Saturday, 6 April 2013

Third front ki dastak se Qaumi partiyon ki neend haram

تیسرے محاذ کی دستک سے قومی پارٹیوں کی نیند حرام
بلاشبہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوںملائم سنگھ یادونےایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تیسرے محاذ کا ذکر کیا چھیڑدیا، بی جے پی اور کانگریس  جیسے حواس باختہ ہوگئیں اور لٹھ لے کر ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ اس سے ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آئی کہ بی جے پی کو کانگریس سے یا کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ خطرہ نہیں ہے بلکہ سرے سے خطرہ ہی نہیں ہے.... البتہ ان دونوں کو تیسرے محاذ سے ضرور خطرہ ہے۔یہ دونوںجماعتیں نہیں چاہتیں کہ ان کے متبادل کے طور پر کوئی تیسری طاقت اُبھرسکے۔
     ملک میں کسی تیسرے محاذکی کتنی ضرورت ہے اور اس  کے کیا امکانات ہیں؟ اس کاجائزہ لیا جائے تویہ بات بڑی آسانی سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ اس وقت ملک کو کانگریس اور بی جے پی   کے  ایک مضبوط متبادل کی واقعی سخت ضرورت ہے اور موجودہ صورتحال اس کیلئے نہایت موزوں اور سازگار ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے ملک کے عوام نالاں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں میں جہاں عوام کے سامنے کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کوئی اورمتبادل  ہے، انہیں اقتدار میں آنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے۔  دراصل یہ دونوں جماعتیں عوام کے مفاد پر سرمایہ داروں کے مفاد کو ترجیح دیتی ہیں اور اقتدار ملتا ہے تو آمریت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے اور ایف ڈی آئی کا راستہ ہموار کرنے کے معاملے میں کانگریس  اور گجرات میں لوک آیکت سے متعلق بل کی منظوری کے وقت بی جے پی کی آمریت ہم دیکھ چکے ہیں۔ رہی بات سیکولرازم کی تو یہ محض دکھاوا ہے۔ کانگریس کا اس سے قربت کا اور بی جے پی کا اس سے فاصلےکا اظہار کرنا، ان کی مجبوری ہے، ورنہ دیکھاجائے تو دونوں کے طور طریقوں میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ بی جے پی نے رام مندر کی تحریک چلائی، کانگریس نے اس کا شیلا نیاس کروایا۔ بی جے پی نے بابری مسجد کے انہدام کی بات کی اور کانگریس کے دور اقتدار میں مسجد شہید کی گئی۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میںگجرات میں فساد ہوا تو کانگریس کے دوراقتدار میں ممبئی، بھیونڈی، میرٹھ، ملیانہ اور بھاگل پور جیسے سیکڑوں فساد ہوئے۔ بی جے پی نے اگر فساد کے مجرمین کی پشت پناہی کی تو کانگریس حکومت  میں بھی کبھی کسی فسادی کو سزا پاتے نہیں دیکھا گیا۔
       ان حالات میں عوام کا کسی تیسرے متبادل کی جانب دیکھنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تیسرا محاذ جب بھی بنا ہے، بنتے ہی بکھر بھی گیا ہے...... لیکن اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی سطح پرجب جب تیسرے محاذ کی تشکیل ہوئی ہے،قومی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ وہ خواہ ۱۹۷۷ء کی بات ہو، یا  ۱۹۸۹ء کی یا پھر۱۹۹۶ء کی۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل قومی سطح پر کوئی مضبوط تیسرا محاذ بن بھی سکے گا یا نہیں، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ محض اس کی دستک ہی سے کانگریس اور بی جے پی کواختلاج ہونے لگا ہے اورا ن کی نیند حرام ہوکر رہ گئی ہے۔ قومی جماعتوںکے اس خوف سے تیسرے محاذ کی اہمیت و ضرورت اورعوام میںاس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
    دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ  عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئےمستحکم حکومتوں کی وکالت کرتا ر ہا ہے۔ اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رُکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟  جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی  دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے  یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام  کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
    معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت  اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا  ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔  یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ مستحکم حکومت یک جماعتی حکومت ہی دے سکتی ہے یعنی بی جے پی یا کانگریس۔ یہ تو یوپی اے اور این ڈی اے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ا ن کے نزدیک اس طرح کی حکومتیں’مجبور‘ ہوتی ہیں جن کاا نحصارچھوٹی چھوٹی جماعتوں پر ہوتا ہے۔
    ۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑ دیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب  وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے...  مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت  و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
     یہی وجہ ہے کہ جب بھی تیسرے محاذ کی تشکیل کی بات ہوتی ہے یا انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی کو خاطر خواہ سیٹیں نہیں مل پاتیں  تو یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔ تیسرے محاذکی حکومت کی بات جانے دیں، یہ تو حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کو بھی ملک کی ترقی میں رُکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔
    بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔  بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیں ہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے  بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں..... لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا  ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے اوروہ من  مانی کرنے لگتی ہیں۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔
    ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں  ہوں تو ہم کیا کریںگے؟ پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،  دوبارہ جب  دوسری  پارٹی کے کام سے بے اطمینانی محسوس  ہوگی تو  نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہی دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟  اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدےاور ایف ڈی آئی کی منظوری کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
     ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی واحد جماعت کو طویل عرصے بعد  ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ۸۴ء کے بعد سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی واحد جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ  ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئی تھیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی تھی۔ اس کے بعد بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر  علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو،  یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
    دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء  میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍  سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا  تھا۔اس کے برعکس  ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ تو مجموعی پولنگ کا فیصد ہے، ویسے دیکھا جائے تو ان دونوں جماعتوں کو۱۲۰؍کروڑ کی آبادی والے ملک میں ۱۹؍کروڑ ۷۵؍ لاکھ  یعنی صرف ۱۵؍ فیصد عوام کی ہی حمایت حاصل ہے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔  ایسے میں اگر کوئی تیسرا محاذ بنتا ہے، تو یقینی طور پر اسے خاطرخواہ عوامی حمایت حاصل ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ تیسرے محاذ کی تشکیل میں علاقائی جماعتیں سنجیدہ ہوں اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔

Saturday, 9 March 2013

One year of Akhilesh Government

اکھلیش حکومت کیلئے یہ جشن کا نہیں احتساب کا موقع ہے

 اترپردیش کے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکے راجہ بھیا کو جیل سے نکال کر جیل منتری بنانا اکھلیش حکومت کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا خمیازہ تو ریاستی حکومت کو بھگتنا  ہی تھا اور وہ بھگت بھی رہی ہے، تاہم اب بھی وقت ہے۔ حکومت چاہے تو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرکے اپنی غلطیوں کاازالہ کرسکتی ہے اور اس طرح عوام کا اعتماد بحال کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کی صرف اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہے۔ ۵؍ دن بعد حکومت کا ایک سال پورا ہوگا حکومت چاہے تو اس  نکتے پر غور کرسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ اکھلیش  حکومت کیلئے   یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے۔

قطب الدین شاہد

اُتَّرپردیش کی سماجوادی حکومت نےاپنے اقتدار کے۳۶۰؍ دن پورے کرلئے۔ گزشتہ سال ۱۵؍ مارچ کواکھلیش یادو نے اپنے چند کابینی رفقاء کے ساتھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اُس وقت جب اکھلیش کے نام کااعلان ہوا تھا،اترپردیش کے عوام بالخصوص مسلمانوں میں ایک عجیب سا جوش و خروش تھا۔ ایسی امید تھی کہ چھوٹے یادو  ایک انقلاب لائیںگےاور ان تمام غلطیوں سےسماجوادی  حکومت کو پاک کرنے کی کوشش کریںگے، جو اخیر اخیر میںاُن کے والد سے منسوب ہوگئی تھیں.... لیکن افسوس کہ ایک سال پورا ہونے کے بعد جب اس کا جائزہ لیا جاتا ہے تو کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔کم از کم غنڈہ راج  والی صورتحال آج بھی وہی ہے۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ۳۰؍ سے زائد چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات اور ڈی ایس پی ضیاء الحق کا بہیمانہ قتل اس بات کے ثبوت ہیں کہ غیر سماجی عناصر پر ان کا کنٹرول نہیں ہوپایا ہے۔
      ان حالات میں سماجوادی حکومت کیلئے یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے بالخصوص  ایسے میں جبکہ آئندہ سال پارلیمانی الیکشن ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادوبھلے ہی اپنے صاحبزادے اور اپنی پارٹی کی حکومت کو ۱۰۰؍ میں سے ۱۰۰؍ نمبر دینے کی بات کریں،اکھلیش یادو اور اعظم خان بھی میڈیا کے روبرو اپنی کارکردگی کے اطمینان بخش ہونے کا دعویٰ کریں لیکن یہ بات کسی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ کسی اور سے کیا،خود وہ بھی تو مطمئن نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جہاں ملائم سنگھ ریاستی حکومت کے وزراء کو متنبہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے، وہیں اکھلیش اور اعظم خان بھی وقتاً فوقتاً مایوسی کااظہار کرتے رہے ہیں۔
    ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کے بعد اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے اعظم خان نے جس کرب کا اظہار کیا تھا، وہ ظاہر کررہا تھا کہ کچھ تو ہے جہاں وہ مجبور و بے بس نظر آتے ہیں۔ آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسروں پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ’’ پولیس کا اقبال کیسے بلند ہو، اس کے بارے میں اعلیٰ پولیس افسروں کو سوچنا ہوگا۔ ایک عجیب غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ منتری تو آتے جاتے رہتے ہیں، ہمیں رہنا ہے۔ ۲۱ ؍برس بعد کوئی پہلا مسلم پی سی ایس ہوا تھا، اسے بھی ختم کردیا گیا۔‘‘یہ صرف اعظم خان کے دل کی آواز نہیں ہے، بلکہ اترپردیش کے ۲؍ کروڑ مسلمان بھی کچھ اسی طرح سوچتے ہیں۔
    اس سے قبل کہ اکھلیش حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، آئیے دیکھتے ہیں کہ سابقہ سماجوادی حکومت کی طاقت کیا رہی ہے اور اس کی غلطیاں اور کمزوریاں کیا رہی ہیں؟ اکھلیش نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ اُس کی طاقت میں اضافہ ہوا کہ نہیں اور اُن غلطیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے میں وہ کس حد تک کامیاب یا ناکام ہیں؟
    ملائم سنگھ ۳؍مرتبہ یوپی کے اقتدار پر قبضہ جما چکے ہیں۔ انہیں مرکز میں بھی آنے کا موقع ملااور دفاع جیسی باوقار وزارت ان کی ماتحتی میں رہی لیکن ان کو جو مقبولیت اور عزت و شہرت ملی، وہ یوپی اوران کی وزارت اعلیٰ کی وجہ سے ملی۔ ملائم سنگھ کو یہ مرتبہ ان کے سوشلسٹ نظریات، لوہیا وادی افکارو خیالات،ان کی جدوجہد، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کی کامیاب نمائندگی اور صاف گوئی کی وجہ سے ملا، لیکن یہ بات شاید انہیں راس نہیں آئی۔ لالچ بری بلا ہوتی ہے، پوری کی چکر میں آدھی بھی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ پوپی کو چھوڑ کر پورے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے کا خواب دیکھنے لگے، جس کے نتیجے میں انہیں اپنے سیاسی نظریات اور افکار وخیالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ مشیروں کے غلط مشوروں سے  فائدہ پہنچنا تو دور کی بات، وہ اپنی سابقہ طاقت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک جانب جہاں ان کے قریبی ساتھی راج ببر، بینی پرساد ورما اور اعظم خان سمیت کئی مسلم لیڈر اُن کا ساتھ چھوڑ گئے، وہیں مسلم رائے دہندگان بھی ان سے دور ہوگئے۔ کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج انہیں فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا گئے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایسا محسوس ہونے لگا کہ سماجوادی پارٹی کا سیاسی کریئر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔سماجوادی کیلئے یہ بہت نازک دور تھا۔ یہی وہ وقت تھاجب سخت ڈسپلن والے  راجستھا ن کے ملٹری اسکول راجستھان کے تربیت یافتہ اور آسٹریلیا  سے جدید علوم میں ڈگری لے کر واپس آنے والے انجینئر اکھلیش یادونے پارٹی کو سنبھالا دینے کی کوشش کی اور رفتہ رفتہ اس کا وقار بحال کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ بلاشبہ مسلمانوں نے ایک بار پھر سماجوادی پارٹی پر اعتماد کیا، جس کا نتیجہ اس کی اسمبلی نشستوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ۲۰۰۷ء میں ۹۷؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۱۲ء میں اسے۲۲۴؍ نشستیں ملیں۔ دراصل سماجوادی پارٹی کی ۲؍ بڑی کمزوریاں تھیں۔ اول یہ کہ پارٹی کو غنڈوں کی سرپرستی حاصل تھی، مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے بھلے ہی پارٹی کے کلیدی عہدوں پر نہ رہے ہوں لیکن پارٹی کے فیصلوں میں ان کا عمل دخل بہت زیادہ تھا اور یہ بات پوری طرح سے اظہرمن الشمس تھی۔ دوئم یہ کہ مسلمانوںکااستحصال خوب ہوتا تھا۔ کانگریس پارٹی ہی کی طرح یہاں بھی ان کے مفاد کی باتیں تو کی جاتی تھیں، بیان بازیاں بھی خوب ہوتی تھیں لیکن ان کی فلاح کے کچھ کام نہیں ہوتے تھے۔ شروع شروع میں ایسا محسوس ہوا کہ  اکھلیش  ان دونوں کمزوریوں پر قابو پانا چاہتے ہیں۔ ڈی پی یادو کی پارٹی میں واپسی کی جب بات چلی تھی تو اس موقع پر ان کا مؤقف کچھ اسی بات کا غماز تھاکہ اب سماجوادی پارٹی میں غنڈوں کا گزر نہیں ہوگا۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے  اکھلیش نے کہا بھی تھا کہ ’’پہلے پارٹی کی شناخت مسل پاور اور لاٹھی سے ہوتی تھی لیکن اب جدید خیالات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہوگی۔‘‘ اسی طرح کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج کے ساتھ جب پارٹی نے امر سنگھ سے بھی چھٹکارا پالیا اور پھر اعظم خان کی پارٹی میں واپسی ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ سماجوادی پارٹی کو اپنی غلطیوں کااحساس ہوچکا ہےاوراب وہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ 
      اکھلیش حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اسے  پوری طرح ناکام نہیں قرار دے سکتے لیکن راجہ بھیا کے معاملے پر حکومت کا رویہ تشویشناک ضرور ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہےکہ بہت ساری اچھائیوں پر ایک برائی حاوی ہو جاتی ہے۔ اس وقت اکھلیش حکومت  کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بلاشبہ ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کی ایماندارانہ جانچ  بہت ضروری ہے لیکن عوام کااعتماد بحال کرنے کیلئے راجہ بھیا کی فوری گرفتاری  اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اترپردیش کے عوام کیلئے خوف و دہشت کی علامت بن چکے راجہ بھیا کو جیل سے نکال کر جیل منتری بنانا اکھلیش حکومت کی ایک فاش غلطی تھی۔ اس کا خمیازہ تو ریاستی حکومت کو بھگتنا  ہی تھا اور وہ بھگت  بھی رہی ہے، تاہم اب بھی وقت ہے۔
     حکومت چاہے تو اس سلسلے میں سخت کارروائی کرکے اپنی غلطیوں کاازالہ کرسکتی ہے اور اس طرح عوام کا اعتماد بحال کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کی صرف اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہے۔ ۵؍ دن بعد حکومت کا ایک سال پورا ہوگا حکومت چاہے تو اس  نکتے پر غور کرسکتی ہے ۔ مطلب یہ کہ اکھلیش  حکومت کیلئے   یہ جشن کا نہیں بلکہ احتساب کا موقع ہے

Saturday, 23 February 2013

Tanqeed hi nahi, Tareef bhi kijiye.....

یوپی حکومت کے مناسب و متوازن اور اقلیت نواز بجٹ پر بھی ناراضگی،کیا مسلمان شکایت کرنے کے عادی ہوگئے ہیں؟
ہمیشہ تنقید ہی نہیں، کبھی کبھار تعریف بھی تو کیجئے
گزشتہ دنوں اترپردیش حکومت نے ۲؍لاکھ کروڑ روپوںسے زائد کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں ۱۱۴۲؍ کروڑ  روپےصرف اقلیتوں کیلئے مخصوص ہیں۔ سابقہ بجٹ کے مقابلے اس مرتبہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ میں ۳۰؍ فیصد کااضافہ کیاگیا ہے۔ یہ اضافہ معمولی نہیں ہے۔ ایسے میںضرورت اس بات کی تھی کہ اس اضافے پر اکھلیش حکومت کی تعریف کی جاتی تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اس سے ان تمام دیگر حکومتوں کو ترغیب بھی ملے جو مسلمانوں کی غمگساری کا دعویٰ تو کرتی ہیں، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ خیال رہے کہ اگر ہم صرف تنقید ہی کر تے ر ہےاور اچھے کاموں پر بھی انگشت نمائی کرنےلگے تو کوئی حکومت اورسیاسی جماعت مسلمانوں سے متعلق مسائل پر غور نہیں کرے گی۔ وہ سوچے گی کہ برا کرو تو برا ہوتا ہی ہے، اچھا کرو تو بھی برا ہوتا ہے، پھر کیوں کچھ کیا جائے؟ لہٰذا ہمیں اپنی روش تبدیل کرنی ہوگی اور تنقید کے ساتھ ساتھ تعریف کی بھی عادت ڈالنی ہوگی۔
  • قطب الدین شاہد

ایک شوہرنامدار تھے جنہیں بیوی کے ہر کام میں نقص نکالنے میں مہارت حاصل تھی۔ جس دن کھانے میں وہ آملیٹ بناتی، وہ کہتے کہ آج انڈا اُبال کربنانا چاہئے تھا۔ جس دن وہ انڈا اُبال کربناتی ، اس دن کہتے کہ آج آملیٹ ہونا چاہئے تھا۔  پریشان بیوی نے ایک دن عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آملیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ انڈا ابال کر بھی رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ شوہر نامدار کو پہلے آملیٹ پیش کروں گی، اگر حسب سابق اعتراض ہوا تو اُبلا ہوا، انڈا بھی لاکررکھ دوںگی۔ مگر ناقد شوہر کے آگے بیوی کی ایک نہ چلی۔ دونوں چیزیں ایک ساتھ دیکھ کرشوہر نے کہا کہ’’یہ کیا کیا تم نے! اس انڈے کو اُبالنا چاہئے تھااور اس کا آملیٹ بنانا چاہئے تھا۔‘‘
    کیاکچھ یہی کیفیت ہماری نہیں ہوگئی ہے۔  بات بات پر ہمیں تنقید کی عادت سی نہیں پڑ گئی ہے؟ گزشتہ دنوں  اترپردیش حکومت نے سالانہ بجٹ پیش کیا ۔ تسلیم کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ اور ہونا چاہئے تھا لیکن جتنا کچھ ہے، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اترپردیش کےسالانہ بجٹ میں ۱۰؍ فیصد کا اضافہ ہو اہے جبکہ اقلیتوں کیلئے مخصوص بجٹ  میں۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ ہوا ہے۔ یہاں اقلیتوں سے مراد مسلمان ہی سمجھئےکیوں کہ یوپی میں سکھ، عیسائی، بدھ اور جین مذہب کے ماننے والوں کی آبادی بہت کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مثبت سوچ وفکر کے ساتھ اس بجٹ کا مطالعہ کیا جاتااور اس بجٹ کے مناسب استعمال سے قوم کی پسماندگی کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی.......... مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بجٹ پیش کئے جانے کے فوراً بعد ہی بعض مسلم حلقوں سے اس پر تنقیدیں شروع ہوگئیں کہ اس بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں ہے۔  بلا شبہ کچھ اورہونا چاہئے تھا۔ کئی  شعبے ایسے رہ گئے ہیں، جنہیں اکھلیش حکومت نے قصداً ، سہواً یا مصلحتاً نظر انداز کیا ہے، اس پرگفتگو ہونی چاہئے۔ انہوںنے اُردو اوراُردو میڈیم اسکولوںکے تعلق سے کچھ نہیں کہا بلکہ پوری طرح انہیں نظرانداز کیا ہے۔ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ اپنا حق طلب کرنے میں ہمیں قطعی پیچھے نہیں رہنا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو اچھا ہوا ہے، اسے بھی برا کہا جائے۔ ذرا سوچئے کہ ان حالات میں دوسری حکومتیں مسلم کاز کیلئے کیوںکرسنجیدہ ہوںگی؟
    آگے بڑھنےسےقبل ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں سماجوادی پارٹی کا دفاع مقصود  ہے، نہ ہی ہمیں اکھلیش یادو اورملائم سنگھ سے کوئی ہمدردی ہے۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت  یا سیاسی جماعت ہو، اگر وہ کچھ اچھا کرتی ہے تو اس کا اعتراف کیاجائے، اس کی تعریف  اور پذیرائی کی جائے اور اگر کچھ غلط کرتی ہے تو فوری طور پر اسے ٹوکا بھی جائے۔ اس کے کام پر تنقید ہو، دباؤ ڈالا جائے اوراس پر لگام کسنے کی کوشش کی جائے اور اگر بات تب بھی نہ بنے تو انتخابات کے موقع پر اپنی ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اس عمل کی سزا دی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے عمل کو ہم سیاسی عینک سے ہی دیکھنے کی کوشش کرتےہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت سے کسی طرح کی ہماری  وابستگی ہے تو اس کا ہر عمل محبوب کی اداؤں کی طرح ہمیں اچھا اور پیارا لگتا ہے۔ اس کی خامیوں اور کوتاہیوں میں ہمیں خوبیوں کے کئی پہلو نظر آتے ہیں، اس کے اوٹ پٹانگ بیانات سے بھی طمانیت کااحساس ہوتا ہے، اس کے عیوب میں حسن کی جھلک نظر آتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر سطح پراس کا دفاع کرتے ہیں..... اس کے برعکس اگر ہمارا تعلق اس سیاسی جماعت کی کسی مخالف جماعت سے ہے تو رقیب روسیاہ کی مانند اس کی تمام اچھی باتیں بھی ہمیںبری معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے ہر عمل میں ہمیں فریب کے پہلو دکھائی دیتے ہیں، اس طرح ہم  اس کے ہر قدم پر تنقید کے کچھ نہ کچھ  بہانے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
    آج صورتحال یہ ہے کہ ہم کانگریس، سماجوادی، کمیونسٹ، آر جے ڈی، بی ایس پی، این سی پی، ایم این ایس، جے ڈی یو، تیلگو دیشم اور اس طرح کی دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں میں خود کو تقسیم کئے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہمارے لئے ملت کا مسئلہ کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔  بات ہم ملت  ہی کی کرتے ہیں لیکن لب و لہجہ ہمارا سیاسی ہوتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب یوپی اے کی پہلی میقات میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سچر کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا، بعض حلقوں نے اس پر بھی تنقید کی تھی۔ اس کمیٹی کے ایک اہم رکن  اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد سے ہم نے وہی سوال دُہرایا تھا کہ ’’اس کمیٹی کی تشکیل کا کیا مطلب؟ کیا اس سے مسلمانوں کو کچھ فائدہ ہوگا؟‘‘ اس کے جواب میںانہوں نے بہت اچھی بات کہی تھی۔انہوں نے کہاتھا کہ’’ کسی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ کمیٹی اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دے گی۔اس پر حکومت کچھ کرے گی یا نہیں، یہ میں نہیں جانتا اوراس تعلق سے کوئی دعویٰ بھی نہیں کرسکتا لیکن اس کمیٹی کی تشکیل سے بہر حال یہ فائدہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس بات کی نشاندہی ہوجائے گی کہ ہمیں کہاں اورکن پہلوؤں پرزیادہ محنت کرنی ہے۔‘‘ بات بالکل درست ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کی جانب سے اقلیتوں کیلئے اعلان کئے گئے ۱۵؍  نکاتی پروگرام پر بھی تنقید کی گئی۔  اقلیتوں کودیئے جانے والے اسکالرشپ پربھی انگشت نمائی ہوئی۔ کہا گیا کہ کیا اس سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی؟ کیا مسلم طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی؟  اس کا جواب یہی ہے کہ نہ تو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوجائے گی اور نہ ہی تمام طلبہ کی معاشی پریشانیاں ختم ہوجائیںگی لیکن  اتنا تو ہوگا کہ ایک بڑا طبقہ اس سے ضرور فیضیاب ہوگا.... اورآج  ہوبھی رہا ہے۔
     آئیے ایک بار پھر آتے ہیں  اصل موضوع یعنی یوپی کے بجٹ پر۔ معترضین کا کہنا ہے کہ یوپی حکومت نے اقلیتوں  کے بجٹ میں صرف ۲۹ء۵؍ فیصد کااضافہ کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ پھر کتنے فیصد کا اضافہ کیا جانا چاہئے تھا؟ اس کی توضیح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اقلیتوں کیلئے مخصوص کیاگیا بجٹ مجموعی بجٹ کا صرف ایک فیصد ہے جبکہ اقلیتوں کی آبادی ۱۸؍ سے ۲۰؍ فیصد ہے، لہٰذاآبادی کے تناسب سے ہی ان کیلئے بجٹ مخصوص کیا جاناچاہئے تھا۔  یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مجموعی بجٹ سے ہونے والے کاموں سے اقلیتیں مستفیض نہیں ہوںگی؟ مجموعی بجٹ سے لکھنؤمیں اگر میٹرو ریل شروع ہوگی تو کیا اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ سبھی سرکاری اور امداد یافتہ پرائیویٹ ڈگری کالجوں میں طالبات کو گریجویشن تک کی تعلیم مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کیا اس سے مسلم طالبات فائدہ نہیں اٹھائیںگی؟ مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے رام پور میں ۲؍ فلائی اووَر تعمیر کئے جائیںگے۔ کیا اس سے رام پور کی مسلم آبادی کا کوئی بھلا نہیں ہوگا؟  اعظم گڑھ میں  اگرڈگری زرعی کالج، مویشی میڈیکل سائنس ڈگری کالج اورپیرامیڈیکل کالج نیز الہ آباد  اورسدھارتھ نگر میں یونیورسٹیاں قائم کی جاتی ہیں تو کیا اس سے مسلم طلبہ کو آسانیاں نہیں ہوںگی؟ بجلی سے محروم  ہزاروں گاؤں میں اگر بجلی سپلائی کی جاتی ہے تو ان روشنیوںسے کیا مسلم گھروں کے اندھیرے دور نہیں ہوںگے؟ لکھنؤ میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی  پارک اور آئی ٹی سٹی قائم کی جاتی ہے کہ تو کیا  مسلم نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا اوران کے گھروں میں خوشحالی نہیں آئے گی؟بنیادی تعلیم کی مختلف اسکیموںکیلئے اگر ۲۱؍ ہزار ۵۲۰؍ کروڑروپے خرچ ہوںگے تو کیا ان سے ہمارے طلبہ کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا؟ ریاست میں ۲۱؍ نئے گورنمنٹ آئی ٹی آئی کالج کھولے جائیںگے۔ کیا اسے ہمارے بچوں کوخود کفیل ہونے کا موقع نہیں ملے گا؟.......... ان تمام اسکیموںسے  یقیناً  ہم مسلمان بھی اتنا ہی  فائدہ اٹھائیںگے جتنا کہ دوسرے لوگ اٹھائیںگے۔ رہی بات اقلیتوں کے بجٹ کی تو وہ صرف ہمارا اپنا ہے۔
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ منظور شدہ بجٹ کو اقلیتوں کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس کیلئے نہ صرف حکومت سے رجوع ہوناچاہئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کے نمائندوں بالخصوص مسلم نمائندوںسے بھی ملاقات کرتے رہنا چاہئے تاکہ سال کے اختتام تک۱۱۴۲؍ کروڑ کی رقم سے کچھ تعمیری کام ہوسکیں۔

Thursday, 7 February 2013

Urdu ki haq talfi ke liye ahl e urdu hi zimmedar

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُردو کے مسائل پر زور دار آواز بلند  ہونے کے بعد بھی اگر مسائل حل نہیں ہوئے تو کہنا پڑے گا کہ:
اُردو کی حق تلفی کیلئے اہل ِ اُردو ہی ذمہ دار ہیں!
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو زبان سے متعلق بڑی مثبت گفتگو ہوئی۔ اُردو کے قصیدے پڑھے گئے،اس کی مرثیہ خوانی بھی ہوئی اورتمام جماعتوں کے اراکین نے مل کر اس کی ترویج و اشاعت کیلئے آواز بھی بلند کی۔ ۲؍سال قبل کچھ اسی طرح کاخوشگوار منظر لوک سبھا میں بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ الزام درست ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میںسنجیدگی کم اور نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کی ’فراخدلی‘ کا مظاہرہ کیا اور اُردو کو اس کا جائز حق دلانے  کی بات پارلیمنٹ  میں کی۔ اب یہاں سے اہل اُردو کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ اُردو والوں کو چاہئے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کریں اور یہ دباؤ تب تک قائم رکھیں جب تک اس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوجائیں۔ اُردو کیلئے ماحول سازگار ہے، لوہا گرم ہے، بس ہتھوڑا مارنے کی دیر ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا تو یقینا اس کیلئے اہل اُردو ہی ذمہ دار اور قصور وار قرار پائیںگے۔

قطب الدین شاہد

اگریہ کہاجاتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت اُردو کو اس کے اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا گیا، تویہ الزام قطعی غلط نہیں ہے۔ بلا شبہ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے، جس کی  پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ یہیں کی گنگا جمنی تہذیب کی گود میں پلی بڑھی اوریہیں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھی۔ امیر خسروسے لے کر منشی پریم چند اور سرسید احمدخاں سے لے کر گوپی چند نارنگ تک  بلا لحاظ مذہب و مسلک اس زبان کی آبیاری میں تمام لوگوں نے خون و جگر ایک کیا، جس کا یہ خوشگوار نتیجہ ہے کہ اُردو زبان صرف  ہندوستان اور بر صغیر  میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک شیریں زبان کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ اس  ہندوستانی زبان کو آزاد ہندوستان میں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جاسکا، جس کی یہ حقدار ہے۔ جس زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے تھی، اس کے ساتھ سرکاری سطح پر کھلا متعصبانہ  رویہ اختیار کیا گیااور کیا  جا رہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسے  خالص مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار سرکاری   اور آئینی ادارے میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کی آواز بلند کی جائے اوراس آواز پر تمام سیاسی جماعتیں آمنّا و صدّقناکہیں تو اس سے بڑی مسرت کی بات اورکیا ہوگی؟
     اس لحاظ سے ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء اور اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء کی تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس  روز بالترتیب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے آواز بلند کی گئی جس کی حمایت بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین  نے کی۔ اس کے باوجود اگر اُردو کے مسائل جوں کے توں ہیں تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم اُردو والے ہی ذمہ دار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی پہلی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب یہاں سے ہم اُردو والوں کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اُردو کے مسائل کا ادراک ہے، جس کااعتراف انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی کیا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اس کا ’فالو اَپ‘ کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ  وہ صرف مسائل پر آواز بلند  کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ  پارلیمنٹ میں  اردو سے جس محبت کا انہوں نے اظہار کیا ہے اس کا حق بھی ادا کریں اور  اس زبان کو اس کا وہ جائز حق دلائیں جس سے یہ  اب  تک محروم ہے۔
     یہ بات درست ہے کہ ہمارے  سیاست داں بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مسائل اوران کے حل کے تئیں بہت کم سنجیدہ ہوتے ہیںبلکہ ان کی ذہنیت تاجرانہ ہے اور یہ   ہر بات میں اپنا نفع  نقصان دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جائے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو جب سماجوادی پارٹی کے رُکن پارلیمان چودھری منور سلیم نے اُردو کو قومی سطح پردوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا، جس کی تائید بی جے پی کے ارون جیٹلی سمیت دیگر تمام جماعتوں کے قائدین نے کی تو ہم میں سے بیشتر نے اسے ایک سیاسی پینترہ بازی ہی تصور کیا۔ اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہمارے قائد بھی ذمہ دار ہیں۔  بلا شبہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتا ہے لیکن ایک بار جل جانے کے بعد دودھ کی افادیت سے ہی انکار کردینا دانشمندی تو نہیں ہے۔  اسے ’کفرانِ نعمت‘ کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
    یہ بات بھی صحیح ہے کہ انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو  لیڈروں کی زنبیل سے وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں جو انتخابات ختم ہوتے ہوتے راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی  ان پھلجھڑیوں کی روشنی میں چند بھٹکے ہوئے مسافرو  ں کو اپنا راستہ نظر آجاتا ہے  اور وہ ان وقتی اور عارضی روشنیوں کی مدد سے اپنا سفر آسان بنا لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب انتخابات کی آمد ہوتی ہے، تو ووٹوں کی لالچ کے خاطر ہی سہی ہمارے سیاست داں کچھ کام کرتے ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اُن سے کچھ کام لیا جاسکتا ہے۔
    ان حالات میں گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو کو دوسری قومی زبان کا درجہ دیئے جانے کا جو مطالبہ ہوا، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور متحرک ہوجانا چاہئے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سر پر ہیں اور اس سے قبل سیاست دانوں سے چند کام کروائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں یہ مطالبہ سماجوادی پارٹی نے کیا۔ اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء میں بھی سماجوادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے اُردو کے حق سے متعلق لوک سبھا میں آواز بلند کی تھی۔ دونوں مرتبہ بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید و حمایت کی۔ خود حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ اُردو کواس کا جائز حق ملنا چاہئے۔ ممکن ہے اُردو کے نام پر سیاست  ہورہی ہو اور سیاست داں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کررہے ہوں، مگر ان منفی پہلوؤں کے علاوہ ہمیں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ یہ گفتگو پارلیمنٹ میں ہورہی ہے، جہاں ایک ایک لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے اورجس کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کوئی سیاسی اسٹیج نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہونے والی گفتگو سیاسی جماعتوں کے  انتخابی منشور جیسی ہے۔ اور پھرسیاست دانوںسے ہماری توقعات بھی کیا ہیں؟ یہی ناکہ وہ ایوان میں ہمارے مسائل پر آواز بلند کریں اورانہیں حل کروائیں۔ اس طرح دیکھیں تو پہلا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔۔۔۔۔۔ یعنی اُردو کے حق میں سبھی متفق نظر آئے۔  اب رہادوسرا مسئلہ ۔۔۔۔ تو یہاں گیند پوری طرح سے حکومت اور اہل اُردو کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی حکومت کو کام کرنا ہے لیکن یہ کام اہل اُردو کو کروانا ہے۔ یوپی اے حکومت تو یہی دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اُردو کیلئے کچھ کرنا ہے لیکن بظاہر وہ بی جے پی سے خوف زدہ  نظر آتی ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ کہیں  ایسا کرتے ہوئے اس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی اور خوشامد پسندی کا الزام عائد نہ ہو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کو یہ یاد دلائیں کہ اب تو وہ خوف بھی نہیں رہا کیونکہ بی جے پی بھی اُردو کو اس کا جائز حق دیئے جانے کے حق میں ہے۔
    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس گفتگو کو یوں سرسری طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ آج اگر اس پر کچھ عمل نہیں بھی ہوا۔۔۔۔۔ تب بھی اس مباحثے کی اہمیت باقی رہے گی۔ آئندہ کچھ دنوں میں اسے ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے گا اوراس کی روشنی میں فیصلے ہوںگے۔ اس گفتگو کی اہمیت اس لئے کم نہیں ہونی چاہئے کہ اس موضوع کو سماجوادی پارٹی کے چودھری منور سلیم نے اُٹھایا ہے  اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام وِلاس پاسوان اور آزاد رُکن پارلیمان محمدادیب نے اس کی حمایت کی ہے بلکہ اسے اس طرح دیکھنا چاہئے کہ اس کی تائیدبی جے پی نے بھی کی ہے جسے ہم اُردو کا دشمن اور اس کی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے رہے ہیں۔  یعنی ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردووالے اس کا ’فالواَپ‘ کریں۔ سیاست دانوں کواس بات کیلئے آمادہ کریںکہ آئندہ پارلیمانی اجلاس میںاس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد ہوں۔ حکومت سے پوچھیں کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ وہ اس کا جائز حق دینے سے کترارہی ہے؟ ملائم سنگھ یادو، ممتا بنرجی  اور فاروق عبداللہ سے سوال کریں کہ ۲۰۱۰ء میں اُردو کی حالت زار پر لوک سبھا میں آپ نے بھی مرثیہ پڑھا تھا، اب کیا کررہے ہیں کہ جبکہ اس دوران  اپنی اپنی ریاستوں میں آپ کی حکومتیں بن چکی ہیں۔یقین جانئے کہ ووٹوں کی لالچ میں سیاست  داں  بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے انہیں مجبور کرنے کی۔ توکیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟n

Saturday, 15 December 2012

Musalmano ko reservatiaon-waqt ka aham taqaza

مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا

  1.   مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضا ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی ۲؍اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہ مسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔

  • قطب الدین شاہد

    گزشتہ دنوں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے مسلم ریزرویشن کے موضوع کو ایک بار پھر جھاڑ پونچھ کر ٹھنڈے بستے سے باہر نکالا۔ مسلم ریزرویشن کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کچھ یقین دہانیاں بھی کرائیں لیکن ان کے بیانات سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کی تیاریاں کررہے ہیں۔اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں یہ موضوع خوب گرمایا تھا جب سماجوادی  اور کانگریس  نے نہایت شدومد کے ساتھ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی تھی۔۔۔۔۔ مگر انتخابات ختم ہوتے ہی یہ معاملہ ایک بار پھر سرد بستے میں چلا گیاتھا۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کو اس کی وجہ سے اترپردیش میں حکمرانی کا موقع بھی مل گیا۔  مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضہ ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہمسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل آئیے ایک چھوٹاسا واقعہ ملاحظہ کرتے چلیں۔
    ملّانصرالدین کو ایک بار قاضیٔ شہر کی عدالت میںطلب کیا گیا۔ان پر الزام تھا کہ ایک شخص نے انہیں سردی کے موسم میں عاریتاً کمبل د یاتھا۔موسم گزر جانے کے بعد جب وہ شخص کمبل واپس لینے آیا تو  اس کو پھٹا ہوا کمبل  ملا۔ اس نے شکایت کرنی چاہی مگر ملّا کو نہیں سننا تھا، نہیں سنے۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے۔ مجبوراً اسے قاضیٔ شہر کے پاس جانا پڑا۔ قاضی نے اس الزام پر ملّا کی صفائی چاہی،تو ملا نے اپنی ’بے گناہی‘ ثابت کرنے کیلئے تین باتیں کہیں:
ٓ    اول:میں نے ان سے کوئی کمبل ومبل نہیں لیا تھا۔
    دوم: اور جب کمبل لیا تھا، تو وہ پھٹا ہوا ہی تھا۔
    سوم: اور جب میں نے وہ کمبل انہیں واپس کیا  تھا،تو پوری طرح سے صحیح و سالم تھا۔
    حضور بھلا بتائیے ،  اب اگر وہ کمبل پھٹ جائے میں کیوںکر قصور وار ہوسکتا ہوں؟
    ملا نصرالدین کی یہ باتیں آپ کو بھلے ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہوں،مگر سچ تو یہ ہے کہ مسلم ریزرویشن کے نام پر ہماری مرکزی و ریاستی حکومتیں بھی کچھ اسی طرح کے ’جواز‘ پیش کرتی رہی ہیں اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر ملک کے ’اعلیٰ دماغ‘ سر دُھنتے ہیں۔ ہماری حکومتیںایک پل کچھ کہتی ہیں اور دوسرے پل  نہایت شدومد کے ساتھ اسی کی تردید بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
    آئیے ایک سرسری نظر تاریخی حقائق پر ڈالتے چلیں۔
    جس وقت آزاد ہندوستان کا دستور تشکیل دیا جارہا تھا، پسماندہ طبقات کی وضاحت کا موضوع ایک بار پھرابھرکر سامنے آیا تھا۔قانون ساز کونسل کے ایک رکن نے سردار پٹیل سے سوال کیا تھا کہ کیاپسماندہ طبقات کے زمرے میں اقلیتیں بھی شامل ہیں؟انہوںنے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔ مطلب یہ کہ اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کئے جانے کا وعدہ حکومت نے کیا تھا۔
    مگر اب
    حکومت کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے لئے وہ دستور کی مختلف شقوں کا حوالہ بھی دیتی ہے۔
    لیکن دوسری طرف
    دستور کی دفعہ ۳۴۱؍ اور ۱۹۵۰ ء کے صدارتی حکم نامے کے مطابق طبقۂ دلت میں صرف ہندوؤں، سکھوں اور بدھسٹوں کاشمار ہوتا ہے۔ یعنی دلت کے نام پر  حاصل مراعات سے صرف ہندو، سکھ اور بودھ ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔  یہاںسوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو،سکھ اوربودھ مذہبی گروہ نہیں ہیں۔ ان میں جہاں سکھ اور بودھ اقلیت ہیں، وہیں ہندو اکثریت ہیں۔
    کیا  ملا نصرالدین کی طرح حکومت کے یہ بیانات بھی تضادات سے پُر نہیں ہیں؟ حکومت کہتی ہے کہ :
     اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کیا جائے گا یعنی اقلیتوں(مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر) کو وہ تمام مراعات حاصل ہوں گی، جو دیگر پسماندہ طبقات کو میسر ہیں۔
    لیکن پھر اگلے ہی پل کہتی ہے کہ :
    مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔
    اور پھر اس کے فوراً بعد حکومت کہتی ہے کہ :
    دلت کے نام پر حاصل مراعات سے صرف ہندو ، سکھ اور بودھ مستفید ہوسکیںگے۔
    کیا حکومت کا یہ رویہ مساوات اور یکساں حقوق کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دو طرفہ مسابقت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک وہ اعلیٰ طبقہ جو بارسوخ  ہے اور تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے اور اندھوں کی طرح آپس میں ریوڑیاں تقسیم کرتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جسے ریزرویشن کی سہولت حاصل ہے اور اس کی مدد سے باصلاحیت افراد کو روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس دوطرفہ مقابلہ آرائی میں مسلمان بالکل پس کر رہ گیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بیحد کم ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سول سروسز میں مسلمانوں کا تناسب صرف ۲؍ فیصد کے آس پاس سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے درجے کے سرکاری ملازمتوںمیں یہ تناسب اور بھی کم ہے۔   برعکس اس کے آزادی کے وقت اوراس کے کچھ برسوں بعد تک سرکاری ملازمین میں مسلمانوں کا تناسب ۴۰؍ فیصد کے آس پاس تھا۔
    حالیہ چند برسوں میں حکومت کی ایما پر تشکیل دی گئی ۲؍ اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ثابت ہوچکی  ہے کہ آزادی کے بعد وطن عزیز میں مسلمانوں کی حالت بتدریج روبہ زوال ہے۔  سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت دستاویزی صورت میں ابھر کر سامنے  آئی کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہوکر رہ گئی ہے۔دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کیلئے تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن کی سفارش موجود ہے۔
    اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کیوں ضروری ہے ؟ اس مطالبے کی تین اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ  ریزرویشن  مسلمانوںکا بنیادی حق ہے۔ جب دیگر دو اقلیتوں (سکھ اوربودھ) کو یہ مراعات حاصل ہیں تو مسلمانوں کو کیوں نہیں؟
    دوم یہ کہ ریزرویشن کی سہولت حاصل ہوئے بغیر مسلمان مین اسٹریم میں شامل نہیں ہوسکیںگے۔ وہ دوطرفہ مقابلہ آرائی میں اسی طرح پستے رہیںگے نیزتعلیمی، سیاسی، معاشی اورسماجی سطح پر مزید پسماندہ ہوتے جائیںگے۔
    سوم یہ کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
    مذکورہ تین نکات میں سے ۲؍ پر بالائی سطروں میں مختصر بحث ہوچکی ہے، اب آئیے تیسرے نکتے پر بھی تھوڑی سی گفتگو کرلیںاور دیکھیں کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کئے بغیر ملک کی ترقی کا تصور کیوں کر نہیں کیاجاسکتا؟
    مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت باالفاظ دیگر دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۴ء۱۳؍ فیصد یعنی مجموعی آبادی تقریباً ۱۶؍ کروڑ ہے جبکہ غیرسرکاری رپورٹوں کے مطابق آبادی کا یہ تناسب ۱۸؍ فیصد یعنی ۲۰؍ کروڑ سے متجاوزہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اتنی بڑی آبادی کو ایک سازش کے تحت مین اسٹریم میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تو ملک کی ترقی میں تیز رفتاری بھلا کس طرح آسکے گی؟ذرا سوچئے!وہ طالب علم جو پانچویں تادسویں  اپنے ہم جماعتوںسے برابر کی ٹکر لیتا رہا ہے، بلکہ بسااوقات دو قدم آگے ہی رہا ہے، بارہویں اوراس کے بعد سی ای ٹی، نیٹ اوراس طرح کے دیگر انٹرنس امتحانات میں سہولیات کے فقدان کے سبب اعلیٰ طبقات کے طلبہ سے تھوڑا پیچھے ہوجاتا ہے، اس طرح میرٹ کی انتہاتک نہیں پہنچ پاتا لیکن اپنی محنت کے بل بوتے پرخاطر خواہ اسکورکرنے میں کامیاب رہتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔اسے اُس  وقت انتہائی مایوسی کاسامنا کرنا پڑتا ہے جب ریزرویشن کی سہولت پانے والے اس سے کم مارکس حاصل کرکے   بھی اسے پیچھے کردیتے ہیں اور اس کا منہ چڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہ اس سیٹ پر قابض ہوجاتے ہیں، جس کا وہ خواب دیکھتا رہاہے اورجس کاوہ حقدار بھی ہے۔ ذرا سوچئے ان طلبہ پر آخر کیا گزرتی ہوگی، جو  اِن حالات سے دوچار ہوتے ہیں؟ انجامِ کاراس زمرے میں آنے والے وہ طلبہ جو اپنی صلاحیتوں کااستعمال کرکے ملک کے سنہرے مستقبل کا حصہ بن سکتے تھے،   سازش، تعصب اور غلط پالیسیوں کے سبب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انھیں بھلا  ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے پر کس طرح آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ خدا نخواستہ ایسے میں اگر چند ذہین دماغ ’غلط‘ راستے پر لگ جائیں تو اس کی ذمہ داری  آخر کس کے سر جائے گی؟
    غرض کہ باتیں  توبہت کی جاسکتی ہیںلیکن صرف باتیںکرنے سے مسئلے کاحل تو نہیں نکلے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیلئے حکومت کو آمادہ کیا جائے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اورضروری ہے کہ قانونی سطح پر اس میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ حکومت چاہے تو اس کیلئے راستے نکل سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ اس تعلق سے سنجیدہ ہو اور ایماندارہو۔ کرناٹک اور کیرالا میں جس طرح مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولیت دستیاب ہے، پورے ملک کے مسلمانوں کو بھی ایسی سہولت مل سکتی ہے۔  یہ تمام دشواریاں سیاسی ہیں،قانونی نہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب  مذہب کی بنیاد پرمسلمانوں کو اسکالر شپ مل سکتی ہے تو ریزرویشن کی سہولت کیوں نہیں؟یاد کیجئے  اقلیتوں کے اسکالر شپ پر بھی سنگھ پریوار نے اعتراض کیاتھا اور  اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے اسکالر شپ دیئے جانے کے  حکومت کے فیصلے کو بحال رکھا۔
    مطلب یہ کہ اگر ہمیں ریزرویشن کی سہولت چاہئے تو  متحد و متفق ہوکر حکومت کو اس کیلئے مجبور کرنا ہوگا۔اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے سیاسی سطح پر اس دم خم کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ کام ابھی سے کرنا ہوگا اور اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر ۲۰۱۴ء کے انتخابات سے قبل اس کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو ہم تمام مسلمان متفقہ طور پر حکومت کے خلاف ووٹ دیںگے۔ایک بات اور۔۔۔۔۔۔ یہ ریزرویشن ذات برادری کے نام پر نہیںبلکہ معاشی صورت حال پر کی بنیاد ہونا چاہئے کیونکہ موجودہ سماج میں ذات برادری کا تصور نہیں ہے۔  بصورت دیگر باقی ماندہ مسلمانوں کے ساتھ پھر وہی ہوگا جو ابھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔آمدنی کی ایک معقول حد مقرر کی جائے اور اس سے کم آمدنی والوں کو اس کا حقدار قرار دیاجائے۔یہی مسئلہ کا حل ہے اوراسی میں ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

Saturday, 20 October 2012

dictator democracy

جمہوری تاناشاہی

کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کیلئے خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
قطب الدین شاہد

    آگے بڑھنے سے قبل آئیے چند رپورٹس اور بیانات ملاحظہ کریں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ ہمارا ملک کس طرح جمہوریت سے تانا شاہی کی طرف رواں  دواںہے اور وطن عزیز میں عوام کی کتنی فکر کی جاتی ہے؟
     ہندوستان میں وہ لوگ غریب کہلانے کا حق نہیں رکھتے ، جن کی آمدنی شہری علاقوں میں ۲۸؍ روپے اور دیہی علاقوں میں ۲۲؍ روپے یومیہ سے زائد ہو۔
منصوبہ بندی کمیشن کی  ایک رپورٹ
    ملک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے زائد یعنی تقریباً ۵۰؍ کروڑ ہے۔
ایک سروے رپورٹ
    ۷۱؍ لاکھ روپے کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ ایک مرکزی وزیر کیلئے یہ بہت معمولی رقم ہے۔ بلا وجہ ہنگامہ مچا رکھا ہے۔
بینی پرساد ورما(مرکزی وزیر)
    ملک کے اخراجات کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سبسیڈی ختم کرنا ضروری ہے۔پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ (وزیراعظم)
    کیجریوال فرخ آباد آتو جائیںگے مگر کیا وہ یہاںسے جا بھی سکیں گے؟  میں قلم کے کام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں لیکن ضرورت پڑی تو خون سے بھی گریز نہیں کروں گا۔
سلمان خورشید (وزیرقانون)
    کیجریوال کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دو، ایک دن چلاچلا کرخاموش ہوجائے گا۔
ملائم سنگھ یادو (کانگریس کے اتحادی)
    یہاں چند ایسے بیانات نقل کئے گئے ہیں جو گزشتہ ایک ہفتے میں حکومت یا حکومت سے وابستہ شخصیتوں کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ان بیانات سےحکومت کی رعونت پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس نے جموریت کو تاناشاہی کی شکل عطا کردی ہے جہاں اختلاف کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے انتخابی وعدے میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  حکومت تشکیل پانے کے بعد  وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے تمام وزراء کو یہ ’حکم‘ دیا تھا کہ وہ تین مہینوں میں رپورٹ جاری کریں اور بتائیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں؟ اور ان کے کام کرنے کاطریقہ کیا ہوگا؟ اس حکم کے بدولت کانگریس کو مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میںبھی دوبارہ حکمرانی کا موقع مل گیا..... مگر افسوس کہ گزشتہ تین برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی اور نہ وزراء کے  احوال جاری ہوئے۔ا س کے برعکس اس دوران مہنگائی اوریوپی اے کے وزرا ء دونوں بے لگام ہوگئے۔
    یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۲؍ روپے یومیہ کمانے والے کو غریب نہیںسمجھاجاتا یعنی اسے سبسیڈی  کے فائدے سے محروم کردیا جاتاہے، اسی ملک کا ایک وزیریہ کہتا ہے کہ ۷۲۔۷۱؍ لاکھ روپے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک مرکزی وزیرکے شایان شان نہیں ہے۔  بینی پرساد ورما کے اس بیان میں کہیں نہ کہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ مرکزی وزراء چھوٹی موٹی رقمیں نہیں ہڑپتے  بلکہ وہ کروڑوں اور اربوں کے گھوٹالے کرتے ہیں۔   وزیراعظم بلا شبہ ایک نرم دل اور سلجھے ہوئے مزاج کے حامل شخص ہیں لیکن گزشتہ دنوں سبسیڈی ختم کرنے کااعلان کرتے ہوئے انہوں نے جو بیان دیا، اس سے ان کا ایک نیارخ سامنے آیا۔ ایسا محسوس ہواکہ ’ضرورت ‘ پڑی تو وہ سفاک بھی ہوسکتے ہیں۔ قیمتیں بڑھانے اور سبسیڈی ختم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا کہ پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا، کچھ اچھا نہیں لگا۔وہ اسی بات کو کسی اور انداز سے بھی کہہ سکتے تھے لیکن ...... جمہوریت جب تانا شاہی کی جانب گامزن ہو تو اس کے اثرات سے وہ بھلا کب تک محفوظ رہ سکتے تھے؟
    یوپی اے حکومت کی تاناشاہی کا سب سے کریہہ چہرہ اس وقت سامنے آیا جب کیجریوال نے سلمان خورشید کی جانب انگشت نمائی کی۔کیجریوال کتنے سچے ہیںاور کتنے جھوٹے؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں، ہم یہ بھی جانتے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، اس میں ان کی اپنی مرضی شامل ہے یا ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی نیت کیا ہے؟ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں ایک عام آدمی کو سوال کرنے کا حق ہے، جس کا جواب دینا عوامی نمائندوں پر لازم  ہے۔ سلمان خورشید سے اگر کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو انہیں اپنا آپااس طرح  بالکل نہیں کھونا چاہئے تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ میں سڑک پر پڑے ہوئے لوگوں کا جواب نہیں دینا چاہتا، ہندوستانی عوام کی توہین ہے۔  وزیرموصوف کو بہرحال یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہندوستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہی رہتی ہے اور انہیں  عام لوگوں کے ووٹوں کی بدولت کانگریس کو حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ملائم سنگھ جن کے تعلق سے یہ خوش گمانی تھی کہ وہ ’عوام‘ کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ کہنا کہ’ ’وہ چلّا چلّا کر ایک دن خاموش ہوجائے گا‘‘ .... جمہوری قدروں کے منافی اور مطلق العنانیت کی دلیل ہے۔
    دراصل ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ عوام نے واقعی اپنےنمائندوں کااحتساب کرنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح انہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔  ایسے میں اگر کوئی احتساب  کی بات کرتا ہے تو اسے اسی طرح کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں کانگریس کے یہ تیور نہیں تھے۔
    کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کی خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
    تو کیا ہمیں یہ فرمان قبول ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے ووٹوں کی اہمیت کو محسوس کریں۔ ہمیں اور کچھ اختیارات تو حاصل نہیں ہیں لیکن ....... جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں، ان ہاتھوں کو ہم نے ہی مضبوط کیا ہے اور  انہیں صرف ہم ہی کمزور کرسکتے ہیں۔

Saturday, 6 October 2012

secular parties and gujrat

گجرات الیکشن سے سیکولر جماعتیں خوفزدہ کیوں ہیں؟

کیا گجرات ہندوستان سے باہر کی کوئی ریاست ہے؟ کیا گجرات کے عوام کی سوچ کچھ مختلف ہے؟ کیاگجرات کےعوامی مسائل ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے الگ ہیں؟  آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر جماعتیں انتخابات سےقبل ہی گجرات میں شکست تسلیم کرلیتی ہیں؟ وہ ڈٹ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا گاندھی نگرسے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے؟....... نہیں ایساقطعی نہیں ہے..... اوراس کے باوجود اگر ایسا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کیلئے سیکولر جماعتیں بالخصوص کانگریس سنجیدہ نہیں ہے..... وہ چاہتی ہی نہیں کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہو....

قطب الدین شاہد

ایک بہت مشہور فلمی ڈائیلاگ ہے ’’جو ڈر گیا، وہ مرگیا‘‘....گجرات انتخابات کے  پس منظر میں اگر سیکولر جماعتوں کی تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔  ظاہر ہے کہ جب ڈری سہمی یہ جماعتیں مقابلے میں جائیں گی، تو شکست سے انہیں کون بچا سکے گا۔ حالانکہ دفاعی پوزیشن میں مودی حکومت کو ہونا چاہئے مگرصاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر بداعمالیوں کے باوجود مرکز کی یوپی اے حکومت پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے سامنے سونیا گاندھی کی قیادت والا مرکزی لاؤ لشکر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ کانگریس کی یہ حالت دیکھ کر ہی شاید بال ٹھاکرے نے یہ بیان دیا ہے کہ ’ گجرات الیکشن میںمودی کے وجے رتھ کو روکنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا‘....
    تو کیا گجرات میں بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے کہ کانگریس یا دیگر سیکولر جماعتیں اس پر قابو نہیں پاسکتیں؟ اسے زیر نہیں کیا جاسکتا؟ اس قلع پر فتح پانا ممکن نہیں ہے؟....... ایسا بالکل نہیں ہے..... اوراگر اس کے باوجود ایسا ہے ... یعنی مودی کو ہٹانا مشکل لگ رہا ہے تو صرف اس لئے کہ کانگریس کی یہی منشاء ہے۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ مودی کی حکومت قائم ود ائم رہے۔اس کیلئے کسی اور سیکولر جماعت پر الزام اس لئے عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گجرات کی حد تک کسی اور جماعت میں وہ دم خم نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو اکھا ڑ پھینکے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کسی جماعت میں مودی سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے تو وہ وہاں انتخابی میدان میں کود کر کانگریس بمعنی سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب کیوں بنتی ہیں؟ ایک دو فیصد ووٹ لے کر یہ جماعتیں مودی کی جیت کا راستہ کیوں ہموار کرتی ہیں؟ ...... تو اس کا بھی جواب یہی ہوگا کہ کانگریس یہی چاہتی ہے۔ 
    دراصل کانگریس یہ سمجھتی ہے کہ مرکز میں اسے باقی رہنے کیلئے گجرات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کا قائم رہنا ضروری ہے۔مودی سے ڈرادھمکا کر کانگریس سیکولر ووٹوں کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ کانگریس یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ جب چوری نہیںہوگی تو چوکیدا ر کی ملازمت کیوںکر بحال رہ سکتی ہے؟ دہشت گردانہ واقعات نہیں ہوںگے تو  بڑی بڑی تفتیشی ایجنسیوں کی ضرورت کیوں کر محسوس کی جائے گی؟
    کانگریس پر یہ الزام بے بنیاد نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو بچائے رکھنا چاہتی ہے، لیکن ..... اس پر ہم گفتگو تھوڑی دیر بعد کریں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گجرات کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اور وہاں کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ کیا وہاں  بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے؟  یا پھر کانگریس اتنی ہی کمزور ہے، جتنی وہ ظاہر کرتی ہے؟
    ۲۰۰۲ء میں گجرات فساد کے بعد مودی حکومت اکثریت میں  آئی تھی۔  اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ مظلومین حالات سے خوف زدہ تھے لہٰذا وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لےسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں رہائش پذیرتھی، یعنی وہ  ووٹ دینے کے قابل نہیں تھے.... اور جو ووٹ دے سکتے تھے، ان کے سامنے مرحوم احسان جعفری کاانجام تھا، جنہیں بچانے کی کانگریس نے کوئی کوشش نہیں کی، اسلئےانہوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کے بجائے گھروں میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ دوم یہ کہ..... مجرمین اور ان کے حامی اپنے تحفظ کی خاطر مودی حکومت کی واپسی چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر پولنگ میں حصہ لیا۔ اس طرح مودی اکثریت سے منتخب ہوکر گجرات کے اقتدار پردوبارہ قابض ہوئے۔ اس الیکشن میں ۶۱ء۵۴؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی جس میں یقیناً مودی کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس الیکشن میں بی جے پی کو ۴۹ء۸۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۱۸۲؍ میں ۱۲۷؍ نشستیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو ۳۹ء۲۸؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵۱؍ نشستوں پراکتفا کرنا پڑاتھا۔
    ۲۰۰۴ء تک آتے آتے حالات تبدیل ہوئے۔ گجرات کا زخم  رِستا ہی رہا، جس کا کرب پورے ملک نے محسوس کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے خلاف پورے ملک میں ایک لہر چل پڑی۔ انڈیا شائننگ پر گجرات فساد کا دھبہ حاوی رہا۔ اورا س طرح بی جے پی کو اس کے گناہوں کی سزا ملی اور وہ مرکز سے بے دخل ہوگئی۔گجرات میں بھی بی جے پی مسترد کی گئی۔ ۲۶؍ پارلیمانی نشستوں میں بی جے پی کو ۱۴؍ اور کانگریس کو ۱۲؍ نشستیں ملیں۔ یعنی دونوں کی کارکردگی تقریباً برابر رہی۔ تقریباً ۹۲؍ اسمبلی نشستوں پر کانگریس بی جے پی سے آگے تھی۔ مطلب صاف تھا کہ تھوڑی سی کوشش میں کانگریس گجرات کا قلعہ فتح کرسکتی تھی۔ یہاں یہ بات واضح تھی کہ وہ تمام لوگ جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ  تھے، مودی کو  واپس لانے  کیلئے جان کی بازی لگانا چاہتے تھے ، مگر کانگریس کے حامیوں  بالخصوص سیکولر رائے دہندگان میں وہ جوش و خروش نہیں تھا کیونکہ یہ بات سب جانتے تھے کہ کانگریس کو ان مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیکولر رائے دہندگان کی یہ بے حسی ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں نظر آئی۔کہاں تو ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں کانگریس ۹۲؍  اسمبلی نشستوں پر بی جے پی سے آگے تھی، کہاں ۲۰۰۷ء میں اسے صرف ۵۹؍سیٹیں ہی مل سکیں۔  بی جے پی کو اس مرتبہ ۱۱۷؍ سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی الیکشن ہوا تو  بی جے پی کو ۱۵؍ اور کانگریس کو ۱۱؍ نشستیں ملیں۔ یہاں بھی زیادہ فرق نہیں تھا.... کانگریس اگرچاہتی توگزشتہ۳؍ برسوں میں سیکولر رائے دہندگان کا اعتماد بحال کرسکتی تھی، مگر افسوس کہ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
    یہ ہیں وہ زمینی حقائق، جو بہت واضح ہیں کہ بی جے پی گجرات میں بہت مضبوط نہیں  تھی اور نہ ہے....  یعنی اسے ناقابل تسخیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اگر اس کے باوجود بی جے پی کی حکومت وہاں قائم و دائم ہے، تو اس کی وجہ سمجھنی ہوگی۔ دراصل کانگریس اسی میں اپنی بھلائی سمجھتی ہے کہ ملک میں موت کا ایک سوداگر ہو، جس کا خوف دلا کر وہ باقی ماندہ ہندوستان کے سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان کو اپنے پالے میں رکھ سکے۔ کانگریس ، بی جے پی کے مقابلے سیکولر طاقتوں کو توڑنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتی ہے۔  ہم سب دیکھتے ہیں کہ مقابلہ اگر بائیں محاذ سے ہو، لالو کی آر جے ڈی سے ہو یاملائم کی سماجوادی سے ہو تو کانگریس کے تیور کیسے ہوتے ہیں اور جب بی جے پی سے ہو تو اس کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ شکست کے بعد کانگریس یہ الزام عائد کرتی ہے کہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے سیکولرووٹوں کو تقسیم کردیا، جس کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں، اس کیلئے کانگریس نے کیا کیا؟ کیا  ان چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی اس کی جانب سے کوئی پہل ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا تھا، تواس کیلئے ایک بڑی کوشش ہونی چاہئے تھی۔ یہ ذمہ داری صرف چھوٹی جماعتوں پر توعائد نہیں ہوتی کہ سیکولر ووٹوں کے اتحاد کا سبب وہی بنیں۔ کانگریس اُن ریاستوں میں اُن جماعتوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی، جہاں وہ بی جے پی سے مقابلہ کرتی ہیں اور کانگریس کی حیثیت ووٹ تقسیم کرنے کی ہوتی ہے۔
    کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بی جے پی اپنے عروج میں سب سے زیادہ  اترپردیش میں مضبوط تھی۔  ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب بی جے پی  ۸۰؍ پارلیمانی نشستوں میں سے تقریباً ۶۰؍ پر قابض ہوگئی تھی۔  اس نے کانگریس کو شکست دے کر وہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہاں بھی کانگریس نے گجرات جیسی ہی پالیسی اپنا رکھی تھی، جس کے نتیجے میں عوام نے ان دونوں کو اکھاڑ پھینکا اور پھر  سماجوادی اور بی ایس پی کی شکل میں تیسری اور چوتھی قوت کو اقتدار تک پہنچایا۔ گجرات میںاگر کانگریس کا یہی رویہ رہا، تو ایک دو انتخابات کے بعد وہاں بھی تیسری اورچوتھی قوت کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ پرست نہیں ہے۔