یوپی میں صدر راج کا شوشہ........
عوا م کو دھمکی یا شکست کااعتراف
اپنی غیر سنجیدگی کیلئے بدنام کانگریس کے بڑبولے قومی جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ اکثر و بیشترسچی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اگر ان پر اعتبار نہیں آتا تو صرف اس لئے کہ ان میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اترپردیش انتخابات کے پس منظر میں انہوں نے ایک با ر پھر سچائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر یوپی میں کانگریس شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس کیلئے راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہوںگے۔ دگ وجے سنگھ بالکل درست فرمارہے ہیں، لیکن قدرے انکساری سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کو بخش دیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی کے انتخابی نتائج اگر کانگریس کی توقع کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں تو اس کیلئے دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم بھی ذمہ دار ہوںگے۔
قطب الدین شاہد
یوپی میںووٹنگ کا عمل پورا ہوا۔ ۳؍مارچ کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ریکارڈ پولنگ کے ساتھ کانگریس، بی جے پی ، بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے ساتھ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ بیلٹ باکس میں محفوظ ہوگیا ہے۔دو دن بعد نتائج ظاہر ہوںگے۔ ان نتائج پر صرف یوپی کی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ نتائج حسب توقع برآمد ہوں یا غیر متوقع لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتیں بری طرح بوکھلائی ہوئی ہیں۔ دوران الیکشن یہ بات مشاہدے میں آئی کہ ووٹنگ کے تئیں عوامی جو ش و خروش سیاسی جماعتوں کو راس نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ بدحواسی کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں۔گھبراہٹ کا یہ تناسب بعض سیاسی جماعتوں میں کم ہوتا ہے تو بعض میں زیادہ۔
یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کی جائے تو کانگریس کی بوکھلاہٹ زیادہ نمایاں ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں مل جانے کی وجہ سے کانگریس اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ اترپردیش سے اس کی بے دخلی کا دور ختم ہوچلا ہے اور اس مرتبہ وہ وہاں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کو نارائن دت تیواری وزارت اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس کے بعد سے کانگریس وہاں اقتدار کیلئے ترس رہی ہے۔ تب سے اب تک وہ مسلسل کوششیں کررہی ہے لیکن اس کے تمام پینترے بیکار جارہے ہیں۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کو میدان میں اتار کربھی اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں۸فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۲۲؍ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۱۸ء۲۵؍ فیصد ووٹ مل گئے جس کی وجہ سے اسے ۲۱؍ پارلیمانی نشستیں مل گئیں اور وہ یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی۔اس کامیابی نے کانگریس کی خوش فہمی میں اضافہ کردیا اوراسے لگنے لگا کہ عوام نے اس کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے۔
ویسے کانگریس اگر یہ سوچ رہی تھی تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ عوام نے یقیناً اس کی غلطیوںکو معاف کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اترپردیش میں کانگریس کا جو ووٹ بینک رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ وہاں ۴۰؍ برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے، اس میںمسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ اپر کاسٹ کے ہندوؤں کا اہم رول رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے یہ تینوں ووٹ بینک دور ہوتے گئے۔ رام مندر کی تحریک سے اپر کاسٹ بی جے پی کے خیمہ میں چلا گیا، تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے فاصلہ بنا لیا ۔ اسی طرح بی ایس پی کی آمد نے دلتوں کے دلوں سے کانگریس کا موہ بھنگ کردیا۔اس مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی تینوں کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے...... لیکن ان کے ’بزرگوں‘ نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ووٹوں کی کاشت کیلئے راہل نے یوپی کی زمین کو بہت اچھی طرح ہموار کردیا تھا لیکن دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم نے ان کا کھیل خراب کردیا اور اس قابل کاشت زمین میں کنکر پتھر ملاکر اسے بنجر بنانے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔
یوپی الیکشن کے پس منظر میں بات کی جائے تو کانگریس کی بوکھلاہٹ زیادہ نمایاں ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں توقع سے زیادہ نشستیں مل جانے کی وجہ سے کانگریس اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی کہ اترپردیش سے اس کی بے دخلی کا دور ختم ہوچلا ہے اور اس مرتبہ وہ وہاں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ۵؍ دسمبر ۱۹۸۹ء کو نارائن دت تیواری وزارت اعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس کے بعد سے کانگریس وہاں اقتدار کیلئے ترس رہی ہے۔ تب سے اب تک وہ مسلسل کوششیں کررہی ہے لیکن اس کے تمام پینترے بیکار جارہے ہیں۔راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کو میدان میں اتار کربھی اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ۴۰۳؍ رکنی اسمبلی میں۸فیصد ووٹوں کے ساتھ محض ۲۲؍ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۱۸ء۲۵؍ فیصد ووٹ مل گئے جس کی وجہ سے اسے ۲۱؍ پارلیمانی نشستیں مل گئیں اور وہ یوپی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرسامنے آئی۔اس کامیابی نے کانگریس کی خوش فہمی میں اضافہ کردیا اوراسے لگنے لگا کہ عوام نے اس کی غلطیوں کو معاف کردیا ہے۔
ویسے کانگریس اگر یہ سوچ رہی تھی تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ عوام نے یقیناً اس کی غلطیوںکو معاف کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ اترپردیش میں کانگریس کا جو ووٹ بینک رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ وہاں ۴۰؍ برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے، اس میںمسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ اپر کاسٹ کے ہندوؤں کا اہم رول رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس کے یہ تینوں ووٹ بینک دور ہوتے گئے۔ رام مندر کی تحریک سے اپر کاسٹ بی جے پی کے خیمہ میں چلا گیا، تو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے فاصلہ بنا لیا ۔ اسی طرح بی ایس پی کی آمد نے دلتوں کے دلوں سے کانگریس کا موہ بھنگ کردیا۔اس مرتبہ ایسا لگ رہا تھا کہ راہل گاندھی تینوں کو قریب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے...... لیکن ان کے ’بزرگوں‘ نے ان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ووٹوں کی کاشت کیلئے راہل نے یوپی کی زمین کو بہت اچھی طرح ہموار کردیا تھا لیکن دِگی راجہ کے ساتھ ہی سلمان خورشید،سری پرکاش جیسوال، بینی پرساد ورما اور کچھ حد تک پی چدمبرم نے ان کا کھیل خراب کردیا اور اس قابل کاشت زمین میں کنکر پتھر ملاکر اسے بنجر بنانے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔
دلتوں کے گھر جانا اور ان کے گھر کا کھانا کھانا، اپنے آپ میں بڑا قدم تھا، راہل نے یہ کام کیا اورا س طرح دلتوں کے ایک بڑے طبقے کو متاثر بھی کیا۔ یہ اور بات ہے کہ انہیں ووٹ بینک میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ یہ یقینا ایک مشکل کام ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔ راہل گاندھی نے اس برف کو پگھلانے کی ایک اچھی پہل ضرور کی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ہموار کرنے کی بہت کوششیں کیں۔ ماضی میں کانگریس نے جو غلطیاں کی ہیں، جن کی وجہ سے یوپی کے مسلمانوں نے اسے ریاست سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا، اس میں لچک پیدا ہونے لگی تھی۔ راہل کی معصومیت پر لوگوں کو ترس آنے لگا تھا، اور لوگ یہ ذہن بنانے لگے تھے کہ کانگریس کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا جاسکتا ہے...... لیکن اسی درمیان کانگریس کی جانب سے اترپردیش انتخابات کی کمان سنبھالنے والے دگ وجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس کا تذکرہ چھیڑ کر مسلمانوں کے زخموں کو ہرا کردیا۔ کانگریس کی کارستانیوں کو مسلمان یقینا ً بھولے نہیں تھے اور بھولنے کا ارادہ بھی نہیں تھا لیکن اس بیان سے یہ محسوس ہوا کہ کانگریس نہ صرف یہ کہ ان کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتی بلکہ ان کے زخموں کو کرید کر انہیں ہرا بھی رکھنا چاہتی ہے۔ رہی سہی کسر چدمبرم کے فوری ’ری ایکشن‘ نے پوری کردی۔ سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ کی خاموشی سے بھی مسلمانوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ کانگریس کی ان بے وفائیوں کو مسلمان کسی طرح بھولنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ سلمان خورشید بھی درمیان میں کود پڑے۔ بٹلہ ہاؤس معاملے کے ساتھ ہی ریزرویشن کے معاملے پر بھی انہوں نے کئی قلابازیاں کھائیں اور اپنے ساتھ مسلمانوں کو بھی تذبذب میں مبتلا رکھا۔ان کا یہ کہنا کہ بٹلہ ہاؤس کا واقعہ سننے کے بعد سونیا گاندھی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں، کسی کوبھی ہضم نہیں ہوا ۔ اسی طرح مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے ان کے وعدے پر بھی اعتبار کرنا مشکل لگا کہ یہ وہی کانگریس ہے جس نے ۴۰؍ برسوں تک یوپی اور ۵۰؍ برسوں تک مرکز میں حکمرانی کی ہے اور اس درمیان مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہی ہوئی ہے۔ سماجوادی پارٹی سے کانگریس میں آئے بینی پرساد ورما بھی اپنی سنجیدگی کو (جس کیلئے وہ مشہور تھے) بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان کارزار میں کود پڑے اور مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا ’جرأت مندانہ‘ بیان دے ڈالا..... اور دودن کے بعد ہی ’زبان پھسلنے کی بات کہہ کر‘ اپنا بیان واپس بھی لے لیا۔ اس طرح کے بیانات دے کر کانگریس نے مسلمانوں میں اپنی شبیہ تو خراب کرہی لی تھی ....... ایسے میں رہی سہی کسر پوری کردی دگ وجے سنگھ اور مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال نے۔ ان کا یہ کہنا کہ اترپردیش میں یا تو کانگریس کی حکومت بنے گی یا پھر صدر راج نافذ ہوگا،کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں تھا ..... اور ہونا بھی نہیں چاہئے تھا۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ آپ رائے عامہ کی پروا نہیں کرتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ کی دھمکی دیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کانگریس کو عوام اس قابل نہیں سمجھتے ہیں کہ اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپیں تو وہ کیا وہ عقبی دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے کی دھمکی دے گی۔ کانگریس رہنماؤں کے اس بیان سے کسی اور کونہیں بلکہ صرف اور صرف کانگریس کو ہی نقصان پہنچے گا۔ نتائج تو بہرحال دو دن بعد ظاہر ہوںگے لیکن .... یہ طے ہے کہ کانگریس کو جتنی سیٹیں مل سکتی تھیں، اُتنی تو بہرحال نہیں ملیںگی اور اس کیلئے بقول د گ وجے سنگھ ’راہل گاندھی نہیں بلکہ وہ خود ہی ذمہ دار ہوںگے‘۔
No comments:
Post a Comment