نصیحت اور مشورے
ہمارے یہاں مفت مشوروں کی زبردست فراوانی ہے۔جسےدیکھو،وہ دوسروں کو نصیحت کرتا اور مفت مشورے دیتا نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نصیحت کرنےوالے خود اپنی باتوں پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کی باتوں کا دوسروں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔
ہمارے ایک واقف کار ہیں جو اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ برسوں سے اپنے والدین سے الگ رہتے ہیں۔ جب ساتھ میں تھے تووالدین سے روزانہ کا جھگڑا ان کا معمول تھا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ وہ کئی بار والدین پر ہاتھ بھی اٹھا چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے والدین کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان کے اپنے اعمال کی سزا تھی۔ اپنے وقت میں وہ بھی اپنے والدین کو کافی اذیتیں پہنچاچکے ہیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے واقف کار جو اپنے والدین سے جھگڑا کرکے علاحدہ ہو چکے ہیں، والدین کی عظمت سے متعلق فیس بک پر ایک سے بڑھ کر ایک نصیحت آموز باتیں پوسٹ کررہے ہیں۔ دلوں کو چھو لینےوالےواقعات و حکایات اور احادیث پوسٹ کرکے یہ لوگوں کو مفت مشورے دیتے نظر آرہے ہیںکہ دنیا و آخرت میں فلاح چاہتے ہو تو والدین کو خوش رکھنے کی کوشش کرو۔ فیس بک پر پوسٹ کی جانے والی یہ تمام باتیں کافی پُر اثر ہیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ مجھ پر ان باتوں کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔ جب اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ چونکہ ’ناصح‘ کا ماضی اور حال میرے سامنے ہے، اسلئے مجھ پر وہ باتیں اثر نہیں کررہی ہیں۔ ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں اس طرح کے ناصح کا سامنا ہوتاہے اور ہم ہنستے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں گویا اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ استاد کہتے ہیں کہ ’’بچو! وقت کی پابندی کرو‘‘ اور وہ صاحب خود کبھی وقت کی پابندی نہیں کرتے۔والد کہتے ہیں ’’بیٹا جھوٹ مت بولو‘‘ اور خود بیٹے سے کہتے ہیں کہ ’’ فون پر بول دو کہ ابو کی طبیعت خراب ہے، ابھی سو رہے ہیں‘‘۔امی کہتی ہیں کہ ’’بیٹی غیبت نہیں کرنی چاہئے‘‘ اور بیٹی دیکھتی ہے کہ اس کی ماں دن بھر پڑوسی خواتین کے ساتھ دوسروں کی خامیاں چٹخارے لے کر بیان کیا کرتی ہے۔خطیب صاحب منبر سے اعلان کرتے ہیں کہ ’’کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے‘‘ اور مسلکی اختلافات پر خود اس قدر لاف گزاف کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ ’’حرام مال کمانےوالوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے‘‘ اور انہیں دیکھو تو ہر جمعرات کو ’خیرو برکت‘ کی دعائیں پڑھنے وہیں پہنچے رہتے ہیں۔
غور کریں۔ ان حالات میں ان کی نصیحتیں دوسروں پر کیوں کر اثرا نداز ہوںگی جبکہ یہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں اسلامی قوانین نافذ ہوجائے لیکن ہم خوداپنی زندگی پر اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں چاہتے۔
ہمارے ایک واقف کار ہیں جو اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ برسوں سے اپنے والدین سے الگ رہتے ہیں۔ جب ساتھ میں تھے تووالدین سے روزانہ کا جھگڑا ان کا معمول تھا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ وہ کئی بار والدین پر ہاتھ بھی اٹھا چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے والدین کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان کے اپنے اعمال کی سزا تھی۔ اپنے وقت میں وہ بھی اپنے والدین کو کافی اذیتیں پہنچاچکے ہیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے واقف کار جو اپنے والدین سے جھگڑا کرکے علاحدہ ہو چکے ہیں، والدین کی عظمت سے متعلق فیس بک پر ایک سے بڑھ کر ایک نصیحت آموز باتیں پوسٹ کررہے ہیں۔ دلوں کو چھو لینےوالےواقعات و حکایات اور احادیث پوسٹ کرکے یہ لوگوں کو مفت مشورے دیتے نظر آرہے ہیںکہ دنیا و آخرت میں فلاح چاہتے ہو تو والدین کو خوش رکھنے کی کوشش کرو۔ فیس بک پر پوسٹ کی جانے والی یہ تمام باتیں کافی پُر اثر ہیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ مجھ پر ان باتوں کا ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔ جب اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ چونکہ ’ناصح‘ کا ماضی اور حال میرے سامنے ہے، اسلئے مجھ پر وہ باتیں اثر نہیں کررہی ہیں۔ ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں اس طرح کے ناصح کا سامنا ہوتاہے اور ہم ہنستے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں گویا اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ استاد کہتے ہیں کہ ’’بچو! وقت کی پابندی کرو‘‘ اور وہ صاحب خود کبھی وقت کی پابندی نہیں کرتے۔والد کہتے ہیں ’’بیٹا جھوٹ مت بولو‘‘ اور خود بیٹے سے کہتے ہیں کہ ’’ فون پر بول دو کہ ابو کی طبیعت خراب ہے، ابھی سو رہے ہیں‘‘۔امی کہتی ہیں کہ ’’بیٹی غیبت نہیں کرنی چاہئے‘‘ اور بیٹی دیکھتی ہے کہ اس کی ماں دن بھر پڑوسی خواتین کے ساتھ دوسروں کی خامیاں چٹخارے لے کر بیان کیا کرتی ہے۔خطیب صاحب منبر سے اعلان کرتے ہیں کہ ’’کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے‘‘ اور مسلکی اختلافات پر خود اس قدر لاف گزاف کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ ’’حرام مال کمانےوالوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے‘‘ اور انہیں دیکھو تو ہر جمعرات کو ’خیرو برکت‘ کی دعائیں پڑھنے وہیں پہنچے رہتے ہیں۔
غور کریں۔ ان حالات میں ان کی نصیحتیں دوسروں پر کیوں کر اثرا نداز ہوںگی جبکہ یہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں اسلامی قوانین نافذ ہوجائے لیکن ہم خوداپنی زندگی پر اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں چاہتے۔
No comments:
Post a Comment