راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جےپی کی حالت ابتر، کانگریس کے عزائم اور اپنے باغیوں سے پریشان
Tuesday, 17 October 2023
BJP worried about its rebels/ Qutbuddin Shahid
Monday, 9 October 2023
Caste Survey Opposition and Government / Qutbuddin Shahid
ذات پر مبنی سروے، اپوزیشن کا ایک تیر سے کئی شکار
Monday, 2 October 2023
Wali Rahmani a courageous young man who dreams and sacrifices his sleep for the children of the nation/ Qutbuddin Shahid
ولی رحمانی
قوم کے بچوں کیلئے خواب دیکھنے اور اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کرنے والا حوصلہ مند نوجوان
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
کلکتہ کےایک خوشحال اور متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والا ۱۷؍ سال کا ایک نوعمر ایک خواب دیکھتا ہے۔ ایک بڑا خواب، ایک ایساخواب جو اسے بے چین کردیتا ہے۔ یہ خواب وہ اپنے لئے نہیں، قوم کے بچوں کیلئے دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کردیتا ہے۔ اس نوعمر کا نام ولی رحمانی ہے۔ وطن عزیز میں عام طور پر یہ عمرکھانے اور کھیلنے کی قرار دی جاتی ہے۔ کوئی لڑکا اگر بہت زیادہ ذمہ دار رہا تو اسے اپنے کریئراور اپنے والدین کے ارمان کی فکرستاتی ہے، جس کیلئے وہ محنت کرتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کردیتا ہے۔
لیکن ولی رحمانی ان لڑکوں اور نوجوانوں سے کچھ مختلف ہے۔ اس نوجوان کا عزم اس کی عمر سے کہیں زیادہ جوان اور اس کا حوصلہ اس کے قد سے کئی گنا زیادہ بلند ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تو آج کی نسل اس بات پر فخر کرے گی کہ اس نے سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کا دور تو نہیں دیکھا لیکن ہمارے ان اکابرین نے مسلمانوں سے جس رُخ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس پر چلنے والے نوجوان ولی رحمانی کا دور دیکھا ہے۔
ولی رحمانی کی عمر اب ۲۲؍ سال ہوگئی ہے،اسی سال انہوں نے ’جامعہ ہمدرد‘ سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک ویڈیو بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے قوم سے قوم کیلئے فنڈ کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کے بعد محض ایک ہفتے میں انہیں ساڑھے پانچ کروڑ روپے مل گئے۔ ان کا ٹارگیٹ ۱۰؍کروڑ روپوں کا تھا لیکن محض ایک ہفتےمیں ملک کے طول و عرض سے کسی ایک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ دوسرے اکاؤنٹس سے پیسوں کی منتقلی ایک نئی اور غیر معمولی بات تھی۔ اس کی وجہ سے پورا بینک اَلرٹ ہوگیا، ’اے آئی‘ بھی حرکت میں آئی اور اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کے تمام ذرائع مسدود کردیئے گئے۔
انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ولی رحمانی نے بتایا کہ اس کے بعد بینک کے ذمہ داران نے ہم سے رابطہ قائم کیاتو ہم نے انہیں اپنی اپیل اور اپنے پروجیکٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ انہوں نے زیر تعمیر اسکول کی جگہ کا دورہ کیا او ر ساری روداد سن کر متاثر بھی ہوئے۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ مستقبل میں وہ ’کارپوریٹ سوشل رسپانس بلیٹی ‘ (سی ایس آر ) فنڈ کی سفارش بھی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ اکاؤنٹ میں رقموں کی منتقلی کے ذرائع بلاک کردیئے گئے تھے، جو فوری طورپر ’اوپن‘ نہیں ہوسکتے تھے،اسلئے دوسرا اکاؤنٹ کھولنا پڑا۔ اس اکاؤنٹ میں بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے آچکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طورپر ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے ہیں۔ان کا پروجیکٹ بہت بڑا ہے لیکن وہ فی الحال ۲؍ ایکڑ زمین پر ایک اسکول بلڈنگ، لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ ہوسٹل اور کھیل کا میدان بنانا چاہتےہیں، جہاں اسلامی ماحول میں عالمی معیار کی تعلیم کا انتظام ہوسکے۔
۱۷؍ سال کے ایک لڑکے کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی؟ اس راہ پر وہ آگے کیسے بڑھا؟ اس راستے میں اسے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟ اسے حوصلہ کہاں سے ملا؟ ان سارے سوالوں کا جواب انہوں نے نہایت اطمینان سے دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بات ۲۰۱۸ء کی ہے جب میں دہلی کے ایک انٹرنیشنل اسکول میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ذاتی طورپر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں اپنی کار میں ہیٹرلگا کر سردیوں کا بہ آسانی مقابلہ کر رہا تھا لیکن دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے جب میں سردیوں میں ٹھٹھرتے اور اپنی ماؤں کی گود میں دُبکتے ہوئے بچوں کو دیکھتا تو نظریں چرانی پڑتی تھیں۔ میں انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا لیکن میرے پاس انہیں اس ’عذاب‘ سے باہر نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ اسلئے میں نظریں پھر لیتا تھا۔ ان کی غربت پر مجھے ترس آتاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری طرح یہ بھی تعلیم حاصل کریں اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے حصہ دار بنیں لیکن غریبوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔ پھراچانک خیال آیا کہ سب نہیں تو کم از کم ۱۰؍ بچوں کی کفالت تو کر ہی سکتا ہوں۔ اس کے بعد ۲۰؍ سال کی عمر میں ۱۰؍ یتیم بچوں کا ’باپ‘ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ ان ۱۰؍ بچوں پر ۲۰۔۱۵؍ سال تک محنت کروں گا، انہیں تعلیم دلاؤں گا اور سماج میں قابل ذکر مقام دلانے کی کوشش کروں گا اور پھران کے ساتھ مل کر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کروں گالیکن بچوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ۱۰؍ سے ۱۱؍ ہوئے، پھر ۱۳۔۱۲؍ ہوتے ہوئے ۲۰؍ تک پہنچے۔ میں انہیں منع نہیں کرسکا۔ اس کے بعدہم نے باقاعدہ اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں آج ۳۰۰؍ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ۱۵۰۰؍ بچے داخلے کے منتظر ہیں۔‘‘
ولی رحمانی نے بتایا کہ جب اس مہم کا خاکہ ہم نے اپنے اہل خانہ کے روبرو پیش کیا تو سب سے پہلے میری والدہ نے میری حوصلہ افزائی کی اوربطور فنڈ انہوں نے ۵۰؍ہزار روپے کی رقم عنایت کی۔ اس کے بعد میرے گھر کی ایک ملازمہ نے ۵۰۰؍ روپے دیئے۔ خاندان اور احباب کی کچھ اور خواتین بھی آگے آئیں، کسی نے اپنی انگوٹھی دی تو کسی نے کچھ اور بیچ کر رقم فراہم کی.... اور اس طرح میرے حوصلے کو مہمیز ملی۔‘‘ کاغذات اور دستاویزات کے مرحلے پر ولی رحمانی نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے چیریٹی کمشنر میں ٹرسٹ کے رجسٹریشن کے ساتھ ہی انکم ٹیکس محکمے سے بھی ادارے کو رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ اسی طرح ادارے کیلئے پین نمبر، ۸۰؍ جی اور سی ایس آر نمبر بھی حاصل کرلیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج یہ نوجوان نہ صرف قوم کیلئے ایک بڑی امید بن کرسامنے آیا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کا رول ماڈل بھی بن گیا ہے۔
یہاں تک پہنچنے کیلئے ولی رحمانی کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ عمر کے اس مرحلے پرجبکہ لوگ اپنے کریئر کے تئیں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو ایک سال کیلئے موخر کردیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے’الہادی ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کی تشکیل کی اوراس کے تحت ’امیداکیڈمی‘ قائم کی ، جہاں آج ۳۰۰؍ غریبوں کے بچے امیروں جیسی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہاں ’اسمارٹ کلاسیز‘ میں سی بی ایس ای بورڈ کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں فی الحال نرسری سے ششم جماعت تک تعلیم کا نظم ہے جو’ فطری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ چند برسوں میں بارہویں جماعت تک پہنچ جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ان کے تمام کلاسیز جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہیں جہاں آئندہ برسوں میں اے آئی، کوڈنگ اور روبوٹکس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ فی الحال یہاں عربی بطور ایک زبان پڑھائی جاتی ہے۔‘‘
’اُمید اکیڈمی‘کی ایک خاص بات جو اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر پہلی ’گھنٹی‘ اساتذہ کیلئے لگتی ہے جس میں تمام اسٹاف کودینیات کے ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ولی رحمانی آج ایک مقبول نام ہیں۔ فیس بک پر اُن کے۸؍ لاکھ ، یوٹیوب پر۵؍ لاکھ ۲۶؍ ہزار، انسٹا گرام پر ایک لاکھ ۶۳؍ ہزار اور ٹویٹر پر ۷۰؍ ہزار سے زائد فالوورس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج ان کی ایک اپیل پر۷؍ کروڑ روپوں کا فنڈ آسانی سے جمع ہوگیالیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر میںتھک گیا تھا۔ لوگ بلاتے تھے لیکن گھنٹوں باہر بٹھا کر ہزار پانچ سو دے کر رخصت کردیتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ’کراؤنڈ فنڈنگ‘ کے ذریعہ پیسے جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اس دوران کچھ عناصرکی جانب سے رکاوٹیں بھی کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے عقیدے پرحملے کئے گئے۔ کچھ نے مجھے بریلوی تو کچھ نے دیوبندی کہہ کرفنڈ روکنے کی اپیل کی۔ کچھ نے خاتون ٹیچرس کا چہرہ کھلا ہونے پر مجھے لبرل ہونے کا طعنہ دیا تو کچھ نے طالبات کو حجاب پہننے پرمجبور کرنے کاالزام عائد کیا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ میرے یہاں تقریباً ہرمسلک کے اساتذہ ہیں۔‘‘
انہوں نےعوام سے وعدہ کیا ہے کہ۸؍ ماہ میں وہ اس بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوکر ویڈیو بنائیں گے جس کا انہوں نے خواب دیکھا ہے اوراس کے بعد وہ کسی اور شہر میں اسکول کی دوسری عمارت سے متعلق منصوبہ بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ میری پہلی اپیل ہے ۔ اگر یہ مہم کامیاب رہی تو اس طرح سے آئندہ میں باربار اپیل کروں گا اور امیدکرتا ہوں کہ میری ہر اپیل پر لوگ لبیک کہیں گے ان شا ء اللہ۔‘‘
۲۲؍ سالہ اس نوجوان کے عزائم کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی پریشانی انہیں ان کے مقصد سے روک سکے گی۔ بیکل اُتساہی نے شاید اسی قبیل کے نوجوانوں کیلئے یہ بات کہی تھی کہ :
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
Wednesday, 27 September 2023
Modi criticizes Nehru and also wants to be Nehru/ Qutbuddin Shahid
نہرو پر تنقید بھی کرتےہیں اور نہرو بھی بننا چاہتے ہیں وزیراعظم مودی
Monday, 18 September 2023
By-election results and prospects for 'INDIA' alliance / Qutbuddin Shahid
ضمنی انتخابات کے نتائج اور اس میں
’انڈیا‘ اتحاد کیلئے امکانات
shahid.qutbuddin@mid-day.com
گزشتہ دنوں گھوسی اسمبلی حلقہ سمیت ۶؍ ریاستوں کے ۷؍ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے۔عام طور پر ہمارےیہاں ضمنی انتخابات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ کب آتے ہیں اور کب چلے جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا لیکن ان نتائج پرپورے ملک کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس الیکشن کو سیاسی جماعتوں کیلئے ایک ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پردیکھا گیا،اسلئے اس پر دورانِ انتخابات خوب باتیں ہوئیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ ضمنی انتخابات کی یہ نشستیں اُترپردیش، اُتراکھنڈ، جھارکھنڈ، کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملک گیرحیثیت ہوگئی تھی،اس لئےیہ بات بھی کہی گئی کہ ان نتائج سے شمالی ہند، جنوبی ہند اور شمال مشرق کی ریاستوںکے عوام کی سوچ ظاہر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر اس سے ملک کے سیاسی رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے.... اور جب ہم اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا تو اس کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش کی گھوسی سیٹ پر بھگوا لہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہ سیٹ جیتنا چاہتی تھی۔ وہ قطعی نہیں چاہتی تھی کہ اس ایک سیٹ کی وجہ سے ’مودی، امیت شاہ اور یوگی‘ کی طاقت کو چیلنج کیا جائے اور قومی سطح پر ’این ڈی اے‘ پر ’انڈیا‘کی بالادستی نظر آئے.... لیکن گھوسی کے عوام نے ثابت کیاکہ کسی اور کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، ہوگا وہی جو عوام چاہیں گے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ جب تک ملک میں جمہوری نظام قائم ہے، عوام کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔۷؍ اسمبلی حلقوں میں سے۴؍ سیٹیں ’انڈیا‘ اتحاد نے حاصل کیں جبکہ این ڈی اے کے حصے میں صرف ۳؍ سیٹیں آئیں۔ سیٹوں کے اُلٹ پھیر کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے دونوں محاذ کی سیٹیںبرقرار رہیں۔مغربی بنگال میں ٹی ایم سی سے بی جے پی اپنی سیٹ ہار گئی لیکن تریپورہ میں سی پی ایم کو ہرا کر اس نے سیٹوں کی تعداد برابر کرلی۔ آئیے ! دیکھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے یہ نتائج کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ۶؍ ریاستوں کے عوام نے ملک کو کیا پیغام دیا ہے؟ اور یہ کہ ان نتائج سے ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کس طرح کے امکانات پیدا ہوتے ہیں؟گھوسی ،اترپردیشضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ اہمیت یوپی کی گھوسی سیٹ کو حاصل تھی ۔ بی جے پی نے اسے اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور محض اس ایک سیٹ پرمودی،امیت شاہ ،یوگی اور اوم پرکاش راج بھر کی ساکھ داؤ پر لگا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہی راج بھر کو ’اتحاد‘ میں شامل کیا گیاتھا کہ گھوسی کی سیٹ جیتنی ہے۔ اس کیلئےحکومت کی جانب سے ’سام دام دنڈ بھید‘ کے سارے حربے استعمال کئے گئے۔ الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی لیڈروں نے گھوسی کا چپہ چپہ چھان مارا اور ایک ایک ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کی۔ وہاں پرنہ صرف وزیراعلیٰ یوگی نے انتخابی ریلیاں کیں بلکہ ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ کیشوپرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کے ساتھ تقریباً ۲؍ درجن وزراء اور چار درجن ایم ایل ایز ہفتوں خیمہ زن رہے ۔اراکین پارلیمان نے بھی اپنی طاقت دکھائی۔ ضلع انتظامیہ پر بھی الزام عائد ہوا کہ اس نےبی جے پی کے امیدوار کی کامیابی کیلئے ہر ممکن مدد کی۔ یہ بات بار بار کہی گئی کہ رام پور اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی طرح انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ تمام رائے دہندگان جن پر بی جےپی کے خلاف ووٹ دینے کا شبہ ہو، انہیں بوتھ تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اس کے اثرات نظر بھی آئے۔ دونوں جانب سے دھواں دھار انتخابی مہم چلنے کے باوجود ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے ۳۸؍ ہزار ۸۳۵؍ ووٹ کم پڑے، جبکہ اس مرتبہ پہلے کے مقابلے زیادہ پولنگ کی امید تھی۔ اپوزیشن کاالزام ہے کہ ایسا اسلئے ہوا کہ مسلم علاقوں میں پولنگ نہیں ہونے دی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان کیلئے رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی ہوتی تو ہارجیت کا فرق اورزیادہ ہوتا۔ بعض کا کہنا ہے کہ مایاوتی کی اپیل پر دلتوں نے پولنگ کم کی۔ اگر ایسا ہے تب بھی یہ نتیجہ بی جے پی لیڈروں کی نیند حرام کرنے کیلئے کافی ہے۔ ایک سال قبل ہونیوالے الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار کو ۸۶؍ ہزار۲۱۴؍ ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ اسے ۸۱؍ ہزار ۶۶۸؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا جبکہ اس نے سماجوادی پارٹی کا امیدوار بھی ’چُرا‘ لیا تھا۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ دارا سنگھ چوہان کی وجہ سے اسے پسماندہ طبقات کے ووٹ بڑی تعداد میں ملیں گے لیکن ووٹوں کی گنتی ہوئی تو اس کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔اس نتیجے میں بی جے پی کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی اور ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے بھی پیغام ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہندو مسلم کرکے، نفرت کا بازار گرم کرکے اورآمریت کا مظاہرہ کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہے گی تو اسے اب اپنی سوچ تبدیل کرلینی چاہئے۔ گھوسی کے نتائج نے اکھلیش یادو کو پیغام دیا ہے کہ اگر انہیں عوامی حمایت چاہئے توانہیں اے سی سے باہر نکل کر عوام کے درمیان جانا ہوگا اوران کے دکھ درد میں ان کے ساتھ رہنا ہوگا۔اس نتیجے نے یہ بھی ثابت کیا کہ رام پور اور اعظم گڑھ میں سماجوادی کی شکست کی وجہ اکھلیش کی لاپروائی تھی۔اسی کے ساتھ ایک پیغام اور ہے کہ یہ جیت صرف سماجوادی کی جیت نہیں ہے بلکہ یہ ’انڈیا‘کی جیت ہے،اسلئے اس کامیابی کاخمار اُن کے سر نہیں چڑھنا چاہئےبلکہ آئندہ متحدہ طاقت کے ساتھ ہی میدان میں اُترنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے۔ڈمری ،جھارکھنڈیہاں بھی مقابلہ ’این ڈی اے‘ بنام ’انڈیا‘اتحاد تھا۔ ’انڈیا‘ کی طرف سے ’جے ایم ایم‘کا امیدوار تھا جبکہ ’این ڈی اے‘کی طرف سے ’اے جے ایس یو‘ کا امیدوار تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بھی جے ایم ایم ہی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا لیکن اس مرتبہ اسے پہلے کے مقابلے کافی زیادہ ووٹ ملے ۔ ضمنی الیکشن میں جے ایم ایم کی امیدوار بے بی دیوی کو ایک لاکھ ۳۱۷؍ ووٹ ملے جبکہ ’اے جے ایس یو‘ کی امیدوار یشودا دیوی کو ۸۳؍ ہزار۱۶۴؍ ووٹ ملے ۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی اور اے جے ایس یو کے درمیان اتحاد نہیں تھا لیکن اس مرتبہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر بھی الیکشن نہیں جیت پائیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر ووٹوں نے بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ’انڈیا‘ کو پیغام دیا کہ اتحاد ہی میں طاقت ہے۔ ۲۰۱۹ء کے اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم کو یہاں پر۲۴؍ ہزار ۱۳۲؍ ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اس کے امیدوار کو صرف ۳؍ ہزار ۴۷۲؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔باگیشور ،اُتراکھنڈیہاں پر بی جے پی اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہی لیکن اس کی کامیابی کا سہرا کانگریس کے سر باندھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے امیدوار کو یہاں پر۳۳؍ ہزار ۲۴۷؍ ووٹ ملے جبکہ کانگریس کے امیدوار کو ۳۰؍ ہزار ۸۴۲؍ ووٹ ملے۔اس طرح ۲۴۰۵؍ ووٹوں سےکانگریس کو شکست ہوگئی۔یہاں پرکانگریس کے کسی بڑے لیڈر نے انتخابی مہم نہیںچلائی۔دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے علاوہ اتراکھنڈ پریورتن پارٹی اوراتراکھنڈ کرانتی دل کی صورت میں کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی یہاں میدان میں تھے جنہیںآسانی سے رام کیا جاسکتا تھا لیکن کہا جاتاہے کہ کانگریس نے یہاں پہلے ہی سے شکست تسلیم کرلی تھی،اسلئے زیادہ محنت نہیں کی۔۲۰۲۲ء کے الیکشن میں باگیشور میں بی جے پی کو ۳۲؍ ہزار اور کانگریس کو محض ۲۰؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے جس امیدوار کو ۱۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے ،وہ اس مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہا تھا۔دھوپ گڑی ،مغربی بنگالدھوپ گڑی کی یہ سیٹ ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی ۔ یہ ریاست میں ٹی ایم سی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ سیٹ بی جے پی کے امیدوارکی موت کی وجہ سےخالی ہوئی تھی۔ زعفرانی پارٹی نے یہاں پر پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے ایک فوجی کی بیوہ کو ٹکٹ دے کر عوام کا جذباتی استحصال کرنے کی کوشش کی تھی،اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی۔ لیکن اگرممتا بنرجی نے اپنی ’انا‘ کو قربان نہیں کیاتو کامیابی کا یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ممتا بنرجی کے اسی رویے کی وجہ سے رائے دہندگان میں سردمہری پائی جارہی تھی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی الیکشن میں ۲؍ لاکھ ۲۹؍ ہزار ۳۲۳؍ ووٹ پڑے تھے لیکن اس مرتبہ ۲؍ لاکھ ۱۰؍ ہزار ۹۳۵؍ افراد ہی ووٹ دینے کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ یہاں پر سی پی ایم کو دونوں مرتبہ ۱۳؍ ہزار سے کچھ زائد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے ووٹوں میں واضح کمی دکھائی دی۔ ٹی ایم سی تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے اگر ’انڈیا‘ اتحاد کے بینر تلے الیکشن لڑتی تو اس کی کامیابی یقیناً بڑی ہوتی۔یہ ایک طرح سے ممتا بنرجی کیلئے رائے دہندگان کا انتباہ ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اس پیغام کو کتنا سمجھتی ہیں اور اس پر آئندہ کس حد تک عمل کرتی ہیں۔دیگر اسمبلی نشستیںکیرالا میں کانگریس جیتی اوربڑے فرق سے جیتی۔ وہاں دوسری پوزیشن پر سی پی ایم کا امیدوار تھا جسے ۴۲؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوار کو صرف ۶؍ ہزار ووٹ ملے۔تریپورہ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی نے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ وہاں پر ایک سیٹ بی جے پی کی اور ایک سی پی ایم کی تھی۔دونوں جگہ پر سی پی ایم کو پہلے کے مقابلے ووٹ کم ملے۔ ایسےمیں سی پی ایم کوسر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اس کی عوامی طاقت مسلسل کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کا کیڈرکمزور کیوں ہورہا ہے؟ کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ میں برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود نئی نسل میں اس کیلئے جگہ کیوں نہیں بن پارہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اسے کھلے دل سے غور کرنا ہوگا۔مجموعی طور پرضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک کا ماحول تبدیل ہورہا ہے جس میں ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کافی امکانات ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لیڈران عوام کے درمیان رہ کر عوام کی نمائندگی کرتے رہیں۔ n
Saturday, 16 September 2023
Corrections of documents and responsibility of schools/ Qutbuddin Shahid / Roznaamcha
دستاویزات کی درستگی میں اسکولوں کا اہم کردار
Monday, 11 September 2023
Special session of Parliament and Sonia Gandhi's letter to the Prime Minister/ Qutbuddin Shahid
پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور سونیا گاندھی کا وزیراعظم کے نام خط