حکمراں جماعتوں کی نکیل چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں رہنا ملک کیلئے زیادہ سود مند ہے، کیونکہ.......
ملک کومستحکم نہیں، جواب دَہ سرکار کی ضرورت ہے
دولت مشترکہ کھیل ، ٹوجی، تھری جی، اسرو، آدرش سوسائٹی اور کوئلہ گھوٹالے کے بعد وزیراعظم کا اتحادی جماعتوں کو کوسنا اور یہ کہنا کہ بعض فیصلے مجبوری کے تحت لئے جاتے ہیں،بالکل مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ ان گھوٹالوں سے مجبوری نہیں، حکومت کی نااہلی نمایاں ہوتی ہے۔۱۱؍ لاکھ کروڑ روپوں کے گھوٹالے کے انکشاف پر جس حکومت کی پیشانی پر شکن تک نہ آئے، وہی حکومت ریلوے کرائے میں ہوئے اضافے کے واپسی کے فیصلے کو مجبوری کو سودا قرار دیتے ہوئے خود کو مظلو م کے طورپر پیش کرے تو افسوس ہوتا ہے.......بلاشبہ ان تمام گھوٹالوں ( جو مطلق العنانیت کی علامت ہیں)کے درمیان ممتا بنرجی کی اس ’بلیک میلنگ‘ کو جمہوریت کی برکت ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے ۹۰؍ فیصد عوام حکومت کو درپیش اس طرح کی ’مجبوریوں‘ کا خیر مقدم کریں تو اس پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے .......کیونکہ ملک کو مستحکم سے زیادہ .....جواب دہ حکومت کی ضرورت ہے۔
قطب الدین شاہد
گزشتہ دنوں ہندوستانی سیاست میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا، جس نے چانکیائی سیاست کے علمبرداروں کو پریشان کردیا۔ ایک چھوٹی سی جماعت کاایک بڑی جماعت کو یوں آنکھیں دکھانا اور فیصلہ بدلنے پر اسے مجبورکردینے کا یہ ضرب کاری ثابت ہوا، جس سے یہ طبقہ بلبلا کررہ گیا۔ دراصل مرکزی حکومت میں شامل ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کی دھمکیوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے یوپی اے حکومت نے ایک ایسا فیصلہ کیا، جو اسے قطعی پسند نہیں تھا۔ حکومت بالکل نہیں چاہتی تھی کہ ریلوے کرائے میں کئے گئے اضافے کو واپس لیا جائے... ....لیکن ایسا کرنے پر اسے مجبور ہونا پڑا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنی بے چارگی کااظہار کرتے ہوئے اسے اتحادی حکومت کی مجبوری قرار دیا۔ اسی کے ساتھ ملک میں ایک بار پھر یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس طرح کی اتحادی حکومتیں ملک کیلئے مفید ہیں یا مضر؟
دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئے مستحکم حکومتوں کی وکالت کرتار ہا ہے۔اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟ جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔ یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اسے اختلاج صرف اُس وقت ہوتا ہے جب بی جے پی اور کانگریس کو مکمل اکثریت نہیں مل پاتی لہٰذا حکومت پردباؤ دبنائے رکھنے کیلئے کچھ چھوٹی پارٹیاںاُن کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ان چھوٹی جماعتوں کے ہر جائز و ناجائز مطالبات کو یہ طبقہ ’بلیک میلنگ‘ قرار دیتا ہے اوراس طرح ان کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مہم میں میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔
۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑدیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے........ مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آتا ہے ، یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کویہ طبقہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے اور یہ کہ ہندوستان جیسے کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام یا مستحکم حکومتوں کا فلسفہ کتنا فائدے مند ہے اور کتنا نقصاندہ؟
بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیںہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں۔
لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے ! اسے مکمل اکثریت بھی حاصل نہیں ہے ، اس کے باوجود اہم فیصلوں میں اپوزیشن تو دور کی بات، اپنے اہم اتحادیوں تک کو شامل نہیں کرتی۔ لوک پال بل او رریلوے کرائے میں اضافے کے موقع پر یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے۔ واضح اکثریت کا مطلب اپوزیشن کا کمزور ہونا ہے، ایسے میں حکومت پر کوئی محتسب نہیں ہوتا، لہٰذا بدعنوانیاں بے روک ٹوک ہوتی ہیں۔
ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں ہوں تو ہم کیا کریںگے، پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے، دوبارہ جب دوسری پارٹی کے کام سے غیر اطمینانی محسوس ہوگی تو جھک مار کر پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہیں دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟ اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی بھی ایک جماعت کو طویل عرصے بعد ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ ۸۴ء کے بعد سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی بھی ایک جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی۔ بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو، یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍ سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا تھا۔اس کے برعکس ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں موقع دے رہے ہیں۔ دراصل ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویوںسے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اگر ان پر کسی کا دباؤ نہیں رہا تو یہ خواص کے مفاد پر عوام کو قربان کرنے میںکسی تکلف کا مظاہرہ نہیں کریںگی۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ صنعتی گھرانوں پر خزانہ لٹا دیا جاتا ہے مگر یہ اُف تک نہیں کرتیں لیکن مسافر کرائے میں اضافے کوواپس لیے جانے پر ان کی بھنویں تن جاتی ہیں۔
دراصل اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ عرصۂ دراز سے استحکام کا راگ الاپتے ہوئے مستحکم حکومتوں کی وکالت کرتار ہا ہے۔اس گروپ کے نزدیک مستحکم حکومت وہ ہے جو کسی رکاوٹ اور جواب دہی کے بغیر اپنی ۵؍ سالہ میعاد پوری کرسکے۔ اس طبقے کو اس سے غرض نہیں کہ منتخب حکومت کے فیصلے اور اس کے انداز و اطوار جمہوری ہیں بھی یا نہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر استحکام کا پیمانہ یہی ہے تو پھر ہم تانا شاہی اور مطلق العنانی کے مخالف کیوں ہیں؟ جس طرز حکومت میں ۵؍ سال ہی کیا، برسوں عوام کو انتخابات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی حکومتیں تشکیل پائیں جو استحکام سے زیادہ احتساب پر یقین رکھتی ہوں۔ خیال رہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران ہی دستور کے مسودے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکرنے یہ واضح کردیاتھا کہ مجوزہ دستور میں استحکام کے مقابلے جواب دَہی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ اس استحکام کے نعرے کے پس پشت اس گروپ کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ یہ گروہ برطانیہ اور امریکہ کی طرز پر ملک کے سیاسی ڈھانچے میں صرف دو جماعتی نظام چاہتا ہے تاکہ اقتدار انہیں دونوں کے درمیان منتقل ہوتا رہے اور اس طرح ملک پر برہمنی قیادت قابض رہے۔ یہ بات ہم، آپ اور سب جانتے ہیں کہ خواص سے تعلق رکھنے والے بیشتر معاملات میں بی جے پی اور کانگریس متفقہ رائے رکھتی ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کانگریس کی بنتی ہے یا بی جے پی کی۔ اسے اختلاج صرف اُس وقت ہوتا ہے جب بی جے پی اور کانگریس کو مکمل اکثریت نہیں مل پاتی لہٰذا حکومت پردباؤ دبنائے رکھنے کیلئے کچھ چھوٹی پارٹیاںاُن کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ان چھوٹی جماعتوں کے ہر جائز و ناجائز مطالبات کو یہ طبقہ ’بلیک میلنگ‘ قرار دیتا ہے اوراس طرح ان کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مہم میں میڈیا ان کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔
۱۹۷۷ء کو اگر چھوڑدیں جب ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کانگریس کو سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا،۱۹۸۹ء تک ملک پر ایک ہی جماعت بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہی تھی....... لیکن اس کے بعد سے آج تک مرکز میں کسی ’مستحکم‘ حکومت کا قیام عمل میں نہیں آسکا ہے۔ تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ عوام کو مستحکم حکومتوں کے نقصانات کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب وہ آنکھ بند کرکے کسی ایک پارٹی کو ووٹ دینے اور اس طرح اسے آمر بنانے کے قائل نہیں رہے........ مگرعوام کی یہ حکمت عملی انہیں کیوںکر راس آئے گی جو دو جماعتی نظام کی خواہش رکھتے ہیں، دن رات اس کا خواب دیکھتے ہیں، اس کیلئے کوششیں کرتے ہیں اور جو شفافیت و جواب دہی کو اپنے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آتا ہے ، یہ گروہ واویلا مچانے لگتا ہے اور عوام کے شعور پر سوالیہ نشان لگانے لگتا ہے۔حکومت میں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کی شمولیت کویہ طبقہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہی رجحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے اور یہ کہ ہندوستان جیسے کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک میں دو سیاسی جماعتی نظام یا مستحکم حکومتوں کا فلسفہ کتنا فائدے مند ہے اور کتنا نقصاندہ؟
بلا شبہ استحکام کے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بار بار کے انتخابی اخراجات سے ملک کا خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ ’ہارس ٹریڈنگ‘ نہیںہوتی۔ طویل مدتی منصوبے بن سکتے ہیں اور اس پر عمل آوری بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں واضح ہوتی ہیں لہٰذ ا سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہوتی ہے۔مستحکم حکومتیں ٹھوس فیصلہ لینے کی متحمل ہوتی ہیں،جس کی وجہ سے بین الاقوامی رشتے ہموار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں۔
لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی آمریت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اہم فیصلوں میں وہ اپوزیشن کوشریک نہیں کرتیں، جواب طلب کرنے پررعونت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کو جوتوں کی نوک پر رکھتی ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے ! اسے مکمل اکثریت بھی حاصل نہیں ہے ، اس کے باوجود اہم فیصلوں میں اپوزیشن تو دور کی بات، اپنے اہم اتحادیوں تک کو شامل نہیں کرتی۔ لوک پال بل او رریلوے کرائے میں اضافے کے موقع پر یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے۔ واضح اکثریت کا مطلب اپوزیشن کا کمزور ہونا ہے، ایسے میں حکومت پر کوئی محتسب نہیں ہوتا، لہٰذا بدعنوانیاں بے روک ٹوک ہوتی ہیں۔
ان حالات میںاگر ہمارے سامنے متبادل کی صورت میں صرف ۲؍ ہی سیاسی جماعتیں ہوں تو ہم کیا کریںگے، پہلی جماعت سے ناراض ہوئے تو دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے، دوبارہ جب دوسری پارٹی کے کام سے غیر اطمینانی محسوس ہوگی تو جھک مار کر پہلی جماعت کو واپس بلائیںگے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں جماعتوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، ہم انہیں دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوں گے۔ ذرا سوچئے! گجرات کو ہندوتواکی لیباریٹری بنانے والی بی جے پی کو اگر مرکز میں واضح اکثریت مل جائے تو ملک کے سیکولر تانے بانے کا کیا ہوگا؟ اور امریکہ سے نیوکلیائی معاہدے کیلئےکسی بھی حد تک جانے والی کانگریس کو مکمل اکثریت ملنے پر اسے آمر بننے میں کتنی دیر لگے گی؟
۲۰۰۹ء کے عام انتخابات میںکسی بھی ایک جماعت کو طویل عرصے بعد ۲۰۰؍ سے زائد نشستیں ملیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات کے دوران ہی راجیو گاندھی کے قتل کی وجہ سے کانگریس کو ۲۳۲؍ سیٹیں مل گئی تھیں، ورنہ ۸۴ء کے بعد سے اب تک رائے دہندگان کی حکمت عملی یہی رہی کہ کسی بھی ایک جماعت کو ۲۰۰؍ نشستوں سے اوپر نہ جانے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۹ء کے انتخابی نتائج سے دو جماعتی نظام کا خواب دیکھنے والے طبقہ کی بانچھیں کھل گئیں ۔ اسے اپنی مہم کامیاب ہوتی نظر آئی۔ بلند بانگ دعوے کئے گئے اور کہاگیا کہ وطن عزیز میں ’بیداری‘ آرہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور علاقائی جماعتیں بہت جلد ناپید ہوجائیںگی لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد!‘ کے مصداق بہت جلد ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی ریاستی چناؤ ہوئے ، ان میں سے اکثر علاقائی جماعتوں کا ہی غلبہ دکھائی دیا ہے، خواہ وہ بہار میں جنتادل متحدہ ہو، بنگال میں ترنمول کانگریس ہو، یوپی میں سماجوادی پارٹی ہو یا پھر پنجاب میں اکالی دل۔
دیکھا جائے تو ۲۰۰۹ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ فیصد میں گراوٹ آئی تھی۔ بھلے ہی ۲۰۰۴ء میں ملنے والی ۲۸۳؍ نشستوں کے مقابلے ۲۰۰۹ء میں ۳۲۱؍ سیٹیں مل گئی ہوں، لیکن ووٹ فیصد ۴۸ء۶۹؍ سے کم ہوکر ۴۷ء۳۶؍ پر سمٹ گیا تھا۔اس کے برعکس ۱۹۹۹ء میں مجموعی طور پر ان دونوں کو ۵۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ مطلب صاف ہے کہ رائے دہندگان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں موقع دے رہے ہیں۔ دراصل ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویوںسے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اگر ان پر کسی کا دباؤ نہیں رہا تو یہ خواص کے مفاد پر عوام کو قربان کرنے میںکسی تکلف کا مظاہرہ نہیں کریںگی۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ صنعتی گھرانوں پر خزانہ لٹا دیا جاتا ہے مگر یہ اُف تک نہیں کرتیں لیکن مسافر کرائے میں اضافے کوواپس لیے جانے پر ان کی بھنویں تن جاتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment