دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے والے ، اپنی ہی جان لینے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ معاملہ سنگین ہے
shahid.qutbuddin@mid-day.com
نیشنلکرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں یومیہ ۳۶؍ طلبہ خود کشی کرتے ہیں یعنی ہر گھنٹے ایک سے زائد گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد اُن طلبہ کی ہوتی ہے جو دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی تگ و دو میں اس انجام کو پہنچتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو راجستھان کے شہر’ کوٹا‘ میںجسے ملک میں ’ایجوکیشن ہب‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، دو طلبہ نے خود کشی کرلی۔ یہ دونوں ڈاکٹربن کرملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ان میں سے ایک کا تعلق مہاراشٹر کے لاتور ضلع سے اور دوسرے کا تعلق بہار کے روہتاس ضلع سے تھا۔ سوچئے! اس سانحہ کے بعد ان دونوں کے گھروں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کتنے ارمان سے اُن دونوں نے ’نیٹ‘ کی کوچنگ جوائن کی ہوگی تاکہ میڈیکل میں داخلہ لے کر ڈاکٹر بن سکیں۔ان کے گھر والوں نے کیا کیا جتن کرکے انہیں وہاں بھیجا ہوگا؟ اور ان کے والدین نے اپنے بچوں کے تعلق سے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے؟
ایک جھٹکے میں نہ صرف ان کے خواب چکنا چور ہوگئےبلکہ ان کی زندگی ہی تاریک ہوگئی۔ کوٹا میں اتوار کو پیش آنے والا وہ سانحہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔یہ ایک طرح سے وہاں کا معمول بن چکا ہے۔صرف اگست ماہ میں ۷؍ اور امسال جنوری سے اب تک میڈیکل میں داخلہ پانے کے خواہش مند ۲۴؍طلبہ اپنی جان لے چکے ہیں۔ ملک کی مجموعی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ملک بھر میں ۱۳۰۸۹؍ طلبہ خود کشی کرچکے ہیں۔ان میں سے بیشتر کا تعلق اُن ریاستوں سے ہے جنہیںہم ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔اس معاملے میں مہاراشٹر سرفہرست ہے جہاں سے تعلق رکھنے والے ۱۸۳۴؍ طلبہ کی خود کشی کے معاملات درج کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش اور تمل ناڈو کا نمبر آتا ہے۔ کرناٹک اور اترپردیش کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے توخود کشی کرنے والے۴۴؍ فیصد طلبہ کا تعلق انہیں ۵؍ ریاستوں سے ہے۔مطلب صاف ہے کہ خود کشی کی وجہ غریبی اور معاشی کسمپرسی کم اور دوسری وجوہات زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ وجوہات کیا ہیں؟ اور اس افسوس ناک اور درد ناک صورتحال کا حل کیا ہے؟
کسی کی جان لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس کیلئے مزاجاً سفاک ہوناضروری ہے۔ کسی اور کی جان لینے سے کہیں زیادہ مشکل اپنی جان لینا ہے۔ہم سوچ سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے، اس کی کوشش کرنے والے اور اس کے بارے میں سوچنے والے کسی شخص کوکس حد تک سفاک ہونا پڑتا ہوگا۔خود کشی کرنے والا صرف اپنی جان نہیں لیتا بلکہ اس سے پہلے وہ ان تمام رشتوں کا خون کرتا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں، اس کی خوشی میں اپنی خوشی دیکھتے ہیں او ر اس کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔اپنی خود کشی سے قبل وہ اپنے والدین کے ارمانوں کا گلا گھونٹتا ہے اور بڑھاپے میں تڑپ تڑپ کرمرجانے کیلئے انہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔بھائیوں اور بہنوں کی آنکھوں سے ان کے خواب نوچ لیتا ہے۔ کچھ طلبہ شادی شدہ بھی ہوتے ہیں یا پھران کے رشتے طے ہوچکے ہوتے ہیں۔خود کشی کرنے والے یہ طلبہ انہیں بھی اپنی سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصومیت کی عمر سے تھوڑا آگے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے والے ان طلبہ میں آخر اتنی سفاکیت آتی کہاں سے ہے؟وہ اس حد تک کیوں چلے جاتے ہیں؟وہ کیوں نہیں سوچ پاتے کہ ان کے جان دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے؟دوسروں کی جان بچانے کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنی جان بچانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ اور اتنا بڑاقدم اٹھانے سے پہلے وہ اس پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ان کے بعد ان کے متعلقین کا کیا ہوگا؟
درحقیقت ان معصوموں کو سفاک ہمارے تعلیمی نظام نے بنایا ہے ، جس میں سیکھنے اور سمجھنے سے زیادہ نمبرات کے حصول کو اہمیت دی جاتی ہے۔اس نظام میں کامیابی کی پیش گوئی صرف اُن طلبہ کیلئے کی جاتی ہے جو نتائج کی فہرست میں بلندی پر ہوتے ہیں، باقی طلبہ کو ناکارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس نظام نے ہمارے طلبہ کو مارکس حاصل کرنے کی مشین بنا دیا ہے اور انہیں کوچنگ کلاسیز کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ ملک میں ایم بی بی ایس میں داخلے کیلئے صرف ایک لاکھ ایک ہزار نشستیں ہیں جبکہ ’نیٹ‘ کے امتحان میں ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار سے زائد طلبہ نے شرکت کی تھی۔ کچھ کہے بغیر ہمارا تعلیمی نظام ان ۲۰؍ لاکھ ۸۷؍ ہزار میں سے ۱۹؍ لاکھ سے زائد طلبہ کو ناکارہ قرار دے دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ طلبہ محض اس وجہ سے اپنے والدین کا سامنا نہیں کر پاتے کہ اُن کی وجہ سے سماج میں ان کے والدین کی ’ناک نیچی‘ ہو جائے گی جبکہ کچھ طلبہ اس وجہ سے زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں کہ ان کے والدین نے زمین، زیور بیچ کر اور اپنی بنیادی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی فیس ادا کی تھی۔ سفاکیت اور بے رحمی اس تعلیمی نظام ہی میں ہے، یہی سبب ہے کہ کامیاب ہونے اورڈاکٹر بن جانے والوں میں بھی صلہ رحمی کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
No comments:
Post a Comment