Tuesday, 27 August 2013

Roznaamcha

طلبہ اور چندہ وصولی

قطب الدین شاہد

گزشتہ دنوں ایک دوست نے سوال کیا کہ ’’آنکھوں سے معذور  اور کینسر زدہ بچوں کی مدد کے نام پر ان دنوں طلبہ کو چندہ کرنے کیلئے جو رسیدیں تھمائی گئی ہیں ، وہ کیا ہے؟‘‘ مزید استفسار پر معلوم ہوا کہ بعض اسکولوں کی انتظامیہ نے اپنے طلبہ کو کچھ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی رسیدیں حوالے کی ہیں اور انہیں اپنے پاس پڑوس اور محلے سے چندہ (جمع) کرنے کیلئے کہا  ہے۔ یہ این جی اوز کینسر جیسی مہلک  بیماری  کے شکار اور آنکھوںکی نعمت سے محروم بچوں کی مدد کرتی ہیں۔  طلبہ کے ذریعہ جمع کی جانے والی یہ رقم اسکولوں کے انتظامیہ اُن این جی اوز کے حوالے کردیتے ہیں۔  قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اس طرح بڑی آسانی کےساتھ مختلف اسکولوں سے   ایک خطیر رقم جمع ہوجاتی ہے۔ یقیناً یہ ایک نیک کام ہے جس کی پذیرائی ہونی چاہئے..... لیکن اس نیک کام کا طریقہ غلط ہے۔ اس کی وجہ سے چند وصول کرنے والے طلبہ پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔
    ’حلوائی کی دکان پر دادا کا فاتحہ‘ کے مصداق طلبہ کے ذریعہ جمع کی جانے والی  اس رقم کو اسکول انتظامیہ اپنے نام سے این جی اوز کو دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں حکومت سے  دوسرے معاملات میںبہت سی  مراعات حاصل کرتے ہیں اور طلبہ کا نہ تو کہیں نام اُجاگر ہوتا ہے نہ ہی کوئی اِضافی سہولت اُنہیں ملتی ہے۔
     صدقہ و خیرات کی ادائیگی ایک خالص انسانی جذبہ ہے۔ بچوں میں اس جذبہ کو پروان چڑھانےکیلئے ضروری ہے کہ انہیں بچپن ہی سے اس کی ترغیب دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نیک والدین چند ہ کی رقم جسے بھی دینی ہو وہ اپنے بچوں کےہاتھوں سے دلواتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس طرح ان کے بچوں کے دلوں سے دولت کی محبت جاتی رہے گی اور کل جب وہ خود کمانے لگیںگے تو اس عمل میں پیچھے نہیں رہیںگے  اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے دیکھیںتو طلبہ کو چندہ وصولی  کے کام میں لگا نے کا یہ ایک جواز بنتا ہے کہ اس طرح طلبہ میں انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جب  بیمار بچوں کے علاج اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئےچندہ کرکے یعنی اپنی محنت سے جمع کرکے ایک چھوٹی موٹی رقم  اسکول کو دیںگے تو انہیں طمانیت کااحساس ہوگا اور دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ انہوں نے ’مجبوروں‘ کی اپنی بساط بھر مدد کی ہے....
     لیکن یہ ایک پہلو  ہے جو مثبت ہے ، اس کے برعکس اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں۔  اول تو یہ ہے کہ طلبہ کی توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طریقے سے یعنی چندہ جمع کرکے جب طلبہ کے ہاتھ میں ایک رقم آتی ہے، تو ان کے بہکنے کا بھی خدشہ  پیداہوتا ہے۔ کہیں ان معصوم ذہنوں میں یہ بات آگئی کہ ’’یہ تو اچھا کاروبار ہے جس میں نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے‘‘ تو  انہیں سنبھالنا مشکل ہوگا.....  اس چندہ وصولی کا سب سے تاریک پہلو  طالبات  ہیں۔ آٹھویں، نویں اور دسویں میں زیر تعلیم  طالبات کی عمر ہرچند کہ کم نہیں ہوتی.... لیکن ان میں اتنی پختگی بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ اچھا برا سمجھ سکیں۔  اخلاقی سطح پراس زوال  پذیر معاشرے میں ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں کہ انہیں چندہ دینے والے کن نظروں سے دیکھتے ہوںگے؟  خدانہ کرے، اگر ان طالبات کو ’اتنی آسانی‘ سے ملنے والی یہ رقم انہیں کسی غلط راستے پرڈال دے تو .... اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ 
     اس کیلئے ضروری ہے کہ والدین  اساتذہ کے ساتھ ہونے والی (پی ٹی اے) میٹنگ میں اس موضوع کو زیر بحث لائیں۔ چندہ والدین سے ضرور طلب کیا جا سکتا ہے  لیکن بچوںکو اس کام پر ہرگز نہیں لگایا جانا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment