Saturday, 10 March 2012

Good decision by Uttar Pardesh voters......

 یوپی کے باشعور رائے دہندگان کا مدبرانہ فیصلہ

 مبارکباد کےمستحق ہیں یوپی کے رائے دہندگان، جنہوں نے اپنے ووٹوں کی طاقت کو محسوس کیا،اس کا بہتر استعمال کیا اور مدبرانہ فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ مایاوتی کی مطلق العنان حکومت کو اکھاڑ پھینکا بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی اوقات بتائی اورکانگریس کے پنجے کو بھی مروڑ دینے میں کامیابی حاصل کی .....جسے تعمیر سے زیادہ تخریب پر یقین تھا۔ اس مبارک سلامت کے حقدار بلاشبہ تمام رائے دہندگان ہیں لیکن مسلمانوں نے جس شعور و تدبر کا مظاہرہ کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔۱۸؍ فیصدمسلم نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچادینا اور بی جے پی کو محض ۱۱؍ فیصد نشستوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ پولنگ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت منظم انداز میں ہوئی ہے۔ سیکولر بالخصوص مسلم رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داری بحسنِ خوبی انجام دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت اور نومنتخب نمائندے رائے دہندگان کے معیار اور امیدوں پر کس حد تک پورے اُترتے ہیں؟

قطب الدین شاہد

حالیہ ریاستی انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ شعور و تدبر کے استعمال اور منظم پولنگ کے معاملے میں اترپردیش کے رائے دہندگان بہت اسمارٹ واقع ہوئے ہیں۔ایودھیا تحریک کے ذریعہ پورے ملک کی فضا کو مسموم کردینے والی بی جے پی کو غیر مؤثر کرنے نیز اس کے دانتوںسے زہر نکال کر اسے بے ضرر بنانے کاسہر ا  یوپی   کے عوام کے ہی سر بندھتا ہے۔کسے یقین تھا کہ جس بی جے پی نے  ۱۹۹۸ء  کے عام انتخابات میں  ۳۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸۲؍ میں سے ۵۷؍ سیٹیں ہتھیالینے میں کامیا بی حاصل کی تھی، اسی بی جے پی کو اُسی یوپی میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسمبلی کی محض ۴۷؍ نشستوں تک محدود کردیا جائے گا۔  یہ سیکولر رائے دہندگان کی بالغ نظری کا ثبوت ہی تو ہے جو یہ ممکن ہوسکا۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ملائم سنگھ کو سزا دینے کی بات ہو، مایاوتی کی تاجپوشی کا معاملہ ہو یا ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایک موقع اور دیتے ہوئےریاست میں دوسرے نمبر پر پہنچا دینے کا واقعہ ہو یا پھر ابھی اختتام پذیر ہوئے انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی ندامت کو قبول کرتے ہوئے اسے معاف کردینے اور دوبارہ مسند ِ اقتدار تک پہنچا دینے کی بات ہو....... رائے دہندگان نے ہر جگہ اور ہر موقع  پر نہایت ہی سوجھ بوجھ اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
    عام طور پر شمالی ہند کو آر ایس ایس کا مضبوط علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی شمالی ہند کے سب سے مضبوط گڑھ  یوپی میں بی جے پی کو  ۱۱؍ فیصد یعنی ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں صرف ۴۷؍ نشستیں ہی مل سکیں، اس کے برعکس ۸۹؍ فیصد سیٹیں سیکولر طاقتوں کے قبضے میںگئیں۔سوجھ بوجھ کا مظاہرہ یوں توسبھی نے کیا لیکن مسلم رائے دہندگان کی حکمت عملی اپنی مثال آپ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸؍ فیصد ہے ، اس لحاظ سے دیکھیں تو انہوں نےاسمبلی میں (۶۹؍ اراکین کے ساتھ) اپنی( تقریباً)۱۸؍ فیصد نمائندگی اپنے ووٹوں کی طاقت کے بل پر حاصل کرلی ہے۔ یوپی میں یہ اب تک کی ریکارڈ مسلم نمائندگی ہے۔ حالانکہ اس پر افسوس نہیں کیا جاناچاہئے لیکن ....... اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اُن ۶۴؍ اسمبلی حلقوں میں جہاں مسلم نمائندے دوسری پوزیشن پر رہے ہیں، اگربیداری کا مظاہرہ تھوڑا سا اور کیا جاتا تو اس ریکارڈ کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ ان ۶۴؍ حلقوں میں کئی حلقے ایسے تھے، جہاں دو دو اور تین تین مضبوط مسلم امیدوار آپس میں ہی ٹکرا گئے تھے۔ تھوڑی سی محنت سے سکندر آباد سے سلیم اختر (بی ایس پی)،  تھانہ بھون سے اشرف علی خان (آر ایل ڈی)، غوری گنج سے محمد نعیم (کانگریس) ، پھول پور  پوئی سے ابو القیس اعظمی (بی ایس پی) اور رودولی سے عباس علی زیدی (سماجوادی ) کو ہم  آسانی سے کامیاب کرواسکتے تھے۔ (باکس میں دیکھئے  ، چند مسلم امیدواروں کی شکست کا فرق)۔
    کہاجاتا ہے کہ یوپی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی لہر تھی۔ یہ لہر کیوں تھی؟ اور کس نے پیدا کی تھی؟دیانت داری سے اس کا تجزیہ کیا جائے گا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ یہ لہریں مسلمانوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ سماجوادی پارٹی سے ناراضگی کے سبب مسلمانوں نے ۲۰۰۷ء کے اسمبلی الیکشن میں بی ایس پی کو اور ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کا ہاتھ مضبوط کیا تھا۔  سماجوادی سے مسلمانوں کی ناراضگی کیوں تھی؟  یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے  لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنے سے بہتر ہوگا کہ ’یہ ناراضگی دور کیوں ہوئی؟‘ پر گفتگو کی جائے۔
     آگےبڑھنےسے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد اس کایا پلٹ کا پوراکریڈٹ مسلمانوں کو دینا نہیں ہے .... اس کا اعتراف ہمیں بھی ہے کہ اس کے اور بھی کئی عوامل ہیں، مثلاً بی ایس پی کی بدعنوانی  اور مطلق العنانی  کے ساتھ کانگریس کی ناعاقبت اندیشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کی اس کی پرانی روِش (صدر راج کی دھمکی اس کی واضح مثال ہے)،جس کی وجہ سے عوام نے انہیں رد کردیا...... لیکن ان سب کے باوجود .... مسلمانوں کے جوش و خروش اور  سیاسی شعور کے مظاہرے کے بغیر محض انہی عوامل کی  وجہ سے سماجوادی پارٹی یوں بلا شرکت ِغیرے لکھنؤ کے تخت پر براجمان ہوپاتی،یہ ممکن نہیں تھا۔یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کی شکست کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں لیکن سماجوادی کی کامیابی کی بنیادی وجہ اسے مسلمانوں کی حمایت کا ملنا ہی ہے۔
    اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ سماجوادی پارٹی کا حق بھی ہے۔ ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں سماجوادی پارٹی نے جو کام کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو.....غلطی کس سے نہیں ہوتی؟ غلطیاں کرنا انسان کے بشری تقاضے ہیں ..... لیکن بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں؟ ان پر نادم ہوتے ہیں، معافی تلافی کرتے ہیں اور اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ البتہ جو ایساکرتے ہیں وہ واقعی بڑے ہوتے ہیں اور پھر سرخروئی بھی حاصل کرتے ہیں ..... ملائم سنگھ اور ان کی ٹیم نے بھی غلطیاں کی تھیں لیکن انہوںنے ضد اور انا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی اور کلیان سنگھ کو اپنےساتھ رکھنے پر مسلمانوںسے سرِ عام معافی طلب کی۔ یہ بہت بڑی بات تھی.... اور اگر مسلمان ملائم کو معاف نہیں کرتے تو یقیناً یہ بری بات بھی ہوتی۔
    اب آئیے مسلمانوں کے سیاسی شعور کے ایک اور پہلو پر بھی گفتگو کرتے چلیں۔بلاشبہ مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو ترجیح دی لیکن ..... پوری طرح  اس کی آواز پر آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کس طرح بہتر بنائی جائے؟   بھوجی پورہ میں سماجوادی پارٹی کے وریندر سنگھ گنگوار  کے مقابلے اتحاد ملت کونسل کے نمائندےشاذی الاسلام کی جیت ، بلسی میں ایس پی کے امیدوار ومل کرشن اگروال کے مقابلے مسرت علی بتّن،چیل میں بی ایس پی کے محمد آصف جعفری، مئو سے مختار انصاری اور محمد آباد سے صبغت اللہ انصاری اور اس طرح کے بہت سارے امیدواروں کی کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ یقیناً مسلمانوں نے  ایس پی کو ترجیح دی لیکن جہاںجہاں  اس کے مسلم امیدوار نہیں تھے، اور وہاں مسلمان اپنی طاقت کامظاہرہ کرسکتے تھے، انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا اور بہت منظم طریقے سے کیا۔
     الیکشن ہوچکا، نتائج آچکے، جیتنے اور جِتانے والے خوش ہولئے، مبارکبادیوں کا دور چلااور ختم بھی ہونے پر آیا،  ایک دو دن میں حکومت بھی بن جائے گی..... سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا؟ مسلم رائے دہندگان کو جو کرنا تھا، انہوں نے کیا اور پوری ذمہ داری سے کیا۔ اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے نئی حکومت اور نو منتخب نمائندوں پر۔ نئی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ مسلمان کسی پر بھروسہ کرتا ہے تو بہت گہرائی سے کرتا ہے لیکن جب اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ئی جاتی ہےتو وہ نفرت بھی اُتنی ہی شدت سے کرتا ہے۔ سماجوادی پارٹی نےمعافی طلب کی تو اسے معاف کردیا گیا لیکن کانگریس کا حشر ہمارے سامنے ہے جو آج بھی یوپی میں اپنی زمین کی تلاش میں در در بھٹک رہی ہے۔  اسی کے ساتھ مسلم نمائندوں پر بھی بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح رائے دہندگان نے بلا لحاظ جماعت انہیں اپنے ووٹوں کا حقدار قرار دیا ہے، اسی طرح ان سے اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ مسلم مسائل پراسی طرح متحد ہوکر وہ بھی مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے۔اگر ایسا ہوا تو ایس پی کے ساتھ ہی تمام کامیاب مسلم نمائندوں کے بھی روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے، بصورت دیگر انہیں عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment