Wednesday 12 July 2017

Linching ..... Kya ab musalmanon ka qatl jurm nahi raha

کیا اب وطن عزیز میں مسلمانوں کا قتل جرم نہیں رہا؟
 اخلاق احمد کے قتل سے شروع ہونےوالا سلسلہ حافظجنید   کے بہیمانہ قتل تک آتے آتے  ملک میں ایک موضوع ضرور بنا لیکن  اس طرح کی وارداتوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کی وجہ ان قاتلوں کو میسر سیاسی  سرپرستی ہے۔ اس  سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ملک میں مسلمانوں کا قتل جرم نہیں رہا؟
قطب الدین شاہد 

پیٹ پیٹ کر قتل کئے جانے کی وارداتوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے لب کشائی ضرور کی لیکن ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ صرف خانہ پُری کر رہے ہیں، ان کا مقصد کسی کو متنبہ کرنانہیں  ہے ، ان کا مقصد ان وارداتوں کو روکنا نہیں ہے۔
    وزیراعظم اگر سنجیدہ ہوتے تو وہ میڈیا میں بیان بازی کرنے کے بجائے  اپنے کیڈر کی میٹنگ لیتے اور ان سے پوچھتے کہ ’’کیا یہی گئو رکشا ہے؟‘‘.... انہیں متنبہ کرتے کہ ’’بس اب بہت ہوچکا۔ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔‘‘ انہیں بتاتے کہ تمہاری ان کرتوتوں کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔
    وزیراعظم کے قول و فعل میں اگر تضاد نہ ہوتا تو وہ پولیس افسران کی میٹنگ لیتے  اور ملک بھر میں پھیلی انارکی اور خاطیوں کے آزاد گھومنے پر اُن کی سرزنش کرتے اور ان سے کہتے کہ’’ گائے کے نام پر انسانوں کومارنا قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ پولیس افسران کو آگاہ کرتے کہ نظم و نسق کی ذمہ داری اُن کی ہے۔وزیراعظم اگر ان وارداتوں کو  روکنا چاہتے تو اپنی پارٹی کے وزرائے اعلیٰ کو طلب کرتے اوران سے پوچھتے کہ’’ یہ کون سی گئو رکشا ہے؟‘‘ان سے لااینڈ آرڈر کی بگڑتی صورتحال پر جواب طلب کرتے اور انہیں ان کے فرائض یاد دلاتے۔
    لیکن ایسا وہ تب کرتے، جب وہ واقعی اسے ختم کرنا چاہتے۔ وزیراعظم نے تو بس ایک خانہ پُری کی ہے، دنیا کو دکھانے کیلئے بیان دے کر ایک رسم نبھایا ہے جیسا کہ ان کے پیش رو اٹل بہاری واجپئی نے ۲۰۰۲ء کے گجرات کے فسادات کے موقع پر مودی سے کہا تھا کہ ’راج دھرم نبھاؤ‘ اور مودی نے کہا تھا کہ ’’سر! وہی تو کررہا ہوں۔‘‘
    وزیراعظم نے چونکہ میڈیا کے ذریعہ اپنے ’غصے‘ کا اظہار کیا ہے کہ’’یہ  کون سی گئو رکشاہے؟‘‘ اسلئے واجپئی کی طرح انہیں زبانی جواب نہیں ملا البتہ اُسی دن جھارکھنڈ میں ایک مسلم نوجوان کو اُسی انداز میں موت کے منہ میں پہنچا کر آر ایس ایس کیڈر نے انہیں وہ پیغام  دے ہی دیا کہ ’’سر! وہی تو کررہے ہیں۔‘‘ مودی جی سنجیدہ ہوتے تو مجرمین کو اکیلے میں ڈانٹتے.... اوراگر وہ ایسا کرتے تو امید کی جاسکتی تھی کہ یہ سلسلہ وہیں رک جاتا.... لیکن جس طرح سے انہوں نے باتیں کیں اور جس طرح سے گئو رکشکوں نے اس کا جواب دیا، اس سے اس سلسلہ کے دراز ہونے کا خدشہ ہے۔
    مودی جی شاید نہیں جانتے کہ ان کی ’ڈانٹ ڈپٹ‘ کا مقصد سب جانتے ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ اگر اِن واقعات کو روکنا چاہتے تو بیان بازی کے بجائے’ ذمہ داران‘کی نکیل کستے ..... لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ جبکہ انہیں اور ان کی جماعت کو اس سے سیاسی فائدہ مل رہاہے۔   دادری میں اخلاق خان کے قتل کے بعد بی جے پی نے اس سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ سنجیو بالیان، مہیش شرما اور سنگیت سوم جیسے لیڈروںنے اس معاملے کے ملزمین کی واضح طور پر حمایت کی، یہاں تک کہ اس معاملے میں جیل کی ہوا کھانے والے ایک ملزم کی جیل  میں موت ہوجانے کے بعد اس کی لاش کو ترنگے میں لپیٹ کر اسے ’شہید‘ بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔
     پہلو خان کے قتل پر جہاں مختار عباس نقوی نے یہ کہا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں، وہیں ریاستی وزیر گلاب چند کٹاریہ نے اعتراف کے باوجود ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں گئو رکشکوں کی کوئی غلطی نہیں ہے۔کٹاریہ کے مطابق ’’ لوگ گایوں کی اسمگلنگ کرتے ہی کیوں ہیں؟ گئو رکشک تو صرف انہیں روکنے کا کام کرتے ہیں۔‘‘ حالانکہ یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی تھی کہ پہلو خان اوران کے ساتھی اسمگلر نہیں تھے بلکہ قانونی طور پر گائے خرید کرلے جارہے تھے اور ان کا مقصد دودھ کی تجارت کیلئے ان گایوں کو پالنے کا تھا۔
    ہریانہ کے۱۶؍سالہ نوجوان حافظ جنید کو جس سفاکی کے ساتھ قتل کیا گیا، اس سے پوری مسلم کمیونٹی خوف زدہ ہے لیکن زعفرانی پارٹی  کے ایک مسلم لیڈر نے اس خوف کو فرضی اور سیاسی قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ویسے  اس خوف سے وہ  اوران کے ساتھی کیوں کر دوچارہوسکتے ہیں۔ خوف زدہ تو وہ ہیں جو بھگوا پرچم لے کر چلنے کو تیار نہیں۔
    راج ناتھ سنگھ نے اس قتل پر افسوس کااظہار تو کیا لیکن یہ کہہ کر اپنا پلہ جھاڑ لیا کہ یہ ریاستوں کا معاملہ ہے۔ اگر یہ معاملہ ریاستوں کا ہے تب بھی، وہ ملک کے وزیرداخلہ ہیں، کیا اس حیثیت سے ان کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ریاستوں کی گوشمالی کریں؟ کیا یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں کہ ملک میں قانون کے راج کا نفاذ ہو؟۲۴؍پرگنہ میںعلاقائی نوعیت کے فساد پرجہاں مبینہ طور پر ہندو بھائیوں کو تھوڑا نقصان پہنچا، مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی تڑپ اُٹھے،  انہیں اپنے ’فرائض‘ یاد آنے لگے اور وہ وزیراعلیٰ ممتابنرجی سے الجھ بھی گئے۔ مرکزی حکومت الرٹ ہو گئی، اس نے آناً فاناً ریاستی حکومت سے رپورٹ  بھی طلب کرلیا جبکہ بی جے پی نے پارٹی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دے کر اسے مغربی بنگال روانہ کردیا لیکن پہلو خان، زاہد رسول بھٹ، علیم الدین  اور جنید کے بے رحمانہ قتل کے بعد حکومتی اور سرکاری سطح پر اس طرح کی کوئی سرگرمی کہیں نظر نہیں آئی بلکہ پتہ ہی نہیں چلا کہ ان ریاستوں میں ’گورنر‘ بھی ہیں۔
    تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وطن عزیز میں اب مسلمانوں کا قتل جرم نہیں رہا؟ گزشتہ تین سال کے واقعات تو کم از کم یہی ثابت کررہے ہیں۔دراصل بی جے پی بہت زعم میں ہے اور اس زعم میں وہ اپنے حامیوں کو یہی پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے.... نفرت کی اس سوداگری سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ بھی مل رہا ہے لیکن بی جے پی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نفرت کا بازار گرم کرکے بہت دنوںتک اقتدار پرقابض نہیں رہا جاسکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بہت آئے اورچلے بھی گئے۔ سیاسی سطح پر بی جے پی کیلئے یہ اچھے دن ہیں، اسلئے وہ من مانی کرسکتی ہے لیکن کب تک؟ اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کے بغیر بھی کامیاب ہوسکتی ہے بلکہ  اپنی دانست میں اس نے مسلم ووٹوں کو سیاسی سطح پر بے وقعت بھی کردیا ہے... لیکن بی جے پی کو  یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ یہ سلسلہ بہت دن نہیں چل سکے گا۔ جمہوری ملک میں۲۰؍ فیصد ووٹ مسلسل بے وقعت نہیں رہ سکتے۔  لوک سبھا میں بی جے پی کو ۳۱؍ اور یوپی اسمبلی میں ۴۱؍ فیصد ووٹ ملے ہیں، مطلب یہ کہ اس عروج کے دور میں بھی وہ ۵۰؍ فیصدووٹ حاصل نہیں کرسکی ہے..... کیا بی جے پی نہیں جانتی کہ۵۰؍ فیصد اورا س سے زائد ووٹ پانےوالی جماعتیں آج اسی ملک میں حاشئے پر ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔ بی جے پی کو یاد نہ ہو تو وہ کانگریس ، سی پی ایم (مغربی بنگال)، ڈی ایم کے (تمل ناڈو) اور بی ایس پی (یوپی) جیسی پارٹیوں کی تاریخ کا سرسری جائزہ لے سکتی ہے۔ 
     بی جے پی کو پتہ ہے کہ یہ۲۰؍فیصد ووٹ اس کیخلاف پڑتے رہے ہیں اور جب تک وہ اس پالیسی پر عمل پیرا رہے گی، اس کے خلاف ہی پڑتے رہیںگے۔ اسلئے اپنی دانست میں  وہ مسلمانوں کو سزا دینا چاہتی ہے...لیکن وہ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ مسلمانوں کے اعتماد و حوصلے کو ان ’جھٹکوں‘ سے مجروح کرسکے گی۔ مسلمانوں کی اکثریت کو پتہ ہے کہ وہ خود اپنے اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں، اسلئے جس دن مسلمانوں نے اپنا احتساب کرلیا، بی جے پی بھی حاشئے پر آسکتی ہے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ کیا ہم خاموش رہیں؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ کیا ہم بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کا اسی کے انداز میں جواب دیں؟ کیا ہم اپنی صفوں کو درست کریں؟ کیا ہم اپنا محاسبہ کریں اوراپنی غلطیوں کی اصلاح کریں؟ کیا ہم بی جےپی کو قبول کرلیں؟
    بی جے پی اور اس کے تھنک ٹینک کولگتا تھا کہ مسلمانوں کو اُکسا دیا جائے تو وہ جگہ جگہ ہندوتوادیوں سے الجھ جائیں گے ،جس سے اکثریتی برادری میں قومیت کا جذبہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا، لیکن اِکا دُکا جگہوں کو چھوڑ کر ایساکچھ نہیں ہوا۔ اکسانے اور اشتعال دلانے کے باوجود مسلمانوں نے خاموش رہ کر بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسا کرکے مسلمانوں نے آر ایس ایس کی ایک بڑی سازش کو نہایت خوبصورتی سے ناکام بنادیا ہے۔ایسے میں ہمیں مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ شرپسندوں کو ہمیں ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہم پر بیف اور لو جہاد کا الزام عائد کرسکیں۔بیف سے  پرہیز کرلینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔بیف کا استعمال نہ کرکے ہی ہم انہیں یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں۔یہ ایک علاحدہ موضوع ہے، اس پر پھر کبھی بات ہوسکتی ہے۔ برائے مہربانی اسے بزدلی کا نام نہ دیں بلکہ اسے احتیاط تصور کریں۔کیچڑ میںسنبھل کر چلنے کو بزدلی نہیںقرار دیا جاتا۔ہم جانتے ہیں کہ احتیاط نہ کرنے والوں کے ہی دامن میں داغ لگتے ہیں۔گوشت کھانا نہ فرائض میں شامل ہے اور  نہ ہی یہ ہمارے لئے کوئی مجبوری کی بات ہے۔ کیا ہم کچھ دنوں کیلئے احتیاط نہیں کرسکتے؟
سڑک پر نماز، مجبوری یا  حق!

نماز کیلئے خشوع خضوع بنیادی شرط ہے... لیکن کیا اُس وقت ہماری پوری توجہ نماز پر مرکوز ہوسکتی ہے ، جب تیز بارش میں ہم کھلے آسمان کے نیچے نمازپڑھتےہیں۔ برسات میں اکثر جمعہ کی نماز میں مصلیان سڑک پر نماز پڑھتے ہیں،بالخصوص اُن مساجد میں جو مصروف سڑکوں کے قریب واقع ہیں۔ اُس وقت ہم امام کی اقتدا ضرور کرتے ہیں لیکن کیا واقعی ہم نماز بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں؟ امام  صاحب قرأت کرتے ہیں اورہم میں سے بیشتر اُن آیات کی سماعت  کے بجائے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں موبائل اور پرس بھیگ نہ جائے؟ جیب میںرکھا کوئی کاغذ نہ خراب ہو جائے۔  امام صاحب نے قرأت طویل کی یا پھر رکوع اور سجود میں خشوع خضوع کا مظاہرہ کیا تو اُن کے تعلق سے بدگمانیاں بھی پیدا ہونے لگتی ہیں کہ وہ خود تو آرام سے ہیں، اسلئے انہیں مصلیان کی فکر کیوں کر ہوگی؟ ویسے اس طرح  کے وسوسے اور خیالات صرف برسات ہی کے موسم میں نہیں آتے بلکہ تیز دھوپ میں تپتی سڑک پر نماز پڑھتے وقت بھی پیدا ہوتے ہیں۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
    نئی مساجد کا قیام بہت مشکل ہے اور مساجد کی توسیع کا کام بھی آسان نہیں ہے، اس میں قانونی دشواریاں کافی ہیں...البتہ اس سے آسان، بہت آسان اور قابل عمل ایک راستہ اور ہے جس پر فوری عمل کیا جاسکتا ہے.... اور  وہ ہے ضرورت کے لحاظ سے  زائد جماعتوں میں نماز کا اہتمام ۔
    ابھی برسات کے پیش نظر عیدالفطر کے موقع پر نماز دوگانہ کیلئے ممبرا کی سنی جامع مسجد میں  ۵؍ جماعتیں ادا کی گئیں۔کیا اس طرح کے انتظامات عید اورجمعہ کی نماز کیلئے  دیگر مساجد میں نہیں کی جاسکتیں؟ ممبئی میں بھی ایسی کئی مساجد ہیں ، جہاں جمعہ کی نماز کیلئے تین تین جماعتیں ہوتی ہیں۔پھر ایسا ان تمام جگہوں پر کیوں نہیں ہوتا جہاں جہاں مساجد میں جگہ کی تنگی ہے؟
    سڑک پر نماز پڑھنے سے صرف نمازی پریشان نہیں ہوتےبلکہ برادران وطن کو بھی دِقتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کہیں کہیں پورا راستہ  بند ہوجاتا ہے۔ ان پریشان حال افراد میںطلبہ بھی ہوسکتے ہیںجو امتحان دینے جارہے ہوتےہیں ،  مریض بھی ہو سکتے ہیں جن کا وقت پر اسپتال پہنچنا ضروری ہوتا ہے اور ملازمت کے متلاشی بے روزگار افراد بھی ہوسکتےہیں، جنہیں انٹرویو دینےجانا ہوتا ہے۔
    ہم  دعویٰ کرتے ہیں اوریہ دعویٰ بجا بھی ہے کہ دینِ اسلام ، دینِ فطرت ہے اور یہ پورے عالم کیلئے رحمت ہے، لیکن کیا ہم اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرتے ہیں؟ عبادت ہمارا ذاتی عمل ہے، جس کی ادائیگی  ہم پر فرض ہے اور یہ ہم اپنےنامۂ اعمال کو بہتر بنانے کیلئے کرتے ہیں... لیکن یہاں رک کر ہمیں تھوڑا سا سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنی   عبادت کیلئے کسی کو پریشانی میں ڈالیں گے تو وہ ہمارے اور ہمارے مذہب کے تعلق سے کیا رائے قائم کرے گا؟ وہ اسے کیوںکر پوری دنیا کیلئے رحمت سمجھے گا؟ اور اس سے بھی اہم یہ کہ کیا  اللہ تعالیٰ ہماری اس عبادت کو قبول کرے گا، جس سے اس کے بندوں کو تکلیف ہو۔  بلاشبہ اللہ کے بندے سبھی ہیں، صرف ہم نہیں۔
    اِس وقت جبکہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمان نشانے پرہیں،ہم بھی اسلام کی شبیہ خراب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں؟ سڑک پر ہم نماز پڑھتے ہیں تو اسے مجبوری نہیں بلکہ حق سمجھتے ہیں۔مجبوری سمجھتے تو ہمارا رویہ نرم ہوتا اور ہم متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے لیکن یہاں ہماری اکڑ ’دیکھنے‘ لائق ہوتی ہے۔جمعہ کے دن ’بیان‘ شروع ہوتے ہی سڑک پر چٹائیاں بچھا دی جاتی ہیں، جبکہ مسجد کے اندر جگہ خالی ہوتی ہے....  اور یہ چٹائیاں نماز کے بعد چندہ وصولی اور اس کے بعد دعا سے پہلے نہیں اٹھائی جاتیں۔ اگر ہم سڑک پر نماز پڑھنے کیلئے  واقعی ’مجبور‘ ہیں تو کیا ایسا نہیں کرسکتے کہ صرف فرض نماز کے وقت سڑک پر بچھائیں اورسلام پھیرنے کے فوراً بعد اسے اٹھالیں؟ ہم اپنا محاسبہ آخر کب کریں گے؟