Saturday, 15 December 2012

Musalmano ko reservatiaon-waqt ka aham taqaza

مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا

  1.   مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضا ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی ۲؍اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہ مسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔

  • قطب الدین شاہد

    گزشتہ دنوں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے مسلم ریزرویشن کے موضوع کو ایک بار پھر جھاڑ پونچھ کر ٹھنڈے بستے سے باہر نکالا۔ مسلم ریزرویشن کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کچھ یقین دہانیاں بھی کرائیں لیکن ان کے بیانات سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کی تیاریاں کررہے ہیں۔اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں یہ موضوع خوب گرمایا تھا جب سماجوادی  اور کانگریس  نے نہایت شدومد کے ساتھ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی تھی۔۔۔۔۔ مگر انتخابات ختم ہوتے ہی یہ معاملہ ایک بار پھر سرد بستے میں چلا گیاتھا۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کو اس کی وجہ سے اترپردیش میں حکمرانی کا موقع بھی مل گیا۔  مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضہ ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہمسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل آئیے ایک چھوٹاسا واقعہ ملاحظہ کرتے چلیں۔
    ملّانصرالدین کو ایک بار قاضیٔ شہر کی عدالت میںطلب کیا گیا۔ان پر الزام تھا کہ ایک شخص نے انہیں سردی کے موسم میں عاریتاً کمبل د یاتھا۔موسم گزر جانے کے بعد جب وہ شخص کمبل واپس لینے آیا تو  اس کو پھٹا ہوا کمبل  ملا۔ اس نے شکایت کرنی چاہی مگر ملّا کو نہیں سننا تھا، نہیں سنے۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے۔ مجبوراً اسے قاضیٔ شہر کے پاس جانا پڑا۔ قاضی نے اس الزام پر ملّا کی صفائی چاہی،تو ملا نے اپنی ’بے گناہی‘ ثابت کرنے کیلئے تین باتیں کہیں:
ٓ    اول:میں نے ان سے کوئی کمبل ومبل نہیں لیا تھا۔
    دوم: اور جب کمبل لیا تھا، تو وہ پھٹا ہوا ہی تھا۔
    سوم: اور جب میں نے وہ کمبل انہیں واپس کیا  تھا،تو پوری طرح سے صحیح و سالم تھا۔
    حضور بھلا بتائیے ،  اب اگر وہ کمبل پھٹ جائے میں کیوںکر قصور وار ہوسکتا ہوں؟
    ملا نصرالدین کی یہ باتیں آپ کو بھلے ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہوں،مگر سچ تو یہ ہے کہ مسلم ریزرویشن کے نام پر ہماری مرکزی و ریاستی حکومتیں بھی کچھ اسی طرح کے ’جواز‘ پیش کرتی رہی ہیں اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر ملک کے ’اعلیٰ دماغ‘ سر دُھنتے ہیں۔ ہماری حکومتیںایک پل کچھ کہتی ہیں اور دوسرے پل  نہایت شدومد کے ساتھ اسی کی تردید بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
    آئیے ایک سرسری نظر تاریخی حقائق پر ڈالتے چلیں۔
    جس وقت آزاد ہندوستان کا دستور تشکیل دیا جارہا تھا، پسماندہ طبقات کی وضاحت کا موضوع ایک بار پھرابھرکر سامنے آیا تھا۔قانون ساز کونسل کے ایک رکن نے سردار پٹیل سے سوال کیا تھا کہ کیاپسماندہ طبقات کے زمرے میں اقلیتیں بھی شامل ہیں؟انہوںنے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔ مطلب یہ کہ اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کئے جانے کا وعدہ حکومت نے کیا تھا۔
    مگر اب
    حکومت کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے لئے وہ دستور کی مختلف شقوں کا حوالہ بھی دیتی ہے۔
    لیکن دوسری طرف
    دستور کی دفعہ ۳۴۱؍ اور ۱۹۵۰ ء کے صدارتی حکم نامے کے مطابق طبقۂ دلت میں صرف ہندوؤں، سکھوں اور بدھسٹوں کاشمار ہوتا ہے۔ یعنی دلت کے نام پر  حاصل مراعات سے صرف ہندو، سکھ اور بودھ ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔  یہاںسوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو،سکھ اوربودھ مذہبی گروہ نہیں ہیں۔ ان میں جہاں سکھ اور بودھ اقلیت ہیں، وہیں ہندو اکثریت ہیں۔
    کیا  ملا نصرالدین کی طرح حکومت کے یہ بیانات بھی تضادات سے پُر نہیں ہیں؟ حکومت کہتی ہے کہ :
     اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کیا جائے گا یعنی اقلیتوں(مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر) کو وہ تمام مراعات حاصل ہوں گی، جو دیگر پسماندہ طبقات کو میسر ہیں۔
    لیکن پھر اگلے ہی پل کہتی ہے کہ :
    مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔
    اور پھر اس کے فوراً بعد حکومت کہتی ہے کہ :
    دلت کے نام پر حاصل مراعات سے صرف ہندو ، سکھ اور بودھ مستفید ہوسکیںگے۔
    کیا حکومت کا یہ رویہ مساوات اور یکساں حقوق کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دو طرفہ مسابقت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک وہ اعلیٰ طبقہ جو بارسوخ  ہے اور تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے اور اندھوں کی طرح آپس میں ریوڑیاں تقسیم کرتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جسے ریزرویشن کی سہولت حاصل ہے اور اس کی مدد سے باصلاحیت افراد کو روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس دوطرفہ مقابلہ آرائی میں مسلمان بالکل پس کر رہ گیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بیحد کم ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سول سروسز میں مسلمانوں کا تناسب صرف ۲؍ فیصد کے آس پاس سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے درجے کے سرکاری ملازمتوںمیں یہ تناسب اور بھی کم ہے۔   برعکس اس کے آزادی کے وقت اوراس کے کچھ برسوں بعد تک سرکاری ملازمین میں مسلمانوں کا تناسب ۴۰؍ فیصد کے آس پاس تھا۔
    حالیہ چند برسوں میں حکومت کی ایما پر تشکیل دی گئی ۲؍ اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ثابت ہوچکی  ہے کہ آزادی کے بعد وطن عزیز میں مسلمانوں کی حالت بتدریج روبہ زوال ہے۔  سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت دستاویزی صورت میں ابھر کر سامنے  آئی کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہوکر رہ گئی ہے۔دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کیلئے تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن کی سفارش موجود ہے۔
    اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کیوں ضروری ہے ؟ اس مطالبے کی تین اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ  ریزرویشن  مسلمانوںکا بنیادی حق ہے۔ جب دیگر دو اقلیتوں (سکھ اوربودھ) کو یہ مراعات حاصل ہیں تو مسلمانوں کو کیوں نہیں؟
    دوم یہ کہ ریزرویشن کی سہولت حاصل ہوئے بغیر مسلمان مین اسٹریم میں شامل نہیں ہوسکیںگے۔ وہ دوطرفہ مقابلہ آرائی میں اسی طرح پستے رہیںگے نیزتعلیمی، سیاسی، معاشی اورسماجی سطح پر مزید پسماندہ ہوتے جائیںگے۔
    سوم یہ کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
    مذکورہ تین نکات میں سے ۲؍ پر بالائی سطروں میں مختصر بحث ہوچکی ہے، اب آئیے تیسرے نکتے پر بھی تھوڑی سی گفتگو کرلیںاور دیکھیں کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کئے بغیر ملک کی ترقی کا تصور کیوں کر نہیں کیاجاسکتا؟
    مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت باالفاظ دیگر دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۴ء۱۳؍ فیصد یعنی مجموعی آبادی تقریباً ۱۶؍ کروڑ ہے جبکہ غیرسرکاری رپورٹوں کے مطابق آبادی کا یہ تناسب ۱۸؍ فیصد یعنی ۲۰؍ کروڑ سے متجاوزہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اتنی بڑی آبادی کو ایک سازش کے تحت مین اسٹریم میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تو ملک کی ترقی میں تیز رفتاری بھلا کس طرح آسکے گی؟ذرا سوچئے!وہ طالب علم جو پانچویں تادسویں  اپنے ہم جماعتوںسے برابر کی ٹکر لیتا رہا ہے، بلکہ بسااوقات دو قدم آگے ہی رہا ہے، بارہویں اوراس کے بعد سی ای ٹی، نیٹ اوراس طرح کے دیگر انٹرنس امتحانات میں سہولیات کے فقدان کے سبب اعلیٰ طبقات کے طلبہ سے تھوڑا پیچھے ہوجاتا ہے، اس طرح میرٹ کی انتہاتک نہیں پہنچ پاتا لیکن اپنی محنت کے بل بوتے پرخاطر خواہ اسکورکرنے میں کامیاب رہتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔اسے اُس  وقت انتہائی مایوسی کاسامنا کرنا پڑتا ہے جب ریزرویشن کی سہولت پانے والے اس سے کم مارکس حاصل کرکے   بھی اسے پیچھے کردیتے ہیں اور اس کا منہ چڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہ اس سیٹ پر قابض ہوجاتے ہیں، جس کا وہ خواب دیکھتا رہاہے اورجس کاوہ حقدار بھی ہے۔ ذرا سوچئے ان طلبہ پر آخر کیا گزرتی ہوگی، جو  اِن حالات سے دوچار ہوتے ہیں؟ انجامِ کاراس زمرے میں آنے والے وہ طلبہ جو اپنی صلاحیتوں کااستعمال کرکے ملک کے سنہرے مستقبل کا حصہ بن سکتے تھے،   سازش، تعصب اور غلط پالیسیوں کے سبب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انھیں بھلا  ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے پر کس طرح آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ خدا نخواستہ ایسے میں اگر چند ذہین دماغ ’غلط‘ راستے پر لگ جائیں تو اس کی ذمہ داری  آخر کس کے سر جائے گی؟
    غرض کہ باتیں  توبہت کی جاسکتی ہیںلیکن صرف باتیںکرنے سے مسئلے کاحل تو نہیں نکلے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیلئے حکومت کو آمادہ کیا جائے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اورضروری ہے کہ قانونی سطح پر اس میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ حکومت چاہے تو اس کیلئے راستے نکل سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ اس تعلق سے سنجیدہ ہو اور ایماندارہو۔ کرناٹک اور کیرالا میں جس طرح مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولیت دستیاب ہے، پورے ملک کے مسلمانوں کو بھی ایسی سہولت مل سکتی ہے۔  یہ تمام دشواریاں سیاسی ہیں،قانونی نہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب  مذہب کی بنیاد پرمسلمانوں کو اسکالر شپ مل سکتی ہے تو ریزرویشن کی سہولت کیوں نہیں؟یاد کیجئے  اقلیتوں کے اسکالر شپ پر بھی سنگھ پریوار نے اعتراض کیاتھا اور  اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے اسکالر شپ دیئے جانے کے  حکومت کے فیصلے کو بحال رکھا۔
    مطلب یہ کہ اگر ہمیں ریزرویشن کی سہولت چاہئے تو  متحد و متفق ہوکر حکومت کو اس کیلئے مجبور کرنا ہوگا۔اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے سیاسی سطح پر اس دم خم کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ کام ابھی سے کرنا ہوگا اور اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر ۲۰۱۴ء کے انتخابات سے قبل اس کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو ہم تمام مسلمان متفقہ طور پر حکومت کے خلاف ووٹ دیںگے۔ایک بات اور۔۔۔۔۔۔ یہ ریزرویشن ذات برادری کے نام پر نہیںبلکہ معاشی صورت حال پر کی بنیاد ہونا چاہئے کیونکہ موجودہ سماج میں ذات برادری کا تصور نہیں ہے۔  بصورت دیگر باقی ماندہ مسلمانوں کے ساتھ پھر وہی ہوگا جو ابھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔آمدنی کی ایک معقول حد مقرر کی جائے اور اس سے کم آمدنی والوں کو اس کا حقدار قرار دیاجائے۔یہی مسئلہ کا حل ہے اوراسی میں ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے۔