Saturday, 28 May 2011

کانگریس اور کرپشن

کانگریس اور کرپشن
کیا دونوں لازم و ملزوم ہیں؟
کانگریس کے سابقہ ادوار میں بھی کرپشن کے بڑے بڑے معاملات سامنے آئے ہیں، لیکن اس مرتبہ محض دو سال کے قلیل عرصے میں جتنے گھوٹالے منظر عام پر آئے ہیں،آزاد ہندوستان بلکہ غلام ہندوستان کی تاریخ میں بھی شاید کبھی نہیں ہوئے ہوںگے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوپی اے حکومت میں شامل وزرا کو بہت جلدی ہے، لہٰذا   لوٹ کھسوٹ میں جلد بازی کےمظاہرے کئے جارہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے لئے تنہا حکومت ہی ذمہ دار ہے یا اس گناہ میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں؟اس سے قبل کہ ہماری رگوں سے تمام خون نچوڑ لیا جائے یا ہم پر بے حسی طاری ہوجائے، اس موضوع پر ہمیں سنجیدگی سے کچھ سوچنا پڑے گا۔
قطب الدین شاہد
    ے 2009کےعام انتخابات میں کانگریس کا نعرہ تھا’’کانگریس کا ہاتھ،عوام کے ساتھ‘‘.........مگر اقتدارملتے ہی انتخابی منشور کے ساتھ اس نعرے کو ایک مضبوط پوٹلی میں باندھ کر ایسی جگہ رکھ دیا گیا ، جہاں کسی کا ہاتھ تو کیا، نظر کی رسائی بھی آسان نہ ہو۔پھر کرپشن کا وہ دور دورہ شروع ہوا ، وہ لوٹ کھسوٹ مچی کہ اللہ کی پناہ۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کوئی سخت مقابلہ ہے، جہاں ہر کوئی دوسرے پر سبقت  لے جانے کی جدوجہد کررہا ہے۔نقصان تو خیر پورے ملک کا ہورہا ہے، لیکن عام آدمی کی حالت زیادہ دگرگوں ہے کہ اس کے منہ سے نوالے تک چھن گئے ہیں۔اس نعرے کا احساس وقت کے ساتھ ہورہا ہے کہ اس ’ہاتھ‘ سے کیا مراد تھا؟  دراصل وہ ہاتھ نہیں ، طمانچہ ہے جو عام آدمی کی گالوں پر تواتر کے ساتھ پڑرہا ہے۔
    یوپی اے حکومت کی دوسری اننگز کی دوسری سالگرہ کے موقع پرمنعقدہ ایک تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے ساتھیوںسے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’بدعنوانیوں کاارتکاب کرنیوالوں کو بخشا نہیں جائے گا،قانون کے مطابق انہیں سز ا دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں‘‘۔
    اس موقع پر یوپی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے بھی  بدعنوانی سے جنگ  لڑنے کی بات دوہرائی۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم کرپشن کے  خاتمے کی کوششوں کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیںگے اور ان تمام پر سخت کارروائی کریںگے جنہوں نے ملک کے خزانے کو لوٹا ہے........اور یہ محض لفاظی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ میں جو کہہ رہی ہوں، اس پر کام ہوگا۔‘‘
     کہاتو یہی گیا کہ اس میں لفاظی نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو اس میں علاوہ لفاظی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔یوپی اے حکومت کے دونوں ذمہ داروں نے باتیں تو بہت اچھی اچھی کیں، لیکن اگران کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔  اول  یہ کہ ان کے ساتھی ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے،  دوم یہ کہ ان کے دو ایجنڈے ہوں۔ یعنی ایک کااظہار کرتے ہیں، مگر اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ دوسرے کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس پرعمل کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ دو سال کے معمولی عرصے میںعوام کی کتنی دولت لوٹی گئی ؟ اور ا س پر حکومت نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ؟بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوا کہ اگرعدالت عظمیٰ انہیں بار بارڈانٹ پھٹکار نہیںلگاتی تو شاید اتنی بھی کارروائی نہیں ہوئی ہوتی جتنی کی ہوئی ہے۔ یعنی جو ہوئی ہے، وہ ملک و عوام کی محبت اور بدعنوانی و بدعنوانوںسے نفرت کے سبب نہیں بلکہ بادل نخواستہ اور مجبوری میں ہوئی ہے۔
    دوسری میقات میں کمان سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے وزرا سے کہا تھا کہ وہ ۱۰۰؍ دنوں میں اپنے اپنے محکموں کا رپورٹ کارڈ پیش کریں اور بتائیں کہ وہ ملک و عوام کی ترقی کے لئے کیا کررہے ہیں؟ عوام نے وزیراعظم کی اس تڑپ کا بہت پُرجوش خیرمقدم کیا تھا، جس کا ثبوت اس کے بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں نظر آیا۔عام انتخابات کے بعد مہاراشٹر، آندھرا پردیش، ہریانہ، اروناچل پردیش اور اڑیسہ میں الیکشن ہوئے تھے اور تمام مقامات پر کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
    شاید یہی وہ وقت تھا، جب کانگریس تکبر کے احساس میں مبتلا ہوگئی۔ کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوںسے قبل حکومت کو بار بار متنبہ کیا گیا کہ لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، عوام و خواص کے ساتھ ساتھ میڈیا یہاں تک کہ بعض کانگریسی اراکین نے بھی اس جانب حکومت کی توجہ دلائی مگر، حکومت کے کانوں پر جوںتک نہ رینگی۔اس کے بعد ٹوجی اسپیکٹرم ، اسرو، راشن تقسیم (پی ڈی ایس)، تھومس کی تقرری اورکالے دھن کے معاملات میں بھی حکومت کی بے حسی اور بے توجہی نمایاں رہی۔ایسا لگا جیسے لٹیروںکو اس بات کا اشارہ ہو کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
    مزے کی بات یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے بدعنوانیوں کے کئی معاملات کے انکشاف کے باوجود یوپی اے کے بیشتر کرداروں کو ’پاک صاف اور ا یماندار‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یوپی اے دوم کی کارکردگی کا  سرسری جائزہ لیاجائے تو اس کا پلاٹ تجسس سے پُر بالی ووڈ کے کسی فلم جیسا نظر آتا ہے۔اس طرح کی فلموں میں جن پر شک ہوتا ہے،  آخر میںوہ بے گناہ ٹھہرتے ہیں اور جن پر نظر نہیں جاتی، وہی مجرم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے مرکزی کردار ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں، جنہیں ’مسٹرکلین‘ کا خطاب  حاصل ہے۔ ان کے صاف شفاف دامن پر کرپشن کا ایک ہلکا سا داغ بھی نہیں ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر سے پلاننگ کمیشن کے چیئر مین تک اوروزارت مالیات سے لے کر وزارت عظمیٰ تک ان کا کریئر بے داغ رہا ہے........ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ گھوٹالے انہی کی سرپرستی میں انجام پائے ہیں۔ عوام کی برہمی اور ناراضگی کو دیکھتے ہوئے سسپنس فلموں کی طرح چند چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ضرور پکڑی جاتی ہیں لیکن اصل مجرم گرفت سے دور ہی رہتے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند دنوں بعد ایک نیا گھوٹالہ منظر عام پر آجاتا ہے۔
    یوپی اے حکومت کی چیئر پرسن نہروگاندھی خاندان کی وارث سونیا گاندھی ہیں۔ان کی ’قربانیوں‘ کی تاریخ پرانی اور فہرست بہت طویل ہے۔کرپشن سے دور دور ان کا بھی کوئی واسطہ نظر نہیں آتا......مگر ان کی سربراہی میں کرپشن کا سلسلہ ہے کہ رکتا ہی نہیں۔ یوپی اے حکومت میں اختیارات کے اعتبار سے تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل ہیں۔ کرپشن سے ان کا بھی چھتیس کا آنکڑہ بتایا جاتا ہے۔ان تینوںکو وطن عزیز کے کئی اعلیٰ اور کلیدی عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے مگر کرپشن کے جِن کو بوتل میں  اتارنے  کے معاملے میں یہ سب لاچار نظر آتے ہیں۔
    یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ چلئے تسلیم کہ یہ تمام صاف شفاف ہیں اور کرپشن سے ان کا واقعی کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یعنی کرپشن کا دیو ہی اتنا طاقتور ہے کہ اسے یہ سب مل کر بھی قابو میں نہیں کرپارہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے، تب بھی  ان کے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔یہ بہر طور مجرم ہیں کہ انہیں جو ذمہ داری  عوام نے سپرد کی ہے، اسے ادا نہیں کرپارہے ہیں، یعنی اس کے اہل نہیں ہیں۔
     اس سکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی سرپرستی میں یہ گھوٹالے انجام پارہے  ہیں۔منموہن سنگھ، سونیا گاندھی، پرنب مکھرجی، پی چدمبرم اور کپل سبل جیسے رہنماؤں پر لب کشائی کرتے ہوئے حالانکہ زبان لڑکھڑاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کسی سسپنس فلم میں قبل از وقت کسی سفید پوش پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن اگر ایساہوا تو...... ٹوجی گھوٹالے میں سبرامنیم سوامی  کے ذریعہ پی  چدمبرم پر اور اسرو معاملے میں وزیراعظم پر انگشت نمائی تو ہوہی چکی ہے۔
    افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب ہمیں کرپشن کی باتیں سن کر افسوس بھی نہیں ہوتا۔ سماج نے کرپشن کو پوری طرح سے قبول کرلیا ہے۔اسے معیوب سمجھنا ترک کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کے خلاف باتیں کرنےوالوں کو احمق تصور کیا جانے لگا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ہم صرف اور صرف حکومت کو ہی مورد الزام کیوں ٹھہرائیں؟جن کی جیب کاٹی جاتی ہے، جب وہی چیں بہ جبیں نہیں ہوتے تو جیب کتروں کو کیوں کر لعن طعن کی جائے؟بدعنوانی پر روک لگانی ہے تو حکومتوں کے احتساب سے قبل عوام کو خودا پنا احتساب کرنا ہوگا۔

Saturday, 14 May 2011

اسمبلی انتخابات کے نتائج


اسمبلی انتخابات کے نتائج
نوشتۂ دیوار ہیں سیاسی جماعتوں کے لئے
عوام نے  ابھی صرف ’تبدیلی‘ کا حربہ آزمایا ہے اورسیاست دانوںکو موقع فراہم کیا ہے کہ وقت رہتے سنبھل جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں..... بصورت دیگر وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ’تبدیلی‘ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
قطب الدین شاہد
  ہندوستانی سیاست دانوں کے لئے یہ بات باعث تشویش ہونی چاہئےکہ وطن عزیز میں اب ووٹنگ محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ نفرت کی بنیاد پرہونے لگی ہے۔ ان حالات میں جیتنے والی جماعتیں اگر یہ سوچتی ہیں کہ  ان کی عوامی مقبولیت  نے انہیں مسنداقتدا ر تک پہنچایا ہے اور یہ کہ عوام میں ان کی پسندیدگی کا گراف بلند ہوا ہے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا.... بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ان کے حریف کے تئیں عوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام نے انہیں اقتدارسے بے دخل کیا ہے۔عوام کے پاس چونکہ زیادہ متبادلات نہیں ہیں لہٰذا وہ ایک دائرے میں ہی گھومتے رہتے ہیں اوراس طرح باری باری تمام جماعتوں کو اقتدار کے تالاب میں غوطہ لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یاد رکھیں کہ جس دن عوام نے دائرے سے باہر نکلنے کا ذہن بنالیا، سیاست دانوں کا قافیہ تنگ ہوجائے گا۔ اس کاایک ہلکاسا اشارہ انا ہزارے کی تحریک کی صورت میں دیا جاچکا ہے۔
    مگر افسوس کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔انتخابی نتائج جہاں ہارنے والی جماعتوں کے لئے عبرت کا سامان ہیں، وہیں جیتنے والی جماعتوں کے لئے باعث امتحان بھی ہیں..... مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ عبرت سمجھ کر نہ کو ئی اپنا محاسبہ کررہا ہے اور نہ ہی کوئی امتحان سمجھ کر سنجیدہ ہونا چاہتا ہے۔انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد جہاں جیتنے والی جماعتوں کے اراکین بردباری کے مظاہرے کے بجائے زمین چھوڑ کر ہوا میں اُڑنے لگے ہیں، وہیں ہارنے والوں نے اپنے احتساب کے بجائے تاویلات اور بہانوں کی تلاش شروع کردی ہے۔  ممتا بنرجی اور جے للیتا کو اگر تھوڑے وقت کیلئے نظر انداز بھی کردیں کہ ان دونوں نے  بالترتیب  بایاں محاذ اور ڈی ایم کے کو شکست دینا ہی  اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا رکھا ہے، سی پی ایم، کانگریس اور بی جے پی جیسی قومی جماعتیں بھی اپنے محاسبے کے بجائے ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کررہی ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ تینوں بڑی جماعتیں اپنے گریبان میں جھانکتیں اوراس بات کا جائزہ لیتیں کہ عوام کی جانب سے انہیں دُھتکار کیوں ملی؟مگر اس کے برعکس یہ اپنی محدود کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے حریفوں کی ناکامیوں پر ان کا مضحکہ اُڑا رہی ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ جماعتیں اپنی کامیابیوں پر شاداں و فرحاں ہونے کے بجائے دوسروں کی ناکامیوں میں اپنے لئے راحت کا سامان ڈھونڈ رہی ہیں۔
    اس سے قبل کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات پر تبصرہ  ہو، آئیے ایک کہانی سن لیتے ہیں۔ ایک شخص کی تپسیا سے ایک سادھو بہت خوش ہوئے توانہوں نے اس سے کہا کہ ’’بیٹا! ہم تم سے بہت خوش ہوئے، آج تم جو مانگوگے، تمہیں ملے گا.... لیکن ایک شرط ہے... اور وہ یہ ہے کہ تمہیں جو ملے گا، تمہارے پڑوسی کو اس سے دوگنا ملے گا....  بول، کیا مانگتا ہے؟‘‘ کہانی کے مطابق بہت غور و خوض کے بعد وہ شخص اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی ایک آنکھ ضائع کرنے کا ’وَردان‘ مانگ لے۔ اس کی وجہ سے اس کے پڑوسی کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجائیںگی جو اس کے لئے باعث مسرت ہوگی۔کہاجاتا ہے کہ وہ یقینا ہندوستانی سیاست داں رہا ہوگا کیونکہ یہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔
     خیر آئیے اب آتے ہیں، اپنے اصل موضوع پر۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے متعلق رجحانات پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس نے اپنی آنکھوں میں موجود شہتیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ نتائج ثابت کرتے ہیں کہ ان اہم انتخابات میں بی جے پی کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔کانگریس کے ترجمان منیش یتواری نے کہا کہ انتخابی نتائج سے اگر کوئی اشارہ ملتا ہے ....تو وہ یہ کہ بی جے پی کی بحیثیت پارٹی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ آسام کےعلاوہ کانگریس کو کہیں بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی۔اسی طرح بی جے پی نے بھی بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کو ’بے اوقات‘ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان انتخابات میں بی جے پی حالانکہ خود تو کچھ نہیں کرپائی مگر دشمن کے دشمن کی تعریف کرکے اپنے لئے راحت کا سامان تلاش کرنے کی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے سے باز بھی نہیں آئی۔ تمل ناڈو میںجے للتا کی کامیابی پر بغلیں بجاتے ہوئے بی جے پی نے مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کی جیت کا بھی  خیر مقدم کیا۔ اور اسی کے ساتھ  بی جے پی یہ کہنے سے نہیں چوکی کہ اتحاد کے رہنما کی حیثیت سے کانگریس بری طرح ناکام  ثابت ہوئی ہے۔
    بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے کہا کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخاب میں کانگریس امیدواروں کی جیت کی شرح بہت کم ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اسے جو جیت ملی ہے، وہ ممتا کی مرہون منت ہے۔  بقول روی شنکر پرساد آسام میں کانگریس  اس لئے جیتی کہ بی جے پی اور آسام گن پریشد میں پھوٹ پڑی ہوئی تھی۔
    ۵؍ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حالانکہ این سی پی اور شیوسینا کا کوئی رول نہیں تھا، یعنی یہاں ہونے والی ہار جیت سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا لیکن  بال ٹھاکرے اور شرد پوار دونوں نے بایاں محاذ کی شکست کا ’خیر مقدم‘ کیا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی فکر نہیں ہے  بلکہ دوسروں کی دونوں آنکھوں کے ضیاع کی خوشی ہے۔ ان  کے ان بیانات اوران کے خوش ہونے کے اندازسے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بایاں محاذ کو شکست دینے کیلئے کس ’ وسیع پیمانے پر اتحاد‘ کا مظاہرہ ہوا ہے۔
    بہرحال اب جبکہ نتائج سامنے آچکے ہیں ،تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑکر بیٹھنا  اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ان  انتخابات کے نتائج یقیناً تمام بالخصوص  قومی جماعتوں کے لئے نوشتۂ دیوار ہیں۔
    مغربی بنگال میں۳۴؍ سال بعد بایاں محاذ کے قلعے میں سیندھ لگی ہے  اورکچھ اس طرح لگی کہ ’لال دُرگ‘ پوری طرح سے زمین بوس ہو گیا ہے۔ کیا یہ سب اچانک ہوا ہے؟ بایاں محاذ کواس پر غور کرنا چاہئے  اور اس سوال کا جواب تلاش کرناچاہئے کہ ایسا کیوں کر ہوا؟آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ گزشتہ ۷؍ مرتبہ سے بایاں محاذ کے حق میں ووٹنگ کرنے والے آج ان کے خلاف ہوگئے؟ اپنے دفاع میںاور اپنی شکست فاش پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں بعض کمیونسٹوں کا کہنا ہے کہ نیوکلیائی معاہدے کے وقت امریکہ کی مخالفت انہیں مہنگی پڑی۔ ان کے مطابق اس مرتبہ الیکشن میں امریکی پٹھوؤں نے بایاں محاذ کوشکست دینے کے لئے  نوٹوں کے دریا بہادیئے تھے۔ ممکن ہے ، اس میں کچھ حد تک سچائی بھی ہو لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا ریت میں سرچھپانے کے مصداق ہوگا۔لوک سبھا کے سابق اسپیکر سومناتھ چٹرجی نے  اس کا بہتر تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ محاذ کو اسمبلی انتخابات میں اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ عوام سے دور ہوگیا تھا۔انہوں نے کہاکہ ’’ عوام سے دوری ہوگئی تھی اور پارٹی کے عہدیداران عوام کے مزاج کو سمجھ نہیں پائے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ چند غلطیاں کی گئیں اور اس کا مناسب جائزہ نہیں لیا گیا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس رجحان کا پتہ لوک سبھا کے انتخاب میں ہی چل گیا تھا لیکن محاذ نے پردہ پوشی کی کوشش کی تھی۔  سومنا تھ چٹر جی کا جائزہ بالکل درست ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ہی اس کااندازہ ہوگیا تھا۔ دراصل سچر کمیٹی کی رپورٹ آجانے کے بعد مسلمانوں کو زبردست صدمہ پہنچا کہ جس جماعت پر وہ اب تک اندھا اعتماد کرتے آئے تھے، ان کا استحصال کرنے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اسی طرح سنگور اور نندی گرام کے معاملوںمیں بھی لیفٹ کے رویے کو مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا۔اب جبکہ بایاں محاذ کے ہاتھ سے اقتدار چلا گیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ  اپنے (بد)اعمال کا جائزہ لیں اوراس کی اصلاح کریں۔
    اس الیکشن میں کانگریس کو زبردست شکست سے سابقہ پڑا ہے۔ آسام میں وہ ضرور کامیاب ہوئی مگر وہ صرف اسلئے کہ وہاں کوئی قابل ذکر  حزب اختلاف نہیں تھا۔کیرالہ میں ہارتے ہارتے بچی، حالانکہ وہاں کمیونسٹ حکومت کے خلاف جس طرح کی رائے عامہ تھی، اس کی وجہ سے اس کے مکمل اکثریت میں آنے کاامکان تھا۔ تمل ناڈو میں کانگریس محاذ کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پانڈیچری میںبھی شکست فاش ہوئی۔ بنگال میں کانگریس کےہاتھ جو کچھ لگا،اس میں اس کی کوششیں کم، ممتا کی کاوشیں زیادہ ہیں۔کل ملا کر کانگریس کو زبردستی مسکرانے کے بجائے نہایت سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔  اس کے لئے کانگریس کو جہاں ایک جانب بدعنوانوں اور بدعنوانیوںسے فاصلہ بنانا ہوگا ،وہیں اپنے سیاسی اور سرکاری فیصلوں کے وقت عوامی مفاد کا مناسب خیال رکھنا ہوگا کیونکہ اس کی امیج  ’عوام مخالف‘ کی بن گئی ہے۔ ایسا کرکے ہی آئندہ سال اترپردیش، پنجاب ، گجرات، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش،گوا اور منی پور کے  اسمبلی انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
    حالیہ ۵؍ ریاستوں میں بی جے پی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا.... اوراگر اس نے اپنی روش تبدیل نہیں کی، تو آئندہ بھی اس کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے۔اسے ایک ہندوسیاسی جماعت کے بجائے ایک ہندوستانی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنا ہوگا ... بصورت دیگر اسے آئندہ مزید جھٹکوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
    مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ کے انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نے صرف اور صرف تبدیلی کا ذائقہ چکھنے کے لئے اس طرح کے اُلٹ پھیر کی مشق کی ہے......  لیکن اقتدار پر قابض جماعتیں اس اصول کو فراموش نہ کریں کہ تبدیلی کو ہی انقلاب کا پیش خیمہ کہا جاتا ہے۔

Monday, 25 April 2011

حکومت ، عوام اور انا ہزارے

 کیا انا ہزارے نے حکومت کی دُ کھتی ر گ  پر ہاتھ رکھ دیا ہے؟
قطب الدین شاہد
لوک پال بل کے مطالبے سے یوپی اے حکومت بری طرح بلبلا اُٹھی ہے۔ حکومت بالخصوص کانگریس کی بوکھلاہٹ سے ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں نے اس کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ یہ  بات درست ہے کہ محض لوک پال کی منظوری بدعنوانی کے خاتمے کی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن..... اس سے ا س مریض کو کچھ تو افاقہ ہوسکتا  ہے.... مگر حکومت کو شاید یہ بھی گوارہ نہیں کہ اس کی روک تھام سے متعلق کوئی قدم اٹھایا جائے۔
    کسی بھی ملک میں انقلاب آنے کی موٹی موٹی دو تین وجہیں ہوتی ہیں۔
n جب حکومت آمریت میں تبدیل ہونے لگے
 nجب حکومت لوٹ کھسوٹ  پر اُتر آئے
nجب حکومت طبقاتی نظام کی سرپرستی کرنے لگے اور
nجب اپنے حقوق کے تئیں عوام میں بیداری آجائے۔
    یوپی اے حکومت کو اگر ان کسوٹیوں پر پرکھنے کی کوشش کی جائے تو ایسالگے گا کہ وطن عزیز میں انقلاب آنے کےلئے تمام ترجواز موجود ہیں۔ منموہن حکومت میںشروع کی تینوں علامتیں پائی جاتی ہیں.... بس چوتھی علامت کا انتظار ہے، یعنی جس دن عوام میں بیداری آگئی، حکومت کو اکھا ڑ پھینکنے میں تاخیر نہیں لگے گی۔
     آئیےچاروںنکات کااجمالی طورپرایک جائزہ لینے کی کوشش کریں۔
    افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پہلی میقات میں قدرے مناسب حکمرانی کے بعد عوام نے جس یوپی اے حکومت کے تئیں زبردست اعتماد کا مظاہرہ کیا  اور اسے دوبارہ اقتدار سونپ دیا، وہ اب صریح آمریت پر اتر آئی ہے۔اس نے اس اصول کواٹھاکر طاق ِ نسیاں پررکھ دیا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے ذریعہ عوام کی حکومت ہوتی ہے، جو عوام کے لئے کام کرتی ہے۔ دوسال سے بھی کم عرصے میں ایسے کئی مواقع آئے  جب جمہوری حکومت نے آمریت کا مظاہرہ کیا ہے اور  اپنی بے حسی (بلکہ اپنے  فیصلوں)سےاپنے عوام کو خون کے آنسو رلایا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس کوشش میں جب جب اس کے قدم اکھڑے ہیں،اس نے مصالحت کا ڈرامہ بھی رچا ہے۔یہ مصالحت اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر نہیں بلکہ اقتدار بچانے کے لئے کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اے راجہ کو بچانے اور ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کو معمولی ثابت کرنے کی ضد میں اس نے پورے سرمائی اجلاس کو قربان کردیا تھا۔  اس ضد نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک مثال قائم کردی..... اور یقینا یہ کوئی اچھی مثال نہیں تھی۔ بی جے پی کی قیادت میں اپوزیشن کے ذریعہ پارلیمنٹ کو یرغمال بنالینے کی حرکت کسی کو پسند نہیں آئی لیکن.....حکومت کے لاکھ پروپگنڈے کے باوجود یہ بات عوام پرمنکشف ہونے سے نہیں رہی کہ اس کے لئے اپوزیشن سے کہیں زیادہ ذمہ دار حکومت ہی رہی ہے۔بعد ازاں جب  بادل نخواستہ حکومت نے بدعنوانی کی تحقیقات کیلئے جے پی سی کے مطالبے کوتسلیم کرلیا.... تب بھی اس نے بدعنوانی کو کوئی عیب تصور نہیں کیا  بلکہ یہ کہتے ہوئے جے پی سی کے تشکیل کی بات کی کہ اسے ایوان کے ’تقدس‘ کا بڑا خیا ل ہے۔ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جب حکومت نے بدعنوانوں کو بچانے کیلئے عوام  کے ساتھ اپوزیشن کے مطالبات کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھا ۔  دولت مشترکہ کھیل میں دولت کی ریل پیل  اور لوٹ کھسوٹ پر اول دن سے ہنگامہ رہا.... بار بار نشاندہی کے باوجود حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بلکہ وقفے وقفے سے لٹیروں کی پیٹھ بھی تھپتھپاتی رہی۔ عوام چیختے اور چلاتے رہے اور حکومت چین کی بانسری بجاتی رہی۔آدرش سوسائٹی گھوٹالہ بھی اس لحاظ سے ’مثالی‘ ثابت ہوا کہ حکومت نے محض وزیراعلیٰ کا چہرہ تبدیل کر مسئلہ  چٹکیوں میں’حل‘ کردیا۔
    آمریت کے ساتھ ساتھ حکومت اور اس کے کارندوں کی لوٹ کھسوٹ بھی جاری ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ ملک جو اپنی نصف سے زائد آبادی کا پیٹ نہ بھرسکے، غریب اور پسماندہ ہی کہلانے کی مستحق ہے.... لیکن کیا واقعی ہم غریب ہیں؟ گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست پرنسپل ضیاء الرحمن انصاری نے ایک میل ارسال کیا تھا، جس میں ریاضی کے ذریعہ اس کی وضاحت کی تھی کہ ہم تمام ہندوستانی صرف کروڑ پتی ہی نہیں بلکہ ارب پتی بھی ہیں.... اوراگر فی الحقیقت نہیں ہیں تو اس کے لئے پوری طرح سے ہماری حکومت ذمہ دار ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ ٹو جی اسپیکٹرم  کے ذریعہ منموہن حکومت نے ہم ہندوستانیوں کے ایک لاکھ ۷۶؍ ہزار کروڑ روپوں کا چونا لگایا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی کل آبادی ۱۲۱؍ کروڑ ہے، اس طرح فی ہندوستانی کا ۱۴۵۵؍ کروڑ روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ذرا سوچئے کہ اگر اتنی موٹی رقم تمام ہندوستانیوں کو مل جائے تو کیا وہ غریب کہلائیں گے؟ کیا ان کے بچے بھوکے پیٹ سوئیںگے؟ کیا ان کے جسم پر چیتھڑے جھولیں گے؟ کیاان کی بیٹیاں شادی کو ترسیں گی ؟ کیا قرض کی ادائیگی سے پریشان کسان خود کشیاں کریںگے؟کیا وہ بچے جنہیں اسکول  جانا چاہئے،  وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہوںگے؟
    نہیں ! قطعی نہیں!! ۱۴۵۵؍ کروڑ روپے بہت ہوتے ہیں۔ اور یہ تو صرف ایک گھوٹالے کی بات ہے۔دولت مشترکہ، آدرش سوسائٹی، غیرملکوں میں جمع کالا دھن اور اسرو اسپیس گھوٹالوں کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے گھپلے ہوںگے، جو ہنوز پردے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی سمت سے بدعنوانی کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے، حکومت ناک منہ ٹیڑھے کرنے لگتی ہے۔لوک پال بل کے خلاف کانگریس اگر اتنی ناراض ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔
    حکومت طبقاتی نظام کی سرپرستی بھی کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے باقاعدہ حکومت کو لتاڑ لگائی کہ ’’یہاں دو ہندوستان ہیں‘‘.... ایک جانب جہاں ہر سال ارب پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہیں، وہیں اس کی مناسبت سے غریبوں کے نوالے بھی چھن رہے ہیں۔ ایک طرف امبانی  اور ٹاٹا کروڑوں کے سامان کوڑیوں کے بھاؤ خرید رہے ہیں، دوسری طرف عام ہندوستانی راشن کے اشیاء کو بھی ترستا ہے۔ ایک طرف کروڑوں کے گھوٹالے کرنے والوں پر سرکار کی مہربانی ہوتی ہےتو دوسری طرف جیتا پور میں اپنے حقوق اور اپنی بقاکی لڑائی لڑنے والوں پر حکومت ڈنڈے برساتی ہےاور ان کی حرکتوں کو ملک کی ترقی کے خلاف سمجھتی ہے۔ حالانکہ اس معاملے پر بار بار سپریم کورٹ اس کی سرزنش کرتا رہا ہے لیکن حکومت نے جیسے ہوش کے ناخن نہیں لینے کی قسم کھا رکھی ہو۔ ہندوستان بلکہ شاید بین الاقوامی تاریخ میں کسی ملک کی سپریم کورٹ نے کسی حکومت کو اتنی پھٹکار نہیں لگائی ہو گی جتنی ہندوستان میں مودی کی ریاستی اور منموہن سنگھ کی مرکزی حکومت کو  لگ چکی ہے۔ مودی کو فرقہ پرستی کے لئے اور منموہن سنگھ کو بدعنوانی اور غریبوں کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے لئے۔
    ان حالات میں عوام کے پاس یہی ایک چارہ بچتا ہے کہ وہ حکومت سے اس کی باز پرس کریں۔ انقلاب تو خیر بہت دور کی بات ہے لیکن احتساب ضروری ہے اور جب تک ہم احتساب کرنا شروع نہیں کریں گے،  اسے بدعنوانی سے روکا نہیں جاسکتا۔
    گزشتہ دنوں جس طرح بدعنوانی کے معاملے پر تمام ہندوستانی متحد ہوئے تھے، ایک بار پھر ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت سمجھتی  ہے کہ کچھ دنوں تک ہزارے اوران کی ٹیم کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش جاری رکھی جائے تو عوام کی توجہ لوک پال بل سے ہٹ جائے گی......  اور پھر اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ، عوام سب کچھ بھول جائیں گے۔ لیکن عوام کو یہ بات واضح کردینی ہوگی کہ ہمیں ہزارے اورا ن کی ٹیم سے کوئی ہمدردی ہو ..... یا نہ ہو لیکن ہمیں بہرحال بدعنوانی روکنے اور اس بہانے لوک پال بل سے ہمدردی ہے۔ اگر اس سلسلے میں حکومت نے کوئی تساہلی  برتی، عوام اور ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو عوام اس کا سخت نوٹس لیںگے۔  کیا ہم اب بھی بیدار نہیں ہوںگے؟ آخر وہ وقت کب آئے گا؟

Monday, 18 April 2011

حکومت اورہزارےکے درمیان لفظی تکرار میں
 کہیں  پوری تحریک پر پانی نہ پڑ جائے!
گزشتہ دنوںبدعنوانی کے خاتمے کیلئے پورے ملک میں ایک زبردست تحریک چلی جس کے آگے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔لیکن اب معاملہ دوسرا رخ اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں ہزارے اور ان کے ساتھی اس کا پورا کریڈٹ  اپنے سر لیناچاہتے ہیں..... وہیں حکومت نے بھی اپنے رنگ دکھانے شروع کردیئے ہیں۔ اس موقع پر عوام کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے.... کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پوری تحریک پر ہی پانی پڑ جائے!
قطب الدین شاہد
انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ۴؍ روزہ بھوک ہڑتال کے دوران اندرون و بیرون ملک جو صورت حال دیکھنے کو ملی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔ ایک جانب جہاں یو پی اے حکومت کو اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی، وہیں دوسری جانب انا ہزارے اوران کے ساتھی خود کو ’’لارجر دَین لائف‘‘ تصور کرنے لگے۔سیاست دانوںسے عوامی برہمی اتنی زیادہ تھی  اور ہرگزرتے لمحے کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا تھا..... کہ اگر وہ سلسلہ دو چاردن اور جاری رہا ہوتا تو .....سیاست دانوں کو اقتدار کے گلیاروںسے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہونا پڑتا۔ خیرحکومت چانکیائی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی.... اور ہزارے کے مطالبات جو پورے ملک کےعوام کے مطالبات کی شکل اختیار کرچکے تھے.... ’تسلیم‘ کرلیا۔ اس طرح دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اپنے قدموں کو سنبھالا دیا اور اپنی بقا کا انتظام کرلیا... مگر ہزارے اوران کے ساتھی اس غیر متوقع کامیابی کو جو پورے ملک کو ملی تھی، اپنی کامیابی سمجھنے کی غلطی کی....اور پھر اس کامیابی کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔نتیجے میں ایسی ایسی غلطیاں ہوئیں،کہ پوری تحریک خاک میں ملتی ہوئی نظر آنے لگی۔بدنام زمانہ وزیراعلیٰ مودی کی تعریف و توصیف اسی نشہ کانتیجہ تھا۔
    ہزارے اور ان کے ساتھیوں میں یوپی اے حکومت جیسی سیاسی بصیرت ہوتی تو حکومت کے ذریعہ مطالبات تسلیم کیے جانے کو وہ اپنی کامیابی تصور نہیں کرتے  اورنہ ہی اس خمار کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے بلکہ اس مقصد کو انجام تک پہنچانے کے لئے آگے کا لائحہ عمل طے کرتےاورعوام کو اپنے ساتھ رکھتے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے تھی کہ حکومت نے شکست تسلیم نہیں کی تھی بلکہ ایک طوفان کو روکا تھا..... وہ ایک ایسا طوفان تھا جہاں اکڑ نے میں نہیں.. جھک جانے میں دانشمندی تھی۔اس طوفان میں اگر وہ انا کا مظاہرہ کرتی تو خش و خاشاک کی طرح  بہہ جاتی اور حسنی مبارک اور زین العابدین کے انجام کو پہنچتی۔ایک طرح  سے وہ اس کا دفاعی ہتھیار تھا جس کا اس نے بخوبی استعمال کیا.... اور اب جبکہ اس کے قدم سنبھل چکے ہیں،اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔ جس طرح کے خدشات کااظہار کیا جارہا تھا، اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ مختلف بہانوںسے  اس تحریک کو کچلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان اراکین کو کبھی غیر سنجیدہ کہا جارہا ہے تو کبھی فرقہ پرست اور کبھی بدعنوان ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
    یہ تمام باتیں اگر درست ہوں تب بھی.....حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ تحریک بھلے ہی ہزارے اور ان کے ساتھیوں نے شروع کی ہو.... لیکن یہ تحریک  ہزارے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے اور عوام و خواص کے ایک بڑے طبقے کی اسے حمایت حاصل ہے۔ دراصل لوگوں کو  ہزارے سے نہیں بلکہ بدعنوانی کے خاتمے سے دلچسپی ہے۔ اس لئے حکومت یہ سمجھنے اور سمجھانے کی غلطی نہ کرے کہ ہزارے اوران کے ساتھیوں میں خامیاں ہیں... بلکہ یہ بتائے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے وہ کیا کررہی ہے؟حکومت اگر خود بدعنوانی کے خاتمے کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو جو کچھ ہوا، اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک لوگوںنے انا ہزارے کا ساتھ صرف اور صرف اسلئے دیا کہ وہ بدعنوانی سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ہزارے پر آر ایس ایس کے اثرات نمایاں ہیں، عوام و خواص نے صرف اس لئے حمایت کی، کہ کسی بھی طرح  بدعنوانی کے دیو پر قابو پایا جائے جو روز بروز توانا ہوتا جارہا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بھی جب کسی خطرناک مرض کی زد میں آتے ہیں .. اور علاج معالجے کی کافی کوششوں کے بعد بھی صحت یاب نہیں ہوتے .....تو اپنی جان بچانے کی خاطر یہ لوگ زندگی بھر اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنانے والے جھاڑ پھونک والے باباؤں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ ہزارے اور ان کی تحریک میں کتنے کیڑے ہیں، بلکہ یہ بتانے کی کوشش کرے کہ وہ خود بدعنوانی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہوئی یا نہیں؟ اور  اس سلسلے میں اس کے آئندہ کے لائحہ عمل کیا ہیں؟
     آئیے اب بات کرتے ہیں، حکومت اور اس کی کوششوں پر۔ حکومت نے اُس وقت مطالبات تسلیم توکرلیا تھا لیکن اس کی نیت میں کھوٹ شروع ہی سے تھی..... دراصل مطالبات تسلیم کرنا اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس اورکوئی چارہ نہیں تھا..... لیکن اب جبکہ حالات نارمل ہوگئے ہیں،وہ اپنا رنگ دکھانے لگی ہے۔حکومت کو لگتا ہے کہ جس طرح ماضی میں بہت ساری کمیٹیاں اور کمیشنیںوجود میں آئیں، ان کی رپورٹیں اور سفارشات  پیش ہوئیں، کچھ تو یوں ہی سرد خانے میں چلی گئیں اور کچھ پر بحث مباحثے بھی ہوئے .... مگر سبھی کے نتائج ڈھاک کے تین پات ہی نکلے.... بالکل اسی طرح لوک پال بل کے لئے تشکیل دی گئی ڈرافٹ کمیٹی بھی اپنے انجام کو پہنچے گی۔اسی لئے حکومت نوٹی فیکیشن جاری کئے بغیر یعنی غیر رسمی کمیٹی ہی بنانی چاہی تھی لیکن عوامی دباؤ کے آگے اسے جھکنا پڑا تھا۔ کمیٹی میں شامل ۲؍  وزرا کپل سبل اور سلمان خورشید پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیںکہ لوک پال بل سے کچھ نہیں ہوگا۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اس کے تئیں کتنی سنجیدہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اس نے پہلے ہی سے ذہن بنا لیا ہے کہ اس بل سے کچھ ’فائدہ‘ نہیں ہوگا، تو بیل کیوںکر منڈھے چڑھے گی؟ٹوجی اسپیکٹرم معاملے میں اپنے بیانات کے ذریعہ پر لیپا پوتی کرکے اپنی شبیہ خراب کرلینے والے کپل سبل نےسوال کیا کہ ’’کیا لوک پال قانون سے سبھی کو تعلیم یا پینے کا پانی  میسر ہو گا؟‘‘ حالانکہ ایسا کہہ  کروہ کسی اور کی نہیںبلکہ خود اپنی ہی نااہلی کا اظہار کررہے ہیں ....اس سوال کا جواب تو خود انہیں دینا چاہئے کہ وزیر برائے فروغ انسانی وسائل انہوں نے کیا کیا؟ یہ ان کی ذمہ داری ہے ، کسی اور کی نہیں۔ دگ وجے کانگریس کے ایک بڑے رہنما  اور آل انڈیا جنرل سکریٹری ہیں۔   ہزارےکے بل میں انہیں بھی  ہزار خامیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوک پال کے دائرے میں صنعت کاروں اور غیر سرکاری اداروں کو بھی لایا جانا چاہئے۔ان سے کہاجاسکتا ہے کہ حضور حکومت آپ کی ہی ہے، آپ کو مشورہ دینے کی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔کس نے منع کیا ہے آپ کو؟کچھ بھی کیجئے لیکن بدعنوانی کو روکئے... جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹتی جارہی ہے۔
    کچھ لوگوں کو انا ہزارے کا طریقہ پسند نہیں آیا۔ وہ لوگ اسے بلیک میلنگ کا نام دیتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اور کون سا طریقہ اختیار کیا جائے؟ اور  اگر یہ بلیک میلنگ ہے تووہ بتائیں کہ تحریک آزادی کے رہنماؤں کے بارے میں وہ کیارائے رکھتے ہیں؟ انگریز حکومت  سے اپنی بات منوانے کیلئے کم و بیش اُن کے طریق کار بھی کچھ اسی طرح کے تھے۔ بعض لوگوں کو لوک پال میں آمریت کی بو آتی ہے۔اگر ایسی بات ہے تو اس پر ڈرافٹ کمیٹی میں ضرور تبادلہ خیال ہوگا۔ظاہر سی بات ہے کہ انا ہزارے اوران کی ٹیم آمریت کے حق میں نہیں ہے۔جن لوک پال بل کے متعلق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قانون سازی، قانون سازوں کا کام ہے،عوام کا نہیں... وہ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ انقلاب تبھی آتا ہے جب قانون ساز اپنی ذمہ داریوںسے پہلو تہی کرنے لگتے ہیں.. اور جب انقلاب آتا ہے تو قانون سازی ہی نہیں پوری عنان حکومت عوام کے ہاتھوں میں آتی ہے۔گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، اسے چھوٹا موٹا انقلاب ہی تو کہہ سکتے ہیں۔ لال کرشن اڈوانی بھی موجودہ صورت حال سے خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کے تئیں نفرت کااحساس پیدا کرنا جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ حیرت ہے!بابری مسجد کی مسماری کی تحریک چلانے ،گجرات میں ہندتوا کی لیباریٹری تیار کرنےاور مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری سمجھنے والے لال کرشن اڈوانی کو بھی سیاست دانوں کے تئیں نفرت  میں اضافے سے تشویش ہے۔
    سیاست داں عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں،  بشرطیہ کہ وہ اپنے اندر اپنی ذمہ داریوں کا ۱۰؍ فیصد بھی احساس پیدا کرلیں۔اگر انہیں عوامی نفرت اور ان کے غیض و غضب سے بچنا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ان کے منہ سے نوالے چھیننے کی روش ترک کردیں۔حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں...وہ تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں... کہ عوام بیدار ہوچکے ہیں..... فی الحال و ہ بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں، جیسے بھی اور جس طرح بھی ہو۔ حکومت  کے ذریعہ ہو،  اپوزیشن کے ذریعہ ہو، انا ہزارے کے ذریعہ ہو، یا اور کسی کے ذریعہ۔  اگر اس مرتبہ ٹال مٹول سے کام لیا گیا.... تو شاید دوسری مرتبہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے۔n