Thursday, 7 February 2013

Urdu ki haq talfi ke liye ahl e urdu hi zimmedar

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اُردو کے مسائل پر زور دار آواز بلند  ہونے کے بعد بھی اگر مسائل حل نہیں ہوئے تو کہنا پڑے گا کہ:
اُردو کی حق تلفی کیلئے اہل ِ اُردو ہی ذمہ دار ہیں!
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو زبان سے متعلق بڑی مثبت گفتگو ہوئی۔ اُردو کے قصیدے پڑھے گئے،اس کی مرثیہ خوانی بھی ہوئی اورتمام جماعتوں کے اراکین نے مل کر اس کی ترویج و اشاعت کیلئے آواز بھی بلند کی۔ ۲؍سال قبل کچھ اسی طرح کاخوشگوار منظر لوک سبھا میں بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ الزام درست ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میںسنجیدگی کم اور نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھنے کی ’فراخدلی‘ کا مظاہرہ کیا اور اُردو کو اس کا جائز حق دلانے  کی بات پارلیمنٹ  میں کی۔ اب یہاں سے اہل اُردو کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ اُردو والوں کو چاہئے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کریں اور یہ دباؤ تب تک قائم رکھیں جب تک اس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوجائیں۔ اُردو کیلئے ماحول سازگار ہے، لوہا گرم ہے، بس ہتھوڑا مارنے کی دیر ہے۔ اگر اس موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا تو یقینا اس کیلئے اہل اُردو ہی ذمہ دار اور قصور وار قرار پائیںگے۔

قطب الدین شاہد

اگریہ کہاجاتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت اُردو کو اس کے اپنے ہی گھر میں بیگانہ کردیا گیا، تویہ الزام قطعی غلط نہیں ہے۔ بلا شبہ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے، جس کی  پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ یہیں کی گنگا جمنی تہذیب کی گود میں پلی بڑھی اوریہیں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے اپنے قدموں پر کھڑے ہونا سیکھی۔ امیر خسروسے لے کر منشی پریم چند اور سرسید احمدخاں سے لے کر گوپی چند نارنگ تک  بلا لحاظ مذہب و مسلک اس زبان کی آبیاری میں تمام لوگوں نے خون و جگر ایک کیا، جس کا یہ خوشگوار نتیجہ ہے کہ اُردو زبان صرف  ہندوستان اور بر صغیر  میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک شیریں زبان کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس کہ اس  ہندوستانی زبان کو آزاد ہندوستان میں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جاسکا، جس کی یہ حقدار ہے۔ جس زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے تھی، اس کے ساتھ سرکاری سطح پر کھلا متعصبانہ  رویہ اختیار کیا گیااور کیا  جا رہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اسے  خالص مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی سازش رچی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار سرکاری   اور آئینی ادارے میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کی آواز بلند کی جائے اوراس آواز پر تمام سیاسی جماعتیں آمنّا و صدّقناکہیں تو اس سے بڑی مسرت کی بات اورکیا ہوگی؟
     اس لحاظ سے ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء اور اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء کی تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس  روز بالترتیب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اُردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے آواز بلند کی گئی جس کی حمایت بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین  نے کی۔ اس کے باوجود اگر اُردو کے مسائل جوں کے توں ہیں تو اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم اُردو والے ہی ذمہ دار ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی پہلی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب یہاں سے ہم اُردو والوں کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اُردو کے مسائل کا ادراک ہے، جس کااعتراف انہوں نے پارلیمنٹ میں بھی کیا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اس کا ’فالو اَپ‘ کریں اور انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ  وہ صرف مسائل پر آواز بلند  کرکے خاموش نہ بیٹھ جائیں بلکہ  پارلیمنٹ میں  اردو سے جس محبت کا انہوں نے اظہار کیا ہے اس کا حق بھی ادا کریں اور  اس زبان کو اس کا وہ جائز حق دلائیں جس سے یہ  اب  تک محروم ہے۔
     یہ بات درست ہے کہ ہمارے  سیاست داں بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مسائل اوران کے حل کے تئیں بہت کم سنجیدہ ہوتے ہیںبلکہ ان کی ذہنیت تاجرانہ ہے اور یہ   ہر بات میں اپنا نفع  نقصان دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جائے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو جب سماجوادی پارٹی کے رُکن پارلیمان چودھری منور سلیم نے اُردو کو قومی سطح پردوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا، جس کی تائید بی جے پی کے ارون جیٹلی سمیت دیگر تمام جماعتوں کے قائدین نے کی تو ہم میں سے بیشتر نے اسے ایک سیاسی پینترہ بازی ہی تصور کیا۔ اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہمارے قائد بھی ذمہ دار ہیں۔  بلا شبہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک پر پیتا ہے لیکن ایک بار جل جانے کے بعد دودھ کی افادیت سے ہی انکار کردینا دانشمندی تو نہیں ہے۔  اسے ’کفرانِ نعمت‘ کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
    یہ بات بھی صحیح ہے کہ انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو  لیڈروں کی زنبیل سے وعدوں کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں جو انتخابات ختم ہوتے ہوتے راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی  ان پھلجھڑیوں کی روشنی میں چند بھٹکے ہوئے مسافرو  ں کو اپنا راستہ نظر آجاتا ہے  اور وہ ان وقتی اور عارضی روشنیوں کی مدد سے اپنا سفر آسان بنا لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جب انتخابات کی آمد ہوتی ہے، تو ووٹوں کی لالچ کے خاطر ہی سہی ہمارے سیاست داں کچھ کام کرتے ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اُن سے کچھ کام لیا جاسکتا ہے۔
    ان حالات میں گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں اُردو کو دوسری قومی زبان کا درجہ دیئے جانے کا جو مطالبہ ہوا، اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور متحرک ہوجانا چاہئے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سر پر ہیں اور اس سے قبل سیاست دانوں سے چند کام کروائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں یہ مطالبہ سماجوادی پارٹی نے کیا۔ اس سے قبل اگست ۲۰۱۰ء میں بھی سماجوادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے اُردو کے حق سے متعلق لوک سبھا میں آواز بلند کی تھی۔ دونوں مرتبہ بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید و حمایت کی۔ خود حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ اُردو کواس کا جائز حق ملنا چاہئے۔ ممکن ہے اُردو کے نام پر سیاست  ہورہی ہو اور سیاست داں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کررہے ہوں، مگر ان منفی پہلوؤں کے علاوہ ہمیں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ یہ گفتگو پارلیمنٹ میں ہورہی ہے، جہاں ایک ایک لفظ ریکارڈ کیا جارہا ہے اورجس کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کوئی سیاسی اسٹیج نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہونے والی گفتگو سیاسی جماعتوں کے  انتخابی منشور جیسی ہے۔ اور پھرسیاست دانوںسے ہماری توقعات بھی کیا ہیں؟ یہی ناکہ وہ ایوان میں ہمارے مسائل پر آواز بلند کریں اورانہیں حل کروائیں۔ اس طرح دیکھیں تو پہلا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا۔۔۔۔۔۔ یعنی اُردو کے حق میں سبھی متفق نظر آئے۔  اب رہادوسرا مسئلہ ۔۔۔۔ تو یہاں گیند پوری طرح سے حکومت اور اہل اُردو کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی حکومت کو کام کرنا ہے لیکن یہ کام اہل اُردو کو کروانا ہے۔ یوپی اے حکومت تو یہی دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اُردو کیلئے کچھ کرنا ہے لیکن بظاہر وہ بی جے پی سے خوف زدہ  نظر آتی ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ کہیں  ایسا کرتے ہوئے اس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی اور خوشامد پسندی کا الزام عائد نہ ہو۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکومت کو یہ یاد دلائیں کہ اب تو وہ خوف بھی نہیں رہا کیونکہ بی جے پی بھی اُردو کو اس کا جائز حق دیئے جانے کے حق میں ہے۔
    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی اس گفتگو کو یوں سرسری طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ آج اگر اس پر کچھ عمل نہیں بھی ہوا۔۔۔۔۔ تب بھی اس مباحثے کی اہمیت باقی رہے گی۔ آئندہ کچھ دنوں میں اسے ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے گا اوراس کی روشنی میں فیصلے ہوںگے۔ اس گفتگو کی اہمیت اس لئے کم نہیں ہونی چاہئے کہ اس موضوع کو سماجوادی پارٹی کے چودھری منور سلیم نے اُٹھایا ہے  اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام وِلاس پاسوان اور آزاد رُکن پارلیمان محمدادیب نے اس کی حمایت کی ہے بلکہ اسے اس طرح دیکھنا چاہئے کہ اس کی تائیدبی جے پی نے بھی کی ہے جسے ہم اُردو کا دشمن اور اس کی ترقی میں سب سے بڑی رُکاوٹ سمجھتے رہے ہیں۔  یعنی ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔‘
    اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردووالے اس کا ’فالواَپ‘ کریں۔ سیاست دانوں کواس بات کیلئے آمادہ کریںکہ آئندہ پارلیمانی اجلاس میںاس کے کچھ ٹھوس نتائج برآمد ہوں۔ حکومت سے پوچھیں کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ وہ اس کا جائز حق دینے سے کترارہی ہے؟ ملائم سنگھ یادو، ممتا بنرجی  اور فاروق عبداللہ سے سوال کریں کہ ۲۰۱۰ء میں اُردو کی حالت زار پر لوک سبھا میں آپ نے بھی مرثیہ پڑھا تھا، اب کیا کررہے ہیں کہ جبکہ اس دوران  اپنی اپنی ریاستوں میں آپ کی حکومتیں بن چکی ہیں۔یقین جانئے کہ ووٹوں کی لالچ میں سیاست  داں  بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے انہیں مجبور کرنے کی۔ توکیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟n

Saturday, 15 December 2012

Musalmano ko reservatiaon-waqt ka aham taqaza

مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا

  1.   مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضا ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی ۲؍اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہ مسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔

  • قطب الدین شاہد

    گزشتہ دنوں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے مسلم ریزرویشن کے موضوع کو ایک بار پھر جھاڑ پونچھ کر ٹھنڈے بستے سے باہر نکالا۔ مسلم ریزرویشن کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کچھ یقین دہانیاں بھی کرائیں لیکن ان کے بیانات سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کی تیاریاں کررہے ہیں۔اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی الیکشن میں یہ موضوع خوب گرمایا تھا جب سماجوادی  اور کانگریس  نے نہایت شدومد کے ساتھ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی وکالت کی تھی۔۔۔۔۔ مگر انتخابات ختم ہوتے ہی یہ معاملہ ایک بار پھر سرد بستے میں چلا گیاتھا۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کو اس کی وجہ سے اترپردیش میں حکمرانی کا موقع بھی مل گیا۔  مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرنا وقت کااہم تقاضہ ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو قطعی غلط نہیں ہوگا کہ  اس کے بغیر ملک کی تیزرفتار ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اگر یہ سہولت مسلمانوں کو نہیں مل پارہی ہے تو اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سیاسی جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں، دوم یہ کہمسلمانوں کے مطالبوں میں  وہ دم خم نہیں ہے  جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتاہے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل آئیے ایک چھوٹاسا واقعہ ملاحظہ کرتے چلیں۔
    ملّانصرالدین کو ایک بار قاضیٔ شہر کی عدالت میںطلب کیا گیا۔ان پر الزام تھا کہ ایک شخص نے انہیں سردی کے موسم میں عاریتاً کمبل د یاتھا۔موسم گزر جانے کے بعد جب وہ شخص کمبل واپس لینے آیا تو  اس کو پھٹا ہوا کمبل  ملا۔ اس نے شکایت کرنی چاہی مگر ملّا کو نہیں سننا تھا، نہیں سنے۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے۔ مجبوراً اسے قاضیٔ شہر کے پاس جانا پڑا۔ قاضی نے اس الزام پر ملّا کی صفائی چاہی،تو ملا نے اپنی ’بے گناہی‘ ثابت کرنے کیلئے تین باتیں کہیں:
ٓ    اول:میں نے ان سے کوئی کمبل ومبل نہیں لیا تھا۔
    دوم: اور جب کمبل لیا تھا، تو وہ پھٹا ہوا ہی تھا۔
    سوم: اور جب میں نے وہ کمبل انہیں واپس کیا  تھا،تو پوری طرح سے صحیح و سالم تھا۔
    حضور بھلا بتائیے ،  اب اگر وہ کمبل پھٹ جائے میں کیوںکر قصور وار ہوسکتا ہوں؟
    ملا نصرالدین کی یہ باتیں آپ کو بھلے ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہوں،مگر سچ تو یہ ہے کہ مسلم ریزرویشن کے نام پر ہماری مرکزی و ریاستی حکومتیں بھی کچھ اسی طرح کے ’جواز‘ پیش کرتی رہی ہیں اور مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر ملک کے ’اعلیٰ دماغ‘ سر دُھنتے ہیں۔ ہماری حکومتیںایک پل کچھ کہتی ہیں اور دوسرے پل  نہایت شدومد کے ساتھ اسی کی تردید بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
    آئیے ایک سرسری نظر تاریخی حقائق پر ڈالتے چلیں۔
    جس وقت آزاد ہندوستان کا دستور تشکیل دیا جارہا تھا، پسماندہ طبقات کی وضاحت کا موضوع ایک بار پھرابھرکر سامنے آیا تھا۔قانون ساز کونسل کے ایک رکن نے سردار پٹیل سے سوال کیا تھا کہ کیاپسماندہ طبقات کے زمرے میں اقلیتیں بھی شامل ہیں؟انہوںنے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔ مطلب یہ کہ اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کئے جانے کا وعدہ حکومت نے کیا تھا۔
    مگر اب
    حکومت کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے لئے وہ دستور کی مختلف شقوں کا حوالہ بھی دیتی ہے۔
    لیکن دوسری طرف
    دستور کی دفعہ ۳۴۱؍ اور ۱۹۵۰ ء کے صدارتی حکم نامے کے مطابق طبقۂ دلت میں صرف ہندوؤں، سکھوں اور بدھسٹوں کاشمار ہوتا ہے۔ یعنی دلت کے نام پر  حاصل مراعات سے صرف ہندو، سکھ اور بودھ ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔  یہاںسوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو،سکھ اوربودھ مذہبی گروہ نہیں ہیں۔ ان میں جہاں سکھ اور بودھ اقلیت ہیں، وہیں ہندو اکثریت ہیں۔
    کیا  ملا نصرالدین کی طرح حکومت کے یہ بیانات بھی تضادات سے پُر نہیں ہیں؟ حکومت کہتی ہے کہ :
     اقلیتوں کا شمار پسماندہ طبقات میں کیا جائے گا یعنی اقلیتوں(مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر) کو وہ تمام مراعات حاصل ہوں گی، جو دیگر پسماندہ طبقات کو میسر ہیں۔
    لیکن پھر اگلے ہی پل کہتی ہے کہ :
    مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔
    اور پھر اس کے فوراً بعد حکومت کہتی ہے کہ :
    دلت کے نام پر حاصل مراعات سے صرف ہندو ، سکھ اور بودھ مستفید ہوسکیںگے۔
    کیا حکومت کا یہ رویہ مساوات اور یکساں حقوق کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دو طرفہ مسابقت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک وہ اعلیٰ طبقہ جو بارسوخ  ہے اور تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے اور اندھوں کی طرح آپس میں ریوڑیاں تقسیم کرتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جسے ریزرویشن کی سہولت حاصل ہے اور اس کی مدد سے باصلاحیت افراد کو روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس دوطرفہ مقابلہ آرائی میں مسلمان بالکل پس کر رہ گیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بیحد کم ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سول سروسز میں مسلمانوں کا تناسب صرف ۲؍ فیصد کے آس پاس سمٹ کر رہ گیا ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے درجے کے سرکاری ملازمتوںمیں یہ تناسب اور بھی کم ہے۔   برعکس اس کے آزادی کے وقت اوراس کے کچھ برسوں بعد تک سرکاری ملازمین میں مسلمانوں کا تناسب ۴۰؍ فیصد کے آس پاس تھا۔
    حالیہ چند برسوں میں حکومت کی ایما پر تشکیل دی گئی ۲؍ اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ثابت ہوچکی  ہے کہ آزادی کے بعد وطن عزیز میں مسلمانوں کی حالت بتدریج روبہ زوال ہے۔  سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں یہ حقیقت دستاویزی صورت میں ابھر کر سامنے  آئی کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہوکر رہ گئی ہے۔دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کیلئے تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن کی سفارش موجود ہے۔
    اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کیوں ضروری ہے ؟ اس مطالبے کی تین اہم وجوہات ہیں۔
    اول یہ کہ  ریزرویشن  مسلمانوںکا بنیادی حق ہے۔ جب دیگر دو اقلیتوں (سکھ اوربودھ) کو یہ مراعات حاصل ہیں تو مسلمانوں کو کیوں نہیں؟
    دوم یہ کہ ریزرویشن کی سہولت حاصل ہوئے بغیر مسلمان مین اسٹریم میں شامل نہیں ہوسکیںگے۔ وہ دوطرفہ مقابلہ آرائی میں اسی طرح پستے رہیںگے نیزتعلیمی، سیاسی، معاشی اورسماجی سطح پر مزید پسماندہ ہوتے جائیںگے۔
    سوم یہ کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے بغیر ملک کی تیز رفتار ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
    مذکورہ تین نکات میں سے ۲؍ پر بالائی سطروں میں مختصر بحث ہوچکی ہے، اب آئیے تیسرے نکتے پر بھی تھوڑی سی گفتگو کرلیںاور دیکھیں کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کئے بغیر ملک کی ترقی کا تصور کیوں کر نہیں کیاجاسکتا؟
    مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت باالفاظ دیگر دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۴ء۱۳؍ فیصد یعنی مجموعی آبادی تقریباً ۱۶؍ کروڑ ہے جبکہ غیرسرکاری رپورٹوں کے مطابق آبادی کا یہ تناسب ۱۸؍ فیصد یعنی ۲۰؍ کروڑ سے متجاوزہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اتنی بڑی آبادی کو ایک سازش کے تحت مین اسٹریم میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تو ملک کی ترقی میں تیز رفتاری بھلا کس طرح آسکے گی؟ذرا سوچئے!وہ طالب علم جو پانچویں تادسویں  اپنے ہم جماعتوںسے برابر کی ٹکر لیتا رہا ہے، بلکہ بسااوقات دو قدم آگے ہی رہا ہے، بارہویں اوراس کے بعد سی ای ٹی، نیٹ اوراس طرح کے دیگر انٹرنس امتحانات میں سہولیات کے فقدان کے سبب اعلیٰ طبقات کے طلبہ سے تھوڑا پیچھے ہوجاتا ہے، اس طرح میرٹ کی انتہاتک نہیں پہنچ پاتا لیکن اپنی محنت کے بل بوتے پرخاطر خواہ اسکورکرنے میں کامیاب رہتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔اسے اُس  وقت انتہائی مایوسی کاسامنا کرنا پڑتا ہے جب ریزرویشن کی سہولت پانے والے اس سے کم مارکس حاصل کرکے   بھی اسے پیچھے کردیتے ہیں اور اس کا منہ چڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہ اس سیٹ پر قابض ہوجاتے ہیں، جس کا وہ خواب دیکھتا رہاہے اورجس کاوہ حقدار بھی ہے۔ ذرا سوچئے ان طلبہ پر آخر کیا گزرتی ہوگی، جو  اِن حالات سے دوچار ہوتے ہیں؟ انجامِ کاراس زمرے میں آنے والے وہ طلبہ جو اپنی صلاحیتوں کااستعمال کرکے ملک کے سنہرے مستقبل کا حصہ بن سکتے تھے،   سازش، تعصب اور غلط پالیسیوں کے سبب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انھیں بھلا  ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے پر کس طرح آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ خدا نخواستہ ایسے میں اگر چند ذہین دماغ ’غلط‘ راستے پر لگ جائیں تو اس کی ذمہ داری  آخر کس کے سر جائے گی؟
    غرض کہ باتیں  توبہت کی جاسکتی ہیںلیکن صرف باتیںکرنے سے مسئلے کاحل تو نہیں نکلے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیلئے حکومت کو آمادہ کیا جائے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت اورضروری ہے کہ قانونی سطح پر اس میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ حکومت چاہے تو اس کیلئے راستے نکل سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ اس تعلق سے سنجیدہ ہو اور ایماندارہو۔ کرناٹک اور کیرالا میں جس طرح مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولیت دستیاب ہے، پورے ملک کے مسلمانوں کو بھی ایسی سہولت مل سکتی ہے۔  یہ تمام دشواریاں سیاسی ہیں،قانونی نہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب  مذہب کی بنیاد پرمسلمانوں کو اسکالر شپ مل سکتی ہے تو ریزرویشن کی سہولت کیوں نہیں؟یاد کیجئے  اقلیتوں کے اسکالر شپ پر بھی سنگھ پریوار نے اعتراض کیاتھا اور  اسے عدالت میں چیلنج بھی کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے اسکالر شپ دیئے جانے کے  حکومت کے فیصلے کو بحال رکھا۔
    مطلب یہ کہ اگر ہمیں ریزرویشن کی سہولت چاہئے تو  متحد و متفق ہوکر حکومت کو اس کیلئے مجبور کرنا ہوگا۔اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے سیاسی سطح پر اس دم خم کا مظاہرہ کرنا ہوگا جو کسی مطالبے کو منوانے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ کام ابھی سے کرنا ہوگا اور اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر ۲۰۱۴ء کے انتخابات سے قبل اس کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی تو ہم تمام مسلمان متفقہ طور پر حکومت کے خلاف ووٹ دیںگے۔ایک بات اور۔۔۔۔۔۔ یہ ریزرویشن ذات برادری کے نام پر نہیںبلکہ معاشی صورت حال پر کی بنیاد ہونا چاہئے کیونکہ موجودہ سماج میں ذات برادری کا تصور نہیں ہے۔  بصورت دیگر باقی ماندہ مسلمانوں کے ساتھ پھر وہی ہوگا جو ابھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔آمدنی کی ایک معقول حد مقرر کی جائے اور اس سے کم آمدنی والوں کو اس کا حقدار قرار دیاجائے۔یہی مسئلہ کا حل ہے اوراسی میں ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

Saturday, 20 October 2012

dictator democracy

جمہوری تاناشاہی

کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کیلئے خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
قطب الدین شاہد

    آگے بڑھنے سے قبل آئیے چند رپورٹس اور بیانات ملاحظہ کریں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ ہمارا ملک کس طرح جمہوریت سے تانا شاہی کی طرف رواں  دواںہے اور وطن عزیز میں عوام کی کتنی فکر کی جاتی ہے؟
     ہندوستان میں وہ لوگ غریب کہلانے کا حق نہیں رکھتے ، جن کی آمدنی شہری علاقوں میں ۲۸؍ روپے اور دیہی علاقوں میں ۲۲؍ روپے یومیہ سے زائد ہو۔
منصوبہ بندی کمیشن کی  ایک رپورٹ
    ملک میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے زائد یعنی تقریباً ۵۰؍ کروڑ ہے۔
ایک سروے رپورٹ
    ۷۱؍ لاکھ روپے کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ ایک مرکزی وزیر کیلئے یہ بہت معمولی رقم ہے۔ بلا وجہ ہنگامہ مچا رکھا ہے۔
بینی پرساد ورما(مرکزی وزیر)
    ملک کے اخراجات کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سبسیڈی ختم کرنا ضروری ہے۔پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ (وزیراعظم)
    کیجریوال فرخ آباد آتو جائیںگے مگر کیا وہ یہاںسے جا بھی سکیں گے؟  میں قلم کے کام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں لیکن ضرورت پڑی تو خون سے بھی گریز نہیں کروں گا۔
سلمان خورشید (وزیرقانون)
    کیجریوال کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دو، ایک دن چلاچلا کرخاموش ہوجائے گا۔
ملائم سنگھ یادو (کانگریس کے اتحادی)
    یہاں چند ایسے بیانات نقل کئے گئے ہیں جو گزشتہ ایک ہفتے میں حکومت یا حکومت سے وابستہ شخصیتوں کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ان بیانات سےحکومت کی رعونت پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس نے جموریت کو تاناشاہی کی شکل عطا کردی ہے جہاں اختلاف کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے انتخابی وعدے میں ۱۰۰؍ دنوں میں مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  حکومت تشکیل پانے کے بعد  وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے تمام وزراء کو یہ ’حکم‘ دیا تھا کہ وہ تین مہینوں میں رپورٹ جاری کریں اور بتائیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں؟ اور ان کے کام کرنے کاطریقہ کیا ہوگا؟ اس حکم کے بدولت کانگریس کو مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی ریاستوں میںبھی دوبارہ حکمرانی کا موقع مل گیا..... مگر افسوس کہ گزشتہ تین برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ مہنگائی کم ہوئی اور نہ وزراء کے  احوال جاری ہوئے۔ا س کے برعکس اس دوران مہنگائی اوریوپی اے کے وزرا ء دونوں بے لگام ہوگئے۔
    یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۲؍ روپے یومیہ کمانے والے کو غریب نہیںسمجھاجاتا یعنی اسے سبسیڈی  کے فائدے سے محروم کردیا جاتاہے، اسی ملک کا ایک وزیریہ کہتا ہے کہ ۷۲۔۷۱؍ لاکھ روپے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک مرکزی وزیرکے شایان شان نہیں ہے۔  بینی پرساد ورما کے اس بیان میں کہیں نہ کہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ مرکزی وزراء چھوٹی موٹی رقمیں نہیں ہڑپتے  بلکہ وہ کروڑوں اور اربوں کے گھوٹالے کرتے ہیں۔   وزیراعظم بلا شبہ ایک نرم دل اور سلجھے ہوئے مزاج کے حامل شخص ہیں لیکن گزشتہ دنوں سبسیڈی ختم کرنے کااعلان کرتے ہوئے انہوں نے جو بیان دیا، اس سے ان کا ایک نیارخ سامنے آیا۔ ایسا محسوس ہواکہ ’ضرورت ‘ پڑی تو وہ سفاک بھی ہوسکتے ہیں۔ قیمتیں بڑھانے اور سبسیڈی ختم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا کہ پیسہ درختوں پر نہیں اُگتا، کچھ اچھا نہیں لگا۔وہ اسی بات کو کسی اور انداز سے بھی کہہ سکتے تھے لیکن ...... جمہوریت جب تانا شاہی کی جانب گامزن ہو تو اس کے اثرات سے وہ بھلا کب تک محفوظ رہ سکتے تھے؟
    یوپی اے حکومت کی تاناشاہی کا سب سے کریہہ چہرہ اس وقت سامنے آیا جب کیجریوال نے سلمان خورشید کی جانب انگشت نمائی کی۔کیجریوال کتنے سچے ہیںاور کتنے جھوٹے؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں، ہم یہ بھی جانتے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، اس میں ان کی اپنی مرضی شامل ہے یا ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی نیت کیا ہے؟ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایک جمہوری ملک میں ایک عام آدمی کو سوال کرنے کا حق ہے، جس کا جواب دینا عوامی نمائندوں پر لازم  ہے۔ سلمان خورشید سے اگر کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو انہیں اپنا آپااس طرح  بالکل نہیں کھونا چاہئے تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ میں سڑک پر پڑے ہوئے لوگوں کا جواب نہیں دینا چاہتا، ہندوستانی عوام کی توہین ہے۔  وزیرموصوف کو بہرحال یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہندوستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہی رہتی ہے اور انہیں  عام لوگوں کے ووٹوں کی بدولت کانگریس کو حکمرانی کا موقع ملا ہے۔ملائم سنگھ جن کے تعلق سے یہ خوش گمانی تھی کہ وہ ’عوام‘ کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ کہنا کہ’ ’وہ چلّا چلّا کر ایک دن خاموش ہوجائے گا‘‘ .... جمہوری قدروں کے منافی اور مطلق العنانیت کی دلیل ہے۔
    دراصل ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ عوام نے واقعی اپنےنمائندوں کااحتساب کرنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح انہیں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔  ایسے میں اگر کوئی احتساب  کی بات کرتا ہے تو اسے اسی طرح کی دھمکی دی جاتی ہے۔ یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں کانگریس کے یہ تیور نہیں تھے۔
    کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت کودوسرا موقع کیا مل گیا، اس کے اراکین کے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور وہ جمہوری آداب ہی بھول بیٹھے۔ان کی تمام اداؤں سے رعونت جھلکنے لگی ہے۔ بعض موقعوں پر کانگریس نےاتحادی حکومت کی مجبوری کا رونا رو کراپنی نااہلی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنے کی کوشش  بھی کی ہے لیکن  رہ رہ کر یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کانگریس کا رویہ تانا شاہی کا ہی ہے۔ ترنمول اور این سی پی سمیت تمام جماعتیں اس کی شاکی رہی ہیں۔ موجودہ سیاست میں عوام ایک ’بے ضرر‘ سی شئے بن کررہ گئے ہیں جو صرف ’ ووٹ‘ دے سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگرکسی نے جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے احتساب کی بات کی تو اس کی خیر نہیں۔ گاندھی کے تین بندروں کو جو کہتے تھے کہ ’’برا مت سنو، برا مت دیکھو اور برا مت کہو‘‘  پنجرے میں بند کرکے اوپر سے پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ نئے بندر بٹھا دیئے گئے ہیں ، جن کا فرما ن ہے کہ ’’برا سنو، برا دیکھو ، مگر کچھ مت کہو‘‘۔
    تو کیا ہمیں یہ فرمان قبول ہیں؟ اگر نہیں تو اپنے ووٹوں کی اہمیت کو محسوس کریں۔ ہمیں اور کچھ اختیارات تو حاصل نہیں ہیں لیکن ....... جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں، ان ہاتھوں کو ہم نے ہی مضبوط کیا ہے اور  انہیں صرف ہم ہی کمزور کرسکتے ہیں۔

Saturday, 6 October 2012

secular parties and gujrat

گجرات الیکشن سے سیکولر جماعتیں خوفزدہ کیوں ہیں؟

کیا گجرات ہندوستان سے باہر کی کوئی ریاست ہے؟ کیا گجرات کے عوام کی سوچ کچھ مختلف ہے؟ کیاگجرات کےعوامی مسائل ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے الگ ہیں؟  آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر جماعتیں انتخابات سےقبل ہی گجرات میں شکست تسلیم کرلیتی ہیں؟ وہ ڈٹ کر فرقہ پرستی کا مقابلہ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا گاندھی نگرسے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے؟....... نہیں ایساقطعی نہیں ہے..... اوراس کے باوجود اگر ایسا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کیلئے سیکولر جماعتیں بالخصوص کانگریس سنجیدہ نہیں ہے..... وہ چاہتی ہی نہیں کہ مودی حکومت کا خاتمہ ہو....

قطب الدین شاہد

ایک بہت مشہور فلمی ڈائیلاگ ہے ’’جو ڈر گیا، وہ مرگیا‘‘....گجرات انتخابات کے  پس منظر میں اگر سیکولر جماعتوں کی تیاریوں کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔  ظاہر ہے کہ جب ڈری سہمی یہ جماعتیں مقابلے میں جائیں گی، تو شکست سے انہیں کون بچا سکے گا۔ حالانکہ دفاعی پوزیشن میں مودی حکومت کو ہونا چاہئے مگرصاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر بداعمالیوں کے باوجود مرکز کی یوپی اے حکومت پر بھاری پڑ رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے سامنے سونیا گاندھی کی قیادت والا مرکزی لاؤ لشکر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ کانگریس کی یہ حالت دیکھ کر ہی شاید بال ٹھاکرے نے یہ بیان دیا ہے کہ ’ گجرات الیکشن میںمودی کے وجے رتھ کو روکنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا‘....
    تو کیا گجرات میں بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے کہ کانگریس یا دیگر سیکولر جماعتیں اس پر قابو نہیں پاسکتیں؟ اسے زیر نہیں کیا جاسکتا؟ اس قلع پر فتح پانا ممکن نہیں ہے؟....... ایسا بالکل نہیں ہے..... اوراگر اس کے باوجود ایسا ہے ... یعنی مودی کو ہٹانا مشکل لگ رہا ہے تو صرف اس لئے کہ کانگریس کی یہی منشاء ہے۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ مودی کی حکومت قائم ود ائم رہے۔اس کیلئے کسی اور سیکولر جماعت پر الزام اس لئے عائد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گجرات کی حد تک کسی اور جماعت میں وہ دم خم نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو اکھا ڑ پھینکے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کسی جماعت میں مودی سے ٹکرانے کی قوت نہیں ہے تو وہ وہاں انتخابی میدان میں کود کر کانگریس بمعنی سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب کیوں بنتی ہیں؟ ایک دو فیصد ووٹ لے کر یہ جماعتیں مودی کی جیت کا راستہ کیوں ہموار کرتی ہیں؟ ...... تو اس کا بھی جواب یہی ہوگا کہ کانگریس یہی چاہتی ہے۔ 
    دراصل کانگریس یہ سمجھتی ہے کہ مرکز میں اسے باقی رہنے کیلئے گجرات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کا قائم رہنا ضروری ہے۔مودی سے ڈرادھمکا کر کانگریس سیکولر ووٹوں کو ہتھیانا چاہتی ہے۔ کانگریس یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ جب چوری نہیںہوگی تو چوکیدا ر کی ملازمت کیوںکر بحال رہ سکتی ہے؟ دہشت گردانہ واقعات نہیں ہوںگے تو  بڑی بڑی تفتیشی ایجنسیوں کی ضرورت کیوں کر محسوس کی جائے گی؟
    کانگریس پر یہ الزام بے بنیاد نہیں ہے کہ وہ مودی حکومت کو بچائے رکھنا چاہتی ہے، لیکن ..... اس پر ہم گفتگو تھوڑی دیر بعد کریں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گجرات کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اور وہاں کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ کیا وہاں  بی جے پی واقعی اتنی مضبوط ہے؟  یا پھر کانگریس اتنی ہی کمزور ہے، جتنی وہ ظاہر کرتی ہے؟
    ۲۰۰۲ء میں گجرات فساد کے بعد مودی حکومت اکثریت میں  آئی تھی۔  اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ مظلومین حالات سے خوف زدہ تھے لہٰذا وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لےسکے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں رہائش پذیرتھی، یعنی وہ  ووٹ دینے کے قابل نہیں تھے.... اور جو ووٹ دے سکتے تھے، ان کے سامنے مرحوم احسان جعفری کاانجام تھا، جنہیں بچانے کی کانگریس نے کوئی کوشش نہیں کی، اسلئےانہوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کے بجائے گھروں میں رہنا ہی بہتر سمجھا۔ دوم یہ کہ..... مجرمین اور ان کے حامی اپنے تحفظ کی خاطر مودی حکومت کی واپسی چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر پولنگ میں حصہ لیا۔ اس طرح مودی اکثریت سے منتخب ہوکر گجرات کے اقتدار پردوبارہ قابض ہوئے۔ اس الیکشن میں ۶۱ء۵۴؍ فیصد پولنگ ہوئی تھی جس میں یقیناً مودی کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس الیکشن میں بی جے پی کو ۴۹ء۸۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۱۸۲؍ میں ۱۲۷؍ نشستیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو ۳۹ء۲۸؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۵۱؍ نشستوں پراکتفا کرنا پڑاتھا۔
    ۲۰۰۴ء تک آتے آتے حالات تبدیل ہوئے۔ گجرات کا زخم  رِستا ہی رہا، جس کا کرب پورے ملک نے محسوس کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کے خلاف پورے ملک میں ایک لہر چل پڑی۔ انڈیا شائننگ پر گجرات فساد کا دھبہ حاوی رہا۔ اورا س طرح بی جے پی کو اس کے گناہوں کی سزا ملی اور وہ مرکز سے بے دخل ہوگئی۔گجرات میں بھی بی جے پی مسترد کی گئی۔ ۲۶؍ پارلیمانی نشستوں میں بی جے پی کو ۱۴؍ اور کانگریس کو ۱۲؍ نشستیں ملیں۔ یعنی دونوں کی کارکردگی تقریباً برابر رہی۔ تقریباً ۹۲؍ اسمبلی نشستوں پر کانگریس بی جے پی سے آگے تھی۔ مطلب صاف تھا کہ تھوڑی سی کوشش میں کانگریس گجرات کا قلعہ فتح کرسکتی تھی۔ یہاں یہ بات واضح تھی کہ وہ تمام لوگ جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ  تھے، مودی کو  واپس لانے  کیلئے جان کی بازی لگانا چاہتے تھے ، مگر کانگریس کے حامیوں  بالخصوص سیکولر رائے دہندگان میں وہ جوش و خروش نہیں تھا کیونکہ یہ بات سب جانتے تھے کہ کانگریس کو ان مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیکولر رائے دہندگان کی یہ بے حسی ۲۰۰۷ء کے الیکشن میں نظر آئی۔کہاں تو ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں کانگریس ۹۲؍  اسمبلی نشستوں پر بی جے پی سے آگے تھی، کہاں ۲۰۰۷ء میں اسے صرف ۵۹؍سیٹیں ہی مل سکیں۔  بی جے پی کو اس مرتبہ ۱۱۷؍ سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں پارلیمانی الیکشن ہوا تو  بی جے پی کو ۱۵؍ اور کانگریس کو ۱۱؍ نشستیں ملیں۔ یہاں بھی زیادہ فرق نہیں تھا.... کانگریس اگرچاہتی توگزشتہ۳؍ برسوں میں سیکولر رائے دہندگان کا اعتماد بحال کرسکتی تھی، مگر افسوس کہ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
    یہ ہیں وہ زمینی حقائق، جو بہت واضح ہیں کہ بی جے پی گجرات میں بہت مضبوط نہیں  تھی اور نہ ہے....  یعنی اسے ناقابل تسخیر نہیں کہا جاسکتا، لیکن اگر اس کے باوجود بی جے پی کی حکومت وہاں قائم و دائم ہے، تو اس کی وجہ سمجھنی ہوگی۔ دراصل کانگریس اسی میں اپنی بھلائی سمجھتی ہے کہ ملک میں موت کا ایک سوداگر ہو، جس کا خوف دلا کر وہ باقی ماندہ ہندوستان کے سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان کو اپنے پالے میں رکھ سکے۔ کانگریس ، بی جے پی کے مقابلے سیکولر طاقتوں کو توڑنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتی ہے۔  ہم سب دیکھتے ہیں کہ مقابلہ اگر بائیں محاذ سے ہو، لالو کی آر جے ڈی سے ہو یاملائم کی سماجوادی سے ہو تو کانگریس کے تیور کیسے ہوتے ہیں اور جب بی جے پی سے ہو تو اس کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ شکست کے بعد کانگریس یہ الزام عائد کرتی ہے کہ دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے سیکولرووٹوں کو تقسیم کردیا، جس کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں، اس کیلئے کانگریس نے کیا کیا؟ کیا  ان چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی اس کی جانب سے کوئی پہل ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا تھا، تواس کیلئے ایک بڑی کوشش ہونی چاہئے تھی۔ یہ ذمہ داری صرف چھوٹی جماعتوں پر توعائد نہیں ہوتی کہ سیکولر ووٹوں کے اتحاد کا سبب وہی بنیں۔ کانگریس اُن ریاستوں میں اُن جماعتوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتی، جہاں وہ بی جے پی سے مقابلہ کرتی ہیں اور کانگریس کی حیثیت ووٹ تقسیم کرنے کی ہوتی ہے۔
    کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بی جے پی اپنے عروج میں سب سے زیادہ  اترپردیش میں مضبوط تھی۔  ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب بی جے پی  ۸۰؍ پارلیمانی نشستوں میں سے تقریباً ۶۰؍ پر قابض ہوگئی تھی۔  اس نے کانگریس کو شکست دے کر وہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہاں بھی کانگریس نے گجرات جیسی ہی پالیسی اپنا رکھی تھی، جس کے نتیجے میں عوام نے ان دونوں کو اکھاڑ پھینکا اور پھر  سماجوادی اور بی ایس پی کی شکل میں تیسری اور چوتھی قوت کو اقتدار تک پہنچایا۔ گجرات میںاگر کانگریس کا یہی رویہ رہا، تو ایک دو انتخابات کے بعد وہاں بھی تیسری اورچوتھی قوت کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ پرست نہیں ہے۔

Saturday, 11 August 2012

Har haath men mobile phone

ملک کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے حکومت کا نیا نعرہ
روٹی نہیں، موبائل لو

مرکزی حکومت نے ایک منصوبے کااعلان کیا ہے جس کے تحت  ۷؍ ہزار کروڑ روپے خرچ کرکے وہ ملک کے غریبوں کو موبائل فون دے گی۔کیا یہ ان غریبوں کے ساتھ بیہودہ مذاق نہیں ہے جو  دو وقت کی روٹی، پینے کے صاف پانی اور بیماری میں دواؤں کیلئے بھی ترستے  ہیں؟

قطب الدین شاہد
 
چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا........ ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہےگا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے، چنئی جا....‘‘۔
    کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت کا  ہے۔ عوام کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’ روٹی کیوں؟ یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں ، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلیٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔ عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتے ہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ، یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیر بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال ۶۲؍ ہزار کے مقابلے امسال ایسے لوگوں کی تعداد ۸۱؍ ہزار ہوگئی ہے، جن کی ملکیت  ۲۵؍ روپوںسے زائد ہے‘‘۔
    ہماری حکومت اعداد و شمار کے بل پرچلتی ہے۔حقیقت کچھ بھی ہو، کاغذ پر ترقی نظر آنی چاہئے۔یہ بیہودہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ جس ملک میں ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنےوالوں کو غریب تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے، اسی ملک میں حکومت ۲۰۰؍  روپے مہینے کے ٹاک ٹائم کے ساتھ مفت موبائل فراہم کرنے پر غور کررہی ہے۔ آخرحکومت کو کس نے یہ مشورہ دیا ہے کہ بھوک سے روتے بلکتے بچے موبائل کے رِنگ ٹون سن کر خاموش ہوجائیں گے  اوراطمینان سے نیند کی آغوش میں چلے جائیںگے۔اس ملک میں جہاں کی ۳۷؍ فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے  زندگی گزارتی ہے یعنی ۲۶؍ روپے یومیہ خرچ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی ، اس ملک میں موبائل فون عام کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ موبائل کمپنیوں کے مفاد میں کیا جارہا ہے۔عوام کی فلاح کے نام پر عوام کے خزانے سے یہ ۷؍ ہزار کروڑ روپے بڑی آسانی سے موبائل کمپنیوں کی جیب میں چلے جائیںگے۔ بالکل اسی طرح جیسے پینے کے پانی کی فراہمی اور بیماریوںسے نجات کیلئے دواؤں کے چھڑکاؤ کے بجائے مقامی و بلدیاتی انتظامیہ فلائی اوور اور فوٹ اوور بریج کے منصوبے بناتی ہیں اور اسےبآسانی منظورکرالیتی ہیں۔ دراصل ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس طرح کے منصوبوں کی تکمیل میں وارے نیارے کرنے کے  مواقع  زیادہ رہتے ہیں۔
      دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ موبائل ’غریبوں‘ کو فراہم کئے جائیں گے..........اُن غریبوں کو جو بجلی کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ اگرانہیں موبائل مل بھی جائے تو ان کیلئے اسے چارج کرنا مشکل ہوجائے گا۔شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کو پسند کررہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب  رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصد کسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہیں کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ۱۳؍ برسوں میں قرض کے بوجھ تلے دبے تقریباً ڈھائی  لاکھ کسان خود کشی کرچکے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب  ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے۔ حکومت کوفکرہے تو۱۲۳؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ۸۱؍ ہزار افراد کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہاںبدعنوانی کا پرچم اتنا بلند ہے۔ بدعنوانی کے معاملے میں ۱۸۳؍ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ۹۵؍ویں پوزیشن پر ہے۔ ملک کے وسائل سے فیضیاب ہونے کے معاملے میں یہاں عدم مساوات بھی کافی ہے۔ ۱۸۷؍ ممالک کی اس فہرست میں ہمارا مقام ۱۳۴؍ واں ہے۔ 
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہم تمام ہندوستانیوں کیلئے روٹی ، کپڑا ، مکان، صحت اور تعلیم کاانتظام کرنا چاہتے ہیں یا شرح نمو، سنسیکس ، کرکٹ ریکارڈاور اولمپک میڈل کے سہارے خود کوترقی یافتہ بتانا چاہتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کرکہ ریاست بہار کی ایک خاتون دو وقت کی روٹی کیلئے اپنے بچے کو ایک غیر اوراجنبی شخص کے ہاتھوں فروخت کر نے پر مجبور ہوتی  ہے، جبکہ اسی ملک میں اولمپک میڈل جیتنے کیلئے ملک کے خزانے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لندن اولمپکس کی تیاری پر حکومت نے ۵۵؍ کروڑ ۲۲؍ لاکھ روپے خرچ کئے ہیں۔ گزشتہ دنوںبی سی سی آئی نے کپل دیو کو ڈیڑھ کروڑ کا چیک دیا اور ماہانہ ۳۵؍ ہزار روپے کی پنشن جاری کی۔
    دراصل یہ سب اسلئے ہے کہ ہم خاموش  ہیں۔ہم اپنی حکومت اور اپنے نمائندوں کا احتساب نہیں کرتے، ہم انہیں یہ باور نہیں کراتے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔یقین جانئے یہ لوٹ کھسوٹ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم اپنی بیداری کا اعلان نہیں کریںگے۔

Saturday, 16 June 2012

An open letter to politician

عوامی نمائندوں کے نام ایک شہری کا کھلا خط
 
ملک کے پہلے شہری کے انتخاب میں
 شہریوں کی بھی تو کچھ رائے  لیجئے جناب

مکرم و محترم، معزز عوامی نمائندوں کی خدمت میں حقیر و پُر تقصیر ایک ناچیز شہری کا آداب!
    یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ یعنی عوامی نمائندے، ہم یعنی عوام کی باتوں کو کم ہی خاطر میں لاتے ہیں،ہمارے جذبات و احساسات پر متوجہ ہونے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں.... پھر بھی کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ’شایدکہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات‘.....
     اور کچھ  نہ کہوں تو کیسے؟ خاموشی جہاں ہمارے نزدیک بے ایمانی کی علامت ہے، وہیں طبی نقطہ نظر سے یہ ہاضمے کی خرابی کا باعث بھی بنتی ہے۔ویسے یہ مسئلہ صرف عوام کا ہے، آپ جیسے خواص کا نہیں، کہ خاموشی  ہی آپ کا خاصّہ ہے۔ آپ تب تک خاموشی میں یقین رکھتے ہیں جب تک کہ آپ کے ذاتی مفاد پر کوئی ضرب نہ پڑے..... اور آپ کے ہاضمے کی تو خیر دنیا قائل ہے.... توپ اور تابوت تک کا پتہ نہیں چلتا۔
    اب جبکہ پرنب مکھرجی کا رائے سینا ہل پہنچنا تقریباً یقینی ہوچکا ہے، کیونکہ تادم  ِ تحریر پی اے سنگما کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار میدان میں نظر نہیں آرہا ہے..... ذرا ۲؍ منٹ کیلئے ٹھہرجائیں، سینے پر ہاتھ رکھیں، ضمیر سویا ہوا ہو، تو  دو چار جھٹکے (تھپکی نہیں) دیں.... اور پھر غورکریں کہ جو کچھ بھی ہوا، یا ہونے جارہا ہے، اس میں عوامی جذبات و احساسات کا کتنا خیال رکھا گیا ہے؟ آپ کے فیصلے کو کتنے فیصد عوام کی تائید حاصل ہے؟  اور یہ کہ جب آپ   دوبارہ ہمارے رو برو آئیںگےتو ہمیں کس طرح  قائل کریںگے؟ یقین جانئے! ان سوالوں پر غور کریں گے تو ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں ہونے کے باوجود بھی پسینے میں نہا جائیںگے اور بے حسی کی عینک لگائے بغیر آپ ہم سے نظریں نہیں ملا سکیںگے۔
    پرنب داد ا کی امیدواری پر ہمیں قطعاًاعتراض نہیں، وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک ہیں، قابل ہیں، باصلاحیت بھی ہیں، مگر جس عہدے کیلئے ان کا انتخاب ہونےجارہا ہے، اس کیلئے ان کے مقابلے دیگر دونوں امیدوار یعنی ڈاکٹر عبدالکلام اور سومناتھ چٹرجی زیادہ موزوں ہیں۔یہ عوام کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ درست بھی ہو، اور آپ خواص کی سوچ و فکر سے میل بھی کھائے..... کیونکہ آپ کی فہم و ادراک اور عوام کے شعور میں زمین و آسمان کا فرق ہے... عوام کنوئیں کے مینڈک ہیں، وہ صرف ملک کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ آپ کی فکر کا دائرہ وسیع ہے، آپ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، اپنی پارٹی کے بارے میں سوچتے ہیں، دور اندیش ہوتے ہیں، نرم گرم سب سمجھتے ہیں اور کبھی کبھار ملک کے بارے میں بھی سوچ لیتے ہیں۔
    برا مت مانئے!  ہم پرنب دادا کی ایمانداری پر شبہ نہیں کررہے ہیں  اور کرنا بھی نہیں چاہئے....لیکن کانگریس کی ’ دادا گیری‘ پر ضرور شبہ ہورہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ کانگریس کے ایک بہترین ناخدا رہے ہیں۔ جب بھی اس کی کشتی منجدھار میں پھنستی ہے تو پرنب دادا  ہی اسے پار لگاتے ہیں، اور وہ وہی کرتے ہیں جو اُن سے توقع کی جاتی ہے۔ ان حالات میں شبہ پیدا ہونا لازمی ہے کہ کہیں اس باوقار عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی ......
    اس کے برعکس سومنا تھ چٹرجی اور ڈاکٹر عبدالکلام اپنی غیر جانب داری سے ہم عوام کا دل جیت چکے ہیں.... شاید اسی لئے وہ آپ کے ناپسندیدہ بھی ہیں۔ آپ بھلا یہ کیونکر چاہیںگے کہ جس عہدے کو ربراسٹامپ کے طور پر آپ نے شہرت بخشی ہو، کوئی اسے بااختیار ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ آپ نے ان دونوں کی ناقدری کرکے عوام کا دل دکھایا ہے۔
    یقین جانئے! آج اگر  صدر کےانتخاب کی ’آزادی‘  ہمیںمل جائے تو آپ کو پتہ چل جائےگا کہ آپ عوام میں کتنے مقبول ہیں؟ لیکن یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ آج نہیں تو کل آپ کو ایک بار پھر ہمارے سامنے آنا    ہے، تب آپ کو ان سوالوںکا جواب دینا ہوگا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ الیکٹورل کالج کا رکن ہوجانے کی وجہ سے آپ کومن مانی کااختیار مل گیا ہے، نہیں جناب! آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے ووٹوں کی قیمت بھی ہماری بدولت ہے۔یعنی جہاں کی جتنی آبادی ہے، وہاں کے عوامی نمائندے کے ووٹ کی  قدراُتنی  ہی ہے۔ ایسے میں کیا آپ کو ہمیں اس طرح نظر انداز کرنا چاہئے۔ 
    کہاں گئے وہ جو کہتے تھے کہ اس مرتبہ اس عہدے پر کوئی سیاست داں نہیں آنا چاہئے، کہاں گئے وہ جونائب صدر کو صدر بنانے کی وکالت کررہے تھے، اور کہاں گئے وہ جو کسی مسلم کو صدر بنانے کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کوبیوقوف بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ پرنب جی تو اس معیار پر کسی طرح پورے نہیں اُترتے۔ پھر ان کی حمایت کیوں؟ کیا اس پر کوئی بحث ہوئی ہے؟ اگر ہوئی ہے تو وہ ہم سے شیئر کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ ہماری بے چینی کو دور کیوں نہیں کیاجارہاہے؟ یا پھر سودے بازی کا معاملہ ہے؟
    جو بھی ہو.... جو ہونا تھا ، ہو چکا! یعنی اب وہی ہوگا جو طے پاچکا ہے،  ضمیر جاگنے یا کسی انقلاب کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی... البتہ اب جو کرنا ہے، وہ  ہمیں یعنی عوام کو کرنا ہے۔ بہرحال ہمیں وہ موقع ملے گا اور جلد ہی ملے گا، بالکل اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ملا تھا۔ یاد ہے نا! کچھ لوگ کہتے تھے کہ بنے گی تو ہماری حکومت، ورنہ صدر راج ہوگا..... پھر کیا ہوا، وہ ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی۔

احقر       
قطب الدین شاہد

Monday, 21 May 2012

The three years of UPA IInd Govt.

 یوپی اے  حکومت کی دوسری میقات کے تین سال
عروج سے زوال کی داستان

یکے بعد دیگرے کئی گھوٹالوں نے گزشتہ تین برسوں میں یوپی اے حکومت کی شبیہ بری طرح خراب کی ہے۔  بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے...... مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔

قطب الدین شاہد

یوپی اے حکومت آئندہ دو دنوں میں اپنی  دوسری میقات کے تین سال مکمل کرلے گی۔ ۲۲؍مئی ۲۰۰۹ء کو وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ حلف لیا تھا۔ اس حلف برداری کے ساتھ ہی انہوں نے ایک تاریخ مرتب کی تھی۔ وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ایسے دوسرے وزیراعظم بن چکے تھے ، جو ۵؍ سال کی میعاد مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدے پر پہنچے ہوں۔اسی کے ساتھ اور بھی کئی ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن.....اس کے بعد اس پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا......  دراصل یہیں سے ان کااوران کی حکومت کا زوال  شروع ہوتا ہے۔
    وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اپنی شبیہ اس دوران کتنی خراب ہوچکی ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء کی انتخابی مہم میں جب بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے انہیں کمزور وزیراعظم کہہ دیا تھا تو خواص کے ساتھ عوام نے بھی ناراضگی کااظہار کیا تھا۔لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری تھی کہ شریف النفس قسم کے وزیراعظم کو کمزور کہا جائے...لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی سوچ میںخاصی تبدیلی آئی ہے۔ شرافت کا بھرم تو ہنوز قائم ہے لیکن اس دوران مضبوط وزیراعظم کا تصور پاش پاش ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی اس کمزوری کی تشہیر اپوزیشن سے تعلق رکھنےوالی جماعتیں اور اراکین ہی نہیں بلکہ خودکانگریسی بھی کرتے پھر رہے ہیں۔
    اس تعلق سے ایک لطیفہ سن لیجئے۔کہاجاتا ہے کہ ایک شاہراہ پر ایک شخص زور زور سے چلارہا تھا کہ’ ’وزیراعظم نکمّا ہے..... وزیراعظم نکما ہے....‘‘ اُدھر سے ایک وزیر کا گزر ہوا، اس نے اس شخص کو گرفتار کروادیا، کہا: تم وزیراعظم کو نکماکہتے ہو۔ اس نے کہا : حضور ہم اپنے نہیں برطانوی وزیراعظم کو نکما کہہ رہے ہیں۔ وزیرنے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، کیا میں نہیں جانتا ہوں کہ کون وزیراعظم نکما ہے۔‘‘ یہ بہرحال ایک تخلیقی لطیفہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے اپنے کابینی رفقا ہی ان کی ناکامی کی تشہیر بنے ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں اس کی ایک  مثال  اُس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب دگ وجے سنگھ اور پی چدمبرم بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے پر لن ترانی کررہے تھے ۔اس معاملے پر وزیراعظم کی خاموشی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ ان کا بس اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں ہے۔ 
    یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں بھی سرخاب کے پر نہیں لگے تھے، لیکن حال  اتنا برا بھی نہیں تھا جتنا اَب ہے۔کچھ کوششیں بہرحال اچھی تھیں،جس کی وجہ سے ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں کانگریس کو ۲۰۰۴ء کے مقابلے ۶۱؍ نشستیں زائد مل گئی تھیں۔   کانگریس نے اسے اپنی کارکردگی کاانعام سمجھا اور پھر یہیں سے کانگریس میں خود سری  بھی آنی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے نہ صرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں شروع کردیں بلکہ اس کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب حکومت نے عوام اوران کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔
    بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔
    بڑے بزرگوں نے بالکل درست ہی کہا ہے کہ کسی غافل کو بیدار کرنا آسان ہے لیکن اس شخص کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے جو بیدار ہے مگر غفلت کا مظاہر ہ کررہا ہے۔  یہ بات موجودہ یو پی اے حکومت پرصادق آتی ہے۔ اسے ملک کی بدقسمی سے ہی تعبیر کریںگے کہ اس وقت وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی، وزیرداخلہ پی چدمبرم، وزیر شہری ترقیات جے رام رمیش، منصوبہ بندی کمیشن کے چیئر مین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ اور وزیراعظم کے معاشی مشاورتی کونسل کے چیئر مین سی رنگ راجن   جیسے ماہر ین معاشیات ملک کو کنٹرول کررہے ہیں اور ملک کی حالت یہ ہے کہ ایک تہائی سے زائد آبادی بھوکی اور ننگی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک بیماری کا احساس نہیں ہوگا، اس کے علاج کی کوششیں نہیں ہوںگی اور جب علاج نہیں ہوگا تو شفا کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
    یہ تو ہے یوپی اے کی کارکردگی کا مجموعی تاثر۔ اگر ایک مسلم کی حیثیت سے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مزیدمایوسی کااحساس ہوتا ہے۔یوپی اے نے سچر کمیٹی کی رپورٹ تو طشت از بام کردی .. اور پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کی اوقات بتادی کہ ان کی حالت دلتوںسے بھی بدتر ہے لیکن ..... اس کیلئے بہتری کی کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وقت بہت جلد آئے گا، جب ہندوستانی شہریوں کو  یو پی اے حکومت کا گریبان پکڑ کر یہ پوچھنے کا موقع ملے گا کہ اقتدار پانے کے بعد تم نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اوراب ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں؟