Saturday 21 June 2014

kahan gayi bedaari aur kahan gayi tahreeken?

کہاں گئی ہماری تعلیمی بیداری اور کہاں گئی ہماری تحریکیں؟

۱۹۹۷ء میںتنویرمنیار کی کامیابی کےبعد پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر محسوس کی گئی تھی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے دسویں میں ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔   الماس سید نے بارہویں میں اور  ڈاکٹر  شاہ فیصل نے یوپی ایس سی میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے  اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا ....
لیکن  اب  کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے؟ کیا ہماری تعلیمی تحریک جمود کا شکار ہورہی ہے یاہم نام و نمود کے جال میں پھنس گئے ہیں؟

قطب الدین شاہد

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستانی مسلمان بالکل ٹوٹ کر رہ گئے  تھے۔ قانو ن و عدالت کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے مذہبی جنونیوں کے ایک گروہ نے مرکزاور ریاست کی کانگریس اور بی جے پی حکومتوں کی سرپرستی اور فوج کی موجودگی میں بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیاتھا۔اس کی وجہ سے مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے تھے کیونکہ یہ صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے نام اس گروہ کا یہ پیغام بھی تھا کہ اب تمہیں دستوری تحفظات نہیں بلکہ ہمارے رحم و کرم کا محتاج بن کر رہنا ہوگا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا ٹوٹ جانا اور ان کے حوصلوںکا پست ہوجانا فطری تھا۔
    لیکن وہ مسلمان ہی کیا جو اس طرح کے نامساعد حالات سے گھبراجائے ۔ کشتیاں جلاکر اپنا ہدف طے کرنے والی قوم جب خلوص و ایمان کی طاقت سے کوئی معرکہ سرکرنا چاہتی ہے تو مشکلات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن پاتیں۔ بابری مسجد کی شہادت اوراس کے بعد پورے ملک میں پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بھی یہی ہوا۔ مسلمانوں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ سرخروئی چاہئے تو قوم کی تعلیمی صورتحال کو بدلنا ہوگا اور تعلیمی پسماندگی کے اس دلدل سے باہر نکلنا ہوگا۔ سابق بیوروکریٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد کی قیادت میں نکلنےوالے تعلیمی کارواں   نے پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ۱۹۹۷ء میں مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر شولا پورسے تنویر منیار کی صورت میں روشنی کاایک مینار بلند ہوا۔  اردو میڈیم کے اس طالب علم نے دسویں کے امتحان میں ریاست  کے لاکھوں طلبہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔  یہ کامیابی کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں تھی اور یہ صرف تنویر ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس کامیابی میں پورا شولا پور، پوری ریاست اور پورا ملک شریک تھا۔
     اس کامیابی پرشولا پور کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے مسلمان ناز کررہے تھے۔  اپنی کامیابی کی خوشبو سے انہوںنے پوری فضا کو معطر کردیا تھا اورسبھی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ وہ صرف اپنی امی کے بیٹے نہیں رہ گئے تھے بلکہ ان کی صورت میں تمام ہندوستانی مسلم ماؤں کو اپنے بیٹے کی صورت نظر آنے لگی تھی، سبھی اُن کی بلائیں لیتی تھیں  اور انہیں دعائیں دیتی ہوئی نظر آرہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا بھی انقلاب لائے اور ہندوستانی مسلمانوں کے عزت اور وقار میں اضافے کا باعث بنے۔
    بابری مسجدکی شہادت کے بعد پہلی بار ہندوستانی بالخصوص مہاراشٹر کے مسلمانوں کو خوش ہونے کا موقع ملا تھا۔بلاشبہ تنویر کی کامیابی میں ان کی اپنی اوران کے والدین و اساتذہ کی بے پناہ محنتیں شامل تھیں لیکن اتنی بڑی کامیابی صرف محنتوں سے نہیں ملا کرتی بلکہ اس کامیابی میں پورے ملک کے مسلمانوں کی دعائیں اور نیک تمنائیں بھی شامل تھیں۔ تنویر کی کامیابی کوئی اچانک اورانہونی کامیابی بھی نہیں تھی بلکہ اس کی توقع تھی اورامید کی جارہی تھی کہ اس تعلیمی بیداری کا کوئی تو نتیجہ برآمد ہوگا لیکن یہ تنویر کہاں سے ابھرے گا، اس کا  اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
    ہمیںاچھی طرح یاد ہے، تنویر منیار نے جس سال ایس ایس سی میں مہاراشٹر ٹاپ کیا  تھا، ہم بھیونڈی میں تھے۔ اُس وقت ہمارا تعلق کسی اخبار سے نہیں تھا۔ انٹرنیٹ عام افراد کی پہنچ سے دور تھا، اس وقت اخبارات کے دفتر ہی قبل از وقت خبریں فراہم کرنے کا ذریعہ ہواکرتے تھے، بالخصوص وہ خبریں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح  قوم و ملت سے ہوتاتھا۔ ہم نے بھی  اسی ذریعہ کااستعمال کیا اور’ انقلاب ‘کے دفتر میں فون کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس مرتبہ کیا رزلٹ رہا اور میرٹ میں’ اپنا‘ کوئی ہے کہ نہیں!  اور جب یہ خوشخبری ملی کہ نہ صرف یہ کہ میرٹ میں اپنے کئی طلبہ ہیں بلکہ پوری ریاست کو اردو کے ایک طالب علم نے فتح کرلیا ہے تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ تھوڑی سی تفصیل لے کر اپنے دوستوں کی مدد سے ہم نے اسے شہر کی کئی دیواروں پرلکھ بھی دیا جس کی وجہ سے  تھوڑی ہی دیر میںیہ خوشخبری پورے شہر میں پھیل گئی۔
    دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی حالت دیکھنے جیسی تھی، بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی روتے روتے ہنس پڑا ہو۔ مسرت کے آنسو اُن چہروں پر بھی نظر آرہے تھے جو جانتے بھی نہیں تھے کہ ایس ایس سی امتحان کیا ہوتا ہے اور میرٹ کس چڑیا کا نام ہے، وہ بس اتنا جانتے تھے کہ ایک مسلم بچے نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ممبئی، بھیونڈی، کلیان، مالیگاؤں، پونے، اورنگ آباد، جلگاؤں اور ریاست کے دیگر شہروں میں تنویر منیار کا زبردست استقبال کیا گیا تھا۔ تنویرنے یقیناً پورے ملک کے مسلمانوںمیں خوشی کی لہردوڑادی تھی۔ اس کامیابی کے بعد وہ سب کے اپنے ہوگئے تھے اور سب ان کے اپنے ہوگئے تھے۔ بھیونڈی میں انجمن فروغ تعلیم نے جب انہیں مدعو کیا تو شہر میں عید جیسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ تنویر کے استقبال اور خیر مقدم میں  جگہ جگہ بینر لگے  ہوئےتھے اور کوٹرگیٹ مسجد کے پاس ایک شاندار استقبالیہ گیٹ بھی بنایا گیاتھا۔ ٹھاکرے ہال میں انہیں دیکھنے کیلئے ایک خلقت امڈ پڑی تھی۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، ہال کے باہر بھی بہت سارے لوگ موجود تھے۔  یہ تقسیم انعامات کا پروگرام تھا لیکن  وہ طلبہ بھی جنہیں انعام ملنے والاتھا، حصول انعام سے زیادہ تنویر سے ملاقات کے متمنی تھے۔ ہر کوئی تنویر کو دیکھنے کا تمنائی تھا اوران سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ اپنی ہی جیسی مٹی کا بنا ہوا کوئی انسان ہے یا کوئی اور ہے۔ یہی صورتحال ممبئی، کلیان، جلگاؤں، مالیگاؤں اور پونے میں بھی تھی۔
    اس کامیابی نے ایک راہ ہموار کی۔طلبہ میں جوش بھر گئے تھے۔ والدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ قوم کی سربرآوردہ شخصیتوں نے اخلاص کے ساتھ   اس مشن کو آگے بڑھایا اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔  اس فہرست میںزرین انصاری ، رضوانہ انصاری، بلال مستری، خان صبا شریف اورواجدہ کاریگر کانام لیا جاسکتا ہے۔ کئی دیگر ریاستوں کے بورڈوں میں بھی مسلم طلبہ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔   ۲۰۰۹ء  میں الماس ناظم سید نے اس مشن کو اور آگے بڑھایا جب انہوں نے  بارہویں میں مہاراشٹر ٹاپ کیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں میں مسرت کی یہی کیفیت تھی۔الماس کو دیکھنے اور سننے کیلئے بھیونڈی کے ٹھاکرے ہال میں گنجائش سے زیادہ افراد جمع ہوگئے تھے۔ اس  موقع پر الماس نے ۱۵؍ منٹ کی تقریر کی تھی اور ا س مختصر وقفے میں انہوں نے اتنی  اثر انگیز باتیں کی تھیں جتنی ہمارے خطیب، مقرر اور سیاست داں  برسوں میں بھی نہیں کرپاتے۔گفتگو کے دوران الماس  کے والد نے بھی ایک پتے کی بات کہی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’کل تک الماس کو دیکھ کر لوگ کہاکرتے تھے کہ دیکھو! ناظم کی بیٹی جارہی ہے لیکن آج مجھے دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! الماس کے ابو جارہے ہیں۔ یہ میرے لئے بجاطور پر فخر اور خوشی کی بات ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ الماس جیسی بیٹی پاکر کون باپ خوش نہیں ہوگا؟ اس موقع پر ہم نےہال میں موجود بیشتر بچوں کی آنکھوں کی ایک چمک سی محسوس کی تھی کہ وہ بھی سرخرو ہوکر اپنے والدین کو اسی طرح سر بلندی کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کریںگے۔
    اس کارواں کو مزید آگے بڑھایا ڈاکٹرشاہ فیصل نے۔ ۲۰۱۰ء میںہندوستان کے سب سے سخت اور قابل رشک مقابلہ جاتی امتحان میں۴؍ لاکھ سے زائد طلبہ کے درمیان اول مقام حاصل کرنے والے ڈاکٹر شاہ فیصل نے عزم محکم اور عمل پیہم کو اپنی کامیابی کی کلید قرار دیا۔ کامیابی کے بعد انہوں نے ایک ایسی بات کہی  جسے ہم جیسے اُن تمام لوگوں کو اپنی گرہ میں باندھ لینا چاہئے جو موقع بے موقع جواز اور بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا  تھاکہ ’’۸؍ سال قبل جب چند دہشت پسندوں نے والد صاحب کو قتل کردیاتو میرے سامنے دو ہی راستے تھے ، یا توخود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں یا پھر تن کر کھڑا ہوجاؤں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کروں.... اور پھر میں نے آخرالذکر فیصلہ کیا۔‘‘
    ان کامیابیوں نے بعد کے طلبہ کو کافی حوصلہ بخشا اوراس کے خاطر خواہ نتائج بھی دیکھے گئے۔ ملاحظہ کریں ایک مثال۔  تنویر منیار نے جس سال کامیابی حاصل کی تھی، اس سال یعنی ۱۹۹۷ء میں بھیونڈی میں صرف  ۹؍ طلبہ نے امتیازی اور ۱۱۹؍  نے اول درجے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن تنویر کی کامیابی سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے سال ۳۳؍ طلبہ امتیازی اور ۲۲۳؍ اول درجے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد بلال، زرین اوررضوانہ کی کامیابی سے حوصلہ پانے کے بعد  یعنی ۲۰۰۰ء میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنےوالے طلبہ کی تعداد ۴۳؍ اوراول درجے میں کامیاب ہونےوالوں کی تعداد ۳۹۵؍ ہوگئی۔
     یہ صرف ایک شہر کی مثال ہے،ورنہ یہی کیفیت  پوری ریاست اور پورے ملک کی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس بیداری پر غفلت کا سایہ پڑتا جارہا ہے۔اب کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے  جیسے ہماری تعلیمی تحریکیں جمود کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ اس موقع پر ہم سب یعنی والدین، اساتذہ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، سماجی اداروں کے سربراہ اور قوم کے خیرخواہوں کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خلوص کا دامن ہم سے چھوٹتا جا رہا  ہے اور ہم نام و نمود کے چکر میں اپنے سرمائے کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں؟