یوپی اے حکومت کی دوسری میقات کے تین سال
عروج سے زوال کی داستان
عروج سے زوال کی داستان
یکے بعد دیگرے کئی گھوٹالوں نے گزشتہ تین برسوں میں یوپی اے حکومت کی شبیہ بری طرح خراب کی ہے۔ بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے...... مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔
قطب الدین شاہد
یوپی اے حکومت آئندہ دو دنوں میں اپنی دوسری میقات کے تین سال مکمل کرلے گی۔ ۲۲؍مئی ۲۰۰۹ء کو وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ حلف لیا تھا۔ اس حلف برداری کے ساتھ ہی انہوں نے ایک تاریخ مرتب کی تھی۔ وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ایسے دوسرے وزیراعظم بن چکے تھے ، جو ۵؍ سال کی میعاد مکمل کرنے کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدے پر پہنچے ہوں۔اسی کے ساتھ اور بھی کئی ریکارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن.....اس کے بعد اس پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا...... دراصل یہیں سے ان کااوران کی حکومت کا زوال شروع ہوتا ہے۔
وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اپنی شبیہ اس دوران کتنی خراب ہوچکی ہے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۹ء کی انتخابی مہم میں جب بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی نے انہیں کمزور وزیراعظم کہہ دیا تھا تو خواص کے ساتھ عوام نے بھی ناراضگی کااظہار کیا تھا۔لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری تھی کہ شریف النفس قسم کے وزیراعظم کو کمزور کہا جائے...لیکن گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی سوچ میںخاصی تبدیلی آئی ہے۔ شرافت کا بھرم تو ہنوز قائم ہے لیکن اس دوران مضبوط وزیراعظم کا تصور پاش پاش ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی اس کمزوری کی تشہیر اپوزیشن سے تعلق رکھنےوالی جماعتیں اور اراکین ہی نہیں بلکہ خودکانگریسی بھی کرتے پھر رہے ہیں۔
اس تعلق سے ایک لطیفہ سن لیجئے۔کہاجاتا ہے کہ ایک شاہراہ پر ایک شخص زور زور سے چلارہا تھا کہ’ ’وزیراعظم نکمّا ہے..... وزیراعظم نکما ہے....‘‘ اُدھر سے ایک وزیر کا گزر ہوا، اس نے اس شخص کو گرفتار کروادیا، کہا: تم وزیراعظم کو نکماکہتے ہو۔ اس نے کہا : حضور ہم اپنے نہیں برطانوی وزیراعظم کو نکما کہہ رہے ہیں۔ وزیرنے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے بے وقوف سمجھتے ہو، کیا میں نہیں جانتا ہوں کہ کون وزیراعظم نکما ہے۔‘‘ یہ بہرحال ایک تخلیقی لطیفہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے اپنے کابینی رفقا ہی ان کی ناکامی کی تشہیر بنے ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں اس کی ایک مثال اُس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب دگ وجے سنگھ اور پی چدمبرم بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے پر لن ترانی کررہے تھے ۔اس معاملے پر وزیراعظم کی خاموشی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھی کہ ان کا بس اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں ہے۔
یوپی اے حکومت کی پہلی میقات میں بھی سرخاب کے پر نہیں لگے تھے، لیکن حال اتنا برا بھی نہیں تھا جتنا اَب ہے۔کچھ کوششیں بہرحال اچھی تھیں،جس کی وجہ سے ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں کانگریس کو ۲۰۰۴ء کے مقابلے ۶۱؍ نشستیں زائد مل گئی تھیں۔ کانگریس نے اسے اپنی کارکردگی کاانعام سمجھا اور پھر یہیں سے کانگریس میں خود سری بھی آنی شروع ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے نہ صرف اپنی اتحادی جماعتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں شروع کردیں بلکہ اس کے بعد ایسے کئی مواقع آئے جب حکومت نے عوام اوران کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔
بلا شبہ وزیراعظم کی شرافت پر سوالیہ نشان ابھی تک نہیں لگا ہے لیکن وزیراعظم کا کام صرف شرافت کا مظاہرہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں ملک اور ملک کے خزانے کی حفاظت بھی ہے، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہر سو لوٹ مچی ہوئی ہے۔اس دوران کئی گھوٹالے منظر عام پر آچکے ہیں اور کئی آنے کو منتظرہیں۔
بڑے بزرگوں نے بالکل درست ہی کہا ہے کہ کسی غافل کو بیدار کرنا آسان ہے لیکن اس شخص کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے جو بیدار ہے مگر غفلت کا مظاہر ہ کررہا ہے۔ یہ بات موجودہ یو پی اے حکومت پرصادق آتی ہے۔ اسے ملک کی بدقسمی سے ہی تعبیر کریںگے کہ اس وقت وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی، وزیرداخلہ پی چدمبرم، وزیر شہری ترقیات جے رام رمیش، منصوبہ بندی کمیشن کے چیئر مین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ اور وزیراعظم کے معاشی مشاورتی کونسل کے چیئر مین سی رنگ راجن جیسے ماہر ین معاشیات ملک کو کنٹرول کررہے ہیں اور ملک کی حالت یہ ہے کہ ایک تہائی سے زائد آبادی بھوکی اور ننگی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو اس پر افسوس بھی نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک بیماری کا احساس نہیں ہوگا، اس کے علاج کی کوششیں نہیں ہوںگی اور جب علاج نہیں ہوگا تو شفا کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
یہ تو ہے یوپی اے کی کارکردگی کا مجموعی تاثر۔ اگر ایک مسلم کی حیثیت سے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مزیدمایوسی کااحساس ہوتا ہے۔یوپی اے نے سچر کمیٹی کی رپورٹ تو طشت از بام کردی .. اور پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کی اوقات بتادی کہ ان کی حالت دلتوںسے بھی بدتر ہے لیکن ..... اس کیلئے بہتری کی کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کانگریس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وقت بہت جلد آئے گا، جب ہندوستانی شہریوں کو یو پی اے حکومت کا گریبان پکڑ کر یہ پوچھنے کا موقع ملے گا کہ اقتدار پانے کے بعد تم نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اوراب ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں؟
No comments:
Post a Comment