Saturday, 14 January 2012

U P election and political parties......

اترپردیش میں رائے دہندگان کو رِجھانے کی کوششیں شروع

تمام  سیاسی جماعتیں پریشان مگر ووٹر ابھی مٹھی کھولنے کو تیار نہیں،چھوٹی جماعتوں کی موجودگی کے سبب  غیر متوقع  نتائج کی امید

قطب الدین شاہد
 
    ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پورے ملک کی نگاہیں اتر پردیش الیکشن پرمرکوز دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ اب وہ بات نہیں رہی  جو کسی زمانے میں ضرب المثل کی صورت اختیار کرگئی تھی کہ دہلی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر جاتا ہے..... لیکن یوپی  انتخابات کی اہمیت سے انکار پھر بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ لوک سبھا میں پہنچنے والے ہر ۶؍ اراکین پارلیمان میں سے ایک کا تعلق  وہیں سے ہوتا ہے۔
    کُل ۷؍ مرحلوں میں ہونے والےانتخابات کا بگل بج چکا ہے۔  ۸؍ فروری کو پہلے مرحلے کا الیکشن ہوگا اور اس طرح ۳؍ مارچ کو ساتویں مرحلے کے ساتھ اختتام پذیرہوگا۔ اس دوران ۱۲؍ کروڑ سے زائد رائے دہندگان ۴۰۳؍رکنی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کریںگے۔  پیشین گوئیاں شروع ہوچکی ہیں، بعض جائزے معلق اسمبلی کی بات کررہے ہیں تو بعض  بی ایس پی پر مہربان ہیں  البتہ کچھ ایسے بھی ہیں جوکانگریس کی مدد سے سماجوادی پارٹی کی حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔  ویسے انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پر ۶؍ مارچ سے قبل کچھ کہنا محض قیاس آرائی ہوگی۔ اس انتخاب میں وہ جماعتیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہےبہت پُرجوش ہیں لیکن وہ جماعتیں جو خود اقتدار میں آنے یاکسی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے کام کررہی ہیں، بہت بری طرح بے چین ہیں۔
     لکھنؤ، گونڈہ، بارہ بنکی، بستی، گورکھپور اوراس سے متصل اضلاع میں   جہاں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی کا زور ہے وہیں اعظم گڑھ، مئو اور اس کے قریب کے علاقوں میں مولانا عامر رشادی کی علماء کونسل  انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ  باغپت، متھرا اور امروہہ جیسے دہلی کے نواحی علاقوں میں اجیت سنگھ کی زور آزمائی انتخابی نتائج کا رخ موڑ سکتی ہے۔ سونے لال پٹیل کی اپنا دل اور امر سنگھ کی راشٹریہ لوک منچ جیسی جماعتیں بھی سیاسی مساوات بگاڑنے میں اہم رول اد ا کرسکتی ہیں۔  ان تمام جماعتوں میں راشٹریہ لوک دل کے علاوہ کسی کےپاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی میں آر ایل ڈی کے ۱۰؍ اراکین ہیں اوراس مرتبہ وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابی میدان میں اُتری ہے۔جہاں تک بڑی جماعتوں کی بات ہے، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اقتدار پر قابض ہونے کی بھر پور کوشش کریںگی لیکن کانگریس اور بی جے پی کی ترجیح اپنا پرفارمنس بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کسی کو اقتدار  میں آنے سے روکنے کی بھی  ہوگی۔ بی جے پی جہاں سماجواوی پارٹی کو لکھنؤسے دور رکھنے کا لائحہ عمل ترتیب دے گی وہیں کانگریس کی خواہش ہوگی کہ ہوسکے تو وہ  بی ایس پی کے ہاتھی کوراستے میں ہی کہیں روک لے۔
     مضبوط ووٹ بینک کی وجہ سے بلا شبہ اس مرتبہ بھی مایاوتی کا پلڑا بھاری رہنے کاامکان ہے لیکن وہ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوسکیں گی، اس میں شبہ ہے۔ خود اُن کی گھبراہٹ بتارہی ہے کہ وہ بہت ’پُر امید‘ نہیں ہیں۔دلت ووٹ تو خیر اُن کے ساتھ  ہے لیکن ان کا  سوشل انجینئر نگ والا  وہ فارمولہ جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئی تھیں، اب بری طرح فیل ہوچکاہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو اور مسلم ووٹوں کی بدولت  ۲۰۰۷ء کے  الیکشن میں ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں ۲۰۶؍ نشستیں انہوں نے ضرور حاصل کرلی تھیں لیکن یہ طلسم بہت جلد ٹوٹ گیا ، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں ۸۰؍ لوک سبھا سیٹوں میں بی ایس پی کو محض۲۰؍ نشستوں پرہی اکتفا کرنا پڑا۔ بی ایس پی سپریمو کی پیشانی پر آئی شکنیں ۲۰۰۷ء کے الیکشن سے قبل ملائم سنگھ کے خوف زدہ چہرے کی یاد دلا رہی ہیں جب وہ نٹھاری قتل عام کی وجہ سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ملائم سنگھ کرائم کی بڑھتی شرح کی وجہ سے پریشان تھے اوراسی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے تو مایاوتی کرپشن  کے سبب فکر مند ہیں۔ وزیراعلیٰ کی پریشانیوں کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ۶؍ماہ میں انہوں نے تقریباً ۲۰؍ وزیروں کو باہر کا راستہ دکھایا ہے اور اس طرح اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہیں جو بدعنوانی کے سبب گزشتہ ۴؍ برسوں میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
    کلیان سنگھ اور امرسنگھ سے چھٹکا راپانے نیز اعظم خان کو دوبارہ اپنے ساتھ لے آنے میں کامیاب ملائم سنگھ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی طرف پُر امید نگاہوںسے دیکھ رہے ہیں..... مختلف دروازوں پر دستک دینے کے بعد ملائم سنگھ کو شاید اب یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ مسلم رائے دہندگان کا اعتماد بحال کئے بغیر وہ لکھنؤ کے اقتدار پر قابض نہیں ہوسکیںگے۔  یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں نے ہنوز انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے اور یہی بات کانگریس کیلئے حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہے۔  بی ایس پی سے اقتدار چھیننے میں سماجوادی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب جہاں اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کانگریس ہے وہیں پیس پارٹی، علماء کونسل ، اپنا دل اور امرسنگھ کی لوک منچ  بھی اُسے کم نقصان نہیں پہنچائیںگی۔  مشہور سرجن ڈاکٹر ایوب کی پارٹی ابھی نوزائیدہ ہے اور یہ اس کا پہلا اسمبلی الیکشن ہے لیکن ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن اوراس کے بعد ضمنی انتخابات میں پیس پارٹی نے جس طرح کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۲۱؍ پارلیمانی نشستوں پر پیس پارٹی نے قسمت آزمائی کی تھی، سیٹیں تو ایک بھی ہاتھ نہیں آئیں لیکن ۴ء۵؍ فیصد ووٹ لے کر ۱۸؍ اسمبلی نشستوں پر اپنی برتری درج کرانے میں کامیاب رہی تھی۔ پیس پارٹی کی جانب سے فی الحال ۲۳۰؍ اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا گیاہے۔ اسی طرح کرمی ووٹوں کی ایک مضبوط دعویدار اپنا دل بھی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں ہے لیکن ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ۱۰ء۴۹؍ فیصد ووٹ لے کر اس نے کئی اہم امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے سے روک دیا تھا، جس میں بیشتر سماجوادی پارٹی کے ہی تھے جبکہ ۲۰۰۲ء کے اسمبلی الیکشن میں اسے ۱۰؍ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
    بدعنوانی کی علامت بن گئے بی ایس پی  کے برطرف وزیر بابو سنگھ کشواہا کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے  بی جے پی کچھ اس بری طرح  سے پھنس گئی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا اُسے کوئی راستہ ہی نہیں سجھائی دے رہاہے۔ کشواہاہندوستانی تاریخ کے شایدایسے واحد لیڈرہیں جنہیں ان کی جماعت (بی جے پی) نے ان کے ’بے گناہ‘ ثابت ہونے تک معطل کررکھا ہے۔ اس طرح کی عجیب و غریب معطلی اس سے قبل   دیکھی گئی تھی، نہ ہی کہیں سنی گئی تھی۔ ان حالات میںبی جے پی کا چوتھے نمبر پر رہنا تقریباً طے مانا جارہا ہے۔کچھ اُلٹ پھیر ہوجائے تو مزید پیچھے جاسکتی ہے ۔ ان حالات میں بی جے پی کی پوری کوشش سماجوادی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی  ہوگی، اس لئے جہاں بھی اسے موقع ملے گا، خاموشی سے بی ایس پی کی مدد کرنا چاہے گی۔
    گزشتہ انتخابات کے مقابلے کانگریس نے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنالی ہے لیکن ۱۹۸۹ء سے قبل کی پوزیشن بحال ہوجائے گی، اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ راہل گاندھی اور دگ وجے سنگھ اپنی بساط بھر کوشش تو کررہے ہیں لیکن اس سے کچھ بہت زیادہ فرق  پڑنے والا نہیں ہے۔ دلتوں سے ہمدردی جتانے کا کام جہاں راہل گاندھی کررہے ہیں وہیں مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کی کمان دگ وجے سنگھ نے سنبھال رکھی ہے ۔لیکن اگریہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپنے اپنے محاذ پر دونوں ناکام ہیں۔ دگ وجے سنگھ سمجھتے ہیں کہ بٹلہ  محض ہاؤس انکاونٹر کو جعلی قرار دے دینےسےمسلمان ان کےساتھ  آجائیں  گے تو راہل کی یہ خام خیالی ہے کہ دلتوں کے گھر جاکر وہ انہیں اپنا ہمنوا بنالیںگے۔حالانکہ کسی نے یہ بات مذاقاً کہی ہے مگر  اس میں پوشیدہ طنز کی نشتریت کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یوپی کے دلت بیچارے اس وجہ سے خوف زدہ ہیں کہ بڑی کوششوںسے وہ جو ۲؍ روٹی کا انتظام کرپاتے ہیں، راہل گاندھی کھا کرچلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ  ۲۰۰۹ء  کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اسمبلی میں بھی وہ وہی تاریخ دوہرا پائے گی، اس کی امید کم ہے۔ ان حالات میں کانگریس کی کوشش  بی ایس پی کواقتدار سے بے دخل کرنے کی ہوگی، اس کیلئے وہ سماجوادی کو سہار ا بھی دے سکتی ہے تاکہ ترنمول پراس کاانحصار کم ہوجائے۔
    ویسے جوں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آئیںگی، حالات میں مزید تبدیلیوں کاامکان ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

Thursday, 12 January 2012

Lok pal and political parties

سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

لوک پال بل پر لوک سبھااور راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح کی ہنگامہ آرائی کی،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بہت زیادہ خوف زدہ ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہتیں یہ بل منظور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ۴۳؍ برسوںسے یہ بل التوا میں ہے اور پتہ نہیں کب تک رہے؟ 

قطب الدین شاہد
 
  بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک بار پھر لوک پال بل کے ٹھنڈے بستے میں چلے جانے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ لوک سبھا میں بل کی لولی لنگڑی منظوری کے بعد راجیہ سبھا میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی اور جس کمال ہوشیاری کے ساتھ اسے ’ٹھکانے‘ لگایاگیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں  ہے۔بظاہر تو سبھی اس کی حمایت میں بول رہی ہیں لیکن ..... عملاً کوئی بھی اس کے حق میں نہیں،سبھی  اس سے نجات پانا چاہتی ہیں۔ ایوان میں جو کچھ ہوا، اس کی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ کی نہیںتھی۔  اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کہیں لوک پال کا انجام بھی خواتین ریزرویشن بل جیسا نہ ہو۔ بل کی آئینی حیثیت نہ ہونے اور راجیہ سبھا میں اس پر ووٹنگ کی نوبت نہ آنے کیلئے کانگریس بی جے پی پر الزام لگارہی ہے اور بی جے پی کانگریس پر، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں دونوں کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہیں لیکن.....کیا یہی سچ ہے؟ یا اس بظاہر سچ کے پیچھے کوئی اور سچائی بھی ہے؟ 
    سیاسی جماعتیں لوک پال سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ اس پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے  ایک سرسری نظرلوک پال کی تاریخ پر  بھی ڈالتے چلیں۔لوک پال سنسکرت لفظ سے بنا ہے جس کے لفظی معنی ہوتے ہیں عوام کا محافظ۔  یہ ایک ایسے عہدے کی تشکیل کا معاملہ ہے جسے سویڈن میں ’اومبڈس مین‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔سویڈن نے اسے ۱۸۰۹ء میں متعارف کرایاتھا جس کا کام شکایت موصول ہونے کی صورت  میں بدعنوانوں پر شکنجہ کسنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بدانتظامی پر بھی نظر رکھنا تھا۔ تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ اومبڈس مین آج دنیا کے مختلف ملکوں میں الگ الگ ناموںسے جاناجاتا ہے۔ سویڈن، فن لینڈ، ڈنمارک  اور ناروے میں اومبڈس مین کی شناخت اسی نام سے ہے جبکہ برطانیہ میں اسےپارلیمنٹری کمشنر کا نام دیا گیا ہے جو صرف اراکین پارلیمان کی جانب سے موصول ہونے والی شکایتوں کی  سماعت کرسکتا ہے۔  
    وہ ۶۰؍ کی دہائی تھی جب وطن عزیز میں کرپشن کی دخل اندازی کی شدت محسوس کی گئی۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے حکومت نے ۱۹۶۶ء میں پہلا ایڈمنسٹریٹیو ریفارمس کمیشن (اے آر سی) تشکیل دیا جس نے ۲؍ سطحی مشینری تشکیل دینے کی سفارش کی۔  اس سفارش کے تحت مرکز میں لوک پال اور ریاستوں میں لوک آیکت کا قیام تھا۔ سفارش منظور کی گئی اور پہلی مرتبہ ۱۹۶۸ء میں اسے چوتھی لوک سبھا میں پیش کیا گیا،جہاں اُسے  ۱۹۶۹ء میں منظوری بھی مل گئی ..... مگر راجیہ سبھا میں یہ بل پیش ہی نہیں کیا جا سکا۔ دریں اثنا لوک سبھا تحلیل کردی گئی اور اس طرح لوک پال بل اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس بل نے کئی بار ایوان کا منہ دیکھا، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اسے گلے لگا کر اس کا خیر مقدم کرنے کے بجائے افسر شاہوں کی طرح اس بل کو اِس ٹیبل سے اُس ٹیبل تک دوڑانے اور اس بہانے عوام کو الجھائے رکھنے کا کام کیا ۔دوسری بار ۱۹۷۱ء اور پھر بالترتیب ۱۹۷۷ء، ۱۹۸۵ء،۱۹۸۹ء، ۱۹۹۶ء، ۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء ،  ۲۰۰۵ء اور  ۲۰۰۸ء میں اسے ایوان میں پیش کیا گیا۔  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران ہندوستان کی تقریباً تمام اہم سیاسی  جماعتوں  نے اقتدار کے مزے لوٹے لیکن اس بل کو  پاس نہیں ہونا تھا، نہیں ہوا۔ جب بھی اس بل کو ایوان میں پیش کیا گیا ، اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کردیا گیا یا پھر ’نظر ثانی‘ کے بہانے وزرات داخلہ  کی محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس مرتبہ انا ہزارے کی تحریک کی وجہ سے امید ہوچلی تھی کہ اسے قانونی حیثیت مل جائے گی، مگر افسوس ! کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر سیاسی داؤ پیچ میں عوام کوالجھا دیا گیا۔ قارئین جانتے ہیں کہ کچھ اسی طرح کا حشرخواتین ریزرویشن بل کابھی ہوا تھا۔
    لوک پال بل کا انجام دیکھ کر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کی منظوری اور اس طرح اپنے اوپر کوئی محتسب نہیں چاہتیں۔ ملاحظہ کریں سیاسی جماعتوں کے مطالبات اور اپنا سر دُھنیں۔ بی جے پی کہتی  ہے کہ وہ  لوک پال کی خواہش مند ہے لیکن اس بل کی نہیں جو حکومت نے پیش کیا ہے بلکہ ایک ’ مضبوط‘ لوک پال بل چاہتی ہے۔ کچھ اسی طرح کا مطالبہ بایاں محاذ، آر جے ڈی ، سماجوادی اور بی ایس پی نے بھی کیا ہے۔ ترنمول بھی لوک پال کی ’مخالف‘ نہیں ہے لیکن موجودہ بل کے تئیں اس کی رائے بھی اچھی نہیں ہے۔ کانگریس نے بی جے پی پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ اسے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے کیونکہ اس نے لوک پال کو ’مضبوط‘ نہیں ہونے دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سبھی ’مضبوط‘ لوک پال بل کیلئے ’کوشاں‘ اور اس پر’ متفق‘ ہیں تو لوک پال مضبوط کیوں نہیں ہوپارہا ہے۔ راجیہ سبھا کو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کرتے وقت حکومت نے کہا کہ ترمیمات کیلئے اسے ۱۸۷؍ نوٹس موصول ہوئے ہیں، جس کے مطالعہ میںکافی وقت لگے گا۔ اس ’کافی وقت‘ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کی موجودہ میعا د میں یہ کام ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں؟.... صرف ۴۳؍ سال۔  ملائم سنگھ یادو نے لوک سبھا میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا  بھی کہ ’’ اس بل میں بہت خامیاں ہیں،جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت نے انا کے خوف سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘
    ملائم سنگھ کی اس ’جلد بازی‘ سے متعلق ایک لطیفہ سنا کر ہم اپنی بات ختم کرنا چاہیںگے۔ ایک شخص نے اپنی شادی کے موقع پر ایک ٹیلر کو کوٹ کی سلائی کا آرڈر دیا تھا جو وقت پر تیار نہیں ہوسکا۔ شادی کے دن تھوڑی سی ہنگامہ آرائی ہوئی، دولہے کے گھر والے اور ٹیلر کے مابین’ توتو میں میں ‘ ہوئی اور بات ختم ہوگئی۔ وقت نکل گیا تو دونوں بھول گئے۔ ۳؍ سال بعد دولہے کے بعد یہاں بچے کی پیدائش ہوئی۔ ولیمہ میں کوٹ نہیں پہن سکا تو سوچا عقیقے میں پہن لوں، لہٰذا پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا۔ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ ایک ہفتے میں سِل دے گا مگر حسب سابق تیار نہیں ہوسکا۔  فریقین میں ایک بار پھر بحث مباحثہ ہوا.... اور اس طرح  ایک بار پھر بات آئی گئی اور ختم ہوگئی۔ اس شخص کو کوٹ کی یاد اُس وقت آئی جب بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ اس نے سوچا کہ چلو میں نہیں پہن سکا ، تو میرا بیٹا ہی پہن لے۔ وہ ایک بار پھر ٹیلر کے یہاں پہنچا اور اس مرتبہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو بھی لے کر گیا۔ ٹیلر نے پھر وعدہ کرلیا اور کہا کہ اس کے پاس کام تو بہت ہے مگر وہ اس کوٹ کواس بار ضرور سل  دے گا..... مگر وہ وقت آیاتو ایک بار پھر کام ادھورا تھا۔ جب دونوں میں بحث تیز ہوئی تو گھر کے اندر سے ٹیلر کی بہو نے اپنے خسر کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’’کتنی بار آپ سے کہا  ہےکہ ارجنٹ کام مت لیا کرو‘‘۔
    کچھ یہی صورتحال ہمارے لوک پال بل کی بھی ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ہی ہمیں اس کی یاد آتی ہے ورنہ ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت اوراس کی اتحادیوں کو یہ کام ’ارجنٹ‘ لگتا ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں ہماری خاموشی کابھی   دخل ہے۔ دراصل یہ ہماری بے حسی کا مذاق ہے۔کیا ہم اس کا نوٹس لینے کی طاقت رکھتے ہیں؟ n

Saturday, 10 December 2011

compelete justice

مکہ مسجد کے بے قصور مسلم ملزمین کی رِہائی کے بعد انہیں معاوضہ بھی ملا.....
مگر انصاف ہنوز کوسوں دور ہے۔ حصول انصاف کیلئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

گزشتہ دنوں مکہ مسجد دھماکے کے ملزمین کی رہائی کے بعد حکومت نے ہرجانے  کی ادائیگی کااعلان کیا۔ اسے ایک مستحسن قدم تصور کرتے ہوئے اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔مکمل انصاف تو اس وقت ہوگا جب ان تمام پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا ملے گی جو اِن کی زندگیوں سے کھلواڑ کے مرتکب ہیں ، دوم ان کی بہتر باز آبادکاری ہو جومحض الزام کی وجہ سے اپنا بہت کچھ گنوانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
قطب الدین شاہد
اپنے زمانے کے مشہور انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ ’’رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘..... ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے بہت سے لوگوں کی رائے کچھ اسی قسم کی ہے۔ ایسے لوگوں  کا خیال ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت  آزادی کے بعد سے ہی  مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیا جانے لگا ہے،انہیں  ایک ایسی تاریکی میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے آگے کچھ نظر نہیں آتا، ان کی ترقی کے راستے مسددو کردیئے گئے ہیں اور اگر اس کے باوجود بھی وہ کہیں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو فساداور دھماکوں کے ذریعہ ان کے حوصلے توڑے جاتے ہیں اور اس طرح انہیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے........ یقیناً اس میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے تو حوصلہ ملتا ہے۔داناکہتے بھی ہیں کہ صبح کا جنم رات ہی کے بطن سے ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ رات کی تاریکی سے خوف زدہ ہوئے بغیر صبح کی امید اور اس کی تلاش میں جدوجہد جاری رکھی جائے۔ خود مخدوم نے بھی  اس کا اعتراف کیا ہے:
 رات کے ماتھے پر آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
     بلا شبہ ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بم دھماکوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے، جس میں  زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔فسادات میں لُٹتے پِٹتے بھی مسلمان ہی   ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی انہیں کو جھیلنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح بم دھماکوں میں جانی و مالی تباہی کے بعد الزام بھی انہیں کے سر آتا ہے۔ میرٹھ ، ملیانہ، بھاگلپور، ممبئی، بھیونڈی اور گجرات کے فسادات کے بعد مالیگاؤں، مکہ مسجد،اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس   اور جامع  مسجد دہلی کے  دھماکےاس کی واضح مثالیں ہیں۔دراصل ان حربوں کے ذریعہ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کے پاس اندھیروں کے سواکچھ بھی نہیں ہے...... لیکن  وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ مسلمان  ہی ہیں جوکشتیاں جلا کر آگے بڑھنے میں یقین رکھتے ہیں۔
    گزشتہ دنوں اس کا ایک اچھا نمونہ دیکھنے میں آیا جب آندھرا پردیش حکومت مکہ مسجد دھماکے کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کو نہ صرف رِہا کرانے پر مجبور ہوئی بلکہ اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے اس نے گرفتار شدگان کو ہرجانہ بھی ادا کرنے کااعلان کیا۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ مکمل انصاف تو نہیں ہے لیکن یہ ایک اچھی کوشش  ضرورہے جس کاخیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اسی کے ساتھ ہمیں مکمل انصاف کے سمت جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہئے۔قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی طاقت آزمائی کرنی ہوگی۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف معاملات کے تحت مسلم نوجوان سنگین جرائم کے نام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ دراصل ان پر قانونی شکنجہ اتنا مضبوط ہوتا ہے اور الزامات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ جلد ان کی رہائی کے اسباب پیدا نہیں ہوپاتےکیونکہ معاملے کوعدالت تک جلد پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ، اس کے باوجود اگرکسی طرح معاملہ عدالت تک پہنچا  اور ان کے حق میں معاملہ فیصل ہوا تو حکومت فوراً ہی اعلیٰ عدالت کا رخ اختیارکرلیتی ہے۔مختلف معاملات میں مسلم نوجوانوں کو کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حیدرآباد حکومت کے فیصلے کی ستائش کی جانی چاہئے، جس نے نہ صرف یہ کہ ذیلی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا بلکہ اقلیتی کمیشن کی ایک سفارش کو قبول کرتے ہوئے ان تمام نوجوانوں کو معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔اس لحاظ سے اسے ایک مستحسن قدم کہا جاسکتا ہے کہ جہاں کچھ نہیں ہورہا ہے، وہاں یہ  ایک اچھی روایت  ہے..... لیکن جیسا کہ بالائی سطو ر میں کہا گیا ہے کہ یہ مکمل انصاف نہیں ہے۔انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے والوں کو مناسب سزا دی جائے اور ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کیلئے باعزت زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
    حکومت کے سامنے بڑی شدت سے ہمیں یہ بات گوش گزار کرنی ہو گی کہ چند ہزار یا چند لاکھ روپوں کی ادائیگی ہی ان کا ہرجانہ نہیں ہے بلکہ ان کی بازآبادکاری ہونی چاہئے۔اس طرح کے معاملات میں جب کوئی نوجوان ماخوذ ہوتا ہے تو صرف وہ تنہا اس کی سزا نہیں بھگتتا بلکہ اس کی سزا میں اس کے اہل خانہ، اس کا پورا خاندان، اس کے عزیز و اقارب، اس کے گاؤںاور محلے والے بلکہ پورا شہر  ، حتیٰ کہ پوری قوم   شریک ہوتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد پڑگھا، مالیگاؤں اور اعظم گڑھ کو  میڈیا نےکس طرح ’ٹیررسٹ علاقے‘ کے طور پر پروجیکٹ کیا تھا۔ جب کسی نوجوان پر اس طرح کا کوئی الزام عائد ہوتا ہے تو  نہ صرف اس کی ملازمت جاتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کی بہن کی شادی خطرے میں پڑجاتی ہے،  اس کے بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہوپاتا، والدین کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات دانے دانے کو محتاجی کی نوبت آجاتی ہے۔ حالانکہ آئین کہتا ہے کہ ملزم کے ساتھ مجرم جیسا رویہ نہ رکھا جائے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ صرف پولیس اہلکار بلکہ ہمارا سماج بھی ملزم کو مجرم سمجھ بیٹھتا ہے اور اسے سخت سزائیں دینے لگتا ہے۔ خود ہم بھی  ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیںجن پر الزامات تو سنگین ہیں لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔اندر سے کہیں نہ کہیں ان کے ساتھ ہمدردی  کے اظہار کی خواہش  ہوتی ہے لیکن حکومت اور پولیس کے خوف سے ایسا نہیں کرپاتے اور اس طرح ان نوجوانوں کو ناکردہ گناہوںسے سزا ہم بھی دیتے ہیں۔
    انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور یہ ہرجانہ حکومت ادا کرے، وہ پولیس اہلکار ادا کریں جنہوں نے بلا وجہ انہیں مجرم بنا کر پیش کیا، وہ میڈیا ادا کرے جس نے رائی کو پربت بنا کران کی شبیہ خراب کی، سماج ادا کرے جس نے اسے یکہ و تنہا کر چھوڑا اور ہم سب ادا کریں جنہوں نے اپنے سماجی فریضے میں کوتاہی برتی۔   اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے ۔ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں دو کام ہونا چاہئے۔ اول تو یہ کہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دلائے ..... ایسی سزا کہ دوبارہ وہ کسی کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہوئے ۱۰۰؍ بار سوچنے پر مجبور ہوں۔دوم یہ کہ ان ملزمین کی مکمل بازآبادکاری کا انتظام کرے، انہیں ملازمت دلائے، ان کے لُٹے پٹے کاروبار کو استحکام بخشنے میں مدد کرے اور سماج میں انہیں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے راستے میں حائل  دشواریوں  کے خاتمے میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔
    یہ تو رہی حکومت کی ذمہ داری۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ حکومت اس تعلق سے کیا کررہی ہے؟ اس کا تعاقب جاری رکھیں اوراسے مجبور کریںکہ وہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور  مظلوموں کو معقول ہرجانہ ادا کرے۔ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہ خاموش بیٹھنے کا حکومت کے نزدیک مطلب ہوگا کہ ’اتنے سے بھی کام ہوسکتا ہے‘۔ اور ہمارے سامنے صرف حیدرآباد کا معاملہ پیش نظر نہ ہو بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی   اس طرح کے معاملات پیش آئے ہیں،ان کا بھی احاطہ کیا جانا ضروری ہے۔ فیض احمد فیض  کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے مکمل انصاف کے حصول کیلئے ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔
 ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
   چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی






Saturday, 26 November 2011

Fake encounter or Political terrorism

جعلی انکاؤنٹر یا  سیاسی دہشت گردی
عشرت جہاں کا قتل کیا گیا،جس کی تصدیق اب عدالت عالیہ نے بھی کردی ہے، مگرافسوس کہ ملک میں قاتلوں کے خلاف وہ ماحول نہیں بن پایا، جیسا کہ بننا چاہئے تھا۔ جعلی انکاؤنٹر جسے سیاسی دہشت گردی کہنا چاہئے، کو اتنا
سنگین نہیں سمجھا جارہا ہے۔ایسا کیوں؟ ذیل کے مضمون میں انہی نکات پرگفتگو کی گئی ہے۔

قطب الدین شاہد
عشر ت جہاں اور اس کے ساتھ دیگر ۳؍ افراد کا انکاؤنٹرنہیں ہوا تھا بلکہ وہ قتل کیے گئے تھے........اب یہ الزام نہیں رہا بلکہ اس کی صداقت پر جہاں خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے وہیں ا س کی توثیق گجرات ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔یہ قتل گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران نے کیا تھاجس میں کئی سرکاری اداروں حتیٰ کہ ریاستی حکومت کی مدد کا بھی پور اپورا مکان ہے۔ان قاتلوںکو اگر ان کا تعاون حاصل نہ ہوتاتو اس کیس کے حقائق کی یوں پردہ پوشی نہ کی جاتی اور ذیلی عدالت کے ذریعہ اسے جعلی انکاؤنٹر قرار دیئے جانے کے بعد خاطیوں کو بچانے کیلئے مودی حکومت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرتی۔
    اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ قتل تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاان قاتلو ں اوراس مجرمانہ عمل میں معاونت کرنے والوں کو سزا ملے گی؟اور اگر ملے گی بھی تو کتنوں کو ملے گی اور کب تک ملے گی؟افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میںعدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلے کی بازگشت اس طرح نہیں سنائی دی، جس طرح کہ سنائی دینی چاہئے تھی۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے جہاںگزشتہ ۵؍ دنوںتک مختلف موضوعات پر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اس دوران کئی بار واک آؤٹ ہوئے اور کئی بار پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی مگر مودی حکومت  اوراس کے قاتل ٹولوں پر گرفت کی بات کسی نے نہیں کی۔اس تعلق سے کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنائی دی۔سی پی آئی نے فیصلے کے روز مودی حکومت کے استعفیٰ کا مطالبہ ضرور کیا تھامگر اس کی حیثیت محض ایک خانہ پری کی سی تھی۔اس مطالبے میں وہ شدت نہیں تھی جو عام طور پر بایاں محاذ کی کسی اور مانگ میں ہو ا کرتی ہے۔مہنگائی یقینا ایک بڑا موضوع ہے، بدعنوانی بھی وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے، دہشت گردی بھی ملک کیلئے ایک عذاب بنی ہوئی ہے...... یہ سب واقعی سنگین مسائل ہیں لیکن.... ان سب کے باوجود حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کی سنگینی کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ غور کیا جائے تو یہ ان تمام میں سب سے زیادہ حساس اور سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔یہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو سرکاری سرپرستی میں انجام پاتی ہے،بدعنوانی کی وہ قسم ہے جس میں مال ہی نہیں بلکہ جان بھی جاتی ہے،مگر افسوس کی اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا گیا۔اس پر نہ تو میڈیا نے اتنا زور دیا اور نہ ہی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے۔بی جے پی سے تو خیر کسی خیر کی امید ہی نہیں، کانگریس کے منہ سے بھی ظالموں کے خلاف ایک لفظ نہیں نکل سکا۔وہ کانگریس جو خود کو گاندھی، نہرو، آزادا ور امبیڈکرکا جانشین کہلوانا پسند کرتی ہے، انصاف، غیر جانب داری اور شہریوں کی سیکوریٹی کا نہ صرف دعویٰ کرتی ہے بلکہ خود کو اس کا ٹھیکیدار بھی سمجھتی ہے، اس نے بھی پورے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔راہل گاندھی جنہیں کانگریس نوجوان دلوں کی دھڑکن کے طور پر پروجیکٹ کررہی ہے، کو مایاوتی حکومت میں ہزار کیڑے نظر آرہے ہیں، وہ اسے اکھاڑ پھینکنے کا عہد بھی کرتے ہیں لیکن مودی حکومت سے اٹھنے والا تعفن انہیں بے چین نہیںکرتا، لہٰذا وہ اس کے خلاف لب کشائی تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ مرکزی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کو حالانکہ اس پر گجرات حکوت سے جواب طلب کرنا چاہئے تھا کہ اس کے ایک شہری کو بلا وجہ کیوں قتل کیا گیا  ؟ مگر چوہان حکومت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔مسلم ووٹوں کی سیاست کرنے والے لالو، ملائم اور مایاوتی جیسے چمپئن بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مودی حکومت اوراس بہانے بی جے پی کی پریشانی کا سبب نہ بنا جائے۔خود کو متوازی حکومت سمجھنے والی ٹیم انّاکی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ضروری اور غیر ضروری ہر مسئلے پر بیان بازی کو ضروری سمجھنے والے انا ہزارے، کیجری و ال اورکرن بیدی کو جعلی انکاؤنٹر کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔جسیکا لال، نتیش کٹارا اوراروشی مرڈر کیس میں دلچسپی لینے اور ان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے تحریک چلانے والے طلبہ اور غیرسرکاری اداروںکو بھی عشرت جہاں کے قاتلوں پر غصہ نہیں آیا۔ ایساکیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مظلوم کا تعلق عوام سے  ہے جبکہ قاتلوں کا خواص سے..... اور ان میںسے بیشتر خواص کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس قتل کے خلاف عوام کی جانب سے غم و غصہ کااظہار نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ عوام کےرجحان ساز دراصل یہی خواص ہیں اور یہ معاملہ چونکہ خواص کے خلاف ہے، لہٰذااس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔یہاں یہ کہنا غلط ہوگا کہ عشرت جہاں ایک مسلمان ہے، اسلئے اس کے ساتھ ایسا ہوا۔ دراصل ہمارے سماج میں ابھی وہ بیداری آئی ہی نہیں کہ ہم حراستی اموات اور جعلی انکاؤنٹرس کے خلاف برسرِا قتدار طبقے کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔
    ایسے میں سابق داخلہ سکریٹری کا بیان مزید افسوسناک رہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے عشرت کی بے گناہی نہیں ثابت ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہہ کر آخر جی کے پلئی صاحب کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ ایک طرف محض الزام ہے جبکہ دوسری طرف جرم ثابت ہورہا ہے۔عشرت جہاں کا تعلق دہشت گردوںسے تھا، یہ صرف ایک الزام ہے جبکہ عشرت جہاں کو منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا گیا اور اس قتل کے شواہد مٹائے گئے، یہ ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے اس اعلیٰ ترین سابق عہدیدار کی جانب سے مجرم پر گرفت کی بجائے مظلوم کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کیوں جارہی ہے؟کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ مودی کا شمار خواص میں ہوتا ہے، لہٰذا عوام سے ان کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ مرکزی وزیر شرد پوار کو ایک جنونی نے ایک طمانچہ کیا رسید کردیا،  ملک گیر ہنگامہ برپا ہوگیااور پورا پارلیمنٹ متحدہوگیا....دوسری جانب سرکاری دہشت گردی کا شکار ایک عام شخص ہوا تو خواص کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مظلوم سے ہمدردی دکھانے میں اگر کوئی ’مسئلہ‘ درپیش ہے توظالم سے نمٹنے میں انہیں کوئی دِقت نہیں ہونی چاہئے... ہم عوام کو اسی پرتسلی ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ آج خواص کے تئیں عوام میں زبردست نفرت پائی جارہی ہے، اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو برتر اورعوام کو کمترسمجھتے ہیں۔ عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے ہوں یا عوام کی خدمت پر مامور سرکاری کارندے، وہ عوام کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کے مسائل کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دراصل امریکہ کی طرح یہاں بھی ایک فیصد خواص کی جانب سے باقی ۹۹؍ فیصد کے تئیں بہت زیادہ تعصب پایا جارہا ہے۔ 
    جی کے پلئی جی کی اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے عشرت کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کردیا جائے؟ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سرکاری عہدیداران اورافسران  پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، ۱۰؍ سے ۱۵؍ فیصد پرفوجداری معاملات بھی درج ہیں۔کرپشن اور کریمنل الزامات کے دائرے میں عوامی نمائندوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ کئی وزیر، عوامی نمائندے اوراعلیٰ سرکاری افسران تہاڑ جیل کی ’زینت‘ بنے ہوئے ہیں۔ پلئی صاحب بتائیں کہ ان کے اصول کے مطابق ان سب کی سزا ئیںکیا ہونی چاہئیں؟
    وہ تو بہت اچھا ہوا کہ عدالت عالیہ نے بروقت پلئی صاحب کی گوشمالی کردی، ورنہ خاطیوں  کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کیلئے پردے کے پیچھے سے اور بھی کئی چہرےنمودار ہوجاتے، اس صورت میں جہاں ایک فیصد کی سرکشی میں اضافہ ہوتاوہیں ۹۹؍ فیصد کے حوصلے  مزید پست ہوجاتے۔
    حالات یقیناً خراب ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ مایوس ہوا جائے۔  ایک جانب جہاں ایسے عناصر ہیں جو عوام کو کوڑے دان کا حصہ سمجھتے ہیں، وہیں ایسے لوگ اورایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انہیں انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہیں۔ کم از کم ہندوستان کے عدالتی نظام سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں۔ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم عدالت پر پورا بھروسہ رکھیں اوراس سلسلے میں فالو اَپ جاری رکھیں۔ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئےعوام کو بیدار رہنا ضروری ہے۔ آج نہیں تو کل یہ تمام فرعون ضرور بہ ضرور اپنے انجام کو پہنچیںگے۔ n

Monday, 14 November 2011

sardar pura qatl e aam ka faisla......

سردارپورہ قتل عام کا فیصلہ ،خوشگوار ہوا کاایک جھونکا ہے
۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ  سامنے آیا ہے، اسے  گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔
قطب الدین شاہد
سرِ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی کسی سے ٹکرا جائے اور اُس کو بنیاد کر اُسے ایک طمانچہ رسید کردے،تو یقینا اُس شخص کو بہت برا لگے گا اور اُسے شدید تکلیف پہنچے گی۔ ممکن ہے جوابی حملہ کرتے ہوئے وہ بھی اسے ایک تھپڑ جڑ دے اوراس طرح اپنے قلب کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔لیکن اسے اس وقت زیادہ اچھا لگے گا اور دل کو زیادہ قرار آئے گا جب وہ خود کچھ نہ کہے بلکہ اس کی حمایت میں کچھ دوسرے افراد سامنے آئیں اور ظالم کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے مظلوم کی دلجوئی کریں۔ آخرالذکر صورتحال کسی بھی صحت مند سماج کیلئے بہت ضروری ہے۔
    گودھراسانحہ کو بنیاد بنا کر پورے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ یقینا بہت برا تھا، ہولناک تھا، سفاکی تھی،سماج کی صحت کو خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش تھی، لہٰذا اس کی مذمت کی جانی چاہئے ، لیکن اسی کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی۔ اس کے بعد جس پیمانے پربرادران وطن کی جانب سے مظلومین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا رویہ اختیار کیا گیا، ان کی دلجوئی کی گئی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جس طرح کی ہمہ جہت کوششیں ہوئیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ گرچہ پوری طرح سے صحت مند نہیں لیکن بہت زیادہ بیمار بھی نہیں ہے کہ اس کا علاج نہ ہوسکے۔
    گودھر ا سانحہ کے تین دن بعد یکم مارچ۲۰۰۲ء کو سردار پورہ میں شیطانوں کا ایک رقص برہنہ ہوا تھا، جس میں ۲۰؍ خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت کل ۳۳؍مسلمانوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔یہ تمام لوگ اس علاقے کے واحد پکے مکان میں محصور تھے، جسے سفاکوں نے آگ کے حوالے کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ جنون اور دہشت گردی کی بدترین نشانی ہے ،جس کاواحد علاج اُن تمام لوگوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے جن لوگوں کا اس قابل نفریں معاملے میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار رہا ہے۔
    گزشتہ دنوں اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ایک خصوصی عدالت نے سردار پورہ قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوں کوعمر قید کی سزا سنائی ہے۔  حالانکہ یہ سزاان کے جرم کی مناسبت سے بہت کم ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے سے مظلومین کی ہمت بندھی ہے، ان کی اشک سوئی ہوئی ہے، انہیں قلبی سکون پہنچا ہے اور ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔اس فیصلے کے بعد برادران وطن کی جانب سے جس طرح کے رد عمل کا اظہار ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کاخون ابھی سفید نہیں ہوا ہے یعنی یہ پوری طرح سے لا علاج نہیں ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کہ کسی بھیڑ کے ذریعہ انجام دیئے گئے قتل عام کی کسی واردات میں اتنے سارے لوگوں کو بیک وقت مجرم ٹھہرایا گیا ہو۔ اس سے قبل بھاگلپورہ فساد کیلئے ایک ساتھ ۱۴؍ لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا تھا۔
    مہسانہ کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج ایس سی سریواستو کے اس بے نظیر فیصلے کے بعد جس طرح کے ردعمل سامنے آئے، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ عوام و خواص نے اس پر کس طرح کے رد عمل کااظہار کیا؟ اور مظلومین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ظالموںکیلئے سنائی گئی اس سزا پر کس طرح کی خوشیوں کااظہار ہوا؟ اس کی ایک چھوٹی سی مثال فیصلے کے دوسرے دن ملک کے مؤقر اور سب سے زیادہ قابل اعتماد انگریزی روزنامے ’دی ہندو ‘ کے اداریے پر ہونے والے تبصرے ہیں، جسے اس کی آن لائن اشاعت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے چنندہ اقتباسات کچھ اس طرح ہیں۔

nکبھی کچھ نہ ہونے سے تھوڑی تاخیر بہتر ہے۔مبارکباد کے مستحق ہیں ایس آئی ٹی کے اراکین جنہوں نے گنہ گاروں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کاانتظام کیا۔ 
   منجو پولیوادھی
n وہ دن گئے جب عدالتیں طاقتور اور امرا ء کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہوا کرتی تھیں۔یہ فیصلہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔   
                                                            سمیت کمار رائے
n    اکثریت کی جانب سے اقلیت کیلئے اٹھائے گئے اس گھناونی واردات کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔مستقبل کیلئے یہ ایک مثال بننی چاہئے اور یہ یقینی بنائی جانی چاہئے کہ جو بھی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا، اسے اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ 
                                           راجیش ایچ
nاب ہرکسی کو یہ امید ہوچلی ہے کہ بہت جلدامیکس کیوری کی رپورٹ کے ساتھ ایس آئی ٹی اپنی فائنل رپورٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کردے گی جس کی بنیاد پر نریندر مودی سمیت ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کا راستہ ہموار ہوگا جو کسی نہ کسی طرح اس سفاکی میں ساتھ رہے ہیں۔ 
                این تھروناوکاراسو
nاس فیصلے نے متاثرین کوکافی حوصلہ فراہم کیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے سیاست دانوں کے سطحی مفادات کی تکمیل میںدونوںفرقوں کے عام لوگ استعمال ہوتے رہے ہیں۔

                                                                            آر رویندر ناتھ
nتاریخی اور لائق خیرمقدم فیصلہ۔ 
                                               گگن گرگ
nیہ امید بندھی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ۔ 
                       ومل
nہندوستانی عدلیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ 
           ٹی پی نٹراجن
nحالانکہ فیصلہ تاخیر سے آیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارا قانونی نظام مؤثر ہے اور کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 
                                                                                           امول سکپال
nاس فیصلے نے ’قانون کی حکمرانی‘ والے خیا ل کو استحکام بخشا ہے اور اسے تقویت پہنچائی ہے۔ 
                     ونیت کے سریواستو
nیہ فیصلہ ان لوگوں کیلئے بہت اچھ ہے جو ملک کے عدالتی نظام میں یقین رکھتے ہیں۔ 
                                                                   رام چندرن پی
      یہ چند اقتباسات ایک مثال کے طور پر پیش کئے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کے خیالات ہیں جنہیں اس ملک میں ’عام‘ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے یعنی یہ خیالات ان کے دل کی آواز ہیں جن کا اظہار کسی لالچ، مفاد اور دباؤ کے بغیر سامنے آیا ہے ۔ یہ خیالات ثابت کرتے ہیں کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اس کا درد صرف ’ہمارا‘ درد نہیں ہے کہ بلکہ یہ ’ہم سب کا‘ درد ہے۔یہ یقینا ایک بہت اچھی بات ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ حلقہ مزید وسیع ہو۔اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس واردات کے متاثرین کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور قانونی جنگ میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔شیخ دلاور میاں جنہوںنے اس واردت میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بہن کو کھویا ہے اور شیخ غلام علی جن کے خاندان کے ۱۳؍ افراد اس قتل عام کے شکار ہوئے تھے، نے قبول کیا ہے کہ ان تمام گواہوں پر شدید دباؤ ہے، جو انصاف کیلئے لڑ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان کی ہر طرح سے پشت پناہی ہو۔
    ۳۳؍ افراد کے قتل عام کیلئے ۳۱؍لوگوں کیلئے عمر قید کی سزا کافی نہیں ہے۔یقینا یہ تمام زیادہ سخت سزاؤں کے مستحق ہیں لیکن ان حالات میں جبکہ عدالت کو حکومت کی جانب سے تعاون کے بجائے رکاوٹوں کا سامنارہا ہے، یہ فیصلہ قابل ستائش ہے اوراس کیلئے ایس آئی ٹی کے سربراہ آر کے راگھون اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
    ۲۰؍خواتین اور ۱۱؍ معصوم بچوں سمیت ۳۳؍ مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ۳۱؍ لوگوںکو عمر قید کی سزا کافی تو نہیں ہے لیکن ، ان حالات میں جبکہ سیاسی سطح پرانصاف کا راستہ پوری طرح مسدوداور ناہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یہ فیصلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس قانونی جنگ میں برادران وطن کے ایک بڑے طبقے نے ساتھ دیااور اس فیصلے پر ان کی جانب سے خوشی کااظہار بھی ہورہا ہے،قابل تعریف ہے۔ایس آئی ٹی کی محنت شاقہ کے بعد اس قتل عام کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اسے گجرات جیسے گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تو قرار دیا ہی جاسکتا ہے۔ کم از کم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے بیمار نہیں ہوا کہ اس کا علاج ہی نہ ہوسکے۔

Monday, 26 September 2011

Shaadiyon men khurafat




شادی میں رسم و رواج کے نام پر خرافات و بدعات کا خاتمہ ، وقت کی اہم ضرورت
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود ا پنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
قطب الدین شاہد
شادی ایک ایساسماجی فریضہ ہے جسے مذہبی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے اس کے طریقے متعین کردیئے ہیں،جس کی مناسبت سے اس کے ماننے والے شادی اور اس کے رسوم انجام دیتے ہیں۔ بعض ممالک نے بھی اس کیلئے رہنمایانہ خطوط اور قوانین  وضع کیے ہیں ۔شادی کے رہنمایانہ خطوط اور اس کے طریقے متعین کرنے کے پس پشت  جوواحد وجہ ہے، وہ یہ  کہ اس سماجی فریضہ کی ادائیگی کیلئے کسی کو کوئی دشواری درپیش نہ ہو۔ یوں بھی شادی کے لغوی معنیٰ خوشی کے ہوتے ہیں لہٰذا طریقے وضع کرتے ہوئے  مذاہب و ممالک کے پیش نظر یہی بات رہی  ہےکہ ان کے پیروکاروں اورشہریوں کو اس رسم سے حقیقی خوشی میسر ہو....لیکن  اب یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا موجودہ سماج میں جس طرح کی شادیاں انجام پاتی ہیں، اس سے فریقین کو واقعی خوشی ہوتی ہے؟
    عصر حاضر میں شادی ایک بوجھ بن کر رہ گئی  ہے  وہ خواہ مسلم ہوں، ہندو ہوں، سکھ ، عیسائی یا کسی اور مذہب کے ماننے والے ہوں۔ سماج کے خرافاتی رسم و رواج  کے مضبوط شکنجے سے سبھی کراہ رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک اور دیگر مذاہب میں شادی کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ اس پرگفتگو نہ کرتے ہوئے فی الحال ہم صرف برصغیر  بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی بات کریںگے جہاں کے رسم و رواج تقریباً یکساں ہیں۔یہاںرسم و رواج کا شکنجہ اس قدر مضبوط ہے کہ  مذہب کی رٹ لگانے والے حتیٰ کہ مذہب کی روزی روٹی کھانے والے بھی اس سے آزاد نہیں ہوپاتے اور اگر زیادہ سچائی سے کام لیاجائے تو یہ کہ آزاد ہی نہیں ہونا چاہتے۔ ان موقعوں پر جب وہ ان رسوم کا ایک حصہ ہوتے ہیں، اُن سے شادی سے متعلق مذہبی مسئلے پرگفتگو کی جا ئے تو نظریں چرانے یا پھر بات کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ دال میں نمک یا پھر اس سے بھی کم تعداد میں ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ  ہاں یہ غلط ہورہا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم ہیں اور یہ کہ  اسے روکنے کیلئے ہم  نے  اپنے یہاں ہونے والی شادی کے موقع پر ’یہ ‘ کیا تھا۔
    رسم و رواج کے نام پر جاری ان خرافات و بدعات کے خاتمے کیلئےگزشتہ دنوں بھیونڈی میں سرکردہ شخصیتوں کی ایک مشورتی میٹنگ طلب کی گئی تھی،جس میں سابق ریاستی وزیر، رکن اسمبلی،  ائمہ مساجد،قاضی صاحبان، تمام مسالک کے اہم ذمہ داران،ملی، تعلیمی اور سماجی اداروں کے سربراہوں کے ساتھ دانشوران قوم  اور ڈاکٹروں، انجینئروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔نصیر احمدمومن کے دولت کدے پر منعقد ہ اس میٹنگ میں جس طرح ایک مختصر سی نوٹس پر احباب جمع ہوئے ،اس سےحبس زدہ کمرے میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے جیسی فرحت اور تازگی کا احساس پیدا ہوا۔بہت ساری تجاویز کے ساتھ جب دوسری میٹنگ تک کیلئے اس روز کی مجلس کےملتوی ہونے کااعلان ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ انشاء اللہ آئندہ چند برسوں میں بھیونڈی ملک کے دوسرے علاقوں اور خطوں کیلئے قابل تقلید نمونہ بن کر سامنے آئے گا۔ 
    آئیےدیکھتے ہیں کہ یہ رسم و رواج جو خرافات کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں،کس حد تک ہیں ، کیوں ہیں اور اس کے تدارک کی کوششوں میں ہم ناکام کیوں ہیں؟آج ہمارے سماج میں شادیوں کو اتنامشکل اور مہنگابنا دیا گیا ہے کہ یہ ایک سماجی اورقومی مسئلہ بن گیا ہے اوران تمام مسئلوں میں سب سے بڑا مسئلہ جہیز ہے۔ جہیز کی وجہ سے  وطن عزیز کی بہت ساری لڑکیاں  اپنا گھر بنانے  اور بسانے میں ناکام ہیں۔اسے شادی کا ایک لازمی جز بنادیا گیا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کا متوسط اور اس سے کمزور طبقہ شادی کے نام سے ہی خوف زدہ  ہوجاتا ہے، اس کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی کے گھر میں لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو جشن کے بجائے لوگ اسے پُرسے اور تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ جس گھر میں دو چار لڑکیاں ہوتی ہیں، جوں جوں اُن کی عمروں میں اضافہ ہوتا ہے، والدین کے ساتھ دیگر اہل خانہ کی راتوں کی نیند  اوردن کا چین غائب ہوتا جاتا ہے۔
     زمانہ جاہلیت میں عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیے جانے کا رواج تھا  لیکن اس کی وجہ جہیز نہیں تھی بلکہ کسی کو داماد بنانا ذلت تصور کیا جاتاتھا لیکن آج جہیز کی وجہ سے ایک بار پھر اس رسم کا اعادہ کیاجانے لگا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زندہ درگور کیے جانے کی بجائے اب قبل از پیدائش ہی اس بچی کا قتل کردیا جاتا ہے ۔ حالانکہ جہیز کے تدارک کے لیے حکومت ہند نے بھی سخت قوانین مرتب کیے ہیں اور یہاں آباد تمام مذاہب کے لوگ بھی یک زبان ہوکر اسے غلط قرار دیتے ہیں مگر افسوس کہ یہ رسمیں روز بروز ہمارا گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں۔
    برصغیر میں ہونے والی شادیوں پر ہندورسم و رواج کا غلبہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب  ہرگز نہیں کہ ان شادیوں میں انجام دیئے جانے والے رسوم ان کے مذہبی عقیدے ہیں۔ نہیں بلکہ اس کا راست تعلق سماجی حالات سے رہا ہے جسے بعد کی نسلوں نے اچھا برا سمجھے بغیر بعض نے من و عن تو بعض نے معمولی ترمیم کے ساتھ قبول کرلیا ہے۔  اس میں منگنی، بارات، ہلدی مہندی، منہ دکھائی،الوداعی اور نہ جانے کیا کیا رواج ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ ہماری شادیوں میں جہیز کے بعد دوسری سب سے بڑی لعنت بارات اور انہیں کھلائے جانےوالے کھانوں اور پکوانوں کی ہے۔وطن کے بعض گوشوں میں اگر جہیز کے نام پر مطالبہ کا تصور نہیں ہے  یا کم ہے ، تو وہاں بارات ایک بڑا مسئلہ ہے اوراس کی وجہ سے لڑکیوں کے والدین اور سرپرستوںکی حالت خراب رہتی ہے۔شادی میں صورت اور سیرت کو آج ثانوی   بلکہ اس کے بعد کی حیثیت دی جاتی ہے۔ پہلے جہیز پر بات ہوتی ہے اوراس کے بعد بارات کی تعداد اوراس کی خاطر مدارات پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ میزبان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو کس طرح کا کھانا کھلائے اوران کی کس طرح خاطر تواضع کرے؟ اس کیلئے ہم سب اور   وہ تمام لوگ ذمہ دار ہیں جو اس کے خلاف آواز بلند نہیں کررہے ہیں۔
    کہاجاتا ہے کہ بارات کا طریقہ ہم نے ہندوؤں سے اخذ کیا ہے لیکن  یہ بھی ان کا مذہبی طریقہ نہیں ہے بلکہ اس رسم کو انہوں نے راجپوتوں سے مستعار لیا ہے۔ راجپوتوں میں شادی کا تصور یہ تھا کہ جس کو جہاں کوئی لڑکی پسند آجائے، وہ وہاں پر حملہ آور ہوتا تھا اور طاقت کے بل پر اسے اُٹھا لاتا تھا۔یہاں اسی رسم کا احیاکیا گیا ہے۔ اسی لیے دولہے کو گھوڑے پر بٹھایا جاتا ہے اوراس کے ساتھ بارات کی شکل  میں پوری ایک فوج ہوتی ہے ۔شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ ہندوؤں کے بعض طبقوں میں آج بھی جب بارات ان کے دروازے پرپہنچتی ہے تو علامتی طور پر کچھ لوگ  لاٹھی لے کر بارات کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔  ہوتا یہ تھا کہ فاتح فوج اپنے مفتوح کو غلام بنا لیتی تھی ، پھر نہ صرف وہ لوگ اس لڑکی کو اٹھا لاتے تھے بلکہ وہاںدوران قیام ان سے خاطر مدارات کرواتے تھے اور ان سے خدمت بھی لیتے تھے۔تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ ہم نے بھی بارات کو وہیں سے مستعار لیا ہے۔
    بارات میں جانے والے اپنے آپ کو فاتح فوج کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اورمیزبان کی ذرا سی کوتاہی پر نہ صرف اسے برابھلا کہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔
    شادی کے نام پر سماج میں در آئے اس رسم و رواج سے آج سبھی یکساں طورپر پریشان ہیں۔اس اعلیٰ طبقے کو جانے دیجئے جس کے پاس پیسے کی فراوانی ہے اور جن کی تعداد وطن عزیز میں۲؍ فیصد سے زائد نہیں ہے، بقیہ ۹۸؍ فیصد شادی کے نام سے ہی لرز اٹھتے ہیں۔یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ ان رسوم سے صرف لڑکی اوراس کے اہل خانہ پریشان ہوتے ہیں، نہیں بلکہ لڑکے والوں کی پریشانی بھی کم نہیں ہوتی  حتیٰ کہ دعوت کھانے والوں پر بھی شادی میں شرکت ایک بار ہوتا جارہا ہے۔لڑکی کے والدین پر جو بوجھ پڑتا ہے وہ تو ہے ہی، رسوم کے نام پر ہونے والے اخراجات سے لڑکے والوں کی بھی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور اسی طرح دعوت کھانے والوں کو بھی ’لفافے‘ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
     مگر افسوس کی  بات ہے کہ اسے ہرکوئی مسئلہ تسلیم کرتا ہے، اسے لعنت سمجھتا ہے اوراس کا خاتمہ چاہتا ہے مگر جب بات اس کی آتی ہے تو وہ ’خوشی خوشی‘ اس پریشانی کو اپنے سر اوڑھ لینا چاہتا ہے۔ زمین جائداد بیچ کر، یہاں وہاں سے قرض حاصل کرکے دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوتا ہے لیکن رسوم سے علاحدگی اختیار نہیں کرتا۔ انہیں یہ جملہ مارے ڈالتا ہے کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘؟..... کچھ نہیں کرنا چاہتے تو لڑکے والوں کی ’دباؤ‘ سے خود کو گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب یہ صورتحال ہو تو  پھر اس  کےخاتمہ کی کس طرح  امید کی جائے؟ یہ تو سگریٹ کا اشتہار ہوگیا کہ ’اسے پینا صحت کے لیے مضر ہے‘  دیکھتے ہوئے بھی لوگ اسے پیتے ہیں اورسماج میں ایک ’ رتبہ‘ حاصل کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد کینسر  کے شکار ہوکر دنیا کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔
    شادی یعنی خوشی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ بالکل۔ لیکن اس کے لیے ہمیں   اس خوشی کے راستے میں حائل رسوم و رواج کا قلع قمع کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سے مراد ہرکسی کی انفرادی کوشش ہونی چاہئے جو بعد میں خود بخود اجتماعی ہوجائے گی۔ کہاجاتا ہے کہ ایمان کے تین درجے ہیں۔ اول یہ ہے کہ براہوتے ہوئے دیکھو تو اسے بزور طاقت روکو، اگریہ ممکن نہ ہوتو زبانی روکو اوراگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتو دل میں برا سمجھو۔ اب ہمیں  خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ہم ایمان کے کس درجے میں ہیں؟ کیا ہم ایمان کے تیسرے درجے میں بھی نہیں ہیں کہ ان خرافات کو دل سے براسمجھ کر خود اس سے دور ہوسکیں؟
    ان خرافات کوغلط سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مگر اس کے خاتمے اور سدباب کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دوسروں کے عمل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہےمگر خود  اپنا احتساب کرنےوالوں کی تعداد بہت مختصر۔کاش! اس تعلق سے ہماری سوچ میں تبدیلی آئے تاکہ شادی کا عمل آسان ہو اور لڑکیاں جو ہمارے سماج میں بوجھ تصورکی جاتی ہیں، خداکی نعمت معلوم ہوں۔
    اور ایک اہم بات۔ ہم جب بھی کوئی اچھا عمل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو شیطان ہمیں بہکاتاہے، مختلف تاویلات اوردلیلیں دیتا ہے اور ہمارے برے کاموںکو درست ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہم  اپنے عزم کے تئیں کتنے مستقل مزاج ہیں ۔  اس کیلئے اپنا احتساب آج سے ہی کرنا ہوگا،کسی خصوصی موقع کے انتظار کے بغیر،  اور پھر ہم دیکھیں کہ ہم ایمان کے کس درجے  میں ہیں؟

Saturday, 20 August 2011

Anna Hazare ko awami himayat kyun mil rahi hai?

انا ہزارے کو عوامی حمایت کیوں مل رہی ہے؟
 انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور خود وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں  کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
قطب الدین شاہد
دیکھتے ہی دیکھتے انا ہزارے ملک کے نئے گاندھی بن گئے ہیں۔ انہیں جو عوامی حمایت مل رہی ہے، وہ غیر معمولی اورغیر متوقع ہے۔اس کا اندازہ نہ تو ان کے حامیوں کو تھا اور نہ ہی مخالفین کو۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا راتوں رات انا ہزارے میں سرخاب کے پر لگ گئے کہ رالے گن سدھی نامی ایک غیر معروف گاؤں میں محدود پیمانے پر فلاحی کام کرنے والے ایک نیم خواندہ شخص کی شہرت و مقبولیت مہاراشٹر کی سرحد پارکرتے ہوئے نہ صرف ملک گیر ہوگئی بلکہ ان کاچرچا بر صغیر ہندوپاک سے ہوتے ہوئے سات سمندر پار برطانیہ اور امریکہ میں بھی ہونے لگا؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں ایک دوسرے سوال پر غور کرنا ہوگا....... وہ یہ کہ انا ہزارے کو جو یہ عوامی حمایت مل رہی ہے ، کیا وہ واقعی انا کی شخصیت کو مل رہی ہے یا ان کی تحریک کو؟ہمیں یقین ہے کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس میں انا ہزارے کی شخصیت کا کچھ خاص دخل نہیں ہے بلکہ اصل کمال ، اس موضوع کا ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے۔ حالانکہ انا ہزارے کو کرشماتی ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے ان کے معتقد رام دیو کا حوالہ دیتے ہوئے  کہتے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف تحریک تو انہوں بھی چھیڑی تھی ، پھر کیا وجہ ہے کہ مقبولیت صرف انا کے حصے میں آئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رام دیو کی تحریک بدعنوانی کے خلاف تھی ہی نہیںبلکہ وہ ایک سیاسی ڈرامہ تھا۔ بہت جلد یہ باتیں عوام کے سامنے آگئی تھیں کہ وہ محض ایک سیاسی مہرے تھے ۔دراصل بدعنوانی کےخلاف انا ہزارے کی تحریک کو کچلنے کیلئے حکومت نے ہی انہیں اس ڈرامے کے لئے آمادہ کیا تھا لیکن رام دیو ایک ساتھ دو کشتیوں کے سفر کا مزہ لینے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریس بھی خوش رہے اور آر ایس ایس کا مفاد بھی پورا ہوجائے  یعنی باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ مگر بہت جلد بلی تھیلے سے باہر آگئی اوراس طرح رام دیو کے ساتھ ساتھ حکومت کی سازش بری طرح ناکام ہوگئی۔اس میں سب سے زیادہ نقصان رام دیو کا ہوا کہ ان کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہوگیا اور وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
    خیر یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں۔ آئیے پھر آتے ہیںا صل موضوع کی طرف۔انڈیا اگینسٹ کرپشن نامی تنظیم بنا کر انا ہزارے جب بدعنوانی کے دیوقامت  بت سے ٹکرائے تھے تو ۹۹؍ فیصد ہندوستانیوں کو محسوس ہوا تھا کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی اور سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہیں اوراس پر فوری روک چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تین ماہ قبل جب اناہزارے نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جنتر منتر پر بھوک ہڑتال شروع کی تھی تو ان کی تعداد بہت قلیل تھی لیکن چونکہ موضوع میں اپیل تھی لہٰذا  ’لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا‘ کے مصداق  دیکھتے ہی دیکھتے وہ تحریک ملک گیر ہوگئی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اور مغربی بنگال سے کیرالا تک ان کی حمایت یعنی بدعنوانی کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔اس وقت حکومت نے ’مصلحت‘ کا مظاہرہ کیا اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انا ہزارے ٹیم کی شرائط کو جزوی طورپرتسلیم کرلیا تھامگر اس کے تیور بتارہے تھے کہ اس نے نوشتۂ دیوار ابھی تک نہیں پڑھا ہے بلکہ اس کی کوششیں صرف اور صرف اس تحریک کی دھار کو کند کرنے کی ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ باتیں سامنے بھی آگئیں کہ مختلف حیلوں اور بہانوںسے حکومت سول سوسائٹی کے اراکین کو پریشان کرکے  اور دھمکیوں کے ذریعہ انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتی رہی ہے۔
    بلا شبہ ۹۹؍ فیصد عوام بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیںلیکن ایک فیصد ایسے بھی ہیں جو ایسا نہیں چاہتے۔یہ وہ لوگ ہیں جو راتوں رات لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھر ب پتی بنتے جارہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ذہین اور چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ عیار بھی  ہیں اور لوگوں کے ذہنوں پرا ثر انداز ہونے کا ہنربھی جانتے ہیں۔  اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی ان کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ ملک کے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔بدعنوانی کے خلاف اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان لوگوں نے اعتراضات کی شکل میں طرح طرح کے شوشے چھوڑرکھے ہیں۔کچھ نے انا ہزارے کو لعن و طعن کا نشانہ بنایا ہے تو کچھ جن لوک پال میں خامیاں نکال رہے ہیں تو چند اس تحریک کو ہی بے معنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ بیچارے یہ معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ یہ انا ہزارے، کیجری وال، شانتی بھوشن اور کرن بیدی کا معاملہ نہیں ہے، یہ جن لوک پال کی منظوری اور نا منظوری کا بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے جس کی نمائندگی ہندوستان کے ۱۲۵؍ کروڑ افراد کررہے ہیں۔آئیے ایک نظر ان اعتراضات پر بھی ڈالتے چلیں جو اس تحریک کو بے جان کرنے  کے مقصد سے اچھالے جارہے ہیں۔
     پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ قانو ن سازی کا کام پارلیمنٹ کا ہوتا ہے، انا ہزارے کون ہوتے ہیں؟....... بات بالکل صحیح ہے۔ یہ ذمہ داری پارلیمنٹ ہی کی ہے مگر ہم آپ اور سب دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ۳۰؍ برسوںسے اس بل کا کیا حشر ہورہا ہے؟ اگر حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا ہوتا تو اس کی نوبت ہی کیوں کر آتی؟ رہی بات انا ہزارے کی تو یہاں ایک بار پھر وہی بات دوہرانی ہوگی کہ یہ معاملہ انا ہزارے کا نہیں بلکہ عام ہندوستانیوںکا ہے۔بلاشبہ اراکین پارلیمان بھی عوام کے ہی منتخب کردہ ہیں مگر دیکھااور محسوس کیا جارہا ہے کہ ایوان میں پہنچتے ہی ان میں سے  بیشتر عوام کے بجائے خواص کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں یہ اعتراض بالکل بیجا ہے کہ جن لوگوں کو قانون سازی میں دلچسپی ہے، وہ پہلے ایوان میں پہنچنے کاانتظام کریں۔ اول تو یہ کہ عوام کو قانون سازی سے نہیں بلکہ فی الحال بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے اور دوم یہ کہ عوام جب حکومتوں کے سامنے خود کوبے بس پاتے ہیںتوایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ تیونس اور مصر اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ ہمارے حکمرانوںکی طرح حسنی مبارک بھی اقوام عالم  کے سامنے یہی کہہ کر بغاوتوں کو دبانے کی کوشش کیاکرتے تھے کہ ہم تو جمہوریت کے علمبردار ہیں، جو بھی چاہے اس راستے سے آکر اقتدار کی باگ ڈورسنبھال سکتا ہے.....مگردنیا نے دیکھا کہ عوام جب سیل رواں کی طرح آگے آئے تو حسنی مبارک خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔
    سرکاری لوک پال بل اور جن لوک پال بل .....ان دو مسودوں میں کون سا بہتر ہے ؟اس کا اندازہ فی الحال ہمیں نہیں ہے۔اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس کا بل زیادہ کارگر ہے تو اسے عوام کوسمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔بصورت دیگر اگر عوام کی جانب سے کوئی اچھی بات آرہی ہے تو اسے تسلیم کرلینے میں حکومت کو کسی قسم کی قباحت کامظاہرہ نہیں کرناچاہئے۔اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔  ویسے بھی جمہوری حکومتیں عوام کے ذریعہ اورعوام کیلئے ہوتی ہیں۔اسے اقتدار کو چیلنج کرنے والی بات نہیں سمجھنی چاہئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اگر ایک مطالبہ تسلیم کر لیں تو پھر کل چند سرپھرے دوسرے مطالبات کے ساتھ حکومت کو گھیرنے کی کوشش کریںگے۔اول تو یہ کہ ایسا ہوگا نہیں، دوم اگر ہوا تو اسے اس قدر عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی اورسوم اگر ایسا ہوا بھی اوراسے عوامی حمایت بھی حاصل رہی تو ......تو پھراسے تسلیم کرلینے میں حرج ہی کیا ہے؟حکومت کا کام ہی عوام کے مفاد کاخیال رکھنا ہوتا ہے۔
    ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انا ہزارے اُس وقت کہا ں تھے ؟ جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی،ممبئی میں فسادی خون کی ہولی کھیل رہے تھے اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوستان کے بد ترین واقعات ہیںاور ان پر وہ تمام ہندوستانی خون کے آنسو روئے ہوں گے جن کے دلوں پر مہر نہیں لگی ہے...... لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ تمام معاملات میں تما م لوگ سامنے آئیں۔جو لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کررہے ہیں، انہوں نے اس وقت اپنا رول بخوبی انجا م دیا۔یہ بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک ہے، اسے انہیں کرنے دیجئے۔کسی ایک فرد یا ایک گروہ سے ہرطرح کی توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیںا ور ممکن بھی نہیں ہے۔ ٹیلی فون محکمے میں ہم پانی  کےکنکشن سے متعلق شکایت لے کر جائیںگے تو لوگ محکمے پر نہیں بلکہ خود ہم پر ہنسیںگے۔
    ہم میں سے ایک طبقہ انا ہزارے کی تحریک کو اس لئے بے معنیٰ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف آر ایس ایس کی حمایت سے ہی کوئی اچھی چیز بری ہوجاتی ہے؟میرے خیال سے ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصولوں کی بنیاد پر اور حق و ناحق دیکھتے ہوئے ہمیںکسی کی حمایت یا مخالفت کرنی چاہئے۔کچھ دنوں قبل لال کرشن اڈوانی نے زانیوں کو سنگسار کرنے کا مطالبہ کیا تھا، خیر وہ خود ہی اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے لیکن کیا ہم اس مطالبے کی محض اس لئے مخالفت کریںگےکہ یہ آواز آرایس ایس کے گھرانے سے بلند ہوئی ہے؟
    خلاصہ ٔ  تحریر یہ کہ موجودہ حالات میں انا ہزارے کی تحریک کو اگر عوامی حمایت مل رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کی نمائندگی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو آغاز میں ہی اس موضوع کواُچک لیتی اور وہی کرتی جو عوام چاہتے ہیں... لیکن افسوس کہ  اس نے ایسا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو..... نہ انا ہزارے کاقد اتنا بلند ہوتا ، نہ اپوزیشن کواس کے خلاف متحد ہونے اوراسے گھیرنے کا موقع  ملتا اور نہ ہی وہ یعنی حکومت عوام میں یوں معتوب ٹھہرتی۔ آج تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی شبیہ عوام مخالف بن کر رہ گئی ہے..... اور اگرایسا ہے تواس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ خود حکومت ہی کا ہے۔
     ابھی بھی بہت زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے۔ حکومت چاہے توابھی بھی سنبھل سکتی ہے۔