Saturday, 5 May 2012

President election

صدر جمہوریہ کے انتخاب کا معاملہ
اتفاق رائےکے شوشے کے ساتھ ہی سیاسی
جوڑ توڑ بھی جاری

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے اس مرتبہ عجیب و غریب کوششیں ہورہی ہیں۔ان کوششوں کو سیاسی جماعتوں نے  ’اتفاق رائے‘ کا نام دے رکھا ہے۔بلا شبہ اتفاق رائے کی اپنی اہمیت ہے اور اس میں  برکت بھی ہے ، مگرا س کے لئے اخلاص شرط ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے ہونے والی کوششوں میں اخلاص کم، سیاسی سودے بازی زیادہ نظر آرہی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ امیدوار کی اہلیت و قابلیت  پر کسی جماعت کا اصرار نہیں ہے بلکہ سبھی کی کوشش یہی ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے پر بیٹھنے والی شخصیت ان کی پسندیدہ ہو، باالفاظ دیگر اُن کی سننے والی ہو...... کیا یہ افسوس کا مقام نہیں؟

قطب الدین شاہد

صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کی آوازیں آرہی ہیں۔ عام حالات میں کانگریس جو اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتی، اتفاق رائے کا راگ الاپ رہی ہے، اوراس کیلئے اس نےاپوزیشن کی جماعتوںسے بھی گفتگو کرنے کاعندیہ ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی جسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، صدر کے امیدوار کے طور پر ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی حمایت کااعلان کیا ہے۔ بایاں محاذ جس نے اس سے قبل بطور صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبدالکلام کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے اس عہدے کیلئے کسی سیاسی شخصیت کی وکالت کی تھی، اس مرتبہ کسی غیر سیاسی شخص کو صدر بنانے کی تحریک چلا رہا ہے۔ ممتا بنرجی،کروناندھی، مایاوتی اور ملائم سنگھ بھی ’اتفاق رائے‘کی بات کررہے ہیں لیکن سیاسی حلقوں سے جس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں، اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ جماعتیں اتفاق رائے کے نام پر سیاسی سودے بازی کررہی ہیں۔ کانگریس کے امیدوار کی حمایت کی قیمت  پر ممتا بنرجی بنگال کےلئے اقتصادی پیکیج لینا چاہتی ہیں تو کرونا ندھی مختلف الزامات میں گھرے اپنے اعزہ کیلئے سیاسی پشت پناہی اور مایاوتی تاج کاریڈور معاملے میںاپنے لئے  راحت کی متمنی ہیں جبکہ ملائم سنگھ کے تعلق سے کہاجارہا ہے کہ وہ نائب صدر کا عہدہ اپنے بھائی کو دینا چاہتےہیں۔مطلب صاف ہے کہ یہ تمام جماعتیں کسی اصول اور کسی پیمانے کی بنیاد پر صدر کا انتخاب نہیں کررہی ہیں بلکہ ان تمام کا واحد اصول یہی ہے کہ اس عہدے پر  براجمان کوئی بھی ہو، فائدہ ان کا  ہونا چاہئے۔
      اب تک اس عہدے کیلئے کئی نام سامنے آچکے ہیں، جس میں حامد انصاری اور پرنب مکھرجی کا نام سرفہرست ہے۔   دراصل کانگریس کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آئندہ  ہونے والے عام انتخابات میں اُسے اتنی نشستیں نہیں مل سکیںگی کہ وہ آسانی سے حکومت سازی کا دعویٰ کرسکے۔ اس صورت  میں صدر کا رول کافی اہم ہوگا۔ وہ قطعی نہیں چاہے گی کہ اس عہدے پرکسی ایسی شخصیت کاانتخاب ہو، جو کانگریس کو ’اہمیت‘ نہ دے... .... یا یہ کہ کانگریس کو ’فوقیت‘ نہ دے۔ یہی خدشہ بی جے پی کو بھی ستارہا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں بلکہ دونوں اتحادوں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا صدر منتخب کرسکیں۔ ان حالات میںبی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ امیدوار  اگر اس کا پسندیدہ نہیں تو کم از کم   اس کا ناپسندیدہ بھی نہ ہو۔ اس کیلئے وہ بادل نخواستہ ہی سہی تیسرے محاذ کے کسی امیدوار کی حمایت پر راضی ہوجائے گی۔   ان حالات میں کانگریس کی کوشش یہی ہے کہ ’کچھ بھی کرکے‘ وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔  اطلاعات کے مطابق پرنب مکھر جی  کے نام پر  بایاں محاذ کے ساتھ ممتا، کرونا ندھی اورمایا وتی بھی تیار ہوسکتی ہیں اور کچھ ’جواز‘ پیدا کرکے ملائم سنگھ بھی حامی بھر سکتے ہیں۔ ملائم سنگھ کے سامنے مسئلہ صرف ایک ہے کہ ان کی جانب سے براہ راست نہ سہی مگر بالراست یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہ اس عہدے پرکسی مسلم کو بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایسی کوئی بات نہیں کہ اس کیلئے وہ کوئی ’جواز‘ نہ پید ا کرسکیں۔ یہ تصویر حالانکہ کچھ دنوں میں واضح ہوجائے گی لیکن سیاسی جماعتوں کی اب تک جو ’کسرت‘ چل رہی ہے، اس سے بہرحال یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس باوقار آئینی عہدے کیلئے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچ رہی ہے۔ویسے موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوںسے اس طرح کی کوئی امیدکی بھی نہیں جانی چاہئے۔ یہاں جب ایک سرپنچ کے عہدے کیلئے  سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرگزرنے کی کوشش کرڈالتی ہیں، تو پھر یہ تو وطن عزیز کا سب سے بڑا عہدہ ہے۔
    دیکھاجائے تو اس عہدے کیلئے کوئی ایسی ہی شخصیت ہونی چاہئے جو سیاسی جماعتوں کے دھونس میں نہ آئے، سب کے ساتھ انصاف کرے اور  ضرورت آن پڑے تو آئین کی حفاظت کرتے ہوئے حکومت کو من مانی کرنے سے روک  سکے۔  یہ عہدہ ابھی تک کسی بھی ایسی شخصیت کا انتظار کررہا ہے۔ بلاشبہ راجندر پرساد، ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین، کے آر نارائنن اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے صدور گزرے ہیں جنہوں نے وقتِ ضرورت اپنی اہلیت ثابت کی ہے لیکن...... یہاں ٹی این سیشن اور جسٹس احمدی جیسا کوئی کردار چاہئے جو عوام و خواص کی اس غلط فہمی کود ور کرسکے کہ یہ عہدہ نمائشی نہیں بلکہ آئینی اور بااختیار ہے۔ ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی این سیشن سے قبل الیکشن کمیشن کے عہدے کو اور جسٹس احمد ی سے قبل چیف جسٹس کی اہمیت کو بہت کم لوگ سمجھتے تھے۔ 
    یہ بات درست ہے کہ بیشتر معاملات میں صدر کابینی فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب صدر فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ کئی معاملات میں وہ خصوصی اختیار رکھتا ہے اور اس کے اطلاق کیلئے وہ وزیراعظم یا اس کی کابینہ کے مشورے کا محتاج نہیںہوتا۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس عہدے کو کوئی ایسا شخص رونق بخشے جو اِن اختیارات  کے مناسب استعمال  سے واقف ہو۔
     اس لحاظ سے دیکھیں توڈاکٹر عبدالکلام ایک موزوں امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ان کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت پوری دنیا کے سامنے ہے، ان کی سوچ ، فکر اور ان کی سادگی کی دنیا قائل ہے۔ وہ نئی نسل کے آئیڈیل قرار دیئے جاسکتے ہیں  اور اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ گزشتہ میقات میں انہوں نے اسے ثابت بھی کیا تھا۔  ہم سب کو یاد ہے کہ ملائم سنگھ کی سفارش پر بی جے پی نے انہیں نامزد کیا تھا اور اس کے بدلے بھیروں سنگھ شیخاوت کو نائب صدر کی کرسی دلائی تھی، لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے بی جے پی کو خاطر میں نہیں لایا۔ ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۲ء کوجب ان کا انتخاب عمل میں آیا تھا، گجرات میں خونیں فساد جاری تھا ، جو۵؍ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔  ڈاکٹر عبدالکلام نے اس موضوع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلانے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ یہ وزیراعظم کااختیار ہے کہ وہ جوائنٹ  سیشن بلائے یا نہ بلائے، لہٰذا واجپئی نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد صدر نے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے گجرات دورے کا اعلان کردیا۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ۱۲؍ اگست ۲۰۰۲ء کے اس دورے کے بعد ہی گجرات میں فساد پر ’قابو‘ پایا گیا تھا۔ اس دورےسے بی جے پی  نے کافی پیچ و تاب کھایا تھا لیکن وہ کچھ کرنہیں سکتی تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی وہ کلام کو صدر بنانا چاہتی ہے تو صرف اسلئے کہ اس عہدے پر کوئی کانگریس حامی شخص نہ متمکن ہو جائے ۔
    ضروری نہیں کہ اس عہدے پر کوئی مسلم ہی فائز ہو جیسا کہ سماجوادی پارٹی نے اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے جاتی ہیں لیکن کم از کم ملائم سنگھ کو تو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ کھلونوںسے مسلمانوں کو بہلایا نہیں جاسکتا ۔ مسلم رائے دہندگان اب کافی باشعور ہوگئے ہیں، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر ، نائب صدر اور اسپیکر جیسے عہدوں سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے بلکہ انہیں عزت کی دو روٹی کیلئے مناسب ملازمتیں چاہئیں۔ ان حالات پر کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے کہ وطن عزیز میں کسی مسلم کو صدر بنانا آسان ہے لیکن کسی مسلم کو چپراسی کی ملازمت دلانا بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں کم از کم اس طرح مسلمانوں کااستحصال نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ سماجوادی پارٹی اگر واقعی مسلمانوں کا بھلاچاہتی ہے تواسے چاہئے کہ صدر کے عہدے پرکسی بھی  مناسب مسلم یا غیرمسلم  امیدوار کی حمایت کردے اور اس کے بدلے میں یوپی اے حکومت سے مسلمانوں کیلئے کوئی پیکیج طلب کرلے ، جس طرح ممتا بنرجی بنگال کیلئے کوشاں ہیں۔
    یہ بات اس لئے بھی کہی جارہی ہے کہ موجودہ الیکٹورل کالج کے لحاظ سے سماجوادی پارٹی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ صدر کے انتخاب میں جسے چاہے کامیاب کروادے۔ کانگریس اور بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ اسی کے پاس ہیں۔فی الحال اس کے پاس دونوں ایوانوں میں ۳۰؍اراکین پارلیمان اور ۲۲۴؍ اراکین اسمبلی ہیں۔  اس طرح اس کے پاس۲۳؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار ۲۳۵؍ ووٹوں میں ایک لاکھ ۵۷؍ ہزار ۱۷۰؍ یعنی ۶ء۵۶؍فیصد ووٹ ہیں۔اب دیکھنا  ہے کہ ملائم سنگھ کس طرح اس موقع  سےمسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟

الیکٹورل کالج کیا ہے؟
    صدر کے انتخاب کیلئے دونوں ایوانوں کے اراکین پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے منتخب نمائندے ووٹ دیتے ہیں۔ ان کےووٹوں کی قیمت مختلف ہے، جیسے اترپردیش کے ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت جہاں ۴۹۵؍ ہے وہیںسکم اور اروناچل پردیش کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت بالترتیب ۱۹؍ اور ۲۳؍ ہے۔ ان کے ووٹوں کی قیمت کا تعین ریاست کی آبادی سے کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی ریاست کی مجموعی آبادی  کو اراکین اسمبلی کی تعداد سے تقسیم کیاجاتا ہے اور پھر اسے ایک ہزا ر سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح تمام ریاستوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد کو اراکین پارلیمان کی تعداد سے تقسیم کرکے ان کے ووٹوں کا تعین کیا جاتا ہے۔  اس وقت ایک ایم پی کے ووٹ کی قیمت ۱۵۴۳؍ ہے۔  دیگرریاستوں کے اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت کچھ اس طرح ہے۔ بہار (۴۲۷)،مہاراشٹر (۳۹۰)، راجستھان (۳۴۳)، گجرات (۳۳۲)، مدھیہ پردیش (۳۱۶)، مغربی بنگال (۳۱۱)، تمل ناڈو (۳۰۸)، آندھرا پردیش (۲۸۸)، اڑیسہ (۲۸۵)، چھتیس گڑھ (۲۸۴)، ہریانہ (۲۸۲) اور کرناٹک (۲۷۳)... وغیرہ     (بشکریہ : وکی پیڈیا
)

No comments:

Post a Comment