اڈوانی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں
ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا
ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا
قطب الدین شاہد
نفرت کی سیاست کرنےوالے اور اس کے سہارے ’ترقی‘کی منزلیں طے کرنےوالے لال کرشن اڈوانی کیلئے یہ ہفتہ بہت ہی کربناک رہا ہوگا۔ بہت جلد وہ اپنے سیاسی انجام کو پہنچ گئے ..... ان کا جو انجام ہوا، یہ تو خیر ہونا ہی تھا ، انصاف پسند عوام کواس کا انتظار بھی تھا لیکن یہ اتنی جلدی ہوگا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے ملک اورعوام کوجو کچھ دیا ہے، وہ ایک ایک کرکےانہیںلوٹایا جا رہا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے اس شعر میں اپنے بارے میں کہا تھا کہ:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے، لوٹا رہا ہوں میں
اس کے مفہوم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اڈوانی اپنے بارے میں یہ کہہ کر تسلی کر سکتے ہیں کہ
دنیا کو فسادات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے میں نے، لوٹا رہی ہے وہ
ملک کی تقسیم کے وقت ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات سے لے کر بابری مسجد کی شہادت ،پھرگجرات میں مہینوں تک جاری رہنے والےفسادات میں لال کرشن اڈوانی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، کمیشن اورعدالتیں بھلے ہی انہیں مجرم ثابت نہ کریں یا نہ کرسکیں لیکن ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت کے سامنے اڈوانی کا کردار پوری طرح واضح رہا ہے۔اڈوانی کے ساتھ ان کی پارٹی نے جو سلو ک کیا، وہ حق بجانب ہو یا نہ ہو...... لیکن یہ بات اپنی جگہ پوری طرح درست ہے کہ وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔
ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے وجود میں آنے والی آر ایس ایس سےایل کے اڈوانی کا تعلق زمانہ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی عمر سے۲؍ سال چھوٹے اڈوانی بہت جلد اپنی’ فعالیت اور سرگرمی‘ کے سبب اس تنظیم کے اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور ۲۰؍ سال کی عمر میں انہیں کلیدی عہدہ بھی تفویض کردیا گیا تھا۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میںیہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ، کراچی کے سیکریٹری منتخب ہوئے.... لیکن تنظیم کے منظور نظر اُس وقت ہوئے جب تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نےانہیں الور، راجستھان بھیجا۔ اُس وقت دہلی اور پنجاب کی طرح الور میں بھی بھیانک قسم کا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
لال کرشن اڈوانی صرف مسلمانوں کے خلاف پیش پیش نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔۲۲؍ جنوری ۱۹۹۹ء کو آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینس اپنے ۶؍ اور ۱۰؍ سالہ دو بچوں کے ساتھ جب اڑیسہ میں زندہ جلاد یئے گئے تھے، تو اس وقت مرکز میں اڈوانی ہی وزیر داخلہ تھے۔ ۱۹۸۹ء میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تو یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت میں ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور رام مندر کے نام پرپسماندہ طبقات کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی تھی ۔
لال کرشن اڈوانی کا کارنامہ صرف ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژکرنا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جب اور جہاں موقع ملا ہے، انہوں نے ’اپنوں‘ کے ساتھ بھی دغا بازی کی ہے اور ان کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔ شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو اڈوانی کو اپنے ساتھ رکھا۔ بی جے پی، جن سنگھ اور جن سنگھ، آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ان کے نظریات اور پالیسی میں کسی قسم کا فرق تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن بظاہر اوراعلانیہ پالیسیوں کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سنگھ ، بی جے پی سے کہیں زیادہ سخت گیر تھی۔ اس کے مختلف عہدوں کو’ رونق‘ بخشتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں اڈوانی اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے جو پہلا کام کیا، وہ جن سنگھ کے بانی رکن بلراج مدھوک کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اڈوانی اپنے علاوہ کسی اور لیڈرکو آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے تھے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے کئی چھوٹے موٹے مہروں کو آگے بڑھایا لیکن جب وہ آگے بڑھنے لگے تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا۔ کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا کسی زمانے میں ان کے معتمد خاص تھے اور انہی کی وجہ سے پارٹی سے نکالے بھی گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طبقے میں کلیان سنگھ ’مقبول ‘ہونے لگے تو اڈوانی کو خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ کلیان کے تعلق سے بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کی سوداگری کی تھی تو ذلیل و خوار ہونا اُن کا بھی مقدر ٹھہرا۔ آج وہ بی جے پی میں ضرور ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا اڈوانی کے دورِ صدارت ہی میں پارٹی سے باہر کئے گئے تھے۔ اڈوانی پرتنقید کی پاداش میں ۲۰۰۴ء میں اوما بھارتی کو بی جے پی سے دھتکارا گیاتھا جبکہ گجرات میں خودکو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش میں ۱۹۹۶ء میں واگھیلا اڈوانی کی سازشوں کے شکار ہوئے تھے۔ یہاں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام دودھ کے دھلے تھے اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی بلکہ ان کو بھی وہی ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان کےساتھ بھی وہی ہوگا جو آج خود کو بہت بااختیار اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔
اڈوانی ذلیل ہوئے بھی تو کس کے ہاتھوں؟ وہی جسے دودھ پلا پلا کر انہوں نے توانا کیا تھا۔ گجرات فساد میں مودی کے کردار پر کسی طرح کی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس فساد کو اتنا طول دینے میں اور اس قدر تباہ کن بنانے میںکس کا رول رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس وقت مودی کی پشت پرکس کا ہاتھ تھا اورانہیں کون شہ دے رہا تھا؟ اُس وقت لال کرشن اڈوانی مرکز میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم تھے۔
اڈوانی کی اس حالت زار پر بعض حلقوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افسوس کااظہار کرنا غلط نہیں تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں معصوم بنا کر پیش کرنا بالکل غلط بات ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا، جس کے وہ مستحق تھے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے، لوٹا رہا ہوں میں
اس کے مفہوم میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے اڈوانی اپنے بارے میں یہ کہہ کر تسلی کر سکتے ہیں کہ
دنیا کو فسادات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے میں نے، لوٹا رہی ہے وہ
ملک کی تقسیم کے وقت ہونے والےفرقہ وارانہ فسادات سے لے کر بابری مسجد کی شہادت ،پھرگجرات میں مہینوں تک جاری رہنے والےفسادات میں لال کرشن اڈوانی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں، کمیشن اورعدالتیں بھلے ہی انہیں مجرم ثابت نہ کریں یا نہ کرسکیں لیکن ۱۲۵؍ کروڑ ہندوستانیوں کی اکثریت کے سامنے اڈوانی کا کردار پوری طرح واضح رہا ہے۔اڈوانی کے ساتھ ان کی پارٹی نے جو سلو ک کیا، وہ حق بجانب ہو یا نہ ہو...... لیکن یہ بات اپنی جگہ پوری طرح درست ہے کہ وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔
ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے وجود میں آنے والی آر ایس ایس سےایل کے اڈوانی کا تعلق زمانہ طالب علمی ہی سے رہا ہے۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی عمر سے۲؍ سال چھوٹے اڈوانی بہت جلد اپنی’ فعالیت اور سرگرمی‘ کے سبب اس تنظیم کے اہم کارکنوں میں شمار ہونے لگے اور ۲۰؍ سال کی عمر میں انہیں کلیدی عہدہ بھی تفویض کردیا گیا تھا۔ ۱۹۴۷ء کے اوائل میںیہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ، کراچی کے سیکریٹری منتخب ہوئے.... لیکن تنظیم کے منظور نظر اُس وقت ہوئے جب تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نےانہیں الور، راجستھان بھیجا۔ اُس وقت دہلی اور پنجاب کی طرح الور میں بھی بھیانک قسم کا فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
لال کرشن اڈوانی صرف مسلمانوں کے خلاف پیش پیش نہیں رہے بلکہ انہوں نے دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔۲۲؍ جنوری ۱۹۹۹ء کو آسٹریلوی پادری گراہم اسٹینس اپنے ۶؍ اور ۱۰؍ سالہ دو بچوں کے ساتھ جب اڑیسہ میں زندہ جلاد یئے گئے تھے، تو اس وقت مرکز میں اڈوانی ہی وزیر داخلہ تھے۔ ۱۹۸۹ء میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا تو یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت میں ملک گیر تحریک چھیڑی تھی اور رام مندر کے نام پرپسماندہ طبقات کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی تھی ۔
لال کرشن اڈوانی کا کارنامہ صرف ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژکرنا ہی نہیں رہا ہے بلکہ جب اور جہاں موقع ملا ہے، انہوں نے ’اپنوں‘ کے ساتھ بھی دغا بازی کی ہے اور ان کے پر کترنے کی کوشش کی ہے۔ شیاما پرساد مکھرجی نے ۱۹۵۱ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو اڈوانی کو اپنے ساتھ رکھا۔ بی جے پی، جن سنگھ اور جن سنگھ، آر ایس ایس ہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا ان کے نظریات اور پالیسی میں کسی قسم کا فرق تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن بظاہر اوراعلانیہ پالیسیوں کی بنا پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن سنگھ ، بی جے پی سے کہیں زیادہ سخت گیر تھی۔ اس کے مختلف عہدوں کو’ رونق‘ بخشتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں اڈوانی اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے جو پہلا کام کیا، وہ جن سنگھ کے بانی رکن بلراج مدھوک کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔کہاجاتا ہے کہ اڈوانی اپنے علاوہ کسی اور لیڈرکو آگے بڑھتا ہوا دیکھ نہیں پاتے تھے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے کئی چھوٹے موٹے مہروں کو آگے بڑھایا لیکن جب وہ آگے بڑھنے لگے تو انہیں باہر کا راستہ بھی دکھایا۔ کلیان سنگھ ، اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا کسی زمانے میں ان کے معتمد خاص تھے اور انہی کی وجہ سے پارٹی سے نکالے بھی گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک طبقے میں کلیان سنگھ ’مقبول ‘ہونے لگے تو اڈوانی کو خطرہ محسوس ہوا، لہٰذا وہ راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ کلیان کے تعلق سے بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کی سوداگری کی تھی تو ذلیل و خوار ہونا اُن کا بھی مقدر ٹھہرا۔ آج وہ بی جے پی میں ضرور ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اوما بھارتی اور شنکر سنگھ واگھیلا اڈوانی کے دورِ صدارت ہی میں پارٹی سے باہر کئے گئے تھے۔ اڈوانی پرتنقید کی پاداش میں ۲۰۰۴ء میں اوما بھارتی کو بی جے پی سے دھتکارا گیاتھا جبکہ گجرات میں خودکو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش میں ۱۹۹۶ء میں واگھیلا اڈوانی کی سازشوں کے شکار ہوئے تھے۔ یہاں کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تمام دودھ کے دھلے تھے اور ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی بلکہ ان کو بھی وہی ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان کےساتھ بھی وہی ہوگا جو آج خود کو بہت بااختیار اور طاقتور سمجھ رہے ہیں۔
اڈوانی ذلیل ہوئے بھی تو کس کے ہاتھوں؟ وہی جسے دودھ پلا پلا کر انہوں نے توانا کیا تھا۔ گجرات فساد میں مودی کے کردار پر کسی طرح کی روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس فساد کو اتنا طول دینے میں اور اس قدر تباہ کن بنانے میںکس کا رول رہا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس وقت مودی کی پشت پرکس کا ہاتھ تھا اورانہیں کون شہ دے رہا تھا؟ اُس وقت لال کرشن اڈوانی مرکز میں وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم تھے۔
اڈوانی کی اس حالت زار پر بعض حلقوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افسوس کااظہار کرنا غلط نہیں تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں معصوم بنا کر پیش کرنا بالکل غلط بات ہے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا، جس کے وہ مستحق تھے۔
No comments:
Post a Comment