Wednesday 17 June 2015

Bihar men Janta parivar k ittehaad se bhagwa taqton ki neend haraam

بہار میںجنتا پریوار کے اتحاد سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام

نتیش کمار کی مسلسل کوششوں  اور لالو پرساد کی دور اندیشی نے بہار میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے بھگوا طاقتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔  بی جے پی کو لگتا تھا کہ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کی لڑائی میں وہ بہ آسانی پٹنہ پر قابض ہوجائے گی لیکن اب بہار اسمبلی پر بھگوالہرانے کا خواب تو دور کی بات ، موجودہ نشستوں کو بچاپا نا بھی اس کیلئے محال ثابت ہوگا۔    اسے خوف اس بات کا ہے کہ اس کے نتائج صرف بہار تک ہی محدود نہیںرہیںگے بلکہ اس کے  اثرات ملک گیر ہوںگے

قطب الدین شاہد
 
لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی  سے اس کے لیڈروں کے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے تھے۔ حالانکہ  یہ بات بی جے پی اور اس کے حامی بھی  بہت اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی  کارکردگی اور شبیہ کی وجہ سے یہاں تک نہیں پہنچی ہے اور نہ ہی یہ اس کے سیاسی فلسفے کی کامیابی ہے۔اس کامیابی کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ کانگریس کا مسلسل ۱۰؍ سالہ اقتدار تھا، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر اسے کافی ناراضگی کا سامنا  تھا۔عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ علاوہ ازیں کانگریس کی بہت ساری کمزوریاں اورخامیاں بھی تھیں ،جس نے عوام کو اس سے دور کردیا تھا۔  ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کا ایک بڑا طبقہ اس مرتبہ مودی کا حامی تھا۔ اس نے مودی کی تشہیر پردل کھول کر خرچ کیا۔  یہ اسی تشہیر کا نتیجہ تھا کہ بی جے پی بالخصوص مودی کو عوام کے ایک بڑے طبقے نے نجات دہندہ تسلیم کرلیا تھا۔ اپوزیشن بری طرح منتشر تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو کافی فائدہ ہوا۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر بی جے پی کے تئیں ایک سیاسی ہمدردی بھی تھی کہ ایک باراسے بھی موقع دیا جانا چاہئے اورکچھ حد تک ہندوتوا وادی طاقتوں کا اتحاد تھا کہ اگر اس مرتبہ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکے تو پھر آئندہ بہت مشکل ہوگی۔ اس کے باوجود  بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں صرف ۳۱ء۳۴؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔
     اس طرح کئی وجوہات نے بی جے پی کو اقتدار کی منزل تک پہنچا دیا تھا لیکن اب وہ حالات باقی نہیں رہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال بڑی تیزی   کے ساتھ تبدیل ہوچکی ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی بھلے ہی اچھی رہی ہو لیکن  یوپی اوربہار کے ضمنی انتخابات میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور دہلی کے اسمبلی الیکشن میں تو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لوک سبھا انتخابات کے فوراً  بعدہونے والے بہار کے ضمنی الیکشن میںبی جے پی کو ۱۰؍ میں سے صرف ۴؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ اِس  میں اُس کی ۶؍ سیٹیں تھیں اور ان میں سے ۵؍ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔   یوپی میں تو اور بری دُرگت ہوئی ۔ یہاں ۱۱؍ میں سے بی جے پی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا  جبکہ یہ تمام کی تمام سیٹیںاسی کی تھیں اوراستعفیٰ دینے والے تمام اراکین اسمبلی لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج بی جے پی کو اس کی اوقات بتانے کیلئے کافی تھا جس میں  اسے ۷۰؍ میں سے صرف ۳؍ سیٹیں ہی ملیں جبکہ ایک سال قبل اسے ۳۲؍ سیٹیں ملی تھیں اور لوک سبھا الیکشن میں پارلیمنٹ کی تمام نشستوں پر اسی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے۔
    مطلب بالکل صاف ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے حق میں اب  وہ لہر نہیں ر ہی جو کچھ دن قبل اپوزیشن کو بہا لے گئی تھی۔ اب تو  اس کے حامی بھی  بی جے پی کی سحر سے آزاد ہوچکے ہیں۔ ایک ہی سال میں بی جے پی کا طلسم بری طرح ٹوٹ گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ داؤد ابراہیم، پاکستان، گنگا کی صفائی، رام مندر، دفعہ ۳۷۰؍ یکساں سول کوڈ اور ۵۶؍ انچ کے سینے کی بات آتی ہے تو اس کے سخت گیر حامی بھی نظریں جھکا لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو کالا دھن کی واپسی اور ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کے ملنے کی لالچ میں  بی جے پی کےقریب گئے تھے اور وہ جو اچھے دن کا انتظار کرتے کرتے اب بری طرح تھک چکے ہیں ، وہ بھی مودی حکومت کو کوس رہے ہیں۔  بی جے پی اراکین پارلیمان کے شاہی خرچ اور مودی کے مسلسل بیرون ملک دوروں سے بھی ایک بڑا طبقہ نالاں ہوچکا ہے۔  ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ اراکین پارلیمان نے محض ایک سال میں اپنے اوپر اتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ یوپی اےسرکار کے ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان، من کی بات  اور یوگا دِوس کے نام پر ہونے والی غیرضروری تشہیر کو بھی لوگ سمجھنے لگے ہیںکہ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ’گجرات ماڈل‘ کی وجہ سے بی جے پی اور مودی  کے قریب جانے والے بھی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی ،گری راج سنگھ اور مختار عباس نقوی جیسے لیڈروں کے سطحی اور فرقہ پرستانہ بیانات سے عاجز آچکے ہیں۔
     آئیے دیکھتے ہیں کہ بہار کی سطح پر سیاسی صورتحال کیا ہے؟ اور اعداد و شمارکیا کہتے ہیں؟  ۲۰۱۴ء کےلوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ۲۹ء۸۶؍ فیصدہی ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹیں کافی زیادہ ہوگئی تھیں۔ اسے نصف سے زائد یعنی ۴۰؍ میں سے ۲۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں۔ بی جے پی کی اتحادی  جماعت  رام ولاس پاسوان کی  ایل جے پی کو ۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۶؍ سیٹیں ملی تھیں ۔اس الیکشن میں آر جے ڈی  اور جے ڈی یو کو بالترتیب ۴؍ اور ۲؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں لیکن ان کے ووٹوں کا تناسب بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۱۶ء۰۴؍ فیصد تھا جبکہ ۸ء۵۶؍ فیصد ووٹوںکے ساتھ کانگریس کو ۲؍  اور این سی پی کو ایک سیٹ ملی تھی۔ اس کے ووٹوں کا تناب ۱ء۲۲؍ فیصد تھا۔
      یہ اُس وقت کی بات تھی جب میڈیا کی مدد سے پورے ملک میں مودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔  اس سحر سے بہار بھی آزاد نہیں تھا   ۔ بی جے پی کیلئے ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ اپوزیشن بری طرح بکھرا ہوا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مانجھی اور پپو یادو جیسے لوگ وابستہ ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی وجہ سے بی جے پی کو کچھ  زیادہ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس وقت مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کے گراف میں کافی کمی آئی ہے ۔  بی جے پی کیلئے بہار، یوں بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کے نام پرسبھی متفق ہوسکیں یا اس میں عوام کو اپنی جانب کھینچنےکی صلاحیت ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ ریاستی الیکشن ہے جس کے موضوعات لوک سبھا کے مقابلے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر لوک سبھا میں ملنے والے ووٹوں کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو  بی جے پی اور ایل جے پی کو ۳۶ء۳۶؍ فیصد ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس، این سی پی اور سی پی ایم کے کھاتے میں ۴۷ء۳۵؍ فیصد ووٹ آسکتے ہیں۔اس واضح فرق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کیا نتائج ہوںگے ؟ ہم جانتے ہیں کہ ایک دو فیصد ووٹوں کے بھی اِدھر اُدھر ہوجانے سے سیٹوں میں کافی فرق آجاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال بہار کی موجودہ اسمبلی کا انتخابی نتیجہ ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں  جے ڈی یو کو ۲۲ء۵۸؍ فیصد ووٹوں کی بدولت ۱۱۵؍ سیٹیں مل گئی تھیں جبکہ آر جے ڈی کو تھوڑا ہی کم یعنی ۱۸ء۸۴ء فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس کی سیٹوں کی تعداد محض ۲۲؍ تھی۔
    اس بار لالو اور نتیش کا پلڑا بھاری  رہنے کا امکان اس لئے بھی ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے دوران نامواقف حالات میں بھی لالو کی پارٹی کے امیدوار تقریباً ۱۴۵؍ اسمبلی نشستوں پر اول اور دوم پوزیشن پر تھے جبکہ اس مقام پر نتیش کی پارٹی کے ۴۳؍ امیدوار تھے۔  اب جبکہ حالات پوری طرح سے مواقف ہیں،۱۹۰؍سیٹیں تو مل ہی سکتی ہیں۔ ایک جانب جہاں بی جے پی  بڑی تیزی سے  زوال پزیر ہے وہیں اتحاد کی وجہ سے جنتاپریوار کے اراکین کے ساتھ ہی سیکولر رائے دہندگان بھی پُرجوش ہیں۔اس اتحاد کیلئے یقیناً ملائم سنگھ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہار میں حالانکہ ان کی سماجوادی پارٹی کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ،بالکل اسی طرح، جس طرح آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا یوپی میں کچھ نہیں ہے ، اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس اتحاد  سے دونوں ریاستوں میں سیکولر ووٹروں کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔
    اس اتحاد کیلئے لالو پرساد نے یقیناًقربانی دی ہے، ورنہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب کانگریس کے ساتھ نتیش کمار اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد تعمیر کرنے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ لالو کے اس مدبرانہ اور دوراندیشانہ فیصلے نے ان کے سیاسی قد کو مزید بلند کردیا ہے۔ ویسے بھی بہار کی سطح پر نتیش کے مقابلے لالو عوام میں زیادہ مقبول رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ووٹ بھی زیادہ ملتے رہے ہیں۔ صرف ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن کو چھوڑ دیا جائے تو آج تک جتنے بھی انتخابی نتائج ظاہر ہوئے ہیں،اس میں لالو کا ہی پلڑا بھاری رہا ہے۔ فروری ۲۰۰۵ء میں جے ڈی یو کو ۱۴ء۵۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ آر جے ڈی کو ملنےوالوں ووٹوں کاتناسب ۲۵ء۰۷؍ فیصدتھا۔ کوئی سرکار نہیں بن سکی تو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں پھر انتخابات ہوئے جس میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کو بالترتیب ۲۰ء۴۶؍ اور ۲۳ء۴۵؍ فیصد ووٹ ملے۔ اس سے قبل یعنی ۲۰۰۰ء کے انتخابی نتائج میں نتیش کمار کی پارٹی کو صرف ۶ء۴۷؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ لالو کی پارٹی کو ۲۸ء۳۴؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو نتیش کی قیادت کو قبول کرکے لالو نے تاریخی قدم اٹھایا ہے، اس قربانی کا صلہ انہیں یقیناً ملے گا۔
Bhai Ramzaan baad
 بھائی رمضان بعد
ابھی رمضان شروع بھی نہیں ہوا کہ ہم نے کام بند کردیا اور کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ جس کسی سے کچھ کام کیلئے کہو تو جواب ملتا ہے کہ’بھائی رمضان بعد‘۔اسی طرح دکانوں پر دیکھو تو رمضان کی مناسبت سے خریداری بھی زوروں پر ہے۔ ہماری ان حرکتوں سے دیگر اقوام کے سامنے ہماری شبیہ بہت بری طرح خراب ہورہی ہے۔  وہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں مسلمان کام کم کرتے ہیں لیکن کھاتے پیتے زیادہ ہیں۔
     اگر ایسا لوگ سوچتے ہیں تو شاید وہ غلط بھی نہیں کرتےحالانکہ یہ دونوں باتیں رمضان کی روح کے منافی ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کام نہ کرنا یا کام کم کرنے کا کوئی جوازہی نہیں بنتا۔    افسوس کی بات یہ ہے کہ کام کم کرنے کا جواز وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جو آرام دہ کاموں سے وابستہ ہیں۔  وہ لوگ جو بیچارے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں یعنی روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں، وہ اس طرح کی بہانے بازیاں نہیں کرتے۔
      دوران سفراکثر ایک انجینئرسے ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک دن  کہنے لگے کہ میں نے  ایک ماہ قبل ہی رمضان کی مناسبت سے ۱۰؍ رمضان سے عید کے ۵؍ دن بعد تک   ۲۵؍ دنوں کی چھٹی کیلئے اپلائی کردیا  ہے۔  میں نے کہا کہ چھٹی مل جائےگی؟ تو کہنے لگے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ میں مسلمان ذرا کم ہیں، اسلئے آسانی سے مل جاتی ہے۔ انہوں  نے بتایا کہ یہ اُن کا ہر سال کا معمول  ہے۔ گزشتہ ۴؍ سال سے وہ کمپنی سے وابستہ  ہیں اور ہر سال رمضان میں اسی طرح چھٹیاں لیتے  ہیں۔   انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رمضان میں آغاز کے ۱۰؍ دنوں تک جب وہ آفس جاتے ہیں تو وہ کتنی بھی دیر سے  دفتر جائیں ،ان سے باز پرس نہیں ہوتی اوررات میں بھی جلدی چھٹی  مل جاتی ہے۔   میں نے کہا ، کیا یہ مناسب ہے؟ روزے آپ اپنے لئے رکھتے ہیں یا اپنی کمپنی کیلئے؟   اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا، اس پرافسوس کے بعد خاموش ہو جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ جب فائدہ مل رہا ہے، تو اٹھانے میں کیا حرج ہے؟‘‘یہ تو محض ایک مثال ہے، ورنہ کم یا زیادہ ،اس طرح کا فائدہ بہت سارے لوگ اٹھارہے ہیں اور افسوس کہ اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتے۔  
    بلاشبہ رمضان  کے روزے عبادت  ہیںلیکن اس عبادت کا ایک مقصد بھی ہے۔ وہ یہ کہ بھوکے پیاسے رہ کر ہم اپنے اُن بھائیوں کا خیال رکھیں جو کسی وجہ سے بھوکے اور پیاسے رہنے پر مجبور ہیں اور پھران کی مدد کریں۔ طبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی افادیت ہے کہ روزہ رکھنے سے پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے لیکن ہم جس طرح کھاتےپیتے ہیں، اس سے جہاں بھوکے پیاسے رہنے کی تکلیف کااحساس نہیں ہوتا، وہیں بیماریوں  سے نجات ملنے کے بجائے نئی بیماریوں کو دعوت بھی دے بیٹھتے ہیں۔ کیا ہم اس  نکتے پر غور کریںگے؟
Ram dev ki maggie
رام دیو کی میگی
میگی پر جب شور شرابہ ہوا تو ایک لمحے کیلئے یقین نہیں آیا کہ یہ سچ بھی ہے۔ پہلے تو یہی محسوس ہوا کہ  اس طرح کی منفی تشہر خود نیسلے کی جانب سے کی جارہی  ہے، جسے بعد میں افواہ قرار دے دیا جائے گااور اس طرح ’میگی‘ کی ساکھ مزید مضبوط ہوجائے گی لیکن  ایسا نہیں ہوا۔  سرکار، سرکاری ادارے اور میڈیا نے ثابت کردیا کہ نیسلے کی میگی میں مضراثرات پائے جاتے ہیں ۔
    اس تعلق سےسرکار کی سنجیدگی اور دلچسپی دیکھ کر ایک بار پھر شبہ ہوا کہ کیا واقعی یہی سچ ہے جو حکومت اور میڈیا کے ذریعہ بتایا جارہا ہے۔  یہ بر سوں کے تجربے کا نتیجہ ہے کہ ہم ہندوستانیوں کا یقین کسی بات پر سے اُس وقت متزلزل ہونےلگتا  ہے جب اُس کے تئیں سرکار دلچسپی دکھانے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو نظر آرہا ہے، وہی سچ نہیں ہے بلکہ ’کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘۔
    میگی سےمتعلق بھی یہی گمان گزرا کہ کیا واقعی سرکار اس پر اسلئے کارروائی کررہی ہے کہ وہ انسانی صحت کیلئے مضر  ہے یا اور کوئی بات ہے؟ زیادہ عرصہ نہیں لگا جب سرکار کی سنجیدگی کاراز فاش ہوگیا۔  نیسلے کی میگی پر بعض ریاستوں میں پابندی لگتے ہی بی جے پی کے چہیتے بابا رام دیو کی کمپنی پتن جلی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ بہت جلد آیورویدک نوڈلس پیش کرنے والی ہے۔
      ویسے  رام دیو کی جانب سے  باقاعدہ اعلان ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پرطرح طرح کے سوالات کئے جانے لگے تھے۔ ہندوستانیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ آخر حکومت کو یہ ہو کیا گیا ہے کہ وہ عوام کی صحت کے تئیں اچانک فکر مند نظر آنے لگی ہے۔  وطن عزیز جہاں دھڑلے سے شراب، گٹکھا ، تمباکو اور دیگر نشیلی اشیاء  فروخت ہورہی ہیں،جس میں مضر اثرات کی موجودگی پر کسی کو شبہ نہیں ہے، وہاں’ میگی‘ کے تعلق سے اتنی چھان بین کیوں ہورہی ہے؟
    وطن عزیز جہاں  راشن کے نام پر سڑے گیہوں تقسیم کئے جاتے ہوں، مڈ ڈے میل کے نام پر طلبہ کو باسی کھچڑیاں کھلائی جاتی ہوں،  پینے کیلئے گھروں میں گندہ پانی سپلائی کیا جاتا ہو اور اسکولوںکی کمی کی وجہ سے بچوں کی ایک  بڑی تعداد حصول تعلیم سےمحروم ہو، وہاں اگر ’میگی‘ کا معیار جانچا جانے لگے تو شبہ ہونا لازمی تھا۔فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی آف انڈیا کی جانب سے اس طرح کی جانچ معمول کی بات ہوتی ہے مگریہ جس قدر شور شرابے سے ہوا، اس کی وجہ سے اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا لازمی تھا۔
     حیرت اس لئے بھی ہوئی کہ ’اچھے دنوں‘ کاوعدہ کرکےاقتدار  میں آنےوالی اس حکومت نے  عوام کیلئے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن اس کے وزیروں نے ایک  ہی سال میں شاہ خرچی کا وہ مظاہرہ کیا  کہ سابقہ حکومت کے وزیر ۱۰؍ سال میں بھی نہیں کرسکے تھے۔ ایسی حکومت کو اچانک عوام کی صحت کی فکر کیوں لاحق ہوگئی؟ بہرحال جلد ہی رام دیو کی میگی نے یہ معمہ حل کردیا
Shab e Barat aur dheenga mushti
شب ِ برأت اور دھینگا مشتی
کیا یہ باعثِ شرم اور افسوس کی بات نہیں کہ شبِ برأت کی آمد کے ساتھ ہی پو لیس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہیں سیکوریٹی بڑھانے نیز نظم و نسق کی بحالی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔کیا ہم اُن چند سرپھرے نوجوانوں کو نہیں روک سکتے جن کی وجہ سے پوری قوم کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کر اور دیکھ کر کہ یہ تمام نوجوان اپنی پوری’مسلمانی‘ شناخت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جنہیں  پولیس شرپسند کہہ کر پکارتی ہے۔ یہ نماز روزے کی پابندی کرنے والے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ صرف کُرتے ٹوپی  پہنتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری ’مسلمانیت‘ اسی میں ہے۔  ان بیچاروں کو  یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اور ایک مسلم نوجوان کی حیثیت سے اُن کی کیا جواب دہی ہے۔
    یہ رات میں بائک  دوڑاتے ہیں ، بے مقصد دوڑاتے ہیں اور خوب تیز دوڑاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ان پر کم،ان کے والدین اوران کے محلوں کے بڑے بزرگوں پر زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ کیا ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنے لخت جگر کو بیہودگیوںسے باز رکھیں۔ اپنا نہیں تو کم از کم اپنی قوم کا خیال رکھیں کہ ان کی وجہ سے پوری قوم  بدنام ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بچوں پر ان کا کنڑول نہیں ہوتا ،  سچ تو  یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ان حرکتوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  یہ سب جانتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی کمائی  پر نہیں بلکہ ’جیب خرچ ‘کے بل بوتے پر یہ خرمستیاں کرتے ہیں۔ اسلئے تمام تر جواب دہی والدین پر ہی عائد ہوتی ہے۔
    ان شرپسندوں پر قابو پانے کیلئے محلے کے بڑے بزرگوںکو بھی  اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔  یہ کہہ کر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ وہ اپنے باپ کی بات نہیں سنتے تو ہماری کیا سنیںگے؟ اس طرح کی حرکتیں کون لوگ کرتے ہیں، محلے کے افراد ان سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی بدمعاشیوں سے صرف ان  بچوں کی شبیہ خراب نہیں ہوتی بلکہ وہ محلہ بھی بدنام ہوتا ہے اوراخیر میں پوری قوم پر تان ٹوٹتی ہے کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ان کے والدین پر انہیں دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو قابو میں رکھیں۔
    مسلمانوں کی اپنی علاحدہ شناخت ہر زمانے میں رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم  اچھے کردار کیلئے جانے پہچانے جاتے تھے لیکن آج برے کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔ وہ دن گئے جب ہماری  پہچان کاروبار میں ایمانداری،لین دین میںپاسداری، دیانتداری، اخلاقیات کا پاس رکھنے والے،والدین کی خدمت کرنیوالے، بڑے بزرگوں کی عزت کرنیوالے، صاف صفائی رکھنے والے، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کرنیوالے، عبادت گزار اور  ہر کسی کا لحاظ کرنیوالے افراد کی شکل میں ہوتی تھی۔افسوس کہ آج ہماری شناخت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ افسوس یہ کہ ہم اپنی اس   خراب شبیہ کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں؟
Naseehat aasan, amal mushkil
نصیحت آسان، عمل مشکل
دوسروں کو نصیحت کرنا جتناآسان ہوتا ہے، اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اس پر خود عمل کرنا۔ ہمارے یہاں یہی ایک چیز تو ہے جو مفت فراہم کی جاتی ہے اور نہایت فراخ دلی سے کی جاتی ہے۔ نصیحت کرنا برا نہیں ہے مگر یہ انہیںقطعی زیب نہیں دیتا جو خود اس پر عمل نہ کرتے ہوں۔
     صورتحال یہ ہے کہ ہم پوری دنیا کے درد میںشریک ہوتے ہیں لیکن اپنے آس پاس نہیں دیکھتے۔ ہمیں روہنگیائی مسلمانوں کا غم ستا رہا ہے، ہمیں فلسطینیوں کی تکالیف بھی سمجھ میں آتی ہیں۔ شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا اور اس طرح ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور پریشان حال ہیں، انہیں دیکھ کر ہم بھی نوحہ   کرتے ہیں۔ہم نہ صرف ان کی پریشانیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انہیں لعن طعن بھی کرتے ہیں جو اِ ن مسلم بھائیوں کی پریشانیوںکا سبب بنتے ہیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہم میں سے بعض تو اس قدر ’جذباتی‘ ہو اُٹھتے ہیں کہ مسلم ممالک کے خلاف  دھواں دھار تقریریں بھی کرتے ہیں کہ وہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟  کیوں نہیںاسرائیل اور امریکہ کی اینٹ سے اینٹ  بجا دیتے؟ اور پھر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں گے؟  وہ سب تو کافر وںاور یہودیوں کے ایجنٹ  ہیں لیکن  ہم میں سے بیشتراپنے عمل کا جائزہ  لینا ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور یہ کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم پر یہ الزام سچ  ہی ہے کہ ہم پوری دنیا میںاسلامی حکومت چاہتے ہیں لیکن خود پر اسلامی قانون کا نفاذ نہیں چاہتے۔
    گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست نے وہاٹس ایپ پر ایک میسیج بھیجا۔یہ پیغام ہمارے سماج کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔  وہ میسیج آپ بھی ملاحظہ کرلیں۔ ’’ گزشتہ دنوں  دوران ِگفتگو میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور بین الاقوامی سیاستدانوں کی پالیسی اور  بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے ایک صاحب کافی آنسو بہا رہے تھے۔ آج انہی صاحب کا فون آیا تو کسی اولڈ ایج ہوم کا پتہ پوچھ رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ’اماں کی روزانہ کی پک پک  سے عاجزآ گیا ہوں۔ سوچتا ہوں انہیں کسی اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آؤں تو کچھ راحت ملے۔‘  میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جو شخص اپنی ماں کو  اپنے گھر میں برداشت نہیں کرپارہا ہے، اسے کیا حق ہے کہ وہ روہنگیا  ئی مسلمانوں کے تعلق سے ملائیشیا اوردیگر ملکوں پر تنقید کرتا پھرے کہ وہ انہیں پناہ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
    یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ ہمارا سماج  اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لوگ خود اچھا بننے کی کوشش نہیں کرتے لیکن دوسروں کو اچھا بنانا چاہتے ہیں اور نہ بننے پر تنقید بھی کرتے ہیں۔  بات اخلاقیات کی ہو یا معاملات کی، ہماری انگلیاں ہمیشہ دوسروں کی جانب   ہی اٹھتی ہیں مگر ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ذراسا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کسی پر تنقید کرتے وقت ہم اگر صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ اس کی جگہ پر ہم ہوتے تو کیا کرتے تو شاید ہماری کچھ اصلاح  ہوسکے۔
Bhiwandi railway Station
بھیونڈی ریلوے اسٹیشن
عام طور پر ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ آس پاس ہی ہوتے ہیں تاکہ بس سے اتر کر مسافر ٹرین کا سفر کرسکیں اور ٹرین سے اتر کر بس کے ذریعہ ان جگہوں پر پہنچ سکیں جہاں تک ٹرین کی رسائی نہیں ہے  لیکن۱۵؍ لاکھ سے زائد کی آبادی والے شہر بھیونڈی میں ایسا نہیں ہے۔یہاں  ایس ٹی اسٹینڈ سے ریلوے اسٹیشن  کے درمیان ۳؍ تا۴؍ کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ کسی بھی شہر کی ترقی میں ریلوے اسٹیشن کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے لیکن بھیونڈی کو اس کاکچھ فائدہ  ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔   سچ تو یہ ہے کہ یہاں کی ایک بڑی آبادی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ اس کے شہر میں ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔
    عروس البلاد ممبئی سے بھیونڈی کا صرف کاروباری تعلق نہیں ہے بلکہ سماجی، سیاسی اور تعلیمی بھی ہے ۔ اس کی وجہ سے روزانہ ہزاروں افراد بھیونڈی سے ممبئی کا سفر کرتے ہیںلیکن  زیادہ تر بس کے ذریعہ تھانے یا کلیان جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ممبئی کا رخ کرتے ہیں۔ بھیونڈی ریلوے اسٹیشن پر اگر تھوڑی سی توجہ دے دی جائے تو شہر میں ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔  اسٹیشن کو مفید بنانے اور شہریوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر یوں تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن ترجیحی بنیاد پر اگر۲؍ امور پر توجہ دی دے جائے تو شہریوں کوفوری طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔  
    اس وقت دہانو پنویل  روٹ پر صبح پانچ بج کر ۵۱؍ منٹ سے رات ۷؍ بج کر۴۹؍ منٹ تک چلنےوالی ۱۴؍ ایسی ٹرینیں ہیں جو بھیونڈی اسٹیشن سے ہوکر گزرتی ہیں   اور یہاں رکتی ہیں۔ اسٹیشن سے شہر کے اندر جانے کیلئے تمام تر پریشانیوں کے باوجود وسئی ، بوریولی اور میرا روڈ سے لے کر پنویل ، تلوجہ اور ڈومبیولی کے ہزاروں مسافر روزانہ  یہاں اُترتے ہیں۔
    اسٹیشن کو بھیونڈی والوں کیلئے کار آمد بنانے کی سمت پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ بس ڈپو سے اسٹیشن کیلئے ایک بس سروس کا آغاز کیا جائے جو ریلوے کے ٹائم ٹیبل کی مناسبت سے چلے ۔ یہ بس مسافروں کو اسٹیشن سے شہر تک اور شہر سے اسٹیشن تک پہنچائے۔   یہ بہت مشکل کام نہیں ہے اور نہ ہی اس کیلئے حکومت کو بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایس ٹی ڈپارٹمنٹ سے اگر بات نہیں بنے تو اس کام کا آغاز کارپوریشن بھی  کرسکتا ہے۔  مسافروں کیلئے رکشا کافی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ ایس ٹی سے اسٹیشن پہنچنے کیلئے تین مسافروں کو ۹۰؍ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کتنا مہنگا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وسئی سے آنے والے کچھ مسافر بھیونڈی میں اترنے کے بجائے کلیان جاتے ہیں،  پھروہاں سے بھیونڈی آتے ہیں ۔
    دوسرا کام یہ ہے کہ ٹرین کی فریکوینسی بڑھائی جائے تاکہ ممبئی کا سفر کرنےوالے تھانے اور کلیان کے بجائے بھیونڈی اسٹیشن سے استفادہ کرسکیں۔کیا ہمارے  سیاستداں اور سماجی کارکنان اس سمت غور کریںگے؟
Shadi aur barat
شادی اور بارات
شادیوںکا سیزن چل رہا ہے۔ اس سیزن میں باراتیوں کی خوب دھوم ہوتی ہے۔  بارات جانے والوں میں سے بیشتر ایسے ہیں جواُس دن اپنا مزاج تبدیل کرلینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ گھر میں کچھ بھی اور کیسا بھی کھاتے ہوں لیکن بارات کے کھانے میں عیب نکالنا فرض عین تصور کرتے ہیں۔ وہ صرف کھانا ہی نہیں کھاتے بلکہ کھانا کھانے سے زیادہ میزبان پر رعب جماتے ہیں۔ یہ کم ہے، وہ کم ہے،  یہ چیز اچھی نہیں ہے، وہ اچھی نہیں ہے،  بوٹی اچھی نہیں ہے،سالن پتلا ہے، چاول موٹا ہے، روٹی سوکھ گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔  وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کل اُن کے یہاں یا ان کے کسی عزیز کے یہاں بھی بارات آئے گی اور تب اُن کی جگہ کچھ دوسرے لوگ بالکل اسی طرح اُن کے سینے پر مونگ دَلیںگے، جس طرح وہ آج دَل رہے ہیںلیکن وہ ایسا نہیں سوچتے کیونکہ انہیں اپنا کوئی عمل برا نہیں لگتا۔
      افسوس کی بات ہے کہ لڑکے والےلڑکی والوں سے اجازت نہیں لیتے بلکہ حکم دیتے ہیں کہ ہم  ۲۰۰؍ یا ۳۰۰؍ افراد آئیںگے۔ بعض تو اتنے بے غیرت ہوتے ہیںکہ بارات میں ۵۰۰؍ افراد کو لے کر جاتے ہیں لیکن اپنے یہاں ولیمہ میں دو ڈھائی سو افراد  ہی کو دعوت دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ولیمہ بہت شان و شوکت سے کیا جائے اور بہت بڑی دعوت کی جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے مہمانوں کو خود کھلانے کی طاقت نہ ہو تو دوسرے کے سر منڈھ دیا جائے۔   یہ ہمارے سماج کا کمزور پہلو ہے کہ شادی  کے اس پورے عمل میں لڑکی والے شروع ہی سے دباؤ میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چوں چراں نہیں کرپاتے۔ لڑکے والوں کی شرائط کو تسلیم کرلینا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔
    گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں لڑکے والوں نے لڑکی والوں سے ’استدعا‘ کی تھی کہ شادی جب بھی ہو، وہ پیر کا دن ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس مارکیٹ میں اس کی دکان ہے، وہ پیر کو بند رہتی ہے۔اس کی یہ ’درخواست‘ اسلئے تھی کہ اس کی مارکیٹ کے تمام افراد اس کی شادی میں شریک ہوسکیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ولیمہ پیر کو کرتے لیکن اس صورت میں خرچ کا بار اُن کی جیب پر آتا۔
    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا یہ بے غیرتی صرف اُن کی ہے، جو بارات لے کر جاتے ہیں؟ کیا ان کی کوئی غلطی نہیں ہے جو بارات میں شریک ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کی دعوت میں جانا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کوئی اپنے گھر کھلانے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر جاکر کھانے کی دعوت دے تو اسے کیوں قبول کیا جائے؟ کیا ہم میں اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ کر ایسی دعوتوں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کرسکیں کہ بھائی، جب آپ کو اپنے یہاں کھلانے کی طاقت ہو جائے گی تو آپ ضرور دعوت د یجئے گا، ہم ضرور حاضر ہوں گے لیکن برائے مہربانی حلوائی کی دکان پر   دادا جی کا فاتحہ نہ کیجئے۔
Trainon men choriyan
 ٹرینوں میں چوریاں
گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے ان دنوں طویل مسافتی ٹرینوں میں کافی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے۔ جنرل بوگیوں کی بات جانے دیں، سلیپر کلاس اور تھرڈ اے سی میں بھی ویٹنگ لسٹ والے مسافروں کی کثرت ہوتی ہے۔ بھیڑ بھاڑ کے حوالے سے شمالی ہند کی ٹرینیںپہلے ہی سے بدنام ہیں لیکن اس وقت جنوبی ہند کی ٹرینوں میں بھی نشستوں کے مقابلے مسافروں کی تعداد دُگنی ہوتی ہے۔  ایک وقت تھا جب بھیڑ کی وجہ سے چوریاں کم ہوتی تھیں لیکن آج کے چور اسی بھیڑ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔  اس کی ۲؍ اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ ٹرین میں سیکوریٹی کے نام پر کچھ بھی انتظام نہیں ہوتا۔  اس سلسلے میں تمام وزیر برائے ریلویز صرف بڑی بڑی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں، سریش پربھو بھی اپنے سابقہ پیش روؤں کی تقلید کررہے ہیں۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ ارباب اقتدار کی نظر میں راجدھانی ، شتابدی اور دورنتو کے علاوہ دیگر ٹرینوں کے مسافروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ان کی نظر کرم فرسٹ اے سی سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔   ایک دو حوالدار پوری ٹرین میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کے آنے سے مسافروں کو راحت کم، خوف زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ریلوے میں تعینات بیشتر حوالداروں کی توجہ مسافروں کی سیکوریٹی پر کم، اپنی ’اوپر‘ کی آمدنی پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے چوروں کے حوصلے کافی بلند رہتے ہیں۔مسافروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ چوروں سے ان کی سانٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔چوری کی دوسری بڑی وجہ ٹکٹ حاصل کرلینے  والے مسافروں کی رعونت ہوتی ہے۔   ۲۰؍ سے ۴۰؍ گھنٹے تک ایک ساتھ سفر کرنے والے مسافروں میں اتنی تلخی ہوتی ہے کہ سیزن کے دنوں میں ٹکٹ حاصل کرلینے والےمسافر دوسرے مسافروں کو اپنی سیٹ پر بیٹھنے تک کی اجازت نہیں دیتےجس کی وجہ سے چوری کرنے والوں کو بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔
    گزشتہ دنوں حیدرآباد سے ممبئی کی واپسی پر  گلبرگہ سے رات میں ڈیڑھ بجے ٹرین آگے بڑھی تو سیٹ حاصل کرلینے والے مسافروں میں سے بیشتر کے خراٹے گونجنے لگے۔ ایسے میں دو تین مشتبہ چور بوگی میں گھومتے دیکھے گئے لیکن اس بات کا پتہ بعد میں چلا کہ کچھ لوگوں نے انہیں گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔ شولا پور پہنچنے سے قبل ایک جگہ ٹرین رکی تو چور کا ایک ساتھی  دروازہ کھول کر گیٹ پر کھڑا ہوگیا اور پھر جیسے ہی ٹرین  آگے بڑھی، وہاں سیٹ نمبر ایک اور ۸؍ پر بے خبر سونے والے مسافروں کے بیگ لے کر اس کے دونوں ساتھی ٹرین سے کود گئے۔ پھر شور شرابہ ہوا لیکن تب تک ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی۔ بے خبر سونے والے مسافر اگر اپنی سیٹوں پر تھوڑی سی جگہ کی گنجائش نکال لیتے تو گیلری میں بیٹھے مسافر نہ صرف ان کے ممنون رہتے بلکہ رات بھر ان کے سامان کی نگرانی بھی کرتے  ۔کیا یہ نہیں ہوسکتا؟
Sadak par namaz aur ijtema
سڑک پر نماز اوراجتماع
بعض جگہوں پر سڑک پر نماز کی ادائیگی مجبوری ہوتی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں مصلیان کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے کچھ صفیں باہر تک آجاتی ہیں۔ چونکہ یہ مجبوری میں ہوتا ہے،اسلئے اسے حکومتیںبھی محسوس کرتی ہیں اور انتظامیہ بھی سمجھتا  ہے لہٰذا مساجد کے باہر سیکوریٹی کا خاصا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔انتظامیہ تو ہماری مجبوری سمجھتا ہے شاید ہم نہیں سمجھتے۔  ایسی بیشتر مسجدوں  کے باہر سڑک پر ہمیں جمعہ کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں   لوگ اسے مجبوری نہیںبلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور بات جب حق کی آتی ہے تو ہم کسی قسم کی رعایت کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ 
      نماز ہم اپنے لئے پڑھتے ہیں لیکن اپنے لہجے اور  اپنی گفتگو سے ظاہرکرتے ہیں کہ اس عمل کے ذریعہ ہم کسی اور پر احسان کررہے ہیں۔ چونکہ ہم احسان کر رہے ہوتے ہیں اسلئے ہمیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ  اس کی وجہ  سے کچھ لوگوں کو پریشانیوں کابھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ہم جہاں اکثر جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں،  ڈیڑھ بجے کی  جماعت ہوتی ہے لیکن وہاں ایک بجے ہی سے سڑک پر چٹائیاں بچھا ئی جانے لگتی ہیں، جبکہ وہ بہت ہی مصروف سڑک ہے۔ مسجد خالی رہتی ہے لیکن مصلیان باہر ہی بیٹھنے کوترجیح دیتے ہیں بلکہ بیشتر ’نمازی‘ سڑک کی دوسری جانب گفتگو میں مصروف رہتے ہیں، جماعت کھڑی ہونے ہی پر وہ اُن چٹائیوں پر قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ اس درمیان بیچارے امام صاحب گڑگڑاتے ہوئے بار بار مصلیان سے  اپیل کرتے ہیں کہ وہ اندر کی صفیں پوری کرلیں لیکن وہ خالی ہی رہتی ہیں۔ نماز کے بعد اور دعا سے قبل امام صاحب کئی ’اہم‘ تفصیلی اعلانات فرماتے ہیں اور تب تک سڑک پوری طرح سے جام رہتی ہے۔ حالانکہ اگرہم سڑکوں پر چٹائیاں تھوڑی دیربعد بچھائیں تو عوام کی پریشانیاں کچھ حد تک کم سکتے ہیں۔
     اسی طرح سڑکوں پر اجتماعات کا انعقاد بھی ہوتا ہے جس کا مقصد غالباً  اسلامی تعلیمات کو عام کرنا  ہوتا ہے۔ ان اجتماعات کیلئے کہیں سڑک کاایک حصہ بند کیاجاتا ہے تو کہیں کہیں  پوری سڑک بند کردی جاتی ہے۔ اتوار کو ہمارا سابقہ ایسے ہی ایک اجتماع سےپڑا جہاں دونوں جانب سے سڑک بند کردی گئی تھی۔ دونوں جانب نوجوان مجاہد تعینات تھے جو اشاروں سے آنے والوں کو بتارہے تھے کہ آگے راستہ بند کردیا گیا ہے، ان کا انداز بھی وہی ’حق‘ والا تھا ۔ اول تو یہ کہ راستہ بند ہی نہیں کیا جانا چاہئے تھا لیکن اگر کیا بھی تھا تو  اتنا اخلاقی مظاہرہ ضرور کیاجانا چاہئے تھا کہ وہاں تعینات افراد مسافروں کی رہنمائی کرتے کہ بھائی یہاں سے راستہ بند ہے، آپ اُس طرف سے چلے جائیں لیکن  ایسا ہم کیوں کریں یہ تو ہمارا حق ہے؟
     کاش!ہم مساجد میں بھیڑ جمع کرنے کے بجائے لوگوں کو مسلمان بنا پاتے اور طاقت کے مظاہرے کے بجائے اسلامی تعلیمات کو عام کرپاتے ۔
Ghosht k beghair
گوشت کے بغیر....
 ووٹ بینک کےمدنظرمہاراشٹرسرکار نے بڑے کے گوشت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ پریشان ہیں ، جن میں سب سے زیادہ متاثربڑے کےگوشت کے شوقین لگتے ہیں۔بعض بوکھلائے بوکھلائے پھرتے ہیں تو بعض تسکین کی خاطر چکن کے قیمے، کباب، سیخ اور بغیر گوشت کے دالچہ  کھانے لگے ہیں۔بلاشبہ ریاستی سرکار کا یہ فیصلہ غلط ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ گوشت کھانے یا نہ کھانے کا فیصلہ کرنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے لہٰذا اس پر پابندی عائدکئے جانے کو اس کے بنیادی حقوق پر حملہ تو سمجھاجا سکتا ہے لیکن اسے انسان کی بنیادی ضرورت قطعی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اُس  وقت یہ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ اسے انسان کی   بنیادی ضرورت قرار دینے پرآمادہ نظر آتے ہیں اور اسے ناگزیر بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے کے گوشت کے بغیر کیا ہوگا؟
     حکومت کو یہ فیصلہ کرنا تھا، سو اُس نے کرلیا۔ جو لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا اور کچھ دنوں میں پہلے کی طرح پھر انہیں بڑے کا گوشت ملنے لگےگا، وہ خواب و خیال کی دنیا سے باہر آجائیں۔ یہ کوئی سیاسی بیان ، انتخابی منشور  یا محض کابینی فیصلہ نہیں ہے۔ آر ڈی ننس بھی نہیں ہے بلکہ یہ قانون بن چکا ہے۔ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کیلئے باقاعدہ قانون بنانے کی ضرورت پڑے گی جو موجودہ حالات میں ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اُمید بھری نگاہوںسے کانگریس کی جانب دیکھ رہا ہے کہ اُس کی سرکار آئے گی تو ’سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘ اسے شاید یہ نہیں معلوم یہ سب کانگریس ہی کا کیا دھرا ہے۔ بی جے پی کے اس دعوے میں بڑی حد تک سچائی ہے کہ یہ قانون تو کانگریس ہی کا بنایا ہوا ہے، ہم نے صرف اس کا نفاذ کیا ہے۔اب جبکہ یہ قانون بن چکا ہے، بڑے کے گوشت پر پابندی لگ چکی ہے تو ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ہمارا خیال ہے کہ ہمیں کچھ دن صبر کرنا چاہئے۔ ہم نے یہی بات ایک صاحب سے کہی تو انہوں نے سوال کیا کہ کچھ دن صبر کا کیا مطلب؟ کیااس کے بعد یہ پابندی اٹھا لی جائےگی؟ ہم نے کہا نہیں بھائی!اس کے بعد ہمیں اس کے بغیر کھانا کھانے کی عادت پڑجائے گی۔
    اول تو یہ کہ بڑے کا گوشت کھانا بہت ضروری نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اگر گوشت کھانا ہی ہے تو ہمارے پاس بکرے اور مرغ کے گوشت کے متبادل بھی موجود ہیں اور سوم یہ کہ کچھ ہی دنوں میں بھینس کا گوشت بھی ملنے لگےگا۔ ایسے میں  بیل کے گوشت کیلئے اصرار کرنا اور محض زبان کے چٹخارے کیلئے اپنے ساتھ کچھ اور لوگوں کی جان جوکھم میں ڈالنا قطعی مناسب نہیں؟ مالیگاؤں  میںگزشتہ دنوں غیر قانونی ذبیحے کا جو معاملہ پیش آیا ، وہ یقیناً  افسوس کی بات ہے، ہمیں ان حالات سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
Doctors aur samaj
 ڈاکٹرس اور سماج
ڈاکٹرس کو ہمارے سماج میں مسیحا کہا جاتا ہے۔ مسیحا کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو نئی زندگی عطا کر دے یا کسی بیمار کو صحت مند بنادے بلکہ وہ مریضوں کاعلاج کرتےہیں اور انہیں صحت مند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ڈاکٹر کے محض شفقت بھرا ہاتھ لگا دینے اور ان کے دو میٹھے بول بول دینے ہی سے مریض آدھا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ آج کے پیشہ ور ڈاکٹروں  سے اس بات کی امید کم ہی کی جاتی ہے۔  وہ ڈاکٹر س جنہیں  ہم ’چھوٹا‘ سمجھتے ہیں، وہ تو اس پر عمل کرتے ہیں لیکن’بڑے‘ڈاکٹرس مریضوں کو منہ لگانا پسند نہیں کرتے۔  ہمدردی کے دو بول کی بات تو جانے دیں، وہ مریضوں کو گاہک سمجھ کر دکاندار کی طرح بھی بات نہیں کرتے۔
    اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عموماً سماجی نہیں ہوتے، اس لئے سماج کے آداب سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ دولت  ہونےکی وجہ سے انہیں  سماج میں بلند ’مرتبہ‘ضرور حاصل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے یہاں شادیوں اور دیگر تقریبات میں کافی بھیڑ بھاڑ رہتی ہے لیکن ان کی حقیقی مقبولیت کا بھرم اُس وقت کھلتا ہے جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔  اس کے برعکس وہ ڈاکٹرس جو سماج میں اٹھتے بیٹھے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں،ہر سطح پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔  عام لوگ جب ان مسیحوں کو اپنے ساتھ دیکھتے ہیں تو انہیں اچھالگتا ہے اور وہ دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ حبس زدہ ماحول میں انہیں ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بات اکثر محسوس کی گئی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جب یہ ڈاکٹرس تشریف لاتے ہیں تو لوگ ان کیلئے اپنی نشستیں خالی کردیتے ہیں۔
     اتوارکو بھیونڈی میںایسا ہی ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا محسوس ہوا جب دھوبی تالاب اسٹیڈیم میں ڈاکٹرس کے ایک کرکٹ ٹورنا منٹ کاانعقاد عمل میں آیا۔اس میں کم و بیش ۱۷۰؍ ڈاکٹر بطور کھلاڑی شریک تھے جبکہ مہمان، منتظمین اور ناظرین کے طور پر بھی ۵۰؍ سے زائد ڈاکٹرس موجود رہے ہوںگے۔ان ڈاکٹروں کو دیکھنے کیلئے وہاں عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ یقیناً ان میں سے ایک بڑی تعداد کرکٹ کی شوقین رہی ہوگی لیکن بیشتر ایسے تھے جو صرف ان مسیحوں کوکھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔  ان کی دلچسپی کاا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سخت دھوپ کے باوجود وہ  دن بھر اسٹیڈیم میں بیٹھے رہے،  ان کے چوکوں چھکوں سے لطف  اندوز ہوتے رہے اور ان کی پزیرائی کرتے رہے۔
    اس مقابلے میں تھانے ضلع سےتعلق رکھنے والی ڈاکٹروں کی ۱۲؍ ٹیمیں شامل تھیں۔ تالیوں کی گونج میں جب یہ کھلاڑی انعام لے رہے تھے تو دل کہہ رہا تھا کہ کاش! یہ منظر وہ ڈاکٹرس بھی دیکھتے جو اپنے ایئر کنڈیشنڈ ’شفاخانوں‘سے اپنے گھر کے درمیان قید رہتے ہیںیا باہر نکلتے بھی ہیں تو کسی ہل اسٹیشن پرقیام کرتے ہیں ۔
Pani bachaaiye
پانی بچائیے!

انسانی زندگی کیلئے پانی ایک لازمی جز ہے۔ہم سب کو پانی کی قلت کا زیادہ سامنا نہیں ہے، شاید اسی لئے اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی نہیں ہے لیکن  وطن عزیز ہی کے بعض حصوں میں پانی کا شدیدبحران  ہے، ایک ایک بوند پانی کیلئے لوگ ترستے ہیں۔  پینے کیلئے پانی حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر تک کا سفر کرنا پڑتاہے۔ بعض جگہوں پر اس کیلئے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور اسی ملک کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی پانی میسر نہیں ہے۔
    ہم ممبئی اور اطراف کے شہری بھی اپریل اور مئی کے مہینوں میں  پانی کی سپلائی میں کٹوتی سے پریشانی اٹھاتےہیں ۔جون کے مہینے میں  بارش میں ذر ا تاخیر ہوئی تو ہاہاکار مچنے لگتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال ہی    اس طرح کی صورتحال سامنے آئی تھی ، ایسا کہا جانے لگا تھا کہ اگر دو ہفتے مزید بارش نہ ہوئی تو پانی کا ذخیرہ ختم ہوجائے گا۔ ذخیرہ ختم ہونے کا مطلب ممبئی اور مضافات کے ۲؍ کروڑ سے زائد شہریوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہوگا۔ خدا نہ کرے کہ ایسا کبھی نہ ہو اور  ماضی قریب میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں لیکن اس پر غور ضرور کیا جانا چاہئے کہ خدانخواستہ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟   پا نی کے بغیرممبئی اور اہل ممبئی کا کیاہوگا؟
     اس پر غور کرنے کی ضرورت اس لئے پڑرہی ہے کہ ان حالات میں جبکہ شہر اور مضافات میں ایک جانب جہاں پانی کی کٹوتی کا آغاز ہوچکا ہے اوران خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر جون کے آغاز ہی میں بارش نہیں ہوئی تو شہریوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،  وہیں دوسری جانب بہت ساری جگہوں پر پانی کا بیجا استعمال ہورہا ہے بلکہ بعض مقامات پر بلاسبب پانی ضائع کیا جارہا ہے۔
     ہم  چالیوں میںاکثر دیکھتے ہیں کہ خواتین کپڑا دھونے بیٹھتی ہیں تو نل کھلا ہی چھوڑ دیتی ہیں۔  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی قطعی پروا نہیں  ہے کہ پانی ضائع ہورہا ہے۔ انہیں کپڑے دھونے میں ایک گھنٹے لگیں یا دو گھنٹے، نل یوں ہی رواں دواں رہتا ہے۔ خواتین کا گروپ ہو تو پھرخدا خیر کرے، دو گھنٹے کا کام تین گھنٹے میں بھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی جو کام ۱۵؍ سے ۲۰؍ لیٹر میں ہوسکتا تھا، اس کیلئے ۸۰؍ سے ۱۰۰؍ لیٹر پانی ضائع کیا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ کہ اس پر افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا بلکہ اس موضوع پر سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔
    ویسے نلوں کو کھلا چھوڑ کر کپڑے دھونےوالی خواتین کبھی کبھار  تنقیدوں کا نشانہ بھی بنتی رہی ہیں لیکن بڑے گھروں میں رہنےوالے اُن ’سیٹھوں‘ کو کوئی کچھ نہیں کہتا جن کی یہ سوچ رہتی ہے کہ پانی کا سالانہ بل ادا کرنے کے بعد ہم جتنا چاہیں پانی خرچ کریں۔ ہمارے سماج میں ایسی سوچ رکھنےوالوں کی کثرت  ہے اور یہ سوچ بلا سبب کہیں زیادہ پانی خرچ کرواتی  ہے ۔
Taameer e Akhlaaq
تعمیر اخلاق
وطن عزیز میںمسلمانوں کی یہ شکایت عام ہے کہ ایک بڑا طبقہ ان سے تعصب اور کہیں کہیں نفرت کرتا ہے۔ اس شکایت میں جزوی سچائی ہوسکتی ہے لیکن یہ مکمل سچ قطعی نہیں ہے۔  اس طرح کی صورتحال کا اگر ہمیں کہیں سامنا ہے بھی تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔    یہ بات ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کی زور پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے اخلاق سے پھیلا ہے۔  اس دور کےمسلمان اپنے اخلاق کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ، جن سے متاثر ہوکر لوگ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔ آج صورتحال بالکل معکوس نوعیت کی ہے۔ آج بھی ہم اپنے اخلاق ہی کی وجہ سے پہنچانے جاتے ہیں مگر  اخلاق حسنہ اور اخلاق فاضلہ کے سبب نہیں بلکہ اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے۔ ہمارےمحلے گندے ہوتے ہیں، ہم لین دین میں کچے ہوتے ہیں اور کاروبار میںایمانداری اور شرافت کو خسارے کا سودا سمجھتے ہیں۔    جہاں چار نوجوان گالم گلوج کرتے نظر آئیں تو لوگ اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی ہوںگے۔ کوئی تیز بائیکر ہو یا  رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا کوئی چور ، لڑکیوں کو سر عام چھیڑنےوالا کوئی اوباش ہو یا اپنوں سے بڑوں سے اونچی آواز میں باتیں کرنے والا کوئی نوجوان، پہلی نظر میں لوگ یہی اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ مسلمان ہی ہوگا۔  وہ اخلاق جو ہماری شناخت ہوا کرتی تھی ، جس کی وجہ سے ہم دوسروں میں ممتاز تھے اور جو ہماری سب سے بڑی طاقت تھی،  اب ہمارے سماج سے وہی خوبی مفقود ہوگئی ہے۔ 
    ہمارے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ منجملہ پوری قوم اخلاق سے عاری ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہماری یہی شناخت ہے۔
    ان حالات میں ضرورت ہے کہ دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے ہم اپنی اصلاح کریں اور اپنے اخلاق کو ایک بارپھر اس بلندی تک لے جانے کی کوشش کریں کہ لوگ ہم سے نفرت نہیں محبت کریں اور ہمیں دور بھگانے کے بجائے اپنے پاس بٹھائیں۔
    تعمیر اخلاق نام کی ایک تنظیم کچھ انہی مقاصد کے پیش نظر گزشتہ ۴؍ سال سے بھیونڈی میں سرگرم ہے۔ اس کا دائرہ کار بہت محدود ہوتے ہوئے بھی بہت وسیع ہے۔اس تنظیم نے اخلاق کی تعمیر کیلئےاسکولوں کا انتخاب کیا اور پوری محنت پرائمری اور ہائی اسکولوں پر کررہی  ہے۔ طلبہ میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کیلئے اس تنظیم  نے ایک نصاب ترتیب دیا  ہےجس کا باقاعدہ تحریری اور زبانی امتحان لیا جاتا ہے۔ صرف چار سال میں اس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ گزشتہ دنوں اس کے تحریری مقابلے میں ۸۰؍ اسکولوں سے ۴۵۰۰؍ طلبہ اور زبانی مقابلے میں ۵؍ ہزار سے زائد بچوں نے حصہ لیا ؟
      یہ ایک بہت چھوٹی کوشش ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ کچھ ہی دنوں میں ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اور  دور رس نتائج برآمد ہوںگے۔
Gaadiyon ka Nasha
گاڑیوں کا نشہ

اپنےاطراف میں نظر دوڑاؤ تو ایسے شرفاء کی تعداد انگلیوں پر شمار کئے جانےاتنی ہی ہوگی جن پر دولت و امارت کا نشہ نہیں چڑھتا ورنہ بیشتر کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار ضروری سمجھتےہیں۔ بالخصوص دولت مندوں کا وہ طبقہ جو مہنگی گاڑیوں سے چلتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہوتی ہے جو پیدل چلنے والوں یااپنی سے چھوٹی گاڑی پر چلنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ راستہ نہ ملنےپرکبھی صرف گھور کردیکھنے پر اکتفا کرتے  ہیں تو کبھی کبھار  اپنی نفرت کا برملا  اظہار بھی کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں ہونےوالی ہنگامہ آرائی پر  صفائی پیش کرتے ہوئے اپنی  شرافت کی دلیل ہی یہی دی تھی کہ میں اتنی مہنگی گاڑی سے چلتا ہوں، میں بھلا اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہوں؟ اس بیان سے اس شخص کی رعونت جھلک رہی تھی۔
        افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم  دولت مندوں میں  یہ رعونت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ تنگ گلیوں میں جب وہ گاڑی لے کر نکلتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لال بتی کی گاڑیوں کی طرح، لوگ ان کی گاڑی کو نکل جانے دیں،انہیںدیکھ کرراہ گیر تتربتر ہوجائیںاور حیرت و استعجاب سے انہیں اور ان کی گاڑی کا نظارہ کریں۔ ایسا سوچنے والوںکی تعداد بہت مختصر ہی کیوں نہ ہو لیکن ان کی وجہ سے دو طبقوں کے درمیان نفرت کا ماحول آج بھی قائم ہے۔
     گزشتہ دنوں بھیونڈی کی ایک تنگ گلی میں ایسی ہی ایک بڑی گاڑی کی’ گھس پیٹھ ‘   سے بد مزگی پیدا ہوئی۔ اول تو یہ کہ راستہ تنگ ہے،  وہاں سے ایک وقت میں ایک ہی بڑی گاڑی گزر سکتی ہے۔ دوم یہ کہ اس راستے پرایک اسکول بھی قائم ہے، جہاں چھٹی کے وقت کافی بھیڑ ہوجاتی ہے۔  بڑی گاڑی کے آجانے سے وہاں کا ٹریفک نظام بری طرح سے درہم برہم ہوگیا۔ ایک طرف سے بچوں سے لدے پھندے رکشوں کی قطار تھی تو دوسری طرف بڑی گاڑی، درمیان میں بائک اور اسکوٹر کے ساتھ پیدل مسافروں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ معاملہ خراب نہ ہوگا اگر ’سیٹھ جی‘ اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے لے لیتے اور رکشوں کونکل جانے دیتے لیکن ایسا کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق یہ کام رکشے والوں کو کرنا تھا  لیکن  سچائی تویہ تھی کہ رکشوں کی اتنی طویل قطار تھی کہ ان کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد بڑی گاڑی کا بھی پیچھے ہٹنا دشوار ہوگیا۔ دونوں طرف سے راستہ  ایساجام ہوا کہ گھنٹوں تک وہاں سے کوئی نکل نہیں سکا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹریفک کی وجہ سے جز بز ہورہے تھے اور وہ موصوف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نہایت اطمینان سے ایف ایم پر گانے سن رہے تھے۔
    یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور  ان علاقوں میںضرور ہوتا ہے جہاں کی گلیاں تنگ ہوں اور چند مسلم نوجوانوں کے پاس  بڑی گاڑیاں ہوں۔ کیا اب  ہم انہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھیںگے؟
Kitabon k talabgaar
کتابوں کے طلبگار بہت ہیں
 
’اُدھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘کی طرز پر ایک زمانے تک’کتابیں مانگ کر نہ پڑھیں ‘لکھا جاتا رہا ہے۔  چند سال قبل تک بعض رسائل بھی یہ طنزیہ کہ فقرہ ’اردو کے اخبار اوررسائل خرید کر پڑھیں‘ تواتر کے ساتھ لکھتے رہے تھے لیکن اب دونوں باتیں یعنی مانگ کر نہ پڑھنے کی تنبیہ اور خرید کر پڑھنے کا ’مشورہ‘ عموماً نہیں دیا جاتاکیونکہ اب تومفت میں بھی پڑھنے  لالے پڑ گئے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پڑھنے کیلئے اگر کوئی صاحب کتاب مانگتے ہیں، تو بھی اچھا لگتا ہے۔
    مضامین جمع کرکے اسے کتابی شکل عطا کرنا اور اسے طباعت کے مرحلے سے گزار کر بحسن و خوبی گھر تک لانا، اب زیادہ مشکل نہیں رہا جتنا مشکل اسے پڑھنے والوں تک پہنچانا ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے تو یہ تک دیکھا ہے کہ کچھ لوگ مصنف کو یہ کہہ کر کتاب واپس کر دیتے ہیں کہ ’’بھئی پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے،کسی اور کو دے دینا۔‘‘  ان کا انداز تحقیر آمیز بھی ہوتا ہے، بالکل اسی طرح،جس طرح راستے میں چلتے ہوئے حکیموں کا وزیٹنگ کارڈ لینے سے ہم اور آپ انکار کرتے ہیں۔  ایسے وقت میں مصنف کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ وہ مسکراتا ضرور ہے لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے جو کرب   پوشیدہ ہوتا ہے،اسے وہ  فنکار ہی محسوس کرسکتا ہے جس کے فن کو غیر اہم بتاکر اسے سرِ عام رسوا کیا گیا ہو۔
     ان حالات میں جبکہ لوگ گھر پہنچا کر ملنے والی مفت کتابوں کو لیناگوارہ نہیں کرتے، اگر کہیں یہ دیکھنے میں آئے کہ کتاب کی اجرائی تقریب میں پورا ہال بھر جائے اور اردو والے کھڑے ہوکر صاحب کتاب کی حوصلہ افزائی کریں تو اچھا لگتا ہے، ایک قرار آتا ہے اور اطمینان ہوتا ہے کہ اردو سے محبت کرنے والوں کی آج بھی کمی نہیں ۔ اس وقت انہیں چیلنج کرنے کا دل کہتا ہے جو اُردو کے تئیں مایوسی کی باتیں کرتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں ، دیکھیںاور اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔
    گزشتہ دنوں بھیونڈی میں ۲؍ کتابوں کا اجراء ہوا اور دونوں تقریبات کے حوالے سے یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پہلی کتاب عزیز نبیل کی ادارت میں شائع ہونےوالی ’دستاویز‘ تھی جس میں انہوں نے اردو کے غیرمسلم شعرا ء کا مختصر تعارف اوران کے نمونۂ کلام کو یکجا کیا  ہے جبکہ دوسری کتاب رونق افروز کی تھی جس میںانہوں نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کو شامل کیا ہے۔ دونوں جگہ صاحب کتاب کی بھرپور پزیرائی ہوئی اوران کی کوششوں کو خوب سراہا گیا۔
      مذکورہ اجرائی تقریب سے دو ہفتے قبل بھیونڈی میں مزید ۲؍ کتابوں کی رونمائی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر محمود حسن  کے مضامین کامجموعہ’ مقالات محمود‘ اور محمد رفیع انصاری کے انشائیوں کا مجموعہ’غریب خانہ سجا رہا ہوں ‘کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ایک ماہ میں رونما ہونےوالی یہ چاروں تقریبات  سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اُردو کتابوں کے طلبگار آج بھی بہت ہیں، مایوسی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔