وزیراعظم کے بین الاقوامی دورے ملک کیلئے نہیں، ذاتی شبیہ بہتر بنانے کیلئے ہیں
!
بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی اپنی ۱۶؍ ماہ کی مدت میں ۲۹؍ بین الاقوامی دورے کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ مزید ۶؍ دورے کرنے والے ہیں۔ وہ لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس محسوس یہ ہوتا ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں کے ذریعہ وہ اپنی شیبہ بہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں
بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی اپنی ۱۶؍ ماہ کی مدت میں ۲۹؍ بین الاقوامی دورے کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ مزید ۶؍ دورے کرنے والے ہیں۔ وہ لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس محسوس یہ ہوتا ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں کے ذریعہ وہ اپنی شیبہ بہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں
قطب الدین شاہد
چند برسوں قبل ایک مزاح نگار نے ایک لطیفہ گھڑا تھا کہ اگر ریلوے کا انتظام سنبھالنے پر غنڈے مامور ہوجائیںتوکیا ہوگا.... ایک شخص دہلی جانے کا ٹکٹ طلب کرے گا، جس کے جواب میں کاؤنٹر کلرک کہے گا..... ’’دہلی کیوں؟ وہاں بہت بھیڑ ہوگئی ہے، یہ ٹکٹ لے اور چل چنئی جا۔‘‘
کچھ ایسا ہی رویہ ان دنوں ہماری حکومت اور ہمارے وزیراعظم کا ہے۔ ملک کو قحط سالی کا سامنا ہے اور وہ ملک کو ڈیجیٹل انڈیا بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے ایک بڑے حصے میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہے اور وہ سلامتی کونسل میں ہندوستان کو مستقل رکنیت دلانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ ملک میں مسلسل فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں اور وہ سرمایہ کاروں کو ہندوستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
عوام سے اچھے دنوں کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنےوالے وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پوری توانائی بین الاقوامی دوروں اور انتخابی ریلیوں میں صرف کررہے ہیں۔ عوام شکایت کرتے ہیں تو وہ مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ ہماری حالت زار دیکھو، ہمیںاس سے باہر نکالو، ملک میں اچھے دن لاؤ، تو جواب ملتا ہے کہ ’’صبر کرو، عام انتخابات میں ابھی چار سال باقی ہیں۔‘‘لوگ کہتے ہیں روٹی چاہئے، حکومت کہتی ہے... ’’روٹی کیوں؟ یہ موبائل لو اور ترقی پذیر ملک کا حصہ بن جاؤ‘‘۔ عوام کہتے ہیں، کپڑا چاہئے، حکومت کہتی ہے ’’کیا دقیانوسی باتیں کرتے ہو؟یہ ٹیبلٹ لو اور ’ آکاش‘ میں اُڑو‘‘۔ عوام کہتے ہیں پینے کاصاف پانی فراہم کیا جائے، حکومت کہتی ہے کہ’’کس دنیا میں رہتےہو؟ فلٹر ڈپانی تو ہر دکان میں دستیاب ہے‘‘۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی غریبی کیوں ہے؟ کالا دھن واپس لاؤ۔ حکومت کہتی ہے ’’کہاں غریبی ہے؟ اپوزیشن کے بہکاوے میں مت آؤ،یہ رپورٹ دیکھو، ملک میں امیروں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ صرف ایک سال میں۴۲؍ ہزارکروڑ پتیوں کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ سرکار! ہمارے ملک میں ۸۰۔۷۰؍ کروڑ افراد ایسے بھی ہیں جن کی فی کس آمدنی یومیہ ۱۰۰؍ روپے بھی نہیں تو جواب ملتا ہے کہ ’’ یہ بھی تو دیکھو ! وطن عزیز میں ۱۰۰؍ ایسے امیر ہیں جن کی دولت ۳۴۵؍ بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ عوام کہتے ہیں کہ یہ توخواص کی بات ہوئی توسرکار کہتی ہے کہ ’’ ہماری ذمہ داری صرف کاہلوں اور جاہلوں کی حالت بہتر بنانے کی نہیں ہے۔ ہمیں اڈانی اور امبانی کیلئے بھی تو کام کرنے ہیں۔‘‘ عوام کہتے ہیں کہ ملک قحط سالی سے دو چار ہے، کسان خود کشی کررہے ہیں، تو حکومت کہتی ہے کہ’’فکر مت کرو، سرکار کے پاس اناج کا خوب ذخیرہ ہے اور ضرورت پڑی تو درآمد بھی کرلیا جائے گا۔‘‘کہا جاتا ہے کہ لوگ گاؤں خالی کررہے ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ’’ کوئی بات نہیں، ہم ۱۰۰؍ اسمارٹ سٹی بنانے کا کانٹریکٹ تیار کررہے ہیں۔‘‘ غرض یہ کہ ہر سوال کا قولاً اور عملاً’ مارو گھٹنا، پھوٹے آنکھ‘ والا جواب مل رہا ہے۔
کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ملک قحط سالی سے دوچار ہے اور ہمارے وزیراعظم دوروں پر دورے کئے جارہے ہیں۔ دنیادیکھ رہے ہیں، سیاسی سربراہان اور کارپوریٹ دنیا کے ’سی ای اوز‘ سے مل رہے ہیں، تصویریںکھنچوا رہے ہیں اور اس عمل میں اُتاولے پن کا مظاہرہ کرکے ملک کا وقار بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی۳۸؍ فیصد زمین بارش کی شدید کمی کا شکار ہے اور یہ عام خشک سالی بھی نہیں ہے بلکہ ملک کومسلسل دوسرے سال قحط سالی کا سامنا ہے ۔ اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کہ گزشتہ سو سال میںیہ تیسرا موقع ہے کہ جب لگاتار دو سال تک پورا ملک خشک سالی کی زد پر رہا ہو۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے ۶۴۱؍ میں سے۲۸۷؍ اضلاع خشک سالی کے شکار ہیں۔ کئی سو اضلاع ایسے ہیں جہاں گزشتہ ۶؍ برسوں سے مسلسل بارش کی کمی کی شکایت رہی ہے۔اس کی وجہ سے کسان خود کشی کررہے ہیں لیکن وزیراعظم کو ملک کے کسانوں کی اور ان پر انحصار کرنے والے ۵۰؍ کروڑ افراد کی فکر نہیں ہے، ان کے نزدیک سندر پچائی اور مارک زکربرگ کے ساتھ سیلفی زیادہ اہم ہے۔
مودی حامی ان کے دوروں کو ضروری قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ملک کو ’سپر پاور‘ بنانے کیلئے اس طرح کی لابئینگ ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کے بعد ہی ملک کی تصویر بدل سکےگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے دوروں اور سودوں سے ملک سپر پاور بن سکے گا؟ بھوکے پیٹ سرحدوں کی حفاظت ہوسکے گی؟جنگی طیارے خریدکر غریب بچوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنایا جاسکے گا؟
چلو یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ملک کی طاقت میں اضافے کیلئے اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت ضروری ہے اوراس کیلئے مختلف ممالک کو ہموار کرنا بھی ناگزیر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کن ممالک کو اپناہم خیال اور اپنا ہمنوا بنانا ہے اورکن کے سامنے دست تعاون دراز کرنا ہے ۔ ماریشس، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، منگولیا، جنوبی کوریا، آئر لینڈ، فجی اور میانمار جیسے ممالک بھلا ہندوستان کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بات تو سیاست کاادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی فیصلہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کو ہموار کئے بغیر نہیں ہوسکتا پھر ان تمام ملکوں کی رضامندی اورخوشنودی کی ضرورت کہاں آن پڑی جبکہ ابھی یہ ۵؍ ممالک ہی راضی نہیں۔ دوسروں کو ہموار کرنے کی ضرورت تو دوسرے مرحلے میں پڑے گی۔ گزشتہ دنوں جاپان، جرمنی اوربرازیل کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کرکے پتہ نہیں کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ سچائی یہ ہے کہ یہ تینوں ممالک سیاسی اعتبار سے ہندوستان سے زیادہ مجبور اور بےبس ہیں۔ فی الوقت ہندوستان کی مستقل رکنیت کے دعوے کی واضح مخالفت صرف پاکستان کررہا ہے جبکہ ان تینوں ممالک کی مخالفت کرنےوالے درجنوں ممالک ہیں۔ اس لئے ان کی حمایت سے فائدے کے بجائے نقصان کا زیادہ خدشہ ہے۔
مودی جی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کی خاطر در در بھٹک رہے ہیں لیکن وزیراعظم کے اس دعوے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔سچائی یہ ہے کہ ابھی تک ملک میں سرمایہ کاری کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں آئی ،اس کے برعکس امریکہ جانے سے قبل ہندوستان نے واشنگٹن سے ۲۰؍ ہزار کروڑ روپوں میں ہیلی کاپٹر خریدا یعنی پیسہ ملک میں آنے کے بجائے ملک سے باہر جارہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ۱۶؍ مہینوں میں مودی ۲۹؍ ملکوں کا دور ہ کرچکے ہیں اور آئندہ ماہ یعنی نومبر تک اسرائیل سمیت مزید ۶؍ ملکوں کے دوروں کا پروگرام ترتیب پاچکا ہے۔ ان دوروں پر عوامی خزانے کو نہایت بے دردی کے ساتھ لٹایا جارہا ہے۔ آر ٹی آئی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شروع کے صرف ۱۶؍ ملکوں کے دوروں پر وزیراعظم ۳۷؍کروڑ روپوں کو دریا برد کرچکے تھے، جن میں سب سے مہنگا دورہ آسٹریلیا کاثابت ہوا تھا جہاں محض ٹیکسی کے کرائے پر ہی ڈھائی کروڑ روپے پانی کی طرح بہا دیئےگئے تھے۔
دعویٰ کچھ بھی کریں لیکن مودی نوازبھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر مودی کی واہ واہی اس لئے نہیں ہورہی ہے کہ وہ بہت ذہین اور مقبول ہیں بلکہ اس لئے ہورہی ہے کہ وہ ہندوستان کے وزیراعظم ہیں، جہاں کی آبادی ۱۵۰؍ کروڑ کے آس پاس ہے،جن میں نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ایک نوجوان ملک ہونے کی وجہ سے آج یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں وطن عزیز کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہیںکیونکہ ان کیلئے یہاں بزنس کے بھرپور مواقع ہیں۔ ویسے مودی کیلئے یہ بات باعث شرم ہونی چاہئے کہ ان کمپنیوں نے ان کے منہ پر ہی یہ بات کہہ دی کہ سرمایہ کاری کیلئے ہندوستان کا ماحول سازگار نہیں۔مطلب صاف تھا کہ آپ پہلے ملک کی حالت بہتر کیجئے۔ ملک کے نوجوان وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی مودی جی کو کچھ اسی طرح کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اس نے پہلے خود کو مضبوط کیا اور اس کے بعد دنیا کے بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانے سرمایہ کاری کیلئے خود چل کراس کے دروازے پر پہنچے۔ اسلئے ہمیں بھی پہلے ہندوستان کو مضبوط بنانا ہوگا۔‘‘خیال رہے کہ کیجریوال نے اُس سے قبل ایک ٹوئٹ میں مودی حکومت پر طنز کیا تھا کہ ’ میک اِن انڈیا‘ کے بجائے ہمیں ’میک انڈیا‘ پر توجہ دینی ہوگی۔
ملک کو سپر پاور بنانے اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے ساتھ ہی ایک اور دعویٰ کیا جارہاہے کہ وطن عزیز کو عالمی سطح پر باوقار بنانے کیلئے ملک کو ڈیجیٹل انڈیا میں تبدیل کرنا ہے، اس کیلئے بھی دنیا بھر کے کارپوریٹ سربراہوں سے ملاقات ضروری ہے۔ دعویٰ کیا جا رہاہے کہ امریکہ میں زکربرگ (فیس بک)، ستیہ ناڈیلا (مائیکرو سافٹ)، سندر پچائی (گوگل)، سلمان خان (خان اکیڈمی) اور دیگر عالمی سطح کی کمپنیوں کے سی ای اوز سے اس لئے ملاقات کی گئی کہ ان کے توسط سے ہندوستان کے پانچ لاکھ گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم ہوجائے ، ۵۰۰؍ ریلوے اسٹیشنوں پر وائی فائی لگ جائے، کروڑوں ہندوستانیوں کو موبائل فون مل جائیں اورشمسی توانائی گھر گھر پہنچ جائے گی تاکہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ہوجائے...... لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے؟ کیا ہم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ یہ کمپنیاں خالص منافع کیلئے کام کرتی ہیں، خیرات ان کا اصول نہیں۔
اس طرح کی باتیں کرکے مودی آخر کسے بیوقوف بنارہے ہیں، ان کو جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے یا انہیں جن پر اُن کی حقیقت اول دن سے عیاں ہے۔ غریبی، بدعنوانی اور عدم مساوات کے خلاف اعلان جنگ کا ڈھونگ رچنے اور’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آنےوالی مودی حکومت سمجھتی ہے کہ ملک آج بھی اس کے طلسم میں گرفتار ہے۔ دہلی اسمبلی کےا نتخابی نتائج کو وہ محض اتفاق سمجھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہار کے اسمبلی الیکشن میںنئے وعدوں اور نئے انتخابی جملوں کےساتھ ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپا کر حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔ اس کی کارستانیاں عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ وطن عزیز میں صرف ۲؍ فیصد ہی ایسے لوگ ہیںجنہیں خوشحال کہا جاسکتا ہے، جو ترقی کررہے ہیں، جو حکومت کی پالیسیوں کو پسند کر رہے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں اور جن کے مفاد کیلئے حکومت بھی سنجیدہ رہتی ہے۔ حکومت کے پیمانے کو ہی تسلیم کرلیا جائےتو ملک میں ۳۷؍ فیصد غریب رہتے ہیں، جن کیلئے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنابھی مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ۶۲؍ فیصدکسان رہتے ہیں جو پورے ملک کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں مگر اپنے گھر کی چولہا ہانڈی کابندوبست نہ کرپانے سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ یہ وہی ملک ہے جہاں ناقص غذائیت کے سبب ہر ایک ہزار بچوں میں ۴۷؍ بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لیکن حکومت کو ان کی فکر نہیں ہے،فکرہے تو۱۲۷؍ کروڑ کی آبادی میں اُن ایک لاکھ ۹۸؍ ہزار کروڑ پتیوں کی جن کے سردی زکام سے سنسیکس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔
مودی لاکھ دعویٰ کریں کہ ان دوروں سے وہ ملک کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ابھی تک کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں، ان سے ان کے دعوؤں کی توثیق نہیں ہو پارہی ہے۔ اس کے برعکس سچائی یہ ہے کہ گجرات فساد کے بعد ان کے دامن پر جو داغ لگا تھااورجس طرح دنیا نے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا تھا، ان دوروں کے ذریعہ وہ اپنی اُس خراب شیبہ کوبہتر بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment