کیا امریکہ کا ویزا ملنے سے مودی کو کلین چِٹ مِل جائے گی؟
قطب الدین شاہد
مودی کو امریکہ اپنے یہاں آنے دے گا کہ نہیں؟ کچھ دنوں سے اس سوال کو قومی موضوع کے طو ر پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کی ۱۲۵؍ کروڑ کی آبادی کیلئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دراصل یہ ایک سازش ہے، ایک گیم پلان ہے اور اس کا مقصد مودی کی تشہیر ہے۔ مودی کے امریکہ جانے اور نہ جانے کو ان کے ’قبول عام‘ ہونے اور نہ ہونے کا پیمانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی سازش کرنے والوں کو میڈیا کا بھر پور تعاون حاصل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش میں امریکہ بھی پوری طرح سے شریک ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس ’مسئلے‘ کو مزید ابھارا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے ’محافظ‘ امریکہ کو مودی قابل قبول نہیں ہے.... بحث مباحثہ جاری رہے گا اور پھرلوک سبھا انتخابات سے قبل اچانک مودی کا ویزا جاری کردیا جائے گا اور پھرعوام پر یہ جتانے کی کوشش کی جائے گی کہ مودی کے سارے گناہ دُھل گئے۔
مودی حامیوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے اگر گجرات کے وزیراعلیٰ کو شرف مہمانی بخش دیا تو ان کے دامن پر لگے داغ صاف ہوجائیںگے، وہ سبھی کیلئے قابل قبول ہوجائیںگے اور اس طرح ان کا وزیراعظم بننے کا راستہ مزید آسان ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نادان دوست بھی اس سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ وہ مودی کو ویزا دینے کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ مودی کا امریکہ جانا ہندوستان کے سیکولرازم کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہاں ذہن میں چند سوالات ابھر رہے ہیں؟
n کیا امریکہ جانے سے مودی کے دامن پر لگے تمام دھبے صاف ہوجائیں گے؟
nکیا ۲۰۰۲ء کے فساد ات کے دوران ان کے کردار کو لوگ بھول جائیں گے؟
nکیا ان کے تعصب اور ان کی تنگ نظری پر پردہ پڑ جائے گا؟
nکیا امریکہ کو انصاف کا علمبردار اور حقوق انسانی کا محافظ سمجھا جا سکتا ہے کہ محض اس کی میزبانی سے کسی کی شبیہ تبدیل ہوجائے؟
nکیا امریکہ جانے سے مودی سیکولر ہوجائیںگے اورانہیں کلین چٹ مل جائے گی؟
ہمیں نہیں لگتا کہ کہیں سے بھی اس کا جواب ’ہاں‘ میں آئے گا؟ ان حالات میں سیکولر طاقتوں کو فکر مند یا خوفزدہ ہونے اور اس معاملے کو مسئلہ سمجھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
مودی کے حامی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر رائے دہندگان کی حمایت کے بغیر مودی وزیراعظم نہیں بن سکتے اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکولر عوام ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔ گجرات فساد میں مودی کا کردار سب پر عیاں ہے۔ کسی عدالت سے ثابت ہونے کے بعد ہی انہیں مجرم سمجھاجائے گا، ایسا نہیں ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اب وہ چور دروازہ استعمال کررہے ہیں۔ ہندوستانی عوام یا ہندوستانی عدالت سے کلین چٹ ملنا آسان نہیں ہے، لہٰذا امریکہ کی مدد لی جارہی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کو بھی ہندوستان میںایسا ہی وزیراعظم چاہئے جو کارپوریٹ دنیا کا محافظ بن کر رہے۔ بلا شبہ منموہن سنگھ ان کے اعتماد پر پورے اُتر رہے ہیں لیکن ان طاقتوں کو اس بات پر شبہ ہے کہ اس مرتبہ یوپی اے کی کمان منموہن سنگھ کے ہاتھوں میں رہے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد میں کام کرتے ہوئے مودی کو دنیا نے دیکھا ہے، اسلئے ان کیلئے پورے زور وشور کے ساتھ لابنگ چل رہی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سازش میں بھی سیکولر عوام اورمسلمانوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مودی امریکہ جائیں یا نہ جائیں یا وہ کہیں بھی جائیں، اس سے سیکولر عوام مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ..... لیکن تاثر یہی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی کے امریکہ نہ جاپانے سے مسلمان بہت خوش ہیں۔ رکن پارلیمان محمد ادیب اوران کے ۶۵؍ ساتھیوں کا اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کرنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جانے انجانے میں وہ بھی اس سازش کا شکار ہو گئے ہیں اور اس تشہیری مہم میں وہ مودی کا ساتھ دے رہے ہیں ورنہ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ مودی کہاں جاتے ہیں اور کہاں نہیں؟ امریکہ اوراسرائیل کے تعلق سے مسلمان یوں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہر اس عمل کی حمایت کرتے ہیں ، جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے اور تکلیف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب گجرات فساد کے الزام کے تحت مودی کو ویزا نہ دینے کی بات منظر عام پر آئی تو فوری طور پر یقین نہیں آیا لیکن جب اس پر غور کیا گیا توشبہ ہواکہ یہ ایک گیم پلان کا حصہ ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ الیکشن سے قبل کسی بہانے مودی کو امریکہ بلایا جائے گا اور پھر ہندوستانی میڈیا کو یہ شور برپا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ اب امریکہ یعنی پوری دنیا کیلئے مودی قابل قبول ہوگئے ہیں، پھر ہندوستانی عوام کب تک انہیں مجرم سمجھتے رہیںگے؟
اس سازش میں شریک لوگوں کاخیال ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ مودی کو معاف کردے گا .....لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا؟ ہمیں نہیں لگتا۔ ہندوستان کی اکثریت آج بھی سیکولر ہے جو کسی بھی صورت میں مودی کو اقتدار تک پہنچنے نہیں دے گی۔ بی جے پی اور اس کی آئیڈیالوجی کو پسند کرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اسے مرکزی اقتدار سونپ سکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کے بعدبھی بی جے پی اپنے بل بوتے پر اقتدار تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ فرقہ پرستی کے چولے کو اتارنے کے بعد ہی اسے مرکز میں اقتدار کا موقع مل سکا تھا۔ ۲۰۰۲ء کے فساد کے بعد ایک بار پھر بی جے پی کو بے دخل کردیا گیا ۔ وہ دن اور آج کا دن ، بی جے پی ، وہاں پہنچنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے لیکن بات کچھ بن نہیں پارہی ہے۔ اس کیلئے اب اس نےنئی سازش کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔
بہرحال سیکولر رائے دہندگان کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ امریکہ کا ویزا مل جانے سے مودی کو کلین چٹ نہیں مل جائے گی لہٰذا اس موضوع پر مسلمانوں کے حوالے سے کسی کو دُبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment