Monday 11 September 2023

Special session of Parliament and Sonia Gandhi's letter to the Prime Minister/ Qutbuddin Shahid

 پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور سونیا گاندھی کا وزیراعظم کے نام خط

مودی حکومت  نہ تو عوام کو اہمیت دیتی ہے، نہ ہی اپوزیشن کو خاطر میں لاتی ہے لیکن اس باراس کی حرکت اس پر بھاری پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے
قطب الدین شاہد
shahid.qutbuddin@mid-day.com

  آج سے پچیس پچاس سال بعد مورخ جب ہندوستان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو مودی حکومت کو ایک ’چونکانے‘ والی حکومت کے طور پر ہی لکھے گا۔ اس حکومت نے ملک کیلئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن عوام کو چونکانے اور انہیں پریشان کرنے کا کام بار بارکیا ہے۔  نوٹ بندی کا فیصلہ ہو یا کچے پکے انداز میں جی ایس ٹی کا نفاذ، لاک ڈاؤن لگانا ہو یا جموںکشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ کا خاتمہ، کسانوں سے متعلق تینوں متنازع  قوانین واپس لینے کی بات ہو یا پھر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنا، جمہوری طور پر منتخب اس حکومت کے یہ تمام فیصلے غیر جمہوری انداز میں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اکثر اپوزیشن کی تنقیدوں  پر بھی رہی  ہے لیکن اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔۱۸؍ سے ۲۲؍ ستمبر کے دوران طلب کئے جانے والے خصوصی اجلاس کی وجہ سے مودی حکومت ایک بار پھر حزب اختلاف کے نشانے پر ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے اس حوالے سے وزیراعظم مودی کے نام ایک خط لکھا ہے  جس میں ایجنڈہ ظاہر نہ کرنے پر شکایت کرتے ہوئے اپنی جانب سے ۹؍ نکاتی ایک ایجنڈہ بھی پیش کیا ہے۔اس خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’اب تک خصوصی اجلاس طلب کئے جانے سے قبل حزب اختلاف  سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی روایت رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نہ تو ایجنڈہ بتایا گیا ہے، نہ ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ سونیا گاندھی کے اس خط کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ماحول سازی کیلئے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
  مانسون اجلاس ختم ہوئےابھی ٹھیک سے ۲۰؍ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ پارلیمانی امور کے وزیرنے ’خصوصی اجلاس‘ کا شگوفہ چھوڑ دیا۔ اس اعلان نے عوام کو چونکانے اور اپوزیشن کو پریشان کرنے کے علاوہ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کو قیاس آرائیوں کا بازار گرم کرنے کا موقع بھی  فراہم کردیا۔حالانکہ میڈیا کے تعلق سے یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ اس کی قیاس آرائیاں بھی مودی حکومت کے ایجنڈے کا ایک اہم جزہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر وہی موضوعات چھیڑے جاتے ہیں ، جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اتنی عجلت میں’خصوصی اجلاس‘  طلب کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ایسا کون سا مسئلہ رہ گیا تھا، جسے وہ مانسون اجلاس میں نہیں حل کرسکی؟ اور اگر یہ اجلاس اتنا ہی اہم اورضروری ہے تو اس کا ایجنڈہ اتنا خفیہ کیوں؟ اپوزیشن کو اندھیرے میں کیوں رکھا جارہا ہے؟پانچ روزہ اجلاس کا مطلب ہے کہ اس دوران کئی موضوعات پیش ہوں گے، پھر ان موضوعات پر اراکین پارلیمان کو تیاری کا موقع کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ پارلیمنٹ میں ان موضوعات پر بحث ہوگی یا اراکین پارلیمان سے صرف مہر تصدیق ثبت کرانے کاارادہ ہے؟ یا اور کوئی مقصد ہے؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جوحزب اختلاف کے ساتھ ہی عوام کے ذہنوں میں بھی اُٹھ رہے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب حکمراں طبقے کا طاقت ور ہوجانا اور صرف اس کی مرضی سے کام ہونا نہیں ہے بلکہ اس میں حزب اختلاف کو سننا اور اس کی باتوں کو اہمیت دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن آج کی بی جے پی حکومت ان باتوں کی پروا نہیں کرتی۔ وہ اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے جہاں  اسے اپوزیشن کو ’بے وقعت‘ ثابت کرنے کا کوئی موقع مل سکے۔ وزیراعظم کے نام سونیا گاندھی کے خط کے بعد بھی اس نے یہی حرکت کی ہے۔ سیاسی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کی لیڈر کو اہمیت دی جاتی اور اس خط کا جواب وہی دیتے، جن کے نام خط لکھاگیاتھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم یا پی ایم او کے بجائے اس خط کا جواب پارلیمانی امور کے وزیر  نے دیا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ روایتوں کی پاسداری  کے معاملے میں کانگریس کی نقل کی بات جانے دیں، بی جے پی اٹل بہاری واجپئی کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہتی۔  واجپئی اور نہرو کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ ایک مرتبہ لوک سبھا میں واجپئی نے پنڈت نہرو  پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی شخصیت بہت ملی جلی ہے۔آپ کبھی چرچل نظر آتے ہیں تو کبھی چیمبرلین۔ پنڈت نہرو اس تبصرے پر بھی ناراض نہیں  ہوئے۔ اس تقریر کے بعد شام کو ایک ضیافت میںپنڈت نہرو کی  واجپئی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں دیکھ کرمسکراتے ہوئے نہرو اُن کے پاس گئےاور بولے کہ آج تو آپ نے بڑی زبردست تقریر کی۔ نہرو کے سامنے واجپئی بہت جونیئر تھے اور نہرو کی پارٹی کے سامنے واجپئی کی پارٹی کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن وہ  اختلاف رائے کی قدر کرتے تھے۔اسی واقعے کو یاد کرتے ہوئے  واجپئی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ آج کل اُس طرح کی تنقید کا مطلب دشمنی کو دعوت دینا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت نہرو کے انتقال کے وقت واجپئی نے اپنے کرب کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج ایک خواب نے دم توڑ دیا۔‘‘ 
آج کل مودی حکومت کا بالکل وہی رویہ ہے جس کی طرف واجپئی نے اشارہ کیا تھا۔ یہاں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس حکومت سے آمریت کی بو آنے لگی ہے۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لانا چاہتی، وہ خواہ عوام ہوں یا پھر حزب اختلاف کی جماعتیں۔ اس کے نزدیک احتجاج، شکایت اور مطالبے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لئے تو وہ’راج دنڈ‘ لے کر آئی ہے اور نئی پارلیمنٹ میں ’سینگول‘ نصب کیا ہے۔ اس طرز حکومت میں اپوزیشن کیلئے بھلا کہاں کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ رہی بات عوام کی تو اب ان کی بھی سمجھ میں آنے لگا ہے کہ یہاں ’راجا اور پرجا‘ والی بات ہے جہاں انصاف عدالتوں سے نہیں بلڈوزروں سے ہوتے ہیں۔اب ان بلڈوزروں کو مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کے پتے بھی معلوم ہوگئے ہیں۔ ’نیوز لانڈری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’جی۔۲۰؍  کے پیش نظر دارالحکومت دہلی کو خوبصورت اور دلکش بنانے کیلئے۱۰؍ سے زیادہ جھگی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں جس کی وجہ سے۲۰؍  ہزار سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔‘‘
سونیا گاندھی نے اپنے خط کے ذریعہ دراصل عوام کے اسی طبقے کو جگانے اور اسےسمجھانے کی کوشش کی ہے، ورنہ اتنا تو وہ بھی جانتی ہیں کہ موجودہ حکومت ان کی سننے والی نہیں ہے۔ ملک کے ۹؍ اہم اور سنگین موضوعات کو پیش کرکے اپوزیشن اتحاد نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے مفاد میں کیا ہے؟ این ڈی اے یا پھر انڈیا اتحاد؟ ان موضوعات کو اٹھا کر اپوزیشن اتحاد نے ملک کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی ہے۔  مہنگائی اور بے روزگاری  ایک عوامی مسئلہ ہے جس سے پورا ملک پریشان ہے۔  ذات کی بنیاد پرمردم شماری سے اوبی سی اوردلت طبقے کا دل جیتنے اور فرقہ وارانہ فسادات  اور منی پور تشدد کا ذکر کرکے اقلیتوںکے آنسو پونچھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح قدرتی آفات کے شکار خاندانوں کو معاوضہ دینے اور کسانوں  کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بات کرکے اپوزیشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ اپنے خط میں اڈانی سے متعلق تنازع اور چین کی دراندازی کا موضوع چھیڑکر سونیا گاندھی نےمودی حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ  دیا ہے۔ یہ  ۲؍ ایسے نکات ہیں جن کی مدد سے جہاں بی جے پی کی بدعنوانی ظاہر ہوتی ہے،وہیں اس کی قوم پرستی  کی قلعی بھی اُتر جاتی ہے۔ 
      اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس پیغام کو عوام تک کس طرح پہنچاتی ہیں؟ اور پہنچا بھی پاتی ہیں یا نہیں؟

No comments:

Post a Comment