دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کوسرکاری قانونی امداد
امکانات اور خدشات
کفر ٹوٹا خداخدا کرکے۔ بالآخر حکومت نے یہ بات تسلیم کرہی لی کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں۔ یہ بات بہت دنوں سے کہی جارہی تھی مگر حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انتخابات کے پیش نظر ہی سہی حکومت نے اگر سرکاری سطح پر یہ بات تسلیم کی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے..... اس سے قطع نظر کہ ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ حکومت اس سلسلے میں کیا کرے گی؟ اور یہ کہ کچھ کرے گی بھی یا نہیں؟اس معاملے میں خوش آئند بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت نے مسلم نوجوانوں کی مظلومیت کا اعتراف کرلیا ہے۔ حکومت سے امید کچھ اسلئے بھی نہیں ہے کہ درد اُسی نے دیا ہے، وہ دوا کیا دے گی؟
امکانات اور خدشات
کفر ٹوٹا خداخدا کرکے۔ بالآخر حکومت نے یہ بات تسلیم کرہی لی کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں۔ یہ بات بہت دنوں سے کہی جارہی تھی مگر حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انتخابات کے پیش نظر ہی سہی حکومت نے اگر سرکاری سطح پر یہ بات تسلیم کی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے..... اس سے قطع نظر کہ ابھی یہ واضح نہیں ہےکہ حکومت اس سلسلے میں کیا کرے گی؟ اور یہ کہ کچھ کرے گی بھی یا نہیں؟اس معاملے میں خوش آئند بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت نے مسلم نوجوانوں کی مظلومیت کا اعتراف کرلیا ہے۔ حکومت سے امید کچھ اسلئے بھی نہیں ہے کہ درد اُسی نے دیا ہے، وہ دوا کیا دے گی؟
قطب الدین شاہد
جمہوری نظام حکومت کی تعریف یوں تو’’عوام کی حکومت، عوام کیلئے اور عوام کے ذریعہ‘‘ ہے مگر عوام کو اپنی اہمیت کا اندازہ صرف انتخابات کے موسم میں ہی ہوتا ہے۔ انتخابی دنوں میں انہیںقابل اعتنا سمجھا جانے لگتا ہے، ان کے مسائل پر توجہ دی جانے لگتی ہے اور انہیں حل کرنے کی باتیں بھی ہونے لگتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ وعدے پورے بھی کردیئے جائیں لیکن عوام تھوڑی دیر کیلئے بہرحال ان وعدوں سے بہل توجاتے ہیں کہ چلو کم از کم ان کے اس مسئلے کو مسئلہ سمجھا تو گیا جسے مسئلہ بتانے کیلئے ا نہیں لاکھوں جتن کرنے پڑے۔ حالانکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس کی حیثیت محبوب کے وعدے سے زیادہ کی نہیں ہے جو کبھی وفا نہیں ہوتا۔
گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ کچھ اسی طرح کا ایک دلفریب وعدہ کیا ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتا ر مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد فراہم کرنےکی یقین دہانی کرائی ہے۔اسے دلفریب وعدہ اس لئے کہاجارہا ہے کہ اس سے خاطر خواہ نتائج کی کوئی امید نہیں کیونکہ یہ درد اُسی حکومت کا دیا ہوا ہے لہٰذا اس سے اس سلسلے میں دوا کی امیدکیونکر کی جاسکتی ہے، تاہم یہی کیا کم ہے کہ پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دہشت گردی کے الزام میںگرفتارمسلم نوجوانوں میں’کچھ‘ بےقصور بھی ہیں۔یہ بتانے کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا نہیں کیا؟ ضلعی سطح پر حکام کو میمورنڈم دینے کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ وزیرداخلہ، وزیراعظم اور صدر جمہوریہ سے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہیں سے بھی قابل اطمینان جواب نہیں ملا۔ تسلیاں تو ہر ملاقات پر دی گئیں مگر کبھی اس سلسلے میںکوئی ٹھوس قدم اُٹھتا ہوا نظر نہیں آیا۔یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے یہ اعتراف کیا کہ ’’اس بات کا حقیقی امکان ہے کہ جیلوں میں بند کچھ مسلم نوجوان بالکل بے قصور ہوں۔ اس لئے ہم انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے امکان پر غور کررہے ہیں تاکہ مقدموں کی منصفانہ سماعت ہو اور انہیں اپنے دفاع کا پورا موقع ملے‘‘....... تو مسلمانوں نے تھوڑی راحت محسوس کی۔
یہ تھوڑی سی راحت مکمل اطمینان میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور یہ خواب حقیقت کا روپ بھی دھار سکتا ہے لیکن اس کیلئے مسلمانوں کو جمہوری انداز میں سیاست دانوںسے اپنی باتیں منوانے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔مذہبی معاملات کی طرح سیاسی سطح پر بھی ہم مختلف خانوں میں منقسم ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں پر دباؤ نہیں ڈال پاتے، اس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں اور اکثر ہمارے جذبات سے کھیلتی رہتی ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد کی فراہمی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو قانونی مدد کی فراہمی کی ضرورت ہی کیوں پیش آرہی ہے؟ وہ ایسا کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتی کہ کوئی بے قصورنوجوان گرفتار ہی نہ ہو؟ گزشتہ ۲؍ دہائیوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں جن میں ماخوذ مسلم نوجوان برسوں جیل کی صعوبتیں جھیل کر باہر آئے ہیں ۔ عدالتوں نے انہیں بے قصور تسلیم کیاہے۔ مسلمانوں کے تئیں حکومت کا اخلاص اُس وقت نظر آتا جب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے اورانہیں اذیتیں پہنچانےوالے افسران سے باز پرس کی جاتی، ان کی سرزنش کی جاتی، انہیں ملزم ٹھہرایا جاتا اور اس کیلئے انہیں قرار وا قعی سزا دی جاتی.... مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خاطی پولیس افسران کو سزا دینا تو دور، اکثر دیکھا گیا ہے کہ انہیں ترقیاں دی گئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب سیکولر ریاستوں میں ہوا۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کو جانے دیں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مہاراشٹر، دہلی، بہار، یوپی، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش جیسی ریاستیں بھی ان معاملات میں کسی بھی طرح فرقہ پرست جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ہم چونکہ ان حکومتوں اور اقتدار پر قابض سیاسی جماعتوں کا احتساب نہیں کرتے لہٰذا وہ ہمیں بیوقوف سمجھتی ہیں اور ہر انتخابی موسم میں نئے نئے وعدوں کے ساتھ وارد ہوتی ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مرکز اور مختلف ریاستوں کی اقلیتی امور کی وزارتیں سرگرم کردی جاتی ہیں۔ وہ مسلم ایشوز پر کچھ اس طرح کی بیان بازیاں کرتی ہیں اور ہدایتیں جاری کرتی ہیں گویا حکومت کی جانب سے تمام تر اختیارات انہیں ہی سونپ دیئے گئے ہیں اور اب یہ پلک جھپکتے ہی مسلمانوں کے تمام مسائل حل کردیںگی۔
گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ کچھ اسی طرح کا ایک دلفریب وعدہ کیا ہے۔ حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتا ر مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد فراہم کرنےکی یقین دہانی کرائی ہے۔اسے دلفریب وعدہ اس لئے کہاجارہا ہے کہ اس سے خاطر خواہ نتائج کی کوئی امید نہیں کیونکہ یہ درد اُسی حکومت کا دیا ہوا ہے لہٰذا اس سے اس سلسلے میں دوا کی امیدکیونکر کی جاسکتی ہے، تاہم یہی کیا کم ہے کہ پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ دہشت گردی کے الزام میںگرفتارمسلم نوجوانوں میں’کچھ‘ بےقصور بھی ہیں۔یہ بتانے کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا نہیں کیا؟ ضلعی سطح پر حکام کو میمورنڈم دینے کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ وزیرداخلہ، وزیراعظم اور صدر جمہوریہ سے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہیں سے بھی قابل اطمینان جواب نہیں ملا۔ تسلیاں تو ہر ملاقات پر دی گئیں مگر کبھی اس سلسلے میںکوئی ٹھوس قدم اُٹھتا ہوا نظر نہیں آیا۔یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے یہ اعتراف کیا کہ ’’اس بات کا حقیقی امکان ہے کہ جیلوں میں بند کچھ مسلم نوجوان بالکل بے قصور ہوں۔ اس لئے ہم انہیں قانونی مدد فراہم کرنے کے امکان پر غور کررہے ہیں تاکہ مقدموں کی منصفانہ سماعت ہو اور انہیں اپنے دفاع کا پورا موقع ملے‘‘....... تو مسلمانوں نے تھوڑی راحت محسوس کی۔
یہ تھوڑی سی راحت مکمل اطمینان میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور یہ خواب حقیقت کا روپ بھی دھار سکتا ہے لیکن اس کیلئے مسلمانوں کو جمہوری انداز میں سیاست دانوںسے اپنی باتیں منوانے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔مذہبی معاملات کی طرح سیاسی سطح پر بھی ہم مختلف خانوں میں منقسم ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں پر دباؤ نہیں ڈال پاتے، اس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں اور اکثر ہمارے جذبات سے کھیلتی رہتی ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کو قانونی مدد کی فراہمی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو قانونی مدد کی فراہمی کی ضرورت ہی کیوں پیش آرہی ہے؟ وہ ایسا کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتی کہ کوئی بے قصورنوجوان گرفتار ہی نہ ہو؟ گزشتہ ۲؍ دہائیوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں جن میں ماخوذ مسلم نوجوان برسوں جیل کی صعوبتیں جھیل کر باہر آئے ہیں ۔ عدالتوں نے انہیں بے قصور تسلیم کیاہے۔ مسلمانوں کے تئیں حکومت کا اخلاص اُس وقت نظر آتا جب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے اورانہیں اذیتیں پہنچانےوالے افسران سے باز پرس کی جاتی، ان کی سرزنش کی جاتی، انہیں ملزم ٹھہرایا جاتا اور اس کیلئے انہیں قرار وا قعی سزا دی جاتی.... مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خاطی پولیس افسران کو سزا دینا تو دور، اکثر دیکھا گیا ہے کہ انہیں ترقیاں دی گئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب سیکولر ریاستوں میں ہوا۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کو جانے دیں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مہاراشٹر، دہلی، بہار، یوپی، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش جیسی ریاستیں بھی ان معاملات میں کسی بھی طرح فرقہ پرست جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ہم چونکہ ان حکومتوں اور اقتدار پر قابض سیاسی جماعتوں کا احتساب نہیں کرتے لہٰذا وہ ہمیں بیوقوف سمجھتی ہیں اور ہر انتخابی موسم میں نئے نئے وعدوں کے ساتھ وارد ہوتی ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مرکز اور مختلف ریاستوں کی اقلیتی امور کی وزارتیں سرگرم کردی جاتی ہیں۔ وہ مسلم ایشوز پر کچھ اس طرح کی بیان بازیاں کرتی ہیں اور ہدایتیں جاری کرتی ہیں گویا حکومت کی جانب سے تمام تر اختیارات انہیں ہی سونپ دیئے گئے ہیں اور اب یہ پلک جھپکتے ہی مسلمانوں کے تمام مسائل حل کردیںگی۔
اب جبکہ حکومت نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ گرفتار شدگان میں ’کچھ‘ بے قصور بھی ہیں تو اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم حکومت پر دباؤ بنائیں کہ ان بے قصوروں کی جلد رہائی کا انتظام کیا جائے ..... اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی واضح کردیا جائے کہ ان بے قصور نوجوانوں کو اس انجام تک پہنچانے والوںا ورا ن کی زندگیوں کے قیمتی سال برباد کرنےوالوں کو سخت سے سخت سزا دی جائےاورناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والوں کو معقول ہرجانہ دیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حکومت پر یہ بات واضح کردیں کہ قانونی امداد کی فراہمی میں ہم مسلمانوںکو دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ان کے دام میں آنے والے نہیں ہیں بلکہ ہمیں انصاف اور مکمل انصاف چاہئے۔.... یقین جانئے اگر ہم نے اس پر اکتفاکرلیا اور حکومت کے دام میں آگئے تو اس کیلئے موجودہ کیا آئندہ انتخابات میں بھی کامیابی کا اسےایک آسان نسخہ مل جائے گا کہ پہلے انہیں گرفتار کرکے ان کے حوصلوں کو پست کرو اور پھر بعد میں قانونی مدد فراہم کرکے ان کے ووٹوں پر بھی قبضہ کرلو ۔
No comments:
Post a Comment