نواز شریف کی کامیابی:اک نئی صبح کی دستک
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔
قطب الدین شاہد
گزشتہ دنوں پاکستانی قومی اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے،وہ غیر متوقع نہیں ہیں۔امید یہی تھی کہ نواز شریف کی واپسی ہوگی البتہ یہ اندازہ نہیں تھا کہ زرداری اینڈ کمپنی کا انجام اتنا براہوگا۔ ۲۷۲؍رکنی اسمبلی میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ۱۲۴؍ نشستیں تنہا حاصل کرلیں جبکہ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اورعمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بالترتیب ۳۱؍ اور ۲۷؍ سیٹیں ہی ملیں۔۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی نے ۷۱؍ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ۹۴؍سیٹیں حاصل کی تھیں۔ گزشتہ ۵؍ برسوں میں پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس سے یہ اندازہ تو تھا ہی کہ زرداری حکومت کو بہرحال اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اس وقت پاکستان کے جو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں، ان میں نواز شریف کی اس کامیابی کو اک نئی صبح کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی اہمیت یوں بھی ہے کہ اس پر پوری دنیا کی نظر ہے۔پاکستان میںجو کچھ ہوا، جو ہورہا ہے یا جو کچھ آئندہ ہوسکتا ہے، اس کے اثرات صرف پاکستان ہی پر نہیں پڑتے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے داخلی انتشار سے ہندوستان، افغانستان، چین ،ایران اور بنگلہ دیش جہاں براہ راست متاثر ہوتے ہیں، وہیں اس کی خارجہ پالیسی کے اثرات ان پڑوسی ممالک کے علاوہ خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ ، یورپ اورامریکہ پر بھی پڑتے ہیں۔ان حالات میں کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کا پُرامن رہنا صرف پاکستان ہی کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے بہت ضروری ہے اور نواز شریف کی آمد سے اس کی امید ہوچلی ہے۔اہل پاکستان نے اگر اسلام آباد کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں سونپی ہے، تو بہت سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ وہ نہ صرف ایک مدبر سیاستداں ہیں بلکہ ایک اچھا قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں گے بلکہ پڑوسیوں بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی سمت مثبت قدم بھی اٹھائیںگے۔ نتائج ظاہر ہونے کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا واضح اشارہ بھی دیا ہے۔
پاکستا ن میں اقتدار کے تین مراکز ہیں، فوج، عدلیہ اورسیاست۔ اقتدار کی تبدیلی میں خفیہ ایجنسیاں بھی بہت اہم رول ادا کرتی ہیں لیکن عام طو ر پر انہیںفوج کا وفادارہی سمجھا جاتا ہے۔ نواز شریف کے مراسم ان تینوں مراکز سے کافی اچھے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب وہ فوج کے منظور نظر ہوا کرتے تھے، اسی وقت وہ خفیہ ایجنسیوں سے بھی رابطے میں آئے۔ اِکا دُکا معاملات کوچھوڑ دیا جائے جن میں ان کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہوا، ورنہ عدلیہ سے بھی ان کے رشتے اچھے ہی رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھے وکیل ہیں، قانون جانتے ہیں لہٰذ عدالتی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اپنے ۳۷؍ سالہ سیاسی کریئر میں انہوں نے بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔ وزیراعظم بننے سے قبل وہ پنجاب کے۲؍ بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر انہیں ’شیرِ پنجاب‘ کہاجاتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے ۔ یہ مدت تین سال تک رہی ۔ ۱۹۹۶ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا تو عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور دوتہائی اکثریت سے نوازا ۔ اس وقت ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں حلف برادری کے موقع پر ۱۳؍ گھنٹے قبل ہی وہ میدان بھر چکا تھا جہاں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔نوازشریف کی خوبی یہ ہے کہ وہ عزم کے پکے اور مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔جو سوچتے ہیں، اسے حاصل کرنے کیلئے پوری توانائی صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران کے وقت ایسے ہی کسی قائد کی ضرورت تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب اقتدار کی منتقلی کو نئی صبح کیوں کہا جائے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل نواز شریف کی زندگی بالخصوص ان کے سیاسی کریئر کا سرسری مطالعہ کرناہوگا۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ بطور شوق یا کریئر بنانے کیلئے انہوں نے سیاست کا رخ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت آئے تھے اور اسے انہوں نے حاصل بھی کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ قومیائی گئی اپنی کمپنیوں کو سرکاری تسلط سے آزاد کرانا ۔
نواز شریف کا تعلق ایک دولت مند گھرانے سے ہے، جس کا شمار موجودہ پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ملک تقسیم ہوا تو ان کے والد
محمدشریف امرتسر سے لاہور ہجرت کرگئے جہاں ۱۹۴۹ء میں نواز شریف کی پیدائش ہوئی۔ان کا خاندان ’اتفاق گروپ‘ کا مالک ہے جس کے پاس بے شمار کمپنیاں ہیں، جن میں سے بیشتر اسٹیل کی ہیں۔ ۷۶۔۱۹۷۵ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جب کمپنیوں کوقومیانے کا عمل شروع کیا تو ان کی کئی کمپنیاںبھی سرکار کی ملکیت میں چلی گئیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے نواز شریف سیاست کا رخ کیا۔ اس وقت ان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہی تھا کہ حکومت کی دستر س سے کس طرح اپنی کمپنیوں کو آزاد کرایا جائے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے صوبہ پنجاب میں آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل غلام جیلانی خان گورنر منتخب ہوکر آئے تھے۔ جیلانی خان کوایک نوجوان تیز طرار شہری لیڈر چاہئے تھا جو انہیں نواز شریف کی صورت میں نظر آیا۔ جیلانی خان نے فوری طور پر انہیں پنجاب کا وزیرمالیات مقرر کردیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ اس کے ایک سال بعد نواز شریف پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بنادیئے گئے، جس کی قیادت جنرل ضیاء الحق کررہے تھے۔ اس طرح انہیں جنرل ضیاء کے قریب آنے کا موقع ملا۔ اس قربت نے اتنا رنگ دکھایا کہ نہ صرف انہوں نے اپنی کمپنیاں آزاد کروالیں بلکہ یہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست بھی بن گئے۔ ضیاء الحق کے ساتھ ہی نواز شریف اُس وقت کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل رحیم الدین خان اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے بھی بہت قریب رہے۔
جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جب انہوںنے قومی اسمبلی سمیت تمام ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب صرف اور صرف پنجاب میں نواز کی حکومت باقی رکھی تھی اور اسے مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ بیرون ملک سے بھی نواز شریف کے مراسم کافی اچھے ہیں ۔ ان کی اسٹیل کمپنیوں کا کاروبار سعودی عرب کے ساتھ دیگر خلیجی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف سے جب ان کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے تو سعودی عرب کی مداخلت ہی سے نواز شریف کی جاں بخشی ہوئی تھی ۔
نواز شریف سے پاکستان کے ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا بالخصوص ہندوستان کو بہت توقعات ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے بلکہ معاشی سطح پر بھی پاکستان کوخوشحال بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اسی طرح خارجہ پالیسی میں بھی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ دراصل وہ نواز شریف کا ہی دورِ حکومت تھا جب ۱۹۹۹ ء میں ہندوستان سے وہ تاریخی معاہدہ ہوا تھا جسے ’’لاہور اعلانیہ ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی دوران نئی دہلی سے لاہور کی بس سروس بھی شروع ہوئی تھی جس کے افتتاحی سفر میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے تعلقات میں مزید بہتری آئی ہوتی اگر کارگل کا واقعہ نہ پیش آیا ہوتا اور فوج کے ذریعہ نواز شریف کا تختہ نہ پلٹ دیاگیا ہوتا۔ بہرحال اب جب کہ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے جارہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ اس مرتبہ نہ صرف یہ کہ اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گےبلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیارکریں گے۔
No comments:
Post a Comment