی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس کو پھر سزا کیوں دی گئی؟  اس کا جواب یہ ہے کہ کانگریس میں بہت زیادہ رعونت آگئی تھی اوراس کے لیڈر انانیت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ایک زمانہ  تھا  جب کانگریس کے اراکین چوپال پر بیٹھ کر عوام کی باتیں سنتے تھے اوران پر عمل کرتےتھے اورآج یہ عالم ہے کہ وہ عوام سے بہت دور ہوگئے ہیں اور ان کے پاس جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کانگریس میں لیڈروں کی بہتات ہے لیکن عوامی نمائندوں کی شدید قلت  ہے۔عام آدمی کی بات جانے دیں،  ۲۰۰۹ء کے بعد کانگریس کا مزاج کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو خاطر میں لانا اپنی شان کے خلاف سمجھنے لگی ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی ۔
    دراصل کانگریس بھی اسی برہمنی نظام کی حامی ہے جو ملک میں دو جماعتی نظام کی وکالت کرتا ہے۔ کانگریس بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ اور بی جے پی باری باری حکومت کرتے رہیں۔ کانگریس کوبی جے پی سے کوئی خار نہیں ہے، کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس اپنی باڈی لینگویج  سے کچھ یہی تاثر دینا چاہ رہی ہے کہ اس مرتبہ وہ بی جے پی کیلئے میدان صاف رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں زیادہ محنت نہیں کرتی جہاں بی جے پی کی حکومت ہوتی ہے، اس کے برعکس ان ریاستوں میں اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہے جہاں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کسی اور جماعت کی حکمرانی ہوتی ہے۔  وہ خواہ یوپی ہو، بہار ہو یا مغربی بنگال  اور جموں کشمیر۔اس مرتبہ بھی یہی دیکھا جارہا ہے کہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے زیادہ وہ دہلی کیلئے پریشان ہے جہاں اسمبلی کی ۷۰؍ اور پارلیمنٹ کی صرف ۷؍ نشستیں ہیں۔   
     یہ بہت مشہور مقولہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو بہت دنوں تک بہت سارے معاملات میں بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا.... اس کے باوجود کانگریس یہی کام کررہی ہے۔ اسے نہیں پتہ اب ہندوستانی عوام کافی سمجھدار ہوگئے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے لگے ہیں۔ اسے اگر اپنی ساکھ بحال رکھنی ہے تو ہندوستانی عوام کےمزاج کو سمجھنا ہوگا۔  بلاشبہ مہنگائی اور بدعنوانی کے اس دیو کو حکومت پوری طرح نہیں روک سکتی لیکن وہ اس معاملے پر اپنی سنجیدگی کااظہار تو کر ہی سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے لیڈروں نے ۵؍ روپے میں بھر پیٹ کھانا ملنے کی بات کہہ کر غریبوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔  ان حالات میں کانگریس کو اس سے بہتر نتیجے کی امید کرنی بھی نہیں چاہئے تھی۔

Saturday 14 December 2013

Roznaamcha> Farooq abdullah

فاروق عبداللہ نے غلط کیا کہا تھا؟
 
 سچ کہنا اور اس پر قائم رہنا بڑی جرأت کا کام ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں یہ وصف بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ ان کی زبان سے اگر کبھی کوئی سچی بات نکل بھی گئی توتنقیدوں سے بچنے کیلئے دوسرے ہی پل اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے جو بات کہی تھی، وہ قطعی غلط نہیں تھی .... لیکن وہ اپنی اُس بات پر ۲۴؍ گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکے اور اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا تھا موجودہ  حالات  میں  انہيں لگتا ہے کہ کسى خاتون کو پرسنل سیکريٹرى نہيں رکھنا چاہئے کيونکہ اس کى کسى بھى شکايت پر جيل  ہوسکتی ہے۔  ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بيان پر سياسى جماعتوں اور خواتين کى تنظيموں نے سخت ردعمل ظاہر کيا جس کے بعد  ان کو معافى مانگنى پڑى۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے غلط کیا کہا تھا؟ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان ہونےوالے واقعات سے فاروق عبداللہ کیا،ہر خاص و عام سہما ہوا ہے۔ تہلکہ کے چیف ایڈیٹرترون تیج پال ، مغربی بنگال حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین جسٹس گنگولی اور  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسرمحمد شبیر جیسی اہم شخصیات  جب اس قانون کی زد میں آسکتی ہیں اور اپنا کریئر تباہ و برباد کرسکتی ہیں تو بھلا عام آدمی کس قطار شمار میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بے قصور ہیں یا  ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئے لیکن   ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ محض الزام عائد کردیئے جانے سے یہ مجرم ہوگئے۔ اگر یہ مجرم ہیں تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہو لیکن جب تک الزام ثابت نہیں ہوجاتا، انہیں مجرم نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
    قانونی کی سختی اور اس کے اطلاق میں جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ کسی خاتون نے کسی مرد پر جنسی زیادتی کاالزام عائد کردیا تو پھر یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ چندماہ قبل احمد آباد کی ایک طوائف  نے۴؍ افراد پر ’آبروریزی ‘ کاالزام عائد کیا تھا۔ اس نے  اپنی شکایت میں یہ بات کہی تھی کہ۲؍ لوگوں کے ساتھ وہ   ۲؍ گھنٹے کیلئے’کہیں‘گئی تھی جہاںان دونوں کے مزید ۲؍ ساتھی آگئے اور اس کی آبروریزی کی اور ’قیمت‘ بھی ادا نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ان چاروں پر اجتماعی آبرو ریزی  کے معاملات درج ہوئے۔
      عزت و عصمت کسی بھی خاتون یا لڑکی کا سب سے قیمتی زیور ہوتا ہےجس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف اس خاتون پر  بلکہ پورے سماج پر عائد ہوتی ہے۔اس کیلئے نہ صرف سخت قانون کے نفاذ کی ضرورت ہے بلکہ کسی قانون سے زیادہ ضروری احتیاطی تدابیر کی ہے..... افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے قانون تو سخت بنا دیا گیا لیکن احتیاط کے نام پر کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ فلموں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر آج بھی کچے ذہنوں کو اس جرم کی جانب دھڑلے سے ’راغب‘ کیا  جارہا ہے۔  ٹیلی ویژن شو ’بگ باس‘ میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ کیا وہاں تہذیب و تمدن کی تربیت دی جارہی ہے؟
     اس کے باوجود حال ہی میں شو سے باہر ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی اداکارہ صوفیہ حیات نےارمان کوہلی کے خلاف پولیس میںبدسلوکی کی شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔  اس بات کا اعتراف عدالت تک نے کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال بہت تیزی سے ہورہا ہے مگر افسوس کہ اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بس، ٹرین اور راستوں پر چلتے ہوئے ایک عجیب سا  خوف محسوس ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے؟  اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو قانون کی اس سختی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ جرائم میں کمی آئے نہ آئے لیکن خوف کی شدت بڑھی تو لوگ خواتین کی عزت کرنے کے بجائے ان سے نفرت کرنے لگیںگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا سماجی نقصان ہوگا۔