Monday, 14 November 2011

sardar pura qatl e aam ka faisla......

سردارپورہ قتل عام کا فیصلہ ،خوشگوار ہوا کاایک جھونکا ہے
۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ  سامنے آیا ہے، اسے  گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔
قطب الدین شاہد
سرِ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی کسی سے ٹکرا جائے اور اُس کو بنیاد کر اُسے ایک طمانچہ رسید کردے،تو یقینا اُس شخص کو بہت برا لگے گا اور اُسے شدید تکلیف پہنچے گی۔ ممکن ہے جوابی حملہ کرتے ہوئے وہ بھی اسے ایک تھپڑ جڑ دے اوراس طرح اپنے قلب کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔لیکن اسے اس وقت زیادہ اچھا لگے گا اور دل کو زیادہ قرار آئے گا جب وہ خود کچھ نہ کہے بلکہ اس کی حمایت میں کچھ دوسرے افراد سامنے آئیں اور ظالم کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے مظلوم کی دلجوئی کریں۔ آخرالذکر صورتحال کسی بھی صحت مند سماج کیلئے بہت ضروری ہے۔
    گودھراسانحہ کو بنیاد بنا کر پورے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ یقینا بہت برا تھا، ہولناک تھا، سفاکی تھی،سماج کی صحت کو خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش تھی، لہٰذا اس کی مذمت کی جانی چاہئے ، لیکن اسی کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی۔ اس کے بعد جس پیمانے پربرادران وطن کی جانب سے مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا رویہ اختیار کیا گیا، ان کی دلجوئی کی گئی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جس طرح کی ہمہ جہت کوششیں ہوئیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ گرچہ پوری طرح سے صحت مند نہیں لیکن بہت زیادہ بیمار بھی نہیں ہے کہ اس کا علاج نہ ہوسکے۔
    گودھر ا سانحہ کے تین دن بعد یکم مارچ۲۰۰۲ء کو سردار پورہ میں شیطانوں کا ایک رقص برہنہ ہوا تھا، جس میں ۲۰؍ خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت کل ۳۳؍مسلمانوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔یہ تمام لوگ اس علاقے کے واحد پکے مکان میں محصور تھے، جسے سفاکوں نے آگ کے حوالے کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ جنون اور دہشت گردی کی بدترین نشانی ہے ،جس کاواحد علاج اُن تمام لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے جن لوگوں کا اس قابل نفریں معاملے میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار رہا ہے۔
    گزشتہ دنوں اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ایک خصوصی عدالت نے سردار پورہ قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوں کوعمر قید کی سزا سنائی ہے۔  حالانکہ یہ سزاان کے جرم کی مناسبت سے بہت کم ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے سے مظلومین کی ہمت بندھی ہے، ان کی اشک سوئی ہوئی ہے، انہیں قلبی سکون پہنچا ہے اور ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔اس فیصلے کے بعد برادران وطن کی جانب سے جس طرح کے رد عمل کا اظہار ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کاخون ابھی سفید نہیں ہوا ہے یعنی یہ پوری طرح سے لا علاج نہیں ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کہ کسی بھیڑ کے ذریعہ انجام دیئے گئے قتل عام کی کسی واردات میں اتنے سارے لوگوں کو بیک وقت مجرم ٹھہرایا گیا ہو۔ اس سے قبل بھاگلپورہ فساد کیلئے ایک ساتھ ۱۴؍ لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا تھا۔
    مہسانہ کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج ایس سی سریواستو کے اس بے نظیر فیصلے کے بعد جس طرح کے ردعمل سامنے آئے، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ عوام و خواص نے اس پر کس طرح کے رد عمل کااظہار کیا؟ اور مظلومین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ظالموںکیلئے سنائی گئی اس سزا پر کس طرح کی خوشیوں کااظہار ہوا؟ اس کی ایک چھوٹی سی مثال فیصلے کے دوسرے دن ملک کے مؤقر اور سب سے زیادہ قابل اعتماد انگریزی روزنامے ’دی ہندو ‘ کے اداریے پر ہونے والے تبصرے ہیں، جسے اس کی آن لائن اشاعت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے چنندہ اقتباسات کچھ اس طرح ہیں۔

nکبھی کچھ نہ ہونے سے تھوڑی تاخیر بہتر ہے۔مبارکباد کے مستحق ہیں ایس آئی ٹی کے اراکین جنہوں نے گنہ گاروں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کاانتظام کیا۔ 
   منجو پولیوادھی
n وہ دن گئے جب عدالتیں طاقتور اور امرا ء کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہوا کرتی تھیں۔یہ فیصلہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔   
                                                            سمیت کمار رائے
n    اکثریت کی جانب سے اقلیت کیلئے اٹھائے گئے اس گھناونی واردات کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔مستقبل کیلئے یہ ایک مثال بننی چاہئے اور یہ یقینی بنائی جانی چاہئے کہ جو بھی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اسے اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ 
                                           راجیش ایچ
nاب ہرکسی کو یہ امید ہوچلی ہے کہ بہت جلدامیکس کیوری کی رپورٹ کے ساتھ ایس آئی ٹی اپنی فائنل رپورٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کردے گی جس کی بنیاد پر نریندر مودی سمیت ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کا راستہ ہموار ہوگا جو کسی نہ کسی طرح اس سفاکی میں ساتھ رہے ہیں۔ 
                این تھروناوکاراسو
nاس فیصلے نے متاثرین کوکافی حوصلہ فراہم کیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے سیاست دانوں کے سطحی مفادات کی تکمیل میںدونوںفرقوں کے عام لوگ استعمال ہوتے رہے ہیں۔

                                                                            آر رویندر ناتھ
nتاریخی اور لائق خیرمقدم فیصلہ۔ 
                                               گگن گرگ
nیہ امید بندھی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ۔ 
                       ومل
nہندوستانی عدلیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ 
           ٹی پی نٹراجن
nحالانکہ فیصلہ تاخیر سے آیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارا قانونی نظام مؤثر ہے اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 
                                                                                           امول سکپال
nاس فیصلے نے ’قانون کی حکمرانی‘ والے خیا ل کو استحکام بخشا ہے اور اسے تقویت پہنچائی ہے۔ 
                     ونیت کے سریواستو
nیہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے بہت اچھ ہے جو ملک کے عدالتی نظام میں یقین رکھتے ہیں۔ 
                                                                   رام چندرن پی
      یہ چند اقتباسات ایک مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کے خیالات ہیں جنہیں اس ملک میں ’عام‘ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے یعنی یہ خیالات ان کے دل کی آواز ہیں جن کا اظہار کسی لالچ، مفاد اور دباؤ کے بغیر سامنے آیا ہے ۔ یہ خیالات ثابت کرتے ہیں کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اس کا درد صرف ’ہمارا‘ درد نہیں ہے کہ بلکہ یہ ’ہم سب کا‘ درد ہے۔یہ یقینا ایک بہت اچھی بات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ حلقہ مزید وسیع ہو۔اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس واردات کے متاثرین کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور قانونی جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔شیخ دلاور میاں جنہوںنے اس واردت میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہن کو کھویا ہے اور شیخ غلام علی جن کے خاندان کے ۱۳؍ افراد اس قتل عام کے شکار ہوئے تھے، نے قبول کیا ہے کہ ان تمام گواہوں پر شدید دباؤ ہے، جو انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان کی ہر طرح سے پشت پناہی ہو۔
    ۳۳؍ افراد کے قتل عام کیلئے ۳۱؍لوگوں کیلئے عمر قید کی سزا کافی نہیں ہے۔یقینا یہ تمام زیادہ سخت سزاؤں کے مستحق ہیں لیکن ان حالات میں جبکہ عدالت کو حکومت کی جانب سے تعاون کے بجائے رکاوٹوں کا سامنارہا ہے، یہ فیصلہ قابل ستائش ہے اوراس کیلئے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر کے راگھون اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
    ۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اسے گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔

Monday, 26 September 2011

Shaadiyon men khurafat




شادی میں رسم و رواج کے نام پر خرافات و بدعات کا خاتمہ ، وقت کی اہم ضرورت
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود ا پنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
قطب الدین شاہد
شادی ایک ایساسماجی فریضہ ہے جسے مذہبی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے اس کے طریقے متعین کردیئے ہیں،جس کی مناسبت سے اس کے ماننے والے شادی اور اس کے رسوم انجام دیتے ہیں۔ بعض ممالک نے بھی اس کیلئے رہنمایانہ خطوط اور قوانین  وضع کیے ہیں ۔شادی کے رہنمایانہ خطوط اور اس کے طریقے متعین کرنے کے پس پشت  جوواحد وجہ ہے، وہ یہ  کہ اس سماجی فریضہ کی ادائیگی کیلئے کسی کو کوئی دشواری درپیش نہ ہو۔ یوں بھی شادی کے لغوی معنیٰ خوشی کے ہوتے ہیں لہٰذا طریقے وضع کرتے ہوئے  مذاہب و ممالک کے پیش نظر یہی بات رہی  ہےکہ ان کے پیروکاروں اورشہریوں کو اس رسم سے حقیقی خوشی میسر ہو....لیکن  اب یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا موجودہ سماج میں جس طرح کی شادیاں انجام پاتی ہیں، اس سے فریقین کو واقعی خوشی ہوتی ہے؟
    عصر حاضر میں شادی ایک بوجھ بن کر رہ گئی  ہے  وہ خواہ مسلم ہوں، ہندو ہوں، سکھ ، عیسائی یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوں۔ سماج کے خرافاتی رسم و رواج  کے مضبوط شکنجے سے سبھی کراہ رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک اور دیگر مذاہب میں شادی کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ اس پرگفتگو نہ کرتے ہوئے فی الحال ہم صرف برصغیر  بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی بات کریںگے جہاں کے رسم و رواج تقریباً یکساں ہیں۔یہاںرسم و رواج کا شکنجہ اس قدر مضبوط ہے کہ  مذہب کی رٹ لگانے والے حتیٰ کہ مذہب کی روزی روٹی کھانے والے بھی اس سے آزاد نہیں ہوپاتے اور اگر زیادہ سچائی سے کام لیاجائے تو یہ کہ آزاد ہی نہیں ہونا چاہتے۔ ان موقعوں پر جب وہ ان رسوم کا ایک حصہ ہوتے ہیں، اُن سے شادی سے متعلق مذہبی مسئلے پرگفتگو کی جا ئے تو نظریں چرانے یا پھر بات کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ دال میں نمک یا پھر اس سے بھی کم تعداد میں ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ  ہاں یہ غلط ہورہا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم ہیں اور یہ کہ  اسے روکنے کیلئے ہم  نے  اپنے یہاں ہونے والی شادی کے موقع پر ’یہ ‘ کیا تھا۔
    رسم و رواج کے نام پر جاری ان خرافات و بدعات کے خاتمے کیلئےگزشتہ دنوں بھیونڈی میں سرکردہ شخصیتوں کی ایک مشورتی میٹنگ طلب کی گئی تھی،جس میں سابق ریاستی وزیر، رکن اسمبلی،  ائمہ مساجد،قاضی صاحبان، تمام مسالک کے اہم ذمہ داران،ملی، تعلیمی اور سماجی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ دانشوران قوم  اور ڈاکٹروں، انجینئروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔نصیر احمدمومن کے دولت کدے پر منعقد ہ اس میٹنگ میں جس طرح ایک مختصر سی نوٹس پر احباب جمع ہوئے ،اس سےحبس زدہ کمرے میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے جیسی فرحت اور تازگی کا احساس پیدا ہوا۔بہت ساری تجاویز کے ساتھ جب دوسری میٹنگ تک کیلئے اس روز کی مجلس کےملتوی ہونے کااعلان ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ انشاء اللہ آئندہ چند برسوں میں بھیونڈی ملک کے دوسرے علاقوں اور خطوں کیلئے قابل تقلید نمونہ بن کر سامنے آئے گا۔ 
    آئیےدیکھتے ہیں کہ یہ رسم و رواج جو خرافات کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں،کس حد تک ہیں ، کیوں ہیں اور اس کے تدارک کی کوششوں میں ہم ناکام کیوں ہیں؟آج ہمارے سماج میں شادیوں کو اتنامشکل اور مہنگابنا دیا گیا ہے کہ یہ ایک سماجی اورقومی مسئلہ بن گیا ہے اوران تمام مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ جہیز ہے۔ جہیز کی وجہ سے  وطن عزیز کی بہت ساری لڑکیاں  اپنا گھر بنانے  اور بسانے میں ناکام ہیں۔اسے شادی کا ایک لازمی جز بنادیا گیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کا متوسط اور اس سے کمزور طبقہ شادی کے نام سے ہی خوف زدہ  ہوجاتا ہے، اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی کے گھر میں لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو جشن کے بجائے لوگ اسے پُرسے اور تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ جس گھر میں دو چار لڑکیاں ہوتی ہیں، جوں جوں اُن کی عمروں میں اضافہ ہوتا ہے، والدین کے ساتھ دیگر اہل خانہ کی راتوں کی نیند  اوردن کا چین غائب ہوتا جاتا ہے۔
     زمانہ جاہلیت میں عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیے جانے کا رواج تھا  لیکن اس کی وجہ جہیز نہیں تھی بلکہ کسی کو داماد بنانا ذلت تصور کیا جاتاتھا لیکن آج جہیز کی وجہ سے ایک بار پھر اس رسم کا اعادہ کیاجانے لگا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زندہ درگور کیے جانے کی بجائے اب قبل از پیدائش ہی اس بچی کا قتل کردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جہیز کے تدارک کے لیے حکومت ہند نے بھی سخت قوانین مرتب کیے ہیں اور یہاں آباد تمام مذاہب کے لوگ بھی یک زبان ہوکر اسے غلط قرار دیتے ہیں مگر افسوس کہ یہ رسمیں روز بروز ہمارا گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں۔
    برصغیر میں ہونے والی شادیوں پر ہندورسم و رواج کا غلبہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب  ہرگز نہیں کہ ان شادیوں میں انجام دیئے جانے والے رسوم ان کے مذہبی عقیدے ہیں۔ نہیں بلکہ اس کا راست تعلق سماجی حالات سے رہا ہے جسے بعد کی نسلوں نے اچھا برا سمجھے بغیر بعض نے من و عن تو بعض نے معمولی ترمیم کے ساتھ قبول کرلیا ہے۔  اس میں منگنی، بارات، ہلدی مہندی، منہ دکھائی،الوداعی اور نہ جانے کیا کیا رواج ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ ہماری شادیوں میں جہیز کے بعد دوسری سب سے بڑی لعنت بارات اور انہیں کھلائے جانےوالے کھانوں اور پکوانوں کی ہے۔وطن کے بعض گوشوں میں اگر جہیز کے نام پر مطالبہ کا تصور نہیں ہے  یا کم ہے ، تو وہاں بارات ایک بڑا مسئلہ ہے اوراس کی وجہ سے لڑکیوں کے والدین اور سرپرستوںکی حالت خراب رہتی ہے۔شادی میں صورت اور سیرت کو آج ثانوی   بلکہ اس کے بعد کی حیثیت دی جاتی ہے۔ پہلے جہیز پر بات ہوتی ہے اوراس کے بعد بارات کی تعداد اوراس کی خاطر مدارات پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ میزبان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو کس طرح کا کھانا کھلائے اوران کی کس طرح خاطر تواضع کرے؟ اس کیلئے ہم سب اور   وہ تمام لوگ ذمہ دار ہیں جو اس کے خلاف آواز بلند نہیں کررہے ہیں۔
    کہاجاتا ہے کہ بارات کا طریقہ ہم نے ہندوؤں سے اخذ کیا ہے لیکن  یہ بھی ان کا مذہبی طریقہ نہیں ہے بلکہ اس رسم کو انہوں نے راجپوتوں سے مستعار لیا ہے۔ راجپوتوں میں شادی کا تصور یہ تھا کہ جس کو جہاں کوئی لڑکی پسند آجائے، وہ وہاں پر حملہ آور ہوتا تھا اور طاقت کے بل پر اسے اُٹھا لاتا تھا۔یہاں اسی رسم کا احیاکیا گیا ہے۔ اسی لیے دولہے کو گھوڑے پر بٹھایا جاتا ہے اوراس کے ساتھ بارات کی شکل  میں پوری ایک فوج ہوتی ہے ۔شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ ہندوؤں کے بعض طبقوں میں آج بھی جب بارات ان کے دروازے پرپہنچتی ہے تو علامتی طور پر کچھ لوگ  لاٹھی لے کر بارات کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔  ہوتا یہ تھا کہ فاتح فوج اپنے مفتوح کو غلام بنا لیتی تھی ، پھر نہ صرف وہ لوگ اس لڑکی کو اٹھا لاتے تھے بلکہ وہاںدوران قیام ان سے خاطر مدارات کرواتے تھے اور ان سے خدمت بھی لیتے تھے۔تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ ہم نے بھی بارات کو وہیں سے مستعار لیا ہے۔
    بارات میں جانے والے اپنے آپ کو فاتح فوج کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اورمیزبان کی ذرا سی کوتاہی پر نہ صرف اسے برابھلا کہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔
    شادی کے نام پر سماج میں در آئے اس رسم و رواج سے آج سبھی یکساں طورپر پریشان ہیں۔اس اعلیٰ طبقے کو جانے دیجئے جس کے پاس پیسے کی فراوانی ہے اور جن کی تعداد وطن عزیز میں۲؍ فیصد سے زائد نہیں ہے، بقیہ ۹۸؍ فیصد شادی کے نام سے ہی لرز اٹھتے ہیں۔یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ ان رسوم سے صرف لڑکی اوراس کے اہل خانہ پریشان ہوتے ہیں، نہیں بلکہ لڑکے والوں کی پریشانی بھی کم نہیں ہوتی  حتیٰ کہ دعوت کھانے والوں پر بھی شادی میں شرکت ایک بار ہوتا جارہا ہے۔لڑکی کے والدین پر جو بوجھ پڑتا ہے وہ تو ہے ہی، رسوم کے نام پر ہونے والے اخراجات سے لڑکے والوں کی بھی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور اسی طرح دعوت کھانے والوں کو بھی ’لفافے‘ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
     مگر افسوس کی  بات ہے کہ اسے ہرکوئی مسئلہ تسلیم کرتا ہے، اسے لعنت سمجھتا ہے اوراس کا خاتمہ چاہتا ہے مگر جب بات اس کی آتی ہے تو وہ ’خوشی خوشی‘ اس پریشانی کو اپنے سر اوڑھ لینا چاہتا ہے۔ زمین جائداد بیچ کر، یہاں وہاں سے قرض حاصل کرکے دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوتا ہے لیکن رسوم سے علاحدگی اختیار نہیں کرتا۔ انہیں یہ جملہ مارے ڈالتا ہے کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘؟..... کچھ نہیں کرنا چاہتے تو لڑکے والوں کی ’دباؤ‘ سے خود کو گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو  پھر اس  کےخاتمہ کی کس طرح  امید کی جائے؟ یہ تو سگریٹ کا اشتہار ہوگیا کہ ’اسے پینا صحت کے لیے مضر ہے‘  دیکھتے ہوئے بھی لوگ اسے پیتے ہیں اورسماج میں ایک ’ رتبہ‘ حاصل کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد کینسر  کے شکار ہوکر دنیا کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔
    شادی یعنی خوشی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ بالکل۔ لیکن اس کے لیے ہمیں   اس خوشی کے راستے میں حائل رسوم و رواج کا قلع قمع کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سے مراد ہرکسی کی انفرادی کوشش ہونی چاہئے جو بعد میں خود بخود اجتماعی ہوجائے گی۔ کہاجاتا ہے کہ ایمان کے تین درجے ہیں۔ اول یہ ہے کہ براہوتے ہوئے دیکھو تو اسے بزور طاقت روکو، اگریہ ممکن نہ ہوتو زبانی روکو اوراگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل میں برا سمجھو۔ اب ہمیں  خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ہم ایمان کے کس درجے میں ہیں؟ کیا ہم ایمان کے تیسرے درجے میں بھی نہیں ہیں کہ ان خرافات کو دل سے براسمجھ کر خود اس سے دور ہوسکیں؟
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود  اپنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
    اور ایک اہم بات۔ ہم جب بھی کوئی اچھا عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو شیطان ہمیں بہکاتاہے، مختلف تاویلات اوردلیلیں دیتا ہے اور ہمارے برے کاموںکو درست ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم  اپنے عزم کے تئیں کتنے مستقل مزاج ہیں ۔  اس کیلئے اپنا احتساب آج سے ہی کرنا ہوگا،کسی خصوصی موقع کے انتظار کے بغیر،  اور پھر ہم دیکھیں کہ ہم ایمان کے کس درجے  میں ہیں؟

Saturday, 20 August 2011

Anna Hazare ko awami himayat kyun mil rahi hai?

انا ہزارے کو عوامی حمایت کیوں مل رہی ہے؟
 انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور خود وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں  کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
قطب الدین شاہد
دیکھتے ہی دیکھتے انا ہزارے ملک کے نئے گاندھی بن گئے ہیں۔ انہیں جو عوامی حمایت مل رہی ہے، وہ غیر معمولی اورغیر متوقع ہے۔اس کا اندازہ نہ تو ان کے حامیوں کو تھا اور نہ ہی مخالفین کو۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا راتوں رات انا ہزارے میں سرخاب کے پر لگ گئے کہ رالے گن سدھی نامی ایک غیر معروف گاؤں میں محدود پیمانے پر فلاحی کام کرنے والے ایک نیم خواندہ شخص کی شہرت و مقبولیت مہاراشٹر کی سرحد پارکرتے ہوئے نہ صرف ملک گیر ہوگئی بلکہ ان کاچرچا بر صغیر ہندوپاک سے ہوتے ہوئے سات سمندر پار برطانیہ اور امریکہ میں بھی ہونے لگا؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں ایک دوسرے سوال پر غور کرنا ہوگا....... وہ یہ کہ انا ہزارے کو جو یہ عوامی حمایت مل رہی ہے ، کیا وہ واقعی انا کی شخصیت کو مل رہی ہے یا ان کی تحریک کو؟ہمیں یقین ہے کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس میں انا ہزارے کی شخصیت کا کچھ خاص دخل نہیں ہے بلکہ اصل کمال ، اس موضوع کا ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے۔ حالانکہ انا ہزارے کو کرشماتی ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے ان کے معتقد رام دیو کا حوالہ دیتے ہوئے  کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف تحریک تو انہوں بھی چھیڑی تھی ، پھر کیا وجہ ہے کہ مقبولیت صرف انا کے حصے میں آئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رام دیو کی تحریک بدعنوانی کے خلاف تھی ہی نہیںبلکہ وہ ایک سیاسی ڈرامہ تھا۔ بہت جلد یہ باتیں عوام کے سامنے آگئی تھیں کہ وہ محض ایک سیاسی مہرے تھے ۔دراصل بدعنوانی کےخلاف انا ہزارے کی تحریک کو کچلنے کیلئے حکومت نے ہی انہیں اس ڈرامے کے لئے آمادہ کیا تھا لیکن رام دیو ایک ساتھ دو کشتیوں کے سفر کا مزہ لینے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس بھی خوش رہے اور آر ایس ایس کا مفاد بھی پورا ہوجائے  یعنی باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ مگر بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آگئی اوراس طرح رام دیو کے ساتھ ساتھ حکومت کی سازش بری طرح ناکام ہوگئی۔اس میں سب سے زیادہ نقصان رام دیو کا ہوا کہ ان کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہوگیا اور وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
    خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں۔ آئیے پھر آتے ہیںا صل موضوع کی طرف۔انڈیا اگینسٹ کرپشن نامی تنظیم بنا کر انا ہزارے جب بدعنوانی کے دیوقامت  بت سے ٹکرائے تھے تو ۹۹؍ فیصد ہندوستانیوں کو محسوس ہوا تھا کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی اور سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہیں اوراس پر فوری روک چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تین ماہ قبل جب اناہزارے نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جنتر منتر پر بھوک ہڑتال شروع کی تھی تو ان کی تعداد بہت قلیل تھی لیکن چونکہ موضوع میں اپیل تھی لہٰذا  ’لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا‘ کے مصداق  دیکھتے ہی دیکھتے وہ تحریک ملک گیر ہوگئی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور مغربی بنگال سے کیرالا تک ان کی حمایت یعنی بدعنوانی کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔اس وقت حکومت نے ’مصلحت‘ کا مظاہرہ کیا اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انا ہزارے ٹیم کی شرائط کو جزوی طورپرتسلیم کرلیا تھامگر اس کے تیور بتارہے تھے کہ اس نے نوشتۂ دیوار ابھی تک نہیں پڑھا ہے بلکہ اس کی کوششیں صرف اور صرف اس تحریک کی دھار کو کند کرنے کی ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ باتیں سامنے بھی آگئیں کہ مختلف حیلوں اور بہانوںسے حکومت سول سوسائٹی کے اراکین کو پریشان کرکے  اور دھمکیوں کے ذریعہ انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتی رہی ہے۔
    بلا شبہ ۹۹؍ فیصد عوام بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیںلیکن ایک فیصد ایسے بھی ہیں جو ایسا نہیں چاہتے۔یہ وہ لوگ ہیں جو راتوں رات لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھر ب پتی بنتے جارہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ذہین اور چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ عیار بھی  ہیں اور لوگوں کے ذہنوں پرا ثر انداز ہونے کا ہنربھی جانتے ہیں۔  اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی ان کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ ملک کے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان لوگوں نے اعتراضات کی شکل میں طرح طرح کے شوشے چھوڑرکھے ہیں۔کچھ نے انا ہزارے کو لعن و طعن کا نشانہ بنایا ہے تو کچھ جن لوک پال میں خامیاں نکال رہے ہیں تو چند اس تحریک کو ہی بے معنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ بیچارے یہ معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ یہ انا ہزارے، کیجری وال، شانتی بھوشن اور کرن بیدی کا معاملہ نہیں ہے، یہ جن لوک پال کی منظوری اور نا منظوری کا بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے جس کی نمائندگی ہندوستان کے ۱۲۵؍ کروڑ افراد کررہے ہیں۔آئیے ایک نظر ان اعتراضات پر بھی ڈالتے چلیں جو اس تحریک کو بے جان کرنے  کے مقصد سے اچھالے جارہے ہیں۔
     پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ قانو ن سازی کا کام پارلیمنٹ کا ہوتا ہے، انا ہزارے کون ہوتے ہیں؟....... بات بالکل صحیح ہے۔ یہ ذمہ داری پارلیمنٹ ہی کی ہے مگر ہم آپ اور سب دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ۳۰؍ برسوںسے اس بل کا کیا حشر ہورہا ہے؟ اگر حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہوتا تو اس کی نوبت ہی کیوں کر آتی؟ رہی بات انا ہزارے کی تو یہاں ایک بار پھر وہی بات دوہرانی ہوگی کہ یہ معاملہ انا ہزارے کا نہیں بلکہ عام ہندوستانیوںکا ہے۔بلاشبہ اراکین پارلیمان بھی عوام کے ہی منتخب کردہ ہیں مگر دیکھااور محسوس کیا جارہا ہے کہ ایوان میں پہنچتے ہی ان میں سے  بیشتر عوام کے بجائے خواص کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں یہ اعتراض بالکل بیجا ہے کہ جن لوگوں کو قانون سازی میں دلچسپی ہے، وہ پہلے ایوان میں پہنچنے کاانتظام کریں۔ اول تو یہ کہ عوام کو قانون سازی سے نہیں بلکہ فی الحال بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے اور دوم یہ کہ عوام جب حکومتوں کے سامنے خود کوبے بس پاتے ہیںتوایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ تیونس اور مصر اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ ہمارے حکمرانوںکی طرح حسنی مبارک بھی اقوام عالم  کے سامنے یہی کہہ کر بغاوتوں کو دبانے کی کوشش کیاکرتے تھے کہ ہم تو جمہوریت کے علمبردار ہیں، جو بھی چاہے اس راستے سے آکر اقتدار کی باگ ڈورسنبھال سکتا ہے.....مگردنیا نے دیکھا کہ عوام جب سیل رواں کی طرح آگے آئے تو حسنی مبارک خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔
    سرکاری لوک پال بل اور جن لوک پال بل .....ان دو مسودوں میں کون سا بہتر ہے ؟اس کا اندازہ فی الحال ہمیں نہیں ہے۔اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا بل زیادہ کارگر ہے تو اسے عوام کوسمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔بصورت دیگر اگر عوام کی جانب سے کوئی اچھی بات آرہی ہے تو اسے تسلیم کرلینے میں حکومت کو کسی قسم کی قباحت کامظاہرہ نہیں کرناچاہئے۔اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔  ویسے بھی جمہوری حکومتیں عوام کے ذریعہ اورعوام کیلئے ہوتی ہیں۔اسے اقتدار کو چیلنج کرنے والی بات نہیں سمجھنی چاہئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اگر ایک مطالبہ تسلیم کر لیں تو پھر کل چند سرپھرے دوسرے مطالبات کے ساتھ حکومت کو گھیرنے کی کوشش کریںگے۔اول تو یہ کہ ایسا ہوگا نہیں، دوم اگر ہوا تو اسے اس قدر عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی اورسوم اگر ایسا ہوا بھی اوراسے عوامی حمایت بھی حاصل رہی تو ......تو پھراسے تسلیم کرلینے میں حرج ہی کیا ہے؟حکومت کا کام ہی عوام کے مفاد کاخیال رکھنا ہوتا ہے۔
    ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انا ہزارے اُس وقت کہا ں تھے ؟ جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی،ممبئی میں فسادی خون کی ہولی کھیل رہے تھے اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوستان کے بد ترین واقعات ہیںاور ان پر وہ تمام ہندوستانی خون کے آنسو روئے ہوں گے جن کے دلوں پر مہر نہیں لگی ہے...... لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ تمام معاملات میں تما م لوگ سامنے آئیں۔جو لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کررہے ہیں، انہوں نے اس وقت اپنا رول بخوبی انجا م دیا۔یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے، اسے انہیں کرنے دیجئے۔کسی ایک فرد یا ایک گروہ سے ہرطرح کی توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیںا ور ممکن بھی نہیں ہے۔ ٹیلی فون محکمے میں ہم پانی  کےکنکشن سے متعلق شکایت لے کر جائیںگے تو لوگ محکمے پر نہیں بلکہ خود ہم پر ہنسیںگے۔
    ہم میں سے ایک طبقہ انا ہزارے کی تحریک کو اس لئے بے معنیٰ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف آر ایس ایس کی حمایت سے ہی کوئی اچھی چیز بری ہوجاتی ہے؟میرے خیال سے ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر اور حق و ناحق دیکھتے ہوئے ہمیںکسی کی حمایت یا مخالفت کرنی چاہئے۔کچھ دنوں قبل لال کرشن اڈوانی نے زانیوں کو سنگسار کرنے کا مطالبہ کیا تھا، خیر وہ خود ہی اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے لیکن کیا ہم اس مطالبے کی محض اس لئے مخالفت کریںگےکہ یہ آواز آرایس ایس کے گھرانے سے بلند ہوئی ہے؟
    خلاصہ ٔ  تحریر یہ کہ موجودہ حالات میں انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
     ابھی بھی بہت زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ حکومت چاہے توابھی بھی سنبھل سکتی ہے۔

Saturday, 23 July 2011

عوام کی خاموشی

عوام کی خاموشی ہی بدعنوانوں کو
بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے
ان دنوں صورتحال یہ ہے کوئی دن کوئی اخبار خالی نہیں جاتا کہ اس میں بدعنوانی کی کوئی خبر شامل نہ ہو۔ ٹوجی اسپیکٹرم  کی تقسیم میں بے ضابطگی کا معاملہ ہو، یا دولت مشترکہ کھیلوں کے انتظامات میں ہونے والی خرد برد کا، نوٹ کے بدلے ووٹ کا معاملہ ہو یا پھر کان کنی مافیا کا۔آئی پی ایل  گھوٹالے کی بات ہو یا پھر اسی طرح کا کوئی اور معاملہ..... افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گھوٹالوں کو پڑھ کر عوام چیں بہ جبیں ہونے کے بجائے محظوظ ہوتے ہیں.....  اور  اگر محظوظ نہیں ہوتے ، تب بھی کچھ ’ایکشن‘ نہیں لیتے، کسی رد عمل کااظہار نہیں کرتے۔ عوام کی یہی خاموشی دراصل  ان بدعنوانوں کو بدعنوانی کی ترغیب دیتی ہے۔
قطب الدین شاہد


بدعنوانی ہمارے سماج میں اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ وہ اس کاایک اٹوٹ حصہ معلوم ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں عیب اور گناہ تصور کی جانے والی بدعنوانی آج کے سماج میں فن اور ہنر کادرجہ حاصل کرگئی ہے۔موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کسی بڑے بدعنوان کا تذکرہ آتا ہے تو نفرت اور غم و غصہ کے اظہار کے بجائے  لوگ باگ اس پر عش عش کرتے ہیں اوراسے اس شخص کی قابلیت اور کارنامہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تاریخ اور جغرافیہ سے پوری واقفیت ہونے کے باوجود کسی تقریب کی افتتاح اور صدارت کے لئے ہم انہیں ہی بلاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ایسا کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو، خواہ یہ ہماری بے حسی ہو یا بے بسی لیکن ہمارے اس عمل سے سماج کے ان غیر سماجی عناصر کو تقویت ملتی ہے اور پھر وہ مزید جوش وخروش سے بدعنوانی کے نئے محل کی تعمیر میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔وہ براہ راست نہ سہی مگر بالراست ہمارا ہی خون چوستےہیں مگر افسوس کہ ہم اپنی تکلیف کاا ظہار بھی کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔اب توان میںشرم بھی باقی نہیں رہی کہ راز فاش ہوا تو عوام کو منہ کس طرح دکھائیںگے؟ بلکہ اس بات کا بھی خوف نہیں رہا کہ پکڑے گئے تو کیا ہوگا؟غالباً اکبر الہٰ آبادی نے ایسے لوگوں کے لئے ہی لکھاتھا  کہ ’دے کے رشوت پھنس گیا ، لے کے رشوت چھوٹ جا‘۔
    گزشتہ دنوں ٹرین میں تین افراد کے ایک گروپ کے درمیان  ہونے والی ایک بحث نے ہمیں اس طویل تمہید کی ضرورت پر اُکسایا، ورنہ اپنی بات سیدھے سیدھے بھی کہی جاسکتی تھی۔وہ بحث بہت دلچسپ تھی، جس میں ایک طرف دو لوگ  تھے جنہیں بطور علامت ہم اکثریت لکھیںگے جب کہ دوسری طرف ایک ہی شخص تھا جنہیں ہم اقلیت سے مخاطب کریںگے۔ اے راجا، سریش کلماڈی، کنی موزی، شرد کمار، دیاندھی مارن، شاہد بلوا، نیرا راڈیہ، برکھادت، اشوک چوان، سنجیو سکسینہ، سہیل ہندوستانی، امرسنگھ اوریدی یورپا جیسی ’بڑی‘ شخصیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان میں سے ایک ان سب کی تعریفیں کررہا تھا جب کہ اس کا دوسرا ساتھی اس کی تائید کررہا تھا۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ ان لوگوں  کے اندر اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ایک ’تڑپ‘ پائی جاتی ہے، لہٰذاوہ ان کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کوتیار رہتے ہیں۔  اقلیت نے اس کی سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ان کا انجام بھی تو دیکھو۔ عشرت کدوں  میں رہنے والے ان دنوں جیل میں کمبل کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘  اکثریت میں سے ایک نے پہلو بدلتے ہوئے  نئی تاویل پیش کی ، ’’اس طرح کی  خبریں آپ جیسوں کو ’مطمئن‘ کرنے کےلئے تخلیق کی جاتی ہیں ورنہ چند دن قبل کلماڈی کی جیلر کے ساتھ خوش گپی اور چائے نوشی کی خبر بھی آئی تھی۔‘‘
    بالکل نیکی اوربدی جیسا معرکہ تھا۔ اقلیت نے پھر ہمت مجتمع کی اور کہا کہ ’’ان کے لئے یہی سزا کیا کم ہے کہ محل سے انہیں جیل جانا پڑا۔ذرا سوچئے پُر تعیش اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے والوں پر اس وقت کیاقیامت گزرتی ہوگی جب ان کی عیاشی اور آزادی پر پہرہ بٹھایا گیا ہوگا۔اس موقع پر ہمیں اپنے بزرگ استاد اور معروف افسانہ نگار مشتاق بولنجکرکے ایک افسانے ’زنگ لگی تلوار‘ کاایک اقتباس یاد آیا، جس میں انہوں نے تکلیف سے آرام اور خوشحالی سے تنگدستی کی جانب سفر کرنے والوں کی بہت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ وہ اقتباس کچھ یوں ہے....... ’’ زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے بھی چھاؤں میسر ہو تو نعمت معلوم ہوتی ہے مگر زیادہ دیر تک چھاؤں میں رہنے والوںکو لمحہ بھر کی دھوپ بھی بے چین کردیتی ہے۔‘‘
    بحث بہت دلچسپ مرحلے میںداخل ہوچکی تھی۔ اکثریتی گروپنئے جواز کے ساتھ تیار بیٹھا تھا۔ ’’سیاست دانوں کا کچھ نہیں ہوتا۔ چند دنوں تک پریشانی ضرور ہوتی ہوگی مگر پھر ان کے لئے راوی چین ہی لکھتا ہے۔قانون کے جال میں صرف چھوٹی مچھلیاں ہی پھنستی ہیں۔ بوفورس اور تابوت کے دلالوں کا کیا ہوا؟ حوالہ اسکینڈل، جین  ڈائری اور چارہ گھوٹالوں کے ملزمین میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ سکھ رام اور نرسمہاراؤ کے وارثین کو کس نے در در بھٹکتے دیکھا ہے؟ہرشد مہتا، کیتن پاریکھ اور تیلگی معاملے میں کتنے سیاست دانوں کی جائیدادیں قرق ہوئی ہیں؟جب ان لوگوں کا کچھ نہیں بگڑا تو کون سا نیا انقلاب آگیا ہے کہ موجودہ گھوٹالے بازوں کا کچھ بگڑے گا؟ یہ زمانہ پیسوں کا ہے، پیسہ پھینکو، تماشہ دیکھو، پیسہ نہیں ہے تو زندگی عذاب کی طرح جھیلو۔ جن کے پاس پیسہ ہے، انہی کی حکومت ہے، انہی کی دنیا ہے اور انہی کی زندگی ہے۔‘‘
    یہ بحث جاری تھی، مگر ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے، سو ہمارے لئے ادھوری ہی رہی۔ پتہ نہیں کس کی جیت ہوئی اور کون شکست سے دوچار ہوا۔  خیر جب ہمیں دوبارہ تنہائی میسرہوئی تو ایک بار پھر خیالات کا سلسلہ وہیں پہنچ گیا جہاں سےمنقطع ہوا تھا۔ ہم نے سوچا کہ وہ دونوں جو غلط تھے، کیا غلط کہہ رہے تھے؟ سچ ہی تو بول رہے تھے۔  سیاستدانوں سے کیا امید کی جائے؟ وہ تو بس ہر معاملے کو سیاسی عینک سے ہی دیکھتے ہیں۔ کانگریس کو یدی یورپا کی بدعنوانی نظرآتی ہے لیکن اشوک چوان اور ولاس راؤ دیشمکھ میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی، اسی طرح بی جے پی دیاندھی مارن  کے کابینہ سے اخراج کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے لیکن کرناٹک کے وزیراعلیٰ کابھرپور دفاع کرتی ہے۔
    ایسے میںہم یعنی عوام جب تک بیدار نہیں ہوںگے،  بدعنوانوں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے سیاست دانوں کےلئے راوی چین ہی لکھے گا۔اب یہ سوچنا ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے گھر میں ہونے والی چوریوں سے نجات پانے کاانتظام کب کرتے ہیں؟ اور یہ معلوم پڑ جانے کے بعد کہ چور فلاں فلاں ہیں،ان کے خلاف ’ایکشن‘ کب لیتے ہیں؟n

Saturday, 25 June 2011

تعلیمی پسماندگی اور ہم

اکیسویں صدی اور ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی
اکثریتی فرقے سے سوا کام کرکے ہی کوئی اقلیت سرخرو ہوسکتی ہے
 اپنی پسماندگی کا رونا ہم بھی روتے ہیں اور کبھی کبھی حکومت بھی مگر مچھ کے آنسو بہاتی نظر آتی ہے لیکن..... سچ پوچھیںتو اس پسماندگی سے باہر نکلنے کی سنجیدہ کوشش
 نہ ہماری جانب سے ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے۔ ہمیں ہرگز ہرگز یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا تعلق ایک  اقلیتی فرقےسے ہے اور
 کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی فرقے سے سوا کام نہ کرے۔

قطب الدین شاہد
بلاشبہ ہم  نے تعلیمی ترقی کی ہے۔حالیہ چند برسوں میں ہماری تعلیمی شرح اور ہمارے تعلیمی معیار میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ تنویر منیار، بلال مستری، زرین انصاری ، رضوانہ انصاری، الماس سید، مولانا وسیم الرحمن  اور ڈاکٹر فیصل جیسے کئی ستارے آسمان تعلیم پر جگمگائےہیں ......لیکن ان سب کے باوجود اس کارکردگی کو اطمینان بخش ہرگز ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ہمارا تعلق ایک اقلیتی فرقے سے ہے اور کوئی بھی اقلیت اس وقت تک سرخرو نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اکثریتی  فرقے سے سوا کام نہ کرے۔ لہٰذا ان چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہماری حالت تبدیل ہونے والی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔
    سچر کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام   پر آنے سے قبل ہی ہمارے دانشوروں  اور مدبروں نے اس مرض کی تشخیص کرلی تھی اورصاف صاف کہہ دیا تھاکہ ہماری (مجموعی) پسماندگی کی بنیادی وجہ تعلیمی پسماندگی  ہے۔  پوری طرح سے ہم اسے اپنی غفلت اور تساہلی کا نام بھلے ہی نہ دیں لیکن اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ اس کیلئے حکومت ہی مکمل ذمہ دار نہیں ہے۔سچر کمیٹی کے قیام کے اعلان کے بعد ایک ٹیلی فونک گفتگو میںکمیٹی کے ایک  اہم رکن اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد نے کہا تھا کہ ’’رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے مسلمانوں کو یقینا فائدہ ہوگا..... اس لئے نہیں کہ حکومت کچھ کرے گی.... بلکہ اس لئے کہ ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری کمزوری کیا ہے اور ہمیں کہاں زیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘
    یقینا یہ بات ہمارے لئے بہت اہم تھی۔ ہم چاہتے تو سچر کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اپنی پسماندگی دور کرسکتے تھے۔مذکورہ کمیٹی نے اپنے مشاہدے میں یہ بات کہی ہے کہ تعلیم کے تئیں عام مسلمانوں میں جوش و خروش خوب ہے مگر معاشی پسماندگی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے لئے کمیٹی نے حکومت سے چند سفارشات بھی کی ہیں..... لیکن جیسا کہ سید حامد صاحب نے کہا تھا کہ ہمیں حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اس جانب خود قدم بڑھانے کی ضرورت تھی.....بلکہ ضرورت ہے۔تسلیم کہ ہمارے یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے یہاں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جنہیں صاحبِ دولت، صاحب ِ ثروت  اور صاحبِ حیثیت کہاجاتا ہے۔ ہاں!کمی ہے تو اُن کے اخلاص میں ، ان کے احساس میں اور ان کی سنجیدگی میں۔ مستثنیات  سے قطع نظر ان کی اکثریت  قوم کے تئیں بے حس نظر آتی ہے۔  ان حالات میں اگر کہیں سے یہ خبر آئے کہ فلاں جگہ چند  افراد نے قوم کی تعلیمی کفالت کا بیڑا اٹھانے کا عزم کیا ہے تو یقینا ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کی خبریں حبس زدہ کمرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کا مزہ  دے جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے برسات کی اندھیری رات میں کوئی جگنو روشنی بکھیر تے ہوئے یہ پیغام دے رہا ہو کہ اندھیرے کاقلع قمع کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی اور ا نفرادی کوششیں بھی کی جاسکتی ہیں۔
     اگر ہم اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں کہ قوم کو صد فیصد تعلیم یافتہ بنانا اور انہیں کسی قابل بنانے میں حائل تمام دشواریوں کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اپنی بساط بھر کوشش کرنی ہوگی ، خواہ یہ بساط چھوٹی ہی کیوں نہ  ہو..... البتہ اپنے عزم سے ہمیں ثابت کر نا ہوگا کہ ہمارا تعلق کشتیاں جلا دینے والی قوم سے ہے۔
      یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ اسے ہم  قول و فعل کا تضاد کہیں  یامنافقانہ رویہ..... کہ مجلسوں میں ہم قوم کی تعلیم پر ٹسوے بہانے سے بالکل دریغ نہیں کرتے بلکہ ضرورت پڑتی ہے توآٹھ آٹھ آنسو بھی رولیتے ہیں مگر جب بات عملی مظاہرے کی ہوتی ہے تو  اپنے اپنے بلوں میں جا گھستے ہیں یا دوسروں کامنہ دیکھنے لگتے ہیں...... آج ہمارے سماج کا یہی  حال ہے۔ اس طرح کی خبریں اکثر سماعت سے ٹکراتی ہیں کہ دسویں  یا بارہویںمیں ۹۰؍ فیصد سے زائد مارکس حاصل کرنے والا طالب علم محض اس لئے گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے والد کی تہی دامنی کااحساس ہوتا ہے، وہ نہیں چاہتا یا چاہتی کہ اس کے والد اس کیلئے دردر بھٹکیں اور ذلیل و خوار ہوں..... اور بعض تو رسوا ئی  کے بعد  ہمت ہارتے ہیں۔
    یہ کوئی کہانی نہیںہے بلکہ حقیقتاً اس طرح کے بہت سارے واقعات ہر جگہ اور ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ جن بچوں کو اچھے کفیل مل جاتے ہیں، وہ کسی طرح داخلہ پاجاتے ہیں اور بعدمیں سرخرو بھی  ہوتے ہیں مگربہت  سے طلبہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ اپنے ارمانوںکو  بھی پی جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے چادر کی تنگی سے واقف ہوتے ہیں  اور قوم کے رویے سے بھی آشنا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر طرح سے اہل ہونے کے باوجود وہ ذہین بچے داخلہ نہیں لے پاتے..... اور اس طرح  قوم کے ایک ذہن کو کھلنے سے قبل ہی بندکردیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ اس سے قوم کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔
    ممبئی ہو، دہلی ہو، کولکاتہ ہو لکھنؤ ہو یا دیگر چھوٹے  بڑے شہر اور قصبے ۔ تقریباً ہر جگہ یہی صورتحال ہے۔ دیہاتوں کی حالت تو مزید ابتر ہے۔ ہماری قوم میں یقیناً بعض ایسے ٹرسٹ  ہیں اور بعض مخیر حضرات بھی جو تعلیمی کفالت کی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھارہے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے..... بلکہ سچ کہا جائے تو یہ کہ جب کبھی انہیں شمار کرنے بیٹھیں توایک دو سے بات آگے بڑھانی مشکل ہوجاتی ہے۔  
    ایسا بھی نہیں ہے کہ ہماری قوم کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہزاروں روپئے پھونک دیئے جانے کی بدعت اب متوسط طبقے میں بھی وبا کی طرح پھیل گئی ہے۔ شادیوں میں فضول خرچی اور جھوٹی شان کے دکھاوے میں اسراف اب عام سی بات ہے۔ انتخابی دنوں میں پیسے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کارپوریشن کے ٹکٹ اور چھوٹے موٹے سیاسی عہدوں کے حصول کے نام پر لاکھوں روپے لٹانے کی خبریں بھی آتی ہیں مگر ..... افسوس کہ جب ان کے در پر کوئی شخص کوئی مقصد لے کر پہنچتا ہے.....کسی بچے کے مستقبل کی بات کرتا ہے.... تو یہ حضرات پہلے اسے بھرپور نصیحت کرتے ہیں کہ..... یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے برعکس یہ کرتے ...... وہ کرتے.....  اور پھر نصیحت ختم ہونے پر آئی تو بڑی مشکل سے چہرے کے زاویے بگاڑ کر دیئے بھی تو ہزار دو ہزار......  جب کہ اسے ضرورت ہے ۶۰؍ سے ۷۰؍ ہزار روپوں کی۔  ایسے میں دو تین جگہ جانے کے بعد ہی اکثر والدین ہمت ہار جاتے ہیں اور گھر آکر اپنے بچوں سے عاجزی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مناسب ہو تو اپنے ارمانوں کانہیں تو ہمارا  گلا گھونٹ دو کیونکہ کسی کے آگے دست سوا ل دراز کرکے ذلیل و رسوا ہونے کی اب  ہم  میں مزید سکت نہیں رہ گئی ۔
    اس میں قطعی مبالغہ آرائی کا مظاہرہ نہیں ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے،سامنے کی باتیں ہیں ۔ ہمارے سماج میں آج یہی ہورہا ہے۔ حالانکہ وہی لوگ جب کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ڈینگ مارنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ قوم کی حالت پر افسوس کریں گے،  حکومت کو کوسنے کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں کے طلبہ سے اپنے بچوں کا موازنہ کرتے ہوئے ’زمین بنجر‘  ہونے کا ماتم بھی کریںگے۔ اگر ان کا تعلق سیاست سے ہے تو پھر کیا پوچھنا، اسٹیج سے دھواں دھار تقریریں ہوں گی۔ پانی پی پی کر پسینے بہائیںگے اور حاضرین کو یہ احساس دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ قوم کے غم میں ان سے زیادہ دبلا ہونے والابھلا کوئی اورکہاں ہے؟
    کسی قوم کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہوگی جب تک کہ اسے بدلنے کے کیلئے اس قوم کے افراد آگے نہیں آئیںگے۔اس تصویر کو بدلنے کیلئے حالانکہ طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن فوری طور پریہ توکیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے زکوٰۃ اور بینکوں میں اپنے رقوم پر ملنے والے سود کو ہی اس مصرف میں لے آئیں۔ چھوٹی سطح پر دیکھا جائے تو ہر محلے کے دو چار اشخاص مل کرکسی ایک دو طالب علم کے کفیل بن سکتے ہیں۔ کتابیں اور بیاضیں تقسیم کرنے والی جماعتیں بھی  اپنے سابقہ ڈھرے سے ہٹ کر اس رقم سے طلبہ کی کفالت کرکے ہر سال ایک دو طالب علم کو پروفیشنل بنا سکتی ہیں۔ اسی طرح جلسے جلوس پر خرچ کرکے سیاسی شہرت بٹورنے والی جماعتیں بھی دوچار بچوں کی سالانہ کفالت کرسکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو انشاء اللہ  ہمارے سماج میںایک انقلابی تبدیلی رونما  ہوگی۔ رہی بات تشہیر کی تو ہم بھی اس قول پر اعتبار کرتے ہیں کہ ’’جس دن نام ونمود کی خواہش ختم ہوجائے گی، فلاحی کام کم ہوجائیںگے۔‘‘ ہم نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں بہت زیادہ رازداری برتنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ لوگ سامنے آتے ہیں اور سماج کے سامنے اس بات کاکریڈٹ لیتے ہیں کہ ’’ہم اتنے طلبہ کی تعلیمی کفالت کرتے ہیں‘‘  تو کوئی حرج نہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے انہیں یہ کریڈٹ دینی  ہی چاہئے اوراس بات کیلئے ان کی پذیرائی بھی کرنی چاہئے.....کیونکہ اگر ہمیں تعلیمی ترقی کرنی ہے تو ہمیں تعلیمی کفیل بھی پیدا کرنے ہوںگے۔

Saturday, 11 June 2011

رام دیو کی رام لیلا

 
رام دیو کو رام لیلا سے ہردوار پہنچانا اچھا فیصلہ تھا.....
 
جو ہوا، اچھا ہوا، مگر جس طرح ہوا، و ہ اچھا نہیں ہوا!!
 
رام دیو کی حرکتوں کودیکھتے ہوئے انہیںرام لیلا میدان سے ہٹانا ضروری تھا لیکن جس طرح راتوں رات انہیں ہٹایا گیا، وہ کسی بھی طرح درست نہیں تھا۔ ایک جمہوری ملک میں قطعاً اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یقیناً اس میں قصور رام دیو کا بھی ہے لیکن اس سے کہیںزیادہ قصور حکومت کا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یوگا گرو کو شروع سے وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو انہیں حکومت کی جانب سے دی گئی...... وہ کسی بھی طرح اس تکریم کے حقدار نہیں تھے....اس کے باوجودانہیں ہردوار پہنچانے کیلئے جو طریقے استعمال کیے گئے، وہ بھی کسی طرح مناسب نہیں کہے جاسکتے۔
 قطب الدین شاہد
منزل کا تعین نہ ہو تو سفر میں کتنی بھی بھاگ دوڑ کی جائے وہ بے سود اور سعی لاحاصل ہوتی ہے۔ کچھ اسی طرح ان دنوںمرکزی حکومت بھی اندھیرے میںٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آرہی ہے۔ رام دیو معاملے میں اس کے اقدامات میں کسی طرح کی منصوبہ بندی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی.... ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے سمت کااندازہ کئے بغیر دوڑ لگانی شروع کردی ہے، یا پھر ممکن ہے کہ وہ کر کچھ اور رہی ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہے۔
    ۴؍جون کی نصف رات کو نہایت عجیب و غریب طریقے سے حکومت نے بابا رام دیو کو دہلی کے رام لیلا میدان سے اٹھا کر ہردوار پہنچادیا۔ایسا کیو ں ہوا؟ اس سے تقریباً وہ تمام لوگ واقف ہیں،جو رام دیو کے پس منظر اور کانگریس کی نفسیات سے واقف ہیں۔رام دیو کچھ بھی کریں یا کہیں..... ان کی تان بالآخرآر ایس ایس کی حمایت پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ اسی طرح کانگریس کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جس سے اسے کام نکالنا ہوتا ہے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور جیسے ہی اس کا مفاد پورا ہوتا ہے، اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتی ہے....... یہی وجہ ہے کہ حکومت کیلئے اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں رہا کہ ایسا کیا ہوگیاکہ ایک روز قبل سرخ قالین بچھا کر استقبال کی جانے والی اور چارچار اہم وزراء کے ذریعہ خیر مقدم کرائی جانے والی شخصیت اچانک معتوب قرار دے دی گئی....اور معتوب بھی کچھ اس طرح کہ جس شخص کی کل تک وزیراعظم منت سماجت کرتا نظر آتا تھا،اسے معمولی پولیس اہلکاروں کے خوف سے زنانہ لباس اختیار کرکے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔رام دیو کی جو خامیاں حکومت آج بیان کررہی ہے، وہ اس شخص کے اندر راتوں رات نہیں پیدا ہوئیں بلکہ وہ پہلے سے تھیں اور ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کررہا تھا لیکن حکومت کے کانوں پر جوں اس لیے نہیں رینگ رہی تھی کہ اس شخص سے حکومت کے مفاد پر کوئی ضرب نہیں پڑتی تھی بلکہ کہیں نہ کہیںوہ اس کے مفاد میں معاون ہی ثابت ہوتا تھا۔
    سچی بات تو یہ ہے کہ اول تا آخر رام دیو اسی سلوک کے حقدار تھے......مگر یہاں ایک رام دیو ہی کیا......اس طرح کے عناصر کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر جاکر غیر سماجی ہوجاتی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ، وہ آزادانہ طور پر یہاں سے وہاں دندناتے پھرتے ہیں۔حکومتیں عموماًان کی سرپرستی کرتی ہیں اوران پر ہاتھ تبھی ڈالتی ہیں جب وہ ان کی اطاعت سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میںکچھ اسی طرح کی بات نظر آتی ہے۔ ۴؍ جون کی نصف شب میں رام دیو کے خلاف ہونے والی کارروائی اوراس کے بعد حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے بیانات سے بظاہر یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یوگا گرو کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے..... اگر ایسا ہے تو اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے...... لیکن اسی کے ساتھ حکومت کے اس رویے کی مذمت بھی ہونی چاہئے کہ ..... کسی کے خلاف کارروائی اس وقت کیوں، جب وہ حکومت یا کسی خاص جماعت کا مہرہ بننے سے انکار کردے؟ یہ کارروائی اسی وقت کیوں نہیں ہوتی جب وہ جرائم کا ارتکاب کرتا ہے یا اس کے جرائم آشکار ہوتے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پر کئی سنگین الزامات لگائےہیں۔ آئیے ان الزامات کاا یک سرسری جائزہ لیتے ہیںا ور اس کی روشنی میں حکومت کی ’سنجیدگی‘کااندازہ لگاتے ہیں۔ حکومت نے رام دیو پر آر ایس ایس کے اشارے پر ناچنے کاالزام عائد کیا ہے۔  یہ ایک ایسی بات ہے جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ رام دیو نے بھی کبھی اسے مخفی رکھنے کی کوشش کی ہو۔ اب اگر کل کانگریس یہ ’سنسنی خیز انکشاف‘ کرے کہ مودی آر ایس ایس کے مہرے ہیں توکیا ہمیں اس پر بغلیں بجانی چاہئیں؟ ویسے تعزیرات ہند کے لحاظ سے کسی کے اشارے پر ناچناکوئی جرم نہیں ہے، لہٰذا یوگا گرو کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اگر ان کی سرگرمیاں مجرمانہ ہیں تو پھر ضرور ان کے خلاف کارروائی ہو نی چاہئے مگر اس صورت میں رام دیو کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کانگریس کی قیادت والی حکومت ایسا کرے گی؟
    رام دیو پر دوسرا الزام فرقہ پرستی کا ہے۔حالانکہ حکومت اسے الزام کہتی ہے مگر سچائی تو یہ ہے کہ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ محض آٹھویں جماعت تک عصری تعلیم حاصل کرنے والے یوگا گرو سنِ بلوغیت تک پہنچنے سے لے کر اب تک  فرقہ پرستانہ خیالات رکھنے والوں کے ساتھ ہی اُٹھتے بیٹھتے رہے ہیں اور ان کے ’کاز‘ کی کھلی حمایت کرتے رہے ہیں۔سنگھ پریوار کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے رام دیو نے بھی بابری مسجد کی جگہ پر غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے سے رام مندر بنائے جانے کی وکالت کی  ہے اوران عناصر کی حمایت و سرپرستی کی ہے جو فرقہ پرستانہ مہم چلا کر ملک کی فضا مکدر کرتے رہے ہیں۔اگر اسے بنیاد بنا کر رام دیو کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انہی بنیادوں پر یہ حکومت ان کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جو رام دیو کے نظریہ ساز رہے ہیں؟
    حکومت نے رام دیو پربدعنوانی کاا لزام بھی لگایا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ بہت معمولی عرصے میں ایک ایسے شخص نے جس کے لئے دونوں وقت کے کھانے کاانتظام کرنا بھی مشکل تھا، ۱۱؍سو کروڑ روپوں کی ’امپائر‘ کیسے کھڑی کرلی ؟سوال بالکل درست ہے اوراس کی تہہ تک پہنچانا لازمی ہے..... مگر یہاں ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ رام دیو پر بدعنوانی کا یہ الزام ۴؍ جون کے بعد ہی نہیں لگا ہے بلکہ عوامی سطح پر اس طرح کی چہ مگوئیاں ایک عرصے سے جاری ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ حکومت بھی اس سے واقف رہی ہوگی۔ ایسے میں اس بدعنوان شخص کے خیر مقدم کے لئے ۳؍ جون کوحکومت نے ۴؍ ۴؍ اہم وزراء کو کیوں کر تعینات کررکھا تھا جو بڑی بے صبری سے ایئر پورٹ پر ’بابا‘ کے دیدار کیلئے پلکیں بچھائے کھڑے تھے۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں معمولی عرصے میں اس طرح کروڑوں کی ملکیت جمع کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے تعلق سے کہاجاتاہے کہ وہ حکومت کی نظرعنایت سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تعلق سے بھی یہ بات عام ہے کہ ان کے یہاں مالی شفافیت کا فقدان پایا  جاتا ہے۔ بالخصوص رام مندر تحریک کے ذریعہ جمع ہونے والی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ کیا حکومت ان معاملات کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گی؟
    دگ وجے سنگھ نے رام دیو پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ دگ وجے سنگھ حکومت کے نہیں مگر برسراقتدار جماعت کے ایک اہم رکن ہیں، لہٰذا ان کے بیان کو حکومت کا بیان سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دگ وجے سنگھ کے الزام بہت سنگین ہیں....لہٰذا اس پر فوری کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہےکہ کیا حکومت نے واقعی اس معاملے میں کچھ ثبوت جُٹا لیے ہیں، یا یہ صرف ایک زبانی جمع خرچ ہے۔یہ شک اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ دگ وجے سنگھ ’شوشے‘ چھوڑنے میں ماہر ہیں۔ بسا اوقات ان کے ’شوشوں‘ میں صداقت بھی ہوتی ہےلیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔اس کی واضح مثال سخت گیر ہندتوا کی دہشت گردی کا معاملہ ہے۔ دگ وجے سنگھ بہت پہلے سے اس کا ’انکشاف‘ کرتے رہے ہیں مگر وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے انہیں صرف اسی طرح کے بیانات دینے پر مامور کررکھا ہے تاکہ اس سےعوامی رد عمل کا اندازہ لگاتی رہے اور جہاں اسے مناسب لگے کارروائی بھی کرے۔
    یعنی مطلب صاف ہے ۔ رام دیو کے خلاف حکومت کی کارروائیاں اس لئے ہورہی ہیں کہ اس شخص نے کانگریس کا مہرہ بننے کے بجائے آر ایس ایس کا مہرہ بننے کو ترجیح دی۔بڑے تام جھام سے کانگریس نے یوگا گرو کو انا ہزارے کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس ’شخص‘ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔یہاں ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اب حکومت رام دیو کے تمام کچے چٹھوں کا حساب لے گی۔ قطعی نہیں.....یہ کارروائیاں بلکہ یہ دھمکیاں اسی وقت تک ہیں، جب  تک یہ ہنگامے تھوڑے سرد نہیں پڑ جاتے۔حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رام دیو کے ذریعہ مسلح فوج بنانے کی بات ہی اسے تاعمر قید خانے میں زندگی گزارنے پر مجبور کرسکتی تھی لیکن حکومت نے اس کا نوٹس اس طرح لیا ہی نہیں جس طرح لیا جانا چاہئے تھا.... ذرا غور کیجئے کہ رام دیو کی جگہ پر کوئی شیخ یا خان نے اس طرح کی بات کی ہوتی تو کیا ہمارے وزیرداخلہ اسی طرح کی تنبیہ کرتے کہ ’پہلے فوج بناؤ، ہم بعد میں نمٹیںگے‘۔ مطلب یہ کہ ہائی پروفائل ڈرامہ ابھی جاری ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عوامی ردعمل کس طرح کے ہوتے ہیں؟ رام دیو کی عوامی حیثیت نہ تو پہلے ہی تھی اور نہ ہی اب ہے، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت سے عوام کس طرح نمٹتے ہیں؟

Saturday, 4 June 2011

ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 یوگا گرو کا بھوک ہڑتال پر بیٹھنا اور حکومت کا انہیں منانے کی کوشش کرنا
 ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

 مگر ’ اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں ‘کے مصداق کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس نے جو ایجنڈہ تیار کیا تھا، اسے بی جے پی نے اُچک لیا۔ان حالات میں حکومت چاہے تو بدعنوانی کے خلاف سنجیدہ ہوکر  اپنی اس ناکامی کاازالہ کرسکتی ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ  بابا رام دیو کو منانے کے بجائے بدعنوانوں کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ بدعنوانی کا قلع قمع ہوسکے۔

قطب الدین شاہد
زمانہ طالب علمی میں ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی ہماری رہنمائی کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ یہ شخص جو پِٹ رہا ہے، یہی اس ڈرامے کا خالق و ہدایت کار ہے۔ یہ جو کہتا ہے، وہی دوسرے فنکارکرتے ہیں۔‘‘ اُس وقت  ہماری سمجھ میں یہ بات آئی نہیں کہ یہ شخص جو اس ڈرامے کے زیر و زبر کا مالک ہے اور تمام کردار جس کے اشارے کے محتاج ہیں،بھلا خود کیوں پِٹ رہا ہے؟ استفسار پرہمارے دوست نے بتایا کہ یہ اسکرپٹ کا ڈیمانڈ ہے اور یہ کہ ایسا کرکے ہی وہ سامعین سے داد تحسین حاصل کرسکتا ہے......اُس وقت شعور پختہ نہیں تھا، لہٰذابات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی......مگر گزرتے وقت کے ساتھ ڈرامہ اور اسکرپٹ کی اہمیت کاادراک ہوا اور یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ ڈرامہ تو ہماری زندگی کا ایک لازمی جز بن کر رہ گیا ہے۔
     ان دنوں ہم سب کو ایسے ہی ایک  ڈرامے سے سابقہ پڑ رہا ہے، جس کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک حکومت اور دوسرے بابا رام دیو۔ اس کے جزئیات کا بغو ر مشاہدہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ہائی پروفائل ڈرامہ ہےجو اسکرپٹ کے ڈیمانڈاور سامعین (رائے دہندگان) سے داد تحسین پانے کی غرض سے اسٹیج کیا گیا ہے۔ فی الحال اس ڈرامے کی کچھ ہی  باتیں سمجھ میں آرہی ہیں کیونکہ ابھی بہت کچھ صیغۂ راز میں ہے، تاہم  امیدکی جانی چاہئے کہ وقت کے ساتھ پورا منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔
    دراصل کچھ دنوں قبل انا ہزارے اور  ان کی ٹیم نے بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک چھیڑی تھی۔اس تحریک کو زبردست عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے برسرِاقتدارطبقے کے خیمے میں سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ حکومت کو اپنی میعاد مختصر لگنے لگی تھی۔ بروقت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت دو قدم پیچھے ہٹی تھی اور ان کے مطالبات تسلیم کرلیا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی اس نے یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ اس کاانتقام ضرور لے گی۔بابارام دیو کاظہور اسی انتقام کاایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی کارروائی  ہے جس کے ذریعہ حکومت نے ان تمام لوگوں سے انتقام لینے کی کوشش کی ہے جوکسی بھی طرح بدعنوانی کے موضوع پر حکومت کو گھیرنےکی سعی کرچکے ہیں۔ ورنہ اُن کی آمد پر سرخ قالین بچھانا، چارچار نہایت اہم وزرا کے ذریعہ ان کا خیر مقدم کرنا اور وزیراعظم کا انہیں منانے کی کوشش کرنا..... یہ سب کیا تھا آخر؟ کیا حکومت بابارام دیو کے پس منظر سے واقف نہیں ہے؟ آخرانہیں اتنی اہمیت کیوں دی جارہی تھی؟ ذرا چلمن کے پار جھانکنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان ہنگامہ آرائیوں کے پس پشت بابا کو ان کے قد سے بڑا کرنے  اور انہیں انا ہزارے کے برابر کھڑا کر نے کے علاوہ اور کوئی خاص بات نہیں تھی۔
    یوگا گرو کو منانے کی حکومت کی کوششوں پر ڈرامے کا گمان اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اسی حکومت نے بابا سے قدرے بہتر شبیہ رکھنے والے انا ہزارے اور ان کی ٹیم کو نہ صرف یہ کہ اہمیت نہیں دی تھی بلکہ بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش بھی کی تھی اور ابھی بھی کررہی ہے۔ یکے بعد دیگرے اس ٹیم کے  تمام اراکین پر کیچڑ اچھا لے گئے۔ یہاں تک کہ ان الزام تراشیوںسے تنگ آکر کرناٹک کے لوک آیکت سنتوش ہیگڑے نے اس تحریک سے کنارہ کشی کا فیصلہ تک کرلیا تھا۔ ہیگڑے کے خلاف کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کا الزام.... الزام برائے الزام تھا ورنہ یہ کہنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ کرناٹک کے لوک آیکت کرناٹک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیں کرسکے تو انہیں لوک پال کی تحریک نہیں چلانی چاہئے۔ اس موضوع پر دگ وجے سنگھ کو کچھ کہنے سےقبل اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے کانگریس کو مشورہ دینا چاہئے تھا کہ آزادہندوستان میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی  یہ جماعت جب ملک سے غربت، فرقہ واریت اورعدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرسکی تو اسے نہ صرف یہ کہ اقتدار سے  دستبردار ہوجاناچاہئےبلکہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہئے۔ خیر یہ باتیں جملہ معترضۂ کے طور پر آگئیں ورنہ اپنا موضوع بابار ام دیو اور حکومت بالخصوص کانگریس کا ڈرامہ تھا۔
    ہم سے زیادہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ رام دیو کی عوامی شبیہ صاف ستھری نہیں ہے۔شدت پسند ہندوتوا تحریک کی حمایت کے ساتھ ساتھ ان پر اور بھی کئی سنگین الزامات ہیں۔قارئین جانتے ہیں کہ ان کی لیباریٹری میں بننے والی دواؤں میں جانوروں حتیٰ کہ انسانی جسم کی ہڈیوں کے ملنے کے الزامات لگ  چکے ہیں۔ اسی طرح جب انہوں نے جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے کہاتھا کہ یوگا کے ذریعہ ایڈس کی روک تھام کی جاسکتی ہے، تب بھی وہ عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ اس سے قبل ان پر اپنے ملازمین کے استحصال کا الزام بھی لگ چکا تھا جب مارچ ۲۰۰۵ء میں دِوّیہ یوگا مندر ٹرسٹ کے۱۱۳؍ ملازمین نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے بھوک ہڑتال کی تھی۔یہی وجوہات ہیں، جن سے اندازہ تھا کہ رام دیو کو بدعنوانی کے خلاف تحریک کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی، جو انا ہزارے اور ان کی ٹیم کوملی تھی۔ وجہ صاف ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ رام دیو کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کی حمایت میں اگرکہیں کچھ لوگ سڑک پر آتے بھی ہیں تووہ یقیناً آر ایس ایس کے گرگے ہوںگے جو رام دیو کے کندھے پر بندوق رکھ کر یوپی اے حکومت پر نشانہ سادھنے کی کوشش کریںگے۔
    کہاجاتا ہے کہ بابار ام دیو کو کانگریس نے ہی بھوک ہڑتال کیلئے اکسایا تھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ وہ پہلے ایک ’سنسنی‘ پیدا کرے گی اورموقع معقول پاکر اسے بھنانے یعنی بابا کو ’سمجھانے‘ کی کوشش کرے گی اورانہیں بتائے گی کہ بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے اور اس طرح وہ بابا کو ’رام‘ کرلے گی۔حکومت کے منصوبے کے مطابق اس سے عوام و خواص میں یہ پیغام جائے گا کہ بدعنوانی کے خلاف حکومت   بہت سنجیدہ ہے۔ دراصل حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اول یہ کہ بابا کو ’خوش‘ کرکے وہ ان کےہمنواؤں کو بھی اپنے پالے میں کرلے گی، جو کسی نہ کسی طرح بی جے پی کے ووٹ بینک ہیں۔ دوم یہ کہ جن لوک پال بل اوراس بہانے اناہزارے اور ان کی ٹیم کی حمایت کرنے والے   انا ہزارے اوران کی ٹیم سے متنفر ہوجائیں گے کہ یہ لوگ بلا وجہ حکومت کو بدنام کررہے ہیں۔ مگر کانگریس کے پانسے اُلٹے پڑے اوراس کی سبھی تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ بابا کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے کانگریس کے ایجنڈے کو آریس ایس ایس اور بی جے پی نے اچک لیا۔ اور  ایساکیوں نہ ہوتا؟ رام دیو کی وہاںسے پرانی وفاداری جو ہے۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے جتنی توانائی بابا کو منانے پر صرف کی، بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اگر اس کا عشر عشیر بھی محنت کرتی تو اس جِن کو بوتل میں قید کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہوتا جو آج ہمارے سماج میں دندناتا پھررہا ہے۔
    حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈرامہ بازی پر نہیں بلکہ حقائق اور عمل پر یقین کرے........ اوراگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو... یہ ذمہ داری عوام پرعائد ہوتی ہے کہ  وہ حکومت کو یہ باورکرائیں کہ ان کا شعور پختہ ہوچکا ہے، اور یہ کہ وہ حقائق اور ڈرامے میں تمیز کر نا اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔