Wednesday, 22 February 2012

UP election men record polling

اترپردیش میں ریکارڈ پولنگ

عوام کی بیداری سے سیاسی جماعتوں کی نیند حرام

Tuesday, 7 February 2012

UP election and our responsibility

اترپردیش میں پہلے مرحلے کی پولنگ اور ہماری ذمہ داریاں
ووٹ نہ دینا ، ریاست، سماج اور خود کے ساتھ نا انصافی ہے
ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں  میں سے  ایک ایسی فہرست توبن  ہی سکتی ہے جس  سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا  فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔

قطب الدین شاہد
دو دن بعد  یوپی میں ۷؍ مرحلوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے پہلے مرحلے کی پولنگ ہے۔اس مرحلے میں ۵۵؍ امیدواروں کی قسمت کے فیصلے ہوںگے۔ان تمام کی قسمت کے فیصلے کا اختیار آئین و دستور نے جن رائے دہندگان کو سونپا ہے، ان میں  ۲۵؍ سے ۳۰؍ فیصدمسلم ہیں۔ جی ہاں ! سیتا پور، بارہ بنکی، فیض آباد، کانپور دیہات، بہرائچ، شراوستی، بلرام پور، گونڈہ، سدھارتھ نگر اور بستی  کے ان تمام ۵۵؍ اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد خاطر خواہ ہے اور وہ انتخابی نتائج پر پوری طرح سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میں سے بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں وہ، جسے چاہیں ، کامیاب کراسکتے  ہیں اور.... جہاں جِتانے کی طاقت نہیں رکھتے، وہاں بھی، اُن کی حیثیت بادشاہ گر کی ہے،یعنی اگر وہ کسی کو کامیاب نہیں کراسکتے، تو نہ سہی، مگر جسے چاہیں ، اسے شکست سے دوچار کرہی سکتے ہیں۔
    اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنی اس طاقت کو محسوس کرتے ہیں، ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ کیلئے گھر سے باہر نکلتے ہیں اوراپنے امیدواروں   نیز سیاسی جماعتوں کا احتساب کرتے ہوئے اسے سزا یا جزا کا حقدار سمجھتے ہیں..... اورکتنے رائےدہندگان ایسے ہیں جو گھروں اور چائے خانوں میں بیٹھ کر سیاست  پر ’بصیر ت افروز‘ تبصروں   پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔  سچ تو یہ ہے کہ ان  آخرالذکر افراد کو ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔
    اگر کوئی کہے کہ آپ سے آپ کا حق رائے دہی چھین لیا گیا ہے،آپ ووٹ نہیںدے سکتے،تو ذرا سوچئے کہ آپ پر کیا گزرے گی؟  احتجاج، مظاہرے  ، دھرنے ، ہڑتال اور بھوک ہڑتال کے ساتھ ساتھ آپ انسانی حقوق کمیشن اورعدالتوں کے چکر لگائیں گے، انصاف کی دہائی دیںگے اور ناانصافیوں کا رونا  روئیں گے، اپنے ساتھ رَوا رکھے جانے والے تعصب کی بات کریںگے اور ووٹ دینے کے حق کی واپسی کا مطالبہ کریںگے...... امریکہ جیسی ریاست ہائے متحدہ میں ایک عرصے تک کالوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ خود ہمارے ملک میں۱۹۹۵ء  کے ایک معاملے میں الیکشن کمیشن نے   شیوسینا سپریموبال ٹھاکرے کو مجرم قرار دے کران سے ۶؍ برسوں تک کیلئے حق رائے دہی چھین لیا تھا......
    جمہوریت ایک نعمت ہے، اس کے ذریعہ عوام کو اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع دیا جاتاہے لیکن اس کی حقیقی اہمیت کا اندازہ انہی کو ہوگا جنہیں یہ نعمت میسر نہیں ہے  اور جو اپنے حکمرانوں کاانتخاب خود نہیں کرتے بلکہ وہ ان پر مسلط کیے جاتے ہیں۔جس طرح بیماری کے بعد صحت، مفلسی کے بعد دولت، پسینے کے بعد ہوا، بھوک کے بعد غذا ، اسیری کے بعد رہائی  اور غلامی کے بعد آزادی کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح   انہیں بھی ووٹوںکی اہمیت کااندازہ شاید اسی دن ہوگا، جس دن یہ حق ان سے چھین لیا جائے گا۔ خدا نہ کرے ہمارے ساتھ  ایسا ہو!!
    آج بحمداللہ ہمیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہے مگر.... افسوس کہ ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہے.....حالانکہ ہمارے ووٹوں کی قدر وقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام اور بلدیو سنگھ کے ووٹ کی ہوسکتی ہے۔ ووٹوں کی گنتی  کے دوران یہ کہیں نہیںدیکھاجاتاکہ جیتنے والا امیدوار عبداللہ یا عبدالرحمان کے ووٹوںسے فتحیاب ہوا ہے یاکسی اور کے ووٹ سے اور نہ ہی اس کی وجہ سے فاتح کی صحت پر کوئی اچھا یا برا اثر پڑتا ہے۔ یاد کیجئے کہ پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ ایک ووٹ (سیف الدین سوز) نے اٹل جی کی حکومت کی ساری اکڑفوں نکال کر رکھ دی تھی۔
      تین دن بعدیعنی۸؍ فروری کو ہمیں ایک بار پھر ووٹ دینے اور اپنے حکمراں کے انتخاب کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ انتخابات بھلے ہی اتر پردیش میں ہو، مگر اس پر نگاہیں پورے ملک کی ہیں اور وہ خواہ ممبئی ہو یا دہلی، وہاں کے اثرات یوپی الیکشن پر  ہمیشہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بیدار رہنا از حد ضروری ہے۔ ہمیشہ کی طرح اگر اس وقت بھی ہم نے خاموشی، غفلت اورتساہلی کا مظاہرہ کیا تو  پچھتانے کیلئے آئندہ پانچ برس ہی نہیںبلکہ بہت ممکن ہے کہ پوری زندگی بھی کم پڑے۔ یقین جانئے یہاںایک ایک ووٹ کی قیمت ہے۔ ایک ووٹ سے آپ کے پسندیدہ امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ہوسکتا ہے، وہ جیت سکتا ہے، ہار سکتا ہے۔اس کےبرعکس آپ کے ایک ووٹ نہ دینے سے آپ کا ناپسندیدہ امیدوار کامیاب ہوکرآپ کے سینے پر مونگ بھی دَل سکتا ہے۔ کُل ملا کر یہ کہ ملک کے عروج و زوال کا فیصلہ اب آپ کے ایک ووٹ پر ہے۔
    پولنگ کے دن ایک ایک ووٹ کی اہمیت  ہوتی ہے۔ آپ یہ قطعی نہ سمجھیں کہ’ بھلامیرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا؟‘قطرہ قطرہ سمندر بنتا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمیں اس کا بھی خوب اندازہ ہے کہ ہماری اس گمرہی سے یعنی ہمارے ووٹ نہ دینے کے فیصلے سے خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، ہمارے اہل خانہ اور عزیز و اقارب بھی متاثرہوتے ہیں، اوروہ  ووٹ دینے نہیں جاتے۔
    بعض جگہوں پربوگس ووٹنگ ہوتی ہے اور بعض جگہوں پر ووٹ  خریدے اوربیچے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اچھے اور اہل امیدوار منتخب نہیں ہوپاتے..... اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس  کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ یقین جانئے غیر قانونی کام انجام دینے والے وہ عناصر اور چند سکوں کی خاطر بک جانے والے وہ بے ضمیر افراد بھی ہم میں سے ہی ہوتے ہیں اور ہماری خاموشی سے ہی انہیں شہ ملتی ہے۔  یہ کہہ کرہم خود کو تسلی دینے کی بھلے ہی کوشش لیں کہ’ہونہہ! اس میں میرا کیا؟‘، مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو یقیناً  اس جواب سے مطمئن نہیں ہوںگے کیونکہ ان واقعات سے  براہ راست  ہمارا تعلق ہے۔ وہ عناصر جو ہمارے حق پرڈاکہ ڈالتے ہیں اوراپنی غیر قانونی سرگرمیوں سے ہماری قانونی کوششوں کو زک پہنچاتے ہیں، انہیں بھلاکیسے اور کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ دراصل ہم اس کاحساب نہیں لگاتے کہ بوگس ووٹنگ ،  ہماری جائز ووٹنگ کو سبوتاژ کرنے کی ہی  ایک کوشش ہے۔
    ہمارے ملک کے اس کثیر جماعتی نظام میں چند فیصد ووٹوں کے  اِدھر اُدھر ہوجانے سے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ آئیے اس کاایک سرسری جائزہ لیتے چلیںکہ چند فیصد ووٹوں کے کم یا زیادہ ہوجانے سےپارلیمنٹ یا اسمبلیوں کی تصویریںکس طرح تبدیل ہوجایا کرتی ہیں؟
    ۱۹۹۹ء میں بی جے پی نے چند جماعتوں کی مدد سے ملک کے اقتدار  پر قبضہ کیا تھا  اور یہ قبضہ ۵؍ سال تک برقرار بھی رہا تھا لیکن آئندہ یعنی ۲۰۰۴ء میں اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ تیرہویں لوک سبھا میں اسے ۱۸۲؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ چودہویں لوک سبھا میں ۴۴؍ سیٹیں کم ہوکر محض ۱۳۸؍  رہ گئی تھیں..... حالانکہ اس کے ملنے والے ووٹوں میں زیادہ فرق واقع نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۹۹ء میں جہاں اسے ۸؍ کروڑ ۶۵؍ لاکھ ووٹ ملے تھے ، وہیں ۲۰۰۴ء میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد  ۸؍ کروڑ ۶۳؍ لاکھ تھی ۔  دیکھا آپ نے.... کہ کس طرح ۵۴۳؍ حلقوں میں ملنے والے ووٹوں میں صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کی کمی نےاسے برسراقتدار آنے سے روک دیا تھا۔ اسی طرح کانگریس کے اقتدار میں آنے کا سبب بھی ووٹوں کی تھوڑی سی ہیر پھیر  ہے۔  ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو ۱۰؍ لاکھ ۳۱؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی۔ چودہویں لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کوصرف۳؍ لاکھ زائد ووٹ ملے تھے مگرحیرت انگیز طور پر اس کے نشستوں کی تعداد میں ۳۱؍ کااضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اوراسے اقتدار میں آنے کاموقع مل گیا تھا۔ کیا یہ حیران کردینے والی بات نہیں کہ بی جے پی نے صرف۲؍ لاکھ ووٹوں کے خسارے  سے۴۴؍ سیٹیں گنوائیںجبکہ کانگریس کو۳؍ لاکھ ووٹوں کے اضافے سے ۳۱؍  نشستوں کا فائدہ ہوا۔  مزے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۹۹ء میں کانگریس کو کل پولنگ کا ۲۸ء۳۰؍ فیصد ووٹ ملا تھا مگر اس کے نشستوں کی تعداد صرف ۱۱۴؍ تھی جبکہ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں ۲۸ء۵۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ اس کے نشستوں کی تعداد بڑھ کر ۲۰۶؍ ہوگئی تھی۔ اسی طرح دیکھئے کہ ۲۳ء۷۵؍ فیصد ووٹ لے کر بی جے پی نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا جبکہ۲۰۰۴ء میں ۲۲ء۱۶؍ فیصد ووٹ ملنے کی وجہ سے اسے اپوزیشن کی صف میں بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا۔
     ایسا اسلئے ہے کہ بعض نشستوں پر فتح و شکست بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے ہوا کرتی ہے۔کرناٹک کے اسمبلی حلقے میں سانتھے میراہلّی حلقے میں ہارجیت کے درمیان صرف ایک ووٹ کا فرق تھا۔ اسی طرح ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی انتخابات میںلکش دیپ حلقہ سے جنتادل متحدہ کا امیدوارمحض ۷۱؍ ووٹوں سے کامیاب ہوا تھا۔ کرناٹک کے رائچور حلقے سے کانگریس کے امیدوار وینکٹیش نائیک کو  ۵۰۸؍ اور کیرل کے مواتوپوزھا حلقے سے ایڈوکیٹ پی سی تھومس کو ۵۲۹؍ ووٹوں سے کامیابی ملی تھی۔ کچھ اسی طرح دمن اور دیو میں کانگریس امیدوار دیا بھائی پٹیل ۶۰۷؍ اور یوپی کے چھیل پارلیمانی حلقے سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار شیلندر کمار۶۳۰؍ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ کم ووٹوںسے ہار جیت کے سب سے زیادہ معاملے تمل ناڈو  میں سامنے آئے جس کی وجہ سے وہاں ۲۰۰۴ء  کے پارلیمانی انتخابات کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔جے للیتا کی پارٹی کو کل ۸۵؍ لاکھ ۴۷؍ ہزار ووٹ ملے مگر اسے ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں مل سکی تھی ، اس کے برعکس اس کی حریف جماعت ’ ڈی ایم کے‘ اور ’ ایم ڈی ایم کے‘ کو بالترتیب ۷۰؍ لاکھ ۶۴؍ ہزار اور ۱۶؍ لاکھ ۸۰؍ ہزار ووٹ ملے اور ان دونوں نے ۲۰؍ نشستوں پر قبضہ جمالیا۔ یعنی  بہت معمولی ووٹوں نے فتح و شکست کا راستہ ہموار کیا۔
     ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی  الیکشن میں بارہ بنکی، فیض آباد، امبیڈکر نگر، بہرائچ، قیصر گنج، شراوستی، گونڈہ، ڈومریاگنج، بستی، سنت کبیر نگر اور مہاراج گنج کے پارلیمانی حلقوں میں( جہاں ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے میں الیکشن ہونے جارہا ہے) ۲۵؍ سے ۳۵؍ فیصد ووٹ پانے والے امیدوار کامیاب ہوگئے تھے۔
    مذکورہ دوچار مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا ایک ایک ووٹ کس قدر قیمتی ہے؟ یعنی یہ ایک ووٹ نہ صرف امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کر نے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ کا نقشہ بھی ترتیب پاتا ہے۔
    ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر ووٹ دینے کی اہمیت سے انکار کرتے ہیںکہ ’’ان میں سے کسے ووٹ دیں؟ کوئی توہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتا‘‘۔بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان تمام غیرمعیاری امیدواروں  میں سے  ایک ایسی فہرست توبن  ہی سکتی ہے جس  سے اندازہ ہو کہ فلاں امیدوار کم برا ہے، یا  فلاں زیادہ برا ہے۔ کیااس طرح کی صورتحال میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ زیادہ برے شخص کو خود پر مسلط ہونے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے کہ زیادہ برے شخص کو منتخب ہونے سے روکا جائے...... تو پھر معاف کیجئے ، ہمیں یہ کہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہمارے حکمراں اچھے نہیں ہیں یا  یہ کہ وہ غیر ذمہ دار ہیں۔
      دو دن بعد  پولنگ ہے۔ یعنی ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمارا حکمراں کون ہوگا؟کہنے کو تو یہ دن امیدواروں کے امتحان کا ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ امتحان رائے دہندگان کیلئے ہے۔ امیدوار ہارے یا جیتے،  دو چار دن یا بہت ہواتو ایک دو مہینے اس کا تذکرہ ہوگا لیکن رائے دہندگان کے شعوراور  بے شعوری کی باتیں پورے پانچ برسوںتک ہوتی رہیںگی۔بلاشبہ اس معاملے میں اتر پردیش کے رائے دہندگان کی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر ووٹنگ کرتے ہیں، لیکن جس قدر شعور کا مظاہرہ ہونا چاہئے، نہیں ہورہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو  ۴۰۳؍رکنی اسمبلی میں کم از کم ۷۵؍ مسلم اراکین ہوتے۔
    یہاں ایک سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا ووٹ کسے دیں؟ اس سلسلے میں ہمارا خیال ہے کہ سیاسی جماعت کے بجائے ہم امیدوار دیکھ کر ووٹ دیں.... ویسے بھی یوپی کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں آزمائی جاچکی ہیں۔آپ نے کانگریس کا دورِ اقتدار دیکھا ہے، سماجوادی اور بی ایس پی کو بھی مسند ِاقتدار تک پہنچایا ہے ، بی جے پی کا رام راج بھی دیکھ لیا ہے اور ان تمام جماعتوں کے ساتھ اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی کو شریک اقتدار دیکھا ہے۔آزادی کے بعد کی گزشتہ ۶۰؍سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو شدیدمایوسی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہمارے حلقے میں جو امیدوار سب سے بہتر ہو،بلا لحاظ سیاسی جماعت اسے اپنا نمائندہ بنائیں۔ یوپی  میں مسلمانوں کی آبادی کم از کم۲۵؍ فیصد ہے لیکن آزادی کے بعد سے آج تک کسی جماعت نے کسی مسلم کو وزیراعلیٰ بنانے  کے بارے میں نہیں سوچا۔ ایسا اسلئے نہیں ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہم نے اپنی اہمیت اچھی طرح جتائی ہی نہیں۔
     جیسا کہ بالائی سطروں میں یہ بات آچکی ہے کہ ہمارے ووٹوں کی قدروقیمت وہی ہے جو کسی سکھ رام یا بلدیو سنگھ کی ہوسکتی ہے لیکن .... مگر افسوس کہ بحیثیت ووٹر ہماری وہ حیثیت نہیں ہے جو ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ پولنگ کے دن گھروںسے نکلنے اور پولنگ بوتھ تک جانے میں ہماری تساہلی اور غفلت ہے۔جس دن سیاسی جماعتوں کو ہم نے یہ باور کرادیا کہ آپ کی قسمت ہمارے ہاتھوں میں ہے.....یقین جانئے  وہ ہمارے اشاروں کی محتاج ہوجائیں گی۔ حالات کامشاہدہ کریں تو ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں سکھوں کے ایک اشارے پر کانگریس نے یقینی طور پر منتخب  ہوجانے والے اپنے ۲؍ ا ہم امیدواروں جگدیش ٹائٹلر اور سجن کمار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا ..... اس کے برعکس ہم لاکھ چلاتے رہے اور اپنے مطالبات پیش کرتے رہے لیکن ہمارے ان مطالبوں کو ہماری حکمراں جماعتوں نے جوتوں کی نوک پر ہی رکھا ۔ وہ خواہ مہاراشٹر کی کانگریس این سی پی حکومت ہو، مغربی بنگال کی کمیونسٹ اور ترنمول کی یا پھر بہار اور یوپی کی لالو، نتیش، ملائم اور مایاوتی کی حکومتیں رہی ہوں..... یعنی ہم ابھی تک سیاسی جماعتوں کو یہ باور کرانے میں ناکام ہی رہے ہیں کہ ہمارا ووٹ تمہاری فتح و شکست کا ضامن ہے ۔
     یقین جانئے، سیاسی جماعتوں کو ہم بھی اپنے اشاروں کا محتاج بنا سکتے ہیں، لیکن یہ اسی  دن ممکن  ہوگا  جس دن ہم انہیں یہ احساس دلاپانے میں کامیاب ہوںگے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پھر دیر کس بات کی ہے.... جب جاگے تب سویرا کے مصداق، دو دن بعدیعنی۸؍فروری کو  زیادہ سے زیادہ پولنگ کرکے ثابت کردیجئے کہ ہم ایک بیدار قوم ہیں لہٰذا ہمیں نظر انداز نہیں کیا جاناچاہئے ....... اُٹھو، بیدار ہوجاؤ،دیکھو! پولنگ بوتھ آپ کا انتظار کررہا ہے۔

Saturday, 14 January 2012

U P election and political parties......

اترپردیش میں رائے دہندگان کو رِجھانے کی کوششیں شروع

تمام  سیاسی جماعتیں پریشان مگر ووٹر ابھی مٹھی کھولنے کو تیار نہیں،چھوٹی جماعتوں کی موجودگی کے سبب  غیر متوقع  نتائج کی امید

قطب الدین شاہد
 
    ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے ملک کی نگاہیں اتر پردیش الیکشن پرمرکوز دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ اب وہ بات نہیں رہی  جو کسی زمانے میں ضرب المثل کی صورت اختیار کرگئی تھی کہ دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر جاتا ہے..... لیکن یوپی  انتخابات کی اہمیت سے انکار پھر بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لوک سبھا میں پہنچنے والے ہر ۶؍ اراکین پارلیمان میں سے ایک کا تعلق  وہیں سے ہوتا ہے۔
    کُل ۷؍ مرحلوں میں ہونے والےانتخابات کا بگل بج چکا ہے۔  ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے کا الیکشن ہوگا اور اس طرح ۳؍ مارچ کو ساتویں مرحلے کے ساتھ اختتام پذیرہوگا۔ اس دوران ۱۲؍ کروڑ سے زائد رائے دہندگان ۴۰۳؍رکنی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کریںگے۔  پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں، بعض جائزے معلق اسمبلی کی بات کررہے ہیں تو بعض  بی ایس پی پر مہربان ہیں  البتہ کچھ ایسے بھی ہیں جوکانگریس کی مدد سے سماجوادی پارٹی کی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔  ویسے انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پر ۶؍ مارچ سے قبل کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہوگی۔ اس انتخاب میں وہ جماعتیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہےبہت پُرجوش ہیں لیکن وہ جماعتیں جو خود اقتدار میں آنے یاکسی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے کام کررہی ہیں، بہت بری طرح بے چین ہیں۔
     لکھنؤ، گونڈہ، بارہ بنکی، بستی، گورکھپور اوراس سے متصل اضلاع میں   جہاں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی کا زور ہے وہیں اعظم گڑھ، مئو اور اس کے قریب کے علاقوں میں مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل  انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ  باغپت، متھرا اور امروہہ جیسے دہلی کے نواحی علاقوں میں اجیت سنگھ کی زور آزمائی انتخابی نتائج کا رخ موڑ سکتی ہے۔ سونے لال پٹیل کی اپنا دل اور امر سنگھ کی راشٹریہ لوک منچ جیسی جماعتیں بھی سیاسی مساوات بگاڑنے میں اہم رول اد ا کرسکتی ہیں۔  ان تمام جماعتوں میں راشٹریہ لوک دل کے علاوہ کسی کےپاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی میں آر ایل ڈی کے ۱۰؍ اراکین ہیں اوراس مرتبہ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اُتری ہے۔جہاں تک بڑی جماعتوں کی بات ہے، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اقتدار پر قابض ہونے کی بھر پور کوشش کریںگی لیکن کانگریس اور بی جے پی کی ترجیح اپنا پرفارمنس بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسی کو اقتدار  میں آنے سے روکنے کی بھی  ہوگی۔ بی جے پی جہاں سماجواوی پارٹی کو لکھنؤسے دور رکھنے کا لائحہ عمل ترتیب دے گی وہیں کانگریس کی خواہش ہوگی کہ ہوسکے تو وہ  بی ایس پی کے ہاتھی کوراستے میں ہی کہیں روک لے۔
     مضبوط ووٹ بینک کی وجہ سے بلا شبہ اس مرتبہ بھی مایاوتی کا پلڑا بھاری رہنے کاامکان ہے لیکن وہ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوسکیں گی، اس میں شبہ ہے۔ خود اُن کی گھبراہٹ بتارہی ہے کہ وہ بہت ’پُر امید‘ نہیں ہیں۔دلت ووٹ تو خیر اُن کے ساتھ  ہے لیکن ان کا  سوشل انجینئر نگ والا  وہ فارمولہ جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئی تھیں، اب بری طرح فیل ہوچکاہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو اور مسلم ووٹوں کی بدولت  ۲۰۰۷ء کے  الیکشن میں ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں ۲۰۶؍ نشستیں انہوں نے ضرور حاصل کرلی تھیں لیکن یہ طلسم بہت جلد ٹوٹ گیا ، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں ۸۰؍ لوک سبھا سیٹوں میں بی ایس پی کو محض۲۰؍ نشستوں پرہی اکتفا کرنا پڑا۔ بی ایس پی سپریمو کی پیشانی پر آئی شکنیں ۲۰۰۷ء کے الیکشن سے قبل ملائم سنگھ کے خوف زدہ چہرے کی یاد دلا رہی ہیں جب وہ نٹھاری قتل عام کی وجہ سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ملائم سنگھ کرائم کی بڑھتی شرح کی وجہ سے پریشان تھے اوراسی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو مایاوتی کرپشن  کے سبب فکر مند ہیں۔ وزیراعلیٰ کی پریشانیوں کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ۶؍ماہ میں انہوں نے تقریباً ۲۰؍ وزیروں کو باہر کا راستہ دکھایا ہے اور اس طرح اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں جو بدعنوانی کے سبب گزشتہ ۴؍ برسوں میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
    کلیان سنگھ اور امرسنگھ سے چھٹکا راپانے نیز اعظم خان کو دوبارہ اپنے ساتھ لے آنے میں کامیاب ملائم سنگھ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی طرف پُر امید نگاہوںسے دیکھ رہے ہیں..... مختلف دروازوں پر دستک دینے کے بعد ملائم سنگھ کو شاید اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مسلم رائے دہندگان کا اعتماد بحال کئے بغیر وہ لکھنؤ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوسکیںگے۔  یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں نے ہنوز انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے اور یہی بات کانگریس کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہے۔  بی ایس پی سے اقتدار چھیننے میں سماجوادی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب جہاں اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس ہے وہیں پیس پارٹی، علماء کونسل ، اپنا دل اور امرسنگھ کی لوک منچ  بھی اُسے کم نقصان نہیں پہنچائیںگی۔  مشہور سرجن ڈاکٹر ایوب کی پارٹی ابھی نوزائیدہ ہے اور یہ اس کا پہلا اسمبلی الیکشن ہے لیکن ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن اوراس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیس پارٹی نے جس طرح کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۲۱؍ پارلیمانی نشستوں پر پیس پارٹی نے قسمت آزمائی کی تھی، سیٹیں تو ایک بھی ہاتھ نہیں آئیں لیکن ۴ء۵؍ فیصد ووٹ لے کر ۱۸؍ اسمبلی نشستوں پر اپنی برتری درج کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ پیس پارٹی کی جانب سے فی الحال ۲۳۰؍ اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا گیاہے۔ اسی طرح کرمی ووٹوں کی ایک مضبوط دعویدار اپنا دل بھی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں ہے لیکن ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ۱۰ء۴۹؍ فیصد ووٹ لے کر اس نے کئی اہم امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روک دیا تھا، جس میں بیشتر سماجوادی پارٹی کے ہی تھے جبکہ ۲۰۰۲ء کے اسمبلی الیکشن میں اسے ۱۰؍ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
    بدعنوانی کی علامت بن گئے بی ایس پی  کے برطرف وزیر بابو سنگھ کشواہا کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے  بی جے پی کچھ اس بری طرح  سے پھنس گئی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا اُسے کوئی راستہ ہی نہیں سجھائی دے رہاہے۔ کشواہاہندوستانی تاریخ کے شایدایسے واحد لیڈرہیں جنہیں ان کی جماعت (بی جے پی) نے ان کے ’بے گناہ‘ ثابت ہونے تک معطل کررکھا ہے۔ اس طرح کی عجیب و غریب معطلی اس سے قبل   دیکھی گئی تھی، نہ ہی کہیں سنی گئی تھی۔ ان حالات میںبی جے پی کا چوتھے نمبر پر رہنا تقریباً طے مانا جارہا ہے۔کچھ اُلٹ پھیر ہوجائے تو مزید پیچھے جاسکتی ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کی پوری کوشش سماجوادی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی  ہوگی، اس لئے جہاں بھی اسے موقع ملے گا، خاموشی سے بی ایس پی کی مدد کرنا چاہے گی۔
    گزشتہ انتخابات کے مقابلے کانگریس نے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنالی ہے لیکن ۱۹۸۹ء سے قبل کی پوزیشن بحال ہوجائے گی، اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ راہل گاندھی اور دگ وجے سنگھ اپنی بساط بھر کوشش تو کررہے ہیں لیکن اس سے کچھ بہت زیادہ فرق  پڑنے والا نہیں ہے۔ دلتوں سے ہمدردی جتانے کا کام جہاں راہل گاندھی کررہے ہیں وہیں مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کی کمان دگ وجے سنگھ نے سنبھال رکھی ہے ۔لیکن اگریہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپنے اپنے محاذ پر دونوں ناکام ہیں۔ دگ وجے سنگھ سمجھتے ہیں کہ بٹلہ  محض ہاؤس انکاونٹر کو جعلی قرار دے دینےسےمسلمان ان کےساتھ  آجائیں  گے تو راہل کی یہ خام خیالی ہے کہ دلتوں کے گھر جاکر وہ انہیں اپنا ہمنوا بنالیںگے۔حالانکہ کسی نے یہ بات مذاقاً کہی ہے مگر  اس میں پوشیدہ طنز کی نشتریت کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یوپی کے دلت بیچارے اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ بڑی کوششوںسے وہ جو ۲؍ روٹی کا انتظام کرپاتے ہیں، راہل گاندھی کھا کرچلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ  ۲۰۰۹ء  کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اسمبلی میں بھی وہ وہی تاریخ دوہرا پائے گی، اس کی امید کم ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی کوشش  بی ایس پی کواقتدار سے بے دخل کرنے کی ہوگی، اس کیلئے وہ سماجوادی کو سہار ا بھی دے سکتی ہے تاکہ ترنمول پراس کاانحصار کم ہوجائے۔
    ویسے جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آئیںگی، حالات میں مزید تبدیلیوں کاامکان ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

Thursday, 12 January 2012

Lok pal and political parties

سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

لوک پال بل پر لوک سبھااور راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح کی ہنگامہ آرائی کی،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بہت زیادہ خوف زدہ ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہتیں یہ بل منظور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ۴۳؍ برسوںسے یہ بل التوا میں ہے اور پتہ نہیں کب تک رہے؟ 

قطب الدین شاہد
 
  بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک بار پھر لوک پال بل کے ٹھنڈے بستے میں چلے جانے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ لوک سبھا میں بل کی لولی لنگڑی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی اور جس کمال ہوشیاری کے ساتھ اسے ’ٹھکانے‘ لگایاگیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں  ہے۔بظاہر تو سبھی اس کی حمایت میں بول رہی ہیں لیکن ..... عملاً کوئی بھی اس کے حق میں نہیں،سبھی  اس سے نجات پانا چاہتی ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہوا، اس کی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ کی نہیںتھی۔  اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کہیں لوک پال کا انجام بھی خواتین ریزرویشن بل جیسا نہ ہو۔ بل کی آئینی حیثیت نہ ہونے اور راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ کی نوبت نہ آنے کیلئے کانگریس بی جے پی پر الزام لگارہی ہے اور بی جے پی کانگریس پر، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں دونوں کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہیں لیکن.....کیا یہی سچ ہے؟ یا اس بظاہر سچ کے پیچھے کوئی اور سچائی بھی ہے؟ 
    سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے  ایک سرسری نظرلوک پال کی تاریخ پر  بھی ڈالتے چلیں۔لوک پال سنسکرت لفظ سے بنا ہے جس کے لفظی معنی ہوتے ہیں عوام کا محافظ۔  یہ ایک ایسے عہدے کی تشکیل کا معاملہ ہے جسے سویڈن میں ’اومبڈس مین‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔سویڈن نے اسے ۱۸۰۹ء میں متعارف کرایاتھا جس کا کام شکایت موصول ہونے کی صورت  میں بدعنوانوں پر شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بدانتظامی پر بھی نظر رکھنا تھا۔ تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ اومبڈس مین آج دنیا کے مختلف ملکوں میں الگ الگ ناموںسے جاناجاتا ہے۔ سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک  اور ناروے میں اومبڈس مین کی شناخت اسی نام سے ہے جبکہ برطانیہ میں اسےپارلیمنٹری کمشنر کا نام دیا گیا ہے جو صرف اراکین پارلیمان کی جانب سے موصول ہونے والی شکایتوں کی  سماعت کرسکتا ہے۔  
    وہ ۶۰؍ کی دہائی تھی جب وطن عزیز میں کرپشن کی دخل اندازی کی شدت محسوس کی گئی۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے حکومت نے ۱۹۶۶ء میں پہلا ایڈمنسٹریٹیو ریفارمس کمیشن (اے آر سی) تشکیل دیا جس نے ۲؍ سطحی مشینری تشکیل دینے کی سفارش کی۔  اس سفارش کے تحت مرکز میں لوک پال اور ریاستوں میں لوک آیکت کا قیام تھا۔ سفارش منظور کی گئی اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۸ء میں اسے چوتھی لوک سبھا میں پیش کیا گیا،جہاں اُسے  ۱۹۶۹ء میں منظوری بھی مل گئی ..... مگر راجیہ سبھا میں یہ بل پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔ دریں اثنا لوک سبھا تحلیل کردی گئی اور اس طرح لوک پال بل اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس بل نے کئی بار ایوان کا منہ دیکھا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اسے گلے لگا کر اس کا خیر مقدم کرنے کے بجائے افسر شاہوں کی طرح اس بل کو اِس ٹیبل سے اُس ٹیبل تک دوڑانے اور اس بہانے عوام کو الجھائے رکھنے کا کام کیا ۔دوسری بار ۱۹۷۱ء اور پھر بالترتیب ۱۹۷۷ء، ۱۹۸۵ء،۱۹۸۹ء، ۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء ،  ۲۰۰۵ء اور  ۲۰۰۸ء میں اسے ایوان میں پیش کیا گیا۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران ہندوستان کی تقریباً تمام اہم سیاسی  جماعتوں  نے اقتدار کے مزے لوٹے لیکن اس بل کو  پاس نہیں ہونا تھا، نہیں ہوا۔ جب بھی اس بل کو ایوان میں پیش کیا گیا ، اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کردیا گیا یا پھر ’نظر ثانی‘ کے بہانے وزرات داخلہ  کی محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس مرتبہ انا ہزارے کی تحریک کی وجہ سے امید ہوچلی تھی کہ اسے قانونی حیثیت مل جائے گی، مگر افسوس ! کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر سیاسی داؤ پیچ میں عوام کوالجھا دیا گیا۔ قارئین جانتے ہیں کہ کچھ اسی طرح کا حشرخواتین ریزرویشن بل کابھی ہوا تھا۔
    لوک پال بل کا انجام دیکھ کر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کی منظوری اور اس طرح اپنے اوپر کوئی محتسب نہیں چاہتیں۔ ملاحظہ کریں سیاسی جماعتوں کے مطالبات اور اپنا سر دُھنیں۔ بی جے پی کہتی  ہے کہ وہ  لوک پال کی خواہش مند ہے لیکن اس بل کی نہیں جو حکومت نے پیش کیا ہے بلکہ ایک ’ مضبوط‘ لوک پال بل چاہتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا مطالبہ بایاں محاذ، آر جے ڈی ، سماجوادی اور بی ایس پی نے بھی کیا ہے۔ ترنمول بھی لوک پال کی ’مخالف‘ نہیں ہے لیکن موجودہ بل کے تئیں اس کی رائے بھی اچھی نہیں ہے۔ کانگریس نے بی جے پی پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اسے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ اس نے لوک پال کو ’مضبوط‘ نہیں ہونے دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سبھی ’مضبوط‘ لوک پال بل کیلئے ’کوشاں‘ اور اس پر’ متفق‘ ہیں تو لوک پال مضبوط کیوں نہیں ہوپارہا ہے۔ راجیہ سبھا کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کرتے وقت حکومت نے کہا کہ ترمیمات کیلئے اسے ۱۸۷؍ نوٹس موصول ہوئے ہیں، جس کے مطالعہ میںکافی وقت لگے گا۔ اس ’کافی وقت‘ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کی موجودہ میعا د میں یہ کام ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟.... صرف ۴۳؍ سال۔  ملائم سنگھ یادو نے لوک سبھا میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا  بھی کہ ’’ اس بل میں بہت خامیاں ہیں،جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت نے انا کے خوف سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
    ملائم سنگھ کی اس ’جلد بازی‘ سے متعلق ایک لطیفہ سنا کر ہم اپنی بات ختم کرنا چاہیںگے۔ ایک شخص نے اپنی شادی کے موقع پر ایک ٹیلر کو کوٹ کی سلائی کا آرڈر دیا تھا جو وقت پر تیار نہیں ہوسکا۔ شادی کے دن تھوڑی سی ہنگامہ آرائی ہوئی، دولہے کے گھر والے اور ٹیلر کے مابین’ توتو میں میں ‘ ہوئی اور بات ختم ہوگئی۔ وقت نکل گیا تو دونوں بھول گئے۔ ۳؍ سال بعد دولہے کے بعد یہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ ولیمہ میں کوٹ نہیں پہن سکا تو سوچا عقیقے میں پہن لوں، لہٰذا پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا۔ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ ایک ہفتے میں سِل دے گا مگر حسب سابق تیار نہیں ہوسکا۔  فریقین میں ایک بار پھر بحث مباحثہ ہوا.... اور اس طرح  ایک بار پھر بات آئی گئی اور ختم ہوگئی۔ اس شخص کو کوٹ کی یاد اُس وقت آئی جب بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ اس نے سوچا کہ چلو میں نہیں پہن سکا ، تو میرا بیٹا ہی پہن لے۔ وہ ایک بار پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا اور اس مرتبہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لے کر گیا۔ ٹیلر نے پھر وعدہ کرلیا اور کہا کہ اس کے پاس کام تو بہت ہے مگر وہ اس کوٹ کواس بار ضرور سل  دے گا..... مگر وہ وقت آیاتو ایک بار پھر کام ادھورا تھا۔ جب دونوں میں بحث تیز ہوئی تو گھر کے اندر سے ٹیلر کی بہو نے اپنے خسر کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’کتنی بار آپ سے کہا  ہےکہ ارجنٹ کام مت لیا کرو‘‘۔
    کچھ یہی صورتحال ہمارے لوک پال بل کی بھی ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہی ہمیں اس کی یاد آتی ہے ورنہ ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اوراس کی اتحادیوں کو یہ کام ’ارجنٹ‘ لگتا ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں ہماری خاموشی کابھی   دخل ہے۔ دراصل یہ ہماری بے حسی کا مذاق ہے۔کیا ہم اس کا نوٹس لینے کی طاقت رکھتے ہیں؟ n

Saturday, 10 December 2011

compelete justice

مکہ مسجد کے بے قصور مسلم ملزمین کی رِہائی کے بعد انہیں معاوضہ بھی ملا.....
مگر انصاف ہنوز کوسوں دور ہے۔ حصول انصاف کیلئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

گزشتہ دنوں مکہ مسجد دھماکے کے ملزمین کی رہائی کے بعد حکومت نے ہرجانے  کی ادائیگی کااعلان کیا۔ اسے ایک مستحسن قدم تصور کرتے ہوئے اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔مکمل انصاف تو اس وقت ہوگا جب ان تمام پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملے گی جو اِن کی زندگیوں سے کھلواڑ کے مرتکب ہیں ، دوم ان کی بہتر باز آبادکاری ہو جومحض الزام کی وجہ سے اپنا بہت کچھ گنوانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
قطب الدین شاہد
اپنے زمانے کے مشہور انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ ’’رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘..... ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بہت سے لوگوں کی رائے کچھ اسی قسم کی ہے۔ ایسے لوگوں  کا خیال ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت  آزادی کے بعد سے ہی  مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیا جانے لگا ہے،انہیں  ایک ایسی تاریکی میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، ان کی ترقی کے راستے مسددو کردیئے گئے ہیں اور اگر اس کے باوجود بھی وہ کہیں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو فساداور دھماکوں کے ذریعہ ان کے حوصلے توڑے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے........ یقیناً اس میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے تو حوصلہ ملتا ہے۔داناکہتے بھی ہیں کہ صبح کا جنم رات ہی کے بطن سے ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے خوف زدہ ہوئے بغیر صبح کی امید اور اس کی تلاش میں جدوجہد جاری رکھی جائے۔ خود مخدوم نے بھی  اس کا اعتراف کیا ہے:
 رات کے ماتھے پر آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
     بلا شبہ ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بم دھماکوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس میں  زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔فسادات میں لُٹتے پِٹتے بھی مسلمان ہی   ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی انہیں کو جھیلنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح بم دھماکوں میں جانی و مالی تباہی کے بعد الزام بھی انہیں کے سر آتا ہے۔ میرٹھ ، ملیانہ، بھاگلپور، ممبئی، بھیونڈی اور گجرات کے فسادات کے بعد مالیگاؤں، مکہ مسجد،اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس   اور جامع  مسجد دہلی کے  دھماکےاس کی واضح مثالیں ہیں۔دراصل ان حربوں کے ذریعہ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کے پاس اندھیروں کے سواکچھ بھی نہیں ہے...... لیکن  وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ مسلمان  ہی ہیں جوکشتیاں جلا کر آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں۔
    گزشتہ دنوں اس کا ایک اچھا نمونہ دیکھنے میں آیا جب آندھرا پردیش حکومت مکہ مسجد دھماکے کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کو نہ صرف رِہا کرانے پر مجبور ہوئی بلکہ اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے اس نے گرفتار شدگان کو ہرجانہ بھی ادا کرنے کااعلان کیا۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ مکمل انصاف تو نہیں ہے لیکن یہ ایک اچھی کوشش  ضرورہے جس کاخیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اسی کے ساتھ ہمیں مکمل انصاف کے سمت جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہئے۔قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی طاقت آزمائی کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف معاملات کے تحت مسلم نوجوان سنگین جرائم کے نام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ دراصل ان پر قانونی شکنجہ اتنا مضبوط ہوتا ہے اور الزامات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ جلد ان کی رہائی کے اسباب پیدا نہیں ہوپاتےکیونکہ معاملے کوعدالت تک جلد پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ، اس کے باوجود اگرکسی طرح معاملہ عدالت تک پہنچا  اور ان کے حق میں معاملہ فیصل ہوا تو حکومت فوراً ہی اعلیٰ عدالت کا رخ اختیارکرلیتی ہے۔مختلف معاملات میں مسلم نوجوانوں کو کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حیدرآباد حکومت کے فیصلے کی ستائش کی جانی چاہئے، جس نے نہ صرف یہ کہ ذیلی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا بلکہ اقلیتی کمیشن کی ایک سفارش کو قبول کرتے ہوئے ان تمام نوجوانوں کو معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔اس لحاظ سے اسے ایک مستحسن قدم کہا جاسکتا ہے کہ جہاں کچھ نہیں ہورہا ہے، وہاں یہ  ایک اچھی روایت  ہے..... لیکن جیسا کہ بالائی سطو ر میں کہا گیا ہے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے والوں کو مناسب سزا دی جائے اور ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کیلئے باعزت زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
    حکومت کے سامنے بڑی شدت سے ہمیں یہ بات گوش گزار کرنی ہو گی کہ چند ہزار یا چند لاکھ روپوں کی ادائیگی ہی ان کا ہرجانہ نہیں ہے بلکہ ان کی بازآبادکاری ہونی چاہئے۔اس طرح کے معاملات میں جب کوئی نوجوان ماخوذ ہوتا ہے تو صرف وہ تنہا اس کی سزا نہیں بھگتتا بلکہ اس کی سزا میں اس کے اہل خانہ، اس کا پورا خاندان، اس کے عزیز و اقارب، اس کے گاؤںاور محلے والے بلکہ پورا شہر  ، حتیٰ کہ پوری قوم   شریک ہوتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد پڑگھا، مالیگاؤں اور اعظم گڑھ کو  میڈیا نےکس طرح ’ٹیررسٹ علاقے‘ کے طور پر پروجیکٹ کیا تھا۔ جب کسی نوجوان پر اس طرح کا کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو  نہ صرف اس کی ملازمت جاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کی شادی خطرے میں پڑجاتی ہے،  اس کے بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہوپاتا، والدین کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات دانے دانے کو محتاجی کی نوبت آجاتی ہے۔ حالانکہ آئین کہتا ہے کہ ملزم کے ساتھ مجرم جیسا رویہ نہ رکھا جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ صرف پولیس اہلکار بلکہ ہمارا سماج بھی ملزم کو مجرم سمجھ بیٹھتا ہے اور اسے سخت سزائیں دینے لگتا ہے۔ خود ہم بھی  ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیںجن پر الزامات تو سنگین ہیں لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔اندر سے کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ ہمدردی  کے اظہار کی خواہش  ہوتی ہے لیکن حکومت اور پولیس کے خوف سے ایسا نہیں کرپاتے اور اس طرح ان نوجوانوں کو ناکردہ گناہوںسے سزا ہم بھی دیتے ہیں۔
    انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور یہ ہرجانہ حکومت ادا کرے، وہ پولیس اہلکار ادا کریں جنہوں نے بلا وجہ انہیں مجرم بنا کر پیش کیا، وہ میڈیا ادا کرے جس نے رائی کو پربت بنا کران کی شبیہ خراب کی، سماج ادا کرے جس نے اسے یکہ و تنہا کر چھوڑا اور ہم سب ادا کریں جنہوں نے اپنے سماجی فریضے میں کوتاہی برتی۔   اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے ۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے۔ اول تو یہ کہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دلائے ..... ایسی سزا کہ دوبارہ وہ کسی کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہوئے ۱۰۰؍ بار سوچنے پر مجبور ہوں۔دوم یہ کہ ان ملزمین کی مکمل بازآبادکاری کا انتظام کرے، انہیں ملازمت دلائے، ان کے لُٹے پٹے کاروبار کو استحکام بخشنے میں مدد کرے اور سماج میں انہیں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے راستے میں حائل  دشواریوں  کے خاتمے میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔
    یہ تو رہی حکومت کی ذمہ داری۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ حکومت اس تعلق سے کیا کررہی ہے؟ اس کا تعاقب جاری رکھیں اوراسے مجبور کریںکہ وہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور  مظلوموں کو معقول ہرجانہ ادا کرے۔ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہ خاموش بیٹھنے کا حکومت کے نزدیک مطلب ہوگا کہ ’اتنے سے بھی کام ہوسکتا ہے‘۔ اور ہمارے سامنے صرف حیدرآباد کا معاملہ پیش نظر نہ ہو بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی   اس طرح کے معاملات پیش آئے ہیں،ان کا بھی احاطہ کیا جانا ضروری ہے۔ فیض احمد فیض  کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے مکمل انصاف کے حصول کیلئے ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
 ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
   چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی






Saturday, 26 November 2011

Fake encounter or Political terrorism

جعلی انکاؤنٹر یا  سیاسی دہشت گردی
عشرت جہاں کا قتل کیا گیا،جس کی تصدیق اب عدالت عالیہ نے بھی کردی ہے، مگرافسوس کہ ملک میں قاتلوں کے خلاف وہ ماحول نہیں بن پایا، جیسا کہ بننا چاہئے تھا۔ جعلی انکاؤنٹر جسے سیاسی دہشت گردی کہنا چاہئے، کو اتنا
سنگین نہیں سمجھا جارہا ہے۔ایسا کیوں؟ ذیل کے مضمون میں انہی نکات پرگفتگو کی گئی ہے۔

قطب الدین شاہد
عشر ت جہاں اور اس کے ساتھ دیگر ۳؍ افراد کا انکاؤنٹرنہیں ہوا تھا بلکہ وہ قتل کیے گئے تھے........اب یہ الزام نہیں رہا بلکہ اس کی صداقت پر جہاں خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے وہیں ا س کی توثیق گجرات ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔یہ قتل گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران نے کیا تھاجس میں کئی سرکاری اداروں حتیٰ کہ ریاستی حکومت کی مدد کا بھی پور اپورا مکان ہے۔ان قاتلوںکو اگر ان کا تعاون حاصل نہ ہوتاتو اس کیس کے حقائق کی یوں پردہ پوشی نہ کی جاتی اور ذیلی عدالت کے ذریعہ اسے جعلی انکاؤنٹر قرار دیئے جانے کے بعد خاطیوں کو بچانے کیلئے مودی حکومت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرتی۔
    اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ قتل تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاان قاتلو ں اوراس مجرمانہ عمل میں معاونت کرنے والوں کو سزا ملے گی؟اور اگر ملے گی بھی تو کتنوں کو ملے گی اور کب تک ملے گی؟افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میںعدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے کی بازگشت اس طرح نہیں سنائی دی، جس طرح کہ سنائی دینی چاہئے تھی۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے جہاںگزشتہ ۵؍ دنوںتک مختلف موضوعات پر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اس دوران کئی بار واک آؤٹ ہوئے اور کئی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی مگر مودی حکومت  اوراس کے قاتل ٹولوں پر گرفت کی بات کسی نے نہیں کی۔اس تعلق سے کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔سی پی آئی نے فیصلے کے روز مودی حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ ضرور کیا تھامگر اس کی حیثیت محض ایک خانہ پری کی سی تھی۔اس مطالبے میں وہ شدت نہیں تھی جو عام طور پر بایاں محاذ کی کسی اور مانگ میں ہو ا کرتی ہے۔مہنگائی یقینا ایک بڑا موضوع ہے، بدعنوانی بھی وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے، دہشت گردی بھی ملک کیلئے ایک عذاب بنی ہوئی ہے...... یہ سب واقعی سنگین مسائل ہیں لیکن.... ان سب کے باوجود حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کی سنگینی کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ غور کیا جائے تو یہ ان تمام میں سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو سرکاری سرپرستی میں انجام پاتی ہے،بدعنوانی کی وہ قسم ہے جس میں مال ہی نہیں بلکہ جان بھی جاتی ہے،مگر افسوس کی اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا گیا۔اس پر نہ تو میڈیا نے اتنا زور دیا اور نہ ہی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے۔بی جے پی سے تو خیر کسی خیر کی امید ہی نہیں، کانگریس کے منہ سے بھی ظالموں کے خلاف ایک لفظ نہیں نکل سکا۔وہ کانگریس جو خود کو گاندھی، نہرو، آزادا ور امبیڈکرکا جانشین کہلوانا پسند کرتی ہے، انصاف، غیر جانب داری اور شہریوں کی سیکوریٹی کا نہ صرف دعویٰ کرتی ہے بلکہ خود کو اس کا ٹھیکیدار بھی سمجھتی ہے، اس نے بھی پورے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔راہل گاندھی جنہیں کانگریس نوجوان دلوں کی دھڑکن کے طور پر پروجیکٹ کررہی ہے، کو مایاوتی حکومت میں ہزار کیڑے نظر آرہے ہیں، وہ اسے اکھاڑ پھینکنے کا عہد بھی کرتے ہیں لیکن مودی حکومت سے اٹھنے والا تعفن انہیں بے چین نہیںکرتا، لہٰذا وہ اس کے خلاف لب کشائی تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو حالانکہ اس پر گجرات حکوت سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا کہ اس کے ایک شہری کو بلا وجہ کیوں قتل کیا گیا  ؟ مگر چوہان حکومت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔مسلم ووٹوں کی سیاست کرنے والے لالو، ملائم اور مایاوتی جیسے چمپئن بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مودی حکومت اوراس بہانے بی جے پی کی پریشانی کا سبب نہ بنا جائے۔خود کو متوازی حکومت سمجھنے والی ٹیم انّاکی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ضروری اور غیر ضروری ہر مسئلے پر بیان بازی کو ضروری سمجھنے والے انا ہزارے، کیجری و ال اورکرن بیدی کو جعلی انکاؤنٹر کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔جسیکا لال، نتیش کٹارا اوراروشی مرڈر کیس میں دلچسپی لینے اور ان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے تحریک چلانے والے طلبہ اور غیرسرکاری اداروںکو بھی عشرت جہاں کے قاتلوں پر غصہ نہیں آیا۔ ایساکیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مظلوم کا تعلق عوام سے  ہے جبکہ قاتلوں کا خواص سے..... اور ان میںسے بیشتر خواص کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس قتل کے خلاف عوام کی جانب سے غم و غصہ کااظہار نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ عوام کےرجحان ساز دراصل یہی خواص ہیں اور یہ معاملہ چونکہ خواص کے خلاف ہے، لہٰذااس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔یہاں یہ کہنا غلط ہوگا کہ عشرت جہاں ایک مسلمان ہے، اسلئے اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ دراصل ہمارے سماج میں ابھی وہ بیداری آئی ہی نہیں کہ ہم حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کے خلاف برسرِا قتدار طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
    ایسے میں سابق داخلہ سکریٹری کا بیان مزید افسوسناک رہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے عشرت کی بے گناہی نہیں ثابت ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہہ کر آخر جی کے پلئی صاحب کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ ایک طرف محض الزام ہے جبکہ دوسری طرف جرم ثابت ہورہا ہے۔عشرت جہاں کا تعلق دہشت گردوںسے تھا، یہ صرف ایک الزام ہے جبکہ عشرت جہاں کو منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا گیا اور اس قتل کے شواہد مٹائے گئے، یہ ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے اس اعلیٰ ترین سابق عہدیدار کی جانب سے مجرم پر گرفت کی بجائے مظلوم کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کیوں جارہی ہے؟کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ مودی کا شمار خواص میں ہوتا ہے، لہٰذا عوام سے ان کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ مرکزی وزیر شرد پوار کو ایک جنونی نے ایک طمانچہ کیا رسید کردیا،  ملک گیر ہنگامہ برپا ہوگیااور پورا پارلیمنٹ متحدہوگیا....دوسری جانب سرکاری دہشت گردی کا شکار ایک عام شخص ہوا تو خواص کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مظلوم سے ہمدردی دکھانے میں اگر کوئی ’مسئلہ‘ درپیش ہے توظالم سے نمٹنے میں انہیں کوئی دِقت نہیں ہونی چاہئے... ہم عوام کو اسی پرتسلی ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آج خواص کے تئیں عوام میں زبردست نفرت پائی جارہی ہے، اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو برتر اورعوام کو کمترسمجھتے ہیں۔ عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے ہوں یا عوام کی خدمت پر مامور سرکاری کارندے، وہ عوام کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کے مسائل کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دراصل امریکہ کی طرح یہاں بھی ایک فیصد خواص کی جانب سے باقی ۹۹؍ فیصد کے تئیں بہت زیادہ تعصب پایا جارہا ہے۔ 
    جی کے پلئی جی کی اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے عشرت کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کردیا جائے؟ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سرکاری عہدیداران اورافسران  پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، ۱۰؍ سے ۱۵؍ فیصد پرفوجداری معاملات بھی درج ہیں۔کرپشن اور کریمنل الزامات کے دائرے میں عوامی نمائندوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کئی وزیر، عوامی نمائندے اوراعلیٰ سرکاری افسران تہاڑ جیل کی ’زینت‘ بنے ہوئے ہیں۔ پلئی صاحب بتائیں کہ ان کے اصول کے مطابق ان سب کی سزا ئیںکیا ہونی چاہئیں؟
    وہ تو بہت اچھا ہوا کہ عدالت عالیہ نے بروقت پلئی صاحب کی گوشمالی کردی، ورنہ خاطیوں  کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کیلئے پردے کے پیچھے سے اور بھی کئی چہرےنمودار ہوجاتے، اس صورت میں جہاں ایک فیصد کی سرکشی میں اضافہ ہوتاوہیں ۹۹؍ فیصد کے حوصلے  مزید پست ہوجاتے۔
    حالات یقیناً خراب ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ مایوس ہوا جائے۔  ایک جانب جہاں ایسے عناصر ہیں جو عوام کو کوڑے دان کا حصہ سمجھتے ہیں، وہیں ایسے لوگ اورایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انہیں انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ کم از کم ہندوستان کے عدالتی نظام سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں۔ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم عدالت پر پورا بھروسہ رکھیں اوراس سلسلے میں فالو اَپ جاری رکھیں۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئےعوام کو بیدار رہنا ضروری ہے۔ آج نہیں تو کل یہ تمام فرعون ضرور بہ ضرور اپنے انجام کو پہنچیںگے۔ n

Monday, 14 November 2011

sardar pura qatl e aam ka faisla......

سردارپورہ قتل عام کا فیصلہ ،خوشگوار ہوا کاایک جھونکا ہے
۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ  سامنے آیا ہے، اسے  گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔
قطب الدین شاہد
سرِ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی کسی سے ٹکرا جائے اور اُس کو بنیاد کر اُسے ایک طمانچہ رسید کردے،تو یقینا اُس شخص کو بہت برا لگے گا اور اُسے شدید تکلیف پہنچے گی۔ ممکن ہے جوابی حملہ کرتے ہوئے وہ بھی اسے ایک تھپڑ جڑ دے اوراس طرح اپنے قلب کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔لیکن اسے اس وقت زیادہ اچھا لگے گا اور دل کو زیادہ قرار آئے گا جب وہ خود کچھ نہ کہے بلکہ اس کی حمایت میں کچھ دوسرے افراد سامنے آئیں اور ظالم کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے مظلوم کی دلجوئی کریں۔ آخرالذکر صورتحال کسی بھی صحت مند سماج کیلئے بہت ضروری ہے۔
    گودھراسانحہ کو بنیاد بنا کر پورے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ یقینا بہت برا تھا، ہولناک تھا، سفاکی تھی،سماج کی صحت کو خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش تھی، لہٰذا اس کی مذمت کی جانی چاہئے ، لیکن اسی کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی۔ اس کے بعد جس پیمانے پربرادران وطن کی جانب سے مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا رویہ اختیار کیا گیا، ان کی دلجوئی کی گئی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جس طرح کی ہمہ جہت کوششیں ہوئیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ گرچہ پوری طرح سے صحت مند نہیں لیکن بہت زیادہ بیمار بھی نہیں ہے کہ اس کا علاج نہ ہوسکے۔
    گودھر ا سانحہ کے تین دن بعد یکم مارچ۲۰۰۲ء کو سردار پورہ میں شیطانوں کا ایک رقص برہنہ ہوا تھا، جس میں ۲۰؍ خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت کل ۳۳؍مسلمانوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔یہ تمام لوگ اس علاقے کے واحد پکے مکان میں محصور تھے، جسے سفاکوں نے آگ کے حوالے کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ جنون اور دہشت گردی کی بدترین نشانی ہے ،جس کاواحد علاج اُن تمام لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے جن لوگوں کا اس قابل نفریں معاملے میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار رہا ہے۔
    گزشتہ دنوں اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ایک خصوصی عدالت نے سردار پورہ قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوں کوعمر قید کی سزا سنائی ہے۔  حالانکہ یہ سزاان کے جرم کی مناسبت سے بہت کم ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے سے مظلومین کی ہمت بندھی ہے، ان کی اشک سوئی ہوئی ہے، انہیں قلبی سکون پہنچا ہے اور ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔اس فیصلے کے بعد برادران وطن کی جانب سے جس طرح کے رد عمل کا اظہار ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کاخون ابھی سفید نہیں ہوا ہے یعنی یہ پوری طرح سے لا علاج نہیں ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کہ کسی بھیڑ کے ذریعہ انجام دیئے گئے قتل عام کی کسی واردات میں اتنے سارے لوگوں کو بیک وقت مجرم ٹھہرایا گیا ہو۔ اس سے قبل بھاگلپورہ فساد کیلئے ایک ساتھ ۱۴؍ لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا تھا۔
    مہسانہ کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج ایس سی سریواستو کے اس بے نظیر فیصلے کے بعد جس طرح کے ردعمل سامنے آئے، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ عوام و خواص نے اس پر کس طرح کے رد عمل کااظہار کیا؟ اور مظلومین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ظالموںکیلئے سنائی گئی اس سزا پر کس طرح کی خوشیوں کااظہار ہوا؟ اس کی ایک چھوٹی سی مثال فیصلے کے دوسرے دن ملک کے مؤقر اور سب سے زیادہ قابل اعتماد انگریزی روزنامے ’دی ہندو ‘ کے اداریے پر ہونے والے تبصرے ہیں، جسے اس کی آن لائن اشاعت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے چنندہ اقتباسات کچھ اس طرح ہیں۔

nکبھی کچھ نہ ہونے سے تھوڑی تاخیر بہتر ہے۔مبارکباد کے مستحق ہیں ایس آئی ٹی کے اراکین جنہوں نے گنہ گاروں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کاانتظام کیا۔ 
   منجو پولیوادھی
n وہ دن گئے جب عدالتیں طاقتور اور امرا ء کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہوا کرتی تھیں۔یہ فیصلہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔   
                                                            سمیت کمار رائے
n    اکثریت کی جانب سے اقلیت کیلئے اٹھائے گئے اس گھناونی واردات کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔مستقبل کیلئے یہ ایک مثال بننی چاہئے اور یہ یقینی بنائی جانی چاہئے کہ جو بھی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اسے اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ 
                                           راجیش ایچ
nاب ہرکسی کو یہ امید ہوچلی ہے کہ بہت جلدامیکس کیوری کی رپورٹ کے ساتھ ایس آئی ٹی اپنی فائنل رپورٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کردے گی جس کی بنیاد پر نریندر مودی سمیت ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کا راستہ ہموار ہوگا جو کسی نہ کسی طرح اس سفاکی میں ساتھ رہے ہیں۔ 
                این تھروناوکاراسو
nاس فیصلے نے متاثرین کوکافی حوصلہ فراہم کیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے سیاست دانوں کے سطحی مفادات کی تکمیل میںدونوںفرقوں کے عام لوگ استعمال ہوتے رہے ہیں۔

                                                                            آر رویندر ناتھ
nتاریخی اور لائق خیرمقدم فیصلہ۔ 
                                               گگن گرگ
nیہ امید بندھی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ۔ 
                       ومل
nہندوستانی عدلیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ 
           ٹی پی نٹراجن
nحالانکہ فیصلہ تاخیر سے آیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارا قانونی نظام مؤثر ہے اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 
                                                                                           امول سکپال
nاس فیصلے نے ’قانون کی حکمرانی‘ والے خیا ل کو استحکام بخشا ہے اور اسے تقویت پہنچائی ہے۔ 
                     ونیت کے سریواستو
nیہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے بہت اچھ ہے جو ملک کے عدالتی نظام میں یقین رکھتے ہیں۔ 
                                                                   رام چندرن پی
      یہ چند اقتباسات ایک مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کے خیالات ہیں جنہیں اس ملک میں ’عام‘ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے یعنی یہ خیالات ان کے دل کی آواز ہیں جن کا اظہار کسی لالچ، مفاد اور دباؤ کے بغیر سامنے آیا ہے ۔ یہ خیالات ثابت کرتے ہیں کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اس کا درد صرف ’ہمارا‘ درد نہیں ہے کہ بلکہ یہ ’ہم سب کا‘ درد ہے۔یہ یقینا ایک بہت اچھی بات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ حلقہ مزید وسیع ہو۔اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس واردات کے متاثرین کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور قانونی جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔شیخ دلاور میاں جنہوںنے اس واردت میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہن کو کھویا ہے اور شیخ غلام علی جن کے خاندان کے ۱۳؍ افراد اس قتل عام کے شکار ہوئے تھے، نے قبول کیا ہے کہ ان تمام گواہوں پر شدید دباؤ ہے، جو انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان کی ہر طرح سے پشت پناہی ہو۔
    ۳۳؍ افراد کے قتل عام کیلئے ۳۱؍لوگوں کیلئے عمر قید کی سزا کافی نہیں ہے۔یقینا یہ تمام زیادہ سخت سزاؤں کے مستحق ہیں لیکن ان حالات میں جبکہ عدالت کو حکومت کی جانب سے تعاون کے بجائے رکاوٹوں کا سامنارہا ہے، یہ فیصلہ قابل ستائش ہے اوراس کیلئے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر کے راگھون اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
    ۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اسے گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔