Wednesday, 30 September 2015

Raushan jahan

روشن جہاں نے ذہنوں کوروشن کردیا

تھوڑی سی خامی اور بہت ساری خوبیوں کےساتھ گزشتہ دنوں انجمن فروغ تعلیم بھیونڈی کا سالانہ جلسہ ٔ  تقسیم انعامات کا انعقاد عمل میں آیا۔ شہر بھیونڈی کی یہ ایک ایسی روایتی تعلیمی تقریب  ہوتی ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔امسال یہ ۲۶؍ واں سالانہ جلسہ تھا۔
    اس جلسے کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ جہاں طلبہ میں مسابقت کا رجحان پیدا کرتا ہے، وہیں بھیونڈی کے تمام ۳۴؍ اردو میڈیم ہائی اسکولوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بھی کام کرتا ہے۔ انعامات سے جہاں طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہیں اسٹیج پر موجود ’مثالی طلبہ‘ کو دیکھ کر کچھ کرگزرنے کاجذبہ بھی پروان چڑھتا ہے۔
    امسال کے جلسے نے ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی جب بالترتیب تنویر منیار( مہاراشٹر کے ایس ایس سی ٹاپر) اور الماس ناظم سید(ریاستی سطح پر ایچ ایس سی کی سیکنڈ ٹاپر) نے اس تقریب میں شریک ہوکر طلبہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس بار یہ کارنامہ ایم بی بی ایس کی فائنل ایئر کی طالبہ روشن جہاں نے انجام دیا۔  روشن   نے طلبہ کے ذہنوں کو روشن کردیا اور اپنی  روداد سنا کر یہ پیغام دیا کہ ’معذوری جسمانی نہیں، حوصلے کی ہوتی ہے‘۔ انہوں نے  ثابت کیا کہ جسمانی معذوری کوئی معنی نہیں رکھتی، حوصلوں سے معذور افراد ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔  روشن جہاں کا بھیونڈی آنا، اس تقریب کا حاصل رہا۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ بھیونڈی آکر انہوں نے یہاں کے طلبہ پر ایک بڑا احسان کیا ہے۔
     روشن کی کہانی بہت طویل ہے۔ مختصراً  یہ کہ یہ حوصلہ مند بچی جب ۱۱؍ ویں میں زیر تعلیم تھی تو ایک دن گھر سےکالج جاتے ہوئے ٹرین سے گر پڑی اور اس کے دونوں پیر گھٹنے کے اوپر سے کٹ کر جسم سے الگ ہوگئے۔ تین ماہ تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد روشن جہاں دونوں پیروں سے معذور ہوکر اپنے گھر واپس آئی۔ تب تک گیارہویں کے سالانہ امتحان کا وقت قریب آگیا تھا۔ والدین ، دوست و احباب اور اساتذہ کے ہمت دلانے پر اس نے دن رات محنت کرکے امتحان دیا اورکامیابی حاصل کی۔اس میں اس کی والدہ کا  بہت اہم رول رہا۔ وہ روزانہ اسے وہیل چیئر پر بٹھاکر کالج لے جاتیں اور پھرواپس گھر لاتیں۔ اس طرح روشن نے ۷۵؍ فیصد مارکس سے ایچ ایس سی کامیاب کیا اور سی ای ٹی کے امتحان میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممبئی کے معروف میڈیکل کالج ’کے ای ایم ‘ میں داخلہ لیا۔ آج وہ فائنل ایئر میں ہے۔
    روشن نے اپنی مثال دیتے ہوئے طلبہ سے کہا کہ مسائل اور پریشانیوں کا حوالہ دے کر زندگی کی گاڑی کو بریک مت دینا بلکہ میری طرح  ان پریشانیوں کوشکست دے کر آگے بڑھنا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ روشن جہاں کا ایک ایک لفظ وہاں طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہورہا تھا۔ جب وہ اپنی روداد سنا رہی تھی تو ہال کا سناٹا اور سامعین کی بھیگی آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں  ۔

No comments:

Post a Comment