Saturday, 20 April 2013

Nitish and Modi ka Drama

جنتادل متحدہ اور بی جے پی کی لفظی جنگ
حقیقت کم شعبدہ بازی زیادہ

ان دنوں جنتادل متحدہ اور بی جے پی میں ہائی پروفائل ڈراما جاری ہے۔ مکالمہ بازی زوروں پر ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کرانے پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنے خیالات و نظریات سے سمجھوتہ کرنے والی نہیں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کااتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے۔ یہ ڈراماہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔
 
قطب الدین شاہد

آئندہ لوک سبھا انتخابات کی آمد میں ابھی ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے لیکن اس کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ اپنے اپنے طورپر تمام قومی و علاقائی جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ کانگریس، بی جے پی، سماجوادی، بی ایس پی، ترنمول، سی پی ایم، سی پی آئی، ڈی ایم کے، اے آئی اے ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس اور جے ڈی یو..... سبھی انتخابی دُھنوں پر رقص میں مصروف ہیں۔ کہیں شدت تھوڑی کم ہے تو کہیں تھوڑی زیادہ۔ ان تمام کےدرمیان عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں جنتادل متحدہ دیگر جماعتوں کےمقابلے زیادہ کامیاب ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر اس نے ایک ہائی پروفائل ڈراما اسٹیج کیا ہے۔ اس میں عوام کی دلچسپی کے بہت سارے لوازمات ہیں۔ مضبوط پلاٹ، دلچسپ کردار اور برجستہ مکالموں کے ساتھ اس ڈرامے میںتجسس بھی ہے کہ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسوں کایہ اتحاد بس ٹوٹنے ہی والا ہے، لیکن جو لوگ ان کے ڈراموں کو دیکھتے رہے ہیں اور ان کی سوچ سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا یہ ڈراما ہر انتخابی موسم میں شروع ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتے ہی آئندہ انتخابات تک کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے۔ اقتدار مل گیا تو ریوڑیوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے، بصورت دیگر ذمہ داران آئندہ کے ڈرامے کی اسکرپٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اس بار بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔  ان حقائق کے باوجود اگر اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا سبب خیالات و نظریات کا تضاد نہیں ہوگا بلکہ اقتدار تک پہنچنے کی کوئی دوسری حکمت عملی ہوگی۔
    دراصل ۲۰۱۰ء میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں یہ فارمولہ بہت کامیاب رہا تھا۔ اس ڈرامے نے عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ جے ڈی یو کے ساتھ بی جے پی کی نشستوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ نتیش کمار اور نریندر مودی ایک بار پھر اسی کامیابی کو دُہرانا چاہتے ہیں۔ یہ بات ابھی تک عوام کے حافظے میں ہے کہ بہار میں اسمبلی الیکشن کے دوران  انتخابی مہم میں مودی کی شرکت کو بنیاد بناکر ان دونوں(اتحادی) جماعتوں نے کتنی بیان بازیاں کی تھیں اور پھر انتخاب جیتنے  کے بعد کیا ہوا، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
    اس ڈرامے کا انجام کیا ہوگا؟اس پر گفتگو سے قبل آئیے صورتحال دیکھنےکوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی دراصل اس مرتبہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کیلئے وہ بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میںیہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جنتادل متحدہ کا ساتھ چھوڑنے کی حماقت نہیں کرے گی، کیونکہ اس صورت میں وہ نہ صرف ایک مضبوط اتحادی گنوادے گی، بلکہ بہار میں اس کیلئے موجودہ نشستوں پر دوبارہ فتح  حاصل کرنا بھی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں نے بہار کی ۴۰؍ سیٹوں پر مل کر انتخاب لڑا تھا، جس میں جے ڈی یو نے ۲۰؍ اور بی جے پی نے ۱۲؍ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح ۲۰۱۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں ۲۴۳؍  رکنی ایوان میں جے ڈی یو نے ۱۱۵؍ اور بی جے پی نے ۹۱؍ سیٹیں حاصل کی تھیں۔    جے ڈی یو نے ۱۴۱؍ اور بی جے پی نے ۱۰۲؍ نشستوں پرقسمت آزمائی کی تھی جس میںدونوں نے مجموعی طور پر ۳۹؍فیصد ووٹ حاصل کئےتھے۔ ظاہر ہے کہ اگر بی جے پی تنہا  انتخاب میں اُترنے کی کوشش کرے گی تو اس کیلئے ووٹوں کے اس تناسب تک پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے بمشکل ۱۵؍ سے ۲۰؍فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں اسے کتنی نشستیں ملیںگی،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آر جے ڈی نے ۲۷ء۳۱؍ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، اس کے باوجود اسے صرف۲۲؍ نشستوں پر سمٹ جاناپڑا تھا  جبکہ لوک سبھا میں اسے ۴؍ سیٹیں ہی مل سکی تھیں۔
     ان حقائق کے باوجود اگر بی جے پی کے تیور قدرے جارحانہ  ہیں تو اس کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ وہ دراصل اس مرتبہ سخت ہندوتوا  کے تیور کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ این ڈی اے کو مضبوط کرنے کے بجائے  بی جے پی کو توانا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مودی کو اگر آگے بڑھایا گیا تو اس کے بنیادی رائے دہندگان اس کے ساتھ آئیںگے اور اس  طرح اس کی مجموعی نشستوںمیں اضافہ ہوگا، لیکن وہ مودی کے نام کااعلان اس لئے نہیں کرے گی کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی ذاتی نشستوں کی تعداد اتنی کبھی نہیں ہوگی کہ وہ تنہاحکومت ساز ی کرسکے،  اں لئے  انتخابات کے بعد اسے این ڈی اے کو ’متحد‘ کرنے کی جوڑ توڑ بہرحال شروع کرنی ہوگی۔  بی جے پی کی کوشش ہے کہ مودی کو آگے بڑھاکر سخت ہندوتوا میں یقین رکھنےوالوں کے ووٹ حاصل کرلئے جائیں اور پھر الیکشن بعد سشما سوراج، اڈوانی، راج ناتھ سنگھ،  یشونت سنہا یا پھر اور کسی نام کو آگے بڑھا کر ناراض این ڈی اے کے اراکین کو ’متحد‘کرلیا جائےگا۔ ہندوستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔
    حالات بتارہے ہیں کہ بی جے پی  اپنے طور پر جے ڈی یو سے تعلق ختم نہیں کرے گی لیکن..... اگر جے ڈی یو نے بی جے پی  سے مودی  سے متعلق زیادہ وضاحت پر اصرار کیاتو بی جے پی اس تعلق کو ختم بھی کرسکتی ہے۔   بی جے پی کو اگر محسوس ہوا کہ مودی کو آگے بڑھاکر الیکشن لڑنے میں اسے پورے ملک میں ۲۵؍ سے ۳۰؍ سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ بہارمیں ۴؍ سے ۶؍ سیٹوں کانقصان گوارا کرلے گی،کیونکہ اسے پتہ ہے کہ الیکشن بعد ضرورت محسوس ہوئی تو    جنتادل یو کو این ڈی اے کے بینر تلے لانا کچھ مشکل کام نہیں ہوگا۔
    رہی بات جے ڈی یو کی، تو اس کیلئے بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ تنہاالیکشن لڑنے میںاس کابھی نقصان ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ  جے ڈی یو کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کرکے لوک سبھا الیکشن میں اُترے۔ دراصل یہاں کانگریس کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے۔ یعنی  وہ بھی کچھ بھی کرکے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہونا چاہتی ہے۔ اس کی ۲؍وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اقتدار کااپنا مزہ ہے، دوسرے یہ کہ  اگراس مرتبہ شکست کا سامنا ہوا تو راہل گاندھی کا کریئر تباہ ہوجانے کا خدشہ ہے۔ ان حالات میں کانگریس بہت کم سیٹیں پاکر بھی  بہار میں جے ڈی یو سے انتخابی مفاہمت کرسکتی ہے۔ اس کی وہاں پارلیمنٹ کی ۲؍ سیٹیں ہیں۔ جے ڈی یو سے انتخابی تال میل کی صورت میں اتنا تو طے ہے کہ اسے نقصان نہیں ہوگا۔ ایسے میں اسے آر جے ڈی سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور کانگریس کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنا فائدہ ہو تو، کسی کی اعتماد شکنی اس کیلئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔
     آثار بتار ہے ہیں کہ وزیراعظم کے عہدے کیلئے امیدوار کے طورپربی جے پی کسی  کے نام کا باضابطہ اعلان نہیں کرے گی لیکن اپنے رائے دہندگان کو یہ پیغام ضرور دے گی کہ الیکشن بعدمودی ہی اس کے میرکارواں ہوںگے۔ ایسے میں گیند جے ڈی یو کے پالے میں آجاتی ہے کہ وہ کیاقدم اُٹھاتی ہے۔ اس کے سامنے  ۲؍ صورتیں ہوں گی۔ اول یہ کہ کانگریس سے اگر انتخابی مفاہمت ہوجاتی ہے تو وہ بی جے پی سے مودی کے نام پر وضاحت طلب کرتے ہوئے ناطہ توڑ لینے کااعلان کرے گی۔ دوم یہ کہ اگر کانگریس سے اپنی شرطوں پر سمجھوتہ نہیں ہوا تو بی جے پی کے ساتھ مکالمہ بازی جاری رہے گی اور دونوں ایک دوسرے کے اتحادی بنے رہیں گے۔  تو کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے تھوڑا اور توقف کیجئے اور تب تک اس دلچسپ ڈرامے سے لطف  اندوز ہوئیے۔

No comments:

Post a Comment