Saturday, 4 May 2013

UPA hukumat na ahal ya khud sar?

یوپی اے حکومت نااہل یاخود سر؟

ترقی پسند اتحاد حکومت نے اپنے نام ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ مثبت نہ سہی منفی ہی سہی، لیکن اس کے ذریعہ تاریخ میں بہرحال منموہن سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کام کاج کے اعتبار سے یہ سب سے نااہل حکومت ثابت ہوئی ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ۹؍ برسوں میں موجودہ حکومت نے اوسطاً سالانہ  صرف ۳۲۱؍ گھنٹے کام کئے جبکہ پہلی لوک سبھا میں کام کرنے کا اوسط سالانہ  ۷۵۷؍ گھنٹے تھا۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا حکومت  واقعی نااہل ہے یا خود سری نے اس کا دماغ خراب رکھا ہے؟

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ موجودہ یوپی اے سرکار نے اپنے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں سب سے کم کام کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔کم از کم تاریخ میں خود کے یاد رکھے جانے کا منموہن سنگھ حکومت نے ایک معقول انتظام توکر ہی لیا ہے۔ ماضی میں جب بھی کبھی سب سے زیادہ گھوٹالے اور سب سے کم کام کرنے والی حکومت کی بات آئے گی، تو یوپی اے کا نام آسانی سے لیا جاسکے گا۔یوپی اے حکومت کا پہلا دور بھی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن دوسرا دور تو نہایت ہی افسوس ناک رہا جس میں کئی اجلاس ایسے گزرے جب کچھ بھی کام نہیں ہوا۔بلاشبہ اس کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ذمہ دار ہیں لیکن حزب اختلاف کے اس رویے کیلئے بھی بہرحال حزب اقتدار ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔
    اجلاس کا نہ چلنا،ایوان میں ہنگامہ آرائیوں کا بازار گرم ہونا، کارروائیوں میں بار بار خلل پڑنا،  پارلیمنٹ کا مچھلی بازار میں تبدیل ہونا اور پھر کاروبار سمیٹ کر دوسرے دن تک کیلئے  اجلاس کا معطل کیا جانا.... اور سب سے اہم یہ کہ اجلاس کا طلب ہی نہ کیا جانا......  یہ موجودہ حکومت کی  روایت اورایک شناخت رہی ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی نااہلی  ہے یا اس کی خود سری کی علامت؟ سرسری مطالعے سے حکومت کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی خودسری ہے، وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو ضروری ہی نہیں سمجھتی۔  دراصل کانگریس کی قیادت میں یوپی اے حکومت مشورے میں یقین نہیں رکھتی، کسی مسئلے پر وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی.... حریف جماعتوں کی بات جانے دیں، وہ حلیف جماعتوںکو بھی کچھ نہیں سمجھتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور اس طرح عوام کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہوتی ہے...... حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا ایک اور زاویہ بھی ہے اور یہ حقیقت سے زیادہ قریب لگتا ہے ۔دراصل حکومت کی خود سری نے   اسے ناہل بنا رکھا ہے اور اس کی اہم وجہ عوام کی خاموشی ہے۔اسے یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ عوام کی خاموشی نے حکومت کو خود سر بنا دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئی ہے۔
    دو ہفتے بعد یعنی۲۲؍مئی کویوپی اے دوم اپنی مدت کے۴؍ سال پورے کرلے گی۔اس پوری مدت میں حکومت نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے۔جمہوریت کے لبادے میں وہ ہر کام غیر جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپوزیشن کا رویہ اچھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر حزب اقتدار نااہل، نکما اور خود سر ہے تو حزب اختلاف بھی کمزور، غیرذمہ دار اور موقع پرست ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ملک کے خزانے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی  بیشتر جماعتوں کو ملک  سے زیادہ  اپنی پارٹی کے مفاد کی فکر لاحق رہتی ہے۔وہ پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی نہیں بلکہ اپنی جماعت کی نمائندگی کرتی ہیںاوراس کیلئے پارلیمنٹ کو یرغمال بنائے رکھتی ہیں۔ مختلف گھوٹالوں کے موضوع پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایوان کی کارروائیوں کوروک کر سرکار کو’ پریشان‘ کرنے کا ڈھونگ کرتی ہیں اوراس طرح عوام کے روبرو خود کو ’ذمہ دار‘ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ باور کراکر کہ اپوزیشن کی ذمہ داری صرف ہنگامہ آرائی ہے، وہ خود کو بیوقوف ثابت کرتی ہیں یا عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوںسے عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور طشت میں سجا کر اقتدار ان کے ہاتھوں میں سونپ دیںگے؟  اہم  اپوزیشن بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں  شاید اسی خوش فہمی  میں مبتلا ہیں لیکن سماجوادی اور آر جے ڈی جیسی جماعتیں بھی،جو اُٹھتے بیٹھتے کانگریس کے قصیدے پڑھتی ہیں، اسی خوش فہمی کی شکار ہیں۔ وہ بھی ’عوام کی حمایت‘ میں ایوان اور ایوان کے باہر کانگریس کی  پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہیں لیکن جب بات اُن پالیسیوں کے نفاذ کی آتی ہےتو یہ جماعتیں ڈرامائی انداز میں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔
    مطلب واضح ہے کہ اگرحکومت نااہل اور خود سر ہے تو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔لوک سبھا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے ۴؍ برسوں کے دوران ایوان کے۱۲؍ سیشن میں صرف  ۱۱۵۷؍ گھنٹے میں کام ہوا۔  اسی طرح گزشتہ لوک سبھا کے ۵؍ برسوں کے دوران بھی ایوان میں صرف۱۷۳۷؍ گھنٹے ہی کام ہوسکا تھا۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ یو پی اے حکومت کے گزشتہ ۹؍برسوں کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں سب سے کم کام ہوا یعنی سالانہ صرف ۳۲۱؍ گھنٹے ۔ اس سےبہترتو واجپئی کا دور حکومت تھا جب ۵؍ سال میں ایوان نے۱۹۴۶؍ گھنٹے یعنی۳۸۹؍گھنٹے فی سال کام کیاتھا۔ یہ ۲۲؍ جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت تھی۔ پہلی لوک سبھا نے ۵؍ سال میں۳۷۸۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً ۷۵۷؍ گھنٹے سالانہ کام کیا تھا۔۹؍ویں، ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا جو  ہندوستانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مستحکم سرکاریں تھیں، کام   کے  لحاظ سے منموہن حکومت سے زیادہ  ذمہ دار ثابت ہوئیں۔ ۹؍ ویں لوک سبھا میں جس میںوی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومتیں تھیں، ۱۶؍ مہینے میں ۷۵۴؍ گھنٹے یعنی اوسطاً سالانہ ۵۶۶؍ گھنٹے کام ہوا تھا۔ اسی طرح ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ ویں لوک سبھا  جو بالترتیب ۱۹؍ اور ۱۳؍ ماہ چلی تھی،اندر کمار گجرال، دیوے گوڑا اور واجپئی نے اقتدار کی کمان سنبھالی تھی۔ ان دونوں لوک سبھا کی مدت میں باالترتیب ۸۱۴؍ اور ۵۷۵؍ گھنٹے یعنی اوسطاً   ۵۱۴؍ اور۵۳۰؍ گھنٹے سالانہ کام کاج ہوا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ مستحکم حکومت سے زیادہ بہتر وہ غیرمستحکم حکومتیں ہی تھیں جن کے دور میں پارلیمنٹ میں نسبتاًسنجیدگی زیادہ تھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار پارلیمنٹ میں اجلاس کے انعقاد کے ہیں، کام کرنے کی نہیں۔ موجودہ حکومت کے ۹؍ برسوں میں  ۲۸۹۴؍ گھنٹوں تک اجلاس  چلا، لیکن ان میں سے کتنے گھنٹے ہنگاموں کے نذر ہوئے، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ رواں بجٹ اجلاس گزشتہ ۹؍ دنوںسے جاری ہے جس میں ابھی تک ایک دن بھی اجلاس کی کارروائی ٹھیک طرح سے چل نہیں سکی ہے ۔درمیان میں ایک دن اپوزیشن کی ’رضامندی‘ سے ان کے واک آؤٹ کے درمیان بحث کے بغیر حکومت نے چند مالیاتی بل ضرور منظور کرالئے تھے۔
    افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمان اور ہماری سیاسی جماعتیں ملک آزاد ہونے کے ۶۵؍ سال بعد بھی بالغ نظری کا ثبوت پیش نہیں کرپارہی ہیں۔ ایک سرکاری جائزے کے مطابق پارلیمانی  امور کی کارروائی پر فی گھنٹے تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ معمول کے اخراجات ہیں، ان میں کرسیاں اور مائک توڑنے کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
      اس کی وجوہات کیا ہیں؟آخر حکومت اجلاس کا انعقاد کیوں نہیں کرتی؟کیا  وہ اپوزیشن کےہنگاموں سے خوفزدہ ہے یا وہ ان اجلاس کو اہمیت ہی نہیںدینا چاہتی؟   اس کا جواب ہمیں حکومت سے نہیں بلکہ خود سے پوچھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری نمائندہ جماعتیں ہیں۔   اگر ہم اسے غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟
n

No comments:

Post a Comment