Wednesday, 30 September 2015

Power loom agitation

پاور لوم کا خاموش احتجاج

گاندھیائی اصول پر عمل کرتے ہوئے بھیونڈی کےپاورلوم مالکوں  نےحکومت اور استحصالی قوتوں کے خلاف اپنے کاروبارکو  بطور احتجاج  ۱۵؍دنوںتک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے.... اور اعلان کے مطابق  بندکا آغاز بھی ہوچکا ہے  جسےجزوی طور پرکامیاب کہا جا سکتا ہے۔   یہ ’بند‘ پوری طرح  سےکامیاب کیوں نہیں ہے، اس کی وجہ ’بند‘ کااہتمام کرنےوالوں کی ناقص منصوبہ بندی اور کچھ حد تک ان کی ’نیتوں‘ میں فتور کا بھی مسئلہ ہے لیکن ابھی اس پر گفتگو کا وقت نہیں ہے کیونکہ ابھی ضرورت اس بات کی ہےکہ جس مقصد کیلئے بند کیا گیا ہے، وہ حاصل کیا  جائے۔
    دن رات شور مچاکر زندگی کا ثبوت پیش کرنے والی اور مزدوروں کے ساتھ ۲۴؍ گھنٹوں تک مسلسل محنت و مشقت کرنے والی ان پاورلوم مشینوں نے پوری طرح سے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ صبح ان خاموش کارخانوں کو دیکھا تو ایک عجیب سی کیفیت ہوئی۔ ہر طرف سناٹے کا عالم تھا لیکن  یہ سناٹا ایسا نہیں تھا جس سے خوف آئے بلکہ یہ خاموشی ایسی تھی جس پر ترس آئے۔  ایسا لگ رہاتھا جیسے کوئی معصوم بچہ اس امید پر روٹھ گیا ہے کہ ابھی کوئی آئے گا، اسے منانے کی کوشش کرے گا، اس کے مطالبات سنے گا ، ا نہیں پورا کرنے کی یقین دہانی کرائے گا اور اس طرح اس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن ایساکچھ نہیں ہو رہا ہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے،  ہر چہرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔کیا ہوگا؟ کیا کوئی منانے آئے گا یا اس روٹھے ہوئے بچے کو خود ہی مراجعت  اختیار کرنی پڑے گی؟ حکومت کے موجودہ اورسابقہ رویے کو دیکھتے ہوئے اس بات کی امید تو نہیں ہے کہ ان کی اشک شوئی کیلئے کوئی آئےگا؟
       بھیونڈی میں تقریباً ۷؍ لاکھ رجسٹرڈ پاور لوم ہیں جن پر یومیہ۴؍ کروڑ میٹر سے زائد کپڑے تیار ہوتے ہیں جن کی مالیت ۷۰؍ کروڑ روپوں سے زائد ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو صرف ویٹ کی صورت میں حکومت کو بھیونڈی  سے یومیہ تقریباً ۳؍ کروڑ روپے ملتے ہیں۔  پاور لوم کے اس خاموش احتجاج سے حکومت کو بھی ۵۰؍ کروڑ روپوں کا چونا لگنے والا ہے ..... لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
          ورنہ کیا بات ہے کہ ریلوے کے بعد سب  سے زیادہ روزگار فراہم کرنےوالی اس صنعت کے تعلق سے حکومت یوں غیر سنجیدہ  ہے؟ ۷؍ لاکھ پاور لومس کو جاری وساری رکھنے کیلئے تقریباً ۵؍ لاکھ کی افرادی قوت درکار ہوتی ہے اور ہر شخص اوسطاً ۱۰؍ افراد کی کفالت کرتا ہے۔  ڈائمنڈ مارکیٹ ایک دن کیلئے بندہوتو ریاست سے مرکز تک ہنگامہ برپا ہوجاتا  ہے اور یہاں ۵۰؍ لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہیں لیکن سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔  دراصل یہ ہماری سیاسی بے وقعتی ہے۔ ہم نے خود کو اس قابل رکھا ہی نہیں ہے کہ کوئی ہماری بات سنے۔  ہماری بات اس وقت سنی جائے گی جب سرکار کو یہ احساس ہو کہ  نہ سننے پر اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

Hamare mamlaat

ہم اور ہمارے معاملات

ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق کے زور پر پھیلا ہے اوراپنی بساط بھر اس دعوے کی تشہیر بھی کرتےہیں لیکن کبھی اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس درمیان پل کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا۔  بلاشبہ ہمارا دعویٰ درست ہے لیکن آج ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اس دعوے پر کوئی بھلا کیوں کر یقین کرے گا؟
    ان دنوںفیس بک اور وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات ایک دوسرے کو خوب فارورڈ  کئے جارہے ہیں کہ اسلام صرف اور صرف اپنے اخلاق کی بدولت تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر چھا گیا تھا اور آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بڑی تیز سے لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔اس کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ ان پیغامات میں اس بات کا رونا بھی رویا جاتا ہے کہ اسلام کی ان اعلیٰ درجے کی تعلیمات کے باوجود اسلام کی غلط شبیہ پیش کی جارہی ہے۔ اس کیلئے ہم صہیونی اور برہمنی نظام کو ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔
    بلاشبہ کچھ حد تک یہ بات بھی درست ہے لیکن یہاںہمیں تھوڑی دیر ٹھہر کرسوچنا چاہئے کہ کیا ہم مسلمانوں کے تعلق سے جو باتیں آج کہی  جارہی ہیں، وہ پوری کی پوری غلط اورمسترد کردیئے جانے کے لائق ہیں یا یہ کہ اس میں کچھ ہماری اپنی غلطی بھی ہے۔
    ہمارا کوئی غیرمسلم پڑوسی جو ہمیں روزانہ مسجد آتے جاتے دیکھتا ہے اور ساتھ ہی دھڑلے سے کھڑکی کے ذریعہ سڑک پر کچرا پھینکتے ہوئے بھی روزانہ مشاہدہ کرتا ہے، وہ کیوں کر سمجھے گا کہ اسلام میں صاف صفائی کو نصف ایمان  کا درجہ حاصل ہے ۔
    ڈاڑھی ٹوپی اور کرتے پاجامے میں دیکھ کر کوئی غیر مسلم ہمارے اخلاق سے کیوں کر متاثر ہوگا ، اگروہ ہمیں کسی کو گالیاں دیتے ہوئے اور بات بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھے گا۔
    کاروباری اور لین دین کے معاملے میں ہماری بے ایمانی اور بد عہدی کو دیکھنے کے بعد کسی کو اس بات پر کیوں کر یقین آئے گا کہ اسلام میں ایمانداری اور ایفائے عہد کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
    مسلکی ، نسلی اور علاقائی  مسائل پر ہمیں آپس میں دست و گریباں دیکھنے اور ایک دوسرے کے تئیں بلا تکلف نفرت کے اظہار کے بعد کوئی یہ کیسے محسوس کرے گا کہ اسلام میں اتحاد کی بڑی اہمیت ہے  اور برادران وطن کے پاس  یہ پیغام کیسے پہنچے گا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے کسی بھی ایک اعضا کو تکلیف پہنچے تو اس شدت کو پورا جسم محسوس کرے۔
    صورتحال یہ ہے ہم معاملات میں بہت ناقص  ہیں بلکہ اس کی اہمیت ہی نہیں سمجھتے ۔ ظاہری عبادات کے تو قائل ہیں لیکن معاملات میں شفافیت کے نہیں۔ ایسے میں ہماری شبیہ کیوں کر بہتر ہوسکے گی؟

Raushan jahan

روشن جہاں نے ذہنوں کوروشن کردیا

تھوڑی سی خامی اور بہت ساری خوبیوں کےساتھ گزشتہ دنوں انجمن فروغ تعلیم بھیونڈی کا سالانہ جلسہ ٔ  تقسیم انعامات کا انعقاد عمل میں آیا۔ شہر بھیونڈی کی یہ ایک ایسی روایتی تعلیمی تقریب  ہوتی ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔امسال یہ ۲۶؍ واں سالانہ جلسہ تھا۔
    اس جلسے کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ جہاں طلبہ میں مسابقت کا رجحان پیدا کرتا ہے، وہیں بھیونڈی کے تمام ۳۴؍ اردو میڈیم ہائی اسکولوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بھی کام کرتا ہے۔ انعامات سے جہاں طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہیں اسٹیج پر موجود ’مثالی طلبہ‘ کو دیکھ کر کچھ کرگزرنے کاجذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔
    امسال کے جلسے نے ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی جب بالترتیب تنویر منیار( مہاراشٹر کے ایس ایس سی ٹاپر) اور الماس ناظم سید(ریاستی سطح پر ایچ ایس سی کی سیکنڈ ٹاپر) نے اس تقریب میں شریک ہوکر طلبہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس بار یہ کارنامہ ایم بی بی ایس کی فائنل ایئر کی طالبہ روشن جہاں نے انجام دیا۔  روشن   نے طلبہ کے ذہنوں کو روشن کردیا اور اپنی  روداد سنا کر یہ پیغام دیا کہ ’معذوری جسمانی نہیں، حوصلے کی ہوتی ہے‘۔ انہوں نے  ثابت کیا کہ جسمانی معذوری کوئی معنی نہیں رکھتی، حوصلوں سے معذور افراد ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔  روشن جہاں کا بھیونڈی آنا، اس تقریب کا حاصل رہا۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ بھیونڈی آکر انہوں نے یہاں کے طلبہ پر ایک بڑا احسان کیا ہے۔
     روشن کی کہانی بہت طویل ہے۔ مختصراً  یہ کہ یہ حوصلہ مند بچی جب ۱۱؍ ویں میں زیر تعلیم تھی تو ایک دن گھر سےکالج جاتے ہوئے ٹرین سے گر پڑی اور اس کے دونوں پیر گھٹنے کے اوپر سے کٹ کر جسم سے الگ ہوگئے۔ تین ماہ تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد روشن جہاں دونوں پیروں سے معذور ہوکر اپنے گھر واپس آئی۔ تب تک گیارہویں کے سالانہ امتحان کا وقت قریب آگیا تھا۔ والدین ، دوست و احباب اور اساتذہ کے ہمت دلانے پر اس نے دن رات محنت کرکے امتحان دیا اورکامیابی حاصل کی۔اس میں اس کی والدہ کا  بہت اہم رول رہا۔ وہ روزانہ اسے وہیل چیئر پر بٹھاکر کالج لے جاتیں اور پھرواپس گھر لاتیں۔ اس طرح روشن نے ۷۵؍ فیصد مارکس سے ایچ ایس سی کامیاب کیا اور سی ای ٹی کے امتحان میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممبئی کے معروف میڈیکل کالج ’کے ای ایم ‘ میں داخلہ لیا۔ آج وہ فائنل ایئر میں ہے۔
    روشن نے اپنی مثال دیتے ہوئے طلبہ سے کہا کہ مسائل اور پریشانیوں کا حوالہ دے کر زندگی کی گاڑی کو بریک مت دینا بلکہ میری طرح  ان پریشانیوں کوشکست دے کر آگے بڑھنا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ روشن جہاں کا ایک ایک لفظ وہاں طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہورہا تھا۔ جب وہ اپنی روداد سنا رہی تھی تو ہال کا سناٹا اور سامعین کی بھیگی آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں  ۔

bsu travel

بس کا سفر، پریشانی ہی پریشانی

سفرکیسا بھی ہو اوراس کیلئے کتنابھی آرام دہ  ذریعہ استعمال کیا گیا ہو،  پریشانیاں بہرحال آتی ہیں... اور اگر یہ سفر ایس ٹی بس سے ہو تو ... خدا کی پناہ۔ان بسوںسے ایک بار سفر کرنے کے بعد اگر کوئی دوسری بار بھی ایس ٹی کے ذریعہ سفر کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس سے سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ اس کے پاس یا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے  یا پھر دوسرے ذرائع اس کی استطاعت سے باہر ہیں۔  یہ صورتحال کسی ایک شہر، خطے یا صوبے کی نہیں ہے بلکہ ملک کی اکثر ریاستوں میں یہی کیفیت ہے۔
        ایسا کیوں ہے؟ اس منفعت بخش شعبے کو حکومتوں نے گھاٹے کا سودا کیوں بنا رکھا ہے؟ اس جانب عوامی نمائندوں کی دلچسپی کیوں نہیں ہے؟   مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے  پاس ۱۵؍ ہزار ۵۰۰؍ بسیں ہیں جن میں ۱۴؍ ہزار ۲۲؍ عام بسیں ہیں۔ زیادہ تر مسائل انہی بسوں   کے ہیں۔ اے سی اور سیمی لکژری بسیںقدرے غنیمت ہیں۔ 
          ایسا لگتا ہے کہ بس اسٹینڈ  کے ذمہ داران کی کوئی جوابدہی نہیں ہے۔ مسافربھٹکتے رہتےہیںلیکن انہیں اطمینان بخش جواب نہیں  دیا جاتا بلکہ اپنے رویے سے  وہ یہی ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ مسافروں پر احسان کررہے ہوں۔ ریاست کے کئی بس ڈپو شرابیوں، جواریوں، چوروں اور لفنگوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن چکے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذمہ داران مسافروں کی لائن نہیں لگواتے لہٰذا جیسے ہی کوئی بس آتی ہے، مسافر اس میں گھسنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جہاں چوروں کی بن آتی ہے وہیں لفنگوںکے سبب خواتین کو کافی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین  روزانہ ان لفنگوں کی اذیت سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ وہ کریںبھی تو کیا کریں؟ اگر آرام سے بس میں سوار ہونے کی کوشش کریں تو منزل تک انہیں کھڑے  ہوکر جانے پر مجبور ہونا پڑے گا اور سیٹ پانے کی جدوجہد کریں تو ..... پولیس اسٹیشن تو ہر ڈپو میں ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی آنکھیں ہمیشہ بند ہی رہتی ہیں۔
          ایسا دراصل اسلئے ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ اس جانب نہیں ہوتی ۔ اول تو یہ کہ وہ کبھی ان بسوںسے سفر نہیں کرتے لہٰذا انہیں مسافروں کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ حکومت میں وزیر کا عہدہ نہ پانے والے ناراض لیڈروں کو یہاں چیئرمین شپ اوردیگر عہدے دے کر خاموش کرایا جاتا  ہے لہٰذا سرکار ان سے  زیادہ باز پرس نہیں کرپاتی اور تیسری  اہم بات یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی تنظیم نہیں ہے کہ وہ اس کیلئے سرکار پر دباؤ ڈالے جبکہ جمہوریت میں اب یہ اصول بن گیا ہے کہ دباؤ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔    حالانکہ حکومت  چاہے تو یہ شعبہ بھی اس کی خاصی کمائی کا سبب بن سکتا ہے۔  بیسٹ بسیں اس کی واضح مثال ہیں۔  ریلوے کی طرح لوگ بسوں سے بھی سفر کرنا پسند کریں گے اورایسا ہوا تو ٹریفک کے مسئلے سے بھی عوام کو نجات مل سکے گی۔

Genration gap

جنریشن گیپ

عام طور پر جمعہ کی نماز ہم ایک ایسی مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں جگہ کی تھوڑی قلت ہے۔مصلیان باہر کھلے آسمان تلے نماز ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔  بارش کے دنوںمیںبڑی دِقت ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمارا موضوع مصلیان کو ہونے والی  پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں اور بزرگوں کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تربیت کے مراحل سے گزرنے والے نوعمر بچے مسجد میں وقت پر پہنچتے ہیں لیکن  جماعت کی صف بندی کے دوران گھس پیٹھ کرنے والے بڑے اور بزرگ ان بچوں کو دھکیل کر باہر نکال دیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ مسجد سے نکال دیئے جانے والے  یہ بچے وہاں سے کیا تاثر لے کر نکلیں گے؟ اول تو یہ کہ وہ بڑوںکا احترام کرنا چھوڑ دیں گے، دوم یہ کہ وہ شاید مسجد کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیں۔ آج ہماراموضوع یہی ہے کہ بزرگوں اور بچوںکے درمیان فاصلہ کیوں در آیا ہے؟
    یہ شکایت عام ہے کہ بچے، بڑوں کی عزت نہیں کرتے، سلام کرنا تو دور کی بات، انہی کے سامنے ہنسی مذاق اور دھینگا مشتی کرتے ہیں، ڈانٹنے پر منہ چڑاتے ہیں  اور بعض تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی شکایتیں اساتذہ کو اپنے طلبہ سے بھی ہیں۔ اساتذہ کے مطابق  اسکول اور کالج  کے احاطے کے باہر کی بات جانے دیں، کلاس اورکیمپس میں بھی طلبہ ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ حالات کو اس قدر روبہ زوال دیکھ کر پرانے لوگ کڑھتے ہیں،   ناراض ہوتے ہیں، نئی نسل سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیںاور چلتے پھرتے ان کی شکایتیں کرتے ہیں۔ بلا شبہ بڑوں کی شکایتیں درست ہیں لیکن....
         یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟یہ جنریشن گیپ کیوں ہے؟ کل ایسا نہیںتھا، تو آج ایسا کیوں  ہے؟ اس صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ بچے واقعی  نالائق ہیں یابڑوں کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے؟
    ہمارے خیال سے اس کیلئے صرف بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ آج کے اساتذہ اور بزرگ اگر کل کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے بچپن کا موازنہ آج کے  بچوں سے کرتے ہیں تو وہ غلط ہے۔ وہ اسلئے کہ ان بزرگوں کو اچھے بزرگ اوراچھے اساتذہ میسر تھے  جو آج کے بچوں کو خال خال ہی نصیب ہیں ....
    اس کیلئے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں۔ بچوں کو درمیانی صف سے کنارے کردینے یا پھر پیچھے کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے لیکن.... ایسا کرتے ہوئے  انداز کیا ہونا چاہئے؟ وہ زیادہ اہم ہے۔  اگر ان بچوں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کیا جائے تو انہیں قطعی برا نہیں لگے گا اور وہ بڑوں کے تئیں بدگمان نہیں ہوں گے۔   بچے تو معصوم ہیں۔ زمانے سے انہیں جو ملے گا، وہی لوٹائیںگے۔  یقین جانئے اگر بچوں کو اپنے بڑوں سے محبت وشفقت ملنے لگے تو یہ ان کی جوتیاںسیدھی کرنے میں آج بھی پیچھے نہیں رہیںگے۔

Bihar ke musalman aur election

بہار کے مسلمان فرقہ پرستوں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

  بہار میں الیکشن کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی کا خیمہ پوری طرح سے سرگرم ہوچکا ہے ۔ آر ایس ایس کے ساتھ اس کے اراکین بہار کے چپے چپے پر پھیل گئے ہیں اور دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔  بی جے پی کے سامنے دو باتیں نہایت واضح ہیں۔ اس الیکشن سے ایک جانب جہاں اسے دہلی کی ہزیمت کا داغ مٹانا ہے وہیں بہار اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھا کر راجیہ سبھا میں بھی اپنی پوزیشن بہترکرنی ہے تاکہ وہ من مانی کرنے کے قابل ہوسکے۔ ایسے میں بہار کے مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ   اس وقت  وہ فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کا غرور خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں

قطب الدین شاہد

 بہار کاانتخابی منظر نامہ ابھی پوری طرح صاف نہیں ہوا ہے۔ وہاں کے سیاسی حالات پل پل بدل رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ قطعی نہیں نکالا جاسکتا کہ آنےوالے اسمبلی الیکشن میں بھی وہ تمام ووٹ انہی جماعتوں یا اتحادوں کو ملیں گے۔آرجے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس اور این سی پی کے اتحاد سے  سیکولر حلقوں میں ایک آس بندھی تھی کہ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی سے پٹخنی کھانے کے بعد  ایک بار پھر رعونت کا مظاہرہ کرنےوالی بی جے پی کو بہار میں بھی دھوبی پچھاڑ کا سامنا ہوگا۔ اعداد وشمار ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ اس اتحاد کیلئے   این ڈی اے کو روند کر آگے بڑھنا کچھ مشکل نہیں ہوگا لیکن چھٹی حس کہتی ہے کہ معاملہ اتناآسان نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کے ساتھ ،کچھ غیرمرئی قوتیں بھی زعفرانی محاذ کی کامیابی کیلئے پورا زور لگا رہی ہیں۔ کچھ بی جے پی کی حمایت کرکے اسے فائدہ پہنچا رہی ہیںتو کچھ مخالفت کا ڈراما رچ کر اسے اقتدار تک پہنچانے کا سامان پیدا کررہی ہیں۔
     دراصل بی جے پی اوراس حکومت سے فائدہ اٹھانے والے قومی اور  بین الاقوامی صنعت کاروں کی نظریں بہار پر اس لئے مرکوز ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف ریاستی اسمبلی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر راجیہ سبھا میں نشستوں کی تعداد پر بھی پڑے گا۔ متازع تحویل اراضی بل، جی ایس ٹی بل اور انشورنس بل کو قانونی شکل اختیار کرنے میں راجیہ سبھا ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی  اور اس کے حامی جی جان لگارہے ہیں کہ نہ صرف بہاراسمبلی پر قبضہ ہو جائے بلکہ راجیہ سبھا میں اس کی نشستوں کی تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہوجائے۔
    اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ۲۴۵؍ رکنی ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس  ۴۸؍ سیٹیں ہیں  جبکہ ۷؍ پارٹیوں پر مشتمل این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد بھی صرف ۶۴؍ تک ہی پہنچتی ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے پاس ۶۸؍ اور جنتاپریوار کے پاس راجیہ سبھا کی ۳۰؍ سیٹیں ہیں۔  بی جے پی چاہتی ہے کہ  اپنی سرکار (مودی حکومت) کی میقات کے دوران ہی کسی طرح اس کی اور اس کی حامی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد ۱۰۰؍  پار کرجائے تاکہ جے للتا ، ممتا بنرجی اور ملائم سنگھ کو کسی بہانے راضی کر کے وہ کچھ اہم بلوں کو اپنی مرضی کے مطابق پاس کرواسکے۔  اس کیلئے بی جے پی کے تھنک ٹینک صرف بہار پر ہی نہیں بلکہ آئندہ ہونے والے مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں اوراس طرح وہ راجیہ سبھا میںمضبوطی کیلئےابھی سے کوشاں ہیں۔ ان کا منصوبہ قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہے۔۲۰۱۸ءتک اترپردیش، مغربی بنگال، گجرات، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی چھوٹی بڑی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔اس درمیان مختلف ریاستوں میں کم و بیش راجیہ سبھا کی۱۵۳؍ نشستیں خالی ہوںگی ، جن پر بی  جے پی کے تھنک ٹینک  کی نظریں مرکوز ہیں۔  آئندہ سال بہار میں راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں جن کاانتخاب مجوزہ اسمبلی الیکشن  میں کامیاب۲۴۳؍ اراکین کریںگے۔ ۲۰۱۶ء میںسبکدوش ہونے والے  ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ خیال رہے کہ بہار  سے منتخب ہونے والے  راجیہ سبھا اراکین کی کل تعداد ۱۶؍ ہےجبکہ اترپردیش  سے ۳۱؍ اراکین منتخب ہوتے ہیں۔ یوپی میں اسمبلی انتخابات  ۲۰۱۷ء میں ہوںگے۔  
     بہار اور اس کے بعد ہونےوالے مختلف ریاستوں کے انتخابات کیلئے بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں بہت سنجیدہ  ہیں۔ بہار کے تئیں بی جے پی کے حوصلے اس لئے بھی بہت زیادہ بلند ہیں کہ لوک انتخابات میں اسے وہاں توقع سے زیادہ نشستیں مل گئی تھیں۔ لوک سبھا کی کل۴۰؍ نشستوں میں این ڈی اے نے ۳۱؍ سیٹیں حاصل کرلی تھیں جن میں سے ۲۲؍ سیٹیں تنہا بی جے پی کی تھیں۔  بی جے پی کو سب سے زیادہ یعنی ۲۹ء۸۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن تب اور اب کے حالات میں کافی فرق آچکا ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن سے ، حالیہ لوک سبھا الیکشن تک اور لوک سبھا الیکشن سے ابھی تک، بہار کے سیاسی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا  ہے، ان میں مزید تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی الیکشن میں جہاں  بی جے پی اور جے ڈی یو کااتحاد تھا، وہیں  آر جے ڈی کے ساتھ ایل جے پی تھی لیکن لوک سبھا الیکشن میں مساوات یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ ایل جے پی نے بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا تو آر جے ڈی اور جے ڈی یو تنہا انتخابی دنگل میں اُتری تھیں۔
     اب یہ بات بھی پرانی ہوچکی ہے۔  بہار کے رائے دہندگان کے سامنے اب نیا اتحاد اور نئی مساوات ہے۔ ایک جانب جہاں کانگریس، آر جے ڈی اور جے ڈی یو کا عظیم اتحاد سامنے آیا ہے، وہیں اس اتحاد سے جیتن رام مانجھی اور پپو یادو جیسے  ذات برادری پر اثر و رسوخ رکھنےوالے کچھ لیڈروں کااخراج بھی عمل میں آیا ہے۔این سی پی اور سماجوادی پارٹی  کے مؤقف ہنوز واضح نہیں ہیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے ان دونوں جماعتوں کا بہار کی سیاست میں کچھ زیادہ عمل دخل نہیں ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو وہاں کےعوام اس کی اوقات بتا چکے ہیں جب اس کے ۱۴۶؍ امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی اور تمام کے تمام کی ضمانت ضبط ہوئی تھی۔ البتہ مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) کے انتخابی میدان میں اتر جانے کے اشاروں سے سیکولر حلقوں میں تھوڑی تشویش ضرور پائی جارہی  ہے۔   ویسے اس بات کا امکان  ذراکم ہی ہے کہ بہار میں اسدالدین اویسی کی پارٹی کی دال گل سکے گی۔  یوپی اور بہار  معاشی طور پر بھلے ہی پسماندہ ہوں لیکن وہاں کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کا لوہا دنیا مانتی ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں   سیکولر پارٹیوں کی انا پرستی کی وجہ سے بھلے ہی این ڈی اے کو زیادہ سیٹیں مل گئی ہوں لیکن اُس ناسازگار ماحول میں بھی کشن گنج کے مسلم رائے دہندگان  سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی اور جے ڈی یو کے امیدوار اخترالایمان کے درمیان مفاہمت کرانے میں کامیاب رہے تھے۔     چونکہ اس بار مقابلہ بہت سخت ہوگا لہٰذا اس بات کے خدشات پائے جارہے ہیں کہ ووٹوں کے تھوڑاسا اِدھر اُدھر ہونے سے کئی سیٹیں دوسرے خیمےمیں جا گریں گی۔ بی جے پی کی نظریں اسی پر ہیں کہ وہ کچھ جماعتوں کو اس بڑے اتحاد سے الگ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس کیلئے آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بھی کسی کو سا تھ رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔کانگریس کا ساتھ مل جانے سے ان میں بھی کانگریسیت آگئی ہے۔ 
       بی جے پی کا  رام ولاس پاسوان کی  لوک جن شکتی پارٹی، اوپندر کشواہا کی  راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام پارٹی سے ابھی تک انتخابی سمجھوتہ نہیں ہوسکا ہے لیکن  بی جے پی اور آر ایس ایس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے  یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تاخیر سے ہی سہی، یہ تمام جماعتیں مل کر ہی انتخاب لڑیں گی اور بی جے پی کی شرطوں پر ہی لڑیںگی۔  بی جے پی انہیں زیادہ سیٹیں نہیں دے گی کیونکہ بی جے پی  کا مقصد صرف بہار اسمبلی پر بھگوا لہرانا نہیں ہے بلکہ اپنے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا ہے تاکہ وہ راجیہ سبھا میں اپنی تعداد بڑھا سکے۔ اس کے بدلے بی جے پی انہیں ’کچھ اور‘ دے سکتی ہے۔ اس ’کچھ‘ میں مرکزاور ریاست میں حکومت سازی کی صورت میں وزیروں کی اضافی تعداد بھی ہوسکتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس نے ریاست کو مختلف خطوں میں تقسیم کرکے ان علاقوں کے انچارج نامزد کردیئے ہیں اورایک ایک بوتھ پر ذمہ دار ان تعینات کردیئے گئے ہیں جو دن رات ایک کئے ہوئےہیں۔ اسی طرح  وزیراعظم مودی بھی  دبئی سے سیدھا بہار پہنچ کر یہی ثابت کرتے ہیں۔ 
     ان حالات میں بہار کے ۱۷؍ فیصد مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ حسب سابق سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔ ان کی جانب پورے ملک کی نظریں ہیں کیونکہ بہار کے مسلمان اس وقت  فرقہ پرستوں اور مفاد پرست سرمایہ داروں کے غرور کو خاک میں ملانے کی پوزیشن میں ہیں۔  یہ بات درست ہے کہ سیکولر پارٹیوں کی کامیابی کیلئے جتنے کوشاں مسلمان ہوتے ہیں، اتنے دوسرے نہیں ہوتے اور یہ شکایت بھی بجا ہے کہ اس کا صلہ انہیں اتنا نہیں ملتا، جتنا کہ ملنا چاہئے لیکن  اسی کے ساتھ یہ  بات بھی ہمیں تسلیم کرکے چلنا چاہئے کہ جمہوری ملک میں ہم بذات خود اپنی طاقت پر کچھ نہیں کرسکتے لہٰذا سیکولر ازم کو نعمت یا مجبوری سمجھ کر  اسے  طاقت بخشنے کی کوشش بہرحال کرنی چاہئے۔ ایم آئی ایم کی نیت پر ہم شک نہیں کرسکتے اور اس کے انتخابی عمل میں حصہ لینے  کی کوشش کو ناحق بھی نہیں کہہ سکتے لیکن وقت کا تقاضا تو یہی کہ اسدالدین اویسی بہار اور یوپی  میں فی الحال انتخابی قسمت آزمائی سے قبل اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں  اور جب انتخابی میدان میں اتریں تو دیگر سیکولر پارٹیوں سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اتریں تاکہ اسمبلی میں وہ اُن افراد کی نمائندگی کرسکیں جنہوں نے انہیں اپنا قیمتی ووٹ دیا ہے اور ان کی حمایت کی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی اپنی پارٹی کے حق میں اچھا ہوگا بلکہ مسلم رائے دہندگان کیلئے بھی اچھا ہوگا اور  بی جے پی کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بننے پر سیکولر حلقوں سے مبارکباد کے مستحق بھی قرار پائیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ انتخابی عمل میں کود نے سےمتعلق تذبذب کا شکار ہوں تو یوپی کی ۲؍ مسلم جماعتیں ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی اور مولانا عامر رشادی کی مسلم کونسل کا حشر دیکھ لیں۔
    بہار کاانتخاب اگر دو طرفہ ہوتا ہے یعنی آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس  اتحاد کا مقابلہ  بی جے پی ، ایل جے پی ، آر ایل ایس پی اور ہندوستانی عوام کے اتحاد سے ہوتا ہے تو بلاشبہ سیکولر محاذ کا پلڑا بھاری رہے گا لیکن مقابلہ پھر بھی سخت ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں ان دونوں محاذ کو بالترتیب ۴۲؍ اور ۴۰؍ فیصد کے آس پاس ووٹ ملے تھے۔ بلاشبہ اس دوران  بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے لیکن اس کے طویل مدتی منصوبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیکولر طبقے بالخصوص مسلمانوں کو ہمہ وقت  بیدار،ہوشیار اور خبر دار رہناہوگا کیونکہ مقابلہ خرگوش اور کچھوے کا نہیں بلکہ تقریباً برابری کا ہے۔

بی جے پی کی طویل مدتی منصوبہ بندی

      زعفرانی محاذ کی خواہش  راجیہ سبھا میں اپنی سیٹوں کی تعداد بڑھانی ہے، اس لئے اس کا ریاستوں پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ آئندہ تین برسوں میںاترپردیش، مغربی بنگال، گجرات،تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور پنجاب سمیت ملک کی ۲۱؍ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں جس کا آغاز بہار سے ہورہا ہے۔ ان تمام ریاستوں کے انتخابات پر بی جے پی  اوراس کے حامیوں کی نظریں مرکوز ہیں۔
کب  اورکہاں اسمبلی انتخابات ہوںگے؟
۲۰۱۵ء
بہار
۲۰۱۶ء
آسام، کیرالا، پانڈیچری، تمل ناڈو اور مغربی بنگال
۲۰۱۷ء
 گوا، گجرات، ہماچل پردیش، منی پور، پنجاب، اترپردیش اور اتر اکھنڈ
۲۰۱۸ء
چھتیس گڑھ، کرناٹک، ایم پی، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، راجستھان اور تریپورہ

     آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۷۵؍ نشستیں خالی ہورہی ہیں، جن میں بہار بھی شامل ہے۔  ۲۰۱۷ء میں صرف ۱۰؍ نشستیں خالی ہوںگی لیکن اس کے بعد یعنی ۲۰۱۸ء میں ایک بار پھر ۶۸؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں، کہاں کتنی سیٹیں خالی ہورہی ہیں۔
بہار
    بہار میں آئندہ سال راجیہ سبھا کی ۵؍ نشستیں خالی ہونے والی ہیں اورسبکدوش ہونےوالے ان تمام اراکین کا تعلق جے ڈی یو سے ہے۔ بی جے پی کی کوشش کم از کم تین سیٹوں  پر قبضہ کرنے کی ہے۔
 اترپردیش
     یہاں  ۲۰۱۶ء میں راجیہ سبھا کی ۱۱؍ سیٹیں خالی ہوںگی لیکن یہاں بی جے پی کا خواب پورا نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ اسمبلی میں اس کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ وہ کوئی تیر مار سکے۔اس میں بہت مشکل سے بی جے پی ایک سیٹ لے سکے گی جبکہ باقی ماندہ سیٹوں پر ایس پی اور  بی ایس پی ہی قابض ہوںگی۔
مہاراشٹر
    آئندہ سال یہاں  ۶؍ سیٹوں پرالیکشن ہوگا۔ فی الحال ان میں سے کانگریس اوراین سی پی کی ۲۔۲؍ سیٹیں ہیں جبکہ بی جے پی اور شیوسینا کی ایک ایک۔  بی جے پی کا یہاں فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ اسے مزید ۳؍سیٹیں مل سکتی ہیں۔
مدھیہ پردیش
    یہاں ۳؍ سیٹیں خالی ہوں گی۔ ان میں سے ایک پرکانگریس اور ۲؍ پر بی جے پی قابض ہے۔ آئندہ بھی صورتحال کم و بیش ویسی  رہنے کی امید ہے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی تینوںسیٹیں جیت لے۔
    راجستھان
    آئندہ سال یہاں ۴؍ سیٹوں کیلئے الیکشن ہوگا جن میں سے چاروں بی جے پی جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ فی الحال ان میں سے ایک پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ تین سیٹیں کانگریس کی ہیں۔
      علاوہ ازیں ان تین برسوں میں، تمل ناڈو ، پنجاب، مغربی بنگال، آسام اور آندھرا پردیش میں بھی راجیہ سبھاکی سیٹیں خالی ہوںگی لیکن تنہا بی جے پی کیلئے اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے۔ یوپی، بہار اور بنگال میں اس کی کارکردگی  بہت اچھی رہی تو بھی وہ ۷۰؍ نشستوں  سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ویسے بی جے پی کو اتنی سیٹیں مل گئیں تو بھی اس کی من مانی کافی بڑھ جائے گی

Tuesday, 21 July 2015

Modi ki bolti band

مودی کی بولتی بند
 
قطب الدین شاہد

بی جے پی کے اسٹار مقرر تھے لیکن آج چھپتے چھپاتے پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ صرف ایک سال میں’پھینکو ‘سے ’مون مودی‘ ہوگئے۔ یوپی اے کے دور حکومت میں بات بات پرسوال پوچھنے والے اور حکومت کوگھیرنےوالے نریندر مودی اب بڑے بڑے موضوعات پر بھی لب کشائی کی زحمت نہیں کررہے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ ہو یا للت مودی سے ان کی پارٹی کی ۲؍ اہم خاتون لیڈروں کے مراسم کی بات ہو، مہاراشٹر کا چکی گھوٹالہ ہو یا پھر منظم طور پر  مدھیہ پردیش کا ریاست گیر ویاپم اسکینڈل۔ ان تمام موضوعات پر وزیراعظم  نے چپی سادھ رکھی ہے۔
     بہت پرانی بات نہیں ہے، ابھی ایک سال قبل تک بی جے پی کی جانب سے صرف مودی بولتے تھے، ہرموضوع پر بولتے تھے اور بہت بولتے تھے، خواہ اس موضوع سے ان کی واقفیت ہو ، نہ ہو۔  بی جے پی نے انہیں اپنے لئے زندہ طلسمات سمجھ لیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاریخ اور جغرافیہ سے متعلق اپنی کم علمی کی بنا پر وہ کئی بار مذاق کا موضوع بھی بنے لیکن ، مودی، بی جے پی اور ان کے حامیوں کو اس وقت کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ مودی کی اسی یاوہ گویائی کی وجہ سے سوشیل میڈیا پر انہیں پھینکو کہا جانے لگا تھا لیکن ایک ہی سال میں مودی ، پھینکو سے مون مودی ہوگئے۔ ایک سال قبل نریندر مودی ،بات بات پر اُس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا مذاق اڑایاکرتے تھے، ان کی خاموش مزاجی پر طنزیہ فقرے کستے تھے اورانہیں مون مون سنگھ کہتے تھے۔ آج  مودی جی خود اپنے ہونٹ سی لینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
    مودی جی کی حالت دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک صاحب کہیں دعوت میں گئے تو کھانا کھانے کے بعدایک پیالے میں زردہ بھی پیش کیا گیا۔ یہ زردہ چمچ سے کھانا تھا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ گرم ہوگا۔ایک چمچ اٹھاکر منہ میں رکھا تو نانی یاد آگئی لیکن کریں تو کیا کریں؟ اگلنے پر بے عزتی کا خطرہ تھا۔ ایسے میں کسی طرح اسے نگل گئے لیکن اس عمل کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے قریب بیٹھے ایک صاحب پریشان ہوگئے کہ بھائی کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہے ہیں؟  اب یہ بیچارے اپنی کیفیت کیا بتاتے لہٰذا ایک کہانی گھڑی کہ ’’میرے پڑوس میں ایک بچہ بہت بیمار ہے۔ میں گھر سے نکل رہا تھا تو اس کےاہل خانہ اسے اسپتال لے جارہے تھے۔ابھی یہ لقمہ لیتے ہوئے مجھے اس کا  خیال آگیاتو آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ ‘‘ تب تک وہ صاحب بھی ایک چمچ زردہ اپنے منہ میں رکھ چکے تھے۔ لقمہ منہ میں ڈالتے ہی انہیں  اندازہ ہوگیا کہ کون بیمار ہے اور کتنا بیمار ہے؟ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔  اس پر ایک تیسرے صاحب نے استفسار کیا کہ بھئی آپ کو کیاہوا؟ توانہوں نے کہا کہ’’ مجھے بھی وہ بچہ یاد آگیا۔ پتہ نہیں اس کی طبیعت کیسی  ہے؟ اسپتال میں جانےوالوں کا خدا ہی نگہبان ہوتا ہے۔ ‘‘
    مسلسل اور بے تحاشہ بولنےوالے مودی جی کی خاموشی بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں جن سے ایک سال قبل تک منموہن سنگھ جوجھ رہے تھے۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے شاندار نتائج کے بعد للت گیٹ، ویاپم اسکینڈل، ساتھیوں کی فرضی ڈگریاں اور  مہاراشٹر سرکار کے چکی گھوٹالےنے ان کی بولتی بند کردی ہے۔  ایک ہی سال میں بی جے پی حکومت کی ساری قلعی اتر چکی ہے۔  وہ طبقہ جو بی جے پی کی حقیقت جانتا تھا،اسے مودی حکومت کے بے نقاب ہونے سے کچھ زیادہ تکلیف نہیں ہے لیکن وہ طبقہ جو بی جے پی اور مودی کے سحرمیں گرفتار ہوا تھا اوراس کی وجہ سے  اس نےحکومت تبدیل کرنے کیلئے اپنی توانائی صرف کی تھی، وہ آج بہت زیادہ مایوس ہے۔  ان میں سے بعض یہ کہنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ’’اس سے اچھی تو سابقہ حکومت ہی تھی۔‘‘   بلاشبہ لوٹ کھسوٹ اور انانیت کانگریسی حکومت کا بھی وطیرہ تھا لیکن اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حلف برداری کے بعد ہی مودی جی کارپوریٹ دنیا سے کئے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ بات ایف ڈی آئی کی ہو یا تحویل اراضی بل کا معاملہ ہو، مودی حکومت نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے عوام کی نہیں،خواص کی فکر ہے اور خواص میں بھی بس ایک مخصوص طبقے کی جس میں اڈانی، امبانی اور ٹاٹا جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مودی کے بیشتر بین الاقوامی دورے انہیں کےمفادات کی تکمیل کی خاطر ہوئے ہیں۔ مودی کی انہیں ’کارگزاریوں‘ کے سبب مودی کے وہ بھکت بھی پریشان اور شرمندہ شرمندہ سے ہیں جنہوں نے انتخابات کے دوران   مودی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔
    تشہیر اورتقریر کے سہارے اقتدار میں آنے اور نظام حکومت چلانے کی کوشش کرنےوالے مودی جی کو شایداس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ لچھے دار باتوں سے حکومت نہیں چلتی۔  میڈیا کے بھر پور تعاون سے بی جے پی  عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب تو ہوگئی تھی کہ ملک کے باہر بہت سارا کالا دھن ہے اور یہ کہ اس کیلئے پوری طرح سے کانگریس کی سربراہی والی یوپی اے حکومت ذمہ دار ہے۔  تشہیر اور تقریر ہی کی کامیابی تھی کہ عوام کے ایک بڑے طبقے کو یہ امید ہوچلی تھی کہ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی ان کے ’اچھے دن‘ آجائیںگے لیکن اب جبکہ مودی سرکار نے اپنے قیام کی پہلی سالگرہ منا لی ہے، عوام اس طلسم سے آزاد ہوچکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب بی جے پی  لیڈروں کی لچھے دار تقریریں  انہیں اچھی نہیں لگتیں ، یہاں تک کہ مودی کے من کی بات بھی لوگوں کو نہیں بھاتی۔
    اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مودی نے تشہیری مہم کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی۔  وہ جن دھن یوجنا ہو،سوچھ بھارت ابھیان ہو، بیمہ پالیسی ہو ، ریڈیو  پر من کی بات ہو یا یوگا ڈے کے موقع پر کیا جانے والا ڈراما۔ ان تمام پر مودی سرکار نے عوام کی گاڑھی کمائی کو پانی کی طرح بہایا اوراسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ ابھی حال ہی ایک رپورٹ آئی کہ موجودہ لوک سبھا کے اراکین پارلیمان نے صرف ایک سال میں اپنی آسائش پراتنی رقم خرچ کردی جتنی کہ سابقہ حکومت کے اراکین پارلیمان ۱۰؍ سال میں بھی خرچ نہیں کئےتھے۔ اسی طرح سوچھ بھارت ابھیان کی تشہیر پر ۱۰۰؍ کروڑ روپوں کے خرچ کی بات بھی سامنے آئی ہے۔اتنی رقم اگر واقعی صاف صفائی پر خرچ کی گئی ہوتی تو ملک کا ایک کونہ تو بہرحال صاف ستھرا ہوجاتا۔
    عوام کب تک خاموش رہیںگے؟ کب تک سوال نہیں کریں گے؟ ظاہر  ہے کہ بی جے پی کو صرف اس کے معتقدین  اور خاکی نیکر والوں ہی نے تو ووٹ نہیں دیا تھا کہ کچھ بھی کرنے کی آزادی رہے گی۔ یقیناً اس میں ایک بڑی تعداد ایسے رائے دہندگان کی بھی تھی جو ترقی کے نا م پر میڈیا کے بہکاوے میں آئے تھے۔  اب وہ سوال کررہے ہیں تو بی جے پی لیڈروں کی بولتی بند ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فرق ہے بی جے پی اور کانگریس میں، تو بی جے پی لیڈر آئیں بائیں اورشائیں بک رہے ہیں۔   دوران انتخابات مودی نے دعویٰ کیاتھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو پلک جھپکتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس کیلئے وہی کالا دھن لانے کی بات کہی گئی تھی اور عوام کو ورغلایا تھا کہ اس مد میں بیرون ملک اتنی بڑی رقم جمع ہے کہ واپس آجائے تو وارے نیارے ہوجائیں گے اور ملک کے ہر شہری کو ۱۵۔۱۵؍ لاکھ روپوں کی  خطیررقم ملے گی۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد   جب عوام نے سوال کیا کہ اچھے دن کب آئیںگے تو مودی نے یہ کہتے ہوئے  ۳؍ ماہ کا وقت لیا کہ ابھی تو ہماری حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم نہیں ہوا ۔ تین ماہ پورے ہوئے تو ایک سال کی بات کی گئی اور اب کہا جارہا ہے کہ کانگریس نے اس ملک پر ۶۰؍ سال حکومت کی ہے، بی جے پی کو ۶۰؍ ماہ کا موقع تو دیجئے۔ 
    اپنی حکومت کی ایک سالہ تکمیل کے موقع پر نریندر مودی نے ایک لچھے دار تقریر کی تھی۔ شاید وہ ان کی آخری تقریر تھی۔ اس پُرجوش تقریر میںانہوں نے بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کیاتھا کہ ایک سال گزر گیا، لیکن ایک بھی گھوٹالہ سامنے نہیں آیا اور پھر اپنے اسی جانے پہچانے انداز میں انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ کیا یہ اچھے دن نہیں ہیں؟  یہ اور بات ہے کہ اسمرتی ایرانی کی فرضی ڈگری کا معاملہ اس سے پہلے ہی منظر عام پر آچکا تھا لیکن بی جے پی کی نظر میں وہ کوئی بدعنوانی اور بے ضابطگی نہیں ہے کیونکہ ایسی بے ضابطگیاں  تو مودی جی بھی اپنی بیوی کے تعلق سے برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔ بی جے پی اس طرح کی باتوں کو اُس وقت بے ضابطگی اوربدعنوانی قرار دیتی ہے جب معاملہ جتندر سنگھ تومر جیسے کسی دوسرے پارٹی کے لیڈر کا ہو۔ اس کیلئے بی جے پی استعفیٰ مانگنے کیلئے ہنگامہ بھی کرتی ہے اور سڑک سے لے کر سنسد تک روک دینے کی دھمکی بھی دیتی ہے لیکن بات جب سشما، وسندھرا ، شیوراج چوہان اور پنکجا منڈے کی ہو تو وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ نہیں دیتے، یہ تو یوپی اے حکومت  کا خاصہ رہا ہے۔ 
    بہرحال ابھی تو عوام نے بی جے پی کی بولتی بند کی ہے۔ بی جے پی نے  اگراپنی اصلاح نہیں کی تو یہی عوام انہیں اقتدار سے بھی بے دخل کردیں گے اور   انانیت  پھر بھی باقی رہی توتاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے بھی گریز نہیں کریںگے ۔ بی جے پی اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرسکتی ہے کہ ۱۹۷۱ء کی شاندارکامیابی کے بعد ۱۹۷۷ءمیں کانگریس کس طرح آسمان کی بلندی سے زمین پر پھینکی گئی تھی؟ اور۱۹۸۴ء کی ریکارڈکامیابی کے بعد ۱۹۸۹ء میں اس کا کیا حشر ہوا تھا؟۱۹۷۷ء میں جنتا پارٹی کو عوام نے سر آنکھوںپر بٹھایا تھا لیکن جب توقعات پر پوری نہیں اتری تو  ۱۹۸۰ء میں اُسےبھی اس کی اوقات بتادی ۔  بی جے پی چاہے توخود اپنا ہی انجام دیکھ لے کہ  ۱۹۹۹ء میں دہلی پر قابض ہونے کے بعد۲۰۰۴ء میں اسے کس طرح  باہر کا راستہ دکھا یا گیا تھا۔ بی جے پی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے اور وقت آنے پر کچھ بھی کرسکتی ہے۔