اترپردیش میں پہلے مرحلے کی پولنگ اور ہماری ذمہ داریاں
ووٹ نہ دینا ، ریاست، سماج اور خود کے ساتھ نا انصافی ہے
ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں میں سے ایک ایسی فہرست توبن ہی سکتی ہے جس سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔
قطب الدین شاہد
دو دن بعد یوپی میں ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے پہلے مرحلے کی پولنگ ہے۔اس مرحلے میں ۵۵؍ امیدواروں کی قسمت کے فیصلے ہوںگے۔ان تمام کی قسمت کے فیصلے کا اختیار آئین و دستور نے جن رائے دہندگان کو سونپا ہے، ان میں ۲۵؍ سے ۳۰؍ فیصدمسلم ہیں۔ جی ہاں ! سیتا پور، بارہ بنکی، فیض آباد، کانپور دیہات، بہرائچ، شراوستی، بلرام پور، گونڈہ، سدھارتھ نگر اور بستی کے ان تمام ۵۵؍ اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد خاطر خواہ ہے اور وہ انتخابی نتائج پر پوری طرح سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میں سے بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں وہ، جسے چاہیں ، کامیاب کراسکتے ہیں اور.... جہاں جِتانے کی طاقت نہیں رکھتے، وہاں بھی، اُن کی حیثیت بادشاہ گر کی ہے،یعنی اگر وہ کسی کو کامیاب نہیں کراسکتے، تو نہ سہی، مگر جسے چاہیں ، اسے شکست سے دوچار کرہی سکتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنی اس طاقت کو محسوس کرتے ہیں، ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کیلئے گھر سے باہر نکلتے ہیں اوراپنے امیدواروں نیز سیاسی جماعتوں کا احتساب کرتے ہوئے اسے سزا یا جزا کا حقدار سمجھتے ہیں..... اورکتنے رائےدہندگان ایسے ہیں جو گھروں اور چائے خانوں میں بیٹھ کر سیاست پر ’بصیر ت افروز‘ تبصروں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان آخرالذکر افراد کو ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔
اگر کوئی کہے کہ آپ سے آپ کا حق رائے دہی چھین لیا گیا ہے،آپ ووٹ نہیںدے سکتے،تو ذرا سوچئے کہ آپ پر کیا گزرے گی؟ احتجاج، مظاہرے ، دھرنے ، ہڑتال اور بھوک ہڑتال کے ساتھ ساتھ آپ انسانی حقوق کمیشن اورعدالتوں کے چکر لگائیں گے، انصاف کی دہائی دیںگے اور ناانصافیوں کا رونا روئیں گے، اپنے ساتھ رَوا رکھے جانے والے تعصب کی بات کریںگے اور ووٹ دینے کے حق کی واپسی کا مطالبہ کریںگے...... امریکہ جیسی ریاست ہائے متحدہ میں ایک عرصے تک کالوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ خود ہمارے ملک میں۱۹۹۵ء کے ایک معاملے میں الیکشن کمیشن نے شیوسینا سپریموبال ٹھاکرے کو مجرم قرار دے کران سے ۶؍ برسوں تک کیلئے حق رائے دہی چھین لیا تھا......
جمہوریت ایک نعمت ہے، اس کے ذریعہ عوام کو اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع دیا جاتاہے لیکن اس کی حقیقی اہمیت کا اندازہ انہی کو ہوگا جنہیں یہ نعمت میسر نہیں ہے اور جو اپنے حکمرانوں کاانتخاب خود نہیں کرتے بلکہ وہ ان پر مسلط کیے جاتے ہیں۔جس طرح بیماری کے بعد صحت، مفلسی کے بعد دولت، پسینے کے بعد ہوا، بھوک کے بعد غذا ، اسیری کے بعد رہائی اور غلامی کے بعد آزادی کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح انہیں بھی ووٹوںکی اہمیت کااندازہ شاید اسی دن ہوگا، جس دن یہ حق ان سے چھین لیا جائے گا۔ خدا نہ کرے ہمارے ساتھ ایسا ہو!!
آج بحمداللہ ہمیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے مگر.... افسوس کہ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہے.....حالانکہ ہمارے ووٹوں کی قدر وقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام اور بلدیو سنگھ کے ووٹ کی ہوسکتی ہے۔ ووٹوں کی گنتی کے دوران یہ کہیں نہیںدیکھاجاتاکہ جیتنے والا امیدوار عبداللہ یا عبدالرحمان کے ووٹوںسے فتحیاب ہوا ہے یاکسی اور کے ووٹ سے اور نہ ہی اس کی وجہ سے فاتح کی صحت پر کوئی اچھا یا برا اثر پڑتا ہے۔ یاد کیجئے کہ پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ ایک ووٹ (سیف الدین سوز) نے اٹل جی کی حکومت کی ساری اکڑفوں نکال کر رکھ دی تھی۔
تین دن بعدیعنی۸؍ فروری کو ہمیں ایک بار پھر ووٹ دینے اور اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ انتخابات بھلے ہی اتر پردیش میں ہو، مگر اس پر نگاہیں پورے ملک کی ہیں اور وہ خواہ ممبئی ہو یا دہلی، وہاں کے اثرات یوپی الیکشن پر ہمیشہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بیدار رہنا از حد ضروری ہے۔ ہمیشہ کی طرح اگر اس وقت بھی ہم نے خاموشی، غفلت اورتساہلی کا مظاہرہ کیا تو پچھتانے کیلئے آئندہ پانچ برس ہی نہیںبلکہ بہت ممکن ہے کہ پوری زندگی بھی کم پڑے۔ یقین جانئے یہاںایک ایک ووٹ کی قیمت ہے۔ ایک ووٹ سے آپ کے پسندیدہ امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ہوسکتا ہے، وہ جیت سکتا ہے، ہار سکتا ہے۔اس کےبرعکس آپ کے ایک ووٹ نہ دینے سے آپ کا ناپسندیدہ امیدوار کامیاب ہوکرآپ کے سینے پر مونگ بھی دَل سکتا ہے۔ کُل ملا کر یہ کہ ملک کے عروج و زوال کا فیصلہ اب آپ کے ایک ووٹ پر ہے۔
پولنگ کے دن ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ آپ یہ قطعی نہ سمجھیں کہ’ بھلامیرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا؟‘قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں اس کا بھی خوب اندازہ ہے کہ ہماری اس گمرہی سے یعنی ہمارے ووٹ نہ دینے کے فیصلے سے خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، ہمارے اہل خانہ اور عزیز و اقارب بھی متاثرہوتے ہیں، اوروہ ووٹ دینے نہیں جاتے۔
بعض جگہوں پربوگس ووٹنگ ہوتی ہے اور بعض جگہوں پر ووٹ خریدے اوربیچے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اچھے اور اہل امیدوار منتخب نہیں ہوپاتے..... اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ یقین جانئے غیر قانونی کام انجام دینے والے وہ عناصر اور چند سکوں کی خاطر بک جانے والے وہ بے ضمیر افراد بھی ہم میں سے ہی ہوتے ہیں اور ہماری خاموشی سے ہی انہیں شہ ملتی ہے۔ یہ کہہ کرہم خود کو تسلی دینے کی بھلے ہی کوشش لیں کہ’ہونہہ! اس میں میرا کیا؟‘، مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو یقیناً اس جواب سے مطمئن نہیں ہوںگے کیونکہ ان واقعات سے براہ راست ہمارا تعلق ہے۔ وہ عناصر جو ہمارے حق پرڈاکہ ڈالتے ہیں اوراپنی غیر قانونی سرگرمیوں سے ہماری قانونی کوششوں کو زک پہنچاتے ہیں، انہیں بھلاکیسے اور کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ دراصل ہم اس کاحساب نہیں لگاتے کہ بوگس ووٹنگ ، ہماری جائز ووٹنگ کو سبوتاژ کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔
ہمارے ملک کے اس کثیر جماعتی نظام میں چند فیصد ووٹوں کے اِدھر اُدھر ہوجانے سے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ آئیے اس کاایک سرسری جائزہ لیتے چلیںکہ چند فیصد ووٹوں کے کم یا زیادہ ہوجانے سےپارلیمنٹ یا اسمبلیوں کی تصویریںکس طرح تبدیل ہوجایا کرتی ہیں؟
۱۹۹۹ء میں بی جے پی نے چند جماعتوں کی مدد سے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور یہ قبضہ ۵؍ سال تک برقرار بھی رہا تھا لیکن آئندہ یعنی ۲۰۰۴ء میں اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ تیرہویں لوک سبھا میں اسے ۱۸۲؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ چودہویں لوک سبھا میں ۴۴؍ سیٹیں کم ہوکر محض ۱۳۸؍ رہ گئی تھیں..... حالانکہ اس کے ملنے والے ووٹوں میں زیادہ فرق واقع نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۹۹ء میں جہاں اسے ۸؍ کروڑ ۶۵؍ لاکھ ووٹ ملے تھے ، وہیں ۲۰۰۴ء میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد ۸؍ کروڑ ۶۳؍ لاکھ تھی ۔ دیکھا آپ نے.... کہ کس طرح ۵۴۳؍ حلقوں میں ملنے والے ووٹوں میں صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کی کمی نےاسے برسراقتدار آنے سے روک دیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کے اقتدار میں آنے کا سبب بھی ووٹوں کی تھوڑی سی ہیر پھیر ہے۔ ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو ۱۰؍ لاکھ ۳۱؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی۔ چودہویں لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کوصرف۳؍ لاکھ زائد ووٹ ملے تھے مگرحیرت انگیز طور پر اس کے نشستوں کی تعداد میں ۳۱؍ کااضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اوراسے اقتدار میں آنے کاموقع مل گیا تھا۔ کیا یہ حیران کردینے والی بات نہیں کہ بی جے پی نے صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کے خسارے سے۴۴؍ سیٹیں گنوائیںجبکہ کانگریس کو۳؍ لاکھ ووٹوں کے اضافے سے ۳۱؍ نشستوں کا فائدہ ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو کل پولنگ کا ۲۸ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملا تھا مگر اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی جبکہ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں ۲۸ء۵۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ اس کے نشستوں کی تعداد بڑھ کر ۲۰۶؍ ہوگئی تھی۔ اسی طرح دیکھئے کہ ۲۳ء۷۵؍ فیصد ووٹ لے کر بی جے پی نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا جبکہ۲۰۰۴ء میں ۲۲ء۱۶؍ فیصد ووٹ ملنے کی وجہ سے اسے اپوزیشن کی صف میں بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایسا اسلئے ہے کہ بعض نشستوں پر فتح و شکست بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے ہوا کرتی ہے۔کرناٹک کے اسمبلی حلقے میں سانتھے میراہلّی حلقے میں ہارجیت کے درمیان صرف ایک ووٹ کا فرق تھا۔ اسی طرح ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی انتخابات میںلکش دیپ حلقہ سے جنتادل متحدہ کا امیدوارمحض ۷۱؍ ووٹوں سے کامیاب ہوا تھا۔ کرناٹک کے رائچور حلقے سے کانگریس کے امیدوار وینکٹیش نائیک کو ۵۰۸؍ اور کیرل کے مواتوپوزھا حلقے سے ایڈوکیٹ پی سی تھومس کو ۵۲۹؍ ووٹوں سے کامیابی ملی تھی۔ کچھ اسی طرح دمن اور دیو میں کانگریس امیدوار دیا بھائی پٹیل ۶۰۷؍ اور یوپی کے چھیل پارلیمانی حلقے سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار شیلندر کمار۶۳۰؍ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ کم ووٹوںسے ہار جیت کے سب سے زیادہ معاملے تمل ناڈو میں سامنے آئے جس کی وجہ سے وہاں ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی انتخابات کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔جے للیتا کی پارٹی کو کل ۸۵؍ لاکھ ۴۷؍ ہزار ووٹ ملے مگر اسے ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں مل سکی تھی ، اس کے برعکس اس کی حریف جماعت ’ ڈی ایم کے‘ اور ’ ایم ڈی ایم کے‘ کو بالترتیب ۷۰؍ لاکھ ۶۴؍ ہزار اور ۱۶؍ لاکھ ۸۰؍ ہزار ووٹ ملے اور ان دونوں نے ۲۰؍ نشستوں پر قبضہ جمالیا۔ یعنی بہت معمولی ووٹوں نے فتح و شکست کا راستہ ہموار کیا۔
۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں بارہ بنکی، فیض آباد، امبیڈکر نگر، بہرائچ، قیصر گنج، شراوستی، گونڈہ، ڈومریاگنج، بستی، سنت کبیر نگر اور مہاراج گنج کے پارلیمانی حلقوں میں( جہاں ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے میں الیکشن ہونے جارہا ہے) ۲۵؍ سے ۳۵؍ فیصد ووٹ پانے والے امیدوار کامیاب ہوگئے تھے۔
مذکورہ دوچار مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا ایک ایک ووٹ کس قدر قیمتی ہے؟ یعنی یہ ایک ووٹ نہ صرف امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر نے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ کا نقشہ بھی ترتیب پاتا ہے۔
ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ ’’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں میں سے ایک ایسی فہرست توبن ہی سکتی ہے جس سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے کہ زیادہ برے شخص کو منتخب ہونے سے روکا جائے...... تو پھر معاف کیجئے ، ہمیں یہ کہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہمارے حکمراں اچھے نہیں ہیں یا یہ کہ وہ غیر ذمہ دار ہیں۔
دو دن بعد پولنگ ہے۔ یعنی ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمارا حکمراں کون ہوگا؟کہنے کو تو یہ دن امیدواروں کے امتحان کا ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ امتحان رائے دہندگان کیلئے ہے۔ امیدوار ہارے یا جیتے، دو چار دن یا بہت ہواتو ایک دو مہینے اس کا تذکرہ ہوگا لیکن رائے دہندگان کے شعوراور بے شعوری کی باتیں پورے پانچ برسوںتک ہوتی رہیںگی۔بلاشبہ اس معاملے میں اتر پردیش کے رائے دہندگان کی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹنگ کرتے ہیں، لیکن جس قدر شعور کا مظاہرہ ہونا چاہئے، نہیں ہورہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ۴۰۳؍رکنی اسمبلی میں کم از کم ۷۵؍ مسلم اراکین ہوتے۔
یہاں ایک سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا ووٹ کسے دیں؟ اس سلسلے میں ہمارا خیال ہے کہ سیاسی جماعت کے بجائے ہم امیدوار دیکھ کر ووٹ دیں.... ویسے بھی یوپی کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں آزمائی جاچکی ہیں۔آپ نے کانگریس کا دورِ اقتدار دیکھا ہے، سماجوادی اور بی ایس پی کو بھی مسند ِاقتدار تک پہنچایا ہے ، بی جے پی کا رام راج بھی دیکھ لیا ہے اور ان تمام جماعتوں کے ساتھ اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کو شریک اقتدار دیکھا ہے۔آزادی کے بعد کی گزشتہ ۶۰؍سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو شدیدمایوسی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہمارے حلقے میں جو امیدوار سب سے بہتر ہو،بلا لحاظ سیاسی جماعت اسے اپنا نمائندہ بنائیں۔ یوپی میں مسلمانوں کی آبادی کم از کم۲۵؍ فیصد ہے لیکن آزادی کے بعد سے آج تک کسی جماعت نے کسی مسلم کو وزیراعلیٰ بنانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ ایسا اسلئے نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہم نے اپنی اہمیت اچھی طرح جتائی ہی نہیں۔
جیسا کہ بالائی سطروں میں یہ بات آچکی ہے کہ ہمارے ووٹوں کی قدروقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام یا بلدیو سنگھ کی ہوسکتی ہے لیکن .... مگر افسوس کہ بحیثیت ووٹر ہماری وہ حیثیت نہیں ہے جو ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ پولنگ کے دن گھروںسے نکلنے اور پولنگ بوتھ تک جانے میں ہماری تساہلی اور غفلت ہے۔جس دن سیاسی جماعتوں کو ہم نے یہ باور کرادیا کہ آپ کی قسمت ہمارے ہاتھوں میں ہے.....یقین جانئے وہ ہمارے اشاروں کی محتاج ہوجائیں گی۔ حالات کامشاہدہ کریں تو ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں سکھوں کے ایک اشارے پر کانگریس نے یقینی طور پر منتخب ہوجانے والے اپنے ۲؍ ا ہم امیدواروں جگدیش ٹائٹلر اور سجن کمار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا ..... اس کے برعکس ہم لاکھ چلاتے رہے اور اپنے مطالبات پیش کرتے رہے لیکن ہمارے ان مطالبوں کو ہماری حکمراں جماعتوں نے جوتوں کی نوک پر ہی رکھا ۔ وہ خواہ مہاراشٹر کی کانگریس این سی پی حکومت ہو، مغربی بنگال کی کمیونسٹ اور ترنمول کی یا پھر بہار اور یوپی کی لالو، نتیش، ملائم اور مایاوتی کی حکومتیں رہی ہوں..... یعنی ہم ابھی تک سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرانے میں ناکام ہی رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ تمہاری فتح و شکست کا ضامن ہے ۔
یقین جانئے، سیاسی جماعتوں کو ہم بھی اپنے اشاروں کا محتاج بنا سکتے ہیں، لیکن یہ اسی دن ممکن ہوگا جس دن ہم انہیں یہ احساس دلاپانے میں کامیاب ہوںگے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پھر دیر کس بات کی ہے.... جب جاگے تب سویرا کے مصداق، دو دن بعدیعنی۸؍فروری کو زیادہ سے زیادہ پولنگ کرکے ثابت کردیجئے کہ ہم ایک بیدار قوم ہیں لہٰذا ہمیں نظر انداز نہیں کیا جاناچاہئے ....... اُٹھو، بیدار ہوجاؤ،دیکھو! پولنگ بوتھ آپ کا انتظار کررہا ہے۔