Monday, 29 July 2013

Roznaamcha_Innocent Muslims

مسلم نوجوانوں کی رہائی

قطب الدین شاہد

    دہشت گردی کے الزامات میںمسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے سبھی ’پریشان‘ ہیں اور ان کی رہائی کیلئے ’کوشاں‘ بھی ہیں۔ یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اس پر اظہار افسوس کرچکے ہیں بلکہ اُس وقت جب آسٹریلیا میں ڈاکٹر محمد حنیف کو گرفتار کیا گیا تھا تو بقول وزیراعظم ’’انہیں رات بھر نیند نہیں آئی تھی‘‘۔موجودہ وزیر داخلہ شندے صاحب اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم صاحب کو بھی مسلمانوں سے ’ہمدردی‘ ہے۔ پرکاش کرات، سیتا رام یچوری، اے بی بردھن اوررام ولاس پاسوان اس سلسلے میں وزیراعظم ، صدر جمہوریہ اور وزیرداخلہ سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ لالو پرساد اور ملائم سنگھ یادو نے انتخابی جلسوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی اس موضوع پر آواز بلند کی ہے ۔ مایاوتی اورممتا بنرجی بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر اپنی ’ناراضگی‘ کا اظہار کرچکی ہیں۔ بہار کے ایک نوجوان کی گرفتاری پر نتیش کمار تومرکز سے باقاعدہ لڑجھگڑ بھی چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے بعض لیڈربالخصوص اقلیتی سیل سے تعلق رکھنے والے لیڈروں نے بھی اس پر وقتاً فوقتاً تشویش کااظہار کیا ہے۔مگر افسوس ! صد افسوس.....اس سلسلے میں نتائج صفر ہیں۔
    کانگریس کی اقتدار والی ریاستیں مہاراشٹر، آندھرا پردیش یا راجستھان ہوں ، سماجوادی کی اترپردیش ہو یا پھر حال ہی میں سیکولر ہونے والی جنتادل متحدہ کی بہار... تمام ریاستوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں آج بھی ہو رہی ہیں ۔ ایک سازش کے تحت پوری قوم کو ہراساں کئے جانے، اس بہانے ان کے حوصلوں کو پست کرنے اور انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔
    مسلم نوجوانوں کی رہائی کے سلسلے میں سیاسی سطح پر اس وقت ملک میں۴؍ بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ راجیہ سبھا کے رکن محمد ادیب کی سربراہی میں ’پی سی پی ٹی ‘ (پیپلز کمپین اگینسٹ پولیٹکس آف ٹیرر) کے پرچم تلے دہلی میں ایک تحریک چل رہی ہے۔ ایڈوکیٹ محمد شعیب کی قیادت میں ’رہائی منچ‘ کے بینر تلے اترپردیش میں گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے دھرناجاری ہے۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی اوران کی تنظیم ’انہد‘ بھی کافی دنوں سے سرگرم عمل ہے۔اسی طرح ممبئی میں مجلس شوریٰ کے بینر تلے ابو عاصم اعظمی نے بھی مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے ریاست گیر مہم چلانے پر زور دیا ہے۔
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی ساری کوششیں ہورہی ہیںاورمسلم نوجوانوں کی گرفتاریوںپر سبھوں کو تشویش ہے تو پھر یہ گرفتاریاں جاری کیوں ہیں؟ اور جو گرفتار ہیں ان کی رہائی میں اتنی دشواریاں کیوں ہیں؟ خواجہ یونس، قتیل صدیقی اور خالد مجاہد جیسے واقعات آخر کیوں رونما ہوتے ہیں؟
     کہاجاتا ہے کہ کوشش.....یعنی ایماندارانہ کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی.... تو کیا یہاں کوششیں نہیں ہو رہی ہیں؟.... ہمارا خیال ہے کہ اس پر کچھ کہنے کے بجائے ان ’کوششوں‘کے نتائج دیکھنے چاہئیں۔
     دراصل یہ باتیں ذہن میں اس لئے آئیں کہ مجلس شوریٰ کی میٹنگ کی رپورٹ پڑھنے کے بعد ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ اگرسماجوادی پارٹی کے ریاستی سربراہ (خیال رہے کہ مجلس شوریٰ کو سماجوادی پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم ہی سمجھا جاتا ہے) یہی کوشش یوپی میں کرتی جہاں وہ اقتدار میں بلا شرکت غیرے مالک ہے،تو یقیناً اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے لیکن اس طرح کی کوشش وہ وہاں کررہی ہے جہاں اس کے صرف ۳؍ اراکین ہیں اور وہ کچھ نہیں کرسکتی۔
    کاش ! یہ باتیں وہ لوگ سمجھ سکتے ..... جنہیں عوام اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment