Saturday 21 June 2014

kahan gayi bedaari aur kahan gayi tahreeken?

کہاں گئی ہماری تعلیمی بیداری اور کہاں گئی ہماری تحریکیں؟

۱۹۹۷ء میںتنویرمنیار کی کامیابی کےبعد پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر محسوس کی گئی تھی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے دسویں میں ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔   الماس سید نے بارہویں میں اور  ڈاکٹر  شاہ فیصل نے یوپی ایس سی میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے  اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا ....
لیکن  اب  کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے؟ کیا ہماری تعلیمی تحریک جمود کا شکار ہورہی ہے یاہم نام و نمود کے جال میں پھنس گئے ہیں؟

قطب الدین شاہد

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستانی مسلمان بالکل ٹوٹ کر رہ گئے  تھے۔ قانو ن و عدالت کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے مذہبی جنونیوں کے ایک گروہ نے مرکزاور ریاست کی کانگریس اور بی جے پی حکومتوں کی سرپرستی اور فوج کی موجودگی میں بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیاتھا۔اس کی وجہ سے مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہوگئے تھے کیونکہ یہ صرف ایک مسجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے نام اس گروہ کا یہ پیغام بھی تھا کہ اب تمہیں دستوری تحفظات نہیں بلکہ ہمارے رحم و کرم کا محتاج بن کر رہنا ہوگا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا ٹوٹ جانا اور ان کے حوصلوںکا پست ہوجانا فطری تھا۔
    لیکن وہ مسلمان ہی کیا جو اس طرح کے نامساعد حالات سے گھبراجائے ۔ کشتیاں جلاکر اپنا ہدف طے کرنے والی قوم جب خلوص و ایمان کی طاقت سے کوئی معرکہ سرکرنا چاہتی ہے تو مشکلات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن پاتیں۔ بابری مسجد کی شہادت اوراس کے بعد پورے ملک میں پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بھی یہی ہوا۔ مسلمانوں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ سرخروئی چاہئے تو قوم کی تعلیمی صورتحال کو بدلنا ہوگا اور تعلیمی پسماندگی کے اس دلدل سے باہر نکلنا ہوگا۔ سابق بیوروکریٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد کی قیادت میں نکلنےوالے تعلیمی کارواں   نے پورے ملک میں تعلیمی بیداری کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ۱۹۹۷ء میں مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر شولا پورسے تنویر منیار کی صورت میں روشنی کاایک مینار بلند ہوا۔  اردو میڈیم کے اس طالب علم نے دسویں کے امتحان میں ریاست  کے لاکھوں طلبہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔  یہ کامیابی کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں تھی اور یہ صرف تنویر ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس کامیابی میں پورا شولا پور، پوری ریاست اور پورا ملک شریک تھا۔
     اس کامیابی پرشولا پور کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے مسلمان ناز کررہے تھے۔  اپنی کامیابی کی خوشبو سے انہوںنے پوری فضا کو معطر کردیا تھا اورسبھی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ وہ صرف اپنی امی کے بیٹے نہیں رہ گئے تھے بلکہ ان کی صورت میں تمام ہندوستانی مسلم ماؤں کو اپنے بیٹے کی صورت نظر آنے لگی تھی، سبھی اُن کی بلائیں لیتی تھیں  اور انہیں دعائیں دیتی ہوئی نظر آرہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا بھی انقلاب لائے اور ہندوستانی مسلمانوں کے عزت اور وقار میں اضافے کا باعث بنے۔
    بابری مسجدکی شہادت کے بعد پہلی بار ہندوستانی بالخصوص مہاراشٹر کے مسلمانوں کو خوش ہونے کا موقع ملا تھا۔بلاشبہ تنویر کی کامیابی میں ان کی اپنی اوران کے والدین و اساتذہ کی بے پناہ محنتیں شامل تھیں لیکن اتنی بڑی کامیابی صرف محنتوں سے نہیں ملا کرتی بلکہ اس کامیابی میں پورے ملک کے مسلمانوں کی دعائیں اور نیک تمنائیں بھی شامل تھیں۔ تنویر کی کامیابی کوئی اچانک اورانہونی کامیابی بھی نہیں تھی بلکہ اس کی توقع تھی اورامید کی جارہی تھی کہ اس تعلیمی بیداری کا کوئی تو نتیجہ برآمد ہوگا لیکن یہ تنویر کہاں سے ابھرے گا، اس کا  اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
    ہمیںاچھی طرح یاد ہے، تنویر منیار نے جس سال ایس ایس سی میں مہاراشٹر ٹاپ کیا  تھا، ہم بھیونڈی میں تھے۔ اُس وقت ہمارا تعلق کسی اخبار سے نہیں تھا۔ انٹرنیٹ عام افراد کی پہنچ سے دور تھا، اس وقت اخبارات کے دفتر ہی قبل از وقت خبریں فراہم کرنے کا ذریعہ ہواکرتے تھے، بالخصوص وہ خبریں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح  قوم و ملت سے ہوتاتھا۔ ہم نے بھی  اسی ذریعہ کااستعمال کیا اور’ انقلاب ‘کے دفتر میں فون کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس مرتبہ کیا رزلٹ رہا اور میرٹ میں’ اپنا‘ کوئی ہے کہ نہیں!  اور جب یہ خوشخبری ملی کہ نہ صرف یہ کہ میرٹ میں اپنے کئی طلبہ ہیں بلکہ پوری ریاست کو اردو کے ایک طالب علم نے فتح کرلیا ہے تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ تھوڑی سی تفصیل لے کر اپنے دوستوں کی مدد سے ہم نے اسے شہر کی کئی دیواروں پرلکھ بھی دیا جس کی وجہ سے  تھوڑی ہی دیر میںیہ خوشخبری پورے شہر میں پھیل گئی۔
    دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی حالت دیکھنے جیسی تھی، بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی روتے روتے ہنس پڑا ہو۔ مسرت کے آنسو اُن چہروں پر بھی نظر آرہے تھے جو جانتے بھی نہیں تھے کہ ایس ایس سی امتحان کیا ہوتا ہے اور میرٹ کس چڑیا کا نام ہے، وہ بس اتنا جانتے تھے کہ ایک مسلم بچے نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ممبئی، بھیونڈی، کلیان، مالیگاؤں، پونے، اورنگ آباد، جلگاؤں اور ریاست کے دیگر شہروں میں تنویر منیار کا زبردست استقبال کیا گیا تھا۔ تنویرنے یقیناً پورے ملک کے مسلمانوںمیں خوشی کی لہردوڑادی تھی۔ اس کامیابی کے بعد وہ سب کے اپنے ہوگئے تھے اور سب ان کے اپنے ہوگئے تھے۔ بھیونڈی میں انجمن فروغ تعلیم نے جب انہیں مدعو کیا تو شہر میں عید جیسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ تنویر کے استقبال اور خیر مقدم میں  جگہ جگہ بینر لگے  ہوئےتھے اور کوٹرگیٹ مسجد کے پاس ایک شاندار استقبالیہ گیٹ بھی بنایا گیاتھا۔ ٹھاکرے ہال میں انہیں دیکھنے کیلئے ایک خلقت امڈ پڑی تھی۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، ہال کے باہر بھی بہت سارے لوگ موجود تھے۔  یہ تقسیم انعامات کا پروگرام تھا لیکن  وہ طلبہ بھی جنہیں انعام ملنے والاتھا، حصول انعام سے زیادہ تنویر سے ملاقات کے متمنی تھے۔ ہر کوئی تنویر کو دیکھنے کا تمنائی تھا اوران سے ملنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ اپنی ہی جیسی مٹی کا بنا ہوا کوئی انسان ہے یا کوئی اور ہے۔ یہی صورتحال ممبئی، کلیان، جلگاؤں، مالیگاؤں اور پونے میں بھی تھی۔
    اس کامیابی نے ایک راہ ہموار کی۔طلبہ میں جوش بھر گئے تھے۔ والدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کے علاوہ قوم کی سربرآوردہ شخصیتوں نے اخلاص کے ساتھ   اس مشن کو آگے بڑھایا اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے کئی طلبہ نے ریاست اور بورڈ ٹاپ کیا۔  اس فہرست میںزرین انصاری ، رضوانہ انصاری، بلال مستری، خان صبا شریف اورواجدہ کاریگر کانام لیا جاسکتا ہے۔ کئی دیگر ریاستوں کے بورڈوں میں بھی مسلم طلبہ نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔   ۲۰۰۹ء  میں الماس ناظم سید نے اس مشن کو اور آگے بڑھایا جب انہوں نے  بارہویں میں مہاراشٹر ٹاپ کیا۔ اس وقت بھی مسلمانوں میں مسرت کی یہی کیفیت تھی۔الماس کو دیکھنے اور سننے کیلئے بھیونڈی کے ٹھاکرے ہال میں گنجائش سے زیادہ افراد جمع ہوگئے تھے۔ اس  موقع پر الماس نے ۱۵؍ منٹ کی تقریر کی تھی اور ا س مختصر وقفے میں انہوں نے اتنی  اثر انگیز باتیں کی تھیں جتنی ہمارے خطیب، مقرر اور سیاست داں  برسوں میں بھی نہیں کرپاتے۔گفتگو کے دوران الماس  کے والد نے بھی ایک پتے کی بات کہی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’کل تک الماس کو دیکھ کر لوگ کہاکرتے تھے کہ دیکھو! ناظم کی بیٹی جارہی ہے لیکن آج مجھے دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! الماس کے ابو جارہے ہیں۔ یہ میرے لئے بجاطور پر فخر اور خوشی کی بات ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ الماس جیسی بیٹی پاکر کون باپ خوش نہیں ہوگا؟ اس موقع پر ہم نےہال میں موجود بیشتر بچوں کی آنکھوں کی ایک چمک سی محسوس کی تھی کہ وہ بھی سرخرو ہوکر اپنے والدین کو اسی طرح سر بلندی کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کریںگے۔
    اس کارواں کو مزید آگے بڑھایا ڈاکٹرشاہ فیصل نے۔ ۲۰۱۰ء میںہندوستان کے سب سے سخت اور قابل رشک مقابلہ جاتی امتحان میں۴؍ لاکھ سے زائد طلبہ کے درمیان اول مقام حاصل کرنے والے ڈاکٹر شاہ فیصل نے عزم محکم اور عمل پیہم کو اپنی کامیابی کی کلید قرار دیا۔ کامیابی کے بعد انہوں نے ایک ایسی بات کہی  جسے ہم جیسے اُن تمام لوگوں کو اپنی گرہ میں باندھ لینا چاہئے جو موقع بے موقع جواز اور بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا  تھاکہ ’’۸؍ سال قبل جب چند دہشت پسندوں نے والد صاحب کو قتل کردیاتو میرے سامنے دو ہی راستے تھے ، یا توخود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں یا پھر تن کر کھڑا ہوجاؤں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کروں.... اور پھر میں نے آخرالذکر فیصلہ کیا۔‘‘
    ان کامیابیوں نے بعد کے طلبہ کو کافی حوصلہ بخشا اوراس کے خاطر خواہ نتائج بھی دیکھے گئے۔ ملاحظہ کریں ایک مثال۔  تنویر منیار نے جس سال کامیابی حاصل کی تھی، اس سال یعنی ۱۹۹۷ء میں بھیونڈی میں صرف  ۹؍ طلبہ نے امتیازی اور ۱۱۹؍  نے اول درجے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن تنویر کی کامیابی سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے سال ۳۳؍ طلبہ امتیازی اور ۲۲۳؍ اول درجے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد بلال، زرین اوررضوانہ کی کامیابی سے حوصلہ پانے کے بعد  یعنی ۲۰۰۰ء میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنےوالے طلبہ کی تعداد ۴۳؍ اوراول درجے میں کامیاب ہونےوالوں کی تعداد ۳۹۵؍ ہوگئی۔
     یہ صرف ایک شہر کی مثال ہے،ورنہ یہی کیفیت  پوری ریاست اور پورے ملک کی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس بیداری پر غفلت کا سایہ پڑتا جارہا ہے۔اب کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا ہواسا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے  جیسے ہماری تعلیمی تحریکیں جمود کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ اس موقع پر ہم سب یعنی والدین، اساتذہ، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، سماجی اداروں کے سربراہ اور قوم کے خیرخواہوں کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خلوص کا دامن ہم سے چھوٹتا جا رہا  ہے اور ہم نام و نمود کے چکر میں اپنے سرمائے کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں؟

Tuesday 7 January 2014

Roznaamcha_ SMS

ایس ایم ایس فارورڈ کرنے سے قبل غور کرلیں


 قطب الدین شاہد

 کچھ دنوں قبل ’کوبرا پوسٹ‘ نے ایک انکشاف کیا تھا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پیسے لے کر سوشل میڈیا کے  ذریعہ لوگوں کی شبیہ بنانے اور بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔ ۲۲؍ دسمبر کو ’سائنس اور سماج‘ کے کالم میں اسی موضوع پر پروفیسر سید اقبال صاحب نےبھی  ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون تحریر کیا ہےجس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سیاستداں اور کارپوریٹ گھرانے عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں اور سچ پر جھوٹ کا ملمع چڑھا کر  انہیںگمراہ کرتے ہیں۔ خیر یہ ان کا کام ہے، وہ کرتے رہیں گےکیونکہ اس کا انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے مگر افسوس تو یہ جان کر ہوتا ہے کہ نادانستگی میں  ہم بھی ان کا  آلہ کار بنتے ہیں۔  ان دنوں ایس ایم ایس اور ای میل  فارورڈ کرنے کاایک رجحان سا چل پڑا ہے۔ وہاٹس اپ نے اس سلسلے کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ یہ ایک طرح سے ہماری کمزوری بن گئی ہے کہ کہیں سے ہمیں کوئی ’اچھا‘ میسیج موصول ہوا توہم اسے پہلی فرصت میں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ دیکھنے اور غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ اس میں سچائی کتنی ہے ؟سماج اور قوم پراس کےکس طرح کے اثرات مرتب ہوںگے اور یہ کہ کہیں ہم کسی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں؟
       یہ بات ہم بہت دنوںسے سنتے آرہے ہیں کہ بی جے پی نے بڑے پیمانے پرایسے لوگوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو سوشل میڈیا کی مدد سے  اس کی اوراس کے لیڈروں کی شبیہ کو بہتر بنانے نیز مخالف جماعتوں کی شبیہ کو خراب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے لیکن انتخابی دنوں میں اس میں شدت آجاتی ہے۔ان ’شبیہ سازوں‘ کوچونکہ ہماری کمزوری کا پوری طرح سے علم ہے اس لئے وہ اس قدر ’خوبصورت‘ میسیج تخلیق کرتے ہیں کہ جب تک ہم انہیں دوسروں تک  پہنچا  نہ دیں، چین و قرار نہیں آتا۔
    گزشتہ دنوں مجھےکچھ ’پیغامات‘موصول ہوئے جنہیں اسی مہم کا حصہ کہا جاسکتا ہے لیکن جن صاحبان کی طرف سے مجھے  یہ میسیج ملے، ان کے تعلق سے قطعی نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جان بوجھ کر اس مہم کا حصہ بنے ہوں گے ۔ وہ کانگریس سے ناراض تو ہوسکتے ہیں لیکن بی جے پی کی حمایت کسی صور ت میں نہیں کرسکتے۔ملاحظہ کریں وہ ایس ایم ایس۔
    nایک آدمی مچھلی پکڑ کر لایا۔ بیوی دیکھتے ہی برہم ہوگئی، بولی: گھرمیں نہ گیس ہے نہ تیل۔ نہ نمک ہے نہ مسالہ، کیسے بناؤں مچھلی؟ اس شخص نے جھلاہٹ میں مچھلی کو اٹھایا اور جاکر تالاب میںپھینک دیا۔ پانی میں جاتے ہی مچھلی نے نعرہ بلند کیا ’’کانگریس زندہ باد۔‘‘
    nواہ کیا لاجک ہے: رام نے راون کو مارا ( آر  سے آر)، کشن نے کنس کو  (کے سے کے)، گوڈسے نے گاندھی کو (جی سے جی) ، اوبامہ نے اوسامہ کو ( او سے او) کرپشن مارے گا کانگریس کو(سی سے سی) اور مودی مارے گا منموہن کو ( ایم سے ایم )۔
    اس طرح کے ایس ایم ایس چونکہ صوتی اعتبار سے  اچھے لگتے ہیں، اس لئے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف فارورڈ کرتے ہیں بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ وہ بھی دوسروں کو اسے فارورڈ کریں۔
    اسی درمیان ایک اچھا ایس ایم ایس بھی موصول ہوا:
    nکانگریس  نے دس سال قبل جو  وعدہ کیا تھا ، اسے اب پورا کیا یعنی ’’ کانگریس کا ہاتھ ، عام آدمی کے ساتھ۔‘‘    
     اخیر میں بس یہی کہنا ہے کہ ایس ایم ایس اور ای میل ضرور فارورڈ کریں لیکن  اس سے  پہلے  ان پرغور کرلیں ۔

Aap ki hukumat ki tashkeel, tareekhi waqya

کیجریوال کی قیاد ت میں آپ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی اور انقلابی واقعہ
بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری، کانگریس خوش فہمی کا شکار، میڈیا تذبذب میں مبتلا
 
دہلی کے اسمبلی الیکشن میں’آپ‘ کی کارکردگی سے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا بھی حواس باختہ ہوگیا ہے لہٰذا کیجریوال اوران کے ساتھیوں کو گھیرنے کی مہم شروع ہوگئی ہے۔ بی جے پی اوٹ پٹانگ بیانات کے ذریعہ جہاں اپنی بوکھلاہٹ ثابت کررہی ہے، وہیں کانگریس اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گر جائے گی اور ایک بار پھر دہلی کے پایۂ تخت پر اس کا قبضہ ہوگا۔ میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے
 
قطب الدین شاہد

دہلی انتخابات کی صورت میںعوام نے سیاسی جماعتوں کونہایت واضح انداز میں اپنا پیغام دے دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نوشتہ ٔ دیوار ہے، اگر وہ اپنی بقا کی متمنی ہوں تو انہیں چاہئے کہ اسے پڑھ لیں، بصورت دیگربوریا بستر لپیٹنے کی تیاری کرلیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاست داں اور سیاسی جماعتیں آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہیں اور اپنی اسی کج روی کا اظہار کررہی ہیں جو اناہزارے کی قیادت میں عوامی تحریک کے ساتھ کیا تھا۔ بلاشبہ اناہزارے کچھ ’طاقتوں‘ کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے تھے، اس لئے وہ تحریک بری طرح ناکام بھی رہی لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس نے عوامی جذبات کو جس طرح اپنی سیاسی پینترے بازیوں سے کچلنے کی کوشش کی تھی، اسے اس کا خاطر خواہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
    بی جے پی کی ذہنی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ تین ریاستوں میں حکومت بنا لینے اور دہلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرلینے کے باوجود ’آپ‘ کی کامیابی نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا ہے اوراسے اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ہے۔مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا کی مدد سے وہ جس تیزی سے اپنے مہرے کو آگے بڑھارہی تھی اور ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے منصوبے بنارہی تھی، دہلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی وہ مہرہ بری طرح پٹ گیا ہے۔تین ریاستوں میں کامیابی کو بی جے پی مودی کا کرشمہ ثابت کرنا چاہتی تھی اوراس طرح اپنے حامیوں کویہ بتانا چاہ رہی تھی کہ اب دلی دور نہیں! لیکن کیجریوال کی حقیقی عوامی مقبولیت کے آگے بی جے پی کا طلسم ٹوٹ گیا اوریہ ثابت ہوا کہ عوام کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی سے بھی ناراض ہیں لہٰذا جہاں بھی انہیں کوئی بہتر متبادل ملتا ہے، وہ ان دونوں کوخاک چٹانے میںکسی تکلف  و توقف سے کام نہیں لیتے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار میں واپسی،  راجستھان کو کانگریس سے چھین لینے نیز دہلی میں  پہلے کے۲۳؍ کے مقابلے۳۱؍ نشستیں جیت لینے کے بعد بی جے پی لیڈروں کو جس پزیرائی کی امید تھی، وہ نہیں مل پائی جس کی وجہ سے  وہ بری طرح بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؟’بک رہا ہوں جنوں میں کیاکیا کچھ‘ کے مصداق ارون جیٹلی کچھ کہہ رہے ہیں تو سشما سوراج اور راج ناتھ کچھ اور، اسی طرح وجے گوئل اور ہرش وردھن بھی الگ الگ سُروں میں راگ الاپ رہے ہیں۔
    ایک ہفتہ قبل تک یعنی جب تک کیجریوال کی پارٹی نے حکومت سازی کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے کی بات کہہ رہی تھی، بی جے پی لیڈران اس پر عوام سے فریب دہی کاالزام عائد کررہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ جب کانگریس بلاشرط  حمایت دے رہی ہے، تو وہ حکومت سازی سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟اور یہ کہ اگر دہلی میں دوبارہ انتخابات کی نوبت آئی تو اس صورتحال کی تنہا ذمہ داری ’آپ‘ پر ہوگی۔ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ’آپ‘ کے لیڈروں میں انتظامی صلاحیت نہیں ہے اس لئے وہ ذمہ داری لینے سے کترا رہے ہیں۔کچھ اسی طرح کی باتیں کانگریس کی جانب سے بھی آئیں..... اور اب جبکہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت سازی کا فیصلہ کیا گیا تو بی جے پی کی جانب سے ایک بار پھر عوام کے ساتھ فریب دہی کاالزام عائد کیا جارہاہے۔ کہا جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی بنیادی طورپر کانگریس کے خلاف  الیکشن جیت کر کامیاب ہوئی ہے، ایسے میں اسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ، عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔
     کیجریوال پر بیٹے کی قسم توڑ دینے کا ابھی الزام عائد کیا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ انتخابات کے دوران انہوں نے اپنے بیٹے کی قسم کھائی تھی کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیںگے۔  بی جے پی لیڈروں کے یہ تمام الزامات اس لئے بے بنیاد ہیں کہ یہاں ’آپ‘کی کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت سازی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ صرف اور صرف دہلی کو دوبارہ انتخابی اخراجات سے بچانے کی کوشش محض ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس اہم فیصلے کیلئے  کیجریوال نے عوام سے رجوع کیا،  بی جے پی اور کانگریس کی طرح  من مانی نہیں کی۔ ویسے بی جے پی اور کانگریس ہی کیا، دیگر علاقائی سیاسی جماعتیں بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں اوران کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہےکیونکہ یکے بعد دیگرے اپنے فیصلوں سے  کیجریوال ہندوستانی سیاست کو اس جانب لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، جہاں عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، ان کی بات سنی جاتی ہے اور حتی الامکان اس پرعمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  یہ باتیں آمریت پسند سیاسی جماعتوں کو بھلا کیوں کر راس آئیںگی۔؟
ٍ    ایک جانب جہاں بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہے، وہیںدوسری جانب کانگریس خوش فہمی کی شکار ہے۔ شروع شروع میں کانگریس کو لگا تھا کہ حکومت سازی کے اعلان ہی سے ’آپ‘ میں انتشار شروع ہوجائے گا اور وزارتوں کی تقسیم تک پوری پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس سمت میں کچھ کوششیں ہوئیں بھی لیکن ابھی تک ’آپ‘ کی جانب سے استقامت ہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کانگریس کے قدموں تلے سے بھی زمین کھسکنی شروع ہوگئی ہے۔ ’آپ‘ کے بجائے  کانگریس میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔ بہرحال کانگریس کاایک بڑا طبقہ آج بھی خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند دنوں میں یہ حکومت گرجائے گی، دوبارہ الیکشن ہوںگے اور پھر نتائج ان کے حق میں ہوںگے۔ ممکن ہے کہ یہ حکومت گرجائے اوریہ بھی ممکن ہے کہ  دوبارہ انتخابات ہوں لیکن مستقبل قریب میں کانگریس کی اقتدار میں واپسی کا امکان بہت کم ہے۔اس کیلئے کانگریس کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف مغربی بنگال، اترپردیش اور بہار میں اپنی تاریخ کا سرسری کا مطالعہ کرلے۔ ایک وقت تھا جب ان ریاستوں کی کانگریس بلا شرکت غیر ے مالک ہوا کرتی تھی مگر اب وہ وقت آن پڑا ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے کیلئے ابھی کسی بیساکھی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس کے باوجود وہ ٹھیک سے اپنی موجودگی درج نہیں کراپاتی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ دہلی میں انہی تینوں ریاستوں کے باشندوں کی اکثریت ہے۔  درمیان کے ایک دو سال کو چھوڑ دیا جائے تو مغربی بنگال میں ۱۹۷۷ء تک، اترپردیش میں ۱۹۸۹ء تک اور بہار میں ۱۹۹۰ء تک کانگریس کی حکومت رہی ہے، لیکن اس کے بعد جب عوام کوان ریاستوں میں کانگریس کا کوئی متبادل مل گیا تو آج تک اسے پھر موقع نہیں دیا۔ کانگریس اگر واقعی اقتدار میں واپسی چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے اوران کے انتشار سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرے۔
    ’آپ‘ کی کامیابی سے سیاسی جماعتوں کی بوکھلاہٹ فطری ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ میڈیا بھی اس میں ایک فریق بن کر سامنے آرہا ہے۔انتخابی منشور میں ’آپ‘ نے عوام سے کچھ ایسے وعدے کئے ہیں، جنہیں پورا کرنا قدرے مشکل ہے  (لیکن ناممکن نہیں)۔ میڈیانے ان وعدوںکی تکمیل کیلئے ’آپ‘ کو گھیرناشروع کردیا ہے۔ میڈیا کے اس قدم پر تنقید نہیں کی جاسکتی لیکن اس کی بدنیتی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نشانے پر صرف ’آپ‘ ہی کیوں؟ کانگریس نے اپنے دورِ اقتدار کی پہلی میقات میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی پر قابو پانے کی بات کہی تھی، میڈیا نے اس کا ’کاؤنٹ ڈاؤن‘ کیوں نہیں کیا؟ کاؤنٹ ڈاؤن کی بات جانے دیں، یہی میڈیا اب یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ مہنگائی پرقابو پانے کا مطالبہ ہی ناجائز ہے اور یہ حکومت کو بلیک میل کرنے جیسا ہے۔ ریلوے کرائے میں  اضافے کی مخالفت پر ممتا بنرجی کو کچھ اسی طرح کے جواب دیئے جارہے تھے۔
     میڈیا حیران و پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ، کیا نہ کرے؟ کس کو خوش کرے اور کسے ناراض؟ عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں وہ ’ آپ‘ کو کوریج دینے پر مجبور ہے، وہیں وہ اس کے ’اندرونی خلفشار‘ کو تلاش کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔  خیر کچھ بھی ہو، یہ بات درست ہے کہ دہلی میں’ آپ ‘ کی حکومت کی تشکیل ، ایک تاریخی  اور انقلابی واقعہ ہے اوراس سے ملک کی سیاسی صورت میں تبدیلی اور بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔