Tuesday 14 July 2015

شرم بھی نہیں آتی!

گزشتہ دنوں پونے سے ایک دوست نے صبح ہی صبح فون کیا اور اخبار میں شائع ہونےوالی ایک تصویر کی نشاندہی کرتے ہوئے سوال کیا کہ بھائی ان لوگوں کوشرم بھی آتی ہے کہ نہیں، اس طرح کی تصویریں چھپواتے ہوئے۔ تب تک ہم نے اخبار دیکھا نہیں تھا۔ ان کے لہجے میں غصہ تھا لیکن اس غصے میں بہت درد تھا کہ ہم کس پستی میں جارہے ہیں؟ ان کا فون آیا تو میں پوری طرح سے نیند میں تھا۔ صبح ۶؍ بجے سونےوالے کیلئے  دن کے ۱۱؍بجے کا وقت بھی بہرحال رات جیسا ہی رہتا ہے لیکن  ان سے ہونےوالی ایک دو منٹ کی گفتگو  کے بعد ہی نیند نے اپنا  بوریابستر لپیٹ لیا اور نودو گیارہ ہوگئی۔  ان سے بات چیت کرتے ہوئے ہم نے اخبار کا وہ صفحہ کھولا اور وہ تصویر دیکھی تو ہمیں بھی غصہ آیا۔  یہ تصویر غریبوں میں راشن کٹ کے تقسیم کے موقع کی تھی، جس میں تین چار مولانا قسم  کے لوگ ایک شخص کو راشن  کا پیکٹ دیتے ہوئے مسکرا کر پوز دے رہے تھے۔
    یہ تصویر تو محض ایک مثال ہے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اب  ہمارا ہر کام نمائشی ہوکر رہ گیا ہے، حتیٰ کہ ہم میں سے بیشتر عبادت کو بھی نمائشی انداز میں ادا کرتے ہیں۔ نمازیوںسے مسجد تو بھر ی ہوتی ہے لیکن ان میں سے کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو نماز کی طرح نماز ادا کرتے ہیں۔   خشوع خضوع کی بات جانے دیں، ارکان کی ادائیگی بھی ٹھیک سے نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں دینے لینے کی بات میں بھلا کیو ں کر نمائش نہیں ہوگی۔کتابوںاور بیاضوںکی تقسیم سے لے کر زکوٰۃ  و صدقات کی تقسیم تک میں پوری شوبازی کی جاتی ہے۔    ایسا لگتا ہے کہ انہیں ثواب سے زیادہ تشہیر کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کو رمضان تک موقوف رکھنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح سالانہ حساب کتاب ہوجاتا ہے لیکن رمضان میں بھی ۲۷؍ ویں شب میں تقسیم کرنے کا کیا مطلب؟ کیا یہ نمائش نہیں ہے کہ ان کے یہاں باقاعدہ قطار لگے اور پھر دیکھنے والے دیکھیں کہ فلاں سیٹھ کے یہاں زکوٰۃ کیلئے اتنی طویل قطار لگی تھی۔ اکثر زکوٰۃ و صدقات کیلئے آنے والوں کو ٹرخاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ۲۰؍ رمضان کے  بعد آنا۔ ۲۰؍ کے بعد ۲۵؍  اور پھر ۲۷؍ رمضان یا اس کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ انہیں دینا نہ پڑے، بلکہ اس کا مقصد صرف اپنے گھر اور دفتر کی بار بار زیارت کرانا ہوتا ہے اور دوسروں کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ ان کے یہاں کتنے سارے لوگ چندہ لینے آتے ہیں۔ کچھ تو چندہ جمع کرکے تقسیم کرتے ہیں اور وہ بھی بھرپور تشہیر کے ساتھ۔
    اس قسم کے افراد کودیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کیا ان کا تعلق اسی قوم سے ہے جسے  ہدایت دی گئی ہے کہ دائیں ہاتھ سے کسی کو کچھ  دو تو بائیں کو بھی خبر نہ ہو نے پائے۔ حالانکہ اسی سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس اصول پر پوری طرح سے عمل پیرا ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کاش! ہم سب اس پر عمل کرسکیں ۔

No comments:

Post a Comment