Friday, 30 October 2015

Roznaamcha_ Khushamad aur urdu

خوشامد اوراردو داں
 
ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایمان کی تین قسمیں ہیں۔ کسی غلط عمل کو طاقت سے روکنے کو اول، زبان سے منع کرنے کو دوم اور دل سے برا سمجھنے کو تیسرا درجہ دیا گیا ہے۔
    آج کی صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ   بیشتراردو والے ایمان کے اس تیسرے درجے میں بھی نہیں رہنا چاہتے۔ یہ صرف دوسروں پر تنقید کرنا جانتے  ہیں ۔ہمیں یاد ہے کہ جب دہلی میںاردو اکیڈمی کےنئے سربراہ کا اعلان ہوا تھا تو ممبئی کے اُردو والوں نے خوب ناک بھوں چڑھایا تھا۔  اس موقع پر بعض نے تو یہاں تک کہاتھا کہ دہلی کے اردو والوں کو اکیڈمی کا بائیکاٹ کرنا چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب مہاراشٹر میں اس سے بھی بدترین صورتحال پیدا ہوئی تو انہی میں سے بعض آگے بڑھ کر کار گزار صد ر کا خیر مقدم کرنے لگے۔
    ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں لہٰذا کسی غلط عمل کو طاقت سے روکنے کی بات نہیں کرسکتے لیکن کیا ہم کسی غلط عمل کو غلط بھی نہیں کہہ سکتے؟کیا ہم خود کو اتنا مجبور و بے بس پاتے ہیں؟کیا ایسا کرکے ہم نان شبینہ کے محتاج ہوجائیںگے؟ کیا ہمارا ضمیر اتنا مردہ ہوگیا ہے کہ ہم میں خودداری کی رمق بھی باقی نہیں رہی۔  
    ایک بات یہاں واضح ہوجانی چاہئے کہ مرکز میں مودی یا ریاست میں فرنویس سرکار کی مخالفت کی بات نہیں کی جارہی ہے کیونکہ اس کا انتخاب جمہوری انداز میں ہوا ہے۔ ایک جمہوری ملک کے شہری ہونے کی وجہ سے کسی بھی منتخب سرکار کو تسلیم کرنا ہماری مجبوری ہے لیکن اس سرکار کے تمام فیصلوں کو من و عن تسلیم کرلینا قطعی ہماری مجبوری نہیں ہے ۔ہم سے بھلے تو وہ ہیں جو ’ایمان‘ کا  دعویٰ نہیں کرتے۔ گجیندر چوہان کی مخالفت کی تو اسے آج تک دفتر نہیں آنے دیا۔ ہم اردو والوں کو موقع ملا تو اب تک نہ جانے اس کے اعزاز میں کتنے پروگرام کر چکے ہوتے اور اس کے کتنے قصیدے لکھ چکے ہوتے؟   دادری سانحہ کے بعد یکے بعد دیگرے ساہتیہ اکیڈمی کے ۱۷؍ ایوارڈ یافتگان بطور احتجاج اپنا ایوارڈ واپس کرچکے ہیں اور بعض نے اکیڈمی کی رکنیت سےاستعفیٰ تک دے دیا ہے لیکن ہم میں ایک مراسلہ لکھنے کی جرأت تک نظر نہیں آتی ہے کہ کہیںہم نظرمیں نہ آجائیں۔ اردو کے شاعر و ادیب بھی حساس ہونے دعویٰ کرتے ہیں لیکن افسوس کہ کبھی اس کا اظہار نہیں ہوپاتا۔  اس کے برعکس ان کے عمل سے نظیر اکبر آبادی کے اس شعر کی ترجمانی   ہوتی ہے کہ :
گر بھلا ہو تو  بھلے کی بھی خوشامد کیجئے
اور بر ا ہو تو برے کی بھی خوشامد کیجئے
پاک ناپاک سڑے کی بھی خوشامد کیجئے
کتّے، بلی و گدھے کی بھی خوشامد کیجئے
     ضروری نہیں کہ ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈ یافتگان کی طرح ہم بھی اپنے ایوارڈ واپس کردیں۔شاید ہم اس ’نقصان‘ کے متحمل نہیں ہیں لیکن اظہاررائے کی جرأت تو باقی رکھنی چاہئے۔غلط کو غلط سمجھنے کی ہمت تو ہونی چاہئے۔  کاش! کہ ایسا ہو، اب سے کچھ ایسا ہو۔

No comments:

Post a Comment