شام کے بعد کا سناٹا
قطب الدین شاہد
دن بھر کی ہماہمی کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب مصروفیتوں پر تھوڑا ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ یہ وقفہ آرام اور احتساب کا ہوتا ہے،دوڑ دھوپ میں کیا کھویا ، کیا پایا کے حساب کتاب اور جائزے کا ہوتا ہے۔ اس وقت بعض چہروں پر اطمینان کی جھلک پائی جاتی ہے تو بعض کے چہروں سے جھلاہٹ نمایاں ہوتی ہے۔شام کے بعد کے اس سناٹے میں وہ لوگ گہری نیند کا مزہ لیتے ہیں جو اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں یا جن کی کارکردگی کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں لیکن یہی سناٹا ان لوگوں کیلئے روح فرسا ثابت ہوتا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے جن کی دوڑ بھاگ کے نتائج غلط یا ان کی توقع کے برعکس ہوتے ہیں۔
کتنی عجیب با ت ہے کہ اپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے بوڑھے والدین کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے.... اور پھر کچھ عرصے کے بعد وہی بچے بڑے ہوکراپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے انہیں بھی اسی انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف حال میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی’خوشی‘ کا اتنا خیال رہتا ہے کہ ماضی یعنی والدین کی محبت کو فراموش کردیتے ہیں اور مستقبل یعنی اپنا انجام بھی بھول جاتے ہیں۔
اس تمہید کا پس منظر ایک ڈراما ہے جس کا نام ’شام کے بعد کا سناٹا‘ ہے۔ مصنف نے زندگی کے تین ادوار بچپن، جوانی اوربڑھاپے کو صبح ، دوپہر اورشام سے تشبیہ دیتے ہوئے شام کے بعد کے سناٹے کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ’اولڈ ایج ہوم‘ جس میں اپنی اولادوں کے ستائے ہوئے مختلف مذاہب کے معمر افراد ہیں۔ یہ سب متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دن رات محنت کرکے دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ لوگ کبھی موٹر، گاڑی ، بنگلہ کے مالک تھے اور بینک بیلنس رکھتے تھے مگر آج کسی اورکے رحم و کرم پر زندگی کے بقیہ ایام گزاررہے ہیں۔یہاں پہنچ کر جہاں یہ ماضی کی باتیں یاد کرکے اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتےہیں، وہیں موجودہ سماجی روش کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی صورت حال سوچ سوچ کر پریشان بھی ہیں۔اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے یا بیٹیوں اور بہوؤں کے ظلم و ستم سے پریشان ہوکر خود ہی گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان بوڑھوں کو اس بات کا شدید ملال تھا کہ جن کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا، غلط و صحیح کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی ہر خوشی کا خیال رکھا، انہیں یہ جاننے کی بھی فکر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ ایک دن ایک بوڑھا مرگیا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’وٹھل کہتا تھا کہ جب اس کو بیٹا پیدا ہوا تو اس نے کندھے پر ٹوکری رکھ کر محلے میں لڈو بانٹا تھا،آج وہی بیٹا اس کی ارتھی کو کاندھا دینے بھی نہیں آیا۔‘‘
ان کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ایک دن قدرے تاخیر ہوجانے پر وہاں کے ملازم کے گھر سے فون آگیا کہ کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔ وہاں کے بوڑھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’اپنے بچوں کو کیا کھلایا ہے اور کیسی تربیت کی ہے کہ وہ اس دنیا کے نہیں معلوم ہوتے؟‘‘ نوکر کہتا ہے کہ’’ ہم نے بچوں کو حلال کمائی کے نوالے کھلائے ہیں اور بزرگوں کی عزت کی صرف تلقین نہیں کی بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے۔‘‘اس میں یوں تو بہت ساری سبق آموز باتیں ہیں لیکن نوکر کےاس جملے کو اس ڈرامےکا حاصل کہاجاسکتا ہے۔ صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں کیلئے بھی یہ باتیں عبرت انگیز ہیں ، ہم تو بحمدللہ مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہر غلط عمل کی سزا خود ہمیں ہی بھگتنی ہوگی۔
کتنی عجیب با ت ہے کہ اپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے بوڑھے والدین کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور انہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے.... اور پھر کچھ عرصے کے بعد وہی بچے بڑے ہوکراپنے بچوں کی ’خوشی‘ کیلئے انہیں بھی اسی انجام سے دوچار کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف حال میں جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی’خوشی‘ کا اتنا خیال رہتا ہے کہ ماضی یعنی والدین کی محبت کو فراموش کردیتے ہیں اور مستقبل یعنی اپنا انجام بھی بھول جاتے ہیں۔
اس تمہید کا پس منظر ایک ڈراما ہے جس کا نام ’شام کے بعد کا سناٹا‘ ہے۔ مصنف نے زندگی کے تین ادوار بچپن، جوانی اوربڑھاپے کو صبح ، دوپہر اورشام سے تشبیہ دیتے ہوئے شام کے بعد کے سناٹے کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ’اولڈ ایج ہوم‘ جس میں اپنی اولادوں کے ستائے ہوئے مختلف مذاہب کے معمر افراد ہیں۔ یہ سب متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ دن رات محنت کرکے دولت کے انبار جمع کرنے والے یہ لوگ کبھی موٹر، گاڑی ، بنگلہ کے مالک تھے اور بینک بیلنس رکھتے تھے مگر آج کسی اورکے رحم و کرم پر زندگی کے بقیہ ایام گزاررہے ہیں۔یہاں پہنچ کر جہاں یہ ماضی کی باتیں یاد کرکے اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتےہیں، وہیں موجودہ سماجی روش کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی صورت حال سوچ سوچ کر پریشان بھی ہیں۔اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے یا بیٹیوں اور بہوؤں کے ظلم و ستم سے پریشان ہوکر خود ہی گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ان بوڑھوں کو اس بات کا شدید ملال تھا کہ جن کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا، غلط و صحیح کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی ہر خوشی کا خیال رکھا، انہیں یہ جاننے کی بھی فکر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ ایک دن ایک بوڑھا مرگیا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’’وٹھل کہتا تھا کہ جب اس کو بیٹا پیدا ہوا تو اس نے کندھے پر ٹوکری رکھ کر محلے میں لڈو بانٹا تھا،آج وہی بیٹا اس کی ارتھی کو کاندھا دینے بھی نہیں آیا۔‘‘
ان کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب ایک دن قدرے تاخیر ہوجانے پر وہاں کے ملازم کے گھر سے فون آگیا کہ کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔ وہاں کے بوڑھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’اپنے بچوں کو کیا کھلایا ہے اور کیسی تربیت کی ہے کہ وہ اس دنیا کے نہیں معلوم ہوتے؟‘‘ نوکر کہتا ہے کہ’’ ہم نے بچوں کو حلال کمائی کے نوالے کھلائے ہیں اور بزرگوں کی عزت کی صرف تلقین نہیں کی بلکہ عملاً کرکے دکھایا ہے۔‘‘اس میں یوں تو بہت ساری سبق آموز باتیں ہیں لیکن نوکر کےاس جملے کو اس ڈرامےکا حاصل کہاجاسکتا ہے۔ صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے والوں کیلئے بھی یہ باتیں عبرت انگیز ہیں ، ہم تو بحمدللہ مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہر غلط عمل کی سزا خود ہمیں ہی بھگتنی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment