Tuesday, 17 October 2023

BJP worried about its rebels/ Qutbuddin Shahid

 راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جےپی کی حالت ابتر، کانگریس کے عزائم اور اپنے باغیوں سے پریشان

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com
بہت دنوں بعد ایساکچھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ انتخابی تاریخوں کے اعلان سے قبل ہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم شروع کر دی  ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی ۹؍ اکتوبر کو پانچ ریاستوں  میں انتخابی شیڈول کااعلان کیا ہے لیکن اس سے بہت پہلے ہی کئی ریاستوں میں امیدواروں کے نام اعلان کئے جاچکے ہیں۔ اس معاملے میں تلنگانہ کی ’بی آر ایس‘  نے دوسری جماعتوں پر بازی مار لی ہے۔ اس نے ڈیڑھ ماہ قبل ۲۱؍ اگست کو ہی ریاست کے  ۱۱۹؍ میں سے ۱۱۵؍ امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ دوسرے نمبر پر بی جے پی ہے جس کی جانب سے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے کئی انتخابی حلقوں کیلئے امیدواروں کے نام ظاہر کئے جاچکے ہیں لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی میں بغاوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
تاریخوں کے اعلان سے قبل انتخابی مہم کے آغاز کے علاوہ بھی اس بار کے انتخابات میں کئی نئی باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ’پارٹی وِد اے ڈِفرینس‘ کا نعرہ بلند کرنےوالی بی جے پی کو اپنی پارٹی میں نظم و نسق پر بہت ناز تھا لیکن اس مرتبہ سب سے زیادہ بد نظمی بی جے پی ہی میں دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کچھ فرق کے ساتھ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل جیسا سماں نظرآ رہا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ اُس وقت کانگریس کے لیڈران ، بی جے پی کی طرف جا رہے تھے اور اب بی جے پی سے نکل کر لوگ کانگریس میں پناہ لے رہے ہیں۔ ہوا کا رُخ بدل رہا ہے،   یہ صاف  دکھائی دے رہا ہے۔
بی جے پی میں مچی یہ بھگدڑ اور افراتفری کا ماحول کیا صرف ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہے؟ یا اور کوئی بات ہے؟  بات اگر صرف امیدواری کی ہوتی تو ٹکٹوں کے اعلان سے قبل یہ لیڈران پارٹی نہیں چھوڑتے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے کئی بڑے لیڈروں نے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے سے قبل ہی پارٹی چھوڑ دی ہے جبکہ راجستھان میں ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ چھتیس گڑھ  کے ۷۷؍ سالہ سینئر قبائیلی لیڈر’نند کمار سائی‘ نے  بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں جب شمولیت اختیار کی تھی، تب تک بی جے پی کی طرف سے ٹکٹوں کااعلان نہیں کیا گیا تھا۔ تین بار لوک سبھا اور تین بار اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کرنے والے نند کمار سائی چھتیس گڑھ بی جے پی اور متحدہ مدھیہ پردیش بی جے پی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔  اسی طرح  مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر سمندر پٹیل نے ۸۰۰؍ گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سمندر پٹیل سے قبل دوسرے کئی لیڈران بھی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں جن میں پرمود ٹنڈن،رام کشور شکلا، دنیش ملہار، وریندر رگھوونشی، بھنور سنگھ شیخاوت،ماکھن سنگھ سولنکی اور گرجا شنکر شرما کے نام قابل ذکر ہیں۔ بی جےپی میں اس بھگدڑ کا آغاز مئی ۲۰۲۳ء میں اُس وقت ہوا تھا جب مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کیلاش چندر جوشی کے بیٹے  دیپک جوشی نے کانگریس جوائن کی تھی۔ انتخابات سے قبل لیڈروں کا پالا بدلنا معمول کی بات ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن لیڈروں کے اس طرح پالا بدلنے ہی سے ، اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی ہوا کس طرف بہہ رہی ہے؟
پانچ ریاستوں کے اس الیکشن میں ایک اور نئی بات دیکھنے کو مل رہی ہے۔  برسوں بعدکانگریس کے رویے میں  ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب وہ دم خم کے ساتھ الیکشن لڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسے گزشتہ انتخابات میں بھی کامیابی ملی تھی لیکن اُس کامیابی میں کانگریس کا کردار کم، خود بی جے پی کا کردار زیادہ تھا۔ تینو ں ہی ریاستوں میں کانگریس کو ’حکومت مخالف لہر‘ کا فائدہ ملا تھا لیکن اس بار وہ بات نہیں ہے۔ تین میں سے ۲؍ ریاستوں میں خود کانگریس کی حکومت ہے جہاں اسے ’اینٹی اِن کم بینسی‘ کا سامنا ہے لیکن کانگریس اِن حالات سے قطعی خوف زدہ معلوم نہیں ہوتی۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ بی جے پی کے سامنے کھڑی ہے۔ یہ حوصلہ اسے ہماچل  اور کرناٹک کے انتخابات میں نمایاں کامیابی سے ملا ہے۔ کرناٹک کی جیت کا سب سے زیادہ اثر تلنگانہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں کانگریس پورے فارم میں ہے جبکہ اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی ہے۔ کانگریس کے اس عزم  نے بی جے پی کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اسے اپنی جیت کا سلسلہ رُکتا ہوا  محسوس ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر اب اس کے باغیوں نے پوری کردی ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی اس حالت کو کیوں کرپہنچی؟ کیا وہ کمزور ہوگئی ہے؟ کیا  اس کا طلسم ٹوٹ چکا ہے؟ کیا عوام سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں؟ کیا کانگریس کے تئیں لوگوں کا رویہ بدل گیا ہے؟ یا اور کوئی وجہ ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر سوالوں کے جواب ’نہ‘ میں ہیں۔ بی جے پی کمزور نہیں ہوئی ہے اور جب تک اس کے پاس سی بی آئی،  ای ڈی، انکم ٹیکس جیسے محکموں کی باگ ڈور اور ’پی ایم کیئر فنڈ‘ جیسا خزانہ ہے، اس کی کمزوری کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی طرح اس کا طلسم بھی پوری طرح سے نہیں ٹوٹا ہے،اسلئے آخرالذکر دونوں سوالوں کے جواب بھی ’نہ‘ میںملتےہیں۔
اس کے باوجود اگر مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اجستھان میں زعفرانی پارٹی  کی حالت دگرگوں ہے تواس کیلئے نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی ذمہ دار ہے جسے پارٹی کو یہاں تک پہنچانےکا کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ دراصل یہ پارٹی پر بالادستی کی جنگ ہے۔ مودی اور شاہ کا ہدف ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی ہے،اس کیلئے انہیں  اسمبلی انتخابات میں ناکامی بھی گوارا ہے۔ یہ بات تھوڑی عجیبضرور ہے لیکن اس پہلوکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں کامیاب ہونے کے بعد بھی لوک سبھا انتخابات میں جیت کی خواہش کی  جاسکتی ہے، پھر ناکامی جیسی صورتحال کیوں پیدا کی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ قطعی نہیں چاہتے کہ راجستھان،  مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں کامیابی کی صورت میں اس کا کریڈٹ کسی بھی طرح سے وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان   اور ڈاکٹر رمن سنگھ کو ملے۔ اس جوڑی کے نزدیک ’مقامی لیڈروں کے سر سہرا بندھے‘ اس سے بہتر ان ریاستوںمیں پارٹی کا ہار جانا ٹھیک ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں یا اس کے بعدان کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے۔ مودی اور شاہ  جانتے ہیں کہ انہیں کنارےلگادینے کے بعد بھی ہار جیت کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں رہنے والا ہے،لہٰذا لوک سبھا انتخابات متاثرنہیں ہوںگے۔ یہی سبب ہے کہ مودی اورامیت شاہ نے تینوں ریاستوں کی ’اعلیٰ قیادت‘ کو اس حال میں پہنچادیا ہے کہ اب انہیں اپنی اپنی ریاستوں سے باہر دیکھنے کی نہ ضرورت محسوس ہورہی ہے، نہ ہی ان میں اس کی جرأت رہ گئی ہے۔
یہ مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ان کی ہرحکمت عملی کامیاب ہی ہو اور ہر بار اسے عوام کی تائید بھی حاصل ہو۔

Monday, 9 October 2023

Caste Survey Opposition and Government / Qutbuddin Shahid

 ذات پر مبنی سروے، اپوزیشن کا ایک تیر سے کئی شکار

خواتین کیلئے ریزرویشن کا شوشہ چھوڑنے  اور جنوری میںرام مندر کے افتتاح کا  اعلان کرکے مودی سرکار بہت خوش اورمطمئن تھی لیکن ان حربوں سے وہ جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتی تھی، وہ اب آسان نہیں رہا، ذات پر مبنی سروے کی رپورٹ سے اپوزیشن نے اس کا سارا کھیل خراب کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ہندوستان میں سیاست کامیدان سماجی خدمت کا شعبہ نہ ہوکر شطرنج کا کھیل ہو گیا ہے جہاں بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پارٹیوں کا نفع نقصان دیکھ کر  چالیں چل رہی ہیں ۔یہاںحکومتی سطح پر ہونے والے فیصلے بھی اکثر سیاسی ہوتے ہیں، جس کے محور و مرکز میں ملک اور عوام نہیں ہوتےبلکہ اپنی پارٹی اور اس کا مفاد ہوتا ہے۔ان فیصلوں سے عوام کا فائدہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ لیکن  مقصدعوام کا فائدہ نہیں ہوتا۔ حالیہ کچھ مہینوں  کے دوران  ملک میںہونے والی سیاسی سرگرمیوں کاجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کس طرح سے شہ اور مات کا کھیل چلا ہے۔
وطن عزیز میں حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن  اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ۲۶؍ جماعتوں  کے اتحاد نے جس دن  اپنے گروپ کا نام ’انڈیا‘ رکھا،اسی دن سے یہ کھیل دلچسپ ہوگیا اور چالیں تیزی کے ساتھ چلی جانے لگیں۔ یہیں سے حکمراں محاذ کی بوکھلاہٹ کا اظہار بھی ہونے لگا۔ مہاراشٹر کی سیاست میں شہ اور مات کا کھیل جاری ہی تھا۔ اسی دوران ’انڈیا‘ اتحاد کی ممبئی میں تیسری میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ پرعوام کی توجہ مرکوز نہ ہو اور اسے میڈیا میں زیادہ کوریج نہ مل سکے،اسلئے مودی حکومت  نے ایک چال چلی اور پانچ روزہ ’خصوصی اجلاس‘ کاا علان کردیا۔اسے مودی سرکار کا ’ماسٹراسٹروک‘ قرار دیا گیا اور پھر اس پر مباحثوں اور قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو گیا۔  اس دوران ’ذرائع‘ سے ملک کو کئی ایجنڈے فراہم کئے گئے جن میں ملک کے نام سے انڈیا کو ختم کرکے صرف بھارت کرنے، ملک میں وَن نیشن ، وَن الیکشن نافذ کرنے، خواتین ریزرویشن بل پاس کرنے، روہنی کمیشن کی سفارشات کو عام کرنے، جی۔۲۰؍کو بڑی کامیابی کے طورپرپیش کرنے  اور اُس وقت کے ای ڈی سربراہ سنجے مشرا کیلئے ایک نئی پوسٹ ’چیف انویسٹی گیشن آفیسر‘ تخلیق کرنے جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔اسی دوران مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں تین وزیروں سمیت ۷؍ اراکین پارلیمان کوامیدوار بنا دیا گیا۔ حکمراں جماعت کا خیال تھا کہ ان چالوں سے اپوزیشن اتحاد سراسیمہ ہوجائے گا اور  ان بھاری بھرکم موضوعات کی آندھی میں اس کی سیاست خس و خاشاک کی طرح اُڑ جائے گی.... لیکن ایسا نہیں ہوا۔  
ان تمام چالوں پربہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو کی چال بھاری پڑی۔  ذات کی بنیاد پر سروے کرواکروہ پہلے ہی بی جے پی پر سبقت حاصل کرچکے تھے۔  رہی سہی کسر انہوںنے سروے کی رپورٹ پیش کرکے پوری کردی۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ۲۰۲۴ء سے قبل ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جاسکے گی۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین کیلئے ریزرویشن بل پیش کرکے وہ بہت خوش تھی۔اپنی دانست میں اس نے’ملک کی آدھی آبادی کو رام کر کے‘ بڑا تیر مار لیا تھا۔  اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ۵؍  ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں خواتین ریزرویشن کی مدد سے کم از کم ۲؍ ریاستوں (راجستھان اور مدھیہ پردیش) میں  وہ فتح حاصل کرلے گی اور پھر جنوری میں رام مندر کا افتتاح کرکے لوک سبھا انتخابات میں بھی بازی مار لے گی، لیکن ذات پر مبنی سروے رپورٹ نے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ کانگریس سمیت ’انڈیا‘ اتحاد میںشامل تمام جماعتوں  نے اس رپورٹ کی تائید کرکے اور قومی سطح پر ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ کرکے بی جے پی سے دن کا سکون اورراتوں کی نیند چھین لی ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کہہ کر اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ ’’ذات کی بنیاد پر مردم شماری دراصل ملک کا سماجی ایکسرے  ہے۔ اس تعلق سے ڈیٹا آنے کے بعد ملک سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکے گا۔ او بی سی خواتینکی حصہ داری بھی طے ہوگی۔ آبادی کے لحاظ سے اگر سب کو ان کا حصہ دینا ہے تو ذات کی بنیاد پر مردم شماری لازمی ہے۔‘‘
۲۰۱۹ء کے لوک سبھا اور ۲۰۲۲ء کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی جس ۲۰۔۸۰؍ کا فارمولہ استعمال کرکے اقتدار میں آئی تھی، اب وہی فارمولہ اس پر پلٹ گیا ہے۔  وہ ۲۰؍فیصد مسلمانوں کے خلاف ۸۰؍ فیصد ہندوؤں  کو صف آرا کرنا چاہتی تھی لیکن ذات پرمبنی سروے رپورٹ کے آنے کے بعد ۲۰؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کے خلاف جس کی بی جے پی نمائندگی کر رہی ہے،۸۰؍ فیصد پسماندہ طبقات کے ایک ساتھ آجانے کے پورے آثار ہیں اور اسی آثار نے اس کے اوسان خطا کررکھے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس رپورٹ میں آخر ایسی کون سے بات ہے کہ خود کوہندوتوا کے ساتھ ہی او بی سی کا چمپئن  سمجھنے والی بی جے پی اتنی زیادہ خوفزدہ ہے؟’سی ایس ڈی ایس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ء  کے لوک سبھا   الیکشن تک بی جے پی کو  ۲۳۔۲۲؍ فیصد او بی سی  ووٹ ملا کرتے تھے لیکن ۲۰۱۴ء میں اسے۳۴؍ فیصد ووٹ ملے  اور ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد  دگنی ہوگئی یعنی اسے ۴۴؍ فیصد سے زائد او بی سی  ووٹ ملے۔ اب وہ یہ سوچ کر خوفزدہ ہے کہ کہیں  اس رپورٹ کے آئینے میں یہ۴۴؍ فیصد لوگ خود کو دیکھنے نہ لگیں۔ ابھی تو صرف اعدادو شمار سامنے آئے ہیں جبکہ ڈیڑھ دو ماہ میں ذات کی بنیاد پر سماج کا معاشی ڈیٹا بھی سامنے آجائے گا۔ بہار کی حد تک ہی سہی، یہ بات سامنے آئے گی کہ کس ذات کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟ کارپوریٹس گھرانوں پر کس ذات کا غلبہ ہے؟ 
زمینوں پر مالکانہ حقوق کس کے ہیں؟  یونیورسٹیز میں کس کی کتنی نمائندگی ہے؟ اعلیٰ افسران اور ارب پتیوں کی تعداد کا تناسب کیا ہے؟پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور منتخب نمائندوں میں کس  ذات کی کتنی نمائندگی ہے؟
  یقینی طور پر ’مین اسٹریم میڈیا‘ میں  اس کا تذکرہ نہیں ہوگاکیونکہ وہاں پر بھی اعلیٰ ذات کا غلبہ ہے ۔ مطلب یہ کہ اس رپورٹ سے میڈیا کی قلعی بھی اُتر جائے گی۔ ڈیٹا سے نظریں چرانے والی  بی جے پی کو ڈراِس بات کا ہے کہ کہیں بحث کا رُ خ اس جانب نہ مڑ جائے کہ ملک کے ۸۴؍ فیصد پسماندہ طبقات کو آخر کب تک پسماندہ رکھا جائے گا اور ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کا ملک کے ۸۰؍ فیصد وسائل پر  یہ قبضہ آخر کب تک رہے گا؟ وہ اس وجہ سے بھی ڈر ی اور سہمی ہوئی ہے کہ کہیں اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ ملک کے وسائل پر پوری طرح سے قابض ان ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذاتوں کو ’ای ڈبلیو ایس‘ کے تحت ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا حقدار کیوں قرار دیا گیا جبکہ ۶۳؍ فیصد او بی سی کو صرف ۲۷؍ فیصد ہی ریزرویشن حاصل ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ خوف اسے اس بات کا ہے کہ اس  رپورٹ کی وجہ سے کہیں اس کا آزمودہ ’ہندو مسلم‘ نامی  برہماستر ناکام نہ ہوجائے،جس کی وجہ سے وہ ابھی تک الیکشن میں کامیابیاں حاصل کرتی آرہی ہے؟وہ اسلئے کہ اس سروے میں مسلمانوں کی آبادی کوبھی او بی سی اور اعلیٰ ذاتوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے....  ایسا کرکے نتیش اور تیجسوی نے اس غبارے کی ہوا نکال دی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ملک میں ہندوتوا کی سیاست پرواز کرتی رہی  ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوری میں بی جے پی کی رام مندر کے افتتاح کی چال کتنی کامیاب ہوتی ہے؟ کیونکہ گمان غالب ہے کہ اسی دوران نتیش اور تیجسوی ذات پرمبنی سروے  کے بعد اس کا معاشی اور سماجی ڈیٹا جاری کریں گے اور بہت ممکن ہے کہ یہی وہ وقت ہو جب ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اقتدار والی ریاستوں میں ذات کی بنیاد پر سروے کاحکم نامہ جاری کردیں۔گویا ذات پر مبنی سروے کو موضوع بحث بنا کر اپوزیشن نے نہ صرف ہندوتوا کی سیاست کی دھار کند کردی ہے بلکہ 
ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔

 ذات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن سے متعلق اہم نکات

nہندوستان میں ۱۸۸۱ء سے ہر دس سال پر باقاعدہ مردم شماری ہوتی  رہی ہے۔ اس میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری بھی شامل ہے۔ ۱۹۳۱ء  میں ہونے والی مردم شماری کے بعد سے ذات کا کالم ہٹا دیا گیا۔
nآزادی کے بعد ایس سی /ایس ٹی کی الگ سے مردم شماری ہوتی رہی ہے، لیکن اس میں بھی ان کی ذاتوں کی نشاندہی نہیں کی گئی بلکہ اس کی تمام ذاتوں کو ’ایک‘ مان کر ان کی آبادی کا شمار کیاگیا۔ 
nایک اندازے کے مطابق ملک میں ۴؍ ہزار سے زائد ذاتیں ہیں۔
nایس سی ایس ٹی کے بعد دیگر پسماندہ ذاتوں کی نشاندہی کیلئے ۱۹۵۳ء میں ’کاکا کالیلکر‘ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ایک فہرست تیار کی اور اسے’او بی سی‘ کا نام دیا۔ کمیٹی نے اس کیلئے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن دینے کی بھی سفارش کی۔
nمرکز نے اُ س وقت اس رپورٹ پرعمل نہیں کیا البتہ تمل ناڈو اورآندھرا پردیش جیسی کچھ ریاستوں میں اسے کچھ حد تک نافذکیا گیا۔
nملک میں ۱۹۷۷ء میں پہلی غیر کانگریسی حکومت تشکیل پائی توایک بار پھر یہ مطالبہ زورپکڑا۔ اس طرح ۱۹۷۸ء میں بہار کے سابق وزیراعلیٰ بندیشوری پرساد منڈل کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بتایا کہ ملک میں او بی سی کی آبادی ۵۲؍ فیصد ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب ۱۲ء۵؍ فیصد اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں صرف ۴ء۷؍ فیصد  ہے۔ آبادی سے متعلق جانکاری کیلئے انہوں نے بھی ۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے ڈیٹا ہی سے استفادہ کیا تھا۔
nانہوں نے او بی سی کیلئے تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں۵۲؍ فیصد او بی سی آبادی کیلئے۲۷؍ فیصد ریزرویشن کی سفارش کی۔ ۲۷؍ فیصد پرمحدود کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل ایس سی کو ۱۵؍ فیصد اور ایس ٹی کو ۷ء۵؍ فیصد  ریزرویشن دیا جارہا تھا اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ۵۰؍ فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا تھا۔
nاس سے قبل ۱۹۶۲ء میں’ ایم آر بالا جی بنام اسٹیٹ آف میسور‘ کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ ۵۰؍ فیصد کی حد مقرر کی تھی۔
nاس فیصلے کو ۱۹۹۲ء میں ’اندرا ساہنی‘ معاملے میں سپریم کورٹ کی ایک ۹؍ رُکنی بنچ نے بھی توثیق کردی تھی۔اس کے بعد   ریزرویشن کے معاملے پراکثراسی ۵۰؍ فیصد کی حد سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔
 nلیکن ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن سے قبل مرکزی حکومت نے اعلیٰ ذاتوں کیلئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا راستہ ہموار   کرتے ہوئے ’ای ڈبلیو ایس‘ کا قانون متعارف کرایا۔ اس طرح قانون  سازی کے ذریعہ۵۰؍ فیصد کی حد (صرف ایک معاملے میں) توڑ دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی سے اب اس حد کو قانون سازی کے ذریعہ پوری طرح سے ختم کئے جانے کا    مطالبہ کیا جارہا ہے اور اس کیلئے ’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘ کا مطالبہ کیاجارہاہے۔

Monday, 2 October 2023

Wali Rahmani a courageous young man who dreams and sacrifices his sleep for the children of the nation/ Qutbuddin Shahid

 ولی رحمانی 

قوم کے بچوں کیلئے خواب دیکھنے  اور اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کرنے والا حوصلہ مند نوجوان

قطب الدین شاہد

shahid.qutbuddin@mid-day.com


کلکتہ  کےایک خوشحال اور متمول گھرانے سے تعلق رکھنے  والا ۱۷؍ سال کا ایک نوعمر ایک خواب دیکھتا ہے۔ ایک بڑا خواب، ایک ایساخواب جو اسے بے چین کردیتا ہے۔ یہ خواب وہ اپنے لئے نہیں، قوم کے بچوں کیلئے دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے اپنی نیند قربان کردیتا ہے۔  اس نوعمر کا نام ولی رحمانی ہے۔  وطن عزیز میں عام طور پر یہ عمرکھانے اور کھیلنے کی قرار دی جاتی ہے۔ کوئی لڑکا اگر بہت زیادہ ذمہ دار رہا تو اسے اپنے کریئراور اپنے والدین کے ارمان کی فکرستاتی ہے، جس کیلئے وہ محنت کرتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کردیتا ہے۔

لیکن ولی رحمانی ان لڑکوں اور نوجوانوں  سے کچھ مختلف ہے۔ اس نوجوان کا عزم اس کی عمر سے کہیں زیادہ جوان اور اس کا حوصلہ اس کے قد سے کئی گنا زیادہ بلند ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی تو آج کی نسل اس بات پر فخر کرے گی کہ اس نے سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کا دور تو نہیں دیکھا لیکن ہمارے ان  اکابرین نے مسلمانوں  سے جس رُخ پر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس پر چلنے والے نوجوان ولی رحمانی کا دور دیکھا ہے۔

ولی رحمانی کی عمر اب ۲۲؍ سال ہوگئی ہے،اسی سال انہوں نے ’جامعہ ہمدرد‘ سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک ویڈیو   بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے قوم  سے قوم کیلئے فنڈ کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کے بعد محض ایک ہفتے میں انہیں ساڑھے پانچ کروڑ روپے مل گئے۔ ان کا ٹارگیٹ ۱۰؍کروڑ روپوں کا تھا لیکن محض ایک ہفتےمیں ملک کے طول و عرض سے کسی ایک اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ دوسرے اکاؤنٹس سے پیسوں کی منتقلی ایک نئی اور غیر معمولی بات تھی۔ اس کی وجہ سے پورا بینک اَلرٹ ہوگیا، ’اے آئی‘ بھی حرکت میں آئی اور اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کے تمام ذرائع مسدود کردیئے گئے۔ 

انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ولی رحمانی نے بتایا کہ اس کے بعد بینک  کے ذمہ داران نے ہم سے رابطہ قائم کیاتو ہم نے انہیں اپنی اپیل اور اپنے پروجیکٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ انہوں نے زیر تعمیر اسکول کی جگہ کا دورہ کیا او ر ساری روداد سن کر متاثر بھی ہوئے۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ مستقبل میں وہ ’کارپوریٹ سوشل رسپانس بلیٹی ‘ (سی ایس آر ) فنڈ کی سفارش بھی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ اکاؤنٹ میں رقموں کی منتقلی کے ذرائع بلاک کردیئے گئے تھے، جو فوری طورپر ’اوپن‘ نہیں ہوسکتے تھے،اسلئے دوسرا اکاؤنٹ کھولنا پڑا۔ اس اکاؤنٹ میں بھی تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے آچکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طورپر ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے ہیں۔ان کا پروجیکٹ بہت بڑا ہے لیکن وہ فی الحال ۲؍ ایکڑ زمین پر ایک اسکول بلڈنگ، لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ ہوسٹل اور کھیل کا میدان بنانا چاہتےہیں، جہاں اسلامی ماحول میں عالمی معیار کی تعلیم کا انتظام ہوسکے۔

۱۷؍ سال کے ایک لڑکے کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی؟ اس راہ پر وہ آگے کیسے بڑھا؟ اس راستے میں اسے کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا؟ اسے حوصلہ کہاں سے ملا؟ ان سارے سوالوں کا جواب انہوں نے نہایت اطمینان سے دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’بات ۲۰۱۸ء کی ہے جب میں دہلی کے ایک انٹرنیشنل اسکول میں بارہویں جماعت کا  طالب علم تھا۔ ذاتی طورپر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں اپنی کار میں ہیٹرلگا کر سردیوں کا بہ آسانی مقابلہ کر رہا تھا لیکن دہلی کی سڑکوں پر چلتے ہوئے جب میں سردیوں میں ٹھٹھرتے اور اپنی ماؤں کی گود میں دُبکتے ہوئے بچوں کو دیکھتا تو نظریں چرانی پڑتی تھیں۔ میں انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا لیکن میرے پاس انہیں اس ’عذاب‘ سے باہر نکالنے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ اسلئے میں نظریں پھر لیتا تھا۔ ان کی غربت پر مجھے ترس آتاتھا۔ میں چاہتا تھا کہ میری طرح یہ بھی تعلیم حاصل کریں  اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے حصہ دار بنیں لیکن غریبوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔ پھراچانک خیال آیا کہ سب نہیں تو کم از کم  ۱۰؍ بچوں کی کفالت تو کر ہی سکتا ہوں۔ اس کے بعد ۲۰؍ سال کی عمر میں ۱۰؍ یتیم بچوں کا ’باپ‘ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ ان ۱۰؍ بچوں پر ۲۰۔۱۵؍ سال تک محنت کروں گا، انہیں تعلیم دلاؤں گا اور سماج میں قابل ذکر مقام دلانے کی کوشش کروں گا اور پھران کے ساتھ مل کر قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کروں گالیکن بچوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ۱۰؍ سے ۱۱؍ ہوئے، پھر ۱۳۔۱۲؍ ہوتے ہوئے ۲۰؍ تک پہنچے۔ میں انہیں منع نہیں کرسکا۔ اس کے بعدہم نے باقاعدہ اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں آج ۳۰۰؍ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ۱۵۰۰؍ بچے داخلے کے منتظر ہیں۔‘‘  

ولی رحمانی  نے بتایا کہ جب اس مہم کا خاکہ ہم نے اپنے اہل خانہ کے روبرو پیش کیا تو سب سے پہلے میری والدہ نے میری حوصلہ افزائی کی اوربطور فنڈ انہوں نے ۵۰؍ہزار روپے کی رقم عنایت کی۔ اس کے بعد میرے گھر کی ایک ملازمہ نے ۵۰۰؍ روپے دیئے۔ خاندان اور احباب کی کچھ اور خواتین بھی آگے آئیں، کسی نے اپنی انگوٹھی دی تو کسی نے کچھ اور بیچ کر رقم فراہم کی.... اور اس طرح میرے حوصلے کو مہمیز ملی۔‘‘ کاغذات اور دستاویزات کے مرحلے پر ولی رحمانی نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے چیریٹی کمشنر میں ٹرسٹ کے رجسٹریشن کے ساتھ ہی انکم ٹیکس محکمے سے بھی ادارے کو رجسٹرڈ کرالیا ہے۔ اسی طرح ادارے کیلئے پین نمبر، ۸۰؍ جی اور سی ایس آر نمبر بھی حاصل کرلیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج یہ نوجوان نہ صرف قوم کیلئے ایک بڑی امید بن کرسامنے آیا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کا رول ماڈل بھی بن گیا ہے۔ 

  یہاں تک پہنچنے کیلئے ولی رحمانی کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔ عمر کے اس مرحلے پرجبکہ لوگ اپنے کریئر کے تئیں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو ایک سال کیلئے موخر کردیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے’الہادی ایجوکیشنل ٹرسٹ‘ کی تشکیل کی اوراس کے تحت ’امیداکیڈمی‘ قائم کی ، جہاں آج ۳۰۰؍ غریبوں کے بچے امیروں جیسی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہاں ’اسمارٹ کلاسیز‘ میں سی بی ایس ای  بورڈ کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ادارے میں فی الحال نرسری سے ششم جماعت تک تعلیم  کا نظم ہے جو’ فطری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ چند برسوں میں بارہویں جماعت تک پہنچ جائے گا۔  انہوں نے بتایا کہ ’’ان کے تمام کلاسیز جدید ٹیکنالوجی  سے ہم آہنگ ہیں جہاں آئندہ  برسوں میں اے آئی، کوڈنگ اور روبوٹکس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ فی الحال یہاں عربی بطور ایک زبان پڑھائی جاتی ہے۔‘‘

’اُمید اکیڈمی‘کی ایک خاص بات جو اسے دوسروں سے الگ اور ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر پہلی ’گھنٹی‘ اساتذہ کیلئے لگتی ہے جس میں تمام اسٹاف کودینیات کے ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

ولی رحمانی آج ایک مقبول نام ہیں۔ فیس بک پر اُن کے۸؍ لاکھ ، یوٹیوب پر۵؍ لاکھ ۲۶؍ ہزار، انسٹا گرام پر ایک لاکھ ۶۳؍ ہزار اور ٹویٹر پر ۷۰؍ ہزار سے زائد فالوورس ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج ان کی ایک اپیل پر۷؍ کروڑ روپوں کا فنڈ آسانی سے جمع ہوگیالیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر میںتھک گیا تھا۔  لوگ بلاتے تھے لیکن گھنٹوں باہر بٹھا کر ہزار پانچ سو دے کر رخصت کردیتے تھے۔ اس کے بعد میں نے ’کراؤنڈ فنڈنگ‘ کے ذریعہ پیسے جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۷؍ کروڑ روپے جمع ہوگئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اس دوران کچھ عناصرکی جانب سے رکاوٹیں بھی کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے عقیدے پرحملے کئے گئے۔ کچھ نے مجھے بریلوی تو کچھ نے دیوبندی کہہ کرفنڈ روکنے کی اپیل کی۔ کچھ نے خاتون ٹیچرس کا چہرہ کھلا ہونے پر مجھے لبرل ہونے کا طعنہ دیا تو کچھ نے طالبات کو حجاب پہننے پرمجبور کرنے کاالزام عائد کیا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ میرے یہاں تقریباً ہرمسلک کے اساتذہ ہیں۔‘‘ 

انہوں نےعوام سے وعدہ کیا ہے کہ۸؍ ماہ میں وہ اس بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہوکر ویڈیو بنائیں گے جس کا انہوں  نے خواب دیکھا ہے اوراس کے بعد وہ کسی اور شہر میں اسکول کی دوسری عمارت سے متعلق منصوبہ بنائیں گے۔  انہوں نے کہا کہ ’’یہ میری پہلی اپیل ہے ۔ اگر یہ مہم کامیاب رہی تو  اس طرح سے آئندہ میں باربار اپیل کروں گا اور امیدکرتا ہوں کہ میری ہر اپیل پر لوگ لبیک کہیں گے ان شا ء اللہ۔‘‘

۲۲؍ سالہ اس نوجوان کے عزائم کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی پریشانی انہیں ان کے مقصد سے روک سکے گی۔  بیکل اُتساہی نے شاید اسی قبیل کے نوجوانوں کیلئے یہ بات کہی تھی کہ :

عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا

کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا


Wednesday, 27 September 2023

Modi criticizes Nehru and also wants to be Nehru/ Qutbuddin Shahid

نہرو پر تنقید بھی کرتےہیں اور نہرو بھی بننا چاہتے ہیں وزیراعظم مودی   

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

وزیراعظم مودی خبروں میں رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ خبروں میں ہیں اور اس کی وجہ ہے  ۱۸؍ ستمبر کو پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں دی گئی ان کی الوداعی تقریر۔اس تقریر کو ان کی سابقہ تقریروں سے مختلف قرار دیا جارہا ہے۔ تقریر سن کر مودی کے مخالفین بھی حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا؟ اور ان کے حامیوں کا تو خیربرا حال تھا ہی۔ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے ۶؍ مرتبہ ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا نام لیا اورحیرت انگیز طورپر ’مثبت انداز‘ میں لیا۔ اسی طرح درمیان میں سابق وزرائے اعظم کے طورپر لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، نرسمہا راؤ، وی پی سنگھ، دیوے گوڑا، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ کابھی نام لیا۔ تقریر ختم ہوئی اوراس پرتبصرہ اور تجزیہ کا دور چلا تو عقدہ کھلا کہ تقریر کے صرف الفاظ بدلے ہیں، انداز نہیں بدلا۔  ہندوستان کی ۷۵؍ برسوں کی جمہوری تاریخ بیان کرتے ہوئےاگرانہوں نے اپنے علاوہ کچھ اور ’شخصیات‘  کا نام لیا ہے تو  اس میں ان شخصیات کی خدمات کا اعتراف کم، اُن کے سامنے اپنی موجودگی کااظہار زیادہ ہے۔اس تقریر کے ذریعہ ایک بار پھر ان کی اُس دبی ہوئی خواہش کا اظہار ہوگیا کہ ہندوستان کی تاریخ میں وہ نہرو کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔  وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک کا سفر طے کرلینے کے بعد نریندر مودی  کے دل میں جوخواہش شدت کے ساتھ اُبھری اور جسے اکثر و بیشتر عوام نے بھی محسوس کیا، وہ یہی تھی۔ تاریخ میں وہ پنڈت نہرو سے اگر آگے نہیں بڑھ سکتے تو کم از کم ان کے برابرکھڑا ہونا چاہتے ہیں ۔اس کیلئے وہ کبھی تنقید کا تو کبھی جھوٹ کا اور کبھی تعریف کا سہارا لیتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی نئی عمار ت میں منتقلی سے قبل  پرانی عمارت میں وزیراعظم مودی  الوداعی خطاب کرکے اپنی تقریر کا موازنہ پنڈت جواہر لال نہرو کی اُس یادگار تقریر (ٹریسٹ وِد ڈیسٹنی) سے کروانا چاہتے تھے جو انہوں نے ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے وقت ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی شب میں کی تھی۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم مودی نے اُس شہرہ آفاق تقریر کا حوالہ  دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسی ایوان میں پنڈت نہرو کے ذریعہ کی گئی تقریر ’اَیٹ دی اسٹروک آف مڈنائٹ‘ کی گونج ہمیں متحرک کرتی رہے گی۔‘‘ وزیراعظم مودی نے شاید قصداً اُن کا آدھا ہی جملہ دُہرایا کیونکہ اس پورے جملے میں لفظ ’انڈیا‘ بھی آتا ہے جو آج کل مودی، بی جے پی اور حکمراں محاذ کوبہت زیادہ پریشان کررہا ہے۔ پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ ’’ نصف شب کے وقت، جب دنیا سوئی ہوئی ہو گی، ہندوستان زندگی اور آزادی کیلئے بیدار ہوگا۔‘‘  
وزیراعظم مودی کی اس تقریر کو ’مثبت‘ بتایا جارہا ہےاور اس کیلئے ان کے حامی ان کی تعریف بھی کررہے ہیں لیکن  اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی منفی رویوں کی کثرت ہے۔ سابق وزرائے اعظم کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پنڈت نہرو جی اور شاستری جی  سے لے کر اٹل جی اور منموہن جی تک ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اس ایوان کی قیادت کی ہے اور اس ایوان کے ذریعہ ملک کو ایک سمت عطا کی ہے۔ ملک کو نئے رنگ و روپ میں ڈھالنے کیلئے انہوں نے کافی محنت کی ہے،اسلئے ہمیں ان کی خدمات کاا عتراف کرنا چاہئے۔‘‘ لیکن اگلے ہی پل وہ پھر تنقید پر بھی اُتر آتے ہیں۔ پتہ ہی نہیں چل پارہا تھا کہ وہ تعریف کر رہے ہیں  یا تنقید؟ ۷۵؍ سالہ ہندوستانی جمہوریت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی حمایت اسی ایوان نے اندرا گاندھی کی قیادت میں کی اور اسی ایوان نے ایمرجنسی میں جمہوریت پر ہوتا ہوا حملہ بھی دیکھا اور یہی ایوان ہندوستانیوں کی طاقت کا احساس کراتے ہوئے ایک مضبوط جمہوریت کی واپسی کا گواہ بھی بنا۔‘‘ وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی حکومتوں کے تعلق سے  یہ کہتے  ہوئےاپنے انداز میں انہوں نے مذاق بھی اڑایا کہ ’’اتحادی حکومتوں کا ایک سلسلہ سا چل پڑا۔‘‘
اسی  طرح مرار جی دیسائی اور وی پی سنگھ کی خدمات کا’اعتراف‘ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ زندگی بھر کانگریس میں رہے اور کانگریس مخالف حکومت کی قیادت کی۔‘‘ 
   وزیراعظم مودی نےنیوکلیائی تجربے کا پورا کریڈٹ  اٹل بہاری واجپئی کو دے دیا جبکہ منموہن سنگھ کی حکومت کو ’کیش فار ووٹ‘کیلئے یاد کیا حالانکہ’آر ٹی آئی، آر ٹی ای،منریگا اور فوڈ سیکوریٹی‘ جیسی کئی باتیں تھیں جن کے حوالے سے منموہن سنگھ حکومت کو یاد کیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک نیوکلیائی تجربے کیلئے کریڈٹ دینے کی بات ہے، وزیراعظم مودی کا دعویٰ نہ تو تکنیکی اعتبار سے درست ہے، نہ ہی حقائق کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ملک میں پہلا نیوکلیائی تجربہ وزیراعظم اندرا گاندھی کی قیادت میں۱۸؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ہوا تھا جبکہ دوسرا تجربہ اٹل بہاری واجپئی کی بطور وزیراعظم حلف برداری کے محض ۵۳؍ دن بعد یعنی ۱۱؍ مئی ۱۹۹۸ء کو ہوا تھا۔ واجپئی سے قبل ملک میں اندر کمار گجرال کی حکومت تھی۔ اس کے بعد وہ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘کی بات کرتے ہوئے  اپنی تعریف پرآگئے اور’تاریخی‘ فیصلوں کا تذکرہ کرنے لگے۔دفعہ۳۷۰؍ کے خاتمے کی بات کی، اعلیٰ ذات والوں  کو دیئے گئے (ای ڈبلیو ایس) ریزرویشن کا تذکرہ کیا اور ون نیشن ون رینک اور  ون نیشن ون ٹیکس (جی ایس ٹی) کیلئے بھی اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔
اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو کوسنے اور اس کے لیڈروں کا مذاق اُڑانے والے وزیراعظم مودی  نے مذکورہ الوداعی خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’ہم یہاں ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔  یہ اس ایوان کی طاقت ہے۔ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم دلوں میں کدورت نہیں پالتے لیکن ... اپنی اسی تقریر میں انہوں نے ’واٹر پالیسی ‘کیلئے بھیم راؤ  امبیڈکر کو یاد کیا اور ’انڈسٹری پالیسی‘ کیلئے شیاما پرساد مکھرجی کے گن گان کئے لیکن ’ایجوکیشن پالیسی‘ کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد کو یاد نہیں کیا جنہوں نے ملک میں آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی  جیسے موقر اداروں کی بنیاد ڈالی۔وقفے وقفے سے انہوں نے  پنڈت نہرو کا ۶؍ مرتبہ نام ضرور لیا لیکن وہ اس بات کیلئے اُن کی تعریف نہیں کرسکے کہ انہوں نے اپنی کابینہ میں اپنے مخالف نظریات کے لیڈروں (شیاما پرساد مکھرجی، بی آر امبیڈکر اور بلدیو سنگھ) کو بھی شامل کیا تھا لیکن تکنیکی وجوہات کی آڑ لے کرمودی حکومت اپنے مخالف لیڈروں کو اپوزیشن لیڈر تک کا عہدہ دینے کیلئے تیار نہیں  ہے۔
اپنی اس ’مثبت‘ تقریر میں بھی وزیراعظم مودی نے کانگریس پرتنقید کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔  آندھر ا پردیش کی تقسیم  اور تلنگانہ کی تشکیل پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واجپئی کے دور میں چھتیس گڑھ،  جھارکھنڈ اور اترا کھنڈ کا قیام نہایت خوش اسلوبی سے ہوگیا تھا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اُس  وقت مذکورہ ریاستوں کے ساتھ ہی  مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں بھی جشن کا ماحول تھا جبکہ یہاں پر نہ توآندھرا کے عوام خوش تھے، نہ ہی تلنگانہ کے عوام کو اطمینان تھا۔ حالانکہ ریاستوں کی تقسیم کے وقت مدھیہ پردیش، بہار اور اترپردیش میں ماحول کافی کشیدہ تھا اور عوام میں بے چینی اور بے اطمینانی تھی۔جی ۔۲۰؍ کے حوالے سے کہا کہ’’ملک کے تئیں شک کرنے کا ایک رویہ بھی  یہاںہے  اور یہ ملک کی آزادی کے وقت ہی سے چلا آرہا ہے۔ اس بار بھی یہی تھا۔ کہا جارہا تھا کہ کوئی قرار دار منظور نہیں ہوپائے گی، یہ ناممکن ہے... لیکن یہ ہندوستان کی طاقت ہے کہ سب کچھ ہوا۔‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان ’عالمی دوست‘کی شکل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ جی۔۲۰؍ کا اجلاس ختم ہوتےہی وزیراعظم کے اس دعوے کی قلعی اُترگئی کیونکہ امریکہ، کنیڈا اور ترکی سے اختلافات کی خبریں منظر عام پرآنے لگی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے سے زائد کی اس تقریر میں وزیراعظم مودی نے جس طرح سے دوسروں بالخصوص پنڈت نہرو کو یاد کیا، کیا اس سےان کی شبیہ میں کوئی تبدیلی آپائے گی؟ کیا ان کی وہ خواہش پوری ہوپائے گی کہ لوگ انہیں نہرو کی طرح یاد کریں؟   فی الحال یہ اتنا آسان تو نہیں لگ رہا ہے۔معروف صحافی اجے شکلا   نےان کیلئے ایک اچھا مشورہ دیا ہےکہ مودی جی اگر واقعی پنڈت نہرو سے اپنا موازنہ چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ ’ڈسکوری آف انڈیا‘ کامطالعہ کرلیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔n

Monday, 18 September 2023

By-election results and prospects for 'INDIA' alliance / Qutbuddin Shahid

 ضمنی انتخابات کے نتائج اور اس میں

 ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے امکانات

 اُترپردیش کی گھوسی اسمبلی  سیٹ جیتنے کیلئے بی جے پی نے پوری توانائی صرف کردی تھی لیکن جیت نہیں پائی۔  اتراکھنڈ اورجھارکھنڈ کی سیٹ کیلئےبھی اس نے خاصی محنت کی لیکن بہت مشکل سے ان میں سے ایک سیٹ  پر قبضہ کرپائی۔ اسلئے ان نتائج نے جہاں بی جے پی کی صفوں میں بے چینی پیدا کردی ہے، وہیں ’انڈیا‘ اتحاد کو پُرجوش کردیا ہے 
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

 

گزشتہ دنوں گھوسی اسمبلی حلقہ سمیت  ۶؍ ریاستوں کے ۷؍ اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے۔عام طور پر ہمارےیہاں ضمنی انتخابات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ وہ کب آتے ہیں اور کب چلے جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا  لیکن ان نتائج پرپورے ملک کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس الیکشن کو سیاسی جماعتوں کیلئے ایک ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پردیکھا گیا،اسلئے اس پر دورانِ انتخابات خوب باتیں ہوئیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ ضمنی انتخابات کی یہ نشستیں اُترپردیش، اُتراکھنڈ، جھارکھنڈ، کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے ان کی ملک گیرحیثیت ہوگئی تھی،اس لئےیہ بات بھی کہی گئی کہ ان نتائج سے شمالی ہند، جنوبی ہند اور شمال مشرق کی ریاستوںکے عوام کی سوچ ظاہر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر اس سے ملک کے سیاسی رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے.... اور جب ہم اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا تو اس کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش کی گھوسی سیٹ پر بھگوا لہرانے کیلئے  ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا تھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہ سیٹ جیتنا چاہتی تھی۔ وہ قطعی نہیں چاہتی تھی کہ اس ایک سیٹ کی وجہ سے ’مودی، امیت شاہ اور یوگی‘ کی طاقت کو چیلنج کیا جائے اور قومی سطح پر ’این ڈی اے‘ پر ’انڈیا‘کی بالادستی نظر آئے.... لیکن گھوسی کے عوام نے ثابت کیاکہ کسی اور کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، ہوگا وہی جو عوام چاہیں گے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ جب تک ملک میں جمہوری نظام قائم ہے، عوام کی طاقت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
۷؍ اسمبلی حلقوں میں سے۴؍ سیٹیں ’انڈیا‘ اتحاد نے حاصل کیں جبکہ این ڈی اے کے حصے میں صرف ۳؍ سیٹیں آئیں۔ سیٹوں کے اُلٹ پھیر کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے دونوں محاذ کی سیٹیںبرقرار رہیں۔مغربی بنگال میں ٹی ایم سی سے بی جے پی  اپنی سیٹ ہار گئی لیکن تریپورہ میں سی پی ایم کو ہرا کر اس نے سیٹوں کی تعداد برابر کرلی۔ آئیے ! دیکھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے یہ نتائج کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ۶؍ ریاستوں کے عوام نے ملک کو کیا پیغام  دیا ہے؟ اور یہ کہ ان نتائج سے ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کس طرح کے امکانات پیدا ہوتے ہیں؟ 
گھوسی ،اترپردیش
ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ اہمیت یوپی کی گھوسی سیٹ کو حاصل تھی ۔ بی جے پی نے اسے اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا اور محض اس ایک سیٹ پرمودی،امیت شاہ ،یوگی  اور اوم پرکاش راج بھر کی ساکھ داؤ پر لگا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہی  راج بھر کو  ’اتحاد‘ میں شامل کیا گیاتھا کہ گھوسی کی سیٹ جیتنی ہے۔ اس کیلئےحکومت کی جانب سے ’سام دام دنڈ بھید‘  کے سارے حربے استعمال کئے گئے۔ الیکشن جیتنے کیلئے بی جے پی لیڈروں نے گھوسی کا چپہ چپہ چھان مارا اور ایک ایک ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کی۔ وہاں پرنہ صرف وزیراعلیٰ یوگی  نے انتخابی ریلیاں کیں بلکہ ان کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ کیشوپرساد موریہ اور برجیش پاٹھک کے ساتھ تقریباً ۲؍ درجن وزراء  اور چار درجن ایم ایل ایز ہفتوں خیمہ زن رہے ۔اراکین پارلیمان نے بھی اپنی طاقت دکھائی۔ ضلع  انتظامیہ  پر بھی الزام عائد ہوا کہ اس نےبی جے پی کے امیدوار کی کامیابی کیلئے ہر ممکن مدد کی۔ یہ بات بار بار کہی گئی کہ رام پور اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی طرح انتظامیہ کی پوری کوشش تھی کہ وہ تمام رائے دہندگان جن پر  بی جےپی کے خلاف ووٹ دینے کا شبہ ہو، انہیں بوتھ تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اس کے اثرات نظر بھی آئے۔ دونوں جانب سے دھواں دھار انتخابی مہم چلنے کے باوجود ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے ۳۸؍ ہزار ۸۳۵؍  ووٹ کم پڑے، جبکہ اس مرتبہ پہلے کے مقابلے زیادہ پولنگ کی امید تھی۔ اپوزیشن کاالزام ہے کہ ایسا اسلئے ہوا کہ مسلم علاقوں میں پولنگ نہیں ہونے دی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان کیلئے رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی ہوتی تو ہارجیت کا فرق اورزیادہ ہوتا۔ بعض کا کہنا ہے کہ مایاوتی کی اپیل پر دلتوں نے پولنگ کم کی۔  اگر ایسا ہے تب بھی  یہ نتیجہ بی جے پی لیڈروں کی نیند حرام کرنے کیلئے کافی ہے۔  ایک سال قبل ہونیوالے الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار کو ۸۶؍ ہزار۲۱۴؍ ووٹ ملے تھے۔ اس مرتبہ اسے ۸۱؍ ہزار ۶۶۸؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا جبکہ اس نے سماجوادی پارٹی کا امیدوار بھی ’چُرا‘ لیا تھا۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ دارا سنگھ چوہان کی وجہ سے اسے  پسماندہ طبقات کے ووٹ بڑی تعداد میں ملیں گے لیکن ووٹوں کی گنتی ہوئی تو اس کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔
اس نتیجے میں بی جے پی کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی اور ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے بھی پیغام ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہندو مسلم کرکے، نفرت کا بازار گرم کرکے اورآمریت کا مظاہرہ کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہے گی تو اسے اب اپنی سوچ تبدیل کرلینی چاہئے۔ گھوسی کے نتائج نے اکھلیش یادو کو پیغام دیا ہے کہ اگر انہیں عوامی حمایت چاہئے توانہیں اے سی سے باہر نکل کر عوام کے درمیان جانا ہوگا اوران کے دکھ درد میں ان کے ساتھ رہنا ہوگا۔اس نتیجے نے یہ بھی ثابت کیا کہ رام پور اور اعظم گڑھ میں سماجوادی کی شکست کی وجہ اکھلیش کی لاپروائی تھی۔اسی کے ساتھ ایک پیغام اور ہے کہ یہ جیت صرف سماجوادی کی جیت نہیں ہے بلکہ یہ ’انڈیا‘کی جیت ہے،اسلئے اس کامیابی کاخمار اُن کے سر نہیں چڑھنا چاہئےبلکہ آئندہ متحدہ طاقت کے ساتھ ہی میدان میں اُترنے کی حکمت عملی بنانی چاہئے۔
ڈمری ،جھارکھنڈ
یہاں بھی مقابلہ ’این ڈی اے‘ بنام ’انڈیا‘اتحاد تھا۔ ’انڈیا‘ کی  طرف سے ’جے ایم ایم‘کا امیدوار تھا جبکہ ’این ڈی اے‘کی طرف سے ’اے جے ایس یو‘ کا امیدوار تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بھی جے ایم ایم ہی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا لیکن اس مرتبہ  اسے پہلے کے مقابلے کافی زیادہ ووٹ ملے ۔ ضمنی الیکشن میں جے ایم ایم کی امیدوار بے بی دیوی کو ایک لاکھ ۳۱۷؍ ووٹ ملے جبکہ ’اے جے ایس یو‘ کی امیدوار یشودا دیوی کو ۸۳؍ ہزار۱۶۴؍ ووٹ ملے ۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی اور اے جے ایس یو کے درمیان اتحاد نہیں تھا لیکن اس مرتبہ یہ دونوں پارٹیاں مل کر بھی الیکشن نہیں جیت پائیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر ووٹوں نے بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ’انڈیا‘ کو پیغام دیا کہ اتحاد ہی میں طاقت ہے۔ ۲۰۱۹ء کے اسمبلی الیکشن میں ایم آئی ایم کو یہاں پر۲۴؍ ہزار ۱۳۲؍ ووٹ ملے تھے لیکن اس مرتبہ اس کے امیدوار کو صرف  ۳؍ ہزار ۴۷۲؍ ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
باگیشور ،اُتراکھنڈ
یہاں پر بی جے پی اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہی لیکن اس کی کامیابی کا سہرا کانگریس کے سر باندھا جاتا ہے۔ بی جے پی کے امیدوار کو یہاں پر۳۳؍ ہزار ۲۴۷؍ ووٹ ملے جبکہ کانگریس کے امیدوار کو ۳۰؍ ہزار ۸۴۲؍ ووٹ ملے۔اس طرح ۲۴۰۵؍ ووٹوں سےکانگریس کو شکست ہوگئی۔یہاں پرکانگریس کے کسی بڑے لیڈر نے انتخابی مہم نہیںچلائی۔
 دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے علاوہ اتراکھنڈ پریورتن پارٹی اوراتراکھنڈ کرانتی دل کی صورت میں کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی یہاں میدان میں تھے جنہیںآسانی سے رام کیا جاسکتا تھا لیکن کہا جاتاہے کہ کانگریس نے یہاں پہلے ہی سے شکست تسلیم کرلی تھی،اسلئے زیادہ محنت نہیں کی۔۲۰۲۲ء کے الیکشن میں باگیشور میں  بی جے پی کو ۳۲؍ ہزار اور کانگریس کو محض ۲۰؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔دلچسپ  بات یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے  جس امیدوار کو ۱۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے  ،وہ  اس مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑرہا تھا۔
دھوپ گڑی ،مغربی بنگال
دھوپ گڑی کی یہ سیٹ ترنمول کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی ۔ یہ ریاست میں ٹی ایم سی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ سیٹ  بی جے پی کے امیدوارکی موت کی وجہ سےخالی ہوئی تھی۔  زعفرانی پارٹی نے  یہاں پر پلوامہ حملے میں شہید ہونے والے ایک فوجی کی بیوہ کو ٹکٹ دے کر عوام کا جذباتی استحصال کرنے کی کوشش کی تھی،اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی۔ لیکن اگرممتا بنرجی نے اپنی ’انا‘ کو قربان نہیں کیاتو کامیابی کا یہ سلسلہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ممتا بنرجی کے اسی رویے کی وجہ سے رائے دہندگان میں سردمہری پائی  جارہی تھی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی الیکشن میں ۲؍ لاکھ ۲۹؍ ہزار ۳۲۳؍ ووٹ پڑے تھے لیکن اس مرتبہ ۲؍ لاکھ ۱۰؍ ہزار ۹۳۵؍ افراد ہی ووٹ دینے کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ یہاں پر سی پی ایم کو دونوں مرتبہ ۱۳؍ ہزار سے کچھ زائد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے ووٹوں میں واضح کمی دکھائی دی۔ ٹی ایم سی تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے اگر ’انڈیا‘ اتحاد کے بینر تلے الیکشن لڑتی تو اس کی کامیابی یقیناً بڑی ہوتی۔یہ ایک طرح سے ممتا بنرجی کیلئے رائے دہندگان کا انتباہ ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اس پیغام کو کتنا سمجھتی ہیں  اور اس پر آئندہ کس حد تک عمل کرتی ہیں۔
دیگر اسمبلی نشستیں
کیرالا میں کانگریس جیتی اوربڑے فرق سے جیتی۔ وہاں دوسری پوزیشن پر سی پی ایم کا امیدوار تھا جسے ۴۲؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے امیدوار کو صرف ۶؍ ہزار ووٹ  ملے۔تریپورہ کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی نے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ وہاں پر ایک سیٹ بی جے پی کی اور ایک سی پی ایم کی تھی۔دونوں جگہ پر سی پی ایم کو پہلے کے مقابلے ووٹ کم ملے۔ ایسےمیں سی پی ایم کوسر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اس کی عوامی طاقت مسلسل کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کا کیڈرکمزور کیوں ہورہا ہے؟ کیرالا، مغربی بنگال اور تریپورہ میں برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود نئی نسل میں اس کیلئے جگہ کیوں نہیں بن پارہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر اسے کھلے دل سے غور کرنا ہوگا۔
مجموعی طور پرضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک کا ماحول تبدیل ہورہا ہے جس میں ’انڈیا‘ اتحاد کیلئے کافی امکانات ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لیڈران عوام کے درمیان رہ کر عوام کی نمائندگی کرتے  رہیں۔ n

Saturday, 16 September 2023

Corrections of documents and responsibility of schools/ Qutbuddin Shahid / Roznaamcha

 دستاویزات کی درستگی میں اسکولوں کا اہم کردار

قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

ایک بینک میں ایک صارف کی کلرک سے بحث ہورہی تھی۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا انداز بتا رہا تھا کہ ان میں شناسائی ہے۔ صارف کوئی پیسے والا آدمی تھا، جس کی وجہ سے کلرک  ذرا ’دب‘ کر بات کررہاتھا، ورنہ بینک اور وہ بھی سرکاری بینک کا ملازم کسی صارف  سے دب کر بات کرے،  اس کی بھلا کون توقع کرسکتا ہے۔ کلرک کہہ رہا تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں ہے۔ہم اس چیک کو پاس نہیں کر سکتے۔‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ صارف کے چیک پر لکھے گئے نام میں شامل ’احمد‘ کی اسپیلنگ میں ’ای‘ اور ’اے‘ کا فرق تھا۔ ’احمد‘ نام میں ’ڈی‘ سے قبل ’ای‘ اور ’اے‘   کا مسئلہ ہمارے یہاں عام بات ہے لیکن اب اس کا خمیازہ لوگوں کو کس طرح سے بھگتنا پڑرہا ہے، اس کی ایک مثال بینک کا مذکورہ واقعہ ہے۔
اگرالگ الگ دستاویزات میں آپ کے نام  کے املا میں فرق ہے، خواہ یہ فرق کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، تو قدم قدم پر مسائل سے جوجھنے کیلئے  آپ کوتیار رہنا چاہئے۔  اگر وقت رہتے آپ نے اس مسئلے کوحل نہیں کیا تو یہ کئی نسلوں تک آپ کا تعاقب کرے گا۔ اللہ نہ کرے، اگر ملک میں ’این آر سی‘ اور’سی اے اے‘ کا قانون  نافذ ہوگیا، جیسا کہ سرکار چاہتی ہے تو کاغذات میں خامیوں سے پیدا ہونے والے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین سب سے پہلے  اپنے کاغذات کو درست کرائیں۔ جہاں تک اور جس طرح سے بھی ممکن ہو، وہ اپنے نام کے  املامیں یکسانیت لانے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد بچوں کے دستاویزات میں موجود خامیوں کو دور کرانے کی کوشش کریں۔ بچوں کے ناموں میں آجانے والی  خامیوں کی درستگی کا پہلا مرحلہ اس کے اسکول ہوتے ہیں۔ برتھ سرٹیفکیٹ  میں اگر کوئی خامی رہ گئی ہے اور اسی خامی کے ساتھ آدھار کارڈ بن گیا ہے اور اسکول میں نام درج ہوگیا ہے تو اس غلطی کا احساس ہوتے ہی  اسکول سے رابطہ قائم کرنے اورغلطی کی اصلا ح کی کوشش کرنی چاہئے۔
میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں  اسکولوں کے ذمہ داران اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر اسکولوں کے کلاس ٹیچر، کلرک، ایچ ایم اور سوسائٹی کے عہدیداران ، جن کے زیراہتمام اسکول چلتے ہیں، یہ ٹھان لیںکہ وہ اپنے اسکولوں میں زیر تعلیم کسی بچے کے دستاویز میں کوئی خامی نہیں رہنے دیں گے، تو اس طرح کی غلطیاں اُسی ایک جگہ سے  بڑی حد تک اور بڑی آسانی سے دور ہوجائیں گی۔ لیکن یہ کام اسکول کی ڈیوٹی سمجھ کرنہیں بلکہ قوم کی خدمت سمجھ کر کرنی ہوگی۔ اگر یہ احساس نہیں رہا تو ان ’ذمہ داران‘کی آنکھوں کے سامنے غلطیاں ہونے  اور والدین کی جانب سے درخواست کئے جانے کے باوجود  وہ دور نہیں کی جائیں گی۔ والدین  کی جانب سے اس طرح کی شکایتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں کہ درخواست دینے، منت سماجت کرنے ، یہاں تک رونے ،گڑگڑانے کے باوجود اسکول کی سطح  سے درست ہونے والی غلطیاں بھی ٹھیک نہیں کی جاتیں۔ اس سلسلے میں بیشتراسکولوں کے ذمہ داران کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ ’گزٹ‘ کروا لیں،  حالانکہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ گزٹ کروانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے ممبئی کے ’مدنی ہائی اسکول‘ نے گزشتہ دنوں ایک قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔ اسے مثالی کارنامہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ۲۶؍ اگست کو اسکول نے ’ڈاکیو مینٹ ڈے‘ کے نام سے ایک بیداری پروگرام منعقدہ کیا تھا جس میںپیدائشی سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ،آدھار کارڈاور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی خامیوں کو دور کرنے یا نیا بنانے سے متعلق والدین اور طلبہ کی رہنمائی کی گئی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ اسکول کے ذمہ داران نے صرف اپنے طلبہ کی مدد نہیں کی بلکہ دیگر بچوں کی بھی رہنمائی کی اور صرف زبانی رہنمائی  نہیں بلکہ سرکاری دفاتر سے ان کے کام بھی کروائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس طرح کی پیش رفت ہمارے دوسرے ادارے بھی کرسکتے ہیں  ۔

Monday, 11 September 2023

Special session of Parliament and Sonia Gandhi's letter to the Prime Minister/ Qutbuddin Shahid

 پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور سونیا گاندھی کا وزیراعظم کے نام خط

مودی حکومت  نہ تو عوام کو اہمیت دیتی ہے، نہ ہی اپوزیشن کو خاطر میں لاتی ہے لیکن اس باراس کی حرکت اس پر بھاری پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

  آج سے پچیس پچاس سال بعد مورخ جب ہندوستان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو مودی حکومت کو ایک ’چونکانے‘ والی حکومت کے طور پر ہی لکھے گا۔ اس حکومت نے ملک کیلئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن عوام کو چونکانے اور انہیں پریشان کرنے کا کام بار بارکیا ہے۔  نوٹ بندی کا فیصلہ ہو یا کچے پکے انداز میں جی ایس ٹی کا نفاذ، لاک ڈاؤن لگانا ہو یا جموںکشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ کا خاتمہ، کسانوں سے متعلق تینوں متنازع  قوانین واپس لینے کی بات ہو یا پھر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنا، جمہوری طور پر منتخب اس حکومت کے یہ تمام فیصلے غیر جمہوری انداز میں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اکثر اپوزیشن کی تنقیدوں  پر بھی رہی  ہے لیکن اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔۱۸؍ سے ۲۲؍ ستمبر کے دوران طلب کئے جانے والے خصوصی اجلاس کی وجہ سے مودی حکومت ایک بار پھر حزب اختلاف کے نشانے پر ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے اس حوالے سے وزیراعظم مودی کے نام ایک خط لکھا ہے  جس میں ایجنڈہ ظاہر نہ کرنے پر شکایت کرتے ہوئے اپنی جانب سے ۹؍ نکاتی ایک ایجنڈہ بھی پیش کیا ہے۔اس خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’اب تک خصوصی اجلاس طلب کئے جانے سے قبل حزب اختلاف  سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی روایت رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نہ تو ایجنڈہ بتایا گیا ہے، نہ ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ سونیا گاندھی کے اس خط کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ماحول سازی کیلئے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
  مانسون اجلاس ختم ہوئےابھی ٹھیک سے ۲۰؍ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ پارلیمانی امور کے وزیرنے ’خصوصی اجلاس‘ کا شگوفہ چھوڑ دیا۔ اس اعلان نے عوام کو چونکانے اور اپوزیشن کو پریشان کرنے کے علاوہ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کو قیاس آرائیوں کا بازار گرم کرنے کا موقع بھی  فراہم کردیا۔حالانکہ میڈیا کے تعلق سے یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ اس کی قیاس آرائیاں بھی مودی حکومت کے ایجنڈے کا ایک اہم جزہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر وہی موضوعات چھیڑے جاتے ہیں ، جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اتنی عجلت میں’خصوصی اجلاس‘  طلب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ایسا کون سا مسئلہ رہ گیا تھا، جسے وہ مانسون اجلاس میں نہیں حل کرسکی؟ اور اگر یہ اجلاس اتنا ہی اہم اورضروری ہے تو اس کا ایجنڈہ اتنا خفیہ کیوں؟ اپوزیشن کو اندھیرے میں کیوں رکھا جارہا ہے؟پانچ روزہ اجلاس کا مطلب ہے کہ اس دوران کئی موضوعات پیش ہوں گے، پھر ان موضوعات پر اراکین پارلیمان کو تیاری کا موقع کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ پارلیمنٹ میں ان موضوعات پر بحث ہوگی یا اراکین پارلیمان سے صرف مہر تصدیق ثبت کرانے کاارادہ ہے؟ یا اور کوئی مقصد ہے؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جوحزب اختلاف کے ساتھ ہی عوام کے ذہنوں میں بھی اُٹھ رہے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب حکمراں طبقے کا طاقت ور ہوجانا اور صرف اس کی مرضی سے کام ہونا نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو سننا اور اس کی باتوں کو اہمیت دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن آج کی بی جے پی حکومت ان باتوں کی پروا نہیں کرتی۔ وہ اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے جہاں  اسے اپوزیشن کو ’بے وقعت‘ ثابت کرنے کا کوئی موقع مل سکے۔ وزیراعظم کے نام سونیا گاندھی کے خط کے بعد بھی اس نے یہی حرکت کی ہے۔ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کی لیڈر کو اہمیت دی جاتی اور اس خط کا جواب وہی دیتے، جن کے نام خط لکھاگیاتھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم یا پی ایم او کے بجائے اس خط کا جواب پارلیمانی امور کے وزیر  نے دیا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ روایتوں کی پاسداری  کے معاملے میں کانگریس کی نقل کی بات جانے دیں، بی جے پی اٹل بہاری واجپئی کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہتی۔  واجپئی اور نہرو کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ ایک مرتبہ لوک سبھا میں واجپئی نے پنڈت نہرو  پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی شخصیت بہت ملی جلی ہے۔آپ کبھی چرچل نظر آتے ہیں تو کبھی چیمبرلین۔ پنڈت نہرو اس تبصرے پر بھی ناراض نہیں  ہوئے۔ اس تقریر کے بعد شام کو ایک ضیافت میںپنڈت نہرو کی  واجپئی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں دیکھ کرمسکراتے ہوئے نہرو اُن کے پاس گئےاور بولے کہ آج تو آپ نے بڑی زبردست تقریر کی۔ نہرو کے سامنے واجپئی بہت جونیئر تھے اور نہرو کی پارٹی کے سامنے واجپئی کی پارٹی کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن وہ  اختلاف رائے کی قدر کرتے تھے۔اسی واقعے کو یاد کرتے ہوئے  واجپئی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ آج کل اُس طرح کی تنقید کا مطلب دشمنی کو دعوت دینا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت نہرو کے انتقال کے وقت واجپئی نے اپنے کرب کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج ایک خواب نے دم توڑ دیا۔‘‘ 
آج کل مودی حکومت کا بالکل وہی رویہ ہے جس کی طرف واجپئی نے اشارہ کیا تھا۔ یہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حکومت سے آمریت کی بو آنے لگی ہے۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لانا چاہتی، وہ خواہ عوام ہوں یا پھر حزب اختلاف کی جماعتیں۔ اس کے نزدیک احتجاج، شکایت اور مطالبے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لئے تو وہ’راج دنڈ‘ لے کر آئی ہے اور نئی پارلیمنٹ میں ’سینگول‘ نصب کیا ہے۔ اس طرز حکومت میں اپوزیشن کیلئے بھلا کہاں کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ رہی بات عوام کی تو اب ان کی بھی سمجھ میں آنے لگا ہے کہ یہاں ’راجا اور پرجا‘ والی بات ہے جہاں انصاف عدالتوں سے نہیں بلڈوزروں سے ہوتے ہیں۔اب ان بلڈوزروں کو مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کے پتے بھی معلوم ہوگئے ہیں۔ ’نیوز لانڈری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’جی۔۲۰؍  کے پیش نظر دارالحکومت دہلی کو خوبصورت اور دلکش بنانے کیلئے۱۰؍ سے زیادہ جھگی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں جس کی وجہ سے۲۰؍  ہزار سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔‘‘
سونیا گاندھی نے اپنے خط کے ذریعہ دراصل عوام کے اسی طبقے کو جگانے اور اسےسمجھانے کی کوشش کی ہے، ورنہ اتنا تو وہ بھی جانتی ہیں کہ موجودہ حکومت ان کی سننے والی نہیں ہے۔ ملک کے ۹؍ اہم اور سنگین موضوعات کو پیش کرکے اپوزیشن اتحاد نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے مفاد میں کیا ہے؟ این ڈی اے یا پھر انڈیا اتحاد؟ ان موضوعات کو اٹھا کر اپوزیشن اتحاد نے ملک کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔  مہنگائی اور بے روزگاری  ایک عوامی مسئلہ ہے جس سے پورا ملک پریشان ہے۔  ذات کی بنیاد پرمردم شماری سے اوبی سی اوردلت طبقے کا دل جیتنے اور فرقہ وارانہ فسادات  اور منی پور تشدد کا ذکر کرکے اقلیتوںکے آنسو پونچھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح قدرتی آفات کے شکار خاندانوں کو معاوضہ دینے اور کسانوں  کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بات کرکے اپوزیشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ اپنے خط میں اڈانی سے متعلق تنازع اور چین کی دراندازی کا موضوع چھیڑکر سونیا گاندھی نےمودی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ  دیا ہے۔ یہ  ۲؍ ایسے نکات ہیں جن کی مدد سے جہاں بی جے پی کی بدعنوانی ظاہر ہوتی ہے،وہیں اس کی قوم پرستی  کی قلعی بھی اُتر جاتی ہے۔ 
      اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس پیغام کو عوام تک کس طرح پہنچاتی ہیں؟ اور پہنچا بھی پاتی ہیں یا نہیں؟