فاروق عبداللہ نے غلط کیا کہا تھا؟
سچ کہنا اور اس پر قائم رہنا بڑی جرأت کا کام ہے۔ ہمارے سیاست دانوں میں یہ وصف بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ ان کی زبان سے اگر کبھی کوئی سچی بات نکل بھی گئی توتنقیدوں سے بچنے کیلئے دوسرے ہی پل اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے جو بات کہی تھی، وہ قطعی غلط نہیں تھی .... لیکن وہ اپنی اُس بات پر ۲۴؍ گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکے اور اس کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا تھا موجودہ حالات میں انہيں لگتا ہے کہ کسى خاتون کو پرسنل سیکريٹرى نہيں رکھنا چاہئے کيونکہ اس کى کسى بھى شکايت پر جيل ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بيان پر سياسى جماعتوں اور خواتين کى تنظيموں نے سخت ردعمل ظاہر کيا جس کے بعد ان کو معافى مانگنى پڑى۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے غلط کیا کہا تھا؟ گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان ہونےوالے واقعات سے فاروق عبداللہ کیا،ہر خاص و عام سہما ہوا ہے۔ تہلکہ کے چیف ایڈیٹرترون تیج پال ، مغربی بنگال حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین جسٹس گنگولی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسرمحمد شبیر جیسی اہم شخصیات جب اس قانون کی زد میں آسکتی ہیں اور اپنا کریئر تباہ و برباد کرسکتی ہیں تو بھلا عام آدمی کس قطار شمار میں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ بے قصور ہیں یا ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئے لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ محض الزام عائد کردیئے جانے سے یہ مجرم ہوگئے۔ اگر یہ مجرم ہیں تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہو لیکن جب تک الزام ثابت نہیں ہوجاتا، انہیں مجرم نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
قانونی کی سختی اور اس کے اطلاق میں جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ کسی خاتون نے کسی مرد پر جنسی زیادتی کاالزام عائد کردیا تو پھر یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ چندماہ قبل احمد آباد کی ایک طوائف نے۴؍ افراد پر ’آبروریزی ‘ کاالزام عائد کیا تھا۔ اس نے اپنی شکایت میں یہ بات کہی تھی کہ۲؍ لوگوں کے ساتھ وہ ۲؍ گھنٹے کیلئے’کہیں‘گئی تھی جہاںان دونوں کے مزید ۲؍ ساتھی آگئے اور اس کی آبروریزی کی اور ’قیمت‘ بھی ادا نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ان چاروں پر اجتماعی آبرو ریزی کے معاملات درج ہوئے۔
عزت و عصمت کسی بھی خاتون یا لڑکی کا سب سے قیمتی زیور ہوتا ہےجس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف اس خاتون پر بلکہ پورے سماج پر عائد ہوتی ہے۔اس کیلئے نہ صرف سخت قانون کے نفاذ کی ضرورت ہے بلکہ کسی قانون سے زیادہ ضروری احتیاطی تدابیر کی ہے..... افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے قانون تو سخت بنا دیا گیا لیکن احتیاط کے نام پر کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ فلموں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر آج بھی کچے ذہنوں کو اس جرم کی جانب دھڑلے سے ’راغب‘ کیا جارہا ہے۔ ٹیلی ویژن شو ’بگ باس‘ میں آخر کیا ہو رہا ہے؟ کیا وہاں تہذیب و تمدن کی تربیت دی جارہی ہے؟
اس کے باوجود حال ہی میں شو سے باہر ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی اداکارہ صوفیہ حیات نےارمان کوہلی کے خلاف پولیس میںبدسلوکی کی شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا اعتراف عدالت تک نے کیا کہ اس قانون کا غلط استعمال بہت تیزی سے ہورہا ہے مگر افسوس کہ اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بس، ٹرین اور راستوں پر چلتے ہوئے ایک عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے؟ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو قانون کی اس سختی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ جرائم میں کمی آئے نہ آئے لیکن خوف کی شدت بڑھی تو لوگ خواتین کی عزت کرنے کے بجائے ان سے نفرت کرنے لگیںگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا سماجی نقصان ہوگا۔
No comments:
Post a Comment