کانگریس اور کرپشن
کیا دونوں لازم و ملزوم ہیں؟
کیا دونوں لازم و ملزوم ہیں؟
کانگریس کے سابقہ ادوار میں بھی کرپشن کے بڑے بڑے معاملات سامنے آئے ہیں، لیکن اس مرتبہ محض دو سال کے قلیل عرصے میں جتنے گھوٹالے منظر عام پر آئے ہیں،آزاد ہندوستان بلکہ غلام ہندوستان کی تاریخ میں بھی شاید کبھی نہیں ہوئے ہوںگے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوپی اے حکومت میں شامل وزرا کو بہت جلدی ہے، لہٰذا لوٹ کھسوٹ میں جلد بازی کےمظاہرے کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے لئے تنہا حکومت ہی ذمہ دار ہے یا اس گناہ میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں؟اس سے قبل کہ ہماری رگوں سے تمام خون نچوڑ لیا جائے یا ہم پر بے حسی طاری ہوجائے، اس موضوع پر ہمیں سنجیدگی سے کچھ سوچنا پڑے گا۔
قطب الدین شاہد
ے 2009کےعام انتخابات میں کانگریس کا نعرہ تھا’’کانگریس کا ہاتھ،عوام کے ساتھ‘‘.........مگر اقتدارملتے ہی انتخابی منشور کے ساتھ اس نعرے کو ایک مضبوط پوٹلی میں باندھ کر ایسی جگہ رکھ دیا گیا ، جہاں کسی کا ہاتھ تو کیا، نظر کی رسائی بھی آسان نہ ہو۔پھر کرپشن کا وہ دور دورہ شروع ہوا ، وہ لوٹ کھسوٹ مچی کہ اللہ کی پناہ۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کوئی سخت مقابلہ ہے، جہاں ہر کوئی دوسرے پر سبقت لے جانے کی جدوجہد کررہا ہے۔نقصان تو خیر پورے ملک کا ہورہا ہے، لیکن عام آدمی کی حالت زیادہ دگرگوں ہے کہ اس کے منہ سے نوالے تک چھن گئے ہیں۔اس نعرے کا احساس وقت کے ساتھ ہورہا ہے کہ اس ’ہاتھ‘ سے کیا مراد تھا؟ دراصل وہ ہاتھ نہیں ، طمانچہ ہے جو عام آدمی کی گالوں پر تواتر کے ساتھ پڑرہا ہے۔
یوپی اے حکومت کی دوسری اننگز کی دوسری سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے ساتھیوںسے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’بدعنوانیوں کاارتکاب کرنیوالوں کو بخشا نہیں جائے گا،قانون کے مطابق انہیں سز ا دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں‘‘۔
اس موقع پر یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بھی بدعنوانی سے جنگ لڑنے کی بات دوہرائی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم کرپشن کے خاتمے کی کوششوں کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیںگے اور ان تمام پر سخت کارروائی کریںگے جنہوں نے ملک کے خزانے کو لوٹا ہے........اور یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں، اس پر کام ہوگا۔‘‘
کہاتو یہی گیا کہ اس میں لفاظی نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو اس میں علاوہ لفاظی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔یوپی اے حکومت کے دونوں ذمہ داروں نے باتیں تو بہت اچھی اچھی کیں، لیکن اگران کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ ان کے ساتھی ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے، دوم یہ کہ ان کے دو ایجنڈے ہوں۔ یعنی ایک کااظہار کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ دوسرے کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس پرعمل کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ دو سال کے معمولی عرصے میںعوام کی کتنی دولت لوٹی گئی ؟ اور ا س پر حکومت نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ؟بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوا کہ اگرعدالت عظمیٰ انہیں بار بارڈانٹ پھٹکار نہیںلگاتی تو شاید اتنی بھی کارروائی نہیں ہوئی ہوتی جتنی کی ہوئی ہے۔ یعنی جو ہوئی ہے، وہ ملک و عوام کی محبت اور بدعنوانی و بدعنوانوںسے نفرت کے سبب نہیں بلکہ بادل نخواستہ اور مجبوری میں ہوئی ہے۔
دوسری میقات میں کمان سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے وزرا سے کہا تھا کہ وہ ۱۰۰؍ دنوں میں اپنے اپنے محکموں کا رپورٹ کارڈ پیش کریں اور بتائیں کہ وہ ملک و عوام کی ترقی کے لئے کیا کررہے ہیں؟ عوام نے وزیراعظم کی اس تڑپ کا بہت پُرجوش خیرمقدم کیا تھا، جس کا ثبوت اس کے بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں نظر آیا۔عام انتخابات کے بعد مہاراشٹر، آندھرا پردیش، ہریانہ، اروناچل پردیش اور اڑیسہ میں الیکشن ہوئے تھے اور تمام مقامات پر کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
شاید یہی وہ وقت تھا، جب کانگریس تکبر کے احساس میں مبتلا ہوگئی۔ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوںسے قبل حکومت کو بار بار متنبہ کیا گیا کہ لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، عوام و خواص کے ساتھ ساتھ میڈیا یہاں تک کہ بعض کانگریسی اراکین نے بھی اس جانب حکومت کی توجہ دلائی مگر، حکومت کے کانوں پر جوںتک نہ رینگی۔اس کے بعد ٹوجی اسپیکٹرم ، اسرو، راشن تقسیم (پی ڈی ایس)، تھومس کی تقرری اورکالے دھن کے معاملات میں بھی حکومت کی بے حسی اور بے توجہی نمایاں رہی۔ایسا لگا جیسے لٹیروںکو اس بات کا اشارہ ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے بدعنوانیوں کے کئی معاملات کے انکشاف کے باوجود یوپی اے کے بیشتر کرداروں کو ’پاک صاف اور ا یماندار‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یوپی اے دوم کی کارکردگی کا سرسری جائزہ لیاجائے تو اس کا پلاٹ تجسس سے پُر بالی ووڈ کے کسی فلم جیسا نظر آتا ہے۔اس طرح کی فلموں میں جن پر شک ہوتا ہے، آخر میںوہ بے گناہ ٹھہرتے ہیں اور جن پر نظر نہیں جاتی، وہی مجرم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے مرکزی کردار ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں، جنہیں ’مسٹرکلین‘ کا خطاب حاصل ہے۔ ان کے صاف شفاف دامن پر کرپشن کا ایک ہلکا سا داغ بھی نہیں ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر سے پلاننگ کمیشن کے چیئر مین تک اوروزارت مالیات سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ان کا کریئر بے داغ رہا ہے........ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ گھوٹالے انہی کی سرپرستی میں انجام پائے ہیں۔ عوام کی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے سسپنس فلموں کی طرح چند چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ضرور پکڑی جاتی ہیں لیکن اصل مجرم گرفت سے دور ہی رہتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند دنوں بعد ایک نیا گھوٹالہ منظر عام پر آجاتا ہے۔
یوپی اے حکومت کی چیئر پرسن نہروگاندھی خاندان کی وارث سونیا گاندھی ہیں۔ان کی ’قربانیوں‘ کی تاریخ پرانی اور فہرست بہت طویل ہے۔کرپشن سے دور دور ان کا بھی کوئی واسطہ نظر نہیں آتا......مگر ان کی سربراہی میں کرپشن کا سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں۔ یوپی اے حکومت میں اختیارات کے اعتبار سے تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل ہیں۔ کرپشن سے ان کا بھی چھتیس کا آنکڑہ بتایا جاتا ہے۔ان تینوںکو وطن عزیز کے کئی اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے مگر کرپشن کے جِن کو بوتل میں اتارنے کے معاملے میں یہ سب لاچار نظر آتے ہیں۔
یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ چلئے تسلیم کہ یہ تمام صاف شفاف ہیں اور کرپشن سے ان کا واقعی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یعنی کرپشن کا دیو ہی اتنا طاقتور ہے کہ اسے یہ سب مل کر بھی قابو میں نہیں کرپارہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے، تب بھی ان کے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔یہ بہر طور مجرم ہیں کہ انہیں جو ذمہ داری عوام نے سپرد کی ہے، اسے ادا نہیں کرپارہے ہیں، یعنی اس کے اہل نہیں ہیں۔
اس سکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی سرپرستی میں یہ گھوٹالے انجام پارہے ہیں۔منموہن سنگھ، سونیا گاندھی، پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل جیسے رہنماؤں پر لب کشائی کرتے ہوئے حالانکہ زبان لڑکھڑاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی سسپنس فلم میں قبل از وقت کسی سفید پوش پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر ایساہوا تو...... ٹوجی گھوٹالے میں سبرامنیم سوامی کے ذریعہ پی چدمبرم پر اور اسرو معاملے میں وزیراعظم پر انگشت نمائی تو ہوہی چکی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمیں کرپشن کی باتیں سن کر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ سماج نے کرپشن کو پوری طرح سے قبول کرلیا ہے۔اسے معیوب سمجھنا ترک کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف باتیں کرنےوالوں کو احمق تصور کیا جانے لگا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ہم صرف اور صرف حکومت کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرائیں؟جن کی جیب کاٹی جاتی ہے، جب وہی چیں بہ جبیں نہیں ہوتے تو جیب کتروں کو کیوں کر لعن طعن کی جائے؟بدعنوانی پر روک لگانی ہے تو حکومتوں کے احتساب سے قبل عوام کو خودا پنا احتساب کرنا ہوگا۔
یوپی اے حکومت کی دوسری اننگز کی دوسری سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے ساتھیوںسے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’بدعنوانیوں کاارتکاب کرنیوالوں کو بخشا نہیں جائے گا،قانون کے مطابق انہیں سز ا دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں‘‘۔
اس موقع پر یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بھی بدعنوانی سے جنگ لڑنے کی بات دوہرائی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم کرپشن کے خاتمے کی کوششوں کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیںگے اور ان تمام پر سخت کارروائی کریںگے جنہوں نے ملک کے خزانے کو لوٹا ہے........اور یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں، اس پر کام ہوگا۔‘‘
کہاتو یہی گیا کہ اس میں لفاظی نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو اس میں علاوہ لفاظی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔یوپی اے حکومت کے دونوں ذمہ داروں نے باتیں تو بہت اچھی اچھی کیں، لیکن اگران کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ ان کے ساتھی ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے، دوم یہ کہ ان کے دو ایجنڈے ہوں۔ یعنی ایک کااظہار کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ دوسرے کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس پرعمل کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ دو سال کے معمولی عرصے میںعوام کی کتنی دولت لوٹی گئی ؟ اور ا س پر حکومت نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ؟بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوا کہ اگرعدالت عظمیٰ انہیں بار بارڈانٹ پھٹکار نہیںلگاتی تو شاید اتنی بھی کارروائی نہیں ہوئی ہوتی جتنی کی ہوئی ہے۔ یعنی جو ہوئی ہے، وہ ملک و عوام کی محبت اور بدعنوانی و بدعنوانوںسے نفرت کے سبب نہیں بلکہ بادل نخواستہ اور مجبوری میں ہوئی ہے۔
دوسری میقات میں کمان سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے وزرا سے کہا تھا کہ وہ ۱۰۰؍ دنوں میں اپنے اپنے محکموں کا رپورٹ کارڈ پیش کریں اور بتائیں کہ وہ ملک و عوام کی ترقی کے لئے کیا کررہے ہیں؟ عوام نے وزیراعظم کی اس تڑپ کا بہت پُرجوش خیرمقدم کیا تھا، جس کا ثبوت اس کے بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں نظر آیا۔عام انتخابات کے بعد مہاراشٹر، آندھرا پردیش، ہریانہ، اروناچل پردیش اور اڑیسہ میں الیکشن ہوئے تھے اور تمام مقامات پر کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
شاید یہی وہ وقت تھا، جب کانگریس تکبر کے احساس میں مبتلا ہوگئی۔ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوںسے قبل حکومت کو بار بار متنبہ کیا گیا کہ لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، عوام و خواص کے ساتھ ساتھ میڈیا یہاں تک کہ بعض کانگریسی اراکین نے بھی اس جانب حکومت کی توجہ دلائی مگر، حکومت کے کانوں پر جوںتک نہ رینگی۔اس کے بعد ٹوجی اسپیکٹرم ، اسرو، راشن تقسیم (پی ڈی ایس)، تھومس کی تقرری اورکالے دھن کے معاملات میں بھی حکومت کی بے حسی اور بے توجہی نمایاں رہی۔ایسا لگا جیسے لٹیروںکو اس بات کا اشارہ ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے بدعنوانیوں کے کئی معاملات کے انکشاف کے باوجود یوپی اے کے بیشتر کرداروں کو ’پاک صاف اور ا یماندار‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یوپی اے دوم کی کارکردگی کا سرسری جائزہ لیاجائے تو اس کا پلاٹ تجسس سے پُر بالی ووڈ کے کسی فلم جیسا نظر آتا ہے۔اس طرح کی فلموں میں جن پر شک ہوتا ہے، آخر میںوہ بے گناہ ٹھہرتے ہیں اور جن پر نظر نہیں جاتی، وہی مجرم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے مرکزی کردار ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں، جنہیں ’مسٹرکلین‘ کا خطاب حاصل ہے۔ ان کے صاف شفاف دامن پر کرپشن کا ایک ہلکا سا داغ بھی نہیں ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر سے پلاننگ کمیشن کے چیئر مین تک اوروزارت مالیات سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ان کا کریئر بے داغ رہا ہے........ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ گھوٹالے انہی کی سرپرستی میں انجام پائے ہیں۔ عوام کی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے سسپنس فلموں کی طرح چند چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ضرور پکڑی جاتی ہیں لیکن اصل مجرم گرفت سے دور ہی رہتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند دنوں بعد ایک نیا گھوٹالہ منظر عام پر آجاتا ہے۔
یوپی اے حکومت کی چیئر پرسن نہروگاندھی خاندان کی وارث سونیا گاندھی ہیں۔ان کی ’قربانیوں‘ کی تاریخ پرانی اور فہرست بہت طویل ہے۔کرپشن سے دور دور ان کا بھی کوئی واسطہ نظر نہیں آتا......مگر ان کی سربراہی میں کرپشن کا سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں۔ یوپی اے حکومت میں اختیارات کے اعتبار سے تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل ہیں۔ کرپشن سے ان کا بھی چھتیس کا آنکڑہ بتایا جاتا ہے۔ان تینوںکو وطن عزیز کے کئی اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے مگر کرپشن کے جِن کو بوتل میں اتارنے کے معاملے میں یہ سب لاچار نظر آتے ہیں۔
یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ چلئے تسلیم کہ یہ تمام صاف شفاف ہیں اور کرپشن سے ان کا واقعی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یعنی کرپشن کا دیو ہی اتنا طاقتور ہے کہ اسے یہ سب مل کر بھی قابو میں نہیں کرپارہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے، تب بھی ان کے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔یہ بہر طور مجرم ہیں کہ انہیں جو ذمہ داری عوام نے سپرد کی ہے، اسے ادا نہیں کرپارہے ہیں، یعنی اس کے اہل نہیں ہیں۔
اس سکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی سرپرستی میں یہ گھوٹالے انجام پارہے ہیں۔منموہن سنگھ، سونیا گاندھی، پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل جیسے رہنماؤں پر لب کشائی کرتے ہوئے حالانکہ زبان لڑکھڑاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی سسپنس فلم میں قبل از وقت کسی سفید پوش پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر ایساہوا تو...... ٹوجی گھوٹالے میں سبرامنیم سوامی کے ذریعہ پی چدمبرم پر اور اسرو معاملے میں وزیراعظم پر انگشت نمائی تو ہوہی چکی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمیں کرپشن کی باتیں سن کر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ سماج نے کرپشن کو پوری طرح سے قبول کرلیا ہے۔اسے معیوب سمجھنا ترک کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف باتیں کرنےوالوں کو احمق تصور کیا جانے لگا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ہم صرف اور صرف حکومت کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرائیں؟جن کی جیب کاٹی جاتی ہے، جب وہی چیں بہ جبیں نہیں ہوتے تو جیب کتروں کو کیوں کر لعن طعن کی جائے؟بدعنوانی پر روک لگانی ہے تو حکومتوں کے احتساب سے قبل عوام کو خودا پنا احتساب کرنا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment